٭موجود ہے تو مجھ میں رگ و جاں جیسے ٭Mouj hai tou muj main rug o jaan jasy *



٭موجود ہے تو مجھ میں رگ و جاں جیسے ٭
تحریر:عشاء راجپوت
قسط نمبر :7
اگلے روز رات کو وہ شہام کی طرف  ڈنر پہ انوائٹڈ تھے ۔
شہام نے ہوٹل میں انہیں زبردست سا ڈنر کروایا۔
نایاب کو باتونی سا شہام اچھا لگا۔
وہ اس کی دوست کا منگیتر بھی تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ اس قدر اچھے بہن بھائی بن چکے تھے کہ افنان کو کوئی لفٹ ہی نہیں کروا رہا تھا۔
افنان بیچارہ کبھی نایاب کو دیکھتا تو کبھی شہام کو جو اپنی ہی دھن میں مگن بولتے جا رہے تھے اور ہنستے چلے جا رہے تھے۔ 
افنان کو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ یہاں ان کے سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے موجود ہے۔
مگر وہاں پرواہ کسی تھی۔ 
چند ثانیے بعد شہام کا موبائل رنگ کرنے لگا۔ 
نمبر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں 440 واٹ کے بلب جگمگ کرنے لگے۔ 
دیکھیے بھابھی۔۔۔۔۔آپ میرے لیے بہت لکی ثابت ہوئی ہیں۔ 
میری نک چڑھی منگیتر نے کبھی مجھ سے جھوٹے منہ بات تک نہیں کی اور آج خود فون کر رہی ہے۔ 
شہام نے موبائل سکرین اس کی نظروں کے سامنے لہرائی تو نایاب مسکرا دی۔ 
شہام نے کال اٹینڈ کی اور ایکسکیوز کرتا وہاں سے اٹھ کر کچھ فاصلے پر آ گیا۔ 
شہام کے اٹھتے ہی افنان نے اپنی توپوں کا رخ نایاب کی جانب کیا۔ 
وہ سٹیل بلیو آنکھوں میں ڈھیروں خفگی لیے اسے دیکھنے لگا۔ 
نایاب نے اسے یوں خود کو گھورتے پایا تو حیرت کا جھٹکا لگا۔
ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں اپنے ۓ نویلے بھائی سے جتنی باتیں کی ہیں،مجھ سے تو کبھی نہیں کی
افنان نے منہ پھلاۓ شکوہ کیا۔ 
وہ تو بھائی ہیں نا۔۔۔۔۔۔
نایاب نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ کہا۔

افنان کو وہ اس وقت کوئی چاندی کی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔

دودھیا شفاف رنگت،بڑی بڑی سرمئی آنکھیں جو کاجل اور مسکارے سے مزید پر کشش ہو گئیں تھیں۔
نفیس سی سرخ ساڑھی زیب تن کیے جو کہ افنان ہی کی پسند اور فرمائش تھی۔
وہ کسی گڑیا سے کم بھی نہیں لگ رہی تھی۔

یکدم ہی افنان کو اپنی قسمت پر رشک آنے لگا اور اپنی مسز پر ڈھیروں پیار بھی لیکن ابھی وہ نایاب سے خفگی کا مظاہرہ کر رہا تھا سو اپنا عمل جاری رکھا۔

اور میں؟؟؟میں تو تمہارا نیا نویلا دولہا ہوں۔
مجھ سے تو چند پیار بھری میٹھی باتیں کر لیا کرو۔

افنان کی بات پر نایاب بلش کر گئی۔

چہرے پر قوس قزاح کے رنگ بکھر گۓ۔

اتنے میں شہام فون ہاتھ میں لیے منہ بسورتا ان تک پہنچااور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

