*** Gosha E Arman ***٭گوشہ ارمان٭





٭گوشہ ارمان٭
قسط نمبر دو
تحریر :سخاوت حسین
محبت یوں بھی بدنام ہے کہ یہ جان لے کر جان چھوڑتی ہے۔ محبت یوں بھی بدنام ہے کہ یہ ہستی کو مستی کے ساتھ خاک میں ملادیتی ہے۔ یہ بادلوں کے سنگ اڑ کر ، کائنات کی ہر لمحہ سیر کرکے انسان کو زمیں پر پٹخ دیتی ہے۔
وہ چلانے لگا۔ اسے ہر سو ماں کا افتخار بکھرا نظر آرہا تھا۔
افتخار! افتخار ہوش کرو۔ کیا ہوا۔ جیسے کوئی مانوس آواز اس کے وجود پر محبت کے پھول برسا رہی تھی۔ کوئی مانوس سا لہجہ جو اسے فرط و انبساط کی دنیا میں لے گیا۔جھٹکے سے اس کی آنکھیں کھلیں سامنے ارسلان پانی لیے کھڑا تھا۔
اوہ خدایا! اتنا برا خواب!یہ خواب تھا۔ اس نے اپنے وجود کو ٹٹولا۔
پانی پیو افتخار! کیا نیند میں ڈر گئے۔
ارسلان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نہیں محبت میں ڈر گیا ہوں ارسلان! اس نے دل میں اس سے کہا۔ جب کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
ہاں ارسلان بہت برا خواب دیکھا۔ بہت ہی برا۔۔۔۔ اس نے ارسلان کو سینے سے لگا لیا اور کتنی دیر زاروقطار رونے لگا۔
بس کرو افتخار! برے خوابوں کا کفارہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ان کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ تم نے کیا خواب دیکھا مگر تسلی رکھو کوئی خواب تمھیں خوف کی دنیا میں نہیں لے جاسکتا۔ تم میرے سب سے بہادر دوست ہو۔
ارسلان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جب کہ دل سے وہ خود بھی گھبرا گیا تھا۔
افتخار دن بدن عجیب حرکتیں کرتا آرہا تھا۔ آج یوں نیند میں کتنی دیر چلاتا رہا۔ جانے زرمینہ نے اسے کسی قابل نہیں چھوڑا۔
اسے زرمینہ پر شدید غصہ آرہا تھا۔
میرے معصوم دل کے دل سے کھیلو گی نا تو زرمینہ ساری زندگی محبت کھیل کی طرح تم سے چھپتی رہے گی۔ دیکھو کیا حال کردیا اس کا۔ اس کے افتخار کے ہالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے کہا۔
اس کا پورا جسم جیسے لرز رہا تھا۔ خوف اس کے پورے وجود سے عیاں ہورہا تھا۔ ارسلان اسے ساتھ لے کر لان میں آیا۔ دوگلاس ٹھنڈے پانی کے پلائے۔
کیا ہوا سکون ملا۔ تھوڑی دیر بعد کرسی پر بیٹھے افتخار سے اس نے پوچھا جو اب کافی پرسکون لگ رہا تھا۔
ھاں اب قدرے سکون ہے۔
تف ہے محبت پر ، تف ہے عشق پر، تف ہے دل کی آباد دنیا جیسی باتوں پر۔۔۔۔ کسی شخص کو اس حد تک بے سکون کردینا کہ وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجائے، تف ہے ایسی محبت پر۔۔۔
ارسلان پہلی دفعہ محبت سے نفرت کررہا تھا۔ اسے پہلی دفعہ محبت کائنات کی سب سے بری شے لگ رہی تھی جس نے اس کے سب سے قابل دوست کو مقتول جیسا بنا دیا تھا۔
کافی دیر بعد جب وہ بالکل پرسکون ہوگیا تو وہ اسے لے کر کمرے میں آگیا۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ بیڈ پر شاید پرسکون نیند سو چکا تھا جب کہ اذیت کی لکیریں نیند میں بھی اس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھیں۔
ارسلان نے وقت دیکھا۔
واہ محبت، پورے دو گھنٹے بے سکون رکھا۔ اسے بھی جس نے کی اور اسے بھی جو کرنے والے کا دوست تھا۔ اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے سوچا اور اپنے بستر پر سونے چلا گیا۔
………………………..
دن اور رات یوں ہی گزر رہے تھے۔ اگرچہ ارسلان نے زرمینہ سے تعلقات نارمل کر لیے تھے۔ اب اسے کسی طور نہیں لگتا تھا کہ ارسلان اور افتخار کو کچھ ہوا ہے۔ مڈٹرم کے کچھ دنوں بعد سمسٹر کے فائنل رکھ دئے گئے تھے۔ اس کے بعد ان کے مزید دو سمسٹر باقی رہتے تھے۔ وقت یوں ہی گزر رہا تھا۔ وقت سب کے لیے ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں بس ایک خوبی ہوتی ہے کہ وہ بھلے اچھا ہو یا برا ہو گزر ہی جاتا ہے۔ انہیں یونیورسٹی آئے تقریبا تین سال ہورہے تھے۔ تین سال اتنے کم بھی نہیں ہوتے کہ انسان ان لمحات میں موجود ہر لمحے کو اتنی آسانی سے بھول سکے۔ مزید ایک سال ہی رہتا تھا جس میں طلبا نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب یا کافی دور ہوسکیں۔ یونیورسٹی کی دیواریں ہر آنے اور جانے والوں کی داستانیں اپنے اندر محفوظ رکھتی ہیں۔ وہ تینوں پیپر کی تیاریوں میں جٹے ہوئے تھے۔
آج آخری پیپر تھا ۔ سمسٹر کے اختتام پر کافی دنوں کے لیے چھٹیاں ہوگئی تھیں۔ پیپر کے بعد تینوں کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اب اکثر خاموشی ہی ان کے درمیان گفتگو کرتی تھی۔
ہاں کیسے ہوئے تم دونوں کے پیپر؟
 آخر زرمینہ نے خاموشی توڑتے ہوئے دونوں سے سوال کیا۔
بہت اچھے ہوئے ہیں۔
ارسلان بولا جب کہ افتخار بس اسے تکے جارہا تھا۔
تبھی ارسلان نے افتخار کی طرف دیکھا تو اسے زرمینہ پر نگاہیں ٹکائے دیکھا۔
افتخار کے بھی پیپر بہت اچھے ہوئے ہیں۔
 ارسلان نے افتخار کو کہنی مارتے ہوئے کہا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آگیا۔
ہاں میرے بھی بہت اچھے ہوئے ہیں۔ اس نے ہونقوں کی طرح جواب دیا۔
طبیعت ٹھیک ہے نا افتخار۔
زرمینہ نے بھی ان آنکھوں کی حدت محسوس کرلی تھی۔
الجھا رہتا ہوں سلجھے لوگوں کے سوالوں میں۔۔۔۔
 اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ابھی پچھلا درد آنکھوں سے محو نہ ہوا تھا۔ آنکھیں جیسے  تھکے مسافر کی بند ہوتی انکھوں جیسی لگ رہی تھیں۔
کس نے الجھا دیا سب سے سلجھے لڑکے کو؟
زرمینہ نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا۔
چھوڑو زرمینہ تم بھی کن باتوں میں الجھ رہی ہو۔
 ارسلان نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
کیوں ؟ کیا وہ میرا دوست نہیں۔ کیا میرا حق نہیں کہ جاننے کی کوشش کروں کہ اسے کون سا روگ لگا ہے؟ کیوں افتخار؟
 اس نے کیوں افتخار اتنے پیار سے کہا کہ ایک لمحے افتخار کو لگنے لگا کہ وہ یہیں ڈھ جائے گا۔ کم بخت محبت میں دوسرے کا ایک لفظ ہی بری طرح مار دیتا ہے۔ وہ سوچنے لگا۔
زرمینہ بس یہ سوچ لو وہاں زمین کھود لی ہے جہاں تہہ تک کہیں پانی کا نشان نہیں۔ اب اسی گڑھے میں خود گرتا جارہا ہوں۔
زرمینہ اسے کھوج رہی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر وہ کون سا راز ہے جو ارسلان اس سے چھپا رہا ہے۔ اتنا تو وہ جان ہی گئی تھی کہ وہ راز افتخار سے متعلق ہے۔
افتخار۔۔۔ بعض اوقات ہم مایوس ہوجاتے ہیں۔ پانی ہمارے قدموں کے نیچے ہوتا ہے۔ جہاں سے ہمیں امید باندھنی چاہئیے ہم مایوسی کا چوغہ پہن کر زمین سے نکل آتے ہیں۔ حالانکہ صرف ایک وار ایک اور وار سے وہاں سے پانی نکل سکتا ہے۔ انسان ایسا ہی ہے۔ تم سچ بتاو کیا ہوا ہے۔ بتاو افتخار۔ زرمینہ سے نہیں کہو گے۔
زرمینہ نے آخری لائن اتنے نرم اور میٹھے لہجے میں کہی کہ ارسلان کو لگنے لگا افتخار کی جگہ وہ ہوتا تو شاید وہ بھی دل کھول کر اسے کے سامنے رکھ دیتا۔
تبھی ارسلان اٹھا۔
چلو افتخار! اس نے افتخار کو لے جانے میں ہی خیریت جانی۔
 وہ ٹکٹکی باندھے زرمینہ کو دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
کہاں؟
 زرمینہ اس آفت کے لیے قطعا تیار نہیں تھی۔
مجھے فورا گھر جانا ہے۔ امی کا میسیج آیا ہے کہ فورا پہنچو۔ ارسلان نے موبائل پکڑتے ہوئے جواب دیا۔
بھاگ رہے ہو؟
 زرمینہ نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔
کچھ ہوگا تو بھاگیں گے نا۔ تھکے ماندے لوگ کہاں بھاگ سکتے ہیں۔ ارسلان نے مختصر جواب دیا۔
افتخار چلو۔
افتخار جا چکا ہے۔ اسے لے جاو ارسلان۔ وہ جا چکا ہے۔ زرمینہ نے آنسووں میں ڈوبے افتخار کو دیکھا جو نہ جانے دل کی کتنی باتیں آنسووں سے کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ انہیں روکتی ۔ ارسلان نے افتخار کو زبردستی ہاتھوں سے پکڑا اور کینٹین سے باہر آگیا۔
کمرے میں پہنچنے کے بعد افتخار جیسے کرسی پر کسی مردہ لاش کی طرح بیٹھ گیا جب کہ ارسلان سر پکڑ کر اس کے سامنے آن بیٹھا۔
ارسلان یار! دیکھا تم نے ۔ اس کے پاس ہنر ہے۔ وہ جان نکالنے کا ہنر جانتی ہے۔ وہ لفظوں سے جان نکال لیتی ہے۔ تم نے دیکھا نا۔
افتخار نے سپاٹ چہرے کے ساتھ دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
مسٹر افتخار!
