***Dar e Jana ***

Image may contain: 1 person, text
٭در جاناں ٭
قسط : 11
تحریر:طاہرہ نقوی
ماہم اسکے سامنے سے اوجھل ہو گئی۔ وہ روتی ہوئی اسکے سامنے سے چلی گئی۔ وہ اس وقت اس حالت میں نہیں تھا کہ اسکو روکتا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا کیوں بول گیا۔ آج پہلی بار وہ زندگی میں خود کو اتنا بے بس محسوس کر رہا تھا۔ آج اس نے پہلی بار زندگی میں غصہ نکالا تھا مگر کیوں؟ وہ ماہم پر اتنا برہم کیوں ہوا تھا۔۔۔؟کیا وہ اپنا حالِ دل کسی کے سامنے کھولنے سے ڈرتا تھا۔۔۔۔؟ آخر وہ ماہم سے ڈرنے کیوں لگا تھا۔۔۔؟ اسکے دل میں ایک عجیب سا خوف۔۔۔ایک وہم تھا۔۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماہم کے سامنے اسکے ماضی کی جھلکیاں کھلیں۔ اسکے جانے کے بعد وہ ایک پل بھی چین سے وہاں نہ رہ سکا۔ اسے اندر ہی اندر گھٹن محسوس ہونے لگی۔اس نے فورا ً ہی سامنے پڑی ٹھنڈی پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگا لی اور پانی پیتے ہی وہ کچھ دیر کیلیئے نیچے بیٹھ گیا۔ اسکے ذہن میں بار بار وہ منظر آنے لگا۔ ماہم کی پلکوں سے گرتے ہوئے آنسو احتشام کے دل کی بنجر زمین کو سیراب کر چکے تھے۔ وہ آنسو اسے اپنے اوپر پہلی بارش کہ بوندوں کی طرح اپنے اندر میں جذب ہوتے محسوس ہوئے تھے۔ آخر کیوں وہ اتنا سوچ رہا تھا۔۔۔؟ اس نے اپنا دھیان بٹانا چاہا اور پھر کچھ سوچ کر کھڑا ہوا۔ اس نے ایک بار پھر برش ہاتھ میں لیا اور پینٹ کرنے لگا۔
*********
ماہم تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔ مسلسل رونے سے اسکی آنکھیں سرخ اور ہونٹ خشک ہو چکے تھے۔ وہ قدم بڑھاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ نگار ہمدانی نے اسے یوں روتے ہوئے اندر آتے دیکھ لیا تھا۔ انکے چہرے پر سخت ناگواری کے نشان تھے۔ ماہم کو دیکھتے ہی وہ وہاں سے چلی گئیں۔
کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔ آج اسے پہلی بار یوں کسی نے سرِعام بے عزت کیا تھا۔ اسکے نازک دل کے یوں ٹکڑے کر ڈالے۔
وہ احتشام کے اندر کا حال جاننا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بھی اسی تکلیف سے گزر رہا تھا جس سے وہ گزر رہی تھی۔ وہ اکیلا پن۔۔۔۔وہ کانٹوں پر  تنہا سفر۔۔۔وہ اسکا غم جاننا چاہتی تھی مگر احتشام نے تو بانٹنے سے پہلے ہی سب کچھ خود میں سمیٹ لیا۔ ماہم نے اپنے کمزور وجود کو سہارا دیا۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی بلکہ اب وہ خاموشی سے دیواروں کو تک رہی تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ ان خالی دیواروں سے باتیں کیا کرتی تھی۔ مگر پھر اس نے خالی دیواروں کو اپنے اندر کے احساسات سے بھر دیا ۔اب ان دیواروں میں اس نے اپنی دنیا بنا لی تھی۔ ہر جگی تصویر۔۔۔۔ہر جگہ رنگ۔۔۔۔وہ سمجھنے لگی تھی کہ شاید باہر کے رنگ کو بھر کر اندر کے خالی پن کو مٹایا جا سکتا ہے مگر یہ ناممکن تھا۔ اس نے آج کئی سالوں بعد ہمت کر کے اس تصویر کو باہر نکالا تھا جسے وہ مرتے وقت بھی دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر اپنے کپکپاتے ہوئے وجود سے اس پرانی تصویر کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اپنی ماں کی تصویر کو اس نے اپنے سامنے کیا۔ پھر اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اس پر انگلیاں پھیریں۔ وہ اس تصویر کو کچھ اس طرح دیکھ رہی تھی کہ گویا یقین اور بے یقینی کے گرداب میں پھنسی ہو۔ کمرے میں اندھیرے کا راج تھا۔۔۔۔گہری خاموشی کا۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں۔۔۔اسکا وجود۔۔۔۔اسکا دل خالی ہو گیا تھا۔۔۔۔اور اپنی ماں کے ساتھ گزارے ہوئے وہ چند لمحے اسے پژمردہ بنا رہے تھے۔
"آپ کیوں چلی گئیں امی؟ میں اکیلے کیسے یہ کٹھن سفر طے کروں؟" اس نے گہرا سانس لیا۔ ماں سے جڑی ہر یاد اس کیلیئے سانس لینے کے مترادف تھا۔ آج اس نے سالوں بعد وہ زخم پھر سے تازہ کیئے تھے۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان یادوں کو اپنی زندگی سے جوڑے رکھتی۔ مگر آج کا زخم اس سے بھی گہرا تھا۔اس نے روتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
