***Ishq Khakh Na Kr Daiy***

                                            ***Ishq Khakh Na Kr Daiy*** 

***Episode no:2***

***Writer : Fatima Ijaz***


***Click Here to read Online***
or
***Download PDF File ***


***********************

.عشق خاک نہ کر دے

تحریر:فاطمہ اعجاز

قسظ نمبر:2

اگلے روز جب وہ رستوران پہنچی تو عماد آ چکا تھا۔ وہ رات کو سب سے آخر میں جاتا تھا اور صبح سب سے پہلے آ جاتا تھا۔ وہ پینٹری میں کھڑا اجزاء کا جائزہ لے رہا تھا۔ ڈائری اسکے ہاتھ میں تھی، وہ ساتھ ساتھ چیزوں پر نشان لگاتا جا رہا تھا۔

کچن میں سب لائن شیف اور معاون شیف اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے۔ وہاں جیسے روز جنگ لڑی جاتی تھی اور اگر کوئی بھی سپاہی اپنی جگہ پر نہ ہوتا تو وہاں سے حملے کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ بات بھی ایسے ہی تھی۔ ریستوران چلانا کسی جنگ سے کم نہیں تھا۔ وہ بھی جبکہ آپ کمانڈر ہوں۔

فرنٹ سے سب کو لیڈ کرنا ہوتا تھا۔ ہر شبعے کا کام دیکھنا کہ کچھ کمی نہ ہو۔ جہاں کام سست ہو وہاں خود مورچہ سنبھالنا، ہر سپاہی کو پوزیشن پر رکھنا، دن بھر کام کے لیے پوری فوج کا مورال بلند رکھنا۔ کسی بھی طرح کے کھانے کا آڈر آ جاتا تھا۔ اب اگر گرل چکن کا آڈر ہو اور گرل شیف موجود نہ ہو تو اس حملے کو ہیڈ شیف کے علاوہ کون پسپا کر سکتا تھا۔ 

"  ایگ اینڈ چیز سینڈوچ، ٹیبل فائو! " 

آڈرز آ رہے تھے اور سعدیہ سب کو چیزیں فراہم کر رہی تھی۔ آج وہ تاخیر سے آئی تھی اس لیے سٹیشنز پر سامان نہیں پہنچا پائی تھی۔ اس کے ساتھ دو اسسٹنٹ تھے۔  وہ ناشتہ کیے بغیر آئی تھی کیونکہ وہ صبح صبح اپنے لیے ناشتہ بنانا نہیں چاہتی تھی۔ اور بھی تو لوگ تھے جن کو بیٹھے بٹھائے سب ملتا تھا۔ ایک وہی تھی جسے ناشتہ بھی خود بنانا پڑتا تھا۔ 

پر اسے یہ سمجھ کیوں نہیں آتا تھا کہ اسکا خالق اسے کسی پر منحصر نہیں رکھنا چاہتا۔ وہ اسے خود مختار رکھنا چاہتا ہے پر اسے تو اوروں کی مدد درکار تھی۔ 

" ایگز بینڈکٹ! ٹیبل فورٹین! " 

" فرنچ ٹوسٹ اینڈ بنانا شیک ، ٹیبل تھرٹی ٹو! " 

بیرا اندر آ کر پکارتا اور شیف اسے پینٹری روانہ کر دیتے۔ سعدیہ کا تو دماغ گھومنے لگا تھا۔ وہ تو ریکس اور فریج کے درمیاں گھومتی چکرانے لگی تھی۔ اسے لگا جیسے پورا شہر وہیں ناشتہ کرنے آتا ہے۔ ایک ہی منٹ میں چھ سات آڈرز آ جاتے۔ ابھی فوڈو منیا کھلے آدھا گھنٹہ ہوا تھا اور وہاں ڈائننگ ہال بھرنے لگا تھا۔ 

جس سیکٹر میں فوڈو منیا واقع تھا، وہاں صرف یہی ریستوران ناشنے کے لیے کھلتا تھا۔ باقی سب دوپہر کو کھلتے، اسلیے وہاں رش زیادہ ہوتا تھا۔ 

آڈرز پر آڈرز آتے جا رہے تھے اور وہ پھرکی کی طرح یہاں سے وہاں گھوم رہی تھی۔ 

اندر باہر سے چکروں سے تھک کر سعدیہ ڈیپ فریزر کا سہارے لیے ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ دوہری ہو کر سانس لے رہی تھی۔ وہ بنا ناشتے کے آئی تھی اور نو بج چکے تھے۔ اسے چکر آ رہے تھے۔ اسکے سامنے پورا کچن گھوم رہا تھا۔ 

