٭ بات تو احساس کی ہے ٭Baat Tou Ahsas ke Haiy*




٭ بات تو احساس کی ہے ٭
تحریر:سحرش طفیل
قسط نمبر:8
شاہ میرجب بھی ھوسپٹل میں نور سے ملنے آیا اتفاق سے وہ سو رہی ھوتی
لہذانور کو کبھی پتہ ہی نہیں چل سکا کہ شاہ میر اس سے ملنے آیا ھے
وہ یہ ہی سمجھتی رہی کہ شاہ میر جان چھڑانے کے لیے اس کی خیریت بھی پوچھنے نہیں آیا
اس کا اس بات پر ایمان ھے کہ جو چیز یا تکلیف اللہ نے آپ کے لے لکھ دی ھے وہ آپ کو مل کر رہنی ھے دکھ اسے اس بات کا تھا کہ شاہ میر اس سے اک بار بھی ملنے کیوں نہیں آیا بہت سوچنے کے بعد وہ ایک فیصلہ کر کے ثوبیہ کے روم کی طرف چل پڑی
"بھابھی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ھے "
"نور بولو کیا بات ھے "
"بھابھی وہ یہ.....پلیز آپ یہ شاہ میر کو دے دیجۓ گا"
نور نے اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر ثوبیہ کو پکڑائی
"نور.......نور یہ کیا ھے "
"بھابھی پلیز شادی کوئی زبردستی کا سودا نہیں اور پھر میں یہ بات بہت اچھے سے جانتی ھو کہ میں اب اس قابل نہیں رہی کہ شاہ..................... شاہ میر کی زندگی میں شامل ھو سکو جو فیصلہ کل کو شاہ میر کرے بہتر نہیں وہ میں خود ھی کر لو"
اتنا بول کر نور تیزی سے کمرے سے چلی گئی اور ثوبیہ کبھی انگوٹھی کو اور کبھی کمرے کے ہلتے پردے کو دیکھ کر تھوڑی دیر پہلے ھوئی ان باتوں کو سوچنے لگی جو شاہ میر سے فون پر کی تھی
ثوبیہ کو نور سے بہت پیارتھا آج تک نور کی ذات سے اسے کوئی تکلیف نہیں ھوئی تھی اگر کبھی عالیان یا آنٹی نے اس سے کوئی زیارتی کی بھی تو نور نے اپنے پیار اور محبت سے اس کا ازالہ کر دیا آج نور کے لیے جب شاہ میر سے اس نے بات کی تو شاہ میر کے ایک ہی جواب نے اس کا دل خوش کر دیا تھا
"ثوبیہ تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میں نور کو چھوڑ دو گا یا اس سے برا سلوک کرو گا میری سوچ اتنی گھٹیا نہیں کہ ذرا سی بات کے لیے اس کو چھوڑ دو اور پھر جن سے دل کا رشتہ جوڑا جاتا ھے ان کو حالات کے رحم وکرم پر تو نہیں چھوڑتے اور یہ بات تم سے بہتر کون جان سکتا ھے"
" میری تھوڑی دیر میں دبئ کی فلائیٹ ھے تم میری واپسی تک ادھر تمام معاملات نمٹا لینا میں اب اور اس معاملے میں دیر نہیںں چاہتا انشاءاللہ "
---------------------------
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
------------------------
ثوبیہ کو سمجھ نہیں تھی آ رہی کہ شاہ میر کو سب کچھ بتائےکہ نہیں, بہت سوچنے کے بعد آخر اس نے شاہ میر کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا ,
شاہ میر نے ثوبیہ کی تمام بات سننے کے بعد بس اتنا کہا
" تم نے اب تک یہ بات کسی کو بتائی تو نہیں نہ"
"نہیں"
"شکر ھے Good میری واپسی تک کسی کو بتانا بھی نہیں میں واپس آ کر خود دیکھ لو گا اس معاملے کو "