"کیا محبت ایک سزا ہے؟ کیا محبت جدائی ہے؟ کیا محبت کرب ہے؟ کیا محبت کرنا گناہ ہے؟  کیا محبت زندگی ہے؟" اس نے خود سے بہت سے سوال کیئے مگر ان سوالات کے جواب اسکے پاس نہیں تھے۔
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رقیبو! غمِ رائگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط اک دل اب پک سو وہ مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسِ تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
کسی زلف کو صدا دو کسی آنکھ ر پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
********
احتشام تھک کر ابھی گھر کے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ سامنے کھڑے حسین شاہ کو دیکھ کر اسکے قدم وہیں رک گئے۔ وہ کسی تیاری میں مصروف تھے۔ انکو دیکھ کر احتشام نے پلکیں جھکا لیں۔ وہ انکا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پہلے ہی ماہم کی وجہ سے اسکا ذہن دباؤ کا شکار تھا اور اب حسین شاہ کی سخت باتیں سننے کیلئے وہ ہرگز تیار نہیں تھا۔ ابھی وہ خاموشی سے اندر آیا ہی تھا کہ حسین شاہ کی بھاری آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔
"آگئے تم آوارہ گردی کر کے؟ گھر نہ ہی آتے سارا دن وہیں رہتے۔" انہوں نے آتے ہی اپنے طعنوں سے اس پر وار کرنا شروع کر دیا۔
"بتایا تھا میں نے کہ آرٹس ایگزیبیشن ہو رہا ہے وہاں ہوتا ہوں میں۔" اس نے تلخ لہجے میں کہا۔ اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ سامنے سے آتی درِثمن کو دیکھ کر وہ لمحے بھر کو خاموش ہو گیا۔
"ہاں پتہ ہے مجھے یہ مصوری سب بہانے ہیں اس گھر میں مفت روٹیاں توڑنے کے۔" انہوں نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔ درِثمن سیاہ ساڑھی باندھے ہوئے تیار کھڑی تھیں۔ انہوں نے ایک چبھتی ہوئی نظر احتشام پر ڈالی۔
"چھوڑئیے آپ بھی کسے کہہ رہے ہیں حسین اس نے زندگی میں آج تک ہماری مرضی کا کچھ کیا ہے جو اب کرے گا؟" درِثمن نے زہر خند لہجے میں کہا تو احتشام کا دل مزید بوجھل ہو گیا۔
"تو مت کہا کریں نا ثمن کیوں تکلیف کرتی ہیں آپ؟ ویسےتو آپ کو سکون ہے۔۔۔۔ آپ کی زندگی مکمل ہے تو میرے ہونے یا نہ ہونے سے آپکو کیا فرق پڑتا ہے؟" اس نے طنزیا انداز اپنایا۔
"لڑکے اپنا دماغ زمین پر واپس لے آؤ جس گھر میں تم اس وقت کھڑے ہو وہ میرا ہے تو بہتر ہو گا کہ اپنی اس زبان کو لگام دو۔"حسین شاہ آفندی نے جتانے والے انداز میں بات کی۔ احتشام نے خالی نگاہوں سے درِثمن کی طرف دیکھا۔
"برسوں سے اس زبان کو لگام ہی ہے ڈیڈ!" اس نےایک بار پھر نگاہوں کا رخ ثمن کی طرف کیا جو غصے سے سرخ ہو رہیں تھیں۔ اتنی دیر میں شہریار بھی تیار ہو کر نیچے آ گیا۔
"بھیا! آپ آ گئے!" شہریار نے ماحول کو خوشگوار بنانا چاہا مگر شاید وہاں کوئی بھی ماحول کو بہتر بنانا نہیں چاہتا تھا۔
"اتنی دیر کر دی آنے میں؟" درِثمن نے شہریار کی ٹائی ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ حسین شاہ اب باہر نکل چکے تھے۔ شہریار نے تشویشی نگاہوں سے احتشام کی طرف دیکھا جو منہ پھیرے کھڑا تھا۔
"آپ نہیں جا رہے بھیا؟"
"نہیں یہ اس مکمل فیملی میں میرا کیا کام؟"وہ بولا۔ شہریار اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔
احتشام کا تند لہجہ درِثمن اور شہریار دونوں نے محسوس کیا تھا۔
"بھیا آپ چلتے تو اچھا تھا۔" شہریار نے ایک بار پھر بات دوہرائی۔
"شہریار چلو مجھے دیر ہو رہی ہے ویسے بھی جب بھی میں اسے اپنی کسی محفل میں لے کر گئی ہوں مجھے ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔" ثمن نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"شہریار عزت سے بڑھ کر ان کے لیئے کچھ نہیں ہے اس لیئے تم جاؤ۔" اس نے شہریار کے کندھے کو تھپکا۔ شہریار نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ وہ احتشام کے چہرے کو پڑھ سکتا تھا۔ وہ بے بسی۔۔۔وہ زرد رنگت۔۔۔وہ ڈوبا ہوا دل۔۔۔۔