پھر فون نایاب کی جانب بڑھاتے ہوۓ بدمزہ مزاج میں بولا۔

میں بے وجہ خوش فہمی کا شکار ہوۓ جا رہا تھا۔

کل غلطی سے میسج منگیتر صاحبہ کو فارورڈ ہو گیا تھا جس میں خاص  طور پر ٹائمنگ اور جگہ بتا کر آپ دونوں کو انوائٹ کیا تھا۔
آپ کی دوست صاحبہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں بھابھی، لیجیے۔۔۔

نایاب نے مسکراتے ہوۓ فون اس کے ہاتھ سے لیا اور بات کرنے لگی۔

پھر اپنا نمبر لائبہ کو دیا جو آج ہی افنان نے اسے سیل فون کے ساتھ  لا کر دیا تھا۔
کچھ دیر بعد کال بمد ہو گئی۔
انہوں نے ایک خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا اور واپسی کے لیے روانہ ہو گۓ۔

میرے سسرال جانا چاہو گی۔

افنان نے نایاب کو متوجہ کیا جو کہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

امی کے پاس۔۔۔۔۔نایاب یکدم پر جوش ہوئی۔

افنان نے سر کو ہاں میں جنبش دی۔

لیکن پھر نایاب کے چہرے پر ایک سایہ لہرایا اور گزر گیا۔ 
ماضی اس پہ حاوی ہو نے لگا تھا۔ اس کے دماغ میں شازیہ کے وہ الفاظ گردش کرنے لگے۔

ایک کو تو بیاہ چکی اب نایاب کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہوں۔

ابھی جانا ہے کیا؟؟؟نایاب ذہن جھٹک کر افسردہ سی بولی۔

افنان کو حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔ابھی تو وہ بہت اکسائیٹڈ تھی۔۔۔۔۔۔اچانک کیا ہوا؟؟

اگر تم کہو تو ابھی چلتے ہیں۔
افنان نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔۔

ابھی گھر چلیں۔۔۔میں تھک گئی ہوں۔۔۔پھر کبھی  چلیں گے وہاں۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔جیسے تمہاری مرضی۔

افنان کو تھوڑی تشویش ہوئی کہ آخر نایاب نے ایسا ری ایکٹ کیوں کیا۔

لیکن بنا کوئی سوال کیے وہ اسے گھر لے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افنان ہاتھوں میں بُکے لیے روم میں داخل ہوا جہاں رامین آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی تھی۔
دوسرے ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔

اسلام علیکم!!!
افنان اندر داخل تو ہو چکا تھا لیکن اسے متوجہ کرنے کے لیے دروازے کے پاس رک کر بولا۔

وعلیکم اسلام!!!
رامین افنان کو دیکھ کر اٹھ کر ٹیک لگاتے ہوۓ بولی۔

افنان نے بُکے اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے ہلکی مسکراہٹ سے تھام لیا۔

اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟؟
وہ روم میں  لگے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔

پہلے سے کافی بہتر۔۔۔۔۔۔۔۔مختصر جواب آیا۔

گُڈ ۔۔۔۔۔۔۔افنان نے ایک نرم مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔

آپ کو کچھ معلوم ہوا اس بارے میں ۔
رامین کا اشارہ کل والی بات کی طرف تھا جو اس نے افنان سے کہا تھا جب وہ اس کی طبیعت جاننے آیا تھا اور اپنا انٹرو بھی دے گیا تھا اور یہ بھی بتا گیا تھا کہ اسے یہاں لانے والا بھی وہی ہے۔

ہمممممم۔۔۔جی بالکل۔
افنان نے کہا۔

کیا آپ نے میرے ہزبینڈ کو بتا دیا میرے ایکسیڈنٹ کے بارے میں۔۔۔۔۔وہ آۓ کیوں نہیں۔۔۔۔۔
رامین مایوس ہوتے ہوۓ بولی۔

