٭٭٭چار دویوں کا قصہ ٭٭٭char Dawiyon ka qisa***



٭٭٭چار دویوں کا قصہ ٭٭٭
تحریر:غضنفر کاظمی
قسط نمبر :3

جب ہم بیٹھے بیٹھے تھک گئے، تو میں نے اٹھتے ہوئے گل خان سے کہا کہ میرے خیال میں وہ ہمیں ابھی تک بے ہوش ہی سمجھ رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہوشی کی جو دوا ہمیں دی گئی تھی وہ زیادہ طاقت کی ہو لیکن چونکہ مشقت کی وجہ سے ہمارے بدن سخت ہوچکے ہیں اس لئے ہم جلد ہوش میں آگئے، پھر اس سے قبل کہ گل خان مجھے کوئی جواب دیتا ہم دونوں اپنی جگہ اچھل گئے، اچانک باہر سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں، فائرنگ اچانک شروع ہوئی تھی اور ایسا محسوس ہورہا تھا گویا دو گروہ آپس میں ٹکرا گئے ہوں، ابھی تک ہم اسی لئے خاموش بیٹھے کسی کی آمد کا انتظار کررہے تھے کہ اگر دروازہ توڑنے کی کوشش کی تو شور کی آواز دشمنوں کو ہماری اس کوشش کی خبر دے دے گی لیکن فائرنگ کے شور نے ہمارا کام آسان بنادیا اور ہم دونوں نے مل کر دروازے کو اپنی کِکوں کا ہدف بنالیا اور تقریباً پانچ سات کِکوں میں دروازہ کھل گیا۔ دروازہ کھلتے ہی ہم دونوں ایک دم زمین پر گر گئے اور رینگتے ہوئے کمرے سے باہر نکلے، باہر تاریکی چھائی ہوئی تھی، ہم کمرے سے نکل کر کچھ دیر اپنی جگہ لیٹے ماحول کا جائزہ لیتے رہے پھر ہم نے کلاشنکوفوں اور رائفلوں کی نالوں سے نکلتے ہوئے گولیوں کے شعلے دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ ہمارے سامنے کس کس سمت میں لوگ بیٹھے کسی کی طرف گولیاں برسارہے ہیں۔ میں نے گل خان کے کان کے قریب منہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان مسلح افراد میں سے کسی کو قابو میں کرکے باقی لوگوں کو گولیاں ماردینی چاہئیں، میری بات سن کر گل خان نے پوچھا ، ” لیکن ہمیں کیا معلوم کہ ان میں ہمارا دوست کون ہے اوردشمن کون اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان کی آپس کی دشمنی کا معاملہ ہو ہم سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو“
یہ سن کر میں نے کہا کہ جو لوگ ہمارے سامنے سے گولیاں برسارہے ہیں ان کا تعلق تو اسی عمارت سے ہے اور یہ تو پکے ہمارے دشمن ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ان کا مخالف کون ہے تو وہ کوئی بھی ہو ہمارا تو دوست ہی ہوگا نہ یعنی ہم تو اس کے دشمن کے دشمن ہیں۔ میری بات گل خان کی سمجھ میں آگئی۔ پھر ہم زمین پر رینگتے ہوئے اس جانب بڑھنے لگے جہاں سے ہمیں گولیوں کی چمک نظر آرہی تھی اس کے قریب پہنچتے ہی میں اپنی جگہ سے اچھلی اور اس شخص کی پشت پر جا پڑی جو ایک ستون کے پیچھے الٹا لیٹا مخالف سمت میں گولیاں برسا رہا تھا، میں نے اس کی پشت پر جاتے ہی کھڑی ہتھیلی کا ایک وار اس کی گردن پر کیا اور اس کی گردن ایک جانب ڈھلک گئی، پھر میں نے فورا ہی اس کی کلاشنکوف اور پاس پڑے فالتو راونڈ ہاتھ میں لئے اور مڑ کر گل پندرہ خان کی جانب دیکھا اس وقت تک وہ بھی ایک شخص کو ٹھکانے لگا کر اس کی کلاشنکوف پر قبضہ جما چکا تھا، پھر میں نے ستون کی آڑ میں ہوکر اپنے ارد گرد گولیاں برسانے والوں پر فائرنگ شروع کردی وہ چونکہ اس سمت سے خود کو محفوظ سمجھے ہوئے تھے لہذا ادھر سے لا پرواہ تھے ہم نے چند ہی منٹ میں سب کوختم کردیا۔ جب ادھر سے فائرنگ کا سلسلہ تھما تودوسری جانب سے بھی گولیوں کی بوچھار رک گئی اور تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی کی آواز آئی ساتھ ہی لاوڈسپیکر پر ایک آواز ابھری ” فرشتہ اگر تم میری آواز سن رہی ہو تو آجاو میں امام ہوں“ .... اس آواز کو سنتے ہی میں اپنی جگہ کھڑی ہوگئی اور مڑ کر گل خان کو بھی اشارہ کیا وہ میرے اشارے پر کھڑا ہوگیا اور پھر مجھے آگے بڑھنے کو کہا میں نے آگے بڑھنے سے پہلے بلند آواز سے کہا ،” امام .... میں آرہی ہوں“ .... اور پھر آگے قدم بڑھائے۔ میری آواز پر وہ گاڑی بھی تھوڑی سی آگے بڑھ کر میرے قریب آکر رک گئی اور پچلی نشست کا دروازہ کھلا میں اندر داخل ہوگئی اور کہا کہ گل خان ابھی باہر ہی ہے، میری بات سن کر گاڑی میں سے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کسی شخص نے ایک بار پھر سپیکر پر اعلان کیا کہ ” گل خان تم پچھلے ٹرک میں بیٹھ جاو“....اس کے ساتھ ہی ڈرائیور نے ہماری گاڑی گھما کر واپسی کے راستے پر ڈال دی اور پھر چند منٹ بعد ایک جگہ گاڑی رکی جہاں کئی ٹرک کھڑے ہوئے تھے، ہماری گاڑی ان ٹرکوں کے عقب میں روکی گئی تھی، پھر گاڑی کے اندر کی لائٹ روشن ہوئی تو میں نے دیکھا کہ میرے برابر میجر زبیر بیٹھے تھے، ان کو دیکھ کر میں نے حیرت سے کہا کہ ” سر آپ ؟ “.... میرے سوال پر وہ مسکراتے ہوئے بولے، ” ہاں میں.... ہم جب کسی کو اپنے مشن پر روانہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی حفاظت کا پورا پورا انتظام کرتے ہیں، میں نے تمہارے عقب میں اپنے کچھ جوان خفیہ طور پر روانہ کئے تھے، دوپہر کو جب تم اور گل خان گاڑی سے اتر کر عمارت کے اندر گئے تو میرے آدمی دور سے تم کو چیک کررہے تھے پھر تھوڑی دیر بعد تم کو اور گل خان کو چند افراد ایسے پکڑ کر لارہے تھے جیسے تم اتنے نشے میں ہو کہ اپنے قدموں پر خود چلنے کے قابل نہیں ، یہ دیکھ کر میرے جوانوں نے فوری طور پر مجھے اطلاع دی لیکن اس وقت وہاں پر مریدوں کا رش اتنا زیادہ تھا کہ کوئی کارروائی ممکن نہیں تھی لہذا میں نے اپنے آدمیوں کو انتظار کرنے اور ایک دو افراد کو مریدوں کے بھیس میں اندر داخل ہوکرسبدھ لینے کا حکم دیا۔ جن سے مجھے وہاں بھاری اسلحے کی موجودگی کی اطلاع ملی، تب میں نے مزید فورس تیار کی اور یہاں آکر رات کے اندھیرے کا انتظار کرنا پڑا کیونکہ بابا سائیں جن کا یہ ڈیرہ ہے یہاں کے بہت معروف پیر صاحب ہیں اور دیہاتی لوگ ان کے لئے جان دینے کو بھی تیار رہتے ہیں، بس پھر جیسے ہی رات کی تاریکی چھائی ہم نے پیش قدمی شروع کی لیکن وہ لوگ پہلے سے تیار تھے انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی گولیاں برسانا شروع کردیں ہمیں بھی اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی لیکن تھوڑی دیر بعد معلوم نہیں ان میں کیا اختلاف پیدا ہوگیا کہ وہ آپس میں ہی لڑنے لگے، اور ہمیں پیش قدمی کا موقع مل گیا۔.... میجر صاحب کی بات سن کر مجھے ہنسی آگئی اور میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اختلاف ان میں نہیں ہوا تھا بلکہ گولیوں کے شور میں ہمیں دروازہ توڑکر باہر آنے کا موقع ہاتھ لگ گیا تھا پھر ہم نے باہر آکر ان پر حملہ شروع کردیا تھا۔ اتنا کہہ کر میں نے میجر صاحب کو پوری بات بتائی کہ ہم کس طرح ان کی قید میں گئے اور کیسے آزادی حاصل کی۔