" فرائیڈ ایگ! ٹیبل نائن! " اس کے سن ہوتے کانوں میں آواز گونجی۔ تمام منظر سلو موشن میں چلنے لگا تھا۔ 

" فیملی آڈر! چیز آملیٹ۔۔ " اسے کہیں دور سے آواز آئی۔

 " پراٹھہ اینڈ۔۔۔ " بہت دھیرے سے بھاری آواز کانوں سے ٹکرائی۔ 

اسے ایک دم پینٹری گھومتی محسوس ہوئی۔ آنکھوں کو سفید دھند نے لپیٹ لیا تھا۔ دو ڈیپ فریزر کے بیچ وہ سہارا لیے کھڑی تھی۔ اسکا ہاتھ سہارے سے نیچے گرا اور اگلے لمحے اسکا دماغ اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔

پانی کے چھینٹے چہرے پر پڑے تو کچھ بصارت بحال ہوئی۔ وہ زمین پر گری تھی، کھدرے لمس نے اطلاع دی۔ کوئی اس پر جھکا کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے ہمت مجتمع کر کے آنکھیں کھولیں۔ ہولے ہولے ہواس بیدار ہونے لگے تھے۔ 

" مس نور! " کسی مرد کی آواز تھی۔ 

" سعدیہ! " یہ نسوانی آواز تھی۔ 

اس نے آنکھوں کی جھری سے جھانکا۔ وہ عماد اور صنم تھے۔ 

" آنکھیں کھولیں سعدیہ! آپ ٹھیک ہیں؟ " صنم کا تفکر ذدہ چہرہ واضح ہوا۔

سعدیہ شدید نقاہت محسوس کر رہی تھی۔ اس نے بازو کے سہارے اٹھنا چاہا تو کہنی میں درد کی لہر اٹھی۔ وہ کراہ کر واپس گر گئی۔ صنم نے اسکا بازو تھام کر اسے کھڑا کرنا چاہا تو عماد نے ہاتھ بڑھا کر اسے روکا۔

" نہیں!  مس نور آپ خود کھڑی ہوں۔ " 

" نہیں! مجھ سے نہیں ہوا جائے گا۔ " اس نے ہاتھ صنم کی طرف بڑھایا۔

" اور اگر یہاں صنم نہ ہوتی تو آپ کیا کرتیں؟ " عماد کی آواز بہت گمبھیر تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ڈانٹ پلا رہا ہو، پر اسکا لہجہ بہت شائستہ تھا۔ ڈانٹ سن کر اچھا لگتا تھا۔ 

سعدیہ گہری سانس لے کر سیدھی ہوئی۔ پینٹری اسسٹنٹ نے ساتھ کرسی رکھی تو وہ اسکا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور اسی کرسی پر بیٹھ گئی۔

" انسانوں کو بیساکھی نہیں بناتے مس نور! یہ واحد سہارا انتہائی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ مدد صرف خدا کی ہوتی ہے جو کبھی تنہا نہیں کرتی۔ " وہ اسکے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا تھا۔ 

وہاں شاید کوئی اور کرسی نہیں تھی، اس لیے وہ وہاں بیٹھا تھا پر سعدیہ کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ عماد نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے دو گھونٹ ہی پیے، اسے پانی نہیں چاہیے تھا۔

" آپ نے ناشتہ کیا تھا؟ "

 سعدیہ نے جواب نہیں دیا۔ عماد نے اسسٹنٹ شیف کو اشارہ کیا جو سر خم کرتا باہر چلا گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں جوس اور سینڈوچ تھے۔ 

" آپ آرام سے ناشتہ کریں۔ اسکے بعد ہمیں لنچ کی بھی تیاری کرنی ہے۔ " وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔

" مجھے نہیں کرنا۔ آیم فائن! " اس نے ٹرے فریزر پر رکھی اور کھڑی ہوئی۔ سر پھر چکرایا تھا پر اس نے خود کو سنبھالا۔ 

" مجھے کیا کرنا ہے؟ " وہ عماد کے سامنے کھڑی تھی۔ سخت چہرہ بنائے پر پتا نہیں کیوں اسے رونا آ رہا تھا اور یہ بات عماد نے بھی نوٹس کی تھی۔

