***Pichal Parri ***



 *** پچھل پیری ***
از در نجف
قسط نمبر 10
ایک ایسی داستان ، جس میں محبت کے لئیے قربانیاں، اور محبت ہی کو پانے کے لئیے خود غرضیاں شامل ہیں!
جہاں محبت کو پانے کے لئیے نہ  صرف لٹایا جائے گا “بلکہ محبت کو پانے کے لئیے! ہر چال چلی جائے گی، ۔ ”یہ کہانی“  زرک آفتاب شاہ کے گرد گھومتی ہے ۔
جس کے لئیے جان، اور ایمان، داو پہ لگ جائیں گے۔
تمہیں کچھ بھی یاد نہیں ؟ مگر!  ابھی تم سے بہت کام لیا جائے گا تم جو راز جاننے کی متمنی ہو اس کا جاننا اسقدر  ضروری بھی نہیں۔
جہاں تم کھڑی ہو یہ کوئی جگہ نہیں، نہ ہی کہیں پر اس کے بارے میں کوئی آگم بات کی گئی ہے۔باریش بزرگ اسے سمجھانے کی کوشش میں تھے ۔
نمروشہ اسے سمجھے نہ سمجھے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی ۔
باریش بزرگ کے ہونٹوں پر تبسم کی کلی کھلی تھی ۔
آؤ دیکھو جو تم دیکھنے آئی تھی۔
وہ بزرگ کے پاس لوٹ رہے ہیں ۔۔۔باریش بزرگ(اسم اعظم کا موکل) اسے ساتھ آنے کا کہہ کر  سفید پہاڑ کے راستے میں کھڑے ہو گئے۔
نمروشہ بھی ان کے برابر کھڑی ہو گئی۔
سفید پہاڑ سے فرشتے قطار بنائے نکلنے لگے وہ بزرگ کے سامنے سر جھکاتے ہوئے ایک ایک کر کے پرواز کرنے لگے، سب سے آخری فرشتے نے سر جھکاتے ہوئے کہا : ”متعبد” اور اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھ کے کنارے پر ٹہرا ایک آنسو گرایا جسے بزرگ نے فورا اپنی ہتھیلی آگے کی  اور آنسو نمک کے زرے میں بدل گیا آخری فرشتہ بھی پرواز کر گیا نمروشہ مبہوت سی دیکھے جا رہی تھی وہ کتنے خوبصورت ہیں نور کے پیکر۔
ہاں! نور ہی نور ۔۔۔ تم نے اس اسم الہیہ کا بہت ورد کیا اور تمام شرائط کا خیال کرتے ہوئے اہتمام کیا اور” رب العلا “اپنی چاہنے والی مخلوق کو کبھی مایوس نہیں کرتا راز ہے ۔۔۔جہاں کوئی مانگے اور وہ عطا نہ کرے تو اسی میں حکمت تکوینی  پوشیدہ ہے۔
جہاں وہ چاہے اپنے رازوں سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔“ جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہہاں راز ہائے پنہاں سے آگاہی ناممکن ہے
اب تمہیں وآپس جانا چاہیے“ یہ تمہارے لئیے۔۔۔اسم الہیہ کے موکل نے اپنی ہتھیلی نمروشہ کے سامنے کر دی، جس پر سفید رنگ کی چھوٹی سی تھیلی موجود تھی۔
اسے صرف تم دیکھ سکتی ہو اور ابلیس۔۔۔تمہارے یہاں سے نکلتے ہی کالی طاقتوں کو خبر مل جائے گی اور وہ تم سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ۔۔۔۔! اس آنسو کے زریعے وہ کالی طاقتوں کے جہان پر پڑا پردہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ یہ پاک چیز ہے اور انہیں اس جیسی ہی چیز کی اشد ضرورت ہے ۔
