***Qatil Ishq***

 


***Qatil Ishq***
*Episode No:1*
***Writer Amna Nasir***

* Click Here to read Online*
or
*Download PDF File*


٭قاتلِ عشق٭

قسط نمبر:1
تحریر: آمنہ ناصر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عشق کی نگری میں معافی نہیں کسی کو

عشق عمر نہیں دیکھتا بس اجاڑ دیتا ہے

"میں تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں زمر "اس نے بے تابی سے کہا
"میں کیا کر سکتی ہوں ؟"زمر نے  کندھے اچکا کر کہا
"میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا مجھے نا ٹھکراؤ"
اس نے کہا لیکن زمر پر اس کے الفاظ کا اثر نا ہوا
"تم مرتے ہو تو مر جا ؤ مجھے تم سے کوئی لینا دینا نہیں"
وہ یہ کہتے ہو ۓواپس جانےکے لئے مڑی 
"زمر یاد رکھنا آج تم مجھے ٹھکرا کر جا رہی ہو ایک دن پچھتاؤ گی میری زندگی میں اگر تم نہیں تو کوئی بھی نہیں جب تک زندہ رہا تمہارا بن کر رہوں گاصرف تم سے محبت کروں گا لیکن تم ایسی محبت کو ترسو گی جب جب تم محبت کا نام لو گی میں تمہیں یاد آؤں گا "
زمر اس کی بات سن کر ہنسی اور سر جھٹکا
" لعنت بھیجتی ہوں میں تم پہ اور تمہاری محبت پہ زمر شاہ جس سے محبت کرے گی اسے پا لے گی دیتے رہو بدعا میں  پچھتانے والوں  میں سے نہیں ہوں "
اس نے گردن اکڑا کر کہا
لڑکا بےبسی سے اسے دیکھتا رہا اور واپسی ک لئے مڑ گیا
"ایک بات اور سنتے جاؤآیندہ مجھے اپنی شکل نہ دیکھانااور اب دفع ہو جاؤ "
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"یار آج بہت اچھا موسم ہے دعا کرو آج سر عفان چھٹی کر لیں "
معاز نے منہ بنا کر کہا
"یار میں ایک بات سوچ کر بہت پریشان ہوں میں تجھے اپنی پریشانی بتانا چاہتا ہوں لیکن ڈر ہے کہ تجھے برا نا لگے "
رحمان نے سوچتے ہوۓ کہا
معاز جو اس کی بات غور سے سن رہا تھا بولا
"یار تو بتا میں سن رہا ہوں مجھ سے ڈرتے کی کوئی ضرورت نہیں"
رحمان نے کہا "سر عفان بہت اچھے ہیں اور سختی بھی نہیں کرتے پھر تو ہر بار ان کے نا آنے کی دعا کیوں کرتا ہے ؟"
معاز جو اس کی بات بہت غور سے سن رہا تھا بات کے آخر میں اسے گھور کے رہ گیا
"یار تو تو آدم بیزار بندہ ہے لیکن میں تیرے جیسا نہیں ہوں مجھے پتا ہے اس دنیا میں پڑھائی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس میں کھو کر انسان خود کو بھی بھول جاتا ہے "
معاز نے مسکراتے ہے کہا
"مثلاً کیا کیا ؟"