وہ لوگ ابھی احتشام سے ایک قدم آگے بڑھے ہی تھے کہ شہریار نے ایک بار پیچھے کھڑے احتشام کی طرف دیکھا۔
"ماما بھیا کی پینٹنگز ایگزیبیشن میں لگی ہوئی ہیں اگر ہوسکے تو واپسی پر ہم وہاں سے بھی ہوتے ہوئے آئیں۔" اسکے یوں اچانک بولنے پر درِثمن نے اسے تجسس بھری نگاہوں سے گھورا۔
"میرے سر میں درد ہے اور ویسے بھی اگر یہ اپنی پینٹنگز کو چھوڑ کر اپنے اخلاقیات پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہو گا!" وہ یہ کہتی ہوئیں گھر سے باہر نکل گئیں اور شہریار کا دل بجھ گیا۔ وہ احتشام کے چہرے پہ لکھی ہوئی تکلیف کو اپنے دل کے ہر گوشے میں محسوس کر سکتا تھا۔ مزید کچھ کہے بغیر وہ باہر نکل گیا۔ احتشام کو انکے کچھ بھی کہنے سے تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ احتشام کے لیئے یہ طنزیہ لہجہ اور طعن وتشنیع اب ایک معمول بن چکے تھے لہذا اب اسے اس کے ضبط سے زائد اذیت بھی نہیں دیتے تھے۔ مگر اس سب کے باوجود تھا تو وہ بھی ایک انسان ہی۔۔۔۔چاہے وہ کتنا ہی پتھر دل ہی کیوں نہ ہو جائے پر درد تو محسوس ہوتا ہی ہے نا۔۔۔ زندگی میں کچھ چیزیں کبھی واپس نہیں ملتیں جیسے وہ پیار جو ہم اپنی لاپرواہی میں کھو دیتے ہیں اور نہ ہی وہ اعتبار جو ہم دوسروں پر کر بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنا ہارا ہوا وجود لے کر ایک دفعہ پھر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک اپنے ہاتھوں کی ان لکیروں کو دیکھنے لگا جن میں سوائے زندگی کے امتحانوں کے کچھ بھی نہ تھا۔ اچانک سے اسکا فون بجنے لگا۔ اس نے فون اٹھایا۔
"السلام علیکم۔"
"وعلیکم السلام! "وہ آواز بڑی ماما کی تھی۔ انکی آواز پر اسکے دل کے سارے غم سارے دکھ مٹ گئے۔
"کیسا ہے میرا بیٹا! میری جان!" انکی آواز بھر آئی تھی۔ احتشام کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں بڑی ماما! آپکو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کی جدائی میرے لیے قیامت ہے؟"
"مجھے نہیں پتا ہوگا تو اور کسے؟ میں خود تمہیں دیکھنے کو ترس گئی ہوں مگر اب تمہاری آواز سن لی ہے نا تو میری جان میں جان آ گئی ہے۔"
"بڑی ماما میں نے آپکو بہت یاد کیا ہے!" احتشام نے کہا۔
"جانتی ہوں اور بتاؤ درِثمن کیسی ہے؟"
"ٹھیک ہیں۔۔۔مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔"
"ہاں پوچھو؟" بڑی ماما نے جواباً کہا۔
"اگو کوئی آپ کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوا ہو اور اگر ہم نے کسی کا دل دُکھایا ہو تو ہم کیا کریں گے؟"وہ کسی بچے کی سی معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔
"تو جسکا دل دکھایا ہو اس سے معافی مانگ لینی چاہیئے۔ اس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دینی چاہیئے۔ اللّٰه کو جھکنے والے لوگ بہت پسند ہیں۔کسی کا دل اگر ہماری وجہ سے دکھا ہو تو ہمیں اس سے سچے دل سےمعافی مانگنی چاہیئے اور اللّٰه سے بھی گڑگڑا کر اپنے حق میں دعا کرنی چاہیئے۔"
"مگر میں نے تو زندگی میں کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی۔"
"ہاں پھر اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے آج تک کسی کا دل بھی نہیں دُکھایا۔" انکی اس بات پر وہ چپ ہو گیا۔
"اچھا اب میں فون رکھتا ہوں۔ اللّٰه حافظ!" اس نے سر جھٹک کر فون ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسکا چہرہ نہیں بھول سکتا تھا۔۔۔۔۔وہ حقیقت میں ان آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسو نہیں بھول سکتا تھا۔
