***Pagli Quail***

 ***Pagli Quail ***

*Episode No :3*
* Writer Aroosa Fayaz*



*Clik here to read online*
or
*Download PDF File*

*************
"پگلی کوئل "
تحریر: عروسہ فیاض
قسط نمبر : 5
"سہانہ " نگہت بیگم نے پکارا "جی ماما " "کس کا فون تھا " انہوں نے پوچھا "وہ رمان کا تھا ایمرجنسی میں بلایا" وہ الجھ کے بولی "سب ٹھیک تو ہے چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں " وہ پریشان کن لہجہے میں بولی "ارے نہیں ماما ریلکس میں ابھی آ جاؤ ں گی ڈونٹ وری میں ابھی آ ئی " وہ پا پا کو اشارہ کرتے ہوئے بولی اس کے اشارے پر وہ مسکراتے ہوئے نگہت بیگم کی طرف متوجہ ہو ئے۔
********************"
ارے میں تو بھول ہی گئی" رمان نے سرپہ ہاتھ مار کے کہا سب کھانے کےلئے بیٹھ ہی رہے تھے اس کے انداز پہ مسکرا دیے "کیا" وانیہ نا سمجھی سے بولی ۔"تھینک گاڈ مجھے یاد آ گیا ورنہ اس چڑیل نے تو مجھےمار ہی دینا تھا "وہ بڑ بڑا تی ہوئی ٹیلی فون اسٹینڈ کی طرف بڑھی ۔""اسے کیا ہوا" وہ حیران ہوتی ہوئی بولی بھابھی نے مسکرا کے کندھے آچکا دیے تھے ۔
****،*********
جتنی تیزی سے اس نے کال ملائی تھی اتنی ہی جلدی اٹھائی بھی گئی تھی ۔"ہیلو سہانہ " وہ بے تابی سے بولی "ہاں بولو" وہ الجھ کے بولی دو منٹ میں گھر آ و جلدی کہتے ساتھ ہی اس نے ریسیور کریڈل پہ ڈال دیا تھا ۔ٹھیک 5 منٹ بعد وہ سامنے تھی "کیا ہوا خیریت " وہ حیران ہو کے بولی "آ و میرے ساتھ "وہ اس کا ہاتھ تھام کے ڈائننگ روم کی طرف بڑھی ۔"ارے واہ سہانہ آ ئی ہے " شوکت صاحب خوش دلی سے بولے اس نے آ گے بڑھ کر سب کو سلام کیا وانیہ کو دیکھ کر وہ حیرانگی سے آ گے بڑھی "اوہ مائی گاڈ"وہ چلاتے ہوئے بولی شایان نے ناگواری سے اسے دیکھا"واٹ اے سرپرائز وائو وانیہ تم کب آ ئی؟سہانہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی "ابھی کچھ دیر پہلے تم کیسی ہو " : الحمداللہ بہت اچھا کیا ہم تمہیں بہت مس کر رہے تھے " وہ خلوص دلی سے بولی"بس پھر اسی لیے آ ئی ہوں میں " وہ مسکراتے ہوئے بولیکھانا بہت پرسکون ماحول میں کھایا گیا واپسی پہ سہانہ وانیہ اور رمان کو ساتھ لے آ ئی جہاں سب نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔(کیوں کہ شوکت صاحب نے وانیہ کی آ مد کی اطلاع انہیں دے دی تھی۔
****************
دن اپنی مخصوص رفتار سے گزر رہے تھے تینوں کو ایک ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں تھا ہوتا وانیہ دونوں کی پڑھائی میں خاطر خواہ مدد کرتی تھی ایسے ہی ایک دن چلچلاتی دھوپ میں وہ تینوں سر جوڑے کمبائن سٹڈی کر رہی تھیں ۔ سہانہ نے بیزار ہوکے نگاہ اٹھائی جہاں وہ دونوں رٹوں طوطے کی طرح ہل ہل کے رٹےلگا رہی تھی "اچانک اک خیال اس کے ذہن میں کوندااس نے دونوں کو مخاطب کیا Listen girls "دونوں بیک وقت بولیں 'یس" آ ئی تھینک کہ ہمیں کچھ بریک لینی چاہیے " سہانہ نے دونوں کی ت طرف دیکھتے ہوئے کہا"کیا کیا کہا تم نے تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا ابھی دیر کتنی ہوئی ہے پانچ منٹ پہلے تو بیٹھے ہیں اور میڈم تھک بھی گئی مجھے تو کوئی شوق نہیں میم کے جوتے کھانے کا تم لوگ جاؤ ویسے بھی تم لوگوں کے لئے کونسی کوئی نئی بات ہے"رمان کے بولنے سے پہلے ہی وانیہ غار کے بولی ۔"