اس کی تمیہں ضرورت نہیں ہے ۔ تمہاری دنیا محفوظ رہے گی۔
اسے نا لے جانا زیادہ بہتر ہے۔بزرگ نے اس کی طرف انگلی کا اشارہ کیا نمروشہ کے ماضی کا آئینہ صاف ہو گیا اسے سب یاد آنے لگا اور وہ سوالیہ نظروں سے بزرگ کو دیکھنے لگی جو مسکرا رہے تھے ۔
میں جانا چاہتی ہوں یہ مجھے دے دیں“ بزرگ کی ہتھیلی پر پڑی سفید تھیلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ بزرگ خاموش رہے نمروشہ نے تھیلی اٹھا لی ۔
اس کی حفاظت تمہارے زمے ہو گی۔“ اگر تم نے اسے کھو دیا  تو تمہاری دنیا پر ابلیس حکمرانی کرے گا۔
میرے ساتھ آؤ تمہیں وآپسی کا راستہ دکھاؤں ۔
نمروشہ بزرگ کی راہنمائی میں آگے بڑھی، سفید پہاڑ سے کچھ دوری پر بزرگ رک کر بولے یہاں سے تمہارا سفر شروع ہوتا ہے آنکھیں بند کرو ۔
نمروشہ نے آنکھیں بند کرتے تھیلی والا ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور مٹھی کھول دی ”یہ یہیں محفوظ ہے۔
خدا کی مدد شامل حال رہے۔
نمروشہ نے آنکھیں کھولیں تو خود کو سیاہ اسپ کے قریب پایا۔
نمروشہ کو دیکھ کر سیاہ اسپ نے خوشی سے گردن اکڑا لی “ نمروشہ نے اسپ کی گردن سہلائی اوراس نے وآپسی کا سفر شروع کیا۔
                                
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کررہے ہیں ریحان شاہ کیا ہے یہ سب؟
زرک  شاہ نے آبگینے کو ایک طرف کھڑا کر کے خود چلتا ہوا ریحان شاہ کے پاس آیا۔
کچھ پوچھا ہے ہم نے ریحان شاہ۔
ریحان شاہ خاموش بیٹھا رہا وہ حیران سا کبھی زرک شاہ کو دیکھتا تو کبھی اپنے سامنے رکھیں چیزوں کو دیکھتا۔
شوالے“ کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر وہ سمجھ گیا یہ ساری کارستانی اسی کی ہے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے گھورتے ہوئے بولا ۔ ”دیکھ لوں گا ۔
زرک شاہ نے سوالیہ نظروں سے شوالے کو دیکھا ۔
ریحان شاہ کے کمزور پڑتے ہی قلعے پر جادو کا چھایا سکوت ٹوٹنے لگا ۔ قلعے کے محکوم بھی سرنگوں سے میدان میں چلے آئے۔
تم سب آزاد ہو۔ “وارث شاہ کی آواز پر سبھی نے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا۔ وارث شاہ قلعے میں موجود تھے۔
تم سب جاسکتے ہو ۔“تم اب کسی کے غلام نہیں۔ محکوموں نے وارث شاہ کے سامنے ادب سے سر جھکایا اور شکریہ ادا کرتے شوالے کو دیکھا۔ شوالے نے مسکرا کر کہا ۔ آزادی مبارک۔۔۔!