" فی الوقت تو ناشتہ۔ باقی بعد میں دیکھیں گے۔ " وہ نرمی سے کہہ کر پلٹا۔

" میں ناشتہ ویسے بھی نہیں کرتی۔ "

عماد ٹھہرا پھر پلٹ کر صنم کو دیکھا۔ صنم نے ابرو اچکائے۔

" پھر تو آپ بہت باہمت ہیں۔ جو شخص اپنا ناشتہ چھوڑ سکتا ہے مطلب وہ زندگی میں سب کچھ کھونے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اور انسان کی صحت اسکے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ " وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور کرسی کا رخ فریزر کی جانب کیا۔ ایسے کہ فریزر میز ہو۔

" جان ہے تو جہان ہے اور سب سے زیادہ جان ناشتے میں ہے۔ " اس نے کرسی سیدھی کی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کھڑی رہی، رخ پھیرے، سینے پر ہاتھ باندھے۔

صنم نے استعجابیہ نظروں سے سعدیہ کو دیکھا۔ کوئی عماد سے بے رخی دکھائے، ناگوار صنم کو گزرتا تھا۔ عماد نے اسے ابرو سے اشارہ کیا۔ وہ سعدیہ کو تیز نظروں سے گھورتی واپس چلی گئی۔ 

" آپکو پتا ہے مس نور کہ انسانی جسم ایک گاڑی کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے گاڑی کو ایندھن چاہیے، ویسے انسان کو بھی چاہیے۔ لیکن جب گاڑی میں ایندھن ختم ہو جائے تو کیا کرتے ہیں؟ " 

وہ دونوں پینٹری میں اکیلے کھڑے تھے۔ ریک میں پیچھے تازہ سبزیاں پڑی تھیں اور سامنے چار بڑے ڈیپ فریزر پڑے تھے جن کے شیشے سے اندر موجود گوشت، مچھلی، ریڈی میڈ سموسے، اور کباب پڑے دکھائی دے رہے تھے۔ 

نیوی بلیو شیف کوٹ پہنے عماد اپنی سیاہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے ریک کے ساتھ کھڑا تھا اور وہ ہلکے جامنی سوٹ پر سیاہ سکارف سر پر سجائے خفا سی سعدیہ فریزر کے ساتھ کھڑی تھی۔ انکے درمیان بس چند انچ کا فاصلہ تھا۔ سعدیہ کی نظریں سبزیوں پرجمی تھیں۔ وہ عماد کو نہیں دیکھ رہی تھی کیونکہ اس کے آنسو بہہ دینے کو تیار تھے۔ 

" دھکا لگاتے ہیں۔ تاکہ گاڑی کو چلایا جا سکے۔ ہر روز ہمارا فیول بھی ختم ہو جاتا ہے اور ری فل کیے بغیر ہم بنا فیول کی گاڑی کی طرح ہوتے ہیں۔ اور جب ہم ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں اور ہم خود کو دھکا سٹارٹ دیتے ہیں۔ اور دھکے سے کتنی دور جا سکتے ہیں ہم؟ " اس نے نرمی سے پوچھا۔ 

سعدیہ کو لگا وہ اسکا باس نہیں بلکہ کوئی بزرگ ہے۔ جو ہر صبح ناشتے کی میز پر ناشنے کی افادیت بتاتا ہو اور بچے پھر بھی آدھا ادھورا ناشتے چھوڑ کر چلے جاتے ہوں۔ 

" ناشتہ چھوڑنا اپنے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہوتا ہے۔ اور پتا ہے اپنے اوپر ظلم کون کرتا ہے؟ کمزور انسان! کیونکہ وہ کسی اور سے کچھ کہہ نہیں سکتا نہ کچھ کر سکتا پے۔ 

" اور دوسروں پر ظلم کون کرتا ہے؟ " سعدیہ نے تنک کر پوچھا لیکن اسکی آواز رندھ گئی۔

" ڈرپوک انسان! جسے سب کا خوف ہو۔ لیکن یہ جو آپکو ظلم لگ رہا ہے مس نور! کل آپ اس سب کے لیے شکر گزار ہوں گی۔ اب آپ ہمارے معمولی سے رستوران پر ظلم نہ کریں اور نہ ہی اپنی قیمتی جان پر! آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کر لیں، کام بعد میں کریں گے۔ " وہ مسکرا کر کہتا چلا گیا۔ 

سعدیہ کو شدید غصہ آیا۔ یہ غصہ عماد کی باتوں پر نہیں تھا، یہ بھوک کا چڑچڑاپن تھا۔ صبح کی بھوک انسان کو ایسے ہی چڑاچڑا بنا دیتی ہے۔ وہ بھی دوسرے شیف کی طرف آ گئی جس کے پاس مینو لسٹ تھی۔

