***Muhabbat Phool Jasi Hay ***

***Muhabbat Phool Jasi Hay***

*Episode No : 4*

*Writer Isha Rajpoot*

*Click here to read online*

or

*Download PDF File*

Muhabat Phool jasi hay

٭ محبت پھول جیسی ہے٭

قسط نمبر :4

تحریر:  عشاء راجپوت

وہ اس سرد پڑتے کمرے میں پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔

ام۔۔۔امی۔۔۔۔۔

نم پلکوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔

آواز لڑکھڑا سی گئی۔

وہ یکدم ہڑبڑا کر آنکھیں کھولتا اٹھ بیٹھا۔

دھڑکنوں کی رفتار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

پیشانی پہ پسینے کی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔

بےساختہ نظر اپنے شانے پہ گئی جہاں اسے وہ لمس محسوس ہوا تھا۔۔مگر اب۔۔۔۔اب وہ دست شفقت اس سے چھن چکا تھا۔

اب اسکا کندھا تھپتھپانے والے، آنسو پونچھنے والے، پیار کرنے والے، بال سنوارنے والے، ہمت بندھانے والے وہ ہاتھ اس کے سر پہ نہ رہے تھے۔

سر پہ ماں ماں کی مامتا کی چادر نہ رہی تھی۔

پرخلوص بے ریا محبت کرنے والا وہ وجود نہ رہا تھا۔

آخر یہ سب کس کی وجہ سے ہوا تھا؟؟

اس کے باپ کی وجہ سے۔

سر میں درد کی شدت سے ٹیسیں اٹھنے لگیں۔

دل میں اک ابال سا اٹھنے لگا۔

اس کی رگ رگ میں خون نہیں بلکہ غصہ دوڑنے لگا۔

بھنچے لب، تنے نقوش، ہاتھوں کی مٹھیاں اس قدر زور سے بھینچ ڈالیں کہ بازو تک کی نسیں ابھرنے لگیں۔

ایک بار پھر دل میں شدت سے باپ کی نفرت جاگی تھی۔

اس کی عزیز از جاں ہستی ،اس کی ماں کو اس سے جدا کر دیا گیا تھا۔

آنکھیں ضبط سے سرخ پڑنے لگیں۔

یکدم ہی بدن کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔

آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔

غصے کی کیفیت پہ قابو پانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

اسے گھٹن محسوس ہونے لگی۔

دیر تک شاور کے نیچے بھیگتا رہا۔

تاکہ خود میں اٹھتے غصے اور نفرت کے ابال فی الحال دبا سکے۔

ایسا کرنے میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی رہا اور اس دوران اس کا ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا رہا۔

باتھ سے نکلا تو سیل کی مسلسل چنگھاڑتی آواز نے ثمران کا استقبال کیا۔

عالم نیازی کا نمبر سکرین پہ ٹمٹما رہا تھا جن پہ”ڈیڈ کالنگ“کے الفاظ واضح بلنک کر رہے تھے۔

وہ سیل ہاتھ میں پکڑے سٹل کھڑا ساکت نظروں سے سکرین دیکھے گیا حتیٰ کہ روشن سکرین تاریک پڑ گئی۔

اس کی انگلیاں حرکت میں آئیں۔

اس نے دیکھا کہ کال لاگ عالم نیازی کی کالز سے بھرا پڑا تھا۔

ہاتھ میں تھاما سیل ایک بار پھر بج اٹھا اس بار کال رسیو کر ہی لی۔

What happened?

سپاٹ لہجے میں کال کرنے کا مقصد پوچھا گیا۔

نجانے عالم نیازی نے کیا کہا تھا کہ وہ سختی سے لب بھینچ گیا۔

کچھ دیر خاموشی سے دوسری جانب کال پہ موجود ہستی کو تحمل سے سنتا رہا  پھر جواب میں مخاطب ہوا۔

Okay...... i'll be there in next 20 minutes.

