***Tery Jesa Yaar Kahan ***




تیرے جیسا یار کہاں
از سحر اسامہ۔۔
آٹھویں قسط
منفرح تیز قدموں کے ساتھ گھر کی جانب رواں تھی اسکے ہونٹ مسلسل ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے خیر و حفاظت کی ہر وہ دعا جو اسے یاد تھی وہ مسلسل اسکا ورد کررہی تھی۔ایت الکرسی اور سورہ فاتحہ بار بار پڑھ رہی تھی کیونکہ اسے دادی نے بتایا تھا کہ یہ دونوں زکر مشکل اور پریشانی میں سب سے زیادہ کام آتے ہیں اسکے علاؤہ بھی جو دعا جو ذکر اسے یاد آرہا تھا وہ پڑھے جارہی تھی ۔
"
اللّٰہ اللّٰہ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِهٖ شَيْئَا."
("
اللہ اللہ ہی میرا رب ہے میں اسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتی" ( سنن ابی داؤد 1525
"اللهم لا سهل إلا ما جعلته سهلا وأنت تجعل الحزن إذا شئت سهلاً."
("
اے اللہ۔۔ کوئی کام آسان نہیں مگر وہ جسے تو آسان کردے اور تو جب چاھتا ھے غم کو آسان کردیا ہے"۔( سلسلة الصحيحة 2886
وہ مسلسل اس وقت ان کلمات کا زکر کررہی تھی کیونکہ وہ مشکل میں تھی اور اسے اپنے رب کی مدد چاہیے تھی۔
سڑک پر اکا دکا ہی اور لوگ تھے ورنہ دکانیں وغیرہ سب بند تھیں۔ وہ تیز قدموں سے چل رہی تھی تاکہ جلد گھر پہنچ سکے لیکن اچانک اسکے سامنے ایک کتا آیا اور بھونکنے لگا پہلے تو اسکے ذہن میں آیا کہ اور تیز قدموں سے چلے تاکہ وہ کتے سے دور جاسکے اور اس نے یہی کیا لیکن کتا اب باقاعدہ اسکے پیچھے لگ چکا تھا اسے اس مشکل گھڑی میں کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے پھر اسے ایک دعا یاد آئ ۔
"بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شيء في الارض ولا في السماء وهو السميع العليم."
"
اللّٰہ کے نام سے وہ ذات جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز زمین میں اور آسمان میں نقصان نہیں دے سکتی اور وہ بہت سننے والا بہت جاننے والا ہے۔"( سنن ابی داؤد 5088)۔
منفرح نے فوراً اس دعا کو زیر لب 3 بار پڑھا اور اللّٰہ کے حکم سے وہ کتا جو کچھ دیر پہلے اسکے پیچھے لگ گیا تھا منہ موڑ کے چلا گیا۔ منفرح کے منہ سے الحمدللہ کے کلمات ادا ہوئے آج اسے حقیقتاً اللّٰہ کے ذکر پر کامل یقین آیا تھا۔
گھر ابھی دور تھا اور ابھی اسے مزید تیز رفتاری سے چلنا تھا لیکن اسکی ہمت اب جواب دینے لگی تھی اور ٹانگیں مزید چلنے سے انکاری تھیں وہ کچھ دیر رک گئی اور ایک پول کو پکڑ کر کھڑی ہوگئی لیکن اسکی صحیح جان اس وقت نکلی جب سامنے سے اسے 3 اوباش قسم کے لڑکے آتے نظر آئے وہ پول کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہوگئی اور دوبارہ سے اللّٰہ کا زکر تیز تیز کرنے لگی۔
