***Ishq Khakh Na Kr Daiy***

 ***Ishq Khakh Na Kr Daiy***

***Episode no:1***

***Writer : Fatima Ijaz***


***Click Here to read Online***
or
***Download PDF File ***

**********

*** عشق خاک نہ کر دے***

تحریر: فاطمہ اعجاز 


طویل سڑکے کے کنارے ریستوران کے چین سجی تھی۔ رات کے فانوس، ریستوران کی بتیوں سے شرماتے چاند میں اوٹ میں ہو چلے تھے۔ رات کافی چھا چکی تھی لیکن شہر ابھی تک بیدار تھا۔ طویل قطار میں بنے ریستورانوں کے سامنے اوپن ڈائننگ تھی جہاں لوگ بیٹھے مختلف کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ طویل شیڈ والی پارکنگ گاڑیوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔ بیرے ڈرائنگ ایریا اور کچن کے بیچ گھوم رہے تھے۔

اسلام آباد کی مصروف شاہراہ پر، اسلام آباد کے مشہور شیف، بہترین کھانے بنا رہے تھے۔ پاکستان کا پہلا ریستوران تھا، جس کے پاس میشیگن سٹار تھا۔ یہ بڑی کامیابی تھی اور یہ کامیابی محنت کی تھی اور عشق کی تھی۔ 

اس نے سڑک کے دوسرے کنارے کھڑے سامنے جگ مگ کرتے بورڈ کو دیکھا جس پر اس کا نام جگمگا رہا تھا۔فوڈ ماسٹر کہلانے جانے کا خواب حقیقت ہو چکا تھا۔ وہ حقیقت جو خوابوں جیسی تھی اس کے سامنے تھی یا یہ خواب ہی تھا۔ خواب تھا یا تعبیر تھی، جو بھی تھا بہت خوبصورت تھا اور بہت ورشن تھا۔ اس کی چاہت تھی جسے کئی قربانیوں کے بعد اس نے پایا تھا۔ اب بس یہی خواہش تھہ کہ یہ خواب ہے تو کبھی اس کی آنکھ نہ کھلے اور اگر یہ حقیقت ہے تو کبھی نہ بدلے۔ یہ سب اس کا تھا اور بلند روشن عمارت کے بیچ چمکتا، یہ نام بھی اس کا تھا۔ یہ فوڈو منیا سٹریٹ، اس ماسٹر شیف کی تھی۔ 

                           *               *                 * 

صبح کا سورج اپنے مسکن سے کسمسا کر بلند ہو رہا تھا۔ اس کی بیچین کرنیں اس سے پہلے ہی نکل کر پارک کے پھولوں کو ستانے لگی تھیں۔ پھولوں نے سستی سے کرنوں کو اپنے اندر اتارا اور کلیوں نے اپنے پٹ وا کر دیے۔ دور کہیں گاڑی کی آواز پر کلیوں کے کٹوروں میں پریاں بیدار ہوئی تھیں۔ 

گاڑی کے انجن کی آواز نے دم توڑا تو پریاں کرنوں کے شانوں پر سوار ہوتی پارکنگ تک آئیں۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور نیلے سنیکرز زمین پر پڑے۔ پریوں نے ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کی اور کھل کھلاتی ہوئی اسکے تعاقب میں چل پڑیں۔ سنیکرز مضبوط چال چلتے کوہ قاف کی طرف رواں تھے۔ 

قدم شیشے کے چوڑے دروازے کے سامنے رکے۔ پریاں اس کے سر سے بلند ہوتی عمارت کے ماتھے پر جا رکی جہاں بورڈ پر ' فوڈو منیا بائے عماد ریاض ' لکھا تھا۔ یہ عماد کا فوڈو منیا تھا۔ یہ اس کا خواب، اس کا عشق، اس کا جنون تھا۔ فوڈو منیا عشق والوں کا ایسا دیس تھا جہاں خواب تعبیر پاتے تھے۔ جہاں محبتیں تکمیل پاتی تھیں۔ جہاں سچے دوست ملتے تھے۔ پر وہاں ایسا آسیب تھا، جو خوشیاں نگل جاتا تھا۔ جو خواہشات کو پنپنے نہیں دیتا تھا۔ جس کے دکھ نے عشق کو بدعا دی تھی اور اس بدعا نے کئی عاشقوں کو خاک کر دیا تھا۔

٭                       ٭                    ٭

اسلام آباد کی مصروف شاہراہ اس وقت گاڑیوں کے شور اور سورج کی تیش کے زیرِ اثر کوفت ذدہ تھی۔ سڑک کے عین سامنے فوڈو منیا کی عمارت پوری شان و شوکت سے کھڑی تھی۔ سورج کی کرنیں شیشے کی دیواروں سے اندر جھانکنے میں ناکامی کے بعد سارا غصہ باہر چلتے لوگوں پر نکال رہی تھی۔ سڑک کے اس پار سفید ٹراؤرز اور لائم شرٹ کا ہم رنگ دوپٹہ سر پر سکارف کی طرح اوڑھے وہ زندگی سے بیزار لڑکی شیشے کی دیواروں کے اوپر سیاہ بورڈ پر ' فوڈو منیا بائے شیف عماد '  کو دیکھ رہی تھی۔

چار برس قبل اس نے اس جگہ کھڑے ہو کر اس پرستان کا حصہ بننے کا خواب دیکھا تھا۔ اس نے اس نومولود کو اپنے سامنے پروان چڑھتے دیکھا تھا۔ وہ چار سال سے اسے باہر سے دیکھتی رہی تھی اور آج بلآخر وہ وقت آ گیا تھا جب وہ اسکے پرستان میں جانے والی تھی۔ 

اسکے خوابوں کے پروانے اسکے گرد محوِ پرواز تھے۔ فوڈو منیا میں کھانا کھانے سے زیادہ وہاں پکانے کا خواب، باہر والوں کی آنکھوں میں چمکتا تھا جو اس لڑکی کی آنکھوں میں بھی روشن تھا۔ وہ حسرت سے فوڈو منیا کو دیکھ رہی تھی۔ کیا اسکے خوابوں کی تعبیر یہاں تھی؟ اسکی سیاہ افسرده آنکھیں سوچوں کے جالوں سے ویران پڑی تھیں۔

فوڈو منیا کی دنیا کا داخلی دروازہ ہاتھ پھیلائے سب کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ شیشے کا دروازہ کھول کر اندر جائیں تو قدم لکڑی کے فرش پر پڑتے تھے۔ سامنے طویل ڈائنگ ہال میں لکڑی کی میزیں بجھی تھیں جنہیں چمڑے کے صوفےگھیرے تھے۔ چھت سے لٹکے فانوسوں کی روشنی میزوں پر چمک رہی تھی۔ دوپہر کے وقت بلائنڈرز چڑھے تھے۔ بائیں طرف فریشر رومز تھے۔ 