********
وہ صبح ہی صبح کسی کے اٹھنے سے پہلے اپنی پینٹنگز لے کر ایگزیبیشن کیلئیے نکل گیا تھا۔ اپنے بال سمیٹتے ہوئے اندر ہال میں جانے لگا۔ آج وہ سفید رنگ کی ٹی شرٹ اور نیلے رنگ کی پرانی پینٹ میں آیا تھا۔ اپنی پینٹنگ لگاتے ہی وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب ہر آتے جاتے بندے کو دیکھ سکتا تھا۔ اپنی جگہ پر قدم جمائے کھڑا تھا۔۔۔۔شاید وہ اس ہجوم میں کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اس نےاپنی نظریں ہر طرف دوڑائیں مگر وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے کھڑا وہ اسی کا منتظر تھا کہ شاید وہ آئے گی مگر جب وہ نہ آئی۔ اس کا انتظار میں تھک کر وہ ایک بار پھر سے اپنی تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"اچھا ہے آج نہیں آئی۔ یا اللّٰه تیرا شکر ہے کہ وہ نہیں آئی۔ اسے برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔" اس نے دل ہی دل میں کہا اور پھر سے اپنی پینٹنگ کے رنگوں میں کھو گیا۔ کافی لوگ اسکی بنائی ہوئی تصویر میں دلچسپی لے رہے تھے جس سے وہ خود بہت خوش محسوس کر رہا تھا۔ وہ اب ایک اور تصویر بنانے کیلئے خود کو تیار کرنے لگا۔
شاید تمہیں بھی چین نہ آئے میرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو کہ درد دردِ لا دوا ہو جائے
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
*********
آج وہ وقت سے پہلے اٹھ گئ تھی۔ اس نے فوراً ہی گھڑی کی طرف رخ کیا جس میں آٹھ بج رہے تھے۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے وہ بستر سے نیچے اتری۔ آج وہ اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کررہی تھی۔ پچھلے دو دنوں سے بخار میں مبتلا رہنے کی وجہ سے اس نے یونیورسٹی اور ایگیبیشن سے ناغہ کیا تھا۔ وہ اب مرے مرے قدموں سے کھڑکی تک آئی۔ کھڑکی کا پٹ کھولتے ہی باہر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر پہنچے۔ اس نے جسم میں گہرائی تک یہ ٹھنڈک کھینچ کر بھر لی۔ اس نے وہ دن یاد کیا جب احتشام نے سنگ دلی سے اسکی عزتِ نفس کو بکھیرا تھا۔ اس نے آنکھوں کی نمی کو اپنی انگلیوں میں سمیٹ لیا۔ پھر ہمت کر کے اس نے خود کو تیار کیا۔ مگر وہاں جانے سے پہلے اسے یونیورسٹی جانا تھا۔ وہاں سب لوگ اس کے منتظر تھے۔
اس نے پہلے یونیورسٹی جانے کا ارادہ کیا۔ ان دو دنوں میں شہریار کی ایک کال بھی اس نے نہیں سنی تھی۔ اسکی پریشانی دور کرنے کیلیئے وہ خود یونیورسٹی جارہی تھی۔ الیاس ہمدانی بھی اس وقت آفس کیلیئے نکل رہے تھے جب سامنے آتی ماہم کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے۔ زرد چہرہ۔۔۔۔ آنکھوں کے نیچے ہلکے۔۔۔۔ اور خاموش وہ اسکو اسی حالت میں دیکھ کر پریشان ہوئے۔ وہ اپنا سامان لیئے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔
"ماہم!" انہوں نے اسے آواز دی۔ انکی آواز پر وہ رک گئ۔
"جی بابا۔"
"تم ٹھیک تو ہو۔۔ یہ تمہارا چہرہ اتنا پیلا کیوں ہورہا ہے؟" ان کو اپنے لیئے فکر مند دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔
"میں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے؟"  اس نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجالی۔
"ہوں۔۔۔ میں خود چھوڑ دوں تمہیں؟"
"نہیں آپ کو زحمت ہوگی۔" اس نے سرد لہجے میں کہا۔
"نہیں بیٹھو گاڑی میں چھوڑ دیتا ہوں۔" اور پھر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ بیٹھ گئ۔ آج پہلی بار زندگی میں پورے راستے کچھ نہ بولی۔ اسکی خاموشی۔۔۔ اسکی اداسی الیاس ہمدانی کے دل میں چبھ رہی تھی۔
"اللہ حافظ۔" یونیورسٹی کے گیٹ پر فوراً گاڑی سے اتر کر اندر چلی گئ۔ الیاس ہمدانی کچھ دیر تک وہاں گاڑی روکے کچھ سوچتے رہے۔
"ماہم!" ماہم کو آتا دیکھ کر شہریار اسکی طرف آیا۔ وہ ماہم کو دیکھ کر جیسے خوشی سے کھل اٹھا۔
"کہاں تھی تم؟ پچھلے دو دن سے میں تمہیں کال کررہا ہوں اور تم ہو کہ جواب ہی نہیں دے رہی۔ کچھ احساس ہے تمہیں ہم سب کتنا پریشان تھے؟" اس نے آتے ہی اس سے سوال جواب شروع کردئیے۔ اسکے ساتھ سعد اور امِ حانی بھی تھے۔
"اسے کیا ہوا ہے؟" سعد نے ہوچھا۔
"پتہ نہیں۔" شہریار نے شانے اچکائے۔ اور پھر دونوں ہی ساتھ چلتے ہوئے کلاس کی جانب بڑھے۔