کوتاہ  جن شوالے کے قریب آیا۔” شہزادی میں جانتا ہوں آپ نے سودا کیا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں اس سودے میں آپ کا کوئی مفاد شامل نہ تھا باوجود اس کے ۔۔۔آپ نے رنج خریدا لیکن عین ممکن ہے اسی میں آپ کی کامیابی ہو ۔
مجھے آپ اپنا ہمیشہ وفادار پائیں گی میں خود کو آپ کی غلامی میں پیش کرتا ہوں۔
شوالے نے مسکرا کر آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا جس کا مطلب تھا ہمیں قبول ہے۔
ان میں سے  کچھ شوالے کے جانثاروں میں شامل ہوئے اور کچھ آزادی پا کر وآپس لوٹنے کو تیار تھے۔
پری زاد نے اپنے ہم جنس(دلفروش) کو دیکھا ۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔دلفروش نے وارث شاہ کی طرف دیکھا اور وہ مسکرا دئیے نظروں ہی نظروں میں دلفروش نے وارث شاہ سے اجازت مانگی کہ وہ پری زاد سے ملاقات کا خواہاں ہے ۔
جسے تسلیم کر لیا گیا۔
دلفروش پری زاد کے قریب آیا اور اپنی زبان میں پوچھا۔ پرستان سے ہو؟
پری زاد نے ایک نظر ریحان شاہ کو دیکھا جو خاموش کھڑا شوالے کو گھور رہا تھا۔
شاید میرے آقا کو تم سے میرا بات کرنا پسند نہ ہو۔۔۔میں انکی ناراضگی مول نہیں لے سکتا۔مجھ سے دور رہو۔
دلفروش نے کہا۔مگر میرے آقا نے تمہیں آزادی بخشی ہے۔ پھر تم غلام کیونکر؟
میں تمہارے آقا کا غلام نہیں۔نہ ہی وہ مجھے آزادی بخشنے کا حق رکھتے ہیں۔
لیکن باقی تو آزاد ہو گئے پھر تم کیوں نہیں؟ دلفروش نے حیرانگی سے کہا۔
کیا تم آزادی چاہتے ہو؟ پری زاد نے دلفروش سے کہا۔
دلفروش  نے فورا کہا : نہیں۔۔! بلکل نہیں۔۔۔!“
بس تو پھر میں بھی نہیں چاہتا۔۔۔! پری زاد نے مسکڑا کر کہا۔
دلفروش نا سمجھتے ہوئے اٻنی جگہ وآپس چلا گیا۔

ریحان شاہ ناسمجھی کے عالم میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اسے یاد نہیں آ رہا تھا چند لمحوں پہلے کیا ہوا تھا لگتا تھا بہت کچھ پس منظر چلا گیا تھا ۔
زرک شاہ نے مست ازل کو پکارا۔شاہ زادی کو گھر پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔
مست ازل نے فورا ایک سرخ رنگ کا قالین قلعے کی پتھریلی زمین پر بچھا دیا۔“ وارث شاہ چلتے ہوئے قالین پر آ پہنچے اور آبگینے کو بھی اشارہ کیا وہ چلتی ہوئی قالین پر وارث شاہ کے قریب کھڑی ہو گئی ۔ قالین فضا میں بلند ہونا شروع ہو گیا آبگینے کے لئیے یہ سب حیران کن تھا۔  مگر نہ وہ محکوم دیکھ پائی، نہ ہی وارث شاہ کے مریدوں کو دیکھ پائی۔
قالین کا فضا میں اڑنا ، یہ سب ناممکن سا تھا ۔مگر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور اس کا حصہ بھی تھی۔
آبگینے اور وارث شاہ کے جاتے ہی زرک شاہ نے ریحان شاہ سے کہا۔ ”چلئیے گھر چلیں۔“ مگر ریحان شاہ نے منہ پھیرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا عملی مظاہرہ کیا۔
زرک آفتاب شاہ شوالے کو دیکھا اور بے بسی سے لب بھینچتے ہوئے دلفروش کو پکارا اور وہاں سے چلا گیا۔
شوالے بھی آخری بار درگاہ پر حاضری دینے کے لئیے اپنے جانثاروں کے ساتھ روانہ ہو گئی۔
ریحان شاہ پری زاد کے ساتھ قلعے میں اکیلا رہ گیا  ۔
جاتے کیوں نہیں؟ جاؤ چلے جاؤ۔۔۔! ریحان شاہ نے پری زاد کودیکھ کر کہا۔