ہال میں چلتے جاؤ تو طویل ہال کے آخر میں ریسپشن تھا جسکے پیچھے فوڈو منیا والوں کی الگ دنیا تھی۔ کچن کے دروازے پر فوڈو منیا کا لوگو بنا تھا۔ وہاں سے سفید شرٹ اورسیاہ پینٹ اور ویسٹ کوٹ پہنے بیرے ہاتھوں میں تھال اٹھائے آ جا رہے تھے۔ کچن کا دروازہ کھول اندر جائیں تو کھٹ کھٹ، شرڑ شرڑ اور بھنبھاہٹ کی آواز زندگی کی علامت تھی۔

خوبصورت ریسٹورنٹ کے منظم اور خواب ناک کچن میں صبح کے ناشتے کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ نیوی بلیو شیف کوٹ، سیاہ ٹراؤزرز، نیوی بلیو سنیکرز پہنے عماد ریاض سب شیفس کو ہدایات دے رہا تھا۔ اس نے رک کر خاکینہ چکھا۔ 

" ذردی اور سفیدی الگ سے پھینٹ کر بنائیں۔ " وہ شیف کو ہدایات دیتا کچن سے باہر آگیا۔ 

چھ فٹ سے نکلتا قد، گندمی مائل رنگت، ہلکی بڑھی شیف اور وہ مسکراہٹ جو اسکی شخصیت کا خاصا تھی۔ اسکی بھوری آنکھوں کی نرمی اور اسکے لہجے کی مٹھاس، اس کو سب سے منفرد بناتی تھی۔ وہ عام سی شکل و صورت کا اٹھائیس سالہ مرد تھا پر بہت سے لوگوں کے لیے وہ بہت خاص تھا جس میں ایک صنم کامران تھی، فوڈو منیا کی سو شیف! 

ریستوران میں دیسی سے لے کر، چائنیز، اطالوی، رشین،میکسیکن، انڈین، تھائے، ہر طرح کا کھانا ملتا تھا۔ فوڈو منیا ناشتے، چائے، کھانے اور بےوقت بھوک، سب کے لیے کھلا رہتا تھا۔ ریسٹورنٹ کا مالک کوئی اور تھا پر اسکو یہاں تک لانے میں ساری محنت عماد ریاض کی تھی۔ اسکے ہاتھ کا ذائقہ، اسکی پکانے کی مہارت اور اسکی کنلری اختراعیت سب ایک معمولی ڈھابے سے بہترین ریستوران کی بلند دیواروں میں جھلکتی تھی۔ یوں لگتا تھا وہ واقعی پرستان ہو، جہاں کی دنیا خیالی تھی۔

عماد نے کچن سے نکل کر گلوز اتارے اور کاؤنٹر پر جا کھڑا ہوا۔ دس فٹ چوڑے کاؤنٹر پر مختلف شیشے کی سبزیاں اور پھل پڑے تھے۔ ریسپشن کے گرد سفید اور پیلی فیری لائٹس کی روشنیاں عماد کے چہرے پر چمک رہی تھیں۔

" ابا اب تو آپ آ جائیں یہاں! گاؤں میں کیا رکھا ہے؟ " وہ فون کان سے لگائے گھمبیر مگر دھیمے لہجے میں مخاطب تھا۔ 

 فانوسوں سے نکلتی ذرد روشنی عجیب پر کیف سا منظر بناتی تھی۔ ریسپشن کاؤنٹر پر فوڈو منیا کا مونو گرام کھدا تھا۔ وہاں سے نکل کر بائیں طرف آؤ تو دلکش سیاہ اورگولڈن ریشمی پردے بازو پھیلائے کھڑے تھے۔ پردے سرکا کر اندر جھانکو تو طویل شیشے کی میز کے گرد سیاہ صوفے لگے تھے۔ میز پر شیشے کے چمکتے گلاس اور نفاست سے سجے فوڈو منیا کے لوگو والے نیپ کن پڑے تھے۔ 

" گاؤں سے محبت کی وجہ سے شہر کی محبتیں فراموش نہ کریں۔ " وہ ہلکا سا مسکرایا۔ پورا فوڈو منیا اس مسکراہٹ کے سحر تلے مدہوش ہو چلا تھا۔ 

شیشے کے دروازے کے پار سڑک پر چلتی گاڑیاں دکھائی دیتیں لیکن انکا شور اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ دروازے کے پٹ وا ہوئے تو کامران اعظم داخل ہوئے، وہ ریستوران کے مالک تھے۔ عماد انکی رقم کا بڑا حصہ انہیں واپس کر چکا تھا لیکن جگہ انہی کے نام تھی۔ سفید منچوں تلے انکے ہونٹ مغرور مسکراہٹ میں ڈھلے تھے پر انکاچہرہجاندار تھا۔ انکے ساتھ تئیس چوبیس سالہ لڑکی بھی تھی۔ اسکی نگاہیں محویت سے ڈائننگ ہال کا طواف کر رہی تھی۔

" اسلام علیکم عماد! " وہ خوشدلی سے اسکی طرف آئے۔ 

" آپ کے عزیز دوست آئے ہیں۔ پھر بات کرتے ہیں۔ " 

وہ فون بند کرتا انکی طرف بڑھا۔ عماد نے کامران صاحب سے گلے ملتے ایک نظر لڑکی کو دیکھا۔ وہ ہونٹ چباتی اب گھبرائی گھبرائی لگ رہی تھی۔ 

وہ تینوں وہیں میز پر بیٹھ گئے۔ میز پر گلدان میں تازہ پھول مہک رہے تھے۔

" دیکھیں کامران صاحب! آپ اندر کے معاملات سے باخبر ہیں۔ میں نے دو دن پہلے ہی تین نئے شیفس بھرتی کیے ہیں۔ مزید کی گنجائش نہیں بن سکتی۔ بہت معذرت! "عماد کا بات کرنے کا انداز اور لہجہ اتنا دلفریب تھا کہ گھنٹوں بیٹھ کر اسکی باتیں سنی جا سکتی تھیں اور پھر بھی تشنگی سی رہ جاتی۔

" سعدیہ کے ہاتھ کا کھانا میں کھا چکا ہوں، تم اسے ٹرائل پر رکھ لو۔ تمہیں مایوسی نہیں ہو گی۔ " 

" میرے کچن میں کسی اور کی گنجائش نہیں ہے۔ " عماد نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ 

سعدیہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور استہزاء سے ہنستے سر جھٹکا۔ اسے علم تھا کہ اتنے اعلیٰ پائے کے کچن میں اسکی جگہ نہیں بن سکتی۔ فوڈو منیا کے کچن میں کام کرنا اس جیسوں کا خواب ہی ہو سکتا تھا۔ 

" میں کہہ رہا ہوں، یہ موقع چھوڑ کر پچھتاؤ گے تم! " 

عماد نے ایک تنقیدی نظر سعدیہ پر ڈالی۔ یاسیت سے بھری سیاہ آنکھیں، بےپرواہ سا چہرہ۔ وہ اتنی خوبصورت نہیں تھی، عام سی شکل و صورت تھی۔ سر پر لائم دوپٹہ سکارف کی طرح لیا تھا۔ وہ اپنی عمر کے لوگوں کے برخلاف، زمانوں کی مسافت سے تھکی اور مایوس لگتی تھی۔ 