********
ماہم آج دو دن بعد ایگزیبیشن میں آئی تھی۔ وہاں اب پہلے سے کم ہجوم تھا۔ لوگوں کے بیچ میں سے نکلتی ہوئی وہ اب ایونٹ مینیجر سے بات کرنے لگی۔ اس نے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کی جس پر وہ مزید برہم ہوئے۔ آدھے گھنٹے ان سے معذرت اور صفائیاں پیش کرنے کے بعد انہوں نے اسے پھر سے فوٹو گرافی کرنے اجازت دے دی تھی۔ وہ اب مزید تاخیر کیئے بنا اپنی فوٹو گرافی کرنے میں مگن ہوگئ۔ آتے جاتے لوگوں کو ہنستی ہوئی تصویریی اس کے کیمرے کی آنکھ میں سمو گئ۔ وہ اب اندر کی جانب جارہی تھی جب کسی کو آتا دیکھ کر اسکے قدم وہیں منجمد ہوگئے۔ وہ منہ پھیر کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔ اسے اس وقت کچھ نہ سمجھ آیا تو وہ اپنے کانوں تک چھوتے بالوں تک بار بار انگلیاں پھیرنے لگی۔ وہ اپنی بے عزتی ہر گز نہیں بھولی تھی۔ وہ اب چلتا ہوا اس کے پاس ہی آرہا تھا۔ ماہم کا دل دھڑکا ضرور تھا مگر احساسِ ذلت اور خود نفسی نے احتشام کو اگنور کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر جیسے ہی اس نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھنا چاہا وہ اسی لمحے ایک ترچھی نگاہ اس پر ڈالتا ہوا نکال گیا۔
"لو کرلو گل! کھڑوس! اکڑو پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو۔۔۔۔۔ اچھے بال کیا مل گئے یہ تو اپنے آپ کو ارستو سمجھ بیٹھا ہے۔" وہ غصے میں کہنے لگی اور ایک بار پھر لوگوں کی تصویر لینے میں مشغول ہوگئی۔
********
درِثمن اور حسین شاہ کسی کے نکاح کی تقریب میں شرکت کے لیئے آئے ہوئے تھے۔ وہ وہاں کھڑی سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہی تھیں۔ حسین شاہ ہمیشہ کی طرح انہیں چھوڑ کر اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئے جبکہ وہ دیوار کا سہارا لیئے کھڑی تھیں۔ سامنے سے لوگوں کا شور۔۔۔۔۔وہ دھوم دھام۔۔۔وہ روشنی۔۔۔اسے ماضی کی یاد آگئی۔۔
وہ دن جب وہ اور ریان ایک ہوئے تھے۔
سفید رنگ کے قمیض شلوار میں ملبوس ریان اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔اس دن خزاں کا موسم بدل کے بہار کے موسم کا رنگ اپنا چکا تھا۔۔۔۔زرد پتوں کی جگہ ہرے اور سبز پتوں نے لے لی تھی۔
ثمن کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ وہ لال رنگ کا لباس پہنے گلاب کی کلی لگ رہی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے ریان کو دیکھا تھا جس کی نگاہیں ثمن کی جانب مرکوز تھیں۔ اس دن اس کا اپنا کوئی نہیں تھا بس ریان کے گھر والے تھے۔ گھر کو سرخ پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ مگر اس کی خوشی میں خوش ہونے والا کوئی اس کا اپنا نہیں تھا۔۔۔۔
نکاح ہوچکا تھا سب لوگ ایک دوسرے سے ملنے اور مبارکباد دینے میں مصروف تھے جب کسی جانی پہچانی آواز نے ریان اور اسے مخاطب کیا۔
"ثمن! ریان!" حیدر کی آواز پر دونوں چونک گئے۔ وہ دبے قدموں سے چلتا ہوا ان دونوں کی طرف آیا۔ ریان کو یقین نہیں آرہا تھا وہ حیدر کو آتا دیکھ کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
"حیدر!" ریان نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔ حیدر نے بھی اپنائیت بھرے انداز میں اس کو اپنے گلے سے لگایا۔
ثمن اس کی آمد کا مقصد نہیں سمجھ سکی تھی مگر وہ بھی دونوں کی ایک دوسرے سے گہری دوستی کا ثبوت دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔
"بہت مبارک ہو یار! مجھے لگتا تھا کے چاند اور سورج کبھی نہیں مل سکتے مگر کبھی کبھی ایسا ملن ممکن بن ہی جاتا ہے!" اس نے ریان کے کندھے تھام کر کہا۔
"کیسا ہے تو؟ اور تجھے۔۔۔؟" ریان نے حیران ہو کر دیکھا۔
"سب چھوڑ مجھے تم دونوں سے ایک بات کرنی ہے۔ میں تم دونوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں خاص کر ثمن سے۔۔۔" اس نے سر جھکا کر کہا۔
"کس بات کی معافی؟" ثمن نے کہا۔
"میں نے جرم کیا ہے اور شاید تم لوگ مجھے معافی کے قابل نہ سمجھو مگر میں نے وہ سب صرف ریان کی خاطر کیا تھا۔"
"حیدر تم بولو تو صحیح!"
