٭ بات تو احساس کی ہے* baat tou Ahsas ke haiy*



٭ بات تو احساس کی ہے ٭
تحریر:سحرش طفیل
قسط نمبر:7
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لےlll
----------------------------------------
اس وقت سب ھوسپٹل میں موجود تھےاور نور کے لیے پورے دل سے دعا کر رہے تھےکہ اسے کچھ نہ ھو, خوف اور تکلیف سے نور کالج کے باہر ہی بے ھوش ھو گئی تھی
سمعان کے بار بار پوچھنے پر
امبر نے جمی کے کالج آنے اور نور کے تھپڑ مارنے ,جمی کی دھمکیوں کے بارے میں سب بتا دیا
"اسے میں چھوڑو گا نہیں"
" سمعان اس وقت ھمارے لیے زیادہ اہم ھماری بہن ھے وہ ٹھیک ھوجائے پھر ھم اسے بھی دیکھ لے گئے "
عالیان کی بات پر سمعان نےسر ہلا دیا
----------------------------------------
مومل نے ھما کر فون کر کے بتایا کہ کیسے کسی نے گزرتے ھوئے نور پر ایسڈ ڈالا ھے
ھما فون بند کر کے سوچنے لگی کہ
صبح جمی کے ہاتھ میں بیگ اور اک جار دیکھا تھا
"جمی کہاں جا رہے ھو ,اور اس جار میں کیاھے"
"کتنی دفعہ بولا ھے ڈارلنگ جب کوئی اچھا کام کرنے جائے اسے ٹوکا نہیں کرتے "
"جمی اس بیگ میں کیا ھے اور ھم شادی کب کرے گئے بتاؤ"
جمی نے ھما کے ہاتھ کو پکڑ کر مڑور دیا اور بولا
"کتنی دفعہ بولا ھے مجھ سے اس لہجے میں بات مت کیا کرو میں تمہارے باپ کا نوکر نہیں ھو جمی نام ھے میرا جمی سمجھی "
جمی نے ھما کا ہاتھ چھوڑ کر اسے خود سے دور پھینک دیا
"اور ہاں اک بات اور آج تک دنیا میں کوئی لڑکی ایسی پیدا نہیں ھوئی جو جمی کو اپنے اشاروں پر نچاسکے,
اور رہی بات تمہاری تو ڈارلنگ چار دن کی زندگی ھے ڈئیر عیش کرو کھل کے جیئیوں شادی وادی میں کیا رکھا ھے جان کیا سمجھی"
جمی سخت لہجے میں بات کرتے کرتے آخر میں کسی لوفر اور آوارہ کی طرح اک آنکھ دبا کر بولا
"اور اس جار میں تمہاری عزیزوجان دوست کے لیے اک تحفہ ھے گفٹ
ہاہاہاہا........ سالی نے مجھ پر جمی پر ہاتھ اٹھایا تھا اب لوگ اسےہاتھ لگانا تو دور اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گئے ہاہاہاہا...."