" اگر کھانے میں نمک زیادہ ہو جائے تو کیا کریں گے؟ " عماد نے ایک دم سوال کیا۔

سعدیہ ذہن میں سوچوں کے جال بن رہی تھی۔ سوال پر بوکھلائی۔ سوال اتنا اچانک تھا کہ جواب آتے ہوئے بھی سب دماغ سے نکل گیا۔

" پتا نہیں۔ " اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔

عماد نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ سعدیہ کو شدید خفت محسوس ہوئی۔ اس سے تو اچھا تھا چپ ہی رہتی۔ 

" کامران صاحب انکی یہاں کوئی جگہ نہیں بن سکتی۔ " عماد نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی۔

" مجھے تو پہلے ہی پتا تھا۔ اب چلیں انکل؟ " وہ اٹھ کر کھڑی۔ وہ خواب دیکھنے والی لڑکی تھی پر اسے تعبیر پر یقین نہیں تھا۔ وہ یہاں کام کرنا چاہتی تھی پر اسے یہ بھی یقین تھا کہ ایسا ناممکن ہے۔ اسلیے اس پرستان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ دل کے جنگو مار چکی تھی۔ 

عماد نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔ وہ اتنی سپاٹ تھی جیسے کوری کتاب ہو جسکا ہر صفحہ خالی ہو۔

" ایک موقع دے دو! اسے کوکنگ کا بہت شوق ہے۔ بچی یتیم بھی ہے،ثواب ملے گا۔ " کامران صاحب نے آگے جھک کر ہلکی آواز میں کہا۔ 

سعدیہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ عماد نے ایک پرسوچ نگاہ سعدیہ پر ڈالی۔ کچھ سوچ کر اس نے ہامی بھر لی۔ 

سعدیہ کی آنکھیں میں ہلکی سی چمک نمودار ہوئی جو اگلے ہی پل پتلیوں کی سیاہی نے سبت کر لی۔ جیسے کوئی امید کا ستارہ چمکا ہو اور ماضی کے بلیک ہول نے اسے نگل لیا ہو۔ 

عماد سعدیہ کو لے کر کچن میں آ گیا۔ کوہ قاف میں آ کر سعدیہ کی آنکھوں کی پریاں بیدار ہوئیں جیسے انکا خواب پورا ہو نے جا رہا ہو۔ وہ کچن میں تین سیڑھیاں اتر کر داخل ہوئی۔ اشتہا انگیز خوشبوؤں نے استقبال کیا۔ گرل کی شڑڑ نے خوش آمدید کہا۔ وہ عماد کے تعاقب میں اندر آئی۔ وہ آگے سے ہٹا تو سامنے صنم کھڑی تھی۔ اجلا مسکراتا چہرہ، شربتی روشن آنکھیں، وہ سیاہ شیف کوٹ میں ملبوس تھی۔ اس نے اپنے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس سے دو لٹیں اسکے چہرے پر جھول رہی تھیں۔ 

" یہ صنم ہے۔ ہماری سو شیف!  اور یہ مس سعدیہ نور ہیں۔ کامران صاحب لائے ہیں۔ ٹرائل پر رکھ رہا ہوں۔ " صںًم آگے بڑھ کر اس سے ملی۔ وہ اسے جانتی تھی پر ملاقات نہ ہونے کے برابر تھی۔ 

" ولیکم ٹو فوڈو منیا سعدیہ! آپ کو یہاں کام کر کے خوشی ہو گی۔ " اس نے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ صنم عماد کے ہمراہ چلنے لگی۔

" اسے کہاں ایڈجسٹ کرو گے؟ ہم تو بھرتیاں کر چکے ہیں۔ " وہ آہستگی سے پوچھ رہی تھی لیکن سعدیہ تک اسکی آواز پہنچ رہی تھی۔ پر وہ نظر انداز کیے محویت سے اس کچن کو دیکھ رہی تھی جس کا خوابناک منظر اس جکڑے جا رہا تھا۔ 

" ان سے ملیے، یہ لائن شیف راشد ہیں۔ " 

سیاہ شیف کوٹ اور سر پر سیاہ شیف ہیٹ پہنے راشد نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ درمیانی عمر کا سنجیدہ سا مرد تھا۔ سعدیہ کو وہاں ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ غیر مانوس جگہ آ گئی ہو۔ اس جگہ میں اتنی اپنائیت تھی جیسے وہ وہیں کی باسی ہو۔ 

 وہ کچن کے بیچ سے گزرتی سب کے مہارت سے چلتے ہاتھ دیکھ رہی تھی۔ کٹنگ بورڈ پر ٹھک ٹھک کٹتی سبزیاں، پین میں پکتے انواع اقسام کے کھانے، اوون کی مخصوص آواز! وہ ابھی بھی خواب کے بادل سے نیچے نہیں اتری تھی۔ وہیں فضا میں معلق اس خوشی کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہی تھی۔ وہ خواب پا کر بھی خوش نہیں ہو سکی تھی۔ جیسے کسی کی بدعا اس کی مسکراہٹ کو کھا گئی ہو۔ 

یہ پہلے ریستوران کا کچن نہیں تھا جسے وہ دیکھ ری تھی۔ پر اتنا زیادہ منظم کچن، وہ پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔ ایک شیف ایک ہی وقت میں چھ چولہوں پر مختلف قسم کے انڈے تیار کر رہا تھا۔ وہ ایک فرائی پین سے نکال کر دوسرے میں انڈہ ڈال رہا تھا۔ یہ کمال مہارت تھی۔ وہ خالی نظروں سے سب کو دیکھتی ان جگنوؤں کو بیدار کرنا چاہتی تھی جن کی امیدوں کی مشعلیں بجھ چکی تھیں۔ وہ جتنی َوش تھی، اتنی دکھنا چاہتی تھی لیکن ناکام تھی۔ 

" آپ کو سو شیف، لائن شیف اور معاون شیف میں فرق تو پتا ہو گا؟ " عماد نے پھر اچانک سوال داغا۔

خیالات کے جنگلوں میں گھومتی سعدیہ چونکی۔ 

" ہاں! " وہ خفیف سی ہوئی۔  " سیکنڈ ان کمانڈ، جو ہیڈ شیف کے بعد پورے کچن کا باس ہوتا ہے، وہ سو شیف ہوتا ہے۔ اور سٹیشن ہیڈ لائن شیف ہوتا ہے اور اسکے معاون،معاون شیف ہوتے ہیں۔ " آخر میں اسکی آواز نے اعتماد کھویا۔ 

"ہیڈ شیف میں ہوں! " وہ کسی مختصر دروازے کے سامنے رکا۔ " اور آپ مس نور، پینٹری شیف ہیں۔ " عماد کی بات سن کر سعدیہ کے خوابوں کا بادل دھماکے سے پھٹ گیا۔ ابھی تو یہ خوشی اس کی رگوں میں بہی نہیں تھی کہ پھر سے اس کا خون خشک ہو گیا تھا۔ 