میں نے اس بارے میں سب پتا کیا ہے۔
وہ جو آپ کے ہزبینڈ ہیں نا۔۔۔۔ضیاء۔۔۔۔
وہ میرا کزن بھی ہے اور فی الوقت یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے اس کا نمبر بھی بند ہے۔
اب چونکہ۔۔۔آپ کے متعلق اس کی فیملی بھی نہیں جانتی اس لیے میں کسی کو بتا  بھی نہیں سکتا۔

آپ فکر مت کریں۔۔۔ کریں۔۔۔إن شاء الله  جلد ہی سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔
افنان نے اسے تسلی دی۔

ہممممم۔۔۔۔۔وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔

ویسے آپ عمر میں مجھ سے چھوٹی ہیں تو کیا میں آپ کو چھوٹی آپی کہہ سکتا ہوں؟؟
افنان نے اجازت چاہی۔

وہ ذرا سا مسکرائی۔
جی ہاں۔۔۔کیوں نہیں۔۔
مجھے بہت شوق تھا کہ میری کوئی بہن ہوتی،لیکن میں اپنے والدین کا اکلوتا پیس ہوں اس لیے یہ خواہش ادھوری رہ گئی مگر آج آپ کی وجہ سے وہ بھی پوری ہوگئی۔

افنان نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔وہ اس کا دھیان ان سب باتوں سے ہٹانا چاہتا تھا اور ایسا ہوا بھی۔

میں کسی کی خواہش کی تکمیل کا سبب بنی، اس سے اچھی بات میرے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔

وہ زخمی سا مسکرائی۔

افنان کچھ دیر وہاں رکا پھر الوداعی کلمات کہتے ہوۓ وہاں سے رخصت ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افنان رامین سے ملنے کے بعد آفس آ گیا۔
چند ایک ضروری فائلز پر دستخط کرنے کے بعد احتشام کو سارا کام سمجھا کے اس نے نایاب کو کال ملائی۔

دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔

افنان کی ہشاش بشاش سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

اسلام علیکم!!!وائفی۔۔۔۔
کہاں بزی ہیں؟؟؟

وعلیکم اسلام! !!بزی تو نہیں بس آپ کا سارا گھر  وزٹ کر رہی تھی۔
آنٹی انکل کے روم میں آپ سب کی وہ بڑی سی تصویر دیکھی۔۔۔۔۔۔۔۔ 
آپ تینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ 
"Perfect complete family"
نایاب کی کھنکتی آواز میں اس تصویر پر کیے جانے والے تبصرے پر ایک دلکش مسکان اس کے لبوں کو چھو گئی۔

اب وہ تصویر وہاں سے ہٹا دی جاۓ گی۔
افنان کا بس اتنا کہنا تھا ، نایاب کی بے یقینی اور دکھ میں ڈوبتی ابھوتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

کیووووں؟؟؟
اتنی پیاری تو لگ رہی ہے۔
نایاب نے” کیوں “ کو لمممبااا کھینچتے ہوۓ نروٹھے پن سے کہا۔

کیونکہ اس میں ایک کمی ہے۔
افنان شرارت سے گویا ہوا جسے نایاب سمجھ نہ پائی۔
وہ کرسی پر بڑے مزے سے جھولتے ہوۓ اسے تنگ کرنے لگا۔

کیا کمی ہے؟؟؟مجھے تو ایسا کچھ بھی نہیں لگا۔
وہ بھی ضد پر اڑے بحث کرنے لگی۔

اس میں ایک ادھورا پن سا ہے۔
اب کہ وہ سنجیدہ ہوا۔

میری زندگی کا سب سے حسین تحفہ اور میری جان و قلب کا ایک حصہ اس تصویر میں لاپتا ہے۔
بس یہی کمی ہے۔