"ریان میں نے ثمن جب یہاں سے جارہی تھی تب اس نے ایک خط تمہارے نام لکھا تھا اور کہا تھا کہ میں وہ تمہیں دے دوں مگر میں نے وہ خط نہیں دیا۔ ریان جانتا ہوں میں نے غلط کیا مگر اس وقت بس میں یہی چاہتا تھا کہ تم ثمن کو بھول جاؤ۔۔۔۔مگر میں غلط تھا محبت تو دور رہنے سے بڑھتی ہے۔۔۔دوریاں محبت کی شدت میں اضافہ کرتی ہیں۔۔۔۔مجھے معاف کردو ثمن اور ریان!" وہ کہتے کہتے رک گیا۔ وہ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے وہاں کھڑا تھا۔
"تو میرا دوست ہے۔۔۔تم نے جو کیا وہ با حیثیت ایک دوست کے لئے کیا اس لئے بھول سب باتوں کو اور یہ مٹھائی کھا!" ریان نے اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔
"ثمن؟" حیدر نے اس کی جانب دیکھا جو کچھ سوچنے میں مشغول تھی۔
"محبت کا پیغام خط سے نہیں دل سے دیا جاتا ہے۔ حیدر تم اس بات کو بھول جاؤ۔۔۔تم ریان کے دوست اور اب میرے لئے قابلِ احترم بھی۔۔۔"
"یعنی تم اب ابھی سے ریان کے اشاروں پر چلنا شروع؟" وہ ہنسنے لگا۔
"اسے محبت کہتے ہیں جو تجھے سمجھ نہیں آئے گی!" ریان نے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
"ہم چلے اب دو محبت کرنے والوں کے درمیان سے ویسے بھی ریان صاحب کے دل کا حال برا ہے۔۔۔۔کہیں ثمن بھابھی کی باہوں میں ہی نہ گر پڑیں۔"
"ہمارے ایسے نصیب کہاں!" ریان یہ کہتے ہوئے ثمن کے قریب آیا۔ ثمن کی رگوں میں خون کی روانی مزید تیز ہونے لگی۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں ریان کے دل کے ساتھ دھڑک رہیں تھیں۔۔۔۔
"ثمن؟" اس نے ثمن کا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔ ثمن نے پلکیں جھکا لیں۔ حیدر وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔ وہ لوگ اب اکیلے تھے۔۔۔۔
"آج سے اور میری آخری سانسوں تک میں تمہارا ساتھ رہوں گا۔۔۔۔تمہارے ہر قدم میرے قدموں کے ساتھ چلیں گے۔۔۔میرے ہاتھ تمہارے ہاتھوں سے بندھے رہیں گے۔۔۔۔جب تک میں ہوں تمہاری زندگی میں۔۔۔۔کبھی کوئی آنچ تم پر نہیں آنے دوں گا۔" وہ پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی گھنی پلکوں کو دیکھنے لگا۔
"میں بھی ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔" اس نے دھیمی آواز سے کہا۔
"ہمیشہ کے لئے!" ریان نے اس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھانا نہیں کھانا آپ نے؟" حسین شاہ کی آواز پر وہ واپس حال میں لوٹ آئیں۔
"ہاں میں آتی ہوں۔۔۔" انہوں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ وہ شاید کبھی ان یادوں نہیں نکلنا چاہتی تھیں۔
***********
وہ ہال کے بائیں جانب کھڑی تصویریں لے رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے اسے مخاطب کیا۔
"ایکسکیوزمی!"
ماہم کو کانوں پہ یقین نہ آیا کہ احتشام اور اسے بلا رہا ہے یہ کیسے ممکن ہے اسنے خود کو چٹکی کاٹی۔
اور ہمت و حوصلہ اکٹھا کر کے بےقابو دھڑکنوں کو دو گالیاں نکال کے بولی۔
"جی فرمائیے مجھ سے کچھ کہا؟"
احتشام کو کم از کم ماہم سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی مگر اسے ماہم کو اسکی تصویریں سونپ کر اپنی جان خلاصی کروانی تھی آخر کار بڑی ماما  کا حکم جو تھا۔
اور یہ ناممکن تھا کہ وہ انکی کوئی بات نظرانداز کر جاتا کوفت کو ایک طرف رکھ کر بولا۔
"وہ میرے پاس آپ کی کچھ چیزیں میرا مطلب کچھ تصویریں ہیں وہ لوٹانی تھیں۔"
ماہم نے کوئی جواب نہ دیا بس ہاتھ آگے کر دیا۔ احتشام نے ناسمجھی سے ماہم کو دیکھا جو ہاتھ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ احتشام پھر بھی نا سمجھا۔
"کیا؟" وہ پوچھنے لگا۔ ماہم کا غصے سے منہ کھل گیا اور احتشام کے لیے یہ حیران کن منظر تھا ایسی شکل کا زاویہ بھی کسی کا بن سکتا ہے۔ پہلی بار بےقابو مسکراہٹ اسکے چہرے پر آکر معدوم ہو گئی۔
اصولاً تو ماہم کی ہارٹ بیٹ مس ہونی چاہیئے تھی مگر اسکا پارہ اور چڑھ گیا اور ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
"تصویریں دیجیئے!"