" پینٹری شیف؟ اس نے فش شیف، گرل شیف، ویج شیف، حتیٰ کہ پیسٹری شیف بھی سنا تھا۔ پر وہ۔۔ " 

" آپ شیفس کو ہر وہ چیز فراہم کریں گی جس کی انہیں ضرورت ہو گی۔ " وہ پینٹری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ صنم اور سعدیہ تعاقب میں آئے۔ 

" یہ کام مس نور خاصا مشکل اور محنت طلب ہے۔ ویسے تو ہر سٹیشن پر وہاں کی ضرورت کا سامان موجود ہے لیکن جو کم ہو گا وہ آپ شیفس کو فراہم کریں گی۔ جو چیز یہاں ختم ہو، اگلے روز وہ یہاں موجود ہو گی ۔ بشیر صاحب ساری گراسری دیکھتے ہیں۔ آپ انہیں بتائیں گی، آگے انتظام وہ کریں گے۔ " وہ بہت نرم لہجے میں گویا تھا لیکن نجانے کیوں سعدیہ کو اسکی باتیں نشتر کی طرح لگ رہی تھیں۔

 اس کے خوابوں کا بادل پھٹ کر یاسیت کی زمین سیراب کرنے لگا تھا۔ اس نے سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ اسکے خواب پورے ہو سکتے ہیں؟  جس چیز کا اسے حق ہی حاصل نہیں، وہ اسے پانے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔ 

" آپکو دو ہفتے ٹرائل پر رکھا ہے۔ میرے پاس مزید گنجائش نہیں ہے لیکن کامران صاحب کے کہنے پر موقع دیا ہے،کوشش کریں کہ اسے ضائع نہ کریں۔ " 

وہ ہلکا سا سر کو خم کرتا وہاں سے ہٹ آیا۔ 

سعدیہ نے مایوسی سے پینٹری کا جائزہ لیا۔ اس کام سے بالکل خوش نہیں تھی۔ بہرحال اسے نوکری کی ضرورت بھی تھی اور کرنا بھی اسے یہی آتا تھا۔ اسکے پاس گھر میں پکانے کے سوا اس کام کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ 

" نہیں رکھنا تھا تو انکار کر دیتے۔ یہ کیا نوکری دی ہے تم نے اسے ؟ " 

" آپکے والد صاحب آئے تھے سفارش لے کر۔ میں نہ رکھتا تو آپ رکھ لیتی۔ " عماد پینٹ یی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ عماد کا خاصا اسکی نرم مسکراہٹ تھی جو اسکے لبوں سے کبھی جدا نہیں ہوتی تھی۔ اسکا دھیما انداز اور اسکی متبسم آنکھیں، صنم کا دل کرتا تھا کہ وہ سارا دن اسے ہی دیکھتی رہے۔ 

چار سال قبل ان دونوں کی منگنی کامران صاحب نے زبردستی کرائی تھی۔ عماد کو کامران صاحب بالکل پسند نہیں تھے لیکن اسکی بھی مجبوری تھی۔ اس نے اپنی محنت کے مینار انکی زمین پر کھڑے کیے تھے۔ وہ چاہ کر بھی انہیں اس سب سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔ 

" ویسے جاب میں غلط کیا ہے؟ " 

" تم نے آتے ہی اسے اتنی مشکل جاب دے دی۔ ایک دفعہ اسکی کوکنگ دیکھ لیتے تو شاید متاثر ہو جاتے۔ "

" متاثر ہو کر کیا کرتا۔ جگہ بھی تو نہیں ہے۔ " وہ کندھے اچکاتے آگے بڑھا۔

" اور اگر اس نے اچھا کام کیا تو؟ " 

" جگہ بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ " وہ مسکرا کر کہتا سٹوریج کی طرف بڑھ گیا۔ 

صنم ہنسی۔ عماد کے لیے کوئی کام مشکل ہو، یہ مشکل تھا۔ 

*                  *                   *

" عماد صاحب یہ نئی لڑکی کیوں رکھ لی ہے؟ " 

آواز پر عماد لے قدم رکے، وہ پلٹا تو سیاہ شیف کوٹ اور سر پر سیاہ ہیٹ جمائے ہما پرتپش مسکراہٹ سرخ روکھے ہونٹوں پر سجائے کھڑی تھی۔

" کامران صاحب کی رشتے دار ہے۔ انہوں نے کہا تو رکھ لی۔ " عماد نے کندھے اچکاتے نظریں دوبارہ ڈائری پر جمائیں۔ وہ ہاتھ میں پین تھامے ڈائری پر چیک لگا رہا تھا۔

" اب ہمارے فوڈو منیا میں آپکے سسر صاحب کی سفارشیں چلیں گی۔ " اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

" ایسا نہیں ہے ہما! " وہ سٹوریج یونٹ کی طرف بڑھا جہاں گوشت ابھی ابھی پہنچا تھا۔ 

" مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ مجھ سے مشورہ کیے بنا آپ اسے رکھ کیسے سکتے ہیں؟ " 

" ہما! وہ آپکے انڈر نہیں ہے۔ " عماد نے تحمل سے کہا۔ وہ ہما کی تلخی کا جواب کبھی تلخی سے نہیں دیتا تھا۔ وہ واحد کڑواہٹ تھی جو اس نے با خوشی اہنے فوڈو منیا میں شامل کی تھی۔ اس کی وجہ شاید اسکا گلٹ تھا۔ وہ خود کو ہما کا مجرم سمجھتا تھا، اسلیے اسے مارجن دیتا تھا۔ 

" پھر کس کے انڈر ہے؟ صنم کے؟ " 

" آپ اتنی جذباتی کیوں ہو رہی ہیں؟ وہ لڑکی بس دو ہفتے کے لیے یہاں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے وہ اس سے پہلے ہی چلی جائے گی۔ " 

" میں نے آج تک یہاں سے کسی کو جاتے نہیں دیکھا۔ ماسوائے کہ وہ کبھی نہ آنے کے لیے جائے۔ " 

عماد کے چہرے پر سایہ لہرایا۔ وہ پلٹ کر بس بوائے کی بات سننے لگا۔ ہما اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی۔

" نئے شیفس میں سے میری سپروژن میں کون آئے گا؟ " بس بوائے کے جاتے ہی ہما نے سوال کیا۔ اسے اپنے طنز کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لیے خود ہی بات بدل دی۔

" وہ تینوں پیسٹری سٹیشن پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ " عماد کی آواز اب قدرے دھیمی تھی۔ " دو دن میں فیصلہ کروں گا۔ بلکہ آپ چاہیں تو کسی ایک کو چن لیں۔ " 

" نہیں! آپ ہی فیصلہ کریں۔ آپ کے فیصلوں پر ہمیں پورا بھروسہ ہے۔ " 

وہ تلخی سے مسکراتی واپس پلٹ گئی۔ عماد کی نظروں نے دور تک اسکا تعاقب کیا۔ کبھی کبھی انجانے میں ہم کسی کی زندگی کے چراغ گل کر دیتے ہیں۔ اور وہ واحد نہیں تھی جس کی خوشیوں کو عماد کے خوابوں نے نگلا تھا۔ ایک اور بھی عشق تھا، جسے اسکی منزل کھا گئی تھی۔