پری زاد نے سر جھکا لیا ۔”میرے آقا جب آپ نے میری آنکھ میں طلسمی سوئی چھبوئی اور مجھے قابو کیا تھا۔ اس وقت میں رہائی کا متمنی تھا ۔لیکن اب نہیں۔۔۔! ”اسلئیے کہ میری التجا پر آپ نے میرے خاندان کو بخشا تھا“ اور آپ نے یقین دلایا تھا کہ آپ ان کے لئیے ایذا کو موجب نہیں بنیں گے۔ تو مجھ پر بھی یہ لازم ہے۔ میں پابند رہوں ۔ میری آنکھ کی بصارت ختم ہو چکی، مجھے غم نہیں ۔
اوہ ہاں مجھے یاد ہے میں نے طلسمی سوئی تمہاری آنکھ میں پیوست کی تھی ۔“ یہ کہتے ہی ریحان شاہ منتر پڑھ کر پھونک ماری ،طلسمی سوئی پری زاد کی آنکھ سے نکل کر نیچے گر پڑی۔
تکلیف کی شدت سے پری زاد چیخ پڑا ، پورے قلعے میں اس کی آواز گونجی۔
جاؤ یہاں سے آزاد ہو تم، اکیلا چھوڑ دو مجھے، ریحان شاہ ٹوٹ چکا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا، چند گھنٹوں پہلے کیا ہوا، وہ یاد کرتا تو اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا ۔لیکن ! وہ اتنا ضرور جانتا تھا ۔کچھ غلط ہوا ہے ۔ میری یادواشت کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی  ہے ۔ اس کے پیچھے ضرور شوالے ہی ہے ۔نہیں میں ہار نہیں سکتا۔”ریحان شاہ شکست خوردہ لہجے میں بولا۔ تم ابھی یہیں ہو ؟ دفع ہو جاؤ۔جانور۔
دور کھڑے پری زاد  نے سر جھکا لیا بڑی بڑی سیاہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت سے کہا۔ وفادار کبھی اپنے مالک کو چھوڑ نہیں  سکتا۔
ریحان شاہ اس کی بات سن کر چونک پڑا، اسے ایک ترکیب سوجھی، فورا پلٹا اور اس مہتم بالشان کے سامنے آ کر بولا۔ تم کیا کر سکتے ہو میرے لئیے؟
پری زاد نے خوشی سے کہا۔ میرے آقا آپ حکم کریں!“
مجھے جاننا ہے ابھی کچھ دیر پہلے کیا ہوا تھا مجھے وہ سب جاننا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے ۔
پری زاد نے کہا۔”میرے آقا! اس کے لئیے آپ کو دیو بند سے ملنا پڑے گا ۔
دیو بند؟ کہاں ملے گا؟ ریحان شاہ نے بیقراری سے پوچھا۔
میں آپ کو لے جانے کے لئیے تیار ہوں۔پری زاد نے کہا۔ وہ بڑے جادو گروں میں گنا جاتا ہے۔ مگر وہ خداوند کے نافرمانوں میں سے ایک ہے ۔وہ بہت بڑے رزیل گروہ کا سردار ہے۔
ہممم لے چل مجھے اس کے پاس۔“ریحان شاہ نے حکم دیا اور پری زاد اسے لیکر محو پرواز ہو گیا۔

                    
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوالے شاہ مبارک کی درگاہ میں آخری سلام کی غرض سے حاضر ہوئی۔ درگاہ کے احاطے میں سر جھکاؠے کھڑے مریدین کو دیکھتے ہی اسے پتہ چل گیا وارث شاہ حجرے میں موجود ہیں۔
وہ بھی اندر چلی آئی ۔
وارث شاہ زار قطار رو رہے تھے۔
آبگینے اور زرک آفتاب شاہ سر جھکائے بیٹھے تھے ۔
شوالے چلتی ہوئی قریب آئی ”بابا ! میں وآپسی کی اجازت چاہتی ہوں۔
شہزادی چند گھڑیاں آپ کو اور رکنا ہو گا۔زرک کے ساتھ آپ کا نکاح ہے۔کیا آپ راضی ہیں؟
نکاح؟” میں سمجھی نہیں بابا۔“ شوالے نے آبگینے اور زرک شاہ کو دیکھا۔
ہاں نکاح۔  آپ کے والد بزرگوار کا حکم آیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں آپ کا نکاح زرک آفتاب شاہ سے کردیا جائے ۔ہم امید کرتے ہیں آپکو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