"مگر شاہ میر اگر نور نے خود کسی کو بتا دیا تو "
"وہ کسی کو نہیں بتائے گی Don't worry تم اس کی فکر مت کرو میں اسے اچھی طرح جانتا ھو "
"ھھھھھھھممممم Oo Reallyاور کیا کیا جانتے ھو "
شاہ میر ثوبیہ کے لہجے میں چھپی شرارت کو سمجھتے ھوئے بولا
"میں کیا جانتا ھو اور کیا نہیں تم اس بات کو جانے دو تم بس نور کا خیال رکھو"
"کیسے بھائی ھو اتنا نہیں بولا کہ اپنا خیال رکھو "
"تمہارا خیال رکھنے کے لیے عالیان ھے نہ اور مجھے یقین ھے کہ وہ تم سے بہتر تمہارا خیال رکھے گا اب میں فون رکھتا ھو مجھے ضروری کام سے جانا ھے اللہ حافظ"
"اللہ حافظ"
فون رکھنے کے بعد ثوبیہ سوچنے لگی کہ کتنا سچ بولاھے شاہ میر نے ,عالیان سچ میں اس کا اتنا خیال رکھتا تھاکہ اسے کھبی کھبی شک ھوتا ھے کہ کیا یہ وہی عالیان ھے یاکوئی اور
نور نے کتنا سچ بولا تھا
"بھابھی بھائی نے پہلی محبت صرف آپ سے کی ھے آپ سے منگنی بھائی نے اپنی مرضی سے کی تھی
جبکہ بخت سے شادی بھائی نے مجبوری میں کی تھی بھائی کا اور آپ کا ساتھ سالوں کا ھے آپ کی ذرا سی تکلیف پر آج بھی بھائی بے چین ھوتےھے
کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیئے گا کہ آپ اپنا مقابلہ اک مردہ انسان سے کر رہی جو مٹی میں مل کر اب تک مٹی ھو چکا ھے"
-----------------------------
"مسز سمعان اگر آپ کی اجازت ھو تو کیا میں اندر آسکتا ھو "
نور نے آفس فون کر کے سمعان کو امبر سے کچھ بکس لانے کے لئے بولا تھا
نور نے امبر سے آنےکے بارے میں پوچھا تو امبر نے بتایا کہ امی اور چھوٹی بازار گئی ھے اس لے وہ کل آئے گی
نور نے یہ سنتے ھی سمعان کو ابھی بکس لے کے دینے کو بولاجس کے نتیجے میں سمعان اب ادھر تھا امبر جو حیرت سے سمعان کو دیکھ رہی ھوتی ھے سمعان کی بات سن کر جھجکتے ھوئے راستہ چھوڑ دیتی ھے
"آپ ......."
"جی میں ویسے کمال ھے نہ کوئی سلام نہ دعا آپ کیا ادھر آنے والوں کو دروازے سے ھی واپس بھیج دیتی ھیں "
"سوری اسلام علیکم پلیز آپ اندر آئے "
"وعلیکم سلام جیتی رہیے گھر والے کدھر ھیں "
"امی اور چھوٹی تو بازار گئی ھیں میں آپ کے لیے کچھ لاتی ھو "
امبر اتنا بول کر تیزی سے کچن کی طرف چل پڑتی ھے سمعان زیر لب مسکرا دیتا ھے اسے نور کی ابھی لا کر دو کی سمجھ اب آتی ھے اور ساتھ ہی اپنی بہن پر بہت سارا پیار بھی جو خود تو تکلیف میں ھے مگر اسے اپنے گھر والوں کا کتنا احساس ھے
امبر جوس کا گلاس لا کر سمعان کو پیش کرتی ھے جسے سمعان شکریہ کے ساتھ پکڑ لیتا ھے
"امبر مجھے تمہیں Thanks بولنا تھا "
"وہ کس لیئے"
"جس طرح تم نے میری فیملی کا خیال رکھا اور اسپیشلی نور کا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کرو"
امبر سمعان کی بات سن کر بولتی ھے
"آپ کی فیملی...."