کیا مطلب؟؟
اس کی بنا سر پیر والی بات نایاب کے بالکل بھی پلے نہ پڑی۔۔

مطلب میں پھر کبھی روبرو سمجھاؤں گا۔
فی الوقت تو یہ کہنے کے لیے کال کی ہے کہ آج مام ڈیڈ کی واپسی کی فلائٹ ہے اور وہ ڈنر ہمارے ساتھ ہی کریں گے۔
اس لیے آج ساراکام اپنی نگرانی میں کروانا۔
جو تمہیں بہتر لگے وہی کرنا اور ہر چیز تمہارے حساب سے پرفیکٹ ہونی چاہیے۔
آخر ہم بھی تو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔بیٹے کو تو دیوانہ بنا لیا ۔۔۔۔۔اب ایک بہو ساس کو کیسے اپنے سحر انگیز جلووں کی زد میں لا کر اپنا آپ منواتی ہے۔
بیسٹ آف لک۔۔۔
سی یو سون ڈیئر وائفی۔۔۔۔اللہ حافظ۔
افنان نے تو کال کاٹ دی مگر اپنی شرارت سے وہ نایاب کو اچھا خاصا ڈرا چکا تھا۔

جن حالات میں شادی ہوئی ۔۔مجھے ریجیکٹ کر دیا تو۔۔۔۔۔

نہیں ۔۔۔نہی۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہو گا۔

لیکن اگر ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔۔مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔۔

تھنک پوزیٹیو نایاب ۔۔۔
وہ خود کو سمجھانے لگی۔

اچھا اچھاسوچتی ہوں۔۔پھر سب اچھا اچھا ہی ہو گا۔

وہ ساری منفی سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے ہوۓ ملازمین کے سر ہو گئی۔۔۔۔آخر اسے اپنی ساسو ماں کو پٹانا جو تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آفس سے ائیر پورٹ کے لیے نکلتے ہوۓ اس نے ایک بار پھر نایاب کو کال ملائی گو کہ وہ وقفے وقفے سے فون کر کے اس کی ہمت بندھاتا رہا تھا۔

جی۔۔۔تو میری مسز ۔۔۔۔ریڈی ہو گئیں کیا؟؟؟
افنان کی گاڑی اس وقت ائیر پورٹ کے راستے پر گامزن تھی اور وہ خود ڈرائیو کرتے ہوۓ نایاب سے بات کر رہا تھا۔

جی۔۔۔۔
نایاب  نے ایک ہاتھ سے فون کان سے لگاۓ دوسرے ہاتھ سے دوپٹہ سیٹ کرتے ہوۓ ایک نظر آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتے ہوۓ مختصراً اپنے تیار ہونے کی تصدیق کی۔

وہ اس وقت وائٹ چوری دار کے ساتھ ییلو لانگ شرٹ پہ منی سلیولیس شرگ پہنے ہوۓ تھی۔
سرمئی آنکھیں کاجل سے عاری تھیں۔
گلابی ہونٹوں کو لپ گلوز کی تہہ میں مقید کر رکھا تھا۔
بے شک وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

گُڈ۔۔۔۔میں مومی اور ڈیڈ کو رسیو کرنے جا رہا ہوں۔
آپ بالکل بھی کنفیوز مت ہونا۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہی ہوں گا۔
اب گھر آ کر بات ہو گی جان۔۔۔۔اللہ حافظ۔
افنان نے تو کہہ کر کال کاٹ دی مگر نایاب کی جان تو اس ایک لفظ ”جان“ میں ہی کہیں اٹک گئی۔

انکل آنٹی کے سامنے کنفیوز ہوں گی یا نہیں۔۔۔۔یہ تو میں بھی نہیں جانتی۔۔۔۔۔مگر ان کے سامنے میری بولتی ضرور بند ہو جاتی ہے۔