بابا ! مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔۔۔شوالے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
وارث شاہ نے چند لمحوں بعد توقف سے کہا ۔
ٹھیک ہے۔ زرک بچے آپ شاہ زادی کو گھر لے جائیے ۔ہم شہزادی کے ساتھ گھر آ رہے ہیں اور ہاں سارا انتظام اپنی نگرانی میں کروائیں باقی ہم دیکھ لیتے ہیں ۔
جی بابا بہت بہتر۔ “زرک آفتاب شاہ آبگینے کو لے کر چلا گیا۔
وارث شاہ ہلتے دروازے کو دیکھتے رہے جہاں آبگینے دروازے کو تھامے کھڑی تھی ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے، آبگینے کس ازیت سے گزر رہی ہے۔ مگر وہ بھی مجبور تھے۔
بابا! میں یہاں حاضری دینے آئی تھی۔تا کہ میں اپنے لوگوں کے لئیے کوئی تدبیر کر سکوں ۔ میں نے سنا تھا کہ یہاں سوالی کبھی”خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا“ یہاں خلقت کے علاوہ بھی  ہجوم دیکھا تو ایک آس بندھی کہ میں صیحح جگہ ہی آئی ہوں۔
کون ہے میرا باپ؟ میں نے جسے ساری زندگی نہیں دیکھا۔ آج اچانک کیسے میرا وارث بن گیا؟  میں نہیں جانتی کسی کو، میرا کوئی تعلق نہیں کسی سے ۔مجھے صرف اتنا پتہ ہے میں جن زادی ہوں ایک آتش زادی جو کسی بددعا کے زیر اثر ہے۔ جس کے پاؤں الٹے ہیں ۔ جسے آپ کا بیٹا پچھل پیری کہتا ہے۔
میں اپنے قبیلے کے لوگوں سے مختلف ہوں ۔ میری ماں نے ہمیشہ  مجھے چھپانے کی کوشش کی۔ میں نہیں جانتی کیوں۔
میرے قبیلے کے لوگوں کے جسم ایک جیسے ہیں سوائے میرے ۔
میرے پیر الٹے ہیں ۔ اگر میں جن زادی ہوں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔اگر میں پچھل پیری ہوں تو جناتی صفت اور طاقتیں مجھ میں کیوں ہیں۔ نہ عظیم ملکہ نے بتایا نہ وہ بتانا چاہتیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں یہ کس قدر تکلیف دہ ہے ۔
میں صرف ملکہ کی بیٹی ہوں سوم قبیلے کی حکمران ۔جو کہانی آپ مجھے سنا رہے ہیں میں اسے نہیں مانتی۔ ملکہ نے مجھے کچھ نہیں بتایا ۔ ویسے بھی  ایک آتش زادی اور آدم زاد اس رشتے میں کیونکر بندھیں؟
آپ ایک شہزادی کے علاوہ شاہ زادی بھی ہیں۔ ایک ولی کی اولاد، اور آپ کے والد شاہ مبارک ہیں ۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ کی شادی کسی جن سے ہو ۔ “وارث شاہ نے بلا توقف کہا۔ باوجودیکہ آپ ایک آتش زادی ہیں۔ مگر پھر بھی، آپ کی رگوں میں آدم زاد کا لہو آتش پر بھاری ہے ۔“ ایک بات یاد رکھئیے آپ پچھل پیری نہیں ہیں۔
پچھل پیری کا تعلق بدروحوں کی بگڑی نسل سے ہے۔
آپ جن زادی ہیں ۔ شاہ زادی ہیں۔
رہی بات آنے کی تو آپ کو بلوایا گیا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے ہر گز نہیں آئیں۔“ اگر ملکہ نے آپ کو ہر بات سے بے خبر رکھا تو بھی سچائی نہیں بدل سکتی۔ ممکن ہے وہ بہتر وقت کی منتظر ہوں۔
شہزادی!  ہم ملکہ سے نہیں ملے ۔ لیکن ہم جلد ملیں گے ۔
ابھی آپ ہمارے ساتھ گھر چلیں ۔ یہ نکاح ضروری ہے۔
یہ بہت بڑا فیصلہ ہے ۔ اگر ملکہ کو خبر ہو گئی تو مجھے ہر گز نہ معاف کریں گی۔ میں پہلے ہی ان کی مر ضی کے خلاف انسانی بستی آ گئی بلاشبہ میں نے انکی ناراضگی مول لے لی ہے اور اگر میں نے آپکی بات مان  لی تو وہ بلکل ٹوٹ جائیں گی۔
