***Pagli qoual***

 


٭پگلی کوئل٭

قسط نمبر:1

تحریر:عروسہ فیاض

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اس وقت وہ ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے کھڑی تھی ایک خوبصورت اور شاندار بنگلہ جو اپنی مثال آپ تھا بنگلے کے چاروں طرف پھیلی ہریالی آنکھوں کو تروتازگی بخش رہی تھی بہار کا موسم اپنے پورے جوبن پہ تھا ۔
اس نے اک گہری سانس کھینچی اور سر جھٹکتی تیز قدموں کے ساتھ گیٹ دھکیلتی اندر کو بھاگی لان کو عبور کرتے تروتازہ موتیے کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اندر داخل ہوتے ہی اس کے قدم خود بخود رک گئے تھے کچن سے اٹھتی تازہ املیٹ کی خوشبو نے فضا کو معطر کر رکھا تھا۔تیز تیز قدم اٹھاتے اس نے باقی فاصلہ عبور کیا جلدی جلدی میں وہ باہر آ تے وجود سے ٹکرا گئی تھی۔
"
اف" اس نے فورا اپنی پیشانی تھامی
"
افوہ! کتنی دفعہ کہا دیکھ کے چلا کرو پتہ نہیں تم لوگوں کو ہو کیا گیا جب دیکھو اندھا دندھ بھاگتی ہی رہتی ہو دکھاؤ ذرا ذ زیادہ تو نہیں لگی " کہتے ساتھ ہی وہ اس کی طرف بڑھی جو ابھی تک اپنی پیشانی مسل رہی تھی
"
سوری آ نٹی ایکچوئلی میں جلدی میں تھی " وہ شرمندہ سی بولی
"
آ پ کو تو نہیں زیادہ لگی" نو آ ئی ایم اوکے" وہ مسکرا کےگویا ہوئیں الارم کی آ واز نے دونوں کو متوجہ کیا تھا"اوہ مائی گاڈ آ ٹھ بج گئے آ ج تو مارے گئے" وہ سر پہ ہاتھ مارتےہوئے اندر کو بھاگی
"
ارے بات تو سنتی جاؤ " وہ کچن سے برف لاتے ہوئے بولی تھیں وہ ان سنی کرتے بڑ بڑا تے ہوئے اندر کو بھاگی " ایک تو اس لڑ کی نے جان کھائی ہے پتا نہیں کو ن سے گھوڑے بیچ کے سوئی ہے" وسیع راہداری سے ہوتے ہوئے اب وہ ایک کمرے کے سامنے کھڑی تھی بند دروازہ دیکھ کے اس کا پارہ چڑھ گیاتھا دھار سے دروازہ کھولتے ہوئے وہ اپنے تئیں اسے اٹھانے کی ایک کامیاب کوشش کرچکی تھی پر اندر سوئے وجود کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑا تھا غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اس نے آگے بڑھ کر اس سے کمبل کھینچ لیا تھا کمرے میں نیم تاریکی تھی آ گے بڑھ کر اس نے سارے کمرے کی لائٹس آ ن کی تھیں پل میں کمرہ روشنیوں میں نہا گیا تھا اس کا دل چاہا کے سوئے وجود کو جھنجوڑ دے اگلے ہی لمحے وہ بیڈ کی جانب بڑھی
"
سہانہ" وہ بلند آ واز میں اس کے کان کے قریب چیخی

"کی  کیا ہوا " سہانہ ہڑبراکے اٹھ بیٹھی سینے پہ ہاتھ رکھ کے اس نے اپنی سانس ہموار کی
"
کیا ہوا " وہ صدمے سے چلائی اور اسے گھورا"