مزید بن کچھ کہے ثمران نے کال ڈراپ کر دی۔

اب کہ چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے پاک تھا۔

وہ پل میں ہی کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔

یہ تو اس کا ظاہر تھا مگر دل و دماغ میں کیا چل رہا تھا کوئی نہ جانتا تھا۔

***********

کچھ ہی دیر میں وہ ہاسپٹل میں موجود نکاح کے پیپرز پر سائن کر رہا تھا۔

اظفار قریشی کو دل کا دورہ پڑا تھا مگر اللّٰہ کے فضل سے کسی بھی قسم کا جانی نقصان ہونے سے بچ گیا تھا۔

 

مگر اس حادثے کے بعد اظفار قریشی اپنی بیٹی کو لے کر مزید فکرمند ہو گۓ تھے اس لیے آنً فانً فیصلہ طے پایا اور اب ان کی اکلوتی اولاد زوہل قریشی سے زوہل ثمران نیازی بن چکی تھی۔

ثمران نکاح کے فوراً بعد ہی چلا گیا تھا۔

بالکل خوموش سا۔

***********************

ہسپتال کے کمرے میں اس وقت صرف وہ اور اس کے بابا تھے۔

زوہل ان کے پاس بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔

زوہل بیٹا۔۔۔۔

انہوں نے ہولے سے پکارا۔

جی بابا۔

اس نے ہاتھ کی پشت سے گالوں پہ لڑھکے آنسو صاف کیے اور ان کے پاس بیڈ پر ان کا ہاتھ تھامے بیٹھ گئی۔

مجھے ۔۔تم سے بات کرنی ہے۔

نقاہت زدہ سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

باتیں تو ہوتی رہیں گی بابا۔۔۔۔آپ آرام کیجیے۔۔۔۔ویسے بھی ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔

وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتی ذرا سا مسکرا دی۔

مگر یہ مسکان بھی زخمی سی تھی۔ آنسو پھر سے رواں ہوۓ۔

اگر اس کے بابا کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔یہ سوچ ہی اسے ہلا کر رکھ دیتی۔

ناراض ہو اپنے بابا سے؟؟تمہاری مرضی جو دریافت نہیں کی۔

بے ساختہ گردن نہ میں ہلی تھی اور وہ اپنے بابا کے کندھے سے لگ کر سسک پڑی تھی۔

انہوں نے اپنا نحیف سا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا۔

میرا بیٹا تو شیر ہے نا۔۔۔۔۔۔بہت بہادر۔۔۔۔یوں رو کر خود کو کمزور ثابت نہیں کرے گا۔

انہوں نے ہمیشہ اسے اپنا بیٹا ہی کہا تھا اور اسی طرح ڈیل کرتے آۓ تھے۔

زوہل نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلایا تھا البتہ رونے کا شغل اب بھی جاری تھا۔

تو پھر میرا شیر بیٹا آج مجھ سے ایک وعدہ کرے گا۔

وہ ان سے الگ ہوئی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

میری زندگی کا کیا بھروسا۔۔۔آج ہے تو کل نہیں۔۔۔کل کس نے دیکھا ہے۔ مگر تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا کہ آج اور ابھی سے تم نا صرف اپنا بلکہ اپنے شوہر کا بھی خیال رکھو گی۔

بابا۔۔۔۔

وہ سسکی مگر اظفار قریشی نے اس سے وعدہ لے لیا۔

تمہاری ماں حیات ہوتی تو شاید آج وقت اور حالات کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔

وہ دور خلاء میں غیر مرئی نقطے کو مرکز دید میں رکھے کھوۓ کھوۓ سے بولے،لہجے میں بے پناہ چاہ کے ساتھ کسی ادھوری خواہش کی کسک بھی شامل تھی۔

اپنی زندگی کے نکاح کے اس اہم موقع پر ماں کی کمی کا احساس تو زوہل کو بھی شدت سے ہوا تھا۔

بے شک نکاح جن حالات میں بھی ہوا مگر اس پاک رشتے کو لے کر اس کے من میں بھی عام دوشیزہ کی طرح ان دیکھے سپنوں کا محل آباد تھا جس کی سرزمیں پہ اس نے آج تک کسی غیر کو قدم تک نہ رکھنے دیا لیکن ایک شدید حسرت دل میں پوشیدہ تھی کہ کاش آج اسے بھی ماں کی بے ریا محبت میسر ہوتی۔

مگر یہ صرف ایک حسرت تھی اس نے کبھی ناشکری نہیں کی کیونکہ باپ کا سایہ تو اس کے سر پہ سلامت تھا نا۔

ماں کی مشفقانہ آغوش کو تو کسی اور نے بھی بڑی تڑپ سے یاد کیا تھا۔۔۔۔۔اور وہ تھا۔۔۔ثمران عالم نیازی۔۔۔۔۔جس نے اس دنیا میں صرف ایک ہستی ماں سے محبت کی۔