"اوہ اچھا!" احتشام نے جیب سے پیکٹ نکال کے اسکے ہاتھ پر رکھ دیا اب اسکے لیئے امتحان کا لمحہ تھا معافی مانگنا۔
"افففف!" ابھی وہ الفاظ کو ترتیب ہی دے رہا تھا کہ ماہم نے نا آؤ دیکھا نا تاؤ اور آگے بڑھ گئی۔
"ارے عجیب خبطی لڑکی ہے!" احتشام اسے جاتے ہوئے گھورتا رہا اور پھر کچھ لمحے سوچتے ہوئے واپس چلا گیا۔
*********
شہریار کے ہاتھ پر چوٹ لگی تھی مجبورًا احتشام کو اسے یونیورسٹی چھوڑنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینی پڑی۔۔۔۔احتشام اپنے پسندیدہ حلیے میں تیار ہوا کالا ٹراؤزر ٹیشرٹ پہنے ہلکی بڑھی شیو کے ساتھ ماتھے پر آتے بالوں کو جھٹکتا بیزار سا سیڑھیاں اترتا نیچے آیا۔ یہ صبح کا وہ وقت تھا جس سے وہ ایک عرصہ بیت چکا تھا کتراتا تھا وجہ حسین صاحب کے طعنے تشنے اور درِثمن سے متوقع سامنا تھا۔۔۔۔
’’او ہو آج تو صاحب بہادر نے بھی ہمیں اپنے دیدار کا شرف بخشا ہے۔ برخودار آپ فارغ رہ رہ کر تھکتے نہیں ہیں۔" حسین صاحب طنز کرنے سے کہاں چونکتے تھے۔
احتشام نے ان کی بات کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور اپنا رخ موڑ لیا شہریار سمجھ گیا کہ صورتحال گھمبیرتا اختیار کر سکتی ہے فورًا مداخلت کی۔
 ’’بابا پلیز! بھیا میرے لیئے صبح صبح آئے ہیں۔‘‘
’’بڑا احسان ہے انکا کہ کسی کے لیئے تو احساس ہے آپ کے مصروف ترین سپوت کو۔‘‘ حسین شاہ نے توپوں کا رخ درِثمن کی طرف موڑ دیا اور احتشام کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوتے ہی معدوم ہو گئی۔ وہ بغیر دیکھے بھی جانتا تھا کہ وہ عورت جو کہنے کو اسکی ماں ہے دراصل درِثمن حسین شاہ ہے جسے احتشام نامی قصے میں نہ تو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی تجسس۔ احتشام نے شہریار کی طرف رخ کیا نظر درِثمن پر بھی پڑ گئی جو سچ میں اپنی ہی دنیا میں مگن بیزار سا چہرہ لیئے چائے کے کپ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ احتشام سرد نظر ان پر ڈالتا شہریار کو باہر انتظار کا کہتا گیراج کی طرف نکل گیا۔۔۔۔مگر ایک آواز نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔
’’نوابزادہ کہیں کا۔‘‘ حسین شاہ کی آواز اسکا دل تھما مگر اسنے اپنے قدم نہ ڈگمگانے دئیے۔۔۔۔
شہریار نے دکھ سے حسین صاحب کو دیکھا اور ناشتے سے ہاتھ کھینچ کے باہر نکل گیا جہاں احتشام پہلے ہی گاڑی میں بیٹھا اپنے آپ میں ہی مگن اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ شہریار اسکا  سکوت توڑنے کے لیے دھپ سے گاڑی میں بیٹھا۔۔۔۔اور وہ کامیاب بھی رہا
’’کیا ہے یار شیری کبھی تو انسانوں والی حرکتیں بھی کر لیا کرو!‘‘ احتشام بیزاری سے بولا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
’’اوہ بھائی صاحب! اللہ آپ کو حیاتی دے ایک آپ ہی کافی ہیں دنیا میں انسانوں والے مزاج کے لیے۔ کیا تھا جو دو گھڑی بیٹھ جاتے اور میں گرماگرم پوری حلوے سے مستفید ہو جاتا۔‘‘
 احتشام نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔شہریار کی زبان میں پھر سے کھجلی ہوئی۔
"ویسے بھیا دی گریٹ! میں اب جب بھی آپ کو دیکھتا ہوں مجھے ماہم کی کہی بات سچ لگنے لگتی ہے پوچھیں گے نہیں کیا؟" اور احتشام کو دیکھنے لگا احتشام نے اسے غصے سے گھورا اور اپنی نظریں سڑک پر جما دیں۔۔۔شہریار ڈھٹائی سے بولا۔
"چلیں میں خود ہی بتا۔۔۔۔۔" احتشام نے بات درمیان سے ہی اچک لی۔
"شہریار اپنا منہ بند کر لو ورنہ میں یہیں سے گاڑی واپس موڑ دوں گا۔"
"کیا بھیا! ماہم صحیح کھڑوس بولتی ہے وہ آپکو! اوکے اوکے۔۔۔۔۔" احتشام کی گھوری پر شہریار نے ہاتھ کھڑے کر لیئے اور ایف ایم چلا دیا۔۔۔۔۔ جگجیت سنگھ کی آواز گونجی۔
کوئی فریاد میرے دل میں دبی ہو جیسے۔۔۔۔۔
اور دونوں اس غزل کے بولوں میں اپنی اپنی دنیا
میں محو سفر ہو گئے اور اس سفر کا اختتام
یونیورسٹی کی پارکنگ میں ہوا جہاں ماہم اور پورا گروپ پہلے ہی موجود تھا گاڑی رکتے ہی ماہم کی نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے احتشام پر پڑی اور نظر پڑتے ہی ماہم کو احتشام کے ہاتھوں ہونے والی درگت یاد آگئی اسی وقت احتشام کی نظر بھی ماہم پر پڑی۔۔۔۔۔