سہانہ خدا کا واسطہ کبھی خود بھی کچھ خیال کر لیا کرو آ ج پہلا دن ہے کالج کا یہاں بھی لیٹ کبھی تو مجھے اچھا امپریشن ڈالنے دیا کرو" اگلے ہی لمحے وہ اس پر پھٹ گئ تھی
"
اوہ! یہ بات ہے میں نے کب کہا کے میرا انتظار کر و جاو ڈالو اپنا اچھا امپریشن میں تو نہیں جا رہی " اگلے ہی لمحے وہ کمبل تان چکی تھی " اور ہاں جاتی دروازہ بند کر جانا" چند لمحے وہ اس کے لیٹے وجود کو اور اگلے ہی لمحے اس نے کمبل کھینچا اور پانی کا جگ اس پر انڈیل دیا تھا
سہانہ جو اب بھی سونے کا خواب دیکھ رہی تھی یک دم چکنا چور ہو گیا تھا غصے سے وہ دھاڑی" رمان" رکو ذرا میں ابھی تمہارے ہاتھ توڑتی ہوں "وہ رمان کے پیچھے بھاگی جو پہلے ہی فرار ہو چکی تھی
"
آ نٹی" وہ بھاگتی ہوئی نگہت بیگم کی طرف آ ئی جو اچانک اس افتادپر گھبرا گئیں تھیں" ارے کیا ہوا کیوں ایسے بھاگ رہی ہو کہیں کوئی بھوت تو نہیں دیکھ لیا"
بھوت تو اسے میں دکھاؤں گی دیکھ لیں کیا حال کیا میرا " اس سے قبل کہ رمان کچھ کہتی سہانہ نے بھی اپنا غصہ نکالا
"
آ نٹی دیکھیں میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا یہ اٹھ ہی نہیں تھی رہی آ پ کو پتہ تو ہے آج ہمارے کالج کافرسٹڈے ہے اور میڈم کی نیند ہی پوری نہیں ہورہی " رمان نےفٹافٹ خود کو کلیئر کیا ۔
"
اچھا یہ کیا طریقہ ہے کسی کو اٹھانے کا" سہانہ نگہت بیگم کی نظروں سے خائف ہوئ۔
"
نائو گو اینڈ گیٹ ریڈی ہری اپ" بیک وقت نگہت بیگم نے مداخلت کی نا چار اسے جانا پڑا رمان کے پاس سے گزرتی وہ آنکھیں دکھانا نہیں تھی بھولی سہانہ کی اس حرکت پہ اس کے لب خود بخود مسکرا دیے تھے
رمان نے نگہت بیگم کی طرف دیکھا جو پہلے ہی اس کی طرف متوجہ تھی "رمان میری چندا اس کی نادانیوں کو معاف کردیا کرو تمہیں پتہ اکلوتی ہونے کا وہ خوب فائدہ اٹھاتی ہے ویسےسچی دل کی بہت اچھی ہے" رمان نے ان کے ہاتھ چومے اور مسکرا دی مجھے" پتہ آ نٹی اور مجھے وہ بہت عزیز ہے بالکل آ پ کی طرح خیر مجھے ناشتہ تو کروائیں بہت بھوک لگی ہے"

"ہا ہا ہا کیوں نہیں ضرور تم بیٹھومیں ابھی ناشتہ لے کے آئی" کہتے ساتھ ہی وہ کچن کی جانب بڑھی۔
سہانہ آ جائو اب اور کتنی دیر کرو گی" ناشتہ لگاتے انہوں نے اسے بھی آ واز دی تم شروع کرو بیٹا میں اسے لے کے آ ئی ایسے تو یہ کبھی نہیں آ نے والی پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو گیا " کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئیں ناشتہ کرنے کے بعد وہ جوس پی ہی رہی تھی جب سہانہ آ ئی" واہ جی واہ تم تو بہت اچھا تیار ہوئی ہو ویسے ہم ابھی تمہیں بیاہنےکا کوئی ارادہ نہیں رکھتے" سہانہ اسےآنکھیں دکھانےہی والی تھی جب نگہت بیگم لاؤنج میں داخل ہوئیں "کو ن سی باتیں ہورہی ہیں یہاں" کہاں آ نٹی میڈم کا موڈ ہی نہیں سہی خیر ویسے بہت اچھی لگ رہی ہے سوچ رہی ہوں میں بھی ایک کوڈ لگا ہی  

لوں "

 ماشااللہ واقعی دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو اللہ کامیاب کرے" نگہت بیگم نے دونوں کی بلائیں لی "

اوہ تھینکیو آ نٹی میں اپنا بیگ لے آ وں تم بھی باہر آ جاؤ "کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئی

سہانہ الوداع کہ کے باہر نکل آ ئی "اوکے مامااللہ حافظ"

*****************
بیڈروم کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئیں بھاری بھر کم پردے کھڑکیوں سے پیچھے کیے تو روشنی چھن سے اندر آ نے لگی وہ خراماں خراماں چلتی بیڈ کے کنارے ٹک گئیں تھیں اپنے عزیز از جان شوہر کے بالوں میں ہاتھ پھیر تےہوئےانہوں نے سے پکارا
"
سعود" اٹھ بھی جائیں کتنا ٹائم ہو رہاہے آ ج کیا آفس نہیں جانا " اونہوں کیا بیگم سونے تو دیں نیند بھی پوری نہیں کرنے دیتیں ابھی تو سویا ہوں " وہ انکا ہاتھ تھام کے پھر سونے لگے
"
لو جی ہو گئی نیند پوری" وہ اپنا ہاتھ ان کی گرفت سے چھڑاتےہوئے گویا ہوئیں