کبھی ”آپ“ کبھی ”تم“ ۔۔۔۔۔۔۔
افففف۔۔۔۔میں انہیں سمجھ نہیں پا رہی۔

یا اللہ!!! مجھے ہمت دے۔
وہ ان سب کا ایک ساتھ سامنا ہونے کا تصور کرتے ہوۓ اپنے لیے خدا سے ہمت طلب کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احسن آفندی اور مسز آفندی اس وقت افنان ہی کی کار میں ائیر پورٹ سے آفندی ولا تک کی ۔سافت کے کر ہے تھے جب افنان نے گاڑی میں چھائی خاموشی کو توڑتے ہوۓ انہیں چونکنے پر مجبور کر دیا کیونکہ اس کے کہے جانے والے الفاظ کچھ یوں تھے:

مومی ۔۔۔۔۔۔ڈیڈ آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔

کیسا سرپرائز؟؟؟
دونوں نے چونکتے ہوۓ کہا۔
کیونکہ افنان کے سرپرائزز ہمیشہ انہیں حد درجہ تحیر میں مبتلا کر دیتے تھے اور نہایت غیر معمولی ہوتے تھے۔

تھھھووووڑااا سا انتظار کر لیجیے۔۔۔۔۔گھر پہنچنے پر معلوم ہو جاۓ گا۔

احسن صاحب اور سائرہ بیگم منتظر سے مزید20 سے 25 منٹ کی مسافت کے بعد آفندی ولا پہنچ چکے تھے۔

 چوکیدار نے گیٹ کھولا اور افنان کی کار پتھریلی سفید روش پر چلتی ہوئی پورچ میں آ  رکی۔

گاڑی سے نکل کر جب انہوں نے اندر کی جانب قدم بڑھاۓ تو دروازی پر ہی بڑا سا ”ویلکم ہوم“ کا بورڈ لگا ملا۔

انہوں نے پلٹ کر افنان کو حیران کن نظروں سے دیکھا۔
افنان نے مسکرا کے کندھے اچکاۓ۔
اسے بھی نایاب سے ایسے سرپرائز کی توقع نہ تھی۔

انٹرسٹنگ، لگتا ہے میری باتوں کو سیریس لے لیا مسز نے“وہ زیر لب بڑبڑاتے ہوۓ اپنے والدین کی تقلید میں  چلتے ہوۓ اندر داخل ہوا۔
ٹی وی لاؤنج اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا،لھر اچانک سے ساری لائٹس راشن ہو  گئیں اور پورا ٹی وی لاؤنج روشنی میں نہا گیا۔

جہاں زیادہ تر وائٹ اور میرون کا کمبینیشن کیا جاتا  تھا جو کہ احسن صاحب کی پسند تھا آج وہاں ہر جگہ وائٹ اور بلیو کا امتزاج دیکھنے کو مل رہا تھا جو کہ بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔

افنان ۔۔۔تمہارے ڈیڈ کو تو میرون کے سوا کچھ اور نظر کو نہیں بھاتا پھر یہ تبدیلی کیسے آئی؟؟سائرہ بیگم نے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو کر لاؤنج میں لگے پردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔

ان کی ہمیشہ احسن صاحب سے اس بات پر بحث چھڑ جاتی تھی۔
وہ جب بھی گھر کے لیے نیو کُلیلشن لاتیں تو احسن صاحب ہر مرتبہ میرون رنگ کو ہی فوقیت دیتے جس پر وہ چڑ جاتی تھیں۔

سائرہ بیگم کی بات پر بے اختیار ہی دروازے کی اوٹ میں چھپی نایاب نے منہ پر ہاتھ رکھا ۔
او گاڈ۔۔۔۔انلل کو میرون پسند ہے اور میں نے ہر جگہ بلیو کر دیا۔
وہ ایک انگلی لبوں میں دباۓدل میں پریشان کن حالت میں سوچنے لگی۔

افنان ماں کے سوال پر مدکرا دیا اور دو قدم چل کر دروازے کی اوٹ میں چھپی نایاب کا ہاتھ کھینچ کر اسے سب کے سامنے لے آیا۔

کیونکہ وہ اسے پہلے ہی وہاں چھپے دیکھ  چکا تھا اور اس حرکت پر دل میں بہت ہنسا تھا۔