 وہ اب یہاں نہیں ہے۔ لہذا ہوش میں آجاو۔
الیکٹرک کیٹل کے پاس جاتے ہوئے اس نے مختصر جواب دیا۔ اسے لگ رہا تھا افتخار کو چائے کے مگ کی اشد ضرورت ہے۔ شاید کیفین کچھ دیر اسے سکون پہنچا سکے۔
وہ یہاں نہیں ہے۔
 افتخار اس کے جملے دہرا کر ہنسنے لگا۔
سنو سیدھے سادھے گاوں کے بیوقوف لڑکے۔ وہ یہاں نہیں ہے۔ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لو۔ تم جن پہاڑوں سے آئے ہو نا وہیں لوٹ جاو۔ یا پھر جذبوں کو پہاڑ جتنا مضبو ط کر لو۔
ارسلان نے غصے سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
حد ہوگئی ہے۔ کتنے عرصے سے سمجھا رہا ہوں۔ اس رشتے کا کوئی نام اور وجود ہی ممکن نہیں ہے۔ تمھاری سمجھ میں ہی کچھ نہیں آتا۔ تمھارے درمیاں صرف دولت کا مسئلہ نہیں بلکہ فرقے کا مسئلہ بھی ہے۔ تم ان کے مخالف فرقے سے تعلق رکھتے ہو۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہو۔ کیا تمھیں لگتا ہے کہ تم لوگ یہ فرق توڑ پاؤ گے۔ جانتے ہو نا موجودہ دور میں سب سے مضبوط سچائی فرقے کی سچائی ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص مسلمان ہونے سے پہلے فرقہ پرست ہے اورتمھیں لگتا ہے کہ اس فرقے کی دیوار کو تم پار کر لو گے تو نرے احمق ہو۔ اس کے گھر والے تمھیں ماردیں گے۔ تمھاری لاش کتوں کے آگے ڈال دیں گے۔ کتنے دنوں سے یہی بات سمجھانا چاہ رہا تھا۔ تم سمجھ ہی نہیں پارہے تھے۔آج کھل کے بول پڑا ہوں۔ اب آگے تمھاری مرضی۔
 ارسلان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے فریاد کی۔
مگر محبت کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا ارسلان۔ محبت کے فرقے ہوتے تو انسان آج کروڑوں فرقوں میں تقسم ہوتا۔ فرقے محبت کی وجہ سے تو پیدا نہیں ہوتے نااور فرقے اگر نفرت ہی پھیلا رہے ہیں تو ہم ان کی آبیاری کیوں کرتے ہیں۔ کیوں انہیں سینچ سینچ کر دل میں جگہ دیتے ہیں۔ پھر کس منہ سے کہتے ہیں کہ مسلماں ایک ارب ہیں۔ کیوں ہم فرقوں کا ریکارڈ سامنے نہیں لاتے۔ تم مجھے بتا رہے ہو کہ محبت کروں گا تو فرقے کی جنگ میں مارا جاوں گا میں تمھیں سمجھا رہا ہوں کہ فرقے کی محبت ہمیں ویسے بھی ایک دوسرے سے اتنا دور لے آئی ہے کہ ہمارے پاس ایک دوسرے کے لیے فتووں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ ہر شخص دوسرے کے لیے ایک عدد فتوی لیے کھڑا ہے۔ کوئی کس طرح اٹھتا ہے۔ کس طرح بیٹھتا ہے۔ کیسے سوتا ہے۔ کہاں جاتا ہے۔ کیا پہنتا ہے۔ سب فتوے کی ضد میں ہیں۔
 افتخار کافی عرصے سے اس درد کو سینے میں رکھے ہوئے تھا لہذا آج پھٹ پڑا۔
افتخار تم سچ کہہ رہے ہو۔ ہم سب مسلمان تھے مگر افسوس اب ہم فرقوں کی دوڑ میں بھاگنے والے چند افراد رہ گئے ہیں۔ ہم اوہام زدہ لوگ، ہم دن رات صرف فرقہ فرقہ کرتے لوگ۔۔۔ اب اس گدھ کی طرح ہوگئے ہیں جو مخالف فرقے کے مردوں کو بھی نوچ ڈالتا ہے۔ پوری دنیا میں ہم تماشہ بن چکے ہیں۔ کون سا ایسا لقب ہے جو ہمیں نہیں دیا گیا۔ مگر تم سچ سے نہیں بھاگ سکتے ۔ تمھارے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے سچ بدل نہیں جائے گا۔ سچ یہی ہے کہ یہاں فرقہ پرستی ہوتی ہے اور نا جانے کب تک ہوتی رہے گی۔ تم ، میں اور زرمینہ جتنی مرضی کوششیں کرلیں ہم اس روایت کو بدل نہیں سکتے۔  ہوش کرو افتخار ۔۔ سچ کو تسلیم کرو۔
 ارسلان نے چائے کا مگ اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا۔
ہوش تم کرو ارسلان۔ بے ہوش تو ہم سب ہیں۔ یہ بے ہوشی ہمیں موت کے منہ میں لے کر جائے گی۔ ارسلان میں نے محبت انسان سے کی ہے۔ فرقے کی دوڑ میں الجھے ہوئے پتنگ سے نہیں۔ ایک جیتے جاگتے انسان سے جو ہماری طرح سانسیں لیتا ہے۔ ہماری طرح سوچتا ہے۔ جو معصوم ہے۔ جس کے حواس خسمہ ہماری طرح کام کرتے ہیں۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ مجھے فرقے کی آگ میں جلنا ہے تو شاید میں کبھی اسے رخ بھر کے بھی نہ دیکھتا۔ محبت کب کس ذہن پر اترے گی، کس نے سوچا ہے۔ محبت کب فرقوں کی اوڑھنی اوڑھ کر آتی ہے۔ محبت کب  فرقہ پرستی پر مبنی فتووں کی چھت کو سراہتی ہے۔ محبت بس دل میں نمو پاتی ہے۔ وہیں پروان چڑھتی ہے۔ اس  کے اپنے رنگ ہیں۔ اپنے ساز ہیں۔ وہ اپنے پہناوے پہنتی ہے۔ وہ دل کی ملکہ بن کر دل میں عزت کے ساتھ رہتی ہے۔ محبت دیتی ہے۔ محبت بانٹتی ہے۔ محبت تقسیم نہیں کرتی۔ محبت تقسیم کرنے والوں کو جمع کرتی ہے۔ محبت نفی نہیں کرتی۔ محبت نفی کرنے والوں کو مثبت بنا دیتی ہے۔ محبت سے تم بے خبر ہو ارسلان۔ محبت کی نفی تم کررہے ہو۔ تم سمجا رہے ہو کہ محبت ایسے شخص سے کروں۔ جس کا فرقہ، زبان، علاقہ، بول چال، معاشری درجہ بندی اور سب کچھ میرے جیسا ہی ہو۔ 
ارسلان اسے غور سے دیکھتا جارہا تھا۔ وہ محبت میں کتنا سلجھ گیا تھا۔ کچھ دن پہلے ارسلان ڈر گیا تھا کہ محبت اسے کہیں برباد نہ کردے۔ محبت تو اسے آباد کررہی تھی۔ اسے حساس بنا رہی تھی۔ اس کے اندر انسانیت کی شمع جلا رہی تھی۔
چائے پینے کے بعد افتخار نے ارسلان کو اڈے تک چھوڑا۔ بس میں کتنی دیر دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ افتخارکشمیر کی ایک خوب صورت وادی  میں رہتا تھا۔ اس کے والد گورنمنٹ ملازم تھے۔ اس کا معمول تھا کہ وہ سمسٹر ختم ہونے پر پہلے ارسلان کو گھر چھوڑتا تھا اور اگلے دن خریداری کرکے گھر کی طرف نکلتا تھا۔ ارسلان بس میں بیٹھے سوچ رہا تھا محبت نے افتخار کو کتنا رعب عطا کردیاہے۔ وہ کتنا جی دار ہوگیا ہے۔ وہ کتنا صاف ہوگیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے درخت کے پتے بارش کے بعد دھل کر صاف ہوگئے ہوں۔ وہ بھی اسے اسی طرح اجلا اور مہکا محسوس ہورہا تھا۔محبت نے اسے مہکا دیا تھا۔
………………………..
گھر پہنچنے پر اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔ والدہ پھولوں کی پلیٹ ہاتھوں میں لیے اس پر پھولوں کا چھڑکاو کر رہی تھیں۔ اس کی بلائیں لے رہی تھیں۔ کتنے دنوں بعد وہ گھر لوٹا تھا۔ اکلوتا بچہ جب جائے تب بھی آنسو دیتا ہے اور جب پلٹ آئے تب بھی ماں باپ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے ہیں۔ ماں اسے اکثر کہتی تھی کہ اس نے پیدا ہوتے ہی ان کی والد سے محبت بھی چھین لی تھی۔ ان کے پورے وجود کا نچوڑ تھا۔ ان کا پرتو تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ وہ اس کی سب سے بڑی کہانی ہے۔وہ ان کو قدرت کی طرف سے ملنے والا سب سے بڑا انعام ہے ۔ سب سے بڑی منزل وہی ہےاور اس کی حفاظت انہوں نے ایسے ہی کی جیسے جنگل میں ہرنی شیروں اور بھیڑیوں سے بچا کر اپنے بچے کی حفاظت کرتی ہے۔
مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ محبت کرتی ہیں تو پورے وجود کے ساتھ کرتی ہیں۔ ماں اولاد سے ایک چیز ہی کر سکتی ہے وہ محبت ہے۔ مسز وقار کے ہاتھ خالی ہوچکے تھے پھول ہر طرف بکھرے ہوئے تھے جبکہ ارسلان کو  ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پھولوں کی سیج پر کھڑا ہے۔
پھولوں سے اچھی طرح آؤ بھگت سہنے کے بعد وہ ماں کے ساتھ کمرے میں آچکا تھا۔ دونوں ماں بیٹے کتنی دیر محبت کی زبان میں گفتگو کرتے رہے۔کتنی دیر وہ ماں کے سرہانے دوستوں اور یونیورسٹی کی باتیں کرتا رہا۔ زرمینہ کی شرارتیں، افتخار کے چٹکلے اور ہاسٹل میں طلبا کی حرکتیں۔۔۔۔ وہ ماں سے اپنے بیتے لمحوں کو بیان کرتا رہا اور وہ ہر لمحے میں خود کو موجود پاتی تھیں۔ انہیں بھی ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہر اس لمحے میں سفر کر رہی ہیں جس کا ذکر ارسلان کر رہا ہوتا تھا۔
ماں سے باتیں کرتے کافی وقت بیت چکاتھا۔ اب وہ اپنے کمرے میں آچکا تھا۔ملگجے اندھیروں نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔ سورج کی روشنی جیسے روٹھ چکی تھی۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔وہ اپنے کمرے میں موجود کوئی کتاب پڑھ رہا تھا تبھی اس نے گاڑی کا ہارن سنا۔
بابا آگئے۔
 اس نے خوشی سے نہال ہوتے کہا۔ چھ مہینے بعد وہ ان سے مل رہا تھا۔ جلدی میں الٹی چپل پہن کر باہر نکل آیا۔
اوہ میرا شہزادہ آیا ہے۔
 انہوں نے دور سے بانہیں پھیلا کر ہنستے ہوئے کہا تو وہ ان سے لپٹ گیا۔ جانے کتنے شکوے تھے۔ جانے کتنے خاموش شکوے۔
آپ کیسے ہیں بابا!
 اس نے بریف کیس پکڑتے ہوئے استفسار کیا۔
ارسلان جیسا جوان اور خوش ہوں۔ دیکھ لو۔ انہوں نے پیار سے اس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا تو وہ جیسے جی اٹھا۔
کافی دیر سے گھر آتے ہیں۔ ماما تو آپ کا انتظار کرتی رہ جاتی ہیں۔ دروازوں کی کنڈیاں بھی چلا کر آپ کو بلاتی ہوں گی۔ میں نے سنا ہے اکثر آپ رات گئے واپس آتے ہیں۔
 اس نے پیار سے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
اور تو ماں کے لاڈلے۔ آتے ہی ماں نے باپ کی شکایت کردی تم سے۔
 انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
ارے نہیں بابا! میں نے کافی دیر ماں کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھا۔ ہر لمحہ میں آپ کی آہٹ کا انتظار کرتا رہا۔ اندھیری رات میں انسان اسے ڈھونڈتا ہے جو اس کے دل یا نگاہ کے سب سے قریب ہوتا ہے۔ تبھی سوچنے لگا ماں تو ایسا روز کرتی ہیں جانے ان پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس کا جواب سن کر وہ مسکرا دئے۔
یعنی ایک دن میں تم مسز وقار بن گئے۔ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
بلکہ یہ کہئے کہ ایک ماں کو دل میں محسوس کیا اور دل سے محسوس کیا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں  ایک عورت بنا۔ عورت کے درد کو ، ایک بیوی کے انتظار کو اور اس انتظار میں سلگتی آنکھوں کو محسوس کیا۔ دروازے کی چوکھٹ پر روز تکتی نگاہیں، ہاتھ بلند کرتے شوہر کے لوٹ آنے کی دعائیں کرتے ہاتھ، ایک عورت کو جو اکیلی بڑے سے گھر میں رہتی ہے اس کی تنہائی کو  محسوس کیا۔ اس کرب کو ، اس اذیت کو اس تنہائی کو اپنے اندر دل و جان سے محسوس کیا۔
لگتا ہے مینجمنٹ سے زیادہ ادب پڑھ رہے ہو بچے۔۔۔
 انہوں نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
بابا! ادب پڑھ کر ہی ادراک کے قریب ہوا ہوں۔ فہم کی سطح بلند ہوئی ہے۔ دکھ ، اذیت، کرب اور غم کے معنی جان سکا ہوں۔ ادب نے ہی مجھے انسانوں کے قریب کیا ہے۔
وہ مسکرادئے۔ وہ یونہی ان کا دماغ کھپاتا رہتا کہ تبھی مسز وقار اسے ہاتھوں سے پکڑ کر اندر لے آئیں۔
تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا تھا۔ کھانےکی ٹیبل پر بھی اس کی گفتگو ہنوز جاری تھی۔ مختصر ترین کھانے کا سیشن دو گھنٹے پر محیط ہوگیا جس میں طویل چائے کا سیشن بھی شامل تھا۔ مسز وقار چونکہ اس کی عادت سے واقف تھیں لہذا وہ کھانا اور چائے دے کر اپنے کمرے میں چلی گئیں جو کہ قریب ہی تھا اور کمرے میں لیٹ کر مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کی باتیں سننے لگیں۔ جب کہ وہ ابھی بھی باپ سے مختلف امور پر بات کررہا تھا۔