میری زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف ان کے پاس ہے۔ آپ اس کا حق نہیں رکھتے۔ نہ ہی میرا ان دیکھا باپ۔۔۔ فیصلہ کر سکتا ہے۔
آپ ٹھیک کہہ رہیں ۔ ہم واقعی آپ کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ لیکن یہاں بات کچھ اور ہے۔ ہمیں صرف اتنا بتائیے ایک قیمتی چیز کو اس کے اعلی مقام پر رکھنا چاہیے یا  اسے کم تر مقام پر رکھنا ٹھیک ہے؟ وارث شاہ نے ایک نظر شوالے کو دیکھا۔
انمول رتن کی جگہ تاج ہے اور وہ وہیں اچھا لگتا ہے اور ہم رتبہ شناس ہیں۔
آپ ملکہ کی فکر نہ کریں ۔ ہم اس معاملے کو دیکھ لیں گے ۔ ہمیں جو اشارہ ملا ہے ہم اسے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔“ہم پر یقین رکھئیے۔
شوالے خاموش ہو گئی۔ وارث شاہ نے اپنا دست شفقت اس کے سر پر رکھ دیا۔
                         
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبگینے خود پر ضبط کرتی سائرہ خاتون کے کمرے میں چلی آئی۔
کمرہ خالی تھا۔ وہ بے بسی سے صوفے پر ڈھے سی گئی۔
دل کا درد آنکھوں کے رستے بہہ نکلا۔ کب سوچا تھا کہ اسکے اپنے اس موڑ پر لا کھڑا کریں گے جہاں اسے اپنے لئیے راستے کا انتخاب خود کرنا ہے یا پھر یہ بھی صرف ایک زرا سی تسلی ہی تھی کہ وہ فیصلہ کر سکتی ہے جبکہ فیصلہ تو ہو چکا تھا ۔ وآپسی کی ساری راہیں مسدود تھیں ۔وہ انہیں سوچوں میں غلطاں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ بیدری سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔
دروازہ کھلتے ہی زرک آفتاب شاہ کمرے میں داخل ہوا۔
ہم نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپ کو۔ زرک آفتاب شاہ بیڊ پر بیٹھتے ہوؠے بولا۔
آبگینے نے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔ ڈھونڈتے تو مل ہی جاتے ہم آپکو شاہ جی۔ ڈھونڈا ہی تو نہیں
آبگینے ہم نے تو آپ سے کچھ نہیں کہا۔ جہاں آپ کو بولنا تھا وہاں تو آپ بولیں نہیں۔ اپنی ناراضگی کا نزلہ ہم پر گرا رہیں ہیں۔زرک شاہ نے ناراض سی آبگینے کو محبت بھری نظروں سے دیکھا۔
آپ جانتیں ہیں مسز زرک آفتاب شاہ ہم خود اس فیصلے سے خوش نہیں ۔مجبور ہیں ہم بابا کو انکار نہیں کر سکتے ۔ آپ یقین کریں ۔ ہمارے اس فیصلے سے آپ کی حثیت و مرتبے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔  یہ کام خفیہ طور پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہم آپ سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتے ۔
اچانک سائرہ خاتون آ گئیں۔
ارے واہ بھئی آج تو ہمارے کمرے کے بھاگ کھل گئے ۔ دروازہ کھولتے ہی پیک نسیم کا جھونکا ملا، بیٹا اور بہو جو موجود ہیں۔
جوابا آبگینے کے لبوں پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی۔
کیا بات ہے آبگینے اس چہرے پرے اداسی اچھی نہیں لگتی۔
نازش نے کچھ کہا؟ بتائیے ہم ابھی اس کی خبر لیتے ہیں ۔
سائرہ خاتون آبگینے کو بیٹھنے کا اشارہ کرتیں خود بھی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
مبارک ہو آپکو شاہ جی کا نکاح ہے۔
**************************
       


















No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.