*                  *                   *

سعدیہ سارا دن پینٹری میں گھومتی رہی۔ صبح صبح ہی پینٹری سے سارا سامان سٹیشنز پر چلا جاتا تھا۔ شاز و نادر ہی وہاں سے کچھ منگوایا جاتا۔ وہ پینٹری کے سامان کا جائزہ لیتی رہی۔ طرح طرح کے مصالحے، انواع و اقسام کے اجزاء! وہ ریکس کے بیچ گزرتی یہی سوچتی رہی کہ ان چیزوں سے کیا کیا کچن میں بنتا ہو گا۔ اسکی زندگی سبزی، روٹی، چاول سے آگے  نہیں بڑھی تھی اور دنیا ان چیزوں کو اب حقیر جاننے لگی تھی۔ یہ تو اس جیسے غریبوں کی خوراک تھی۔ امیر تو جو کھاتے تھے، وہ بڑی مشکل سے ان کے نام ہی یاد کر پائی تھی۔

" زندگی بھی کتنی نا انصاف ہے نا! کیسے کیسوں کو کیا کیا دے دیتی ہے۔ اور اک ہم ہیں، زمانے کے ترسے، برسوں کے بھکاری۔ " وہ تلخی سے سر جھٹکتی سوچ رہی تھی کہ پیچھے آہٹ محسوس کر کے پلٹی۔

" کیسا گزر رہا ہے پہلا دن؟ " صنم چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجائے اسکے سامنے کھڑی تھی۔ 

" کیسا گزر سکتا ہے۔ " سعدیہ نے کندھے اچکائے۔ اسکی آواز میں حد درجہ یاسیت تھی۔ 

" آپ کو یہ کام فضول لگ رہا ہو گا۔ " صنم نے سمجھتے ہوئے کہا۔ " صبح یہاں ہی رونق ہوتی ہے۔ کل آپ کا کام صحیح معنوں میں شروع ہو جائے گا۔ " 

" میں یہاں یہ کرنے نہیں آئی تھی۔ "

" مجھے پتا ہے سعدیہ! لیکن کبھی کبھی بڑے کاموں کی تیاری کے لیے ہمیں چھوٹے کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ " 

" اور کتنے شیفس کو یہاں ' چھوٹے ' کام ملے ہیں؟ " اس نے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل کی۔

" آپ شیف نہیں ہیں سعدیہ! آپ ہوم کک ہیں۔ ویسے بھی عماد نے آپ کو بنا ٹیسٹ کے رکھا ہے۔ وہ آزمائے بنا کسی کو اپنے کچن میں نہیں آنے دیتا۔ آپ لکی ہیں جو یہاں تک آ گئی ییں۔ " سعدیہ کی نسبت صنم کا لہجہ متوازن تھا۔

" یا رائٹ! " اس نے سر جھٹکا۔ 

صنم نے برا نہیں منایا۔ ایک چیز جو اس نے عماد کے ساتھ  رہتے سیکھی تھی وہ دوسروں کی بات سمجھنا تھی۔ سعدیہ غصے میں تھی، وہ یہ سب کہہ سکتی تھی۔

" جو آپ کو فوڈو منیا کی پینٹری میں لایا ہے، وہ آپکو اس کچن میں بھی لے جائے گا۔ " 

سعدیہ خفا صورت بنا رخ پھیرے رہی۔ 

" آپ بس یقین کریں۔ یقین سے بہت مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ " وہ اسکے بازو کو دباتی ہٹ آئی۔ 

" کتنا آسان ہوتا ہے دولت کے انبار پر بیٹھ کر ترسوں کو یقین کا لیکچر دینا۔ " سعدیہ کی مایوسی ٹپک کر پینٹری کو بھی ویران کرنے لگی تھی۔ ریکس کے گرد اسکی یاسیت کے جالے بنے تھے جس میں سوچ کی مکڑی قنوطیت کے انڈے دے رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔

سعدیہ کا سارا دن ہر دن کی طرح بیکار گزرا تھا۔ اس نے کچھ خاص کام نہیں کیا تھا لیکن جب گھر آئی تو شدید تھکی ہوئی تھی کیونکہ اسکا دماغ مسلسل خیالوں کے گھوڑے دوڑاتے تھک گیا تھا۔ اس وجہ سے وہ شدید تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی۔ اس نے سستی سے سکارف کی پن کھولی تو جوڑے میں بندھے گھنے سیاہ ریشمی بال آبشار کی مانند بہتے چلے گئے۔ سر کا بھوجھ کچھ کم ہوا تھا۔

" نہیں امی پینٹری شیف ہوں۔ شیفس کو اجزاء مہیا کرنا اور سلاد وغیرہ بنانے کا کام ہے۔ اتنا مشکل نہیں ہے۔ " اس نے جوتے اتار کر کونے میں رکھے۔ اسکا موڈ سخت خراب تھا اور وہ بالکل کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

" اللہ بھلا کرے کامران بھائی کا جو اتنا ساتھ دے رہے ہیں۔ " بستر پر نحیف سی سمیرا نیم دراز تھیں۔

وہ درمیانی عمر کی خاتون تھیں لیکن بیماری نے انہیں ضعیف بنا دیا تھا۔ انہیں چند ماہ قبل ہی ٹیومر تشخیص ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے سرجری تجویز کی تھی لیکن انکے معاشی حالات اسکی اجازت نہیں دیتے تھے۔ نور خان کی وفات کو دو سال ہو چکے تھے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، پینشن میں جو ملا تھا اس سے بس ایک چھوٹا سا گھر بنا سکے تھے۔ 

انکی وفات کے بعد حالات نے کروٹ لی تو سعدیہ کو بی اے کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ اسے کھانا پکانے کا شوق تھا لیکن اسکے پاس کوئی پروفیشنل ڈگری نہیں تھی جو اسے کسی ریستوران میں جاب دلاتی۔ 

" مجھے نہیں لگتا یہ سفارش چلے گی۔ ہیڈ شیف کو میں زیادہ پسند نہیں آئی۔ " وہ تھکے تھکے انداز میں انکے ساتھ آ کر لیٹی۔ اسکے بال اس سے پہلے سمیرا کی گود میں لیٹ چکے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے انہیں سہلانے لگیں۔

" ایسے احسان جتا رہا تھا نوکری دے کر۔ " اس نے سر جھٹکا۔ " امی بس ایک دفعہ مجھے بڑا شیف بننے دیں، پھر دیکھنا ان سب کو پاؤں کے نیچے بھی نہیں کچلوں گی۔ " اسے تھکاوٹ سے زیادہ غصہ تھا۔ 

" اسی لیے کچھ لوگوں کو کبھی کامیابی نہیں ملتی۔ انکا مقصد ہی اوروں کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ " انکی بات پر سعدیہ منہ میں بڑبڑائی۔ سب اصول غریبوں کے لیے بنے تھے۔