جب سیاست سے لے کر کرکٹ جیسے موضوعات کا اختتام ہوا تو اس نے نیا موضوع ادب چن لیا۔
 آپ بس یہ بتائے آپ زبان کی زبوں حالی کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔ خاص کر مفتوحین اور فاتحین کی زبان۔۔۔۔
اس  کا اگلا سوال ادب کی زبوں حالی کے متعلق تھا۔
بیٹا! زبان کوئی بھی ہو  خواہ فاتحین کی یا مفتوحین کی زبان کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔  فاتحیں کی زبان ہوتی ہے نا یہ دیرپا نہیں ہوتی۔ رومی کسی وقت دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ کبھی یونانیوں کا سکہ بولتا تھا۔ مغلوں نے پورے پندوستان میں حکومت کی مگر وہ زبانیں کہاں گئیں۔ زبان صرف وہی باقی رہتی ہے جو محبتیں بانٹتی ہے جو علم اور عقل تقسیم کرتی ہے۔ انگریزی کو ہی دیکھ لو۔ انگریزی صرف فاتحین کی زبان نہ رہی بلکہ علم ، سائنس، ٹیکنالوجی سمیت ادب کی زبان بنی اسی لیے پوری دنیا پر آج بھی راج کررہی ہے۔ رہی بات اردو کی تو یاد رکھو۔ اردو تب تک ہے جب تک اردو بولنے والے ہیں۔ جب تک اسے سمجھنے والے ہیں۔ اگرچہ اس کا معیار ویسا ہرگز نہیں ہے مگر یہ موجود ہے۔ دعا کرو کہ ہماری نفرتیں اس زبان کے ساتھ بھی ویسا سلوک نہ کریں جو انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ کیا تھا کہ اسے بھی دوگز زمیں نہ ملے۔
وہ مزیدسوال کر رہا تھا ۔ اس کے سوالوں کی تعداد دیکھ کر وقار صاحب نے ارسلان کی ماں کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
ھاھاھا، مسز وقار آئے اور نئے ادیب کو لے جائیے۔ یہ تو ایک رات میں ہی ہی تفتیشی پولیس والے بن بیٹھےہیں لگتا ہے پورے چھ مہینے کا حساب لے کر جان چھوڑیں گے ساتھ لگتا ہے موصوف ادب میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے مسز وقار کو آواز دی تو دور کمرے میں لیٹی ہوئی  اس کی ماں مسکرا دیں۔
یہ سچ تھا کہ ارسلان کو ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ارسلان ، افتخار اور زرمینہ تینوں اردو ادب کے متوالے تھے۔ تینوں فارغ اوقات میں کلاسیک ادب سے لے کر پاپولر ادب تک پڑھتے تھے۔ وقار صاحب خود بھی ادب سے وابستہ تھے۔ کسی زمانے میں اپنے زمانے کے مشہور ادبی میگزین میں لکھا بھی کرتے تھے۔ ان کا ذوق اسے میراث میں ملا تھا۔ لہذا پورا گھرانا ہی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتا تھا۔
وقار صاحب اگرچہ اپنی بیگم سے حد سے زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کا حد سے زیادہ خیال بھی رکھتے تھے۔ انہی کی خاطر گھر میں انہوں نے چھوٹا سا جم تک کھول لیا تھا جہاں ایک خاتوں روز انہیں روزش کرواتی تھیں۔ وقار صاحب اگرچہ بہت سی اچھی خصوصیات کے حامل تھے مگر دو بری خصویتیں بھی ان میں پائی جاتی تھیں۔ ایک تو وہ غصے کے بہت تیز تھے اسی کے ساتھ جب وہ کوئی فیصلہ کرتے تو کسی کی نہیں سنتے تھے بھلے سامنے ان کی بیوی یا اولاد ہی کیوں کھڑی نہ ہو۔ نہ ہی  کسی قسم کا  مشورہ لینا گوارا کرتے تھے اور ان کا کوئی بھی فیصلہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا مگر اس کے باوجود تینوں محبت کے اٹوٹ انگ رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ رشتوں کی خوبصورتی یہی ہے کہ ایکدوسرے کو خامیوں اور خوبیوں دونوں کے ساتھ قبول کیا جائے اور خامیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے نفرت اور خوبیوں کی وجہ سے حد سے زیادہ محبت کا نظریہ نہ اپنایا جائے۔
کھانا کھانے کے بعد دونوں باپ بیٹا لان میں ٹہل رہے تھے۔ وہ جب بھی گھر آتا تھا ماں یا بابا دونوں میں سے ایک کے ساتھ رات کے کھانے کے بعد لان میں لازمی ٹہلتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہر لمحہ انہی کے ساتھ گزارے جن کے ساتھ ہر لمحہ خوب صورت گزرتا ہے۔ وہ ہر لمحے میں انہیں جیتا تھا۔ انہیں محسوس کرتا تھا۔ وہ چند دنوں کے لیے آتا تھا اور انہیں پوری زندگی دے جاتا تھا۔
بابا ! ادب تو ہم بے ادبوں کو حد میں رکھتی ہے۔ یہ ادب نہ ہو تو جانے ہم کتنی سرحدیں پھلانگ جائیں۔ ویسے بھی ہماری زبان زوال پذیر ہے۔ اس نے ٹہلتے ٹہلتے  شکوہ کرتے ہوئے کہا۔ اب بھی جیسے ادب ہی اس کا موضوع تھا۔
بیٹا! کوئی زبان زوال کا شکار نہیں ہوتی۔ لوگ زوال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زبان ہمارے رحم وکرم پر رہتی ہے۔ زبان سانسیں نہیں لیتی مگر ہماری سانسیں اسے آکسیجن دیتی ہے۔ جب ہم اپنی زبان چھوڑ کر دوسری زبان کو گھر میں بساتے ہیں تب زبان بھی کسی روٹھے ہوئے محبوب کی طرح گھر سے رخصت ہوجاتی ہے۔ جیسے سوکن ہوتی ہے نا اپنی زبان پر کسی دوسری سوکن کو لے کر آؤ گے تو زبان بھی پہلی بیوی کی طرح روٹھ کر میکے چلی جائے گی۔لہذا اس میں زبان کا کوئی قصور نہیں۔
انہوں نے اسے دلچسپی سے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیا۔
مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو کا کوئی مستقبل ہے۔ اردو مستقبل کی زبان بن سکے گی؟
ھاھاھا لگتا ہے موصوف اردو زبان پر تحقیق کر رہے ہیں۔ سچ بتاو مینجمنٹ ہی پڑھ رہے ہو نا کہیں اردو ادب میں داخلہ تو نہیں لے لیا۔ انہوں نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا۔
نہیں بابا! ایک آپ ہی ہیں جس سے یہ دکھ بیان کرتا ہوں۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ زبان کے مرنے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ قلمی نام سے ادب کی خوب خدمت کرتے تھے۔ آج آپ ہمارا لکھا بھی خوشی سے پڑھ لیتے ہیں اور روتی آنکھوں سے اسے بھی ادب قرار دیتے ہیں۔
 بابا! اس سے بڑھ کر اور دکھ کی کیا بات ہوگی کہ ایک شخص جس نے ادب سے پہلی سچی محبت کی ہو آج قلم توڑ کر صرف کاروبار کر رہا ہو اور اس کی سچی محبت لوگوں کے غرضوں میں کہیں کھو گئی ہو اوراس نے ادب سے سارے رشتے ختم کردئے ہوں۔
دکھ کی ایک گہری لکیر انہیں اپنے وجود میں محسوس ہوئی۔ اس کی باتیں جیسے ہتھوڑے کی طرح ان پر برس رہی تھیں۔ ادب، ادب سے محبت کسی زمانے میں ان کے لیے گالی بن چکی تھی۔ ادب کی راہ میں سب کھو کر ہی انہوں نے اس راہ کو چھوڑا تھا۔
………………………..
وقار صاحب کے ذہن میں مسلسل ارسلان کی باتیں گونج رہی تھیں۔ مسز وقار جانے کتنی دیر پہلے سو چکی تھیں۔ وہ ٹہلتے ہوئے چھوٹی سی لائبریری میں داخل ہوئے۔ میز پر موجود لیمپ کو روشن کیا اور اسی کے ساتھ موجود کرسی سے ٹیک لگا لیا۔ کتنے رسالے ، اب وہ اس بات سے بھی ناآشنا ہوچکے تھے کہ کتنی کتابیں ان کی لائبریری میں موجود تھیں ۔ کتنے عرصے بعد انہوں نے اس کمرے کا رخ کیا تھا۔ اگرچہ مسز وقار باقاعدگی سے کمرے کی صفائی کرواتی تھیں مگر پھر بھی کہیں کہیں کتابوں پر مٹی لگی رہ جاتی تھی۔
تبھی انہوں نے سگار سلگایا اور کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کیں۔
کتنی آوازیں ان کے ذہن میں گونجنے لگیں۔
" آپ کی کہانی معیاری نہیں"
" آپ کسی اور رسالے میں بھیج دیں"
یہ ابتدائی جملے تھے جو انہوں نے نوجوانی میں ایک رسالے کے ایڈیٹر سے سنے تھے۔ ان کی ابتدائی چھ تحاریر ناقابل اشاعت قرار دی گئی تھیں مگر لکھنے کا جنون ان کے سر سوار تھا۔ لہذا ایک وقت ایسا بھی آیا جب انییں قابل اشاعت کے الفاظ بھی سننے کو ملے۔ پھر ایک وقت آیا جب ایڈیٹر بن کر وہ دوسروں کی تحاریر کے ساتھ وہی سلوک کررہے تھے جو ان کی تحاریر کے ساتھ ہورہا تھا۔
دفعتا ان کی آنکھیں کھلیں۔ لمبی سی آہ بھری۔ انہیں نے لمبا سا کش لیا اور پھر سے آنکھیں بند کر لیں۔
" یہ افسانہ کم، مزاحیہ کہانی زیادہ لگ رہی ہے۔"
" آپ کا افسانہ بے حد عمدہ ہے"
" آپ کا افسانہ شائع کرکے ہمیں دل سے خوشی ہوگی"
فون کی گھنٹی بجنے پر ان کے جوابات اور بسا اوقات تحریر کے شائع نہ ہونے پر مختصرا خط کی صورت بھیجا جانے والا جواب انہیں یاد آنے لگا۔
"آٌپ کا رسالہ ایک غیر معیاری رسالہ ہے"
"دیکھئے میں فلاں کا بھتیجا ہوں۔ میری تحریر لازمی چھپنی چاہئیے"
"مجھے آپ کے رسالے سے نفرت ہے"
" آپ کے معیار پر کوئی پورا اتر سکا ہے"
ہونہہ معیار نہ ہوا۔ گویا آپ کے رسالے میں لکھنے کے لیے ہمیں معیار کے آسمان کو چھونا ہوگا"
انہوں نے آنکھیں کھولیں۔ وہ زیر لب مسکرانے لگے۔ وہ پھر سے ماضی کے دریچو ں میں جا پہچنے تھے۔ ماضی جہاں وہ موجود تھے۔ جہاں ایک لکھاری ، ایک ادیب موجود تھا۔
وقار صاحب ایک  زمانے میں ایک ادبی رسالے کے مدیر بھی رہ چکے تھے۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد انہوں نے مختلف اخباروں اور ادبی رسالوں میں بطور انچارج ادبی صفحہ اور ایڈیٹر کام کیا۔ ان دنوں ان کا واحد ذریعہ معاش بھی ادب ہی تھا۔ ادب ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ وہ خود بھی لکھتے تھے اور قلمی نام سے لکھتے تھے۔ ان کے لکھے کو سراہا بھی جاتا تھا اور ان کی تحریروں کو مختلف ادبی رسالوں میں خصوصی جگہ دی جاتی تھی۔
 ایک وقت تھا جب ادب کی خدمت انہوں نے دل سے کی تھی۔ ادب کو دل میں بسا کر رکھتے تھے۔ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اسی چیز نے انہیں برباد کردیا۔ جب ایک مشہور اخبار سے ناطہ توڑ کر انہوں نے بطور ایڈیٹر ایک مشہور ادبی رسالے کی بھاگ دوڑ سھنبالی تو معیار بھی سخت کردیا۔ مگر ان کا رسالہ وہ شہرت حاصل نہ کرسکا جو دوسرے رسالے حاصل کررہے تھے۔ حد سے زیادہ سخت معیار کی وجہ سے جلد ہی انہیں ادارے کے مالک نے تنبیہ کی کہ یا تو وہ میگزین کی سرکولیشن بڑھائیں یا پھر معیار گھٹائیں۔ وہ دونوں کام نہیں کر سکے لہذا ایک دوپہر انہیں بڑی عزت کے ساتھ رخصت کردیا گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ انہیں کسی بھی ادارے نے ملازمت کے بعد جلد از جلد فارغ کردینا جیسے بنیادی اصول بنا لیا ۔ بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اپنا رسالہ نکالنے کے لیے ان کے پاس مناسب وسائل نہیں تھے۔ وہ شدید مایوس ہوگئے۔یہاں تک کہ کھانے کے لالے پڑگئے۔ مسز وقار نے ایسے حالات میں بھی ان کا دل وجان سے ساتھ دیا۔ وہ ہر موڑ پر انہیں تسلی دیتی تھیں۔ ان کی ڈھارس باندھتی تھیں۔  بالاخر تنگ آکر ایک دن قریبی رشتے دارسے قرضہ لے کر چھوٹی سی کپڑوں کی دوکان کھولی۔قسمت ان پر مہربان تھی لہذا دوکان چل پڑی۔ ترقی کرتے کرتے انہوں نے کئی دوکانیں بنالیں ۔ جلد ہی انہوں نے ایک پارٹنر کے ساتھ مل کر دوسرا کاروبار شروع کیا جس میں انہیں حد سے زیادہ کامیابی ملی۔ اس وقت وہ اپر مڈل کلاس میں شمار ہوتے تھے۔ اس دن کے بعد سے انہوں نے ادب سے ہر قسم کا رشتہ توڑ لیا۔  انہوں نے ہر قسم کی ادبی سرگرمیاں ختم کردیں یہاں تک کہ ہر اس شخص سے رابطہ توڑ لیا جس نے قلم سے رشتہ جوڑا تھا۔ کتنے سال ہوگئے انہوں نے ایک بھی تحریر نہیں لکھی۔ یہاں تک کہ اکثر اپنا دکھ بھی صرف اپنے آپ کو سناتےتھے۔ سگار کتنی دیر سے جل رہا تھا۔ ان کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی۔ ماضی انہیں اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں دے رہا تھا۔
………………………..