وہ ناشتہ پھر بھی چھوڑ آئی تھی۔ کیا وہ اتنی ظالم تھی کہ خود پر ظلم کرے؟ کیا وہ واقعی اتنی  بہادر تھی کہ سب کھونے کا حوصلہ رکھتی تھی؟ 

                                         ٭                   ٭              ٭

شام کو پارٹ ٹائم شیف کو پینٹری سونپ کر جب وہ کچن میں آئی تو اسکا دل شدید دکھا ہوا تھا۔ وہاں سیکنڈ ڈیوٹی شیف کام کر رہے تھے اور کام بھی وہ جو اس کی پسند تھا۔ کتنا شوق تھا اسے ایسے کچن میں پکانے کا جس میں ساری سہولیات موجود ہوں۔ وہ گھر میں جتنی کوشش کرتی بس عام سا کھانا ہی بنا سکتی تھی۔ پر یہاں وہ سب موجود تھا لیکن اس سے بہت دور! 

یہ رستوران، یہ کچن، یہ سب تو اسکا خواب تھا پھر کیوں اس کے علاوہ سب اسے جی رہے تھے۔ گرل سٹیشن پر تین شیف کام کر رہے تھے، وہ ان میں بھی تو ہو سکتی تھی۔ اسے پینٹری میں کیوں بھیجا؟ کسی بھی سٹیشن پر اسے جگہ مل سکتی تھی لیکن نہیں! جتنی بدقسمت وہ تھی، اسے بس خوشبو ہی راس تھی۔ ذائقوں کی لذت چکھنا اسے کہاں آتا تھا۔ 

وہ بیدلی سے بیگ کندھے پر لٹکائے کچن سے باہر آ گئی۔ جہاں خوابوں کی تعبیر ہو، وہاں سے نکلنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ پر جہاں آپ کے خواب کسی اور کی تعبیر ہوں وہاں سے نکلنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ 

وہ کچن سے باہر آئی تو ریسپشن پر معمول کی چہل پہل تھی۔ یہ حصہ ڈائنگ ہال سے الگ تھا۔ کچن کے عین سامنے مختصر سا ڈائنگ ہال تھا۔ یہ شیف ٹیبل تھا جہاں وی آئی پی کھانا کھاتے تھے۔ یہاں جو کھانا سرو ہوتا تھا، وہ ہیڈ شیف اور سو شیف بناتے تھے۔ خاص کھانا، خاص لوگوں کے لیے! 

سیاہ اورسنہری سلک کے پردے ہٹاؤ تو خوبصورت اور نرم قالین پر قدم پڑتے۔ سامنے طویل شیشے میز تھی جس کے گرد سیاہ اور سلور مخمل کے صوفے بچھے تھے۔ دیواروں پر سیاہ وال پیپر تھا جس پر مختلف رنگوں کے نقش و نگار تھے۔ سنہری چھت سے لٹکتے شیشے کے فانوس ماحول کو مزید سحر انگیز بناتے تھے۔ فوڈو منیا واقعی کوہ قاف تھا، جہاں ہر کنارہ دنیا سے جدا تھا۔ 

ریسپشن کے سامنے مینجر اور ہیڈ شیف کے آفس تھے۔ سعدیہ کچن سے نکلی ہی تھی کہ سامنے سے برق رفتاری سے آتی فاریہ سے ٹکرا گئی۔ 

" او سوری! آپ کو لگی تو نہیں؟ " فاریہ نے اسے کندھوں سے تھاما۔ 

سعدیہ نے نفی میں سر ہلاتے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا۔ سیاہ سلکی بال جو کندھے سے تھوڑے نیچے آتے تھے۔ اجلا چہرہ اور چمکتی آنکھیں۔ اس کی مسکراہٹ اتنی جاندار تھی کہ زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ اس کے برعکس سعدیہ کی آنکھیں کسی شبستاں کا منظر لگتی تھیں۔ 

سعدیہ کی یہی عادت خراب تھی۔ وہ جسے دیکھتی، اس کے ساتھ اپنا موازنہ شروع کر دیتی تھی۔

" میں فاریہ ثرمد ہوں! " لڑکی نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ 