اس سے قبل کہ اظفار قریشی اپنی اہلیہ کی یاد کے ساتھ ماضی کی لہروں میں بہہ جاتے انہوں نے زوہل کو مخاطب کیا۔

بیٹا معلوم نہیں اور کتنے دن جی پاؤں گا۔۔۔مگر بچی کچی سانسیں جو زندگی پہ ادھار ہیں۔۔۔۔۔ان میں تمہیں ہنستا بستا دیکھنا چاہتا ہوں اس لیے میں نے ایک اور فیصلہ کیا ہے۔

زوہل کی آنکھوں کا وہ جھرنا جو بمشکل تھما باپ سے دوری کی بات پر پھر سے بہنے لگا۔

اظفار قریشی نے اسے رونے تو دیا مگر بولنے کا موقع نہ فراہم کرتے ہوۓ اپنی بات جاری رکھی۔

ثمران بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔۔إن شاء الله  تمہارے حق میں بھی اچھا ہی ثابت ہو گا۔

جس بندھن میں تم دونوں اب بندھ چکے ہو۔

اس رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے۔یہ بندھن جتنا مضبوط ہے اتنا ہی کمزور بھی ہے بس اسے بے جا غلط فہمی اور شک کی نذر مت ہونے دینا ورنہ مضبوط سے مضبوط تر رشتوں کی ڈور بھی ٹوٹ جاتی ہے۔

یہ بات ناجانے کیا سوچ کر ان کی زبان پہ آئی تھی۔

اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے اور ڈھیروں خوشیوں سے نوازے۔ آمین۔

 زوہل نے نظر اٹھا کہ باپ کو دیکھا جو کہ چشم پر نم کے بھیگے گوشے صاف کر رہے تھے۔

اتنے میں عالم نیازی اندر داخل ہوۓ۔

سامنے نظر آتے اموشنل سین کا اثر زائل کرنے کو بولے۔

بھئی تم دونوں باپ بیٹی رونے کا شغل کیوں فرما رہے ہو۔

انہوں نے نرم مسکراہٹ سے دونوں کو بغور دیکھا۔

اظفار قریشی ذرا سا مسکرا دیے اور ان کی بات سنی ان سنی کر ۔گئے

اپنی بیٹی کی شادی کو لے کر بڑے چاؤ تھے دل میں عالم۔۔۔ لیکن وقت اور حالات نے ساتھ نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔ اب تم میرے اور میری بیوی کے بھتیجے کو بلاؤ ۔۔۔۔۔۔اور اپنی بھانجی کو رخصت کروا کے لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔آج ماموں بن کر باپ کی ذمہ داری نبھاؤ۔

اظفار قریشی ایک وسوخ سے کہنے لگے۔

عالم نیازی کھل کے مسکرا دیے۔

زوہل ناسمجھی سے دونوں کو دیکھنے لگی۔

عالم نیازی نے آگے بڑھ کر اس کے سر پہ پیار دیا۔

زوہل بیٹی۔۔۔میں ناصرف تمہارے بابا کا دوست ہوں بلکہ تمہاری ماں کا سگا بھائی ہوں اور تمہارا ماموں۔

زوہل تو اس انکشاف پر دنگ رہ گئی۔

عالم نیازی۔۔۔۔۔۔۔اس کے بابا کے وہ دوست جنہیں وہ چند ماہ سے جانتی تھی۔آج وہ اس پہ یہ انکشاف کر رہے تھے کہ وہ رشتے میں اس کے ماموں ہیں۔۔۔۔۔اس کی ماں کے بھائی۔۔۔۔

اتنے سالوں بعد اپنی ماں کے حوالے سے کسی رشتے کو جانا تھا۔

مارے حیرت کے اس سے کچھ بولا نہ گیا۔

دل میں کہیں خوشی بھی تھی۔

دماغ میں کئی سوالات نے سر ابھارا جنہیں وہ منہ پہ قفل لگاۓ سی گئی کیونکہ یہ اس بات کے لیے صحیح موقع نہ تھا۔

عالم نیازی نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور کمرے سے باہر چلے گئے۔

اپنے بگڑے سپوت کو رخصتی کے لیے منانا بھی تو تھا جو کہ مشکل امر تھا مگر انہیں یہ سرانجام دینا ہی تھا۔سب کی خوشیوں کے لیے۔۔۔۔ثمران کے لیے۔۔۔۔

(جاری ہے)


No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.