صبح خاصی خوشگوار تھی۔ سرمئی بادل ہر سو چھائے ہوئے تھے۔ ناشتہ سب کے ساتھ کرنے کے بعد وہ گھر سے باہر نکل آیا۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر فضول مٹر گشت کرنے لگا۔ وہ بائیک پر کبھی اس راستے اور کبھی اس راستے پھر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ جناح سپر مارکیٹ پہنچ گیا۔ پسند کی چند شرٹیں اور پرفیوم خریدنے کے بعد وہ مشہور پلاؤ والے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلا گیا۔ وہ جب بھی اسلام آباد آتا یہاں کے پلاؤ لازمی کھاتا۔ اسلام آباد میں اگرچہ اس کے بہت سے دوست تھے لیکن اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ اکیلا ہی گھومے۔ وہ کھلی فضاوں کو دل سے محسوس کرنا چاہتا تھا۔ لمبی چوڑی سڑکوں پر بائیک چلاتے اور لہراتے بالوں کے ساتھ کھلی فضا کو دل سے محسوس کرتے وہ اپنے آپ کو کسی فلم کا کردار سمجھ رہا تھا۔ کافی وقت گزار کر گھر آیا تو ماں کو موجود نہیں پایا ۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ گھر آئیں مگر ارسلان کو محسوس ہوا کہ وہ خاصی ناراض تھیں۔
سنا ہے تم نے کھانے سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
جی میں نے کھالیا تھا۔
ماں نے اس کے جواب کا شدید برا منایا۔
"کتنے دنوں کے بعد ماں کے پاس آئے ہو مگر ایسا لگتا ہے تم لاہور سے ابھی پہنچے ہی نہیں ہو۔ بیٹا لاہور سے نکلے تھے تو دل وہیں چھوڑ کر تو نہیں آئے تھے  کیوں کہ ارسلان تو پہنچ گیا ہے میرا بیٹا ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔"
ان کی باتیں سن کر اسے محسوس ہوا کہ واقعی اس سے غلطی ہوئی ہے۔ شاید اس کے ذہن میں ابھی تک ہاسٹل بس رہا تھا۔
" بہت معذرت ماما! واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔ مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں آپ کے پاس آگیا ہوں۔ دراصل آپ اتنی پیاری ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ موجود ہیں یا نہیں ہیں۔ ہر لمحہ ایسا لگتے ہے جیسے آپ ساتھ ہیں۔ یقین کریں کھانا کھاتے وقت میں نے کولڈ ڈرنگ بھی دو بوتلیں منگوائیں تھیں۔ مجھے لگ رہا تھا آپ میرے ساتھ کھانا کھارہی ہیں۔"
 اس نے ماں کو منانے کی کوششیں کرتے ہوئے کہا۔
"جھوٹے۔۔ آوارہ گردی کرتے کہاں ماں یاد آتی ہوگی۔
 انہوں نے بھرپور شکایت کی۔
نہیں ایک عدد وسیع دل کے مالک ارسلان کی ماں! آپ کا بیٹا آپ کو نہیں بھولا۔ اس دل کی بھلا اتنی جرات کہ وہ آپ کو بھول جائے۔ آپ میرا پہلا عشق ہیں۔
 اس نے انہیں مسکا لگاتے ہوئے کہا۔
ویسے جھوٹ بولنا کوئی تم سے سیکھے ارسلان صاحب۔ تمھیں یونیورسٹی میں کیا جھوٹ سکھایا جاتا ہے۔
 وہ پیار سے بولیں تو وہ مسکرا دیا۔
اے مادر گرامی! دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی دل کی یونیورسٹی ہے جس کا براہ راست تعلق زبان سے ہے۔ وہ دل جب بھی آپ کو دیکھتا ہے تو زبان سے کہتا ہے۔ ابے نالائق جلدی سے اچھے الفاظ بول دے۔ تبھی زبان فورا سے پہلے جذبوں کا اظہار کرجاتے ہیں۔
توبہ کتنا باتونی ہے یہ لڑکا۔ اس کے جملوں پر مسکراتے ہوئے وہ بے اختیار دل میں اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئیں۔
ویسے تھوڑی دیر پہلے آپ گئی کہاں تھیں۔ پورے گھر میں آپ کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ 
"ماں کہاں جا سکتی ہے۔ تمھارے بابا ہوتے ہیں تو ان کی راہ تکتی ہوں۔ تم آتے ہو تو تمھیں تکتی ہوں۔ ماں کو کام تم دونوں کا تکنا ہی رہ گیا ہے۔ دونوں باپ بیٹا ایک جیسے ہو۔ وہ وقت پر گھر نہیں آتے۔ تم گھر آتے ہو مگر تمھارے پاس وقت نہیں ہوتا"
" وعدہ کرتا ہوں اب آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ "
 اس نے ہاتھ باندھتے معذرت خواہانہ انداز میں کہا تو انہوں نے پیار سے اسے گلے لگالیا۔
" وعدہ کرو رات کا کھانا ماں کے ساتھ کھاو گے۔ پھر بہانہ نہیں کرو گے"
 انہوں نے وعدہ لیتے ہوئے کہا۔
" وعدہ والدہ گرامی، والدہ۔۔۔۔اب ایسی غلطی بھی نہیں ہوگی۔کھانا کیا اب ناشتہ اور چائے بھی آپ کے ساتھ پیوں گا"
اس نے انہیں خوش کرتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے۔ جاو معاف کیا مگر اس معافی میں یہ شرط ہے کہ تم ماں کو ماں کے پاس ہی رکھ کر جاو گے یوں ریسٹورنٹ میں بوتلوں کے بیچ رسوا نہیں کرو گے"
 انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تو ارسلان نے زور دار قہقہہ لگا دیا۔
ماں اور اولاد کی محبت بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد اگرچہ اس محبت میں بدل جاتے ہیں مگر جو چیز پتھر کی طرح اپنی جگہ قائم رہتی ہے وہ والدین کی محبت ہے۔ مسز وقار کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ اپنے منہ کے لقمے بھی اولاد کے منہ میں دے دیتیں۔ انہیں یہی قلق رہتا تھا کہ ارسلان کم کھاتا ہے۔ دنیا کے سب والدین کو یہی لگتا ہے کہ ان کی اولاد کم کھاتی ہے۔ محبت کی سب سی میٹھی قسم والدین کی محبت ہوتی ہے۔
………………………..
راتیں بھاری ہو جاتی ہیں۔ دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ جذبے اپنی موت آپ مرجاتےہیں۔
اے خالق کن فیکون! اے دلوں کے بھید سے آگاہ راز آشنا! میں تیرا اک گنہگار بندہ ہوں۔ جذبوں کی توقیر  لفظوں کی تشہر کے ذریعے برقرار رکھتا ہوں۔ نکھرتا تب ہوں جب عشق کی خوشبو ذات کو نکھارتی ہے۔ تبھی ہنستا ہوں جب جذبوں کی دیوی دل کے پربت پر میرے من کو گدگداتی ہے۔ اسی کا عکس میری آنکھوں میں رقص بن کے دوڑتا ہے۔ وہ روح میں بسی ہوئی خوشبو ہے۔ وہ دل میں چھپی جستجو ہے۔ وہ تاریک راتوں کو تنہائی کی چادر اوڑھ کر مجھ سے کی جانے والی گفتگو ہے۔ تو دیکھ رہا ہے نا اور تجھ سے بڑھ کر کون دیکھ سکا ہے۔ تو سن رہا ہے نا بے شک تجھ سے بہتر سامع کون ہے۔ میں اس کی ذات میں ڈھل رہا ہوں۔ وہ میری ذات میں ڈوبتے سورج کی کرنوں کی طرح ڈوب گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے میرا دل مغرب ہوگیا ہو جہاں اس کی محبت کا سورج غروب ہوتا ہو۔ مجھے قرار عطا کر۔کبھی اپنی ذات سے بھی شرمندی ہوتی ہے کہ جائے نماز پر تجھ سے کیا  شے مانگتا رہتا ہوں۔ کیا کہتا رہتا ہوں؟ مگر تیرے سوا کس سے کہوں۔ کس کے پاس جاوں۔ اندھیری رات کو تو دل میں امید کی کرن بن کر آتا ہے۔ تیرے ہونے کا احساس ہوتا ہے تو سارے احساس جاگ جاتےہیں۔ جب محسوس کرتا ہوں تو ہر سو ہے تو دل کے قریب تجھے محسوس کرتا ہوں۔ تجھے رازداں سمجھ کر دل کا درد بیاں کرتا ہوں۔ بے شک تجھ سے زیادہ قریب کون ہے۔ میرے دل کے آشنا، میرے رازوں کی حفاظت کرنے والے، میرے وجود کو سکون کی نیند سے مزین کرنے والے، میری صبح کو امید کا استعارہ عطا کرنے والے مجھے سکون عطا کر۔۔۔۔
راتیں یوں ہی میرے لیے وحشت ناک بن جاتی ہیں اور میرے رگ وپے میں درد و اذیت کی لہر بن کر اترتی ہیں۔ میں بکھرتا ہوں۔ میں گر جاتا ہوں۔ اے کلیم سے کلام کرنے والے، اے خلیل سے دوستی نبھانے والے، میرے رگ وپے ، میرے وجود کے ہر رمز سے تو آگاہ ہے۔
وہ جائے نماز پر کتنی دیر فریاد کررہا تھا۔ آنسو اس کے وجود سے گر کر جائے نماز پر جذب ہورہے تھے۔ اس کا وجود کپکپا رہا تھا۔ ہاتھ لرز رہے تھے۔ ہونٹوں سے الفاظ آنسووں کے قطروں میں مل کر باہر نکل رہے تھے۔ رات کی تنہائی ہر سو چھائی ہوئی تھی مگر وہ سب سے بے نیاز ، بے نیاز ترین ہستی کے سامنے سربسجود تھا۔
………………………..
دن کے بارہ ہوچکے تھے۔ ساری رات جاگتا رہا تھا ناجانے کب نیند آئی تھی اور کتنی شدت کی نیند آئی تھی کہ گھوڑے بیچ کر سو گیا تھا۔ بابا کہتے تھے جوانی کی نیند اور اڑیل گھوڑے کو سنھبالنا سب سے مشکل کام ہے۔ دونوں بے قابو ہوتے ہیں اور بے قابو کردیتے ہیں۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ ماں کے روم کی جانب بڑھا مگر وہ وہاں نہیں تھیں۔
"ماما! وہ پورے گھر میں چلانے لگا۔"
" وہ باہر گئی ہیں۔"
ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا۔
اس نے مڑ کر دیکھا ۔ ایک قدرے دبلی لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی۔
"آپ کون؟"
اس نے حیرت سے پوچھا۔ اہنے ہی گھر میں یوں کسی اجنبی لڑکی کو دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت ہوئی تھی۔
"جی آپ کو انکل نے بتایا نہیں۔"
 اسے نے معصومیت سے پوچھا۔
" نہیں کچھ بتانا تھا کیا انہیں"
 اس نے جواب دیا۔
" آپ انہی سے دریافت کر لیجئے گا؟"
معصومیت سے جواب دیا گیا۔
" کیا آپ کوئی راز ہیں جسے دریافت کرنا پڑے گا۔"
اس نے شگفتگی سے جواب دیا۔
" نہیں ایک عام سی لڑکی ہوں۔ کوئی راز نہیں ہوں۔ گھبرائے مت آپ کو دریافت کرنا نہیں پڑے گا"
اس کا جواب سن کر وہ مزید الجھ گیا۔
عجیب بات ہے۔ میرے گھر میں مجھے کوئی اجنبی سیڑھیوں کے سامنے کھڑا ملتا ہے۔ اس سے پوچھتا ہوں تو کہتا ہےاسےدریافت کروں۔ کیا آپ کوئی سیارہ ہیں۔ کوئی ایسی چیز جو ابھی زمین سے نکلی ہیں۔
 اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
میں بس میں ہی ہوں۔
 انہتائی کمزور آواز میں جواب دیا گیا۔
اس طرح تو دو "میں" ہوگئے۔ ایک اور آپ اور دوسری؟
جی۔۔۔
 اس نے ارسلان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آنکھوں میں جیسے ڈر موجود تھا۔
دوسری میں کون ہیں؟
پتہ نہیں۔۔۔۔؟
 مختصر جواب دیا گیا۔
افف۔ پہلے ہی گھر میں دو لوگ ہیں۔ کم ہی بولتے ہیں۔ اب ایک تیسری آگئی۔ کیوں نہ اس گھر کا نام کم گو ہاوس رکھ لیں۔
 اس نے جھنجھلاتے ہوے کہا۔
آپ کا گھر ہے آپ کی مرضی۔
 اس کے جواب سے ارسلان پھر چڑ گیا۔
تو میرے گھر میں جو اجنبی موجود ہے اس سے پوچھ رہا ہوں کچھ۔؟
کیا پوچھ رہے ہیں؟
 اس نے ہونقوں کی طرح سوال کیا تو ارسلان کا دل کرنے لگا کہ کسی چیز سے اپنا سر پھوڑ لے۔
میڈم آپ کو اردو آتی ہے یا وہ بھی دریافت کرنا پڑے گا۔
 اب کہ خاصے تند لہجے میں اس نے سوال کیا۔
جی آتی ہے۔
 بس تین الفاظ بول کر نظریں پھر جھک گئیں۔
ارسلان کافی حد تک تنگ آگیا تھا۔ عجیب سی لڑکی تھی جو کچھ بول ہی نہیں رہی تھی۔
ارسلان کی عادت تھی کہ قدرے خاموش اور اپنی دنیا میں مگن لوگوں کو جان بوجھ کر چھیڑا کرتا تھا۔ مگر آج وہ خاصا جھنجھلاگیا تھا۔
لگتا ہے آپ بہت ہی خاص لڑکی ہیں۔ کہیں ماما نے کوئی گڑیا تو نہیں رکھ لی جو بول ہی نہیں سکتی ہو۔
اس نے اب عاجز آتے ہوئے کہا۔
میں بس اک عام لڑکی ہوں۔ بس عام سی۔۔۔
ارسلان نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا تو وہ کپکپارہے تھے۔ دفعتا وہ غصہ بھول گیا۔ اسے اس لڑکی پر خاصا رحم آنے لگا۔
ویسے عام سی لڑکی کیا ہوتا ہے اور خاص لڑکی کی تعریف کیا ہے۔
 اس نے اب اسے باقاعدہ تنگ کرنے کی ٹھان لی تھی۔
عام یعنی میری جیسی ، خاص یعنی آپ جیسے۔۔ اس کا جواب سن کر ارسلان بے اختیار ہنس پڑا۔
میرے جیسا۔ یعنی آپ کو ماما نے نہیں بتایا کہ میں لڑکا ہوں۔ میری جیسی خاص لڑکی ، حد ہے۔"
 اس نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ چھنپ گئی۔
میرا مطلب ہے۔۔۔۔وہ
ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں الجھ رہی تھیں۔ چہرہ جیسے زرد ہورہا تھا۔ الفاظ زبان سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔
ارسلان اس کے چہرے پر موجود گھبرایٹ کو واضح محسوس کر رہا تھا۔ لہذا اس نے بالاخراس کی جان چھوڑتے ہوئے ناشتے کی ٹیبل کا رخ کیا۔


………………………..