"ہے نا خوبصورت موسم خوبصورت لڑکیاں جن سے محبت بھی کی جاسکتی ہے کسی کو مجھ سے بھی محبت ہو سکتی ہے اور پھر شادی بس بس لوٹ آؤ حقیقت کی دنیا میں اور دیکھ "
کیا ؟
معاز نے غصے سے کہا
"وہ سامنے دیکھ سر عفان آرہے  ہیں "
"یہ کیا سرنے آج ضرور آنا تھا ؟
معاز نے منہ بنا کر کہا
اب چل کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے رحمان نے گھڑی دیکھتے ہوے کہا
"ہاں چلو "
معاذ نے کہا اور ساتھ ہی کلاس کی طرف قدم بڑھا
ۓ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"یہ گھر ہے یا قید خانہ جہاں سے اجازت کے بغیرکہیں نہیں جا سکتے "
صبا نے کہا
"قید خانہ "چھوٹی سونیا نے ہنستے ہے جواب دیا
"تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی چلتی ہے ابھی بتاتی ہوں جسے ہی سونیا کے  پیچھے بھاگی دروازہ بجنے لگ گیا
اب کون آ گیا ہے ؟ صبا بڑبڑاتے ہو
ۓ دروازہ کھولنے گئی
"کون ہے ؟"
"میں "باہر سے جواب آیا
کون میں ؟
"ذیشان"
"اچھا کھولتی ہوں "
"شکر ہے دروازہ تو کھولا " ذیشان نے صبا کو محبت سے دیکھتے ہوے کہا 
"ذیشان بھائی کیسے ہیں آپ ؟"
سونیانے پوچھا
"میں ٹھیک ہوں گڑیا آپ کیسی ہو ؟"
"کون آیا ہے ؟"
امی نے کمرے سے پوچھا توذیشان کمرے میں چلا آیا
"السلام عليكم ! کیسی ہیں پھپو آپ ؟"
"میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناؤ کیسے ہو اور بھائی بھابی کیسے ہیں ؟"
"میں بھی ٹھیک ہوں اورامی ابو بھی ٹھیک ہیں "
یہ لیں آپ کی داوایاں میں یہ دینے آیا تھا
"خوش رہو بیٹا "
پھپھو میں اب چلتا ہوں دکان میں کوئی نہیں ہے
ذیشان نے کہا
بیٹا ابھی تو آ
ۓ ہو تھوڑی دیر بیٹھو "
جہاں آرا بیگم نے کہا
"پھر آؤں "
"دکان پہ کوئی نہیں ہے "
اچھا خیر سے جاؤ اور آتے رہا کرو
"جی ضرور "
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا زمر میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا
"تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا  میں تو تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا میں تمہارے بغیر کیسے جیوں گا"
"ٹھیک کہتے ہیں محبت کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اسے پانا بہت مشکل تمہاری محبت مجھے جینے نہیں دے گی زمر لیکن تم میری حالت سے واقف نہیں میں کیا کروں تمہیں میری محبت پہ یقین کیوں نہیں آتا؟ "
وہ اپنی محبت کی موت کا ماتم اکیلا کر رہا تھا کوئی اسے دلاسا دینے والا نہیں تھا
آج تمہارا سلوک دیکھ کر مجھے فراز کا وہ شعر یاد آگیا شائد یہ شعر میرے لئے ہی کہا تھا کہ:

ہم محبت میں خود کو بادشاہ سمجھتے تھے فراز

پتا تو تب چلا جب وفا مانگتے رہے فقیروں کی طرح

وہ شعر پڑھنے کے بعد تڑپ ک رو پڑا اور خیال میں زمر سے کہنے لگا
"آج دیکھو میں بھی فقیر بن کر تمہاری چوکھٹ پہ آیاتھا لیکن تم نے مجھے بھیگ کےقابل بھی نہیں سمجھا اب مجھے پتا چلا کے جن کو محبت ہو جا
ۓ وہ بھیگ کے قابل بھی نہیں رہتے آج میں ٹوٹ گیا ہوں لیکن مجھے سمیٹنے والا کوئی نہیں محبت کرنے والے جب مرتے ہیں تو ان پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا جسے زندہ رہتے ہوۓ محبت کرنے والوں کو ٹھکرا دیا جاتا ہے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی ان کے غم کو بانٹنے والا نہیں ہوتا ایسے ہی جب مر  جائیں تو کوئی ان کی موت پر رونے والا نہیں ہوتا محبت میں شکست بھی تو موت ہوتی ہے "
اس کی سسکیاں نہیں رک رہی تھی
" زمر ایک دن تم میری محبت کو یاد کرو گی اور مجھ سے ملنا چاہو گی لیکن تب تک یہ زندگی ختم ہو جا
ۓ گی "
اگر زمر اسے اس حالت میں دیکھ لیتی تو شائد اس کی محبت کی شدت کو دیکھ کر خود پر فخر کرتی لیکن یہ فخر زمر کے نصیب میں نہیں تھا
"آج میری محبت کو ٹھکرا دیا گیا آج میری محبت مجھ سے چھن گئی تو آج میں بھی مرگیا"
"مگر افسوس میری موت پہ کوئی رونے والا نہیں "
اس کی ساری رات روتے ہو
ۓ اپنی محبت کی موت کا ماتم کرتے گزر گئی اور دوسری طرف زمر کی محبت کی شروعات ہو گئی مگر اس کو نہیں پتا تھا کہ جو لوگ دلوں کو توڑتے ہیں ان کے  دل کبھی نہیں بستے مگر یہ اسے کون بتاتا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"یار تمہیں پتا ہے آج دو لڑکیاں ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں آئیں ہیں"
معاذ نے پر جوش ہو کر بتایا
"تو میں کیا کروں ؟"
رحمان نے بیزار ہو کر کہا
"یار تجھ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے "
معاذ اسے گھو ر کر کہا
"پھر بھی باز نہیں آتے "
رحمان بھی اسی کا دوست تھاایسے ہی بولا
"اچھا یار سن دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں میں نے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا کیا لڑکیاں ہیں تم دیکھتے نا بس بس "
رحمان نے اسے ٹوکا
سن تو
"مجھے لگتا ہے اللہ
پاک نے مجھے بنایا ہی اس لئے ہے کے میں ان میں سے ایک لڑکی سے شادی کر لوں کیوں تیرا کیا خیال ہے ؟"
معاذ نے رحمان سے کہا
"میرا خیال تمھارے خیال سے مختلف ہے "
رحمان نے کہا
"تجھ سے یہی امید تھی تجھ سے میری خوشی برداشت ہی نہیں ہوتی دفع ہوجاؤ اب مجھ سے بات نا کرنا"
معاز یہ کہنے کے  سا تھ ہی وہاں سے چلا گیا تو رحمان نے اسے روکا اور کہا
" بتا میں سن رہا ہوں کون سی"یار وہ لڑکی "
ابھی اتنا ہی کہا تھا تو اسے یاد آیا کہ نام تو پتا نہیں اب کیسے بتاؤں ؟
جب رحمان نے اسے سوچتے ہو
ۓ دیکھا تو پوچھا
"اب کیا ہوا بتاؤ بھی "
"یار بات یہ ہے کہ مجھے اس کا نام نہیں آتا جو لڑکی میرے دل کو بھا گئی ہے "
معاذ نے شرمندا ہوتےہو
ۓ کہا
"ماشاءالله ! بہت خوب کمال کے بندے ہو محبت بھی کس سے کی جس کا نام بھی نہیں آتا......
"اب تم میرا مذاق نا اڑاؤ کل پتا کر لوں گا نام پتا کروانا کون سا مشکل ہے "
معاز نے گردن اکڑا کر کہا
"اچھا اچھا بس کر پتا ہے تو بہت بڑا پھنے خاں  ہے پوری یونیورسٹی تم سے ڈرتی ہے اب تو مجھے بھی ڈر لگنا لگا ہے "
رحمان نے ڈرتے کی اداکاری کی
"یار تو نہیں جانتا یہ محبت کیا چیز ہے ؟جس کو محبت ہوجا
ۓ وہ ہوش میں نہیں رہتا بس اپنی ایک دنیا ہوتی ہے جس میں محبوب ہوتا ہے اور تنہائی مجھے افسوس ہے تو ان میں شامل نہیں تیری جگہ اس دنیا میں ہے جہاں تو اور تیرے سر عفان بس باقی کسی کی گنجائش نہیں "
معاذ نے ہاتھ جھاڑ کر کہا