ایک باکردار اور معصوم لڑکی کو اپنی جان جانے کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا عزت جانے کا ہوتا ہے اور یہی خوف اس وقت اسکی رگوں میں دوڑنے لگا تھا اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے رب کو پکارا اللّٰہ جی پلیز مجھے ان لڑکوں سے بچائیں پلیز میرے اللّٰہ جی کوئی تو مدد بھیجئے مجھے ان سے بچائیں۔ وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔ پول کے پیچھے چھپنے کے باوجود ان لڑکوں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ اب وہ تینوں دور سے ہنس ہنس کے ہوٹنگ کرتے اسکی جانب آرہے تھے۔اور منفرح کی رگوں میں دوڑتا خون اب منجمد ہونے لگا تھا ۔یکدم منفرح کو دور سے ایک کار آتی نظر آئ وہ کار روکنا چاہتی تھی لیکن یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کار والا بھی اسی صفت کا مالک نہ ہو لیکن اس وقت اسے کوئی نا کوئی رسک لینا تھا اسی سوچ کے آتے ہی اس نے پول کے پیچھے سے نکل کر فوراً کار کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ کار کا دروازہ کھلا اور اندر سے جو فرد باہر آیا اسے دیکھ کے منفرح کی منجمد رگوں میں ایک بار پھر خون دوڑنے لگا اسکا دل چاہا بھاگ کر اسکے پیچھے چھپ جائے اور ان لڑکوں کی غلیظ نظروں سے خود کو بچالے لیکن اس سے پہلے کہ وہ قدم بھی اٹھاتی وہ بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا تھا۔
~~~~~~~~~~~~~~

کار اسٹارٹ کرتے ہی اسنے فل اسپیڈ میں کار کو کالج کی جانب موڑا اور جتنی اسپیڈ میں وہ اس وقت کار چلا سکتا تھا اس نے کار چلائی وہ جلد از جلد منفرح کے پاس پہنچنا چاہتا تھا ۔ عجیب سے اندیشے اسکے ذہن میں چل رہے تھے اور وہ مزید پریشان ہورہا تھا پتہ نہیں کہاں ہوگی یہ لڑکی ۔
کار چلاتے اچانک ایک خیال اسکے ذہن میں آیا کہ کیوں نا عامر بھائی کو کال کرے کہ وہ منفرح کو کال کرکے پوچھیں کہ وہ کہاں ہے تاکہ جہاں بھی ہے وہیں رہے وہ اسے لینے پہنچ جائے گا ۔ اس نے فوراً اپنا موبائل نکالا اور عامر بھائی کو کال ملائ لیکن عامر بھائی کا نمبر مسلسل بزی جارہا تھا۔ اف عامر بھائی پلیز فون تو اٹھائیں ۔
فون کان سے لگائے مسلسل ٹرائی کررہا تھا ۔ وہ کالج سے بس کچھ ہی فاصلے پر تھا جب اسے ایک لڑکی نظر آئی وہ خود گاڑی روک کے اسے دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ ابھی دور سے واضح نا تھا کہ وہ منفرح ہے یا نہیں ابھی وہ گاڑی قریب لے جاکر روکنے ہی والا تھا کہ اس لڑکی نے خود ہاتھ بڑھا کر گاڑی روکی اور وہ اسے پہچان گیا۔ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر وہ فوراً گاڑی سے نکلا اور سامنے اسے دیکھ کر ایک لمبی سانس منہ سے خارج کی اور بھاگتا ہوا اسکے پاس پہنچا۔
"منفرح کہاں رہ گئی تھیں تم کتنا پریشان ہوگیا تھا میں۔ کم از کم ایک فون تو کردیا ہوتا کہ تم کہاں ہو۔" اس وقت اسکی حالت ایسی تھی جیسے کوئی بہت قیمتی چیز کھوکر واپس ملی ہو ۔