سعدیہ نے اسکے بڑھے ہاتھ کو دیکھا جس میں قیمتی بریسلٹ چمک رہا تھا۔ وہ یہاں نوکری کرتی تھی؟ شاید وہ یہاں کسی شیف کی بیٹی تھی۔ سعدیہ نے ذہن میں سوچوں کے جال بنتے اس کا ہاتھ تھاما۔

" آپ کا نام؟ " فاریہ کی آواز کی چہک سعدیہ کو سخت جبھ رہی تھی۔ وہ اتنی تھکی ہوئی تھی، اوپر سے اسے شدید بھوک لگی تھی۔ وہ فی الوقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

" سعدیہ نور! " وہ بیدلی سے کہتی آگے بڑھ گئی۔ 

فاریہ نے ابرو سکوڑ کر اسکی بے رخی کو دیکھا پھر مسکرا کر سر جھٹکتی اندر بڑھ گئی۔ 

اس وقت سیاہ اور سنہری پردے ہٹے ہوئے تھے اور وہاں کرسیوں پر عماد اور صنم بیٹھے تھے۔ صنم کی اس کی طرف پشت تھی پر عماد کا وہ نیم رخ دیکھ سکتی تھی۔ وہ صنم کی کسی بات پر مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ وہاں سے گزرتے سعدیہ ایک لمحے کو رکی اور دونوں کو دیکھا۔ وہ ساتھ کتنے ججتے تھے۔ اس نے بے ساختہ سوچا۔ عماد نے اسی لمحے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ دونوں کی نظریں پل بھر کو ملیں۔ پھر سعدیہ باہر نکل آئی۔ اسے گھر جانا تھا۔ 

                           ٭            ٭                ٭

شیف ٹیبل پر اس وقت صنم اور عماد بیٹھے تھے۔ پینا کولاڈا کے گلاس انکے سامنے پڑے تھے۔ چھت سے لٹکتے فانوس کی روشنی ہر سو پھیلی تھی۔ 

" تم نے اس سے آگے کا کیا سوچا ہے عماد؟ " صنم دونوں بازو میز پر جمائے ہوئے تھی۔ اس کا گلاس بازوں کے درمیان پڑا تھا اور وہ اپنی انگوٹھی سے کھیل رہی تھی۔

" اس سے آگے کا؟ " عماد نے ایک نظر اپنے ریستوران پر ڈالی۔ " فوڈو منیا کی پوری فوڈ چین، وہ بھی میری اپنی! " اس کی پر عزم نگاہیں سامنے دیوار پر جمی تھیں۔

" یہ بھی تو تمہارا ہے۔ ہمارا! " صنم نے اپنا انگوٹھی والا ہاتھ عماد مے ہاتھ پر رکھا۔ 

ڈائمنڈ وائٹ گولڈ کے حلقے میں مزید دمک رہا تھا یا وہ شاید صنم کے ہاتھ میں روشن تھا۔

" ہاں لیکن میں اپنے ہیسوں سے یہ سب کھڑا کرنا چاہتا ہوں۔ پوری فوڈو منیا سٹریٹ۔ جہاں میرے کچن کے ہر سٹیشن کا الگ ریستوران ہو۔ سی فوڈ، ٹی ہاؤس، سٹیک ہاؤس، بیک ماسٹر، گرل سائیڈ، آئس کریم بار اور ایک دیسی ڈھابا جہاں پاکستانی کھانے ہوں۔ اور پوری سڑک پر بس میرے ریستوران کی چین ہو۔ اور ان سب کے اوپر میرا نام چمکے۔ عماد، دی فوڈ ماسٹر! " 

اسکی بات پر صنم ہنسنے لگی۔ کسی کے آنکھوں میں خواب کتنے خوبصورت لگتے ہیں۔ جیسے سمندر کی ریت پر سیپ ہوں اور سیپوں میں چمکتے موتی! ہر موتی دوسرے سے منفرد ہو اور وہ سب انمول ہوں۔ 

" پھر یہ سب کب کرو گے؟ " وہ تھوڑی تلے ہاتھ رکھے دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

" جب پیسے ہوں گے۔ ابھی پیسے نہیں ہیں۔ " اس نے ہلکی سی مایوسی سے کہا۔

" تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں؟ " 

" میرا مطلب ہے کم ہیں۔ اور چاہیے! دعا کرو میں یہ چیلنج جیت جاؤں۔ " اس نے بات کرتے ویسے ہی رخ پھیرا۔

وہاں سعدیہ کھڑی تھی، ان کی نظریں بس ایک لمحے کو ملی تھیں۔ اس نے ناشتہ نہیں .کیا

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.