"میں تمہیں بتاتا ہوں بد تمیز " جیسے ہی رحمان نے اس کی گردن پکڑنی چاہی تو وہ اسے دھکا دے کر بھاگ گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"سونی بات سنو ! "
"جی آپی "
سونیا نے کہا
"میری پیاری گڑیا میرا ایک کام کر دو گی تم تو میری پیاری بہن ہو "
صبا نے اپنی آواز میں دنیا جہاں کا پیار سمو کر کہا
آپی کر دوں گی لیکن میری ایک شرط ہے ؟
سونیا نے آنکھیں مٹکا کر کہا
اچھا بتاؤ کیا شرط ہے میں اپنی گڑیا کی ہر شرط مانوں گی
صبا نے بڑی لجاجت سے کہا
"آپی آپ اپنا میک اپ کا سامان مجھے بھی دو گی "
"اچھا لے لینا بس اب بات سنو !
اپنے ذیشان بھائی کو کہو کے ماموں اور ممانی کو کب لے کر آرہے ہیں گھر کہنا آپی بہت اداس ہیں اب تم جاری ہو نا امی ک ساتھ امی مجھے تو لے کر نہیں جاتی "
"ٹھیک ہے میں کہ دوں گی "
سونیا اٹھنے لگی تو صبا نے کہا کہ کسی کو نا بتانا کہ میں نے کہا ہے ٹھیک ہے "
ہاں ٹھیک ہے اب جاؤں ؟
"ہاں جاؤ "
"کہاں ہو صبا اس لڑکی کو پتا نہیں کیا ہے کبھی ٹائم پر نہیں ملتی کہاں گم ہو "
جہاں آرا بیگم نے اونچی آواز میں کہا
"آرہی ہوں امی بس گڑیا سے بات کر رہی تھی "
صبا دوڑ کر جہاں آرا بیگم ک پاس آئ
"اچھا ذرا دروازہ بند کر لے میں تیری ممانی کے پاس ہو کر آتی ہوں "
جہاں آرا بیگم نے کہا اور باہر نکل گئیں
صبا نے دروازہ بن کیا اور کمرے میں جانے کی بجا
ۓ صحن میں بیٹھ گئی اور ماضی کو سوچنے لگی
کتنے پیارے دن تھے جب ابو بھی ہمارے ساتھ تھے ابو کے  بغیر یہ گھر کھانے کو دوڑتا ہے
جہاں آرا بیگم اور مراد صاھب کی دو ہی بیٹیاں تھیں بڑی والی صبا اور چھوٹی سونیا صبا نے ابھی
BA کیا تھا اور وہ اپنے ماموں  کے بیٹے ذیشان سے محبت کرتی تھی اور وہ بھی صبا سے محبت کرتا تھا صبا کی ایک ہی ماموں  تھی جن کا ایک ہی بیٹا تھا ذیشان اپنے والدین کا لاڈلا ...
صبا سوچو میں ایسے کھوئی اسے پتا بھی چلا ک کب شام ہوگئی جب دروازہ کھٹکا تو اسے ہوش آیا
"امی آپ اتنی جلدی آگئی ابھی تو گئی تھیں "
"اے لڑکی ہوش ک ناخن لے شام ہو گئی ہے کن خیالوں میں گم ہو"
صبا کی امی نے کہا
بس ویسے ہی ....
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج حماد کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا اور وہ بہت کنفیوز تھا وہ گهبرايا ہوا اپنے ڈیپارٹمنٹ کو ڈھونڈھ رہا تھاکہ کسی سے ٹکرا گیا
"اوہ ! ایم سوری میں نے دیکھا نہیں "
"تو مسٹر دیکھ کر چلا کریں پتا نہیں کہاں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں پڑھنا تو کچھ نہیں ہوتا بس لڑکیوں سے ہی ٹکراتے رہتے ہیں اور بعد میں سوری " 
زمر نے کہا
"میں نے واقعی آپ کو نہیں دیکھا تھا آپ غصہ نا کریں "
حماد نے گھبراتے ہو
ۓ کہا
"اچھا راستہ چھوڑو "
وہ سائیڈ سے نکل کر اپنی دوست کے پاس چلی گئی جو یہ سب دیکھ رہی تھی
"کیا ہوا ؟"
"کچھ نہیں بس لوگ پہلے ٹکراتے ہیں بعد میں معافی مانگ لیتے ہیں بس چھوڑو کلاس میں جاتے ہیں "
وہ دونوں کلاس کی طرف چل پڑیں
"کیا ہوا یار تو یہاں کیوں کھڑا ہے ؟"
رحمان نے حماد سے پوچھا
"کچھ نہیں ویسے ہی یار مجھے اپنا ڈیپارٹمنٹ نہیں مل رہا "
"اچھا میں دکھاتا ہوں میں نے کہا بھی تھا کہ میری والی یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لو لیکن تم اپنی مرضی کے مالک ہو اب ایسے خوار ہونا .."
رحمان نے کہا اور چل پڑا
" اب چلو یا اٹھا کر لے جاؤں معاذ نے  بھی بہت کہا تھا کہ ... چھوڑو اب بولنے کا فائدہ " رحمان نے کہا
یہ لو آ گیا تمہارا ڈیپارٹمنٹ اب خوش ؟
"ہاں بہت "
"اب میں چلتا ہوں آل دا بیسٹ "
وہ حماد کے گلے لگا اور چلا گیا
کلاس میں داخل ہوتے ہی حماد کی پہلی نظر زمر پر پڑی اور وہ زمر کو دیکھتا رہ گیا کوئی اتنا بھی خوبصورت ہو سکتا ہے
.