اس سے کچھ جواب نہ دیا گیا کیونکہ وہ اسے یہاں دیکھ کر بلکل مطمئن ہوگئ تھی اسے وہاں اپنی اس پریشانی اور اکیلے پن میں دیکھ کر اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔ پتہ نہیں لیکن اسے ایسا لگا تھا اب وہ بلکل محفوظ ہے بلکل ٹھیک ہے وہ اس کی جان اسکی عزت دونوں پر کوئی آنچ نہ آنے دیگا۔ اسی خیال سے اسے رونا آگیا تھا۔
"رو کیوں رہی ہو تم ٹھیک ہونا۔" شریم نے اسکی آنکھوں سے آنسوں بہتے دیکھ کر پوچھا۔
اس نے شریم کے کاندھے کے پیچھے جھانک کر ان تینوں لڑکوں کو واپس جاتے دیکھا اور اسکے اس طرح پیچھے دیکھنے پر شریم نے بھی پیچھے دیکھا ۔
"
کچھ کہا ہے ان لڑکوں نے تمہیں ۔ مجھے بتاؤ کوئی بد تمیزی کی ہے میں ابھی جاکر انہیں ٹھیک کرتا ہوں"۔ اسکو واقعی اسے اس طرح آنسو بہاتا دیکھ کر تکلیف ہورہی تھی۔
"نہیں بس چلو گھر چلتے ہیں"۔ وہ آنسو صاف کرتی کار کی جانب بڑھی شریم نے آگے بڑھ کے کار کا دروازہ کھولا ۔ وہ اپنا دوپٹہ سنبھلتی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
شریم گھوم کر آیا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور اس سے ایک بار پھر پوچھا۔
"
تم ٹھیک ہونا کچھ ہوا تو نہیں تمہیں"۔ اس کی مکمل تسلی ابھی باقی تھی ۔
"
ہاں میں ٹھیک ہو"۔ آنکھوں کو اچھی طرح رگڑ کر صاف کرتے ہوئے کہا لیکن اسکی آواز اب بھی نم تھی .
"
اچھا پھر ٹھیک ہو تو رو کیوں رو رہی ہو دیکھو پلیز رو نہیں مجھے۔"...۔ وہ بات پوری کرنے سے پہلے ہی رک گیا۔
اور شاید اسکا اس طرح رکنا ہی تھا کہ منفرح اسکی بات مکمل سمجھ چکی تھی اسی لئے اسنے اپنا چہرہ شیشے کی جانب کرلیا اور ہونٹ کاٹنے لگی۔
وہ دونوں ہی اپنی کیفیت ایک دوسرے کو بتانے سے قاصر تھے اگر اسے اسکا رونا تکلیف دے رہا تھا تو منفرح کو بار بار رونا صرف اسی سوچ سے آرہا تھا کہ اگر آج اور ابھی وہ نہ آتا تو اسکے پاس عزت نام کی کوئی چیز نہ رہ جاتی۔
"اچھا ٹھیک ہے لیکن پلیز اب چپ ہو جاؤ اور اپنا چہرہ اچھی طرح صاف کرلو گھر آنے والا ہے دادی دیکھیں گی تو پریشان ہوجائنگی" ۔ اس نے اسے خاموش کرانے کے لئے ایک اور بہانہ ڈھونڈا۔
وہ سر ہلاتے فوراً خاموش ہوگئی شریم نے ٹشو باکس آگے کیا اسنے اچھی طرح ٹشو سے چہرہ صاف کیا۔ اور خود ہی گویا ہوئی کہ کہیں وہ اسکے رونے سے کوئی اور وجہ اخذ نہ کرلے۔
"وہ میں ڈر گئی تھی اکیلے"۔ اب کی بار آواز بھی ٹھیک تھی اور اسکا کھویا کانفڈنس بھی لوٹ آیا تھا۔
"
اچھا اب ڈرو مت میں ہوں نا۔" شریم نے بنا اسکی طرف دیکھو ایک جذب سے اسے اپنے ساتھ مکمل بے خوفی کا یقین دلایا تھا۔
منفرح کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی اور اس نے اپنا رخ ایک بار پھر شیشے کی جانب موڑ لیا۔
گھر آگیا تھا۔ اسے لگا تھا وہ اسے ڈراپ کرکے واپس جائے گا لیکن وہ بھی اسکے ساتھ ہی اترا تھا۔
"
میں چلتا ہوں دادی کو تھوڑا ریلکس کردونگا وہ پریشان ہونگیں۔"منفرح نے اثبات میں سر ہلایا ۔
~~~~~~~~~~~~~~~~