" کسی کو پیروں تلے کچلنے کے لیے بھاگو گی نہ سعدیہ تو خود کسی کے پیروں تلے کچلی جاؤ گی۔ سب کا ہاتھ تھام کر سبکو ساتھ لے کر چلو، جبھی کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ "

" سامنے والے کو گرائے بنا آگے نہیں بڑھا جاتا۔ سب یہی کرتے ہیں۔ "

" سب کے کرنے سے غلط صحیح نہیں ہو جاتا۔ " 

" کچھ کبھی صحیح نہیں ہوتا۔ " 

" سعدیہ اتنی مایوسی کی باتیں نہ کیا کرو۔ " انہیں دکھ ہوا تھا۔

" کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور یہ ناشکری ہے۔ امی مجھے نہیں سمجھ آتا کہ میں کس چیز کے لیے شکر گزار ہوں۔ ہے کیا میرے پاس سوائے اس غربت اور طعنوں کے؟ " 

" تو اللہ سے دعا کرو جو چاہیے اس سے مانگ لو۔ " 

" امی یہ باتیں ان کے لیے ہیں جن کی زندگی نعمتوں سے بھری ہے۔ جس جے ہاتھ خالی ہوں، انہیں ایسے لیکچر نہیں دیے جا سکتے۔ " 

" اچھا چلو منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔ میں کھانا نکالتی ہوں۔ " وہ سعدیہ کو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں۔ وہ بھی حق بجانب تھی۔ اس کے حالات ہی ایسے تھے کہ مایوسی اور ناامیدی جائز لگے۔ 

" نہیں کھانا میں نے۔ " 

سعدیہ نے خفا ہوتے انکی گود سے سر اٹھایا اور تکیے پر ڈھے گئی۔ اسے صبح چھ بجے ریستوران پہنچنا تھا، اسلیے جلدی سونا ضروری تھا۔ پر قسمت کا ماتم کرنا اسکی عادت تھی اور عادت پوری کیے بنا اسے نیند نہیں آنی تھی۔ 

*                  *                   *

صبح کی روشنی زمین پر پھیلتی جا رہی تھی۔ سورج ابھی مکمل بیدار نہیں ہوا تھا لیکن اسکی کرنیں پتھریلی سڑک کے بوسے لے رہی تھیں۔ 

رائڈ فوڈو منیا کے دروازے کے سامنے رکی۔ سعدیہ گاڑی سے اتری تو صنم بھی سڑک پار کرتی فوڈو منیا کی طرف آ رہی تھی۔ سعدیہ نے ایک پل رک کر اسے دیکھا۔ سرخ پلین شرٹ، سفید جینز اور سرخ برانڈڈ بیگ کہنی پر ٹکائے، وہ مہنگے چشمے آنکھوں سے اتار کر ریشمی ڈائی بالوں میں اڑس چکی تھی۔ سعدیہ کے قریب آ کر وہ رکی اور اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔ ہیرے کی انگوٹھی  کی چمک سعدیہ کی آنکھوں میں چمکی تو وہ چونکی۔

" کہاں کھو گئی ہو؟ " صنم مسکرائی تو اسکی شربتی آنکھیں چمکیں۔ 

سعدیہ تکلفاً مسکرائی اور کندھے اچکاتے آگے بڑھ گئی۔

" جاب کی فکر مت کرو۔ دراصل فی الوقت ہمارے پاس جگہ نہیں ہے لیکن تمہارے لیے بن جائے گی۔ " صنم اسکے ساتھ اندر آئی۔ 

ساتھ گزرتے بیرے نے رک کر صنم کو سلام کیا۔ ڈائننگ ہال سے گزرتے کئی لوگوں نے اسے رک رک کر سلام کیا۔ وہ ریسپشن سے گزری تو وہاں موجود شیف نے اسکے لیے راستہ چھوڑا۔

سعدیہ ایک ایک حرکت کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ وہ اور صنم چند دن کے فرق سے ایک ہی ہسپتال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان دونوں کے والد ایک ہی کمپنی میں نوکری کرتے تھے۔ لیکن عہدوں کے فرق نے انکی اولاد کی زندگی میں کتنی تفریق ڈالی تھی۔ ایک زندگی کی تمام نعمتوں سے آراستہ اور دوسری بالکل خالی دامن۔ یہ کیسی تقسیم تھی؟ یہ کیسا انصاف تھا؟ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے نےکیوں یہ تفرقہ ڈالا تھا؟ وہ سارا دن یہی سوچتی رہی۔

سعدیہ وہاں اسسٹنٹ شیفس کی بھی اسسٹنٹ تھی۔ بھیک میں اتنا ہی ملتا ہے کہ منہ گیلا ہو جائے۔ وہ باہر سب کو بتا سکتی تھی کہ وہ فوڈو منیا میں نوکری کرتی ہے لیکن اندر والے اسے حقارت سے دیکھتے ہیں۔ باہر والوں کے لیے عماد کے ساتھ کام کرنا اعزاز ہے لیکن وہ تو انکے لیے کام کرتی تھی جو عماد کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسکے حصے میں کوئی اعزاز نہیں ہے۔ 

" سعدیہ! ایپل جیم لے آؤ۔ "
آواز پر وہ پینٹری کی طرف بڑھ گئی۔ صبح کے وقت ہی اسے کام ہوتا تھا۔ سٹیشنز تک اجزاء اور ساسس وغیرہ پہنچانا اور باقی ضرورت کی اشیاء انہیں اتنی مقدار میں فراہم کرنا۔ باقی دن اسکو کم ہی کوئی کام ہوتا سوائے سلاد بنانے کے۔
اسکے قدم سستی سے چل رہے تھے کیونکہ اسکے دماغ کے گھوڑے اسے صبح صبح ہی تھکا چکے تھے۔
" میری بھی کیا قسمت ہے۔ پہلی دفعہ زندگی میں کوئی دعا قبول ہوئی ہے اور وہ بھی ایسے کہ دعاکرنے پر خود کے لیے بددعا کرنے کا جی چاہتا ہے۔ کاش کہ میںکچھ اورمانگ لیتی۔ یہاں آنے کامقصد کیا ہے؟ بس چند ہزار تنخواہ بلکہ خیرات ملی گی۔ وہ بھی کامران انکل کے احسان کے پیسے ہوں گے۔

اسکا چہرہ سنجیدہ تھا، وہ بول نہیں رہی تھی لیکن تاثرات اسکے چہرے پر الفاظ لکھ رہے تھے۔

 اللہ کیا تو میرا بھی ہے؟ مجھے کیوں نہیں لگتا؟ " " 

وہ جب سوچوں کے پلوں سے یاسیت کے سمندر میں اترتی تو کفر کے ساحل پر ناامیدی کے سیپ چنتی رہتی۔ وہ سیپ جو خالی ہوتے جیسے اسکے یقین کے بادل تھے۔ امید کی بارش سے خالی، کھوکھلے۔
ریکس کے بیچ گھومتے اس نے یاد کرنی کی سعی کی۔" میں یہاں کیا لینے آئی تھی؟ "