"ایک تو آ پ اور آپکی بیٹی دونوں کی نیند ہی پوری نہیں ہوتی مجھےحیرت ہے آ ب کو اتنی نیند کیسے آ جاتی ہے مجھے تو نہیں آ تی"
"
ارے۔۔۔ ھمارے پاس تو آ ئیں ہم بھی آ پ کو سونا سکھادیں"
وہ شرارت سے گویا ہوئے
"
رہنے دیں اس کےلئے آ پ دونوں ہی کافی ہیں " وہ مصنوعی ناراضگی سے بولی
"
چلو ہم نے تو اپنا جرم مانا کہ ہم تو گھائل ہے آ پ کے عشق میں اس میں ہماری معصوم بچی کو کیوں کھینچ رہی ہیں "

"معصوم پوری شیطان ہے آپ کے اتنے لاڈ پیار نے بگاڑا ہے اسےپہلے دن ہی کالج لیٹ گئی ہے یہ تو بھلا ہو رمان کا جو اسے اٹھانے آ گئی ورنہ میں اکیلی کیا کرتی سچی بہت خیال رکھتی ہے سہانہ کا" ان کے لہجے میں شیرینی کا عنصر تھا

"ہوں یہ بھی تو سچ ہے ک وہ کافی سلجھی سمجھدار بچی ہے ماں کی کمی کے باوجود ان بچوں کی تربیت بے مثال ہے اب شایان کو ہی دیکھ لیں کیسے سب سنبھالا ہے "وہ خوش دلی سے گویا ہوئے ۔
"
بے شک ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رابعہ کی اچانک موت بچوں کےلئے ایک بڑا دھچکا تھی پر بچوں نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا اور آ گے بڑھے بھائی صاحب نے بھی بچوں کو ما ں باپ دونوں کا پیار دینے کی کوشش کی ہےیہی وجہ ہے جو آج باپ کے اتنا قریب ہے "

" کتنا سمجھایا تھا کہ بھابھی کے بعد دوسری شادی کر لیں پر ان کی نہ ہاں میں نہیں بدلی خیر اللہ جو کرتا اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت چھپی ہوتی ہے وہ بہتر جانتا " وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے

"بالکل رابعہ ہے بھی اتنی اچھی تھی اتنی نیک خودار عورت تھیں ہر گن ان میں موجود تھا میرا آ ج تک یہ نقصان کبھی پورا نہیں ہو سکا اور کبھی ہو ہی نہیں سکتا وہ مجھے بہت عزیز تھی بہنوں سے بھی بھر کر تھی میرے لئیے خیر اللہ کی یہ ہی مر ضی تھی" ان کی آ نکھیں برسنے کو بے تاب تھیں ۔
سعود صاحب نے ان کا دھیان بٹانا ضروری سمجھا" خیر اک بات کہوں "

" جی" سہانہ اور رمان بھی بالکل آ پ پہ گئی ہے دو جسم اور ایک جان ہے میں جب بھی انہیں دیکھتا ہوں مجھے آ پ کی یاد آ تی ہے خیر ان دونوں کی نظر اتارا کریں " وہ دھیمے سے مسکرائے

"جی ضرور آ پ بھی تیار ہو جائیں اس سے پہلے کے شایان آ ئے " کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئیں ۔