اوکے فائن نہ جاؤ تم تو میڈم کی چمچی ہی رہو گی آ ئورمان ہم چلیں تازہ کیری کھانے بلکہ توڑ نےکا بہت مزہ آئے گا" وہ رمان کو اٹھاتے ہوئے بولی ۔"کیری توڑ نے وہ کیسے" وہ حیران ہوئی "آ و خود ہی پتہ چل جائے گا" رمان مسکراتے ہوئے بولیتینوں ایک ساتھ آگے پیچھے چلتی باہر آ گئی تھی لان میں تیز دھوپ تھی وہ لان کے وسط میں ایک گھنےدرخت کے نیچے آ رکیں درخت خاصا گھنا تھا اسی وجہ سے وہ ساتھ والوں کے لان میں بھی سایہ کیے ہوئے تھا۔"یہ تو بہت اونچا ہے ہم کیسے چڑھیں گے اس پہ " وہ پریشان کن لہجہے میں بولی سہانہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور فاتحانہ مسکراہٹ اچھالتی پیڑھ پہ مہارت سے چڑھنے لگی۔وانیہ منہ کھول کے اسے چڑھتا دیکھ رہی تھی،" ہاں" وہ منہ پہ ہاتھ رکھے دیکھ رہی تھی رمان منہ اوپر کیے اسے دیکھ رہی تھی "رمان " وانیہ چلائی " اسے کہو نیچے اترے اگر گر گئی تو""ڈونٹ وری وہ ماہر ہے بس تم نے نگرانی کرنی ہے کوئی آ ے تو بتانا اوکے میں اسکی ہیلپ کرواتی ہوںاوکے" رمان اس کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے بولی۔"رمان مجھے بھی جانا اوپر پلیز زیادہ اوپر نہیں بس ادھر بیٹھو گی کوئی آ ے گا تو دیکھ بھی لوں گی وہاں سے اوکے "وہ امید سے بولی" پلیز""اوکے" چند پل سوچنے کے بعد رمان نے کہا اور بلی کی طرح اوپر چڑھ گئی وانیہ نے بے بسی سے دیکھا وہ چاہ کر بھی اوپر نہیں تھی جاپارہی کرو میں ہیلپ کرواتی ہوں سہانہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسکو اوپر آ نے میں مدد دی"اوکے ناوگو " وہ خوش ہوتے ہوئے بولی "رمان "سہانہ نے پکارا رمان نے سر اٹھا کے دیکھا"میرا ہاتھ تھام لو اچھی طرح وہ twinsکیریاں اتارنی ہے " رمان نے سمجھایا" بہت اونچی ہے رہنے دو تم چپ کرو اور پتھر پکڑاو" سہانہ نے اس کے ہاتھ سے پتھر جھپٹے اور کیری کو مارا جو کیری کو لگنے کی بجائے ساتھ والوں کے لان میں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے کتےکو لگ گیا تھا وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور بھونکےلگا سہانہ نے ایک اور پتھر کیری کو مارا جو بدقسمتی سے پھر کتے کو لگا وہ غصے سے آ گ بگولاہو رہا تھا وہ اچھلا اور درخت پر چڑھنے کی کوشش کر نے لگا"س س سہانہ ر ر رمان " وانیہ ہکلاتےہوئے بولی "ک ک کت تا رمان" وہ چیخی وہ نیچے بیٹھی تھی جبکہ وہ دونوں کافی اوپر تھیں رمان کی نظر جب نیچے پڑی اس کے اوسان خطا ہو گئےسہانہ وہ چلائی "ہلو نہیں بس اک منٹ"سہانہ "کتا " ہاں تم گالی دے رہی ہو" وہ حیران ہوئی "نیچے دیکھو "وہ ڈری سہمی ہوئی تھی"لو اتاری بھی نہیں اور کھانے والا پہلے آ گیا ویسے حیرت ہے کتوں کو بھی کیری پسند ہے " وہ پر سوچ لہجے میں بولی " آئی تھینک وہ پریگننٹ ہوگا پر لڑکے تو پریگننٹ نہیں ہو۔۔۔۔۔ ارے بگاڑ میں جائے لڑکے دفع کرو پھینکواس کیری کو کھا لے ندیدہ کیسے مرا جا رہ ہے" رمان نے اسکی بات کاٹی۔