"ججمی جمی کیا ھے اس میں "
"ایسڈ..... تیزاب..ہاہاہاہا"
"میری واپسی کا ویٹ مت کرنا آج میرا موڈ جشن کا ھے اگر تم آنا چاہو تو بتا دینا ویسے وکی تمہارے بارے میں بہت پوچھ رہا تھا
ہاہاہاہا... بائے جان"
تو جمی تم نے اپنا بدلہ لے لیا not a bad اچھی بات ھے
ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن...... ھما کو خیالوں کی دنیا سے واپس فون کی آواز لے کر آئی,
ھما نے جیسے ھی فون اٹھایا دوسری طرف سے جمی کی لڑکھڑاتی آواز سنائی دی
"جججان I am feeling alone تم جلدی سے آجاؤ مممل کر جججشن مناتے ھے ٹھیک ہے نہ"
جمی نے جواب سنے بغیر فون بند کر دیا اور ھما اک سانس لے کر تیار ھونے چل پڑی
-----------------------------------------
نور کو دو بار ھوش آیا مگر تکلیف کی شدت اور ڈر کی وجہ سے وہ صرف روتی اور چیختی رہی
ڈاکٹرز نے اسے نیند کا انجکشن دے کر سلا دیا
جو بھی نور کو دیکھتا اس کی آنکھوں میں بےساختہ آنسو آجاتے ,
چہرے کی دائیں سائیڈ بری طرح جھلس گئی تھی اللہ کا کرم تھا کہ آنکھوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا دائیں ہاتھ کی جلد بھی کچھ جگہ سے جھلس گئی تھی
کسی کو یقین نہیں آتا تھا صبح ہنستی مسکراتی نور شام میں انھیں اس حالت میں ملے گی کسی کو پتہ نہ تھا
ڈاکٹر بار بار انھیں اک ہی بات بول رہے تھے
اگر آپ لوگوں نے ہمت ہار دی تو آپ کے مریض کو کون سنبھالے گا اس وقت سب سے زیادہ اسے آپ لوگوں کی ضرورت ھے
اک بار دیکھنے کے بعد کسی کی ہمت نہیں ھو رہی تھی کہ وہ دوبارہ نور کی طرف دیکھے
-------------------------------------.
شاہ میر کو جیسے ھی نور کے بارے میں پتہ چلا وہ پہلی فلائٹ سے سب کام چھوڑ کر آ گیا
اس وقت ھوسپٹل میں امبر,ثوبیہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا نور ابھی دوائیوں کے زیراثر سو رہی تھی
شاہ میر نور کو دکھ اور تکلیف سے دیکھ کر ثوبیہ سے اس کے بارے میں پوچھتا ھے
جواب میں امبر اسے سب کچھ بتا دیتی ھے سب جانے کے بعد شاہ میر کی تکلیف بڑھ جاتی ھے وہ کچھ دیر نور کو دیکھتا ھے اور پھر تیزی سے باہر نکل جاتا ھے ثوبیہ بھی اس کے پیچھے باہر نکل جاتی ھے
----------------------
اس وقت کمرے میں امبر ,نور اور عالیان کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں,عالیان نور کا ہاتھ پکڑ کرروتے ھوئے بار بار اک بات ہی بولے جا رہا ھے
"میرے گناہوں کی سزا نور کو ملی ھےمیں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا امبر خدا کی قسم میں نے پورے دل سے بخت کو اپنایا تھا میں بہت محبت کرتا تھا اس سے,اگر وہ مجھے تھوڑا وقت دیتی تو آج وہ میرے گھر میں ھوتی,سارا میرا قصور ھے کدھر ڈھونڈو میں بخت کو ........'
امبر کی نظر دروازے پر پڑتی ھےتو وہ عالیان کو متوجہ کرتے ھوئے بولتی ھے
" بھائی بھابھی........ "
عالیان دروازےکی طرف دیکھتا ھے جہاں ثوبیہ کھڑی بے یقین نظروں سے عالیان کی طرف دیکھ رہی ھوتی ھے
عالیان بے اختیار ثوبیہ کی طرف بڑھتا ھے اور ثوبیہ اک قدم پیچھے ھوتی ھے اور چکرا کر گرنے لگتی ھے
عالیان تیزی سے آگے ھو کر اسے تھام لیتا ھے
"ثوبی ,ثوبی ثوبیہ..."