آنکھیں جھکی جھکی سی ہیں
چہرے پہ نور ہے
ظالم کی سادگی میں
کتنا غرور ہے

حماد جب سے گھر آیا تھا اپنے کمرے میں بیٹھا زمر کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔
وہ اپنی سوچوں میں اتنا مصروف تھا کہ اس کو نورین بیگم کے آنے کی بھی خبر نہیں ہوئی ۔
"کیا بات ہے بیٹا ؟
کہاں کھوئے ہو ئے ہو جو اپنی ماما کے آنے کی خبر نہیں ہوئی ؟
نورین بیگم نے حماد کو پیار سے دیکھتے ہو
ۓ کہا ۔
تو حماد بولا
اوہ !سوری ماما میں ویسے ہی کچھ سوچ رہا تھا ۔
"بابا نہیں آئے ابھی تک ؟
بہت ٹائم ہوگیا ہے ۔
حماد نے نورین بیگم سے پوچھا۔
"میری جان !آج آپ کا پہلا دن تھا یونیورسٹی میں اور آپ کو یہ بھی بھول گیا کہ آپ کے بابا لیٹ آتے ہیں ابھی تو آٹھ بجے ہیں "
نورین نے کہا تو حماد شرمندہ ہوگیا ۔
اوہ! سوری ماما میں بھول گیا تھا ....
"آج یونیورسٹی میں ایسا کیا ہوا ہے کہ میری جان کو گھر کی بھی خبر نہیں رہی "
نورین نے حماد کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا ۔
"کچھ نہیں بس تھک گیا ہوں تھوڑی دیر آرام کروں گا ۔"
نہیں بتانا چاھتے تو آپ کی مرضی بیٹا آپ آرام کرو ۔
نورین بیگم نے کہا اور جانے لگیں ۔
"ماما آپ نے کھانا کھالیا ہے ؟
نہیں آپ کے بابا آئیں گے تو ایک ساتھ کریں گے ۔
آپ  نے کھانا ہے ؟
نورین نے پوچھا تو حماد بولا
"نہیں دل نہیں چاہ رہا جب بھوک لگے گی تو کھا لوں گا ۔"
"اوکے بیٹا ۔
نورین بیگم چلی گیں تو وہ پھر زمر کے خیالوں میں کھو گیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"اوہ ہاں ! رحمان جو دو لڑکیاں کل یونیورسٹی آئیں تھیں ان کے بارے میں پتا لگ گیا ہے ۔"
معاز کے کہنے پر رحمان اسے کچھ دیر دیکھتا رہا اور بولا
"کون سی ؟
کل  ہی تو بتایا تھا تم بھول بھی گئے ؟
معاز نے رحمان کو گھورتے ہو
ۓ پوچھا
اوہ !اچھا ......
کیا پتا لگا ان لڑکیوں کے بارے میں ؟
رحمان نے پوچھا
ان میں سے ایک کا نام ماہ رخ ہے اور دوسری انوشہ ہے ۔
کسی اور یونیورسٹی سے مائیگریشن کروایا ہے یہاں ان دونوں نے ۔
معاز کے کہنے پر رحمان نے سر
ہلایا ۔
چلو اب کلاس میں چلتے ہیں ۔
میم ثمن کی کلاس لے کر وہ  لائبریری آگئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج ماموں اور ممانی دونوں گھر آ
ۓہو ۓتھے ۔
صبابہت خوش تھی ۔وہ چا ئے بنا کر ماموں کو دیتے ہو
ۓبولی
"ماموں آج کھانا بھی ہمارے گھر کھانا ہوگا ۔"
نہیں بیٹا ہم کھانا تو گھر جاکر کھائیں گے کیونکہ آج ذیشان کے ماموں اور ممانی آرہے ہیں ۔
ماموں کے بولنے سے پہلے ممانی نے کہا تو صباچپ ہوگئی ۔
جہاں آرا تم کل ضرور آنا اور صبا بیٹا آپ بھی ۔
ماموں نے کہا
بھائی صاحب میں آنے کی کوشش کروں گی اگر میں نا آسکی تو صبااور سونیا ضرور آئیں گیں ۔
جہاں آرا بیگم نے کہا
احسان اور کلثوم تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے ۔
امی ماموں گھر کس لئے بلا رہے تھے ۔
صبانے پوچھا
"وہ ذیشان کی منگنی کرنے لگے ہیں کلثوم کی بھتیجی ہے اس سے ۔"
یہ کہہ کر جہاں آرا بیگم اپنی آنکھیں صاف کرنے لگیں ۔
"کیا ؟
صبا جو میٹھائی کھانے لگی تھی اس کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبا چھوٹ گیا
ہاں ! میں سمجھی تھی وہ ذیشان کے لئے تمہارا ہاتھ مانگیں گے لیکن انہوں نے اپنی بیوہ بہن کو چھوڑ کر کسی اور کی بیٹی کو دیکھا ۔"