اکرام صاحب ایک بے حد ملنسار اور خوش مزاج طبعیت کے مالک تھے اپنے ورکرز سے بھی انکا اچھا ھنسنا بولنا تھا ہر کوئی دیکھ کر انکے بارے میں یہی رائے رکھتا تھا کہ وہ بے حد خوش ہر غم پر مشکل اور ہر تکلیف سے آزاد ہیں آنے پاس اللّٰہ کا دیا سب۔ کچھ ہے بیوی بچے اور ایک بہت اچھا کاروبار ۔۔۔
ہاں ظاہری حالت یہی بتاتی تھی کہ انہیں کوئی غم کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن ایک غم جو انھوں آنے آج تک سب لوگوں سے چھپا کے رکھا تھا اپنے بچوں کو بھی اسکی خبر نہیں ہونے دی تھی یہی وجہ تھی کہ ان کے دونوں بچے بھی یہی سمجھتے تھے کہ ہمارے بابا ایک بہت خوش قسمت انسان ہیں اللّٰہ نے انہیں سب دیا ہے ۔ انکے اس غم جو انہیں اندر سے کھا رہا تھا جو انہیں۔ راتوں کو سونے نہیں دیتا تھا اس سے صرف انکی شریک حیات صالحہ بیگم واقف تھیں وہ جانتی تھی کہ انکے شوہر اندر ہی اندر کیسے اس غم سے کھوکھلے ہوتے جارہی ہیں انھوں نے کتنی ہی بار اپنے شوہر کو اس غم سے نجات دلانے کی کوشش کی لیکن کبھی بھی وہ معاملہ سلجھ نہ سکا جو اکرام صاحب کی جان کھوکھلی کررہا تھا۔
انہیں آج بھی وہ وقت یاد تھا جب انھوں نے اپنے دوست کہنے پر ایک ایسا کام کیا تھا جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے تھے وہ اس فیصلے اور اس کام کی معافی آج تک اللّٰہ سے بھی اور اپنے مجرم سے بھی مانگتے آرہے تھے لیکن شاید ابھی وہ وقت نہ آیا تھا کہ انہیں معافی دی جاتی۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ماضی۔۔۔۔
کامی میں تمہارا دوست ہوں تمہیں صحیح بات بتارہا ہوں انکل داؤد تمہاری شادی شمسہ سے صرف اس لیے کروانا چاھتے ہیں تاکہ وہ تمہاری ساری دولت تمہارے سارے کاروبار پر قبضہ کرسکیں ۔ دانش نے اپنے گھٹیا پلان کا پہلا تیر پھینکا۔
نہیں یار دانش وہ مجھے بلکل اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ہیں وہ مجھے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اسی لئے انھوں نے یہ رشتتہ طے کیا ہے اور پھر میں خوش ہوں اس رشتے سے۔ شمسہ اچھی لڑکی ہے ۔ کامی نے شاید اسے دوست بنا کر اور اپنے دل کی بات بتا کر غلطی کی تھی۔
دانش کو اسکا اپنی محبوبہ کی تعریف کرنا اچھا نہیں لگا تھا ۔
دانش شمسہ کی دوست نادیہ کا بھائی تھا شمسہ اور نادیہ کی دوستی بہت اچھی تھی ان دونوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی تھا شمسہ اپنی دوست نادیہ کے گھر آتی تو تب ہی اسے نادیہ کے بھائی دانش نے دیکھ لیا اور وہ وہ اسے پسند آگئ ۔ لیکن پھر کچھ دنوں بعد اسے پتہ چلا کہ شمسہ کی منگنی اپنے کزن کامی سے ہوچکی ہے اس نے اسے دن سے اس منگنی کو توڑنے کا پلان بنایا اور اس پلان کا سب سے پہلا حصہ کامی کو اپنا دوست بنانا تھا جس میں وہ کامیاب ہوچکا تھا۔ اب دوسرا کام کامی کو اس گھر والوں سے متنفر کرنا تھا تاکہ وہ خود ہی یہ منگنی توڑدے اور دانش شمسہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
جاری ہے۔




No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.