وہ کتنی دیر شیشےکے سامنے خود کو دیکھ رہی تھی۔ ارسلان گھر سے جاچکا تھا۔
 میرا نام نیہا احمد ہے۔ تعلیم ایم اے اگلش ہے۔ وہ شیشے میں دیکھ کر خود سے کہنے لگی۔
اس کے سامنے تو بزدل بن گئی تھی۔
اچانک شیشے میں سے کسی نے سوال کیا۔
وہ میرا کچھ لگتا نہیں تو بہادر کیوں بنوں۔
 اس نے شیشے میں موجود سراپے کو جواب دیا۔
لیکن وہ دیو نہیں تھا جو تم ڈر گئیں۔
 پھر سے آواز آئی۔
دیو، اس نے شیشے میں دیکھا۔ دیو تو وہ حالات ہیں۔ دیو تو وہ رشتے دار ہیں جن سے میں بھاگتی آگئی ہوں۔ میں اس لیے بھی نہیں بولی کہ کہیں الفاظ میرا مان نہ توڑ ڈالیں۔
 رنجیدہ چہرے سے اس نے اپنے سراپے سے کہا۔
نیہا احمد! تم ہمیشہ بھاگتی آئی ہو۔ ہر ایک سے بھاگتی آئی ہو۔ مگر کب تک۔۔۔۔ ہر شخص تمھیں برا ہی لگتا ہے۔ آخر کیوں؟
 اسے لگا جیسے آج اس کا سراپا پھر سے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔
ہاں میں بھاگ رہی ہوں۔ مگر کس سے۔ سگے رشتوں سے۔ اپنے رشتوں سے۔ خون کے رشتوں سے۔ مقدس رشتوں سے۔ جب مقدس رشتے مقدس نہیں رہے تو سرراہ ملنے والے اجنبی کیسے اپنے ہوسکتے ہیں۔
 اس نے تقریبا روتےہوئے کہا۔
تم نے اسے کیوں نہیں بتایا تم نیہا احمد ہو۔ دکھ سہنے والی لڑکی۔ روز مرنے والی لڑکی۔
آواز پھر اسے اذیت کی دنیا میں لے کر جارہی تھیں۔ وہ رو رہی تھی۔ دفعتا وہ چلائی۔
سنو ارسلان۔۔ میرا نام نیہا احمد ہے۔ وہ شیشے میں مخاطب ہوئی۔
 ارسلان صاحب میرے بابا اور انکل بہت اچھے دوست تھے۔ ماں بچپن میں ہی مر گئی تھی۔ ابو نے دوسری شادی کر لی۔ میں نے سوتیلے پن کا دکھ سہا ہے۔ اللہ نے دوسری ماں کی کوکھ ہمیشہ کے لیے بانجھ کر دی تھی۔ شاید ان کو کرموں کی سزا اسی صورت ملی تھی۔ میرے چچا بابا کی جائیداد کی وجہ سے ان کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ کئی قاتلانہ حملے کر چکے ہیں مگر اللہ نے انہیں ہمیشہ محفوظ رکھا ہے۔ چونکہ میں بھی آپ کی طرح اکلوتی اولاد ہوں لہذا اب وہ بری طرح میرے پیچھے پڑگئے ہیں۔ کہتے ہیں یا زمین دو یا لڑکی دو۔ انہیں لگتا ہے دونوں صورتوں میں زمین انہیں ہی ملے گی۔ بابا نے انکل سے درخواست کی کہ کچھ دنوں کے لیے مجھے کہیں چھپا دیں شاید تب تک وہ مجھے باہر بھیجنے کے لیےکچھ انتظامات کرسکیں گے۔ یہی میری کہانی ہے۔  یہی جاننا چاہتے تھے ۔ جان لو۔ میں ایک بدنصیب لڑکی ہوں۔"
اس کا دامن آنسووں سے بھر چکا تھا۔ کافی دیر رونے کے بعد اس نے خود کو خاموش کروایا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔
اسے شروع سے عادت تھی کہ اپنے دکھوں کا اظہار شیشے میں موجود نیہا سے کردیتی تھی۔ وہ اکثر شیشے میں خود سے مل لیتی تھی۔ دکھ بیان ہوجاتے تھے اور دل مطمعئن ہوجاتا تھا۔
تبھی اس نے ارسلان کی آواز سنی۔ وہ باہر نکلی تو ارسلان کو سامنے کھڑے پایا۔
ماما نہیں آئیں ؟
ارسلان نے سوال کیا۔
نہیں۔
اس سے مختصر جواب ملا۔
آنکھیں جھکائے لفظوں میں دکھ کا اظہار کرتی لڑکی اس لمحے اسے کتنی پاک لگی۔ کتنی معصوم سی تھی وہ۔ اگرچہ اس کی شکل واجبی سی لگ رہی تھی مگر معصومیت بے انتہا درجے کی تھی۔
"اچھا ان سب میں آپ یہ بتانا بھول گئیں کہ آپ کا نام کیا ہے اور خوانخواستہ کوئی ایسا نام تو نہیں جسے لیا جائے تو کچھ ہوجائے گا"
 اس کے دلچپس استفسار پر جیسے وہ شرمندہ سی ہوگئی۔
جی میرا نام نیہا احمد ہے۔ آپ کے لیے چائے بنادوں کیا؟
جھکی نظروں نے پھر سے سوال کیا۔
یعنی چند گھنٹوں میں آپ کچن آشنا ہوچکی ہیں۔
ارسلان کی بات کا اس پر قطعی اثر نہ ہوا۔
جی میں صبح سات بجے یہاں پہنچی تھی۔ ایک گھنٹے میں آنٹی اور میں شناسا ہوگئے پھر انہوں نے کچن دکھایا ۔ شاید انہیں کہیں جانا تھا مگر میری وجہ سے نہیں جا رہی تھیں۔ تبھی میں نے انہیں بھیج دیا ۔ آپ کے بارے خصوصی کہہ کرگئی تھی۔ آپ کہیں تو چائے بنا دوں۔
جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں اس نے گویا پوری داستان ہی سنادی۔
چائے کے ساتھ پکوڑے بھی بنا دیں۔
ارسلان نے چھیڑتے ہوئےکہا۔
جی بہتر۔۔۔
 وہ خاموشی سے کچن کی طرف جانے لگی تبھی ارسلان نے اسے روک لیا۔
آپ مزاق بھی نہیں سمجتھیں کیا؟
نیہا نے مڑ کر اسے دیکھا۔ ہنستے چہرے والا ، وجیہ صورت ارسلان، جسے شاید دل رکھنا آتا تھا مگر وہ اسے کیسے بتاتی کہ اس کا دل بچپن میں ہی سوکن ماں کی گود میں جل گیا ۔ شاید ارسلان کو دل رکھنا آتا ہو مگر اس کے پاس وہ دل ہی نہیں جسے وہ رکھ سکتا تھا۔
وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
نیہا احمد کو ارسلان کے سوالوں سے الجھن ہونے لگی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کٹہرے میں کھڑی ہوکر کسی کو صفائیاں پیش کررہی ہے۔
صرف چائے بنا دیں۔ چینی لازمی ملائے گا۔ میں خاموش چائے نہیں پیتا۔
اسے ارسلان کا طنز واضح محسوس ہوا۔
مگر وہ ہمیشہ سے چپ ہی رہتی آئی تھی۔ آج کیسے بول سکتی تھی۔
میں ابھی لاتی ہوں۔
ویسے ماما کب تک آئیں گی بتا کر نہیں گئیں کیا؟
 ارسلان نے پھر سے اسے روک لیا۔
نیہا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے وہ ارسلان سے جلدی سے جان چھڑائے۔ اسے لوگوں سے وحشت ہوتی تھی۔ وہ تنہائی پسند تھی۔ اسے اپنی تنہائی میں کسی کی مداخلت پسند نہ تھی۔
آنٹی کہہ کر گئی ہیں وہ دو بجے تک آئیں گی؟ اب میں جاوں یا کچھ اور پوچھنا ہے آپ نے۔
اس کے انداز نے ارسلان کو ہنسنے پر مجبور کردیا۔
جی شکریہ۔۔۔ آج تو ماما سے لڑائی پکی ہے پھر۔۔ اس کی آواز نے پھر سے اسے چونکا دیا۔
کیسی لڑائی؟
 ناچاہتے ہوئے بھی اس نے پوچھ لیا۔
رات کو ہی انہوں نے ممتا اور بیٹے کےفرائض اور حقوق پر مجھے اتنا بڑا لیکچر دیا تھا۔ آج صبح ہی بیٹے کو چھوڑ کر باہر چلی گئیں۔
اس نے ہاتھ گھما کر کچھ ایسے انداز میں کہا کہ نیہا اندر ہی اندر مسکرا اٹھی۔ آنٹی نے سچ کہا تھا یہ لڑکا باتونی ہے۔ یہ دل رکھنا جانتا ہے۔ کتنے عرصے بعد وہ مسکرائی تھی۔ اسے یہ گھر اپنے گھر سے کتنا مختلف لگا تھا۔ یہاں کے لوگ کتنے سچے تھے۔ اس نے دل میں سوچا۔ بابا کے پاس اس کے لیے وقت نہیں تھا۔ سوکن ماں نے کبھی اسے بیٹی ہی نہیں سمجھا تھا بلکہ کچھ رشتے دار یہ بھی کہتے تھے کہ سوکن ماں اس کے چچاو ں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ دکھ کی کتنی گرہیں تھیں جو اسے باندھ کر رکھتی تھیں۔ نیہا نےسوچا اور چائے بنانے کےلیے چلی گئی۔
………………………..
زرمینہ زرمینہ۔۔۔ اٹھ جاو لڑکی۔ تم کون سا پہاڑ سر کرکے آگئی ہو جو نیند ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ دروازے پر ڈانٹ کے ساتھ مسلسل دستک ہورہی تھی۔
توبہ ہے امی! سونے بھی نہیں دیتیں۔ اس نے آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھا۔ کمرا ابھی بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
یا اللہ ! کہیں آدھی رات کو تو نہیں اٹھا دیا۔ کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں اردگرد دیکھتے ہوئے اس نے کہا اور بیڈ کےسائیڈ پر پڑے موبائل فون کو اٹھا کر آن کیا۔ 
سکرین پر دو بچے کا وقت نمودار ہورہا تھا۔ ارد گرد سناٹا چھایا ہوا تھا۔ روشنی دبیز پردوں کی  اوٹ میں چھپ گئی تھی۔
اوہ خدایا! دو بجے تک سوئی رہی ہوں کیا میں؟ امی صحیح کہتی ہیں۔ فل نکمی ہوں میں۔
وہ خود کو کوستے ہوئے بیڈ سے اٹھی۔ پردے ہٹائے اور واش روم میں برش کرنے چلی گئی۔
یونیورسٹی سے آئے ہوئے تین دن ہوچکے تھے جبکہ ابھی کافی چھٹیاں باقی تھیں۔ اس بار سمسٹر بریک ایک مہینے کی ہورہی تھی۔
 وہ جب بھی گھر آتی تھی زیادہ تر وقت سو کر ہی گزارتی تھی پھر بھی اسے لگتا تھا کہ اس کی نیند پوری نہیں ہوتی۔
تیار ہوکر ڈائیننگ ہال میں پہنچی تو ماں شدید غصے میں بپھری بیٹھی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ آج خوب اسے خوب سارا سننا پڑے گا۔
پرنسز ! تشریف لے آئیں۔ بہت جلدی آگئیں۔ ابھی وقت ہی کیا ہوا ہے؟
 انہوں نے غصے سے ہنکارتے ہوئے کہا ۔
امی مجھے کسی نے جگایا کیوں نہیں۔ جلدی جگا دیتیں تو اٹھ جاتی۔ ان کےبدلے ہوئے تیور کو دیکھتے ہوئے اس نے ڈر کر سوال کیا؟ اسے علم تھا کہ اگر وہ اپنی مرضی کا کچھ بھی کہے گی تو کھری کھری سننی پڑ جائے گی۔
 وہ پھر سے مخاطب ہوئیں۔
آپ کسی کے اٹھانے سے کہاں اٹھنے والی ہیں۔ محترمہ ملازمہ دس دفعہ آپ کے دروازے پر دستک دے چکیں مگر مجال ہے جو آپ ٹس سے مس ہوں۔ آخر ساری رات کونسے محاذ فتح کرتی رہتی ہیں آپ جو دن کو جاگنے میں اتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
بہت معذرت چاہتی ہوں۔ رات دیر سے سوئی تھی۔ اس نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تو وہ مزید چڑ گئیں۔
ساری رات کیا کرتی رہی تھیں۔ ناسا میں کہیں ایک رات میں سیٹلائیٹ تو نہیں بھیج دیا یا کہیں میری مہارانی نے کوئی نیا سیارہ دریافت کرلیا ہو۔ آخر کونسا کارنامہ سرانجام دیتی رہیں جو فخر سے بتا رہی ہیں کہ ساری رات جاگتی رہی۔ آج کل کی لڑکیاں تو سب کچھ بھول بیٹھی ہیں۔ پہلے لڑکے جاگتے تھے اب تفریق ہی ختم گئی۔ دونوں صنفیں رات بھر جاگتی ہیں۔ اسے کوئی سینڈروم ہی سمجھو۔یہ نئی نسل مجھے کسی طور نارمل نہیں لگتی ۔ غضب خدا کا رات بنی کس لیے ہے۔ سونے کے لیے یا جاگنے کے لیے۔۔۔ اور جاگ کرکرتے کیا ہو۔؟
اسے اندازہ ہوچکا  تھا اب امی شروع ہوچکی ہیں لہذا بس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
لہذا وہ کرسی کے سامنے تھوڑی پر بازو ٹکائے ان کی طرف چہرہ کیے انہیں سنتی رہی۔
ماما! کتنے دنوں سے خاموش تھیں آپ۔۔ لگتا ہے کافی دن بعد میری ماں کو تقریر کا موقع ملا ہے۔
 اس نے ماں کو مزید چھیڑتے ہوئے کہا۔
ہاں میری لاڈو۔ گھر ایک سٹیج ہے اور میں مقررہ۔۔ یہاں بس ایک سامع ہے وہ میری بیٹی ہے۔ اسے سننے کا شوق نہیں ۔ جب سے آئی ہے یا سوتی ہے یا موبائل میں کھوئی ہوتی ہے۔ ماں اور باپ بھی کہیں موجود ہیں یا نہیں۔ لگتا ہے آپ نے ہمیں اپنی ذات سے نفی کردیا ہے۔ تین دن سے اپنی بیٹی کو گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں۔ گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا فاصلہ طے کرنے میں اور ایک ماں کو بیٹی سے ملنے میں تین دن لگے ہیں۔ آئندہ بتا دیا کرو تاکہ ایک ہفتہ پہلے آپ سے ملنے کی تیاری پکڑ لوں ۔
ماں کے لفظوں میں چھپے دکھ کو اس نے واضح طور پر محسوس کیا۔ وہ غلط تھی۔ وہ سمجھ پارہی تھی کہ وہ غلط تھی۔ ماں سے تین دن پہلے گھر آکر ملی تھی اس دن کے بعد وہ کمرے میں ہی رہتی تھی۔ کھانا ، ناشتہ، کھانا اور چائے کمرے میں منگوا رہی تھی ۔ ایسے میں ان کا غصہ بالکل بجا تھا۔
ماما! میری پیاری ماما! یقین کریں آپ کی یہ ڈانٹ سننےکے لیے ہی دیر سےاٹھی ہوں۔ جلدی اٹھتی تو کہاں میری ماں مجھے ڈانٹتی۔ مجھے معاف کردیں۔ غلطی ہوئی۔  اس نے پیار سے ماں کی بانہوں میں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیں۔ ایک پل میں بھول گئیں کہ وہ بیٹی سےناراض تھیں۔
مسز وقاص ایک سلجھی ہوئی اور نکھرے خیالات کی حامل خاتون تھیں۔ انہیں شروع سے دولت کی چکا چوند متاثر نہ کرسکی تھی۔ وہ محبتیں بانٹتی تھیں۔جذبوں کی تجارت کرکے محبت خریدتی تھیں۔ وہ دلوں میں بسنا خوب جانتی تھیں۔ وہ مشرقی روایات کی دلدادہ تھیں۔ امارت نے ان کے ماتھے پر زرا بھر بھی شکن پیدا نہیں کی تھی۔ وہ آج بھی سادہ لباس میں ملازموں کےہمراہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتی تھیں۔ وہ کسی تفریق کی قائل نہ تھیں جب کہ وقاص صاحب شروع سے تمام خصوصیات میں ان کے برعکس تھے۔ انہیں غریب اچھے نہیں لگتے تھے۔ وہ اگرچہ مشرق روایات کو برائے نام ہی اہمیت دیتے تھے مگر وہ مذہبی خیالات میں کافی انتہا پسند واقع ہوئے تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو مذہب سے زیادہ فرقے پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسز وقاص نے زرمینہ کی تربیت میں اپنا اچھا خاصا کردار ادا کیا تھا۔ زرمینہ زیادہ تر ان کا پرتو تھی۔اس میں ان کے کردار کی جھلک نظر آتی تھی۔ اگرچہ امارت اور دیگر چیزوں میں اس نے باپ کا اثر ہی قبول کیا تھا۔

………………………..