مگر اتنی دیر میں ثوبیہ بے ھوش ھو چکی تھی
------------------------------
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
ثوبیہ کی بےھوشی جہاں سب کی پریشانی کی وجہ تھی وہی نئی مہمان کی آمدکی خبر سے ہر کوئی خوشی سے جھوم اٹھا سب نے دل کھول کے صدقہ اتارا شکرانے کے نفل ادا کیے
مگر اک وجود ایسا بھی تھا جو ابھی بھی بے یقین بیٹھا ھوا تھا
عالیان ثوبیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کرسر جھکاکر اسے آہستہ آہستہ سب بتاتا گیاآخر میں بولا
"ثوبیہ وہ میرا کل تھا اور تم آج,میں کل کو اپنی زندگی میں دوبارہ نہیں لا سکتا مگر تمہیں میں چھوڑ بھی نہیں سکتا پہلے ھمارا رشتہ میں اور تم تک تھا اب ھم بن گیا ھے
میں یہ نہیں کہو گا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا
مگر اس کے باوجود میں فیصلے کا حق تم کو دیتا ھو تم جو بھی فیصلہ کرو میں تمہارے ساتھ ھو
بس اک request ھے پلیز تم جو بھی فیصلہ کرو ھمارے بچے کے بارےضرور سوچنا"
عالیان نے جھک کر ثوبیہ کی پیشانی چومی اور تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا
,ثوبیہ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور رونے لگی
-------------------------------------
نور اب مکمل ھوش میں تھی باری باری گھر کے تمام لوگ اس سے آکر ملے
ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا کہ اس کے سامنے کوئی روئے گا نہیں اگر آپ لوگوں نے اس کو ذرا بھی اس بات کا احساس دلایا کہ اب وہ پہلے جیسی نہیں تو یہ اس کے لیے اچھا نہیں ھو گا وہ جوش میں آکر خود کو نقصان بھی پہنچا سکتی ھے
کچھ دن مزید ھوسپٹل میں رہنے کے بعد نور ھوسپٹل سے گھر آتی ھےمگراسکے آنے سے پہلے سمعان اور سبحان مل کر اس کے کمرے سے آئینہ ہٹا دیتے ھے
ثوبیہ اور امبر نور کے ساتھ ہی گھر آتی ھیں
امبر زبردستی ثوبیہ کو آرام کرنے کے لے اس کے کمرے میں بھیج دیتی ھے
نور اپنے ھاتھ اور چہرے کو چھو کر دیکھتی ھےاور امبر سے کہتی ھے
"امبر کیا میں بہت بری لگ رہی ھو"
"ارے نہیں تم سے کس نے بولا"
"تو میرے کمرے سے آئینہ کیوں ہٹا دیا تم لوگوں نے "
"نور ......وہ.....ایسا ھے کہ ... ..."
امبر کو سمجھ نہیں تھی آ رہی کہ وہ نور کو کن الفاظ میں سمجھائے کہ اتنے میں سمعان آگیا
"وہ اس لے ہٹا دیا کہ وہ آئینہ اب اس قابل نہیں تھا کہ میری پیاری سی بہن کی خوبصورتی کو برداشت کر سکتا
پھر کیا تمہیں ھم پریقین نہیں ھمارے لیے تم آج بھی وہی نور ھو جیسے دیکھ کر ھم جیتے ھیں اور رہی بات ان زخموں کی تو انشااللہ یہ بھی ٹھیک ھو جائے گئے چلو اب ہنس کر دیکھاؤ "
نور نے سمعان کی طرف دیکھا اور مسکرا دی
----------------------------------
جمی کے کہنے پر ھما اس سے ملنے چلی تو گئی
مگر ادھر پہنچ کر اسے احساس ھوا کہ اس نے یہاں آکر بہت بڑی غلطی کی ھے مگر اب کچھ نہیں ھو سکتا تھا
سات دن جمی اور اس کے دوستوں نے دل بھر کر جشن منایا اور پھر وہ ایک ایک کر کے وہاں سے چلے گئے
ھما نے نفرت بھری نظروں سے جمی کو دیکھا مگر جمی نے کوئی پروا نہ کی
جمی امریکہ چلا گیا ہاں جاتے ھوئے اس نے اک احسان ھما پر یہ کیا اسے اس کے گھر کے باہر پھینک گیا جہاں چوکیدار نےہما کو خستہ حالت میں دیکھ کر فورا اندر اطلاع دی
ھما کی ممی بھاگ کر باہر آئی ھما پر نظر پڑتے ھی وہ چکرا کر نیچھے گر گئی
----------------------.
جاری ہے

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.