یہ نہیں تھا کہ اسکی یاداشت کمزور تھی۔ بس یہ تھا کہ سوچوں کے جالوں میں سب کھو جاتا تھا۔

ریکس کے بیچ گھومتے اس نے یاد کرنی کی سعی کی۔
" ہاں ایہل جیم لینا تھا۔ "

جالوں سے اٹے دماغ میں کہیں جواب نظر آیا تھا۔
وہ ریکس کے پاس رکی اور سر بلند کر کے جیم کے بوتل کو دیکھا۔ وہ اسکی پہنچ سے دور تھی۔ اس نے کسی سٹول کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔ وہاں ایسا کچھ نہ تھا جس پر چڑھ کر وہ جار اٹھا سکتی۔

" " کیا مصیبت ہے؟
اسکا جی چاہا پوری پینٹری تہس نہس کر دے۔پر وہ یہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ ہر طرح سے بےبس تھی۔ یا اسکی سوچ مفلوج تھی۔ جو بھی تھا۔ اس نے نیچے والے ریک پر پیر رکھ کر اوپر سے جار اٹھانا چاہا۔ سیب کے جیم کے جار کافی اوپر پڑے تھے اسلیے وہ ایک ہاتھ نیچے والے ریک پر جمائے، دوسرے کو بلند کیے جیم اٹھا رہی تھی کہ اسکا ہاتھ پسینے کے باعث پھسلا۔ اور وہ جار سمیت نیچے گری تھی۔
اس نے سر پر جمائے بازو اٹھا کر جارز کو دیکھا جو اس پر گرنے کے بجائے اسکے پہلو میں گرے تھے۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا تو نیوی بلیو شیف کوٹ میں ملبوس عماد ریاض جھکا کھڑا تھا۔ جیم کی بوتلیں اس کے بجائے عماد پر گری تھیں جو اسکی پشت سے بل کھاتی فرش پر زمین بوس ہو چکی تھیں۔
" آپ ٹھیک ہیں؟ "
وہ ریکس کے سہارے کھڑی ہوئی۔" جی! "
" کسی اور سے کہہ دیتی۔ "
اس نے اپنے کپڑے جھاڑے۔" اب یہ تو کر ہی سکتی ہوں۔ "
" میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ یقیناً آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ " وہ شائستگی سے مسکرایا۔
وہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا۔" یہاں صفائی کروائیں۔ "
عماد پلٹا۔" اس کے کتنے پیسے میری تنخواہ سے کٹیں گے؟ "
اس کے سوال نے سعدیہ کا دماغ بھک سے اڑا دیا۔ " آپکی تنخواہ طے کب ہوئی ہے؟ "
" مطلب؟ "
" آپ ٹرائل پر ہیں مس نور! ٹرائلز پر پیسے نہیں ملتے۔ "
وہ دبی دبی چلائی۔" یعنی میں یہ نوکری مفت میں کر رہی ہوں؟ "
" نہیں! ممکن ہے آپکو اسکے بعد پرمنٹ کر دوں۔ "
وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن خاموش رہی۔ بھلے وہ آرام سے بات کر رہا تھا پر تھا تو اسکاباس۔ اس سے وہ تلخی دکھا کر ممکن کو ناممکن نہیں کر سکتی تھی۔
وہ کہہ کر چلا گیا۔اسکی صفائی کراوئیں۔ " "
یعنی وہ یہاں بلاوجہ ہی نوکری کر رہی تھی۔ نہ تنخواہ، نہ ہی کوئی کام؟
اس نے کیوں اس کچن کی خواہش کی تھی؟ اسکی آنکھوں نے فوڈو منیا کے خواب کیسے دیکھ لیے تھے؟
کچھ خواب بھی کیسی انہونی ہوتے ہیں نا! دیکھ لو تو آنکھوں میں جھبتے ہیں، جی لو تو دل ہی زخمی کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی خواب سعدیہ نے دیکھا تھا جو انکھوں کی جھبن سے، دل کے زخم میں بدل گیا تھا۔

                            ٭                      ٭                  ٭

" مجھے اپنی ٹیم کے لیے فاریہ زیادہ بہتر لگی ہے۔ میں اسکی بیکنگ سکلز سے بہت متاثر ہوں۔ " 

عماد کے آفس میں اے سی کی خنکی چھائی تھی۔ راکنگ چئیر پر عماد بیٹھا تھا جس کے سامنے شیشے کی میز پر لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔ میز کی دوسری جانب صنم، ہما اور راشد بیٹھے تھے۔ صنم کی بات پر ہما نے اسے گھور کر دیکھا۔ اسے صنم سے خاص خار تھی۔

" صنم ضروری نہیں ہے کہ سب چیزیں آپ کی چاہت کے مطابق آپ کو مل جائے۔ " 

صنم کے ابرو سکڑے لیکن عماد نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ 

" ہما میرے خیال سے بھی فاریہ  پیسٹری شیف ہے۔ معیز کی چکن اور بیف میں اچھی مہارت ہے۔ " 

" میرا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن تینوں بچے پیسٹری سٹیشن پر جانا چاہتے ہیں۔ یوں فیصلہ مشکل ہو گا۔ " 

صنم نے راشد کی بات کی تائید کی۔ 

" ہم تینوں کا ایک اور ٹیسٹ لے لیتے ہیں۔ " صنم نے تجویز دی۔

" ہم بار بار ٹیسٹ نہیں لے سکتے۔ " ہما نے فوراً اختلاف کیا۔ " عبیدہ پیسٹری کے لیے بہترین چناؤ ہے۔ "

" میں ٹیسٹ والی تجویز سے متفق ہوں۔ " راشد نے بھی صنم کی طرف داری کی۔ فوڈو منیا والوں کو ہما بالکل نہیں بھاتی تھی لیکن وہ عماد کی وجہ سے اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ 

" ٹھیک ہے! پرسوں فائنل ٹیسٹ لے لیتے ہیں۔ لیکن ہما آپ کا ٹیم ممبر آپ کی چوائس کا ہی ہو گا۔ " 

ہما کے ہونٹوں کی کمان میں خم آیا۔

" آپ کسی کو بھی میرے حوالے کر دیں۔ کام میں سیکھا لوں گی۔ اب میں چلتی ہوں۔ نسیم اکیلا کچن کے کام دیکھ رہا ہے۔ باقی یہاں بس دولت کی نمائش کے لیے آتے ہیں۔ " وہ راشد اور صنم کی طرف طنز اچھالتی باہر نکل گئی۔

" میں بھی چلتا ہوں سر! باتوں کے ساتھ ساتھ کسی کو کام کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ "

ہما نے دروازے سے نکلتے راشد کو طنز سنا لیکن نظر انداز کرتی چلی گئی۔ راشد بھی اس کے تعاقب میں گیا۔

" کبھی کبھی یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ " صنم کو اس وقت سے غصہ آیا ہوا تھا۔ وہ طبیعتاً غصے کی تیز تھی لیکن عماد کے ساتھ رہتے اس نے غصہ کو اتنا قابو کرنا سیکھ کیا تھا کہ فوراً ردِعمل نہ دے۔