افتخار جب گھر کی طرف جارہا تھا تو خاصا بجھا ہوا لگ رہا تھا۔ اونچے نیچے ، ہموار اور تیکھے راستوں سے ہوتے ہوئے جب وہ گھر پہنچا تو اس سے پہلے امید کی کرن گھر پہنچ گئی تھی۔ اس کے آنے کی امید پہلے سے ہی گھر میں موجود کمزور ماں کو طاقت دے رہی تھی۔ جب چھوٹے سے موبائل سکرین پر بیٹے کا " شام تک پہنچ رہا ہوں " کا پیغام ماں نے پڑھا تو کچھ دیر کے لیے وہیل چئیر کو راستے سے ہٹا دیا۔
"میرا بیٹا آرہا ہے۔"
 وہ جیسے کشمیر کی وادیوں میں موجود ہر شے کو اعلان کرکے بتا رہی تھی۔
گھر کے سامنے ہی شہتوت کا کھلتا ہوا درخت پورے جوبن کے ساتھ کھڑا ہوتاتھا۔ گرمیوں کے دنوں جب وہ گھر آتا تو شہتوت آسمان سے اتری پریوں کی طرح چھن سے اس کے لیےبھیجی ہوئی چھوٹی سی رکاب میں اکھٹے ہو جاتے ۔ ہر دانہ دوسرے سے نکھرا ہوا ہوتا۔ کالے رنگ کے دمکتے ہوئے شہتوت جن میں موجود حلاوٹ اور مٹھاس اس کی تھکن کو لمحوں میں اتار دیتی ۔
مگر ماں پہلی بار دیکھ رہی تھی کہ شہتوت کی اوٹ میں چھپا ہوا لڑکا افتخار ہرگز نہیں تھا۔ کوئی بوڑھی روح صدیوں کا بوجھ کندھے پر ڈھائے گھر پہنچی تھی۔ جس کی چہچہاتی آواز سے گھر میں چہچہاتے پرندوں کا سا گمان ہوتا تھا مگر گھر کے ہر فرد کی آنکھ کے تارے کو پہلی دفعہ صرف آنکھ سے آنسو گراتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔کہیں دور کسی پتھر کی سلیب پر بیٹھ کر کسی چشمے کے کنارے کتنی دیر وہ اپنی ذات سے اٹھ نہیں پاتا تھا۔
افتخار !
 شام کو وہ گھر پہنچا تو ماں نے کراہتے ہوئے کہا۔
جی ماں جی! کیا ہوا؟
اتنا مختصر جواب شاید اس نے زندگی میں نہیں دیا تھا۔
کچھ ہوا ہے کیا؟ سچ بتا دے کیا ہوا ہے۔ ورنہ میرے دل کو کچھ ہو جائے گا۔
ماں نے لرزتے ہونٹوں سے سوال کیا تو افتخار لاجواب اسی انداز میں کھڑا ہوگیا۔
ماں جی کچھ ہونا لازمی نہیں۔ کبھی کچھ ہوئے بغیر بھی سب کچھ ہوجاتا ہے۔
 اس کی دلیلیں ماں کی عقل میں نہ سمائیں۔
دیکھ بیٹا، تیری طرح پڑھی لکھی نہیں لیکن اتنا جان گئی ہوں کہ تو راستے میں کہیں اتر گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید آدھے راستے کا فاصلہ طے کیا ہے تو نے۔۔۔آدھا یہاں آکر طے کر رہا ہے۔ بیٹا کس راستے کا ہمنوا بنا ہے۔
 انہوں نے چمکتی پیشانی پر ابھرے پریشانی کے آثار کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
نہیں ماں جی! جب رستے نظر سے اتر جائیں تو انسان رستوں سے خود بخود دور ہو جاتا ہے۔ وہ ماں کے قریب ہوا۔ ان کے دونوں ہاتھوں کو پیار سے تھاما اور محبت کا بوسہ دیا۔
ماں ! تیرا بیٹا! رستوں میں اترتے اترتے  دل سے بھی اتر گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ماں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
 وہ گویا ہوئیں۔
بیٹا! تو ہمارا افتخار ہے۔ ہمارا فخر، اور فخر رونے لگے تو ماں باپ ٹوٹنے لگتے ہیں۔ میری جان، میں نے تجھے افتخار بنا کر بھیجا تھا۔ تم کب سے اتنے بے اختیار ہوگئے۔
 انہوں نے روتے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
چھوٹے سے خوبصورت کمرے میں ماں کے ساتھ اس کا حوصلہ رہتا تھا۔ اس نے دوپٹے کے پلو سے اس کے آنسو صاف کئے۔ ماتھے پر بوسہ دیا۔
افتخار! وہ پھر سے بولیں۔
سن بیٹا! کچے گھڑے میں کبھی پرانا پانی مت ڈالنا۔ تمھارا ذہن بھی ابھی کچا ہے اس میں پرانی اشیا اور نظرئے مت گھسا دینا۔ پہلے ذہن کو پکا ہونے دے۔
 اپنے تئیں وہ جانے کیا سمجھ رہی تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ان کا بیٹا محبت میں ہارے شخص کی طرح ان کے سامنے روتا نظر آئے گا۔
ماں یہ فرقہ سب سے اہم ہوتا ہے کیا؟
 اس کے سوال سے وہ فورا سٹپٹا گئیں۔
کیا کسی نے تمھیں چھیڑا یا تمھیں چھیڑنے کے کےلیے فرقے کو چھیڑا۔
بس آپ بتائیے۔ ؟
شاید وہ بھی اب پرسکون ہوچکا تھا۔
بیٹا سب سے اہم تو انسان ہوتا ہے۔ اللہ نے بھی پہلے ہمیں انسان ہی بنایا تھا۔ مٹی سے گوندھ کر۔۔۔۔اس نے تو ایسا انسان بنایا تھا جو اس کی مانے۔
انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
دیکھو بیٹا! اس نے تو نہیں کہا نا ایک دوسرے سے نفرت کرو۔ وہ تو سراپا محبت ہے۔ ہم نے اس کی محبت کی تفہیم کو ہی بدل دیا ہے۔ ہم اس کو مانتے تو ہیں مگر اس کی ماننے کو تیار نہیں۔
مگر ماں یہاں تو ہر کوئی فرقے کی دوکان کھولے بیٹھا ہے۔ جنت کا سرٹیفیکیٹ بھی ہاتھوں میں لے کر لوگ بیٹھے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ مخالف فرقے سے رشتے بھی نہیں کئے جاتے۔ ان کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔
 اس نے دل میں شدید درد محسوس کرتے ہوئے کہا۔
بیٹا جب دین پر عمل کی بجائے انسانوں نے ایک دوسرے کی باتوں پر عمل کرنا شروع کیا تو ایسا تو ہونا تھا۔ روز کوئی فرقہ نکلتا رہا اور فرقوں سے انسان بھی اسی تیزی سے باہر نکلتے رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ فرقے تو تھے مگر انسان کہیں نہیں تھے۔ صرف ہر طرف فرقہ پرست افراد کا ٹولہ تھا۔
شاید ماں سچ کہتی تھیں۔ ایک ویل چئیر پر بیٹھی بوڑھی ماں خدا کو دل سے مانتی تھی۔ وہ انسانوں کو خدا کی سب سے خوب صورت نشانی کہتی تھیں  مگر فرقوں کے لبادے میں ملبوس افراد صرف مخصوص فرقے کا لبادہ اوڑھے افراد کو ہی اپنا قرب عطا کرتے تھے۔
ہوا کیا ہے بیٹا؟
 ماں نے فکر مند ہوتے ہوئے سوال کیا۔
بہت سی بحثیں لاحاصل ہوتی ہیں ماں جی! بہت سی باتیں ان کہی رہ جائیں تو بہتر ہے۔ بہت سے الفاظ جب اظہار کا روپ دھار لیتے ہیں تو اتنی خطرناک شکل اختیار کرلیتےہیں کہ ہمارے وجود کی پوری عمارت ان کے ڈر سے منہدم ہوجاتی ہے۔ میری خاموشی ہی سارے سوالوں کے جواب ہیں۔
اس کی ماں کچھ نہ سمجھی تھیں۔ مبہم لفظوں کی تشریح کہاں ممکن ہوتی ہے۔ وہ بس اس کے چہرے کو پڑھتی تھیں۔ وہ لفظوں کی گہرائی کو چہروں پر بننے والی فکر کی لکیروں میں ڈھونڈ لیتی تھیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں اس کا چہرہ فکر کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
………………………..
افتخار کی ماں نے بچپن سے ہی دکھ کو سکھ سے الجھتے ہی دیکھا تھا۔
 بچپن میں منحوس بیٹی کا خطاب انہیں باپ کی طرف سے ملا تھا جب پیدائش کے کچھ دنوں بعد ان کی ماں کا انتقال ہوا تھا۔باپ نے شروع سے ہی انہیں اپنی محبت اور شفقت سے محروم کردیا تھا۔ بڑے بھائی چھوٹے ظرف کے مالک تھے۔ وہ گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی پیدائش کے چھ سال بعد ہی دو بھائیوں کی شادی ہوگئی مگر دونوں بڑے بھائیوں نے چھوٹی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہر خوشی سے دور رکھا۔
باپ نے شروع سے ہی رخ پھیر لیا تھا۔ انہوں نے محبتوں کی زنبیل کا رخ دوسری بیوی کی جانب موڑ لیا تھا۔ وہ اس زنبیل سے صرف حقارت اور نفرت ہی پاتی تھی۔ایک گھر میں سوتیلی ماں اور بھائیوں کے در پر عزت کا ٹوکرا لے کر روز فقیروں کی طرح روٹی کے لیے سوال کرتیں تب بھی وہ سینکڑوں بار مر جاتی تھیں۔  بھابیوں کے طعنوں سے ان کے چہرے پر روز صبح کو فکر کی پہلی کرن پڑتی۔ گھر کی نوکر کوگھر کے سب سے نچلے حصے میں جہاں کپڑے رکھےجاتے تھے ،رکھا جاتا تھا۔ پرانے میلے کپڑوں کے ساتھ ایک انسان بھی وہیں پلا بڑھا تھا۔ اسی کمرے میں پرانی کتابوں کو کھوجتے کھوجتے وہ کافی الفاظ سیکھ گئی تھیں۔ قریبی سکول کی ایک استانی نے اتنا رحم کیا تھا کہ اسے اردو پڑھنے لکھنے کے قابل بنا دیا تھا۔  چھوٹے سے کمرے میں کپڑوں کے ساتھ بڑی ہوتی لڑکی جب بھابیوں سے برداشت نہ ہوئی تو ایک عمر رسیدہ شخص کے کھونٹے سے چند روپوں کے عوض باندھ دی گئی۔ عمر رسیدہ شاید خدا ترس تھا۔ اس نے انہیں پورے دل سے اپنایا۔ بھائیوں اور باپ کے خوف کی شکار لڑکی کو  پہلی دفعہ کسی مرد سے خوف محسوس نہ ہوا تبھی کچھ عرصے بعد افتخار پیدا ہوا۔ کچھ سالوں بعد اونچے رستوں پر چلتی گاڑی نے انہیں کچلا تو زندگی پھر جیسے بے رحم ہوگئی۔ ویل چئیر پر شوہر کی خدمت کرتیں معذور ماں نے اس سے امید کی تمام کرنیں باندھ لیں۔ اب وہی ان کی آرزو کا واحد ستارہ تھا۔ وہی ان کی تمناوں کا چاند تھا۔
وہ روز اسے دیکھ کر جیا کرتی تھیں۔ اگرچہ اس کے والد بھی ابھی حیات تھے مگر وہ حد سے زیادہ لاغر ہو چکے تھے۔ ماں نے ان کی خدمت میں کسی طرح کی کمی نہیں رکھی تھی۔ ان کے شوہر نے اچھے وقتوں میں ایک گھر اسلام آباد میں سستے داموں لے لیا تھا جب کہ کچھ عرصہ پہلے اس زمیں کو بیچ کر انہوں نے کروڑوں روپے کمائے۔ان کے اونچے گھر پر دولت کے سائے لہرائے تو بھابیاں اور بھائی بھی گدھوں کی صورت منڈلانے لگے۔ "پیاری بہن اور خو بصورت نند" جیسے جملوں سے اس کی تواضع ہونے لگی۔اپنے علاقے میں انہوں نے ایک بہت بڑا گھر خرید لیا۔ اسی گھر کے ایک کونے میں ایک بڑے بھائی نے گویا قبضہ کر لیا۔ اونچے گھر میں چھوٹے ذہن آوارہ پرندوں کی طرح رہنے لگے۔ ان کی نظر ماں کی جائیداد پر تھی جو کہ انہیں کسی صورت نہیں مل سکتی تھی کیوں کہ جائیداد افتخار کے نام پر تھی۔ افتخار کے جوان ہونے پر بھابھی اور بھائی بھی کسی حد تک سدھر گئے تھے لہذا اب اکثر منافقت سے زیادہ مروت میں بہن کا خیال رکھ جاتے۔
وقت شاید منافق کو بھی بدل دیتا ہے۔ وقت ہی سب سے بڑا استاد ہے۔ اس کے سبق سب  سے زیادہ آزمودہ ہوتے ہیں۔پل پل بدلتے رشتوں اور ریوں کی اونچ نیچ کو اس گھر سے زیادہ کہاں محسوس کیا جاسکتا تھا جہاں نفرتوں نے یکدم محبت کی سیڑھی پر سفر شروع کردیا تھا۔

………………………..