امبر کی بات اور اس کے تاثرات دیکھ کر سمعان کو اپنی غلطی کا احساس ھوتا ھے وہ فورا امبر کے پاس جا کر بیٹھتا ھے اور امبر کے ہاتھوں کو پکڑ کر بولتا ھے
"سوری یار ھماری فیملی"
"پلیز میں نے جو کچھ بھی کیا ھے اپنے گھر والوں کے لے کیا ھے اور نور میری بہت اچھی دوست ھے اگر میں نے کچھ کیا بھی ھے تو اس کے لیے آپ کو مجھے Thanks بولنے کی ضرورت نہیں ھے"
امبر نے سمعان کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑواتے ھوئے کہا ,مگر سمعان نے اس کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط رکھتے ھوئے انھیں چوم لیا
"پلیز سوری یار "
"پلیز آپ آپ میرے ہاتھ چھوڑےاور پیچھے ھو کر بیٹھے"
امبر نے کپکپاتے لہجے میں کہا سمعان نے اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ھوئے شرارتی لہجے میں کہا
"یہ ہاتھ چھوڑنے کے لیے تھوڑی پکڑے ھیں اور ھم آگے بڑھنے والوں میں سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں"
سمعان نے معنی خیز لہجے میں کہا
سمعان کی بات سن کر امبر کو کرنٹ لگا وہ رو دینے والے لہجے میں بولی
"سسسمعان پلیز"
سمعان امبر کی حالت کو مسکراتے ھوئے دیکھ کر ایک بار پھر اس کے ہاتھوں کو جھک کر چومتا ھے اور اٹھ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ جاتا ھے
"امبر مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی"
"جی بولے میں سن رہی ھو"
" ھم نے نور کی سرجری کروانے کے بارے میں سوچا ھے شاہ میر نور کی رپورٹس لیکر گیا وہ چاہتا ھے کہ اس کی سرجری بیرون ملک سے ھو
بھابھی کے بارے میں تم جاتی ھو کہ ان کی طبیعت بھی اب ٹھیک نہیں ھے امی اور بابا پہلے ھی نور کی وجہ سے اپ سیٹ ھے ایسے میں بہت ضروری ھے کہ گھر کا ماحول کچھ چینج ھو "
امبر جو غور سے سمعان کی بات سن رہی تھی اس کے رک جانے پر نظر اٹھاکر سمعان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
"تمہیں نہیں لگتا کہ اب ھم کو شادی کر لینی چاھیے"
سمعان کی بات سن کر امبر نے فورا نظریں جھکا لی
"امبر پلیز I Need U امی نے مجھ سے بات کی تھی مجھے مناسب لگا کہ پہلے میں تم سے تمہاری رائے پوچھ لو جس طرح تم نےاور بھابھی نے گھر کو اور نور کو سنبھالا,
میں نہیں چاہتا کہ میں کوئی زیارتی کرو ممانی جان 'شاہ میر اور نور کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنا چاہتی ھیں اور ساتھ میں ھماری ,اب تم بتاؤ کہ میں امی کو کیا جواب دو"
"مگر........"