احسن صاحب اور سائرہ بیگم ششدر سے نایاب کو دیکھنے لگے۔۔ناءاب کو یہاں دیکھ کر سائرہ کا منی کھل گیا۔۔حیرت صاف نمایاں تھی۔

اپنی بہو کو ویلکم تو کیجیے مومی۔۔۔۔آفٹر آل ۔۔۔۔اس تبدیلی کا باعث بھی یہی ہے۔

وہ دونوں شاک کی سی کیفیت میں نایاب اور افنان کو دیکھ رہے تھے۔۔

نایاب نے  ان کا یہ رد عمل دیککھا تو شرمندہ سی سر جھکا گئی۔مانو جیسے کسی جرم کی سزا پانے کھڑی ہو۔اس کا ہاتھ اب بھی افنان کے ہاتھ میں تھا۔

سب سے پہلے حواس باختہ ہونے والے احسن صاحب تھے۔

آخر یہ کیا ماجرا ہے افنان؟؟صاف صاف کہو ۔۔۔۔کیا کہنا چاہتے ہو؟؟

نایاب تھوڑا سہم گئی اور مزید سر جھکا گئی۔
نجانے اب کیا ہو گا۔وہ سوچنے لگی۔

میں نے نایاب سے نکاح کیا ہے۔۔یہ میری بیوی ہے۔۔۔اور آپکی بہو۔۔
افنان نے جیسے ان کی سماعتوں پہ بم پھو ڑا۔

نایاب کا دل پتے کی مانند کانپنے لگا اور خوف سے نا صرف اس کا ہاتھ بھ ہولے ہولے لرز رہا تھا نلکہ سرد بھی پڑنے لگا۔

افنان نے اس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت مظبوط کی اور ہلکا سا دباؤ ڈالا جو کہ نایاب کو تسلی دینے کی ایک کوشش تھی کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔
لیکن یہ ہوا کیسے؟؟
احسن صاحب کے بولنے سے پہلے ہی سائرہ بیگم بول پڑیں۔

افنان نے سارا قصہ مختصراً ان کے گوش گزار کر دیا جس میں رامین کا ذکر بالکل بھی نہ تھا اور نہ ہی ضیاء کے کڈنیپ کا۔

ہمممم۔۔۔۔اچھا کیا۔۔۔۔۔احسن آفندی ساری بات سننے کے بعد افنان سے بغلگیر ہوتے ہوۓ بولے اور نایاب کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔

نایان جھجکتے ہوۓ ان تک پہنچی۔
احسن صاحب نے اس کے سر پہ پیار دیا۔
خوش رہو۔۔۔۔اور دعا بھی دی۔

مجھے تمہارا سرپرائز بہت پسند آیا افنان۔۔۔
سائرہ بیگم نے نایاب کو خود سے لپٹاتے ہوۓ کہا اور نایاب کے ماتھے پہ بوسہ لیا۔
ان کی اور ان کے بیٹے کی خواہش پوری ہو گضی تھی۔انہیں بھلا اور کیا چاہیے تھا۔
نایاب مسکرا دی۔

بہو کے آتے ہی بیٹے کو بھل گئیں آپ مومی۔۔۔افنان نے بےچاری شکل بناتے ہوۓ کہا۔

افنان کی بات پر مسکراتے ہوۓ انہوں نے افنان کی پیشانی پر بھی بوسہ دیا۔
اس میل ملاپ کے بعد انہوں نے کچھ دیر آرام کیا پھر نایاب طرح طرح کے لوازمات سے سجی ڈائننگ ٹیبل پر  انہیں اپنے ہاتھ سے بنی سپیشل ڈشز سرو کرنے لگی 

ڈنر پر سبھی نے کھانے کی بہت تعریف کی جس پر نایاب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
مسرت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
سب نے خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا اور پھیر اپنے  کمروں کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے


No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.