 اس کا کمرہ میوزک کی آواز سے کسی تھیٹر ہال کا منظر پیش کررہا تھا۔ سامنے موجود بڑے سے شیشے کی کھڑکی سے اڑتے پرندے کبھی جھانک کر عجیب سے شور میں بستر پر اچھلتے انسان کو دیکھ رہے تھے۔ کمرہ بے ہنگم میوزک کے شور سے تھرتھرا رہا تھا۔ دس منٹ پہلے یہ ایک خوب صورت کمرہ تھا جس کا نقشہ ارسلان نےکافی حد تک بگاڑ دیا تھا۔ انگلش میوزک کی اٹھان پر اس کے اٹھتے قدم اور بیڈ سے دینگا مشتی کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ تکیے سمیت چادر اور اس کے کپڑے پورے کمرے میں پھیل گئے تھے۔ دفعتا اسے محسوس ہوا کہ دروازے پر جیسے دستک ہورہی ہے۔ ریموٹ سے ہوم تھیٹر کو بند کرکے غور سے دوبارہ آواز سننے کی کوشش کی۔ دروازے پر واقعی دستک ہورہی تھی۔
وہ اٹھا۔ دل میں دعا کی کہ ماں نہ ہوں اگرچہ ان کے ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کیوں کہ بیس منٹ پہلے وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کےلیے گئی تھیں اور وہاں سےدیر سے ہی واپس لوٹنا تھا۔
آہستگی سے دروازہ کھولا۔ سامنے نیہا ہاتھوں میں چائے پکڑی جانے کب سے کھڑی تھی۔ چائے پر جمی چائے کی ملائی کی تہہ بتا رہی تھی کہ وہ کافی دیر سے دروازہ کھٹکھٹاتی رہی ہے۔
جی چائے دینی تھی۔
 اس نے معصومیت سے کہا۔
تو دی کیوں نہیں۔
 ارسلان نے شرارتی انداز میں جواب دیا۔
آپ نے میوزک کافی تیز آواز میں لگایا ہوا تھا۔ اس لیے شاید آپ کو دستک کی آواز سنائی نہیں دی۔ دوبارہ اسی معصومیت سے جواب دیا گیا۔
جی، ٹیبل پر رکھ دیں۔
ارسلان نے دیکھا کہ وہ کمرےمیں داخل ہوتے ہی بکھری چیزوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
یہ میرے کپڑے ہیں۔
 ارسلان نے ایک کپڑا زمین سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
لیکن یہ زمین پر کیوں پڑے ہیں۔
 انتہائی سادہ جواب دیا گیا۔
کیوں کہ میں جوش میں کپڑے زمین پر پھینک دیتا ہوں۔
 دوبارہ شریر لہجے میں کہا گیا۔
جی، یہ تو غلط بات ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ اچھی لگتی ہے۔ کوئی جوش میں آپ کو کھڑکی سے نیچے پھینک دے تو۔۔۔
 ارسلان کو قطعا توقع نہیں تھی کہ نیہا ایسا بھی کچھ کہہ سکتی ہے۔ وہ ہونقوں کی طرح اس کا منہ دیکھنے لگا۔
چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے۔
 ارسلان نے سپ لیتے ہوئے جان بوجھ کر کہا۔ اسے امید تھی کہ نیہا برا مان جائے گی۔
لائیے پھر سے گرم کر کے لاتی ہوں۔
 ارسلان نے نہ چاہتے ہوئے بھی مگ اسے پکڑا دیا۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ اس لڑکی کو جان بوجھ کر چھیڑے۔
تھوڑی دیر بعد دوبارہ دروازے پر دستک ہوئی۔
جی آجائیے۔ میں ہی ہوں اور ادھر بھی آپ ہی ہوں گی۔ اس گھر میں اور تیسرا کون ہے۔
دستک دینا اچھی بات ہے ارسلان صاحب! بعض اوقات کھلے دروازے موت کی طرف بھی لے کر جاتے ہیں۔
 اس نے کس ترنم میں بات کی تھی مگر ارسلان اس کی بات کا مفہوم بالکل نہیں سمجھ سکا تھا۔
نیہا احمد آب اس بات کی تشریح کرسکتی ہیں۔
غور سے اس کی طرف دیکھتے اس نے سوال کیا۔
آپ کو برا نہ لگے تو کمرہ سیٹ کردوں؟
 گفتگو کو بالکل الگ رخ دے دیا گیا۔
تین چیزیں بکھری ہیں۔ وہ میں خود سمیٹ لوں گا۔ ارسلان کو پسند نہیں تھا کہ وہ کسی کا احسان لے۔
پہلے تین چیزیں بکھرتی ہیں پھر پورا گھر اور پھر انسان بکھر جاتا ہے۔ لہذا تین چیزوں کو وقت پر سمیٹ لیا جائے تو بہت سی چیزوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
نیہا نے شدید معصومیت سے کہا تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔
عجیب سی دکھی لڑکی تھی۔ گفتگو میں خود کو بیان کردیتی تھی مگر ہمیشہ اسے نے نیہا کو خود سے الجھتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔ اگرچہ ماں نے اس کی پوری داستان سنا دی تھی اور اسے خصوصی نصیحت کی تھی کہ وہ اسے زیادہ تنگ نہ کرے مگر اب ارسلان کا دل کر رہا تھا کہ اس لڑکی کے اندر موجود اصلی لڑکی کو باہر لائے۔
تین بٹا تین دڑامہ چلتا تھا وہ دیکھتی تھیں آپ؟
اس کے سوال پر صرف سر کو نفی میں ہلایا گیا۔
بس ایسے ہی تین چیزوں سے مجھے یاد آیا۔ ویسے یہ تین چیزیں کون سی ہیں۔ جس کو بکھرنے سے بچایا جائے تو پورا گھر بچ جاتا ہے۔
اس نے پھر سےنیہا کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
جی فی الحال تو آپ کی شرٹ، آپ کا  تکیہ اور چادر ۔۔۔۔۔
اس کے جواب پر ارسلان نے زور سے قہقہہ لگایا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اسے اس قسم کا جواب سننے کو ملے گا۔
یعنی کسی بھی گھر کو بچانا ہے تو ارسلان کی شرٹ ، تکئے اور چادر کو سمیٹنا ہوگا۔
 اس نے قہہقہ لگاتے ہوئے کہا تو وہ بری طرح گھبرا گئی۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔
اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔ ارسلان اب اس کی گھبراہٹ سے بھی محظوظ ہورہا تھا۔
پھر کیا مطلب تھا آپ کا ۔
پھر سے اسے چھیڑا گیا۔
کچھ نہیں۔۔ آپ چائے پی لیں۔ پھر ٹھنڈی ہوجائے گی۔
ارسلان نے نیہا کو انگلیاں بھینجتے دیکھا۔
کہیں چوتھی  شے ارسلان کی چائے تو نہیں نا۔۔ وقت پر پی لیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر سے گھر بکھر جائے۔
 ارسلان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے چائے کا مگ پکڑا ۔ دل ہی دل میں وہ قہہقہ لگا رہا تھا جب کہ اس کا چہرہ بری طرح سے مرجھایا ہوا تھا۔
میں جاوں؟
 گھبراہٹ بھرے لہجے میں نیہا نے سوال کیا۔
اوہ، کمرہ نہیں سمیٹیں گی آپ۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ نیہا کا بس نہیں چل رہا ورنہ شاید قریب موجود شیشے کا جگ اس کے سر پر دے مارتی۔
نہیں۔۔۔
 مختصر سا جواب آیا۔
اب کیا ہوا؟
کچھ نہیں۔ آپ بس مزاق کرتے رہتے ہیں۔ سیریس نہیں ہوتے۔ارسلان نے اسے دیکھا ۔ آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ تبھی وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی واپس چلی گئی۔
عجیب سی لڑکی ہے۔ اعتماد زیرو فی صد ہے۔ جس قسم کے حالات کا سامنا کیا ہے ہہ بھی غنیمت ہے کہ جی رہی ہے۔ نیہا احمد ارسلان کے ہوتے ہوئے کوئی بے ہمت رہ جائے ممکن نہیں ۔ یہ ارسلان کی توہین ہے۔ دیکھ لینا میں تمھیں ایک پراعتماد لڑکی بنادوں گا۔ اس نے خود سے کہا اور چائے کے مگ پر جھک گیا۔
………………………..
کشمیر کی کھلی فضا میں سانسیں بھی کتنی فرحت افزا محسوس ہوتی ہیں۔ ہر سانس دوسری سانس سے زیادہ تازہ اور کھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔وہ گھر سے دور ایک اونچے ٹیلے پر کھڑا تھا۔ سرسبز ٹیلا، جو گھاس سے ڈھکا ہوا تھا۔ قریب ہی چنار کے درخت اور ساتھ ہی بہتا پانی منظر کو جاذب نظر بنا رہا تھا۔  وہ اکثر یہاں آتا تھا۔ محبت ہونے سے پہلے بھی اسے اس جگہ سے حد سے زیادہ محبت تھی اور محبت کےبعد اس جگہ نے اسے اپنے سحر میں مکمل جکڑ لیا تھا۔
تھرماس میں سے چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے وہ ان لمحوں کو سوچ رہا تھا جب وہ نیا نیا یونیورسٹی آیا تھا۔ جانے زرمینہ کویاد کرنے آیا تھا یا خود کو زرمینہ میں ڈھونڈنے مگر کچھ بھی تھا وہ اس وقت یونیورسٹی میں خود کو زرمینہ کے روبرو محسوس کررہا تھا۔
ان سے ملو زرمینہ ، یہ ہیں افتخار صاحب ، کشمیر سے آئے ہیں۔
کیسےہیں آپ کشمیری صاحب۔۔۔
یہی انداز تو اسےبھایا تھا اس کا۔۔۔
چائے پیتے ہوئے وہ مزید اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
سنا ہے کشمیری خوب صورت ہوتے ہیں۔ آپ کی دفعہ حسن کیا ختم ہوگیا تھا۔
وہ مسکرایا۔ ہر بار اسے یہ جملہ لازمی یاد آتا تھا۔
کشمیری خوب  صورت ہوتے ہیں۔ دوبارہ آواز کانوں میں گونجی۔
ارسلان ، تمھارا دوست  کچھ زیادہ خاموش نہیں رہتا۔ لگتاہے کشمیر کے ک سےلاہور کے ل تک پہنچے میں اسے پورے چار سال لگ جائیں گے۔
زرمینہ کشمیر کے ک سے لاہور کے ل تک ایک گ بھی پڑتا ہے۔ سنا ہے اسے اسے گدھا کہتے ہیں۔
اوہ تو جناب اچھی تنقید بھی کرلیتے ہیں۔
ھاھاھا، ٹیلے پر چلنے والی ہواوں نے پھر سے اسے اپنے سحر میں لےلیا۔
جانے کتنی باتیں تھیں۔ کتنی یادیں تھیں جو ختم ہی نہیں ہوتی تھیں۔ چائے کے ہر سپ میں ایک یاد چھپی تھی۔
تمھیں پتہ ہے افتخار! سردیوں میں مجھے زکام جلدی ہوجاتا ہے۔
اوہ زکام سے سرخ آنکھیں دیکھنے کا مجھے کتنا شوق ہے۔ بڑا شوق ہے تمھاری سرخ ناک دیکھوں کیوں کہ آج کل کی لڑکیوں کے سرخ گال تو دیکھنے سے بھی نہیں ملتے۔
افتخار تم پورے پاگل ہو۔
ہاہاہاہا۔
افتخار تم پورے پاگل ہو۔ کتنی دیر آوازیں اس کے ذہن میں گونجتی رہیں۔ چائے کی پیالی ختم ہوچکی تھی۔ اس نے دوبارہ کپ کو سرے سے چائے سے بھرا۔
یار ارسلان! یہ تمھارا دوست چائے کیوں نہیں پیتا۔ کہیں منے کو دودھ کی عادت تو نہیں نا۔
ھاھاھا، زرمینہ یہ کہتا ہے چائے پیوں گا تو کالا ہو جاوں گا۔
اس سے زیادہ یہ کیا کالا ہوگا۔
اس نے غور سے چائے کی پیالی کو دیکھا۔ اس کا گندمی جسم پچھلے تین سال میں کتنا نکھر گیا تھا۔
آنکھیں بند کئے چائے کے سپ کو یادوں کے حلق میں انڈیلتے ہوئے سوچنے لگا کہ محبت کتنی ظالم  ہوتی ہے۔ کسی بیماری کی طرح ذہن سے چپک ہی جاتی ہے۔
زرمینہ ان چار سالوں میں یہ کشمیری چائے کی پیالیوں میں تمھیں ڈھونڈتا ہے۔ اسے چائے سے الجھن ہوتی تھی مگر اب چائے نہ ملے تو یہ الجھ جاتا ہے۔
 یادوں کے مکیں نے تیسری پیالی چائے کی تیار کی۔
افتخار! بے شک تم پڑھاکو ہو۔ لیکن یاد رکھنا لاہور کے ل کو کبھی لو نہ سمجھنا۔ ورنہ ر تک پہنچتے جسم سے بھی رہا ہوجاو گے۔
میں محبت پروف ہوں۔ ھاھاھا، محبت پروف۔۔۔۔
ارسلان اسے بتاو۔ واٹر پروف موبائل بھی پانی میں کچھ عرصہ رہے تو پانی کے اثر میں خود کو ڈھال لیتا ہے۔ یہ جو پروف کا نعرہ لگا کر آتےہیں یہ سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ سنو کشمیری لڑکے، سھنبل کر چلنا۔
سھنبل کر ۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔ اتنا سھنبلا کہ محبت کی دلدل میں بری طرح گر گیا۔وہ چلایا۔
زرمینہ ، محبت میرے رگ وپے میں اتر گئی ہے۔ ماں کہتی تھی افتخار تو میرا فخرتھا۔ ماں کو کوئی کہہ دے تمھارا فخر محبت کے فقر میں مارا گیا ہے۔
محبت انسان کو اپنی ذات سے بھی دور کردیتی ہے۔ دوسرے شخص کے قالب میں ڈھال دیتی ہے۔ اسی کا خیال ہمہ وقت ذہن میں سوار رہتا ہے۔ شعور سے لاشعور دونوں ہی محبت کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ خواب بھی اسی کا عکس بن کر رات کو روز تکئے کے سرہانے اسی کی یادوں کی پتنگ اڑاتا رہتا ہے۔ وہ محبت سے ڈرتا تھا۔ وہ ارسلان کو محبت سے باز رہنے کو کہتا تھا۔ وہ خود محبت کی راہ میں زندگی سے بے پرواہ ہوگیا۔
تم دوستوں کے لیے دودھ چھوڑ سکتے ہو  تو کسی کو بھی چھوڑ سکتے ہو۔
ھاھاھا۔
ارسلان اسے کہو چائے سے کم دوستی کرے ورنہ چائے اتنی پکی دوست بن جاتی ہے کہ انسان کا تعلق اس کے وجود سے بھی ختم کرکے تنہائی سے جوڑ دیتی ہے۔ یہ لڑکا جتنی جلدی بدل رہا ہے مجھے ڈر لگتا ہے کسی دن یہ ایک دم ہم سب کو حیران نہ کردے۔
اس دن چائے پر چائے پیتے دیکھ کر زرمینہ نے کچھ ایسے الفاظ کہے تھے اور وہ بس اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
زرمینہ، میری دوستی چائے سے ہوگئی ۔اس نے خود سےکہا۔ ہوائیں اسی رفتار سے چل رہی تھیں۔
اب میں تمھارے محبت میں ہجر کی چائے پیوں گا اور تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ  اتنی پیوں گا کہ تم کہو گی کہ افتخار تم نے مجھے حیران کردیا۔
اس نے خود سے کہا اور پھر سے یادوں کے رستے کا ہمسفر ہوگیا۔
………………………..