عماد مسکرایا۔ وہ اس سے زیادہ کیا کر سکتا تھا۔

" تم نے ہی اسے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ وہ بے وجہ ہی ماحول خراب کرتی ہے لیکن تم بالکل اسے کچھ نہیں کہتے۔ " وہ اچھی خاصی خفا ہو گئی۔

" اچھا اچھا بھئی۔ غصہ نہ کرو، بلاوجہ خون جلے گا۔ یہ بتاؤ عامر سے رابطہ ہوا؟ " 

" ہاں اگلے ہفتے آ رہے ہیں۔ کراچی کی جاب چھوڑنے کا دل نہیں کر رہا انکا۔ " 

" ایسے ہی نخرے کر رہا ہے۔ آنے دو ایک دفعہ پھر دیکھنا کیسے سیدھا کرتا ہوں۔ " 

" مجھے تو لگتا ہے تمہارے خوف سے نہیں آ رہا۔ " وہ ہنسی۔

" یہ بتاؤ سعدیہ کا کیا سوچا ہے؟ کل بھی ڈیڈ پوچھ رہے تھے۔ " صنم نے بات کا رخ بدلا۔ 

" میرے پاس بالکل گنجائش نہیں ہے۔ ویسے بھی اسکے پاس کوئی تجربہ ہے، نہ ہی کوئی ڈگری۔ " 

" لیکن وہ لڑکی پکاتی اچھا ہے۔ ایک دفعہ اسکا بھی ٹیسٹ لے لو۔ " 

عماد نے ابرو اچکائے۔ " دیکھتے ہیں۔ فی الحال تو میرے پاس وقت نہیں ہے۔ عامر آ جائے تو کچھ فراغت ملے۔ " 

صنم نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔ عماد فوڈو منیا کی توسیع کے لیے سوچ رہا تھا۔ اسکے لیے اسے بچت کرنی تھی۔ وہ بلاوجہ کے خرچے اہنے سر نہیں ڈال سکتا تھا۔ لیکن اسے کیا علم تھا کہ بے وجہ کے اخراجات اس کے سر ڈل چکے تھے۔ 

۔۔۔۔۔

" انکل میں پیسوں کے لیے تو نوکری کر رہی ہوں۔ پیسے نہیں ملے تو فائدہ کیا ہو گا؟ " 

وہ فون کان سے لگائے کہہ رہی تھی۔ حبس زدہ رات صحن میں چار سو پھیلی تھی۔ سمیرا اندر کمرے میں اسکا انتظار کر رہی تھیں جو جب سے آئی تھی، باہر تھی۔ 

" انکل آپ بات تو کریں۔ ایسے تو میں کام نہیں کر سکتی۔ " 

اس نے رک کر سنا۔

" میری مجبوری ہے۔ آپکو پتا ہے امی کا علاج کرانا ہے۔۔ " اسکی بات شاید بیچ میں کاٹ دی گئی تھی اسلیے وہ خاموش ہو گئی۔

" آپ کہیں اور بندوبست کروا دیں۔ " اس نے خفیف سی آواز میں کہا۔ 

کافی دیر وہ ہونٹ کچلتے انہیں سنتی رہی۔ اسکے تاثرات بتا رہے تھے کہ کامران صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ اسکا چہرہ سرخ ہو گیا، آنکھیں بھی برسنے کو بیتاب ہو گئیں۔ کچھ توقف کے بعد کال کاٹ دی گئی تو وہ اندر آ گئی۔

" کیا ہوا سعدیہ؟ " سمیرا بستر پر نیم دراز تھیں۔ اسکے آتے ہی سیدھی ہوئیں۔

" امی میں وہاں نوکری نہیں کرنا چاہتی۔ " اس کی آواز نم تھی۔

" کامران بھائی نے کیا کہا؟ " 

" وہی جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ جو اگر کوئی اور ہوتا تو یہ بھی نہ کرتا۔ وہ صرف بابا کی دوستی کی خاطر یہ کر رہے ہیں، اس پر صبر شکر کروں۔ " 

" تمہیں میں نے کہا تھا ان سے مت کہنا کچھ۔ ہم انکے سر پر سوار نہیں ہو سکتے بیٹا! " 

" ایک نوکری کی تو بات ہے امی! اپنی بیٹی کو تو سو شیف بنایا ہوا ہے۔ کتنی اچھی زندگی ہے صنم کی اور ایک میں ہوں۔ " 

" ایسا نہیں ہے بیٹا! اللہ تعالیٰ نے سب کو برابر دیا ہے۔ "

" اچھا؟ " اس کی نمناک آواز میں طنز تھا۔ " مجھے کیا دیا ہے؟ صنم کے پاس امی کیا کچھ نہیں ہے۔ فوڈو منیا کی سو شیف ہے. وہاں کے ہیڈ شیف کی منگیتر ہے۔ دولت، حسن، عزت، مہارت، ہنر، سب اسکے پاس ہے۔ میرے پاس کیا ہے؟ " 

" تمہارے پاس بہت کچھ ہے سعدیہ! ایسی باتیں نہیں کیا کرو۔ کسی کی زندگی سے اپنا موازنہ نہیں کرتے۔ ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ اگلے کی زندگی میں کتنی مشکلات ہیں۔ "

" اسکی زندگی میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ وہ کامران انکل کی بیٹی ہے، وہ اسے کچھ بھی دلا سکتے ہیں۔ "

" کامران بھائی خدا نہیں ہیں سعدیہ! وہ اسے بس وہ دلا سکتے ہیں جو اسکی قسمت میں ہے۔ تم اپنی زندگی پر غور کرو۔ ضروری نہیں ہے کچن میں کام کرنے والے تم سے بہتر ہیں۔ "

" میری زندگی اتنی مشکل کیوں ہے امی؟ " 

" کیونکہ خدا تمہیں کسی اعلیٰ مقصد کے لیے تیار کر رہا ہے۔ جن کو بن مانگے ملا ہے سعدیہ، انکے لیے بس اتنا ہی ہے. تمہارے لیے اس سے کئی بڑھ کر ہے۔ بس تمہیں اسکے لیے محنت کرنی ہے۔ " 

" صنم نے تو نہیں کی محنت۔ اسے کیوں سب ملا ہے؟ " 

" اسکی اور تمہاری زندگی میں فرق ہے سعدیہ! وہ مت مانگو جسکا تمہیں علم نہیں ہے۔ "

سعدیہ نے سر جھٹک کر آنسو صاف کیے۔

" چلو اب شاباش! کھانا کھا لو۔ " 

" نہیں کھانی مجھے دال۔ " 

وہ چادر درست کرتی لیٹ گئی۔ اسے بھی صنم جیسی زندگی چاہیے تھی۔ لیکن اسے علم نہیں تھا کہ وہ کس چیز کی خواہش کر رہی ہے۔ کاش کہ خدا تھوڑا سا غیب انسان ہر ظاہر کر دیتا تو دوسروں کی نعمتوں کی خواہش کرنے والے، اپنی کمیوں پر شکر ادا کرتے۔ 

۔۔۔۔۔






No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.