جہاں آرا بیگم کا دکھ کم نہیں ہورہا تھا
صبا نے اپنی ماں کو روتے ہو
ۓ دیکھا تو خود کو سمبھالا اور بولی
"امی آپ کیوں رو رہی ہیں اللہ
بہتر کرنے والا ہے ۔"
آج مجھے تمہارے ابو یاد آگئے اگر وہ زندہ ہوتے تو مجھے تم دونوں کی فکر نا ہوتی ۔
میری زندگی کا کیا بھروسہ آج ہے کل ختم ہو جا
ۓ ۔
اللہ
آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے ۔
صبا نے روتے ہو
ۓ اپنی ماں کو گلے لگا لیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں مر جاؤں گا ماما "
اس نے اپنی ماں سے کہا
اللہ
نہ کرے !
"تم ایسی باتیں نہ کیا کرو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔"
اس کی ماں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگاتے ہو
ۓ کہا
"ماما ! محبت کیسی چیز ہے جو نہ مرنے دیتی ہےاور نہ ہی جینے۔ زمر کو سمجھ کیوں نہیں آتی اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟
اس کی ماں سے اس کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا اور زمر کے لئے ان کے دل سے بد دعائیں نکل رہی تھیں ۔
اللہ
کرے تم کبھی خوش نہ رہو تم بھی ایسی ہی تکلف سے گزرو جس تکلیف سے میرا بیٹا گزر رہا ہیں ۔
انہوں نے دل میں کہا
میں رحمان کو کال کرتی ہوں تم ادھر ہی بیٹھو ۔
وہ ہی تمہیں سمجھائےگا۔
یہ کہہ کر وہ رحمان کو کال کرنے لگیں ۔
"ہیلو !کیسے ہو حماد ؟
رحمان نے پوچھا
"رحمان تم آجاؤ....."
نورین بیگم نے روتے ہو
ۓ کہا
"کیا ہوا آنٹی ؟
حماد تو ٹھیک ہے ؟
رحمان نے پوچھا
"نہیں! وہ ٹھیک نہیں ہے اس لڑکی نے میرے بیٹے کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔"
نورین بیگم نے کہا تو رحمان بولا "آنٹی آپ خود کو سمبھالیں میں آرہا ہوں ۔"
نورین بیگم نے فون رکھا اور حماد کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے سلانے کی کوشش کرنے لگیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"حماد کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا ؟
چلو اٹھو شاباش نہاؤ اور کپڑے بدلو۔"
رحمان نے گھر آکر حماد کی حالت دیکھی تو سر تھام کے رہ گیا
"رحمان..... رحمان وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی اس نے بس مذاق کیا تھا ۔
لیکن میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں ۔میں مر جاؤں گا میں مر جاؤں گا ۔"
وہ رحمان کی بات سننے کی بجائے اپنی ہی بولے جارہا تھا
رحمان نے بڑی مشکل سے اسے قابو کیا اور واش روم میں لے گیا ۔
نورین بیگم نے حماد کے کپڑ ے نکا لے اور کمرے سے چلی گیں ان سے حماد کی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی ۔
رحمان نے اس کے کپڑے تبدیل کروائے اور نیند کی گولی دے کر سلا دیا ۔
"آنٹی آپ خود کو سمبھالیں ۔اگر آپ ہمت ہار گیں تو حماد کو کیسے سمبھالیں گے ہم "
بیٹا ماں ہوں نہیں دیکھ سکتی اپنے بیٹے کو اس حالت میں اس نے میرے بیٹے کے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟
کیا کسی کے دل سے کھیلنا اتنا آسان ہوتا ہے ؟
میں اس لڑکی کو کبھی معاف نہیں کروں گی جس نے میرے شہزادے جیسے بیٹے کو اس حال تک پھنچا یا ہے ۔
نورین بیگم رونے لگیں تو رحمان نے انہیں سینے سے لگا لیا ۔
آنٹی ٹھیک ہوجا
ۓ گا حماد میں اور معاز سمبھال لیں گے اور دیکھنا آپ حماد پہلے جیسا ہو جاۓ گا آپ بس دعا کریں ۔