عجیب سا لڑکا ہے۔ کسی بھی وقت رلا دیتا ہے۔ کوئی بھی بات کہہ کر ہنسا دیتا ہے۔ دکھ دیتا ہے تو خیال بھی نہیں رہتا کہ کسی کے دکھی دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ عجیب سا لڑکا ہے کوئی  بات کرتا ہے تو خیال بھی نہیں کرتا کہ کسی کے دل پر اس کے لفظوں کا کیا اثر ہوگا۔ سوچے بنا ہی بات کرجاتا ہے۔ بہت ہی عجیب قسم کا لڑکا ہے کسی کے آنسو بھی دیکھ نہیں پاتا۔ کسی کی بھیگتی آنکھیں اسے بالکل متاثر نہیں کرپاتیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر احساس سے عاری ہو۔
وہ ہمیشہ کی طرح شیشے میں اپنے عکس سے ارسلان کی شکایت کررہی تھی۔
آنٹی کہتی تھیں اسے دل رکھنا آتا ہے۔ اسے  دل تو دور کی بات مروت کا بھی نہیں پتہ۔ کل کتنا تنگ کیا اس نے مجھے۔۔۔۔ اگر میں مجبور نہ ہوتی تو چند لمحوں میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی۔
مجبوری میں انسان کو کتنا کچھ سہنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی باتیں بھی جنہیں وہ جانتا ہی نہیں۔
اس نے آنسو صاف کئے اور بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکلی۔
بیٹا سب ٹھیک ہے نا! آنٹی کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
جی آنٹی جی! تین لوگوں کے گھر میں کیا خراب ہوسکتا ہے۔
 اس نے شگفتگی سے جواب دیا مگر لہجے نے دل کا ساتھ نہ دیا۔
تین لوگوں کے گھر میں کچھ بھی خراب ہوسکتا ہے ، کسی کے ساتھ تعلقات بھی۔
 انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔
دل چاہا کہ ارسلان کا سر پھوڑ دے جس کی وجہ سے آنٹی جانے کس قسم کے شک کررہی تھیں۔
 وہ سامنے ہوتا اور بولنے کی ہمت ہوتی تو صاف کہتی ۔
ارسلان تم مرجاو۔ تمھاری وجہ سے میں مررہی ہوں۔
سب ٹھیک ہے نا، اسے خاموش دیکھ کر آنٹی نے پھر سے سوال کیا۔
جی ، بے فکر رہئے۔
 خراب تعلقات۔۔۔
وہ اندر ہی اندر بڑبڑائی۔ خراب تعلقات کے لیے پہلے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارسلان اس کا کیا لگتا ہے جس سے اس کے تعلقات خراب یا صحیح ہوں۔ اس نے دل میں سوچا اسے آنٹی کی بات قطعی اچھی نہیں لگی تھی۔
بیٹا! تمھارے انکل کہہ رہے تھے آج ان کا چکن منچورین کھانے کا دل کررہا ہے۔ بنا سکتی ہو نا!
جی! سوالیہ جی کے ساتھ اس نے ان کےچہرے کی طرف دیکھا۔
شاباش بنا دینا پھر۔۔۔ارسلان کو بھی پسند ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی وہ ان سنا کرکے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
اوہ خدایا۔ میں نے کبھی بریانی ڈھنگ سے نہیں بنائی یہ چکن منچورین۔۔۔۔۔۔
وہ سخت گھبرا گئی تھی۔ کتنی دیر وہ آگے پیچھے ٹہلتی رہی۔ اضطراب سے انگلیاں آپس میں پھنس گئی تھیں۔
آنٹی آپ کو اللہ پوچھے۔ کس امتحان میں مبتلا کردیا۔
 اس نے غصے سے کہا تبھی ارسلان کو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دیکھا۔
اوہ میڈم ! آج سیڑھیوں پر چائے دینے کا انتظار تو نہیں کر رہی تھیں نا!
وہ اپنے اپ میں الجھی ہوئی تھی۔ وہ پریشان ہوتی تھی تو خود سے شدید الجھ جاتی تھی۔
میں آپ سے پوچھ رہا ہوں مس نیہا! ارسلان کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
جی نہیں! کچھ نہیں۔۔۔
چائے پینی ہے کیا آپ کو؟
جی کتنی چائے پلائیں گی۔ تین دفعہ تو صبح سے پلا چکی ہیں۔ خیر سے ڈیری فارم تو نہیں کھول لیا آپ نے جو اتنا وافر دودھ آرہا ہے کہیں سے۔
 ارسلان نے اسے جان بوجھ کر چھیڑتے ہوئے کہا۔
آپ کے گھر میں ملک پیک کی چائے بنتی ہے۔ دیسی دودھ کی نہیں۔
 اس کے مختصر جواب نے پھر سے اسے لاجواب کردیا۔
پریشان کیوں ہیں۔ کچھ کھوگیا ہے کیا؟
ارسلان کے استفسار پر ایک بار اس کا دل کیا کہ اسے بتادے پھر دل میں سوچنے لگی جانے وہ کیا سوچتا ہوگا۔
بس ایک مشکل آن پڑی ہے۔
بالاخر وہ بول پڑی۔
ارسلان اور مشکل ۔۔۔فورا سے پہلے بتائیے یا میں ہوں گا یا مشکل۔۔۔۔
جی ۔۔
وہ جھجھکتے ہوئے کہنے لگی۔
ارے محترمہ بلاخوف بولئے۔
ارسلان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
آنٹی نے کہا ہے چکن منچورین بنادوں انکل کو پسندہے اور مجھے۔۔۔
ارسلان نے اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی قہقہہ لگایا۔ اس لمحے وہ اسے شدید زہر لگا۔
عجیب انسان ہے۔ کسی بھی وقت قہقہہ لگا دیتا ہے۔ موقع نہیں دیکھتا ۔
 اس نے غصے سے ارسلان کی طرف دیکھا۔
تو یہ مسئلہ تھا ؟
جی ۔۔
اس نے غصے سے نظریں جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
اب آپ کیا کریں گی۔ منچورین بنانے کے لیے کسی چائینیز کو بلائیں گی کیا؟
ارسلان نے تنگ کرتے ہوئے کہا۔
 مجھے لگتا ہے جیسے آپ سے کہہ کر میں نے ہی غلطی کی۔
 اس نے شدید غصے سے جواب دیا اور کچن کی طرف جانے لگی۔
سنئے!
اس کی آواز سن کر  وہ رک گئی۔ کاش یہ پھر سے کچھ الٹا سیدھا نہ کہہ دے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
جی فرمائیے۔
۔آپ کو انٹرنیٹ استعمال کرنا آتا ہے نا۔
جی آتا ہے۔
مختصر جواب دیا گیا۔
پھر آپ یوٹیوب پر طریقہ دیکھ لیں۔ میرے کمرے میں لیپ ٹاپ موجود ہے۔
 ارسلان نے ہنستے ہوئے کہا تو اس نے دل میں خدا کا لاکھ شکر ادا کیا۔
بہت شکریہ آپ کا۔۔۔
اس نےتشکرانہ نظروں سے اسے دیکھا۔
کوئی بات نہیں اور ہاں ! کمرے میں تین چیزیں نہیں ہیں ۔ ارسلان کے سوال نے اسے حیرت میں مبتلا کردیا۔
کون سی تین چیزیں۔
وہی جسے سھنبال کر گھر کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے نا۔ ارسلان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو وہ زچ ہوکر اسے دیکھنے لگی۔
وہ جاچکا تھا۔ عجیب شخص ہے۔ مشکلیں حل کرتا ہے مگر طعنے لازمی دیتا ہے۔ اس نے سوچا اور ارسلان کے کمرے کی جانب بڑھنے لگی۔
………………………..
صبح سویرے کی بارش نے ماحول کو خاصا خوش گوار بنا دیا تھا۔ موسم قدرے صاف ہوچکا تھا۔ بادلوں نے اب بھی آسمان کو گھیر رکھا تھا۔ سورج کی روشنی بادلوں سے لڑ کر زمین پر مبہم سوال کی طرح پھیل رہی تھی۔
کشمیر کی خوب صورت  وادی میں کھلتے پھولوں کے ساتھ وہ بھی جوان ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں جیسے غزال کی آنکھیں تھیں، چہرہ  جیسے کشمیری سیب جیسا سرخ وسپید، ستواں ناک  اور ہونٹ جیسے سرخ غازے میں سے ابھرتے ہوئے کسی شاعر کا حسین تخیل ۔ لمبی صراحی دار گردن میں سے جھومتی مالا کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے سب سے خوب صورت مور کو قیمتی ہیرے کا ہار پہنا دیا ہو۔
جب وہ بولتی تو جیسے لڑکوں کی کائنات ٹھہر جاتی۔ محبت کی بارش میں ہر دم نہائی ہوئی ، خوبصورتی کی شال اوڑھے، ذہانت و فطانت کی تعلیم لیے، ستھرے اخلاق کا دسترخوان ہر سو سجائے وہ جیسے کسی دیو مالا کہانیوں کی شہزادیوں کی طرح تھی۔
اس کے پورے وجود سے محبت نمایاں تھی۔ وہ ہنستی تو موسم میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ۔ وہ چلتی تو راستے رک جاتے۔ وہ باتیں کرتی تو خاموشی اسے غور سے سنتی۔ وہ چپ رہتی تو صدائیں اس کےلیے چیختیں۔ وہ مہکے ہوئے پھول کی ڈالی جیسی تھی۔ ہر وقت مہکنے والی، ہر سو چہکنے والی، کبھی ایسا لگتا جیسے پھولوں کی خوشبو میں ڈھل رہی ہو۔ کبھی ایسا لگتا جیسے ستاروں کے ہمراہ عشق کے آسمان پر مچل رہی ہو۔ کبھی وہ مہکا ہوا پھول لگتی۔ کبھی عشق کا پابند اصول لگتی۔ کبھی اس کے سامنے اپنی ذات بھی دھول لگتی۔
وہ جو بھی تھی انہی وادیوں کو ہر دم معطر کرنے والی لڑکی تھی۔ ہر دم انہی وادیوں میں اندھیرے میں چمکتے بلب کی طرح چمکتی تھی۔
جیسے وہ اس وادی کی جان تھی۔ جیسے یہیں کی آن تھی۔ یہاں کی پہچان تھی۔ ٹھنڈے چشموں جیسی شفاف دل والی لڑکی، جو پرندوں کے ہمراہ باغ زندگی میں ٹہلتی رہتی۔ جو مینا و کوئل کے ہمراہ زندگی کے نغمے گاتی۔۔ ہر سو حیات کے سر بکھیرتی لڑکی۔ ہر سو محبت تقسیم کرتی لڑکی۔
وادی میں مہکے پھول کی طرح مہک رہی تھی۔

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.