سہانہ نے وہ کیری پھینکی جو کتے کی پیٹھ پہ لگی وہ آ پےسے باہر ہو کر ان کی طرف لپکا۔ہائے یہ تو بہت بھوکا دوسری بھی پھینک دو رمان کے چلانے پہ اس نے دوسری بھی پھینک دی جو اچھلتےکتےکے سر پہ لگی کتا سرخ آ آنکھیں لئے انھیں گھور رہا تھا"رمان" سہانہ نے بوکھلا کے اسے پکارااس نے خوف سے کانپ رہی تھی " میرے پاس اک ئیڈیا ہے" "کیا " بھاگو" سہانہ کے کہتے ہی وہ دونوں نیچے کی جانب بڑھیں۔
*****************
" پگلی کوئل "بقلم : عروسہ فیاضقسط نمبر : 6وہ پرسکون ماحول میں ڈرائیونگ کر رہا تھا جب موبائل نے ارتعاش پیدا کیا اس نے موبائل اٹھایا تو آیان کا نمبر جگمگا رہا تھا" السلام و علیکم " آیان کی آ واز سپیکر پر ابھری "وعلیکم السلام کیا حال چال ہے " وہ خوش دلی سے مسکراتا ہوا بولا"الحمداللہ بھائی آپ کیسے ہیں کہاں ہوتے ہیں آپ کا کبھی دل نہیں کیا کہ اپنے چھوٹے سے پیارےسے بھائی کو ہی مل آ وں" وہ نان اسٹاپ شروع ہو گیا تھا وہ غصے سے بولاDon't be silly u know very well I am so busyوہ ایسا ہی تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ ماں کی کمی کو وہ سب دے زیادہ محسوس کرتا تھا وہ ماں کے قریب بھی بہت تھا محض 13 سال کا تھا جب ماں کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا تھا اپنی حساس طبیعت کے باعث وہ اب تک نارمل نہیں ہو پایا تھا یہی وجہ اس کے مزاج کی گرمی کا باعث تھی "ریلکس برو میں نے ایسا بھی کیا کہ دیا آپ کو مس کر رہا تھا آ پ کو اچھی طرح پتا میں آ پ سب کو کتنا مس کرتا ہوں" وہ لاچارگی سے بولا" اچھا اب زیادہ معصوم نہ بنو اس ویک اینڈ پہ لینے آ وں گا تیار رہنا ویسے بھی گھر میں سب تمہارا پوچھ رہے تھے" وہ نرم لہجے میں بولا "اوکے میں ڈرائیو کررہا ہوں پھر بات ہوگی " وہ موڑ کاٹتے ہوئے بولا وہ گاڑی سے اتر کر نیچے آ یا ارادہ کچھ دیر ریسٹ کر نےکے بعد میٹنگ اٹینڈکرنے کا تھا ابھی وہ کار سے اترا ہی تھا جب اس کے کانوں میں چلانے کی آ واز ٹکرائی اس نے باہر کی جانب قدم بڑ ھا دئیے تھے ۔
"رمان اس کے منہ پہ ٹیپ لگاو " سہانہ نے جنجھلا کے کہا ایک تو کتے نےبھونک بھونک کر دل ہولایا تھا اوپر سے وانیہ کی دلخراش چیخوں نےدماغ خراب کیا تھا وہ آ رام آ رام سے نیچے آ رہی تھی کتا دیوانہ وار اچھل رہا تھا وانیہ اک کونے میں سکڑی سمٹی بیٹھی تھی اچانک اس کی نظر اٹھی اور پلٹنا بھول گئی اسے موت قریب آ تی محسوس ہوئی تھی " رمان رمان، سہانہ جلدی آ و" ارے ہیں زبان منہ میں ڈالو ""شایان بھائی آ گئے جلدی آ و " وہ چلائی "کیا" سہانہ صدمے سے بولی اس نے جلدی سے بھاگنا چاہا تھا یہ سوچے بغیر کے وہ اسوقت درخت پہ ہے جلدی میں اس نے پاؤں آ گے بڑھائے اور توازن نہ رکھنے کی صورت میں دھڑ م سے نیچے گری اسکے ساتھ ہی رمان بھی گری تھی کیونکہ اس کا ہاتھ سہانہ نے تھام رکھا تھا " ہائے" سہانہ کراہی "اوئی ماں " رمان چلائی "سہانہ کی بچی تمہیں میں چھوڑ وں گی نہیں ہائے ماں " جیسے ہی وہ نیچے گری کتے نے بھی فورا گیٹ کی جانب دوڑ لگائی " مجھے تو اتارونیچے "وانیہ منمنائی"مرو پڑا ہم خود گری ہوئی ہیں بجائے اس کے ہمیں اٹھنے میں مدر کرے خود مدد مانگ رہی ہے "سہانہ بدلحاظی سے بولی "رمان " وہ بے بسی سے بولی مڑ کر دیکھا تو کتا کہیں نہیں تھا وہ کچھ ریلکس ہوئی اگلے ہی پل اس کا سکون رخصت ہوا کیونکہ شایان ادھر ہی آ رہا تھا ۔