رحمان نے کہا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مبارک ہو ؟
صبا نے کہا تو ذیشان نے نظریں چرا لیں
"میں نے امی کو منانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن وہ نہیں مانیں ۔
میں وعدہ کرتا ہوں میں امی کو منا لوں گا ابھی تو صرف منگنی کرنے لگے ہیں میں شادی صرف تم سے ہی کروں گا ۔"
ذیشان نے پر اعتماد انداز میں کہا تو صبا بولی
"ممانی نے ابھی تمہاری بات نہیں مانی تو بعد میں کیا مانیں گیں ۔
میں اس لئے آج آئی ہوں کہ تمہیں بتا سکوں مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہاری شادی کہاں ہو رہی ہے میں بہت خوش ہوں ۔"
وہ یہ کہہ کر رکی نہیں آنسوں صاف کرتی ہوئی بھاگ گئی اور ذیشان سر تھام کر بیٹھ گیا ۔
ذیشان ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کیا کرے اسی وقت کلثوم بانو چلی آئیں ۔
ادھر کیا کر رہے ہو چلو میرے ساتھ ....
انہوں نے کہا تو ذیشان اٹل انداز میں بولا
" امی میں یہ منگنی نہیں کر سکتا میں صبا سے محبت کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا۔"
لیکن میں اپنی بھتیجی سے ہی تمہاری شادی کرواؤں گی چلو میرے ساتھ ۔
کلثوم بانو نے ذیشان کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہو
ۓ کہا ۔
ذیشان نے اپنا بازو ان سے چھڑیا اور بولا
"امی اگر آپ نے میری بات نا مانی تو میں ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ دوں گا ۔
یہ کہہ کر وہ گھر سے باہر چلا گیا اور کلثوم بانو سوچیں لگیں کہ اب کیا کریں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہیلو !کیسے ہیں آپ ؟
زمر نے عدیل کو کال کی
"میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسی ہو زمر ؟
عدیل نے پوچھا تو وہ بولی
تمہارے بن دل نہیں لگ رہا آج کہیں باہر ڈنر کرتے ہیں بہت دن ہو گئے تم ملنے نہیں آ
ۓ"
میں تو ملنے آیا تھا لیکن تمہیں اپنے رومیو سے ہی فرصت نہیں ملتی ہر وقت تو اس کے ساتھ ہوتی ہو ۔"
عدیل نے کہا تو وہ بولی
وہ تو مذاق تھا شرط لگائی تھی جیت گئی ۔
کیا مطلب ؟
عدیل جو یہ سمجھ رہا تھا کہ زمر حماد سے محبت کرتی ہے اب حیرت سے پوچھا
"اب اس کو چھوڑو اپنا سوچو محبت میں تم سے ہی کرتی ہوں۔"
اپنے ماما بابا کو کب لے کر آرہے  ہو میرے گھر ؟
زمر کے کہنے پر عدیل بولا
"میں  نے بات کی تھی ماما سے وہ کہہ  رہی تھیں بابا سے بات کریں گیں تو پھر ....."
اچھا چلو آج کا ڈنر پکا میں ویٹ کروں گی تمہارا اوکے
زمر نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ رحمان اور معاز کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ حماد زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا ۔
کیسے ہو ماما کی جان ؟
نورین بیگم نے کمرے میں آکر کہا
ٹھیک ہوں ماما بس تھوڑا پڑھ رہا تھا ۔
حماد بولا
اچھا بیٹا پڑھو اللّہ کامیاب کرے اور رحمان کب آ
ۓگا ؟
وہ آنے والا ہوگا ابھی کال آئی تھی ۔
اچھا بیٹا میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو "
نورین بیگم نے کہا تو وہ بولا
نہیں ماما ابھی کسی چیز کی ضرورت نہیں جب ہوگی تو میں خود لے لوں گا ۔
نورین بیگم کمرے سے چلی گیں۔

(جاری ہے )

 

2 comments:

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.