******************
"
آ بھی جاؤ اب اتنا لیٹ کروادیا تم نے" رمان نے سہانہ کا ہاتھامااور تیز تیز چلنے لگی سہانہ کیا تم ناراض ہو خیر کوئی نہیں میں آ ج تمہیں گول گپےکھلائوںگی پکا نائو ہیپی اینڈ سوری اوکے" اوکے فائن " سہانہ کھل کے مسکرائی ویسے بھی وہ رمان سے کبھی خفا نہیں ہو سکتی تھی
اب بھاگونو بجے پہلی کلاس ہے کچھ ہی فاصلے پر انہیں وین نظر آ ئی تھی دونوں بھاگ کے اندر بیٹھی وین ڈرائیور نے کچھ دیر انہیں گھورااور وین چلادی
"
رمان " سہانہ نے اسے بازو سے جھنجوڑا
"
کیا مصیبت ہے" رمان بازو کے دبوچنے پر غرائی
"
یار ہمارے اک یہ ہی ڈرائیوررہ گیا تھا کیا " وہ منہ بسور کے بولی
"
کیوں کیا ہوا اتنا اچھا تو ہے " وہ حیران ہوئی
"
اچھھا" وہ صدمے سے بولی" اسے اچھا کہتے ہیں انکل ہے یہ تو بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ عمر ہو اس کی"
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی" اک بات توبتاو"
"
ہوں " وہ چونکی
"
سچ سچ بتاو "
"
کیا "
"
کہیں تمھارا ڈرائیور کے ساتھ بھاگنے کا ارادہ تو نہیں " وہ صدمے سے بولی
"
لو بھلا میں کیوں بھاگوں گاڑی ہے تو سہی بھگانے کے لئیے ویسے رمان مجھے بہت شوق ہے گاڑی چلانے کا کا ش میں خود ۔۔۔۔" کیا کہا پاگل ہو گئی ہو کیا " رمان نے چلا کر اسکی بات کاٹی سب نے چہرے موڑ کر انہیں دیکھا دیر سے آ نے کے باعث انہیں لاسٹ میں سیٹ ملی تھی
"
لو بھلا اس میں پاگل ہونے والی کون سی بات " وہ حیران ہوئی ۔ اسکی بات پہ اسکا منہ کھل گیا تھا "یار ہمارا نہ سہی آ نٹی انکل کا ہی خیال کرلو "
"
آ ئی نو انہیں برا لگے گا پر میں انہیں منا لوں گی مجھ سے پیار بھی تو بہت کرتے ہیں آ خر اکلوتی جو ہوئی"
"
ہائے سہانہ تم تو گئی" وہ شاک سے بولی اور کالج کے آ نے تک چپ ہی رہی۔
****************

"یار سہانہ کالج کتنا پیارا ہے نا" وہ بریک میں کالج گھوم کر دیکھ رہی تھیں
"
وائو وہ دیکھو رمان گول گپے کھلا بھی دو اب " سہانہ چلائی ۔
"
اوکے بیٹھو میں لائی " گول گپے کھاتے وہ اچانک یاد آنے پہ بولی
"
رمان تمہارے چاچو کی بیٹی کب آ رہی ہے پاکستان "
"
بس آ جائے گی کچھ ہی دنوں میں کیوں " وہ اس کے استفسار پہ کچھ حیران ہو ئی کیوں کہ وہ اسے کچھ خاص پسند نہیں تھی
"
وہ ادھر ہمارے ہی کالج میں آ ئے گی نا" وہ ناپسندیدگی سے بولی
اف کورس یار وہ یہیں آ ئے گی آ خر کو گرل ہے ہمارے علاقے کا بیسٹ گرلز کالج ہے یہ اس میں ہی ایڈمٹ ہوگی نہ آ خر کو وہ ہے بھی تو باہر والی"

"مجھے تو حیرت ہے لوگ باہر پڑ ھنے جاتے ہیں اور وہ یہاں آ رہی ہے ہے نا عجیب بات؟ وہ غصے سے بولی
دیکھو سہانہ وہ چاچو کی اکلوتی اولاد ہے پاپا اس کے بغیر نہیں رہ پارہےوہ چاچو چاچی کی اکلوتی نشانی ہے بہت سال رہ لیا ہم سے دور اب پا پا اس کو مستقل یہاں رکھنا چاہتے ہیں "

" کیا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیوں "
"
کیا مطلب کیوں چاچو چاچی کے بعد اب وہ ہماری ذمہ داری ہے ہم اسے یوں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تمہیں آ خر کیا مسئلہ، "وہ کچھ تلخ ہو گئی
"
دیکھو رمان میں تم سب سے دور نہیں ہونا چاہتی اس کے آ تے ہی سب اس کے گن گائیں گے آ خر کو ہماری پرائیوسی ڈسٹرب ہو گی وہ تمہیں مجھ سے چھین لے گی" کہتے کہتے وہ روہانسی ہو گئ تھی
"
ریلکس سہانہ ڈونٹ وری یوار آ گڈ گرل،ہماری زندگی میں تمھاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا تم ہمارے لے بہت اہم ہو اور اپنا دل صاف کرلو اس کے لئے وہ تو بیچاریتیم و مسکین ہے بری بات اللہ کو ناراض نہ کرو اور کھاو جلدی کلاس میں چلیں " وہ اسکا ہاتھ تھام کر بولی رمان کی باتوں سے وہ کافی مطمئن ہو گئی تھی

 جاری ہے

*************


Click Here to read online

or

Download PDF file


Pagli Qoual

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.