"اُفففففف کیا مصیبت ہے!" احتشام نے منہ بنایا مگر کچھ ایسا ہوا کہ اس کے ماتھے پر پڑیں سلوٹیں سمٹ گئیں اس نے ماہم کو کب ایسا کوئی حق دیا تھا کہ وہ اس سے کوئی شکوہ کر سکتی پھر یہ سب کیوں وہ کیسے اپنی نظروں کو اس پر استمعال کر سکتی ہے یہ سب عورتیں ایک سی ہوتی ہیں اس نے سر جھٹک دیا اور منہ شہریار اور اسکے باقی دوستوں کی طرف کر لیا ماہم کے لیے احتشام کی بار بار بےرخی تکلیف دہ تھی وہ جانتی تھی کہ احتشام بار بار اسکے وجود سے منکر ہو رہا ہے اور مضبوط نظر آنے والی ماہم تیزی سے ہواؤں  کو چیرتی کلاس کی طرف بڑھ گئی۔
"اس کو کیا ہوا؟" شہریار بولا اور احتشام کو اللہ حافظ کرتا ماہم کے پیچھے چل دیا۔۔۔۔۔
احتشام بھی زندگیٍ ناتواں کا بوجھ اٹھائے واپسی کے سفر پر نکل پڑا اب واپسی کا سفر کونسا تھا یہ تو نہ احتشام خود جانتا تھا اور نہ شہریار کیوں کہ اگر شہریار جانتا کہ احتشام کے  واپسی کا سفر انکی بنیادیں ہلا دے گا تو وہ کبھی اپنے بھائی کو اس راہ کا مسافر ہی نہ بننے دیتا۔۔۔
سفر کا آغاز ہو چکا تھا اسی وقت ریڈیو پر آر جے کی آواز گونجی
میرے رقیب تیری اُداسی دیکھی نہیں جاتی
اکھیاں ترسی روح پیاسی دیکھی نہیں جاتی
شاید آر جے اور بھی کچھ کہتا مگر احتشام کا پارہ چڑھ چکا تھا اس نے بےدردی سے اپنے اندر سے اٹھتی آوازوں کو بھی جھڑک دیا اور ریڈیو بھی بند کر دیا۔دھیان بٹانے کے لیے سی ڈی پلئیر آن کیا تو غزل وہی چلی مگر احساسات بدل گئے
کوئی فریاد میرے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے
احتشام غزل کے بولوں پر اپنی زندگی میں گزرے لمحات کو ٹٹول رہا تھا۔۔۔۔اس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈالنے کی بجائے ہائی وے پر چڑھا دی تھی
ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے
راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وہ نظر چپکے سے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے
’’پتا نہیں کیوں میں اسکی سوچ نہیں جھٹک پا رہا کیوں سوچیں ضدی بچوں کی طرح اسی کی طرف ہمکتی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔آج پہلی بار مجھے اس نے نظر انداز کیا ہے شاید یہ وجہ ہے نہیں اگر یہی وجہ ہے تو یہ وجہ بھی کیوں ہے یہ عورتیں بھی نہ۔۔۔۔۔‘‘
 احتشام ماہم کو لےکر بدگمانی کا شکار ہو رہا تھا عورتوں کا ذکر ہوا تو سوچوں کے دھارے خودبخود ماہم سے ہوتے ہوئے درِثمن کی طرف مڑ گئے۔۔۔
’’کاش حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں ان پر نہ پہنچتے کاش زندگی ایسے نہ ہوتی جیسی چل رہی ہے۔" اس نے سوچا پھر اسے ایک ماضی کی جھلک یاد آئ۔
"احتشام احتیی میری جان سنبھل کر گر نہ جانا!"
اِک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر۔
بول گٹ مٹ ہونے لگے۔۔۔۔بچے کے قہقے کی آواز گونجی۔
 ’’نہیں ماما میں نہیں گروں گا!"
‘‘احتی نہیں چندا!ماما کی جان نیچے آجاؤ گر جاؤگے!"
نہیں میں نہیں آرہا!"
’’احتی آجا میرے جگر ورنہ آپکی ماما نے غصے میں آجانا ہے اور پتہ ہے نا ماما کا غصہ۔‘‘ درِثمن نے کہا۔
"میرا شہزادہ میری بات مانے گا میرے پاس آئے گا۔" مگر اچانک اس بچے کا پاؤں پھسلا۔
’’احتی!‘‘ کی گونج، ٹرک کا ہارن اور غزل کے بول۔
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے۔۔۔۔
وہ حال میں واپس لوٹ آیا تھا مگر دیر ہو چکی تھی پسینے سے بھرا چہرہ، آنسوؤں سے دھندلائی آنکھیں، گاڑی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور سڑک کنارے کھڑے درخت سے ٹکرا گئی۔ دو برجوں کے ٹکراؤ میں قدموں پہ کھڑے وہی رہتے جن کی بنیادیں مضبوط ہوں اور تناور درخت کھڑا رہا احتشام کی سانسیں اکھڑنے لگیں وہی دھندلاہٹ جو آج سے کئی سالوں پہلے احتشام کی آنکھوں میں تھی واپس لوٹ آئی کانوں میں دو لوگوں کی آوازیں متواتر گونج رہی تھیں اسوقت اسکے ہونٹوں پر خوف اور تکلیف بھری جہنجناہٹ تھی مگر آج ہونٹوں پر خودسپردگی کی مسکراہٹ، زندگی کے عذاب کو اتار پھینکنے کا موقع مل گیا ہو جیسے، موت کی گود میں سکون کی آرزو۔۔۔۔غزل کے بول متواتر گونج رہے تھے
اسی طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں
میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے۔۔۔
آج عرصے بعد اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ وہی لفظ ادا ہوا تھا۔
’’بابا‘‘
اسکے ذہن میں جو آخری بات گردش کی وہ یہی کی کاش یہ میرے آخری لفظ ہوں۔۔۔۔۔۔۔
کوئی فریاد میرے دل میں دبی ہو جیسے۔۔۔۔اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا۔۔۔۔
************
جاری ہے

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.