"مگر کیا امبر پلیز تم کھل کر بولو ھم اچھے دوست بھی تو ھیں "
"وہ میری سٹڈی تو ابھی مکمل نہیں ھوئی"
"او وہ تو تم بعد میں بھی کر سکتی ھو نور کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور بات "
امبر نے نفی میں سر ہلاتے ھوئے کہا
"نہیں اور کچھ نہیں جیسے آپ کو مناسب لگے "
سمعان امبر کے پاس آکر کھڑا ھوا اور بولا
"Are You Sure "
جی "سمعان نے آگے بڑھ کر امبر کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہرثبت کی اور بولا
"THANKS ,
THANK You So Much"
-------------------------------
شاہ میر اور سمعان کا مشترکہ دوست کافی سالوں بعد بیرون ملک سے آیاتھا شاہ میر سے مل کر اور اسے ساتھ لے کر وہ سمعان سے ملنے آیا شاہ میر اک تو دوست سے ملنے اور دوسرا ڈاکٹرز کے حوصلہ افزا جواب کی وجہ سے بہت خوش تھا
اس وقت ڈرائینگ روم میں شاہ میر ,سمعان اپنے دوست کے ساتھ بیٹھے باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک باہر سے نور اور عالیان باتیں کرتے اندر داخل ھوتے ھیں
"بھائی میں بول رہی ھو مجھے سمعان بھائی کے ساتھ نہیں آپ کے ساتھ جانا ھے"
"مگر گڑیا مجھے ضروری کام سے جانا ھے تم سمعان کے ساتھ چلی جاؤ,سمعان یار تم ذرا نور کو ساتھ لے جاؤ اسے کچھ چیزیں لینی ھیں"
"جی بھائی, سیف یہ میرے بڑے بھائی ھیں عالیان اور یہ میری سسٹر ماہ نور اور بھائی یہ سیف ھے میرا دوست"
"اسلام علیکم "
نور نے سیف کی طرف دیکھا تو اسے لگا کہ یہ چہرہ پہلے بھی کہی دیکھا ھے
"او تو آپ ماہ نور ھے کافی سنا ھے آپ کے بارے میں"
"کیا مطلب "
" سمعان سے کافی سنا ھے آپ کے بارے میں خیریت آپ مجھے اسے کیوں دیکھ رہی ھے "
شاہ میر اس دوران بالکل خاموش بیٹھا ھواتھا اس کی نظریں نور کے چہرے پر تھی نور نے ڈوپٹے سے اپنے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا
"نور کیا بات ھے "
"بھائی I Don't but
میں نے انھیں پہلے بھی کہی دیکھا ھے لیکن مجھے یاد نہیں آرہا,Any way میں آپ لوگوں کے کھانے کے لیے کچھ لاتی ھو Excuse me"
"جمی کے بارے میں کچھ پتا چلا "
سیف نے شاہ میر, سمعان اور عالیان سے مشترکہ طور پر پوچھا ,سمعان نے جواب دیا
"نہیں وہ بیرون ملک فرار ھو گیا ھے نور نے کسی بھی کاروائی سے منع کر دیا ھے"
"مگر کیوں یار "
"وہ کہتی ھے میں نے اللہ پر چھوڑ دیا ھے وہ بہتر انصاف کرنے والا ھے "
"بیشک اللہ بہتر انصاف کرنے والا ہے"
----------------------------------
نور اس وقت شاک کے عالم میں بیٹھی تھی آج امبر کی امی اور بابا کو بابا جان نے فون کر کے کھانے پر انوائٹ کیا تھا
کھانے سے پہلے ماموں جان اور ممانی کی غیر متوقع آمد ممانی جان کا اسے بار بار پیار کرنا اس کو ٹھٹھک تو رہا تھا مگر وہ بولی نہیں
کھانے کے بعد بڑوں کی جیسے ہی امی بابا کے کمرے میں میٹنگ شروع ھوئی تو بھابھی اور عالیان بھائی کو بھی فورا بلوا لیا گیا اور جب کمرے کا دروازہ کھلا تو
ممانی جان نے ہزار ہزار کے کئی نوٹ نور سے وار کر کام والی کو دیئے اور کئی نوٹ نور کے ہاتھ میں پکڑا دیئے اور گلے لگا کر نور کو خوب پیار کیا اور ساتھ ہی یہ خبر سنائی کہ
" انشااللہ اب میں دو ہفتوں بعد تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنے گھر لے جاؤ گی اپنے شاہ میر کی دلہن بنا کر"
نور نے بے یقین نظروں سے بھابھی کی طرف دیکھا تو انھوں نے نظریں چورا لی ,اور اب نور شاک کے عالم میں اپنے کمرے بیٹھی تھی
"بھابھی آپ نے یہ اچھا نہیں کیا ,آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیےتھا اب میں کیا کرو او میرے خدا"
-------------------------------------

جاری ہے

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.