جلدی میں اس نے بغیر سوچے سمجھے جمپ کی "اف""ہاہہہہ ا ا ا ا " وہ کراہی"لو ہم کیا کم تھے یہ تو سچی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو کچھ بولنے ہی والی تھی کتے کی آ واز سن کر مڑی اور کتے کو لان میں آ تے دیکھ کرسپرنگ کی طرح اچھلی اور بھاگی وانیہ اور رمان نے تعجب سے اسکا پیلا چہرہ دیکھا گردن موڑ کے جب معاملہ سمجھ آ یا تو سرپٹ بھاگیں اب کتا ان کے پیچھے تھا اور وہ آ گے اس سے پہلے کے وہ اندر بھاگتی ان کی نظر شایان پہ پڑ ی وہ جہاں کی تہاں رہ گئیں اگلے ہی لمحے وہ پھر بھاگنا شروع ہو گئی تھی اسوقت کتے کی غراہٹ سب پہ بھاری تھیاس نے کچھ پل انہیں گھورا اور پھر موبائل نکال کے میجر صاحب کے ہاں کال ملائیکچھ ہی دیر میں وہ اپنے ملازم ساتھ گیٹ عبور کرتے نظر آ ئے "شیرو" انہوں نے آ تے ہی اپنے کتے کو پکارا اپنے مالک کی آ واز سن کے وہ مڑاانہوں نے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرا اور ملازم کو لے جانے کو کہا کتا چلا گیا پر جانے سے پہلے انہیں گھورنا نہیں بھولا"سوری بچوں آ پ سب کو شیروکی وجہ سے پریشانی ہوئی ویسے وہ بہت اچھا بالکل کسی کو تنگ نہیں کرتا" وہ شرمندگی سے بولے" اٹس اوکے انکل ! تھینکس فار کمنگ ہیئر" وہ مسکرا کے بولے ان کے جانے کے بعد وہ ان کی طرف مڑا وہ سب اس قدر نڈھال اور کنفیوزڈ تھیں کہ انہیں بھاگنا بھی یاد نہ رہا وہ کچھ دیر انہیں سخت نگاہوں سے دیکھتا رہایہ سب کیا تھا کوئی شرم لحاظ ہے تم لوگوں کو انسانوں کو چھوڑ کر اب جانوروں کو تنگ کرنا شروع کردیا تم سب نے دل تو چاہ رہا ہے ابھی بالوں اس کتے کو اورٹکڑے ٹکڑے کر دے تم سب کے " وہ آ گ بگولا ہو ا"بھائی پلیز میں تو آ نا بھی نہیں چاہتی تھی یہ سب سہانہ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سہانہ نے اسے چٹکی کاٹ کر چپ کروایا تھا"تم تو نہ ہی بولو نہ میں تمہیں ان سب میں سمجھدار سمجھتا تھا اور تم۔۔۔۔۔۔۔" غصے سے اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی اس کا سر مزید جھک گیا تھاوانیہ کا پاوں نیلا ہوگیا تھا اور اس سے کھڑا بھی نہیں تھا ہوا جا رہا آ نسو بہنے کو بے تاب تھے "رمان اسے گھر لے جاؤ اور آ ج کے بعد میں تم لوگوں کو یہاں نہ دیکھوں " رمان نے سر اثبات میں ہلایا اور وانیہ کا ہاتھ تھاما ۔سہانہ جانے کے لیے پلٹی ہی تھی جب اس نے اس کا بازو کھینچا "تم سمجھتی کیا ہو خود ہو تمہارے یہ بندروں والے کام کب ختم ہونگے تمہیں آ نٹی انکل کا بھی خیال نہیں کب تمہارا بچپنا ختم ہو گا "اسکے لہجے کی سختی اس کے ہاتھوں میں بھی آ گئی تھی شدت ضبط سے اس کے آ نسو چھلک گئے تھے اس کی گرفت ڈھیلی پڑ تے ہی وہ خود کو چھڑاتی اندر کو بھاگی۔۔۔۔
(باقی آئندہ)

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.