اس دوران میجر صاحب کے آدمیوں نے جاکر اندر کی تلاشی لینا شروع کردی تھی وہاں سے کافی آدمیوںکو گرفتار بھی کیا گیا لیکن وہ بے چارے بے قصورتھے ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ پیر بابا کے مرید یا معتقد تھے اور ان کی محبت میں وہاں آئے تھے۔ ان ہی کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ پیر بابا کبھی کسی کے سامنے نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ اذان سنتے ہی اپنے ہجرے میں چلے جاتے ان کا کہنا تھا کہ اللہ کی عبادت اور اس سے راز و نیاز کا جو لطف خلوت میں آتا ہے وہ جلوت میں کہاں۔ یہ سن کر میں نے میجر صاحب سے کہا کہ سر وہ تو شائد ہندو ہوگا اس کو نماز آتی ہی نہیں ہوگی بس اس نے یہ بہانہ بنا دیا تاکہ مریدوں پر مزید اثر ہوسکے، میری بات پر میجر صاحب نے اثبات میں سر ہلادیا.... اسی دوران ہمیں ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ میجر صاحب کا اسسٹنٹ ان کو بلارہا ہے وہاں ایک سرنگ نظر آرہی ہے میجر صاحب اس سرنگ کا خود معائنہ کرلیں تو بہتر ہے، یہ سن کر میجر صاحب نے ڈرائیور کو گاڑی واپس ڈیرے کی جانب لے جانے کاحکم دیا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ہم پیربابا کے خاص ہجرے میں کھڑے تھے جہاں ایک طرف فرش میں خلاءنظر آرہا تھا، میجر صاحب کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ اس خلاءپر پیر بابا کا بیڈ لگا ہوا تھا لیکن جب وہ یہاں داخل ہوئے تو بیڈ پیچھے ہٹا ہوا تھا اور یہ خلاءکھلی تھی۔ میجر صاحب نے میری جانب دیکھا تو میں نے کہا کہ سر اگر آپ اجازت دیں تو میں جاکردیکھوں؟ میجر صاحب نے منع کرتے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں اس کا اختتام کہاں پر ہو اور وہاں کون کون موجود ہو تمہارا تنہا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا ”سر ایسی مہم تنہا ہی سر کی جاسکتی ہے زیادہ رش اور شور اکثر بنتے کام بگاڑ دیتا ہے، آپ نے ایک بار مجھ پر اعتماد کرکے دیکھ لیا کہ میں حالات سے تنہا نمٹ سکتی ہوں ایک بار اور اعتماد کرکے دیکھ لیں اور اگر اس کوشش میں مجھے شہادت نصیب بھی ہوگئی تو یہ تو میرے لئے فخر کی بات ہوگی نا اور سر ویسے بھی زیادہ سے زیادہ یہ سرنگ بھارت میں ہی لے جائے گی اور اگر اس کا اختتام بھارت میں ہوتا ہے تو اب تک وہاں پر یہ تباہ کی جاچکی ہوگی وہ ایسا کوئی راستہ نہیں چھوڑیں گے کہ ہم ان تک پہنچ جائیں، اس صورت میں زیادہ سے زیادہ میں بھارت کے بارڈر تک ہی جاسکوں گی آگے راستہ مسدود ہوگا تو میں واپس آجاوں گی، لیکن اگر ہماری خوش قسمتی سے ابھی آگے کا راستہ کھلا ہوا تو آپ دیکھنا کہ میں ان کو اس سازش کا کیسا جواب دیتی ہوں کہ ان کی آئندہ نسلیں بھی کہا کریں گی کہ پاکستان میں موت کا فرشتہ ایک لڑکی تھی“....
میری بات سن کر میجر صاحب نے پہلی مرتبہ مجھے سینے سے لگاکر پیشانی چومتے ہوئے کہا، ” بیٹی میں تمہیں پہاڑوں کی بیٹی سمجھتا تھا لیکن تم تو دختر پاکستان ہو، جس قوم میں تم سی بیٹیاں ہوں کس ظالم کی جرات ہوسکتی کہ اس قوم کا بال بھی بیکا کرسکے۔“ پھر انہوں نے مجھے ایک ٹارچ، کلاشنکوف اور ایک موذر دیتے ہوئے کہا کہ اگر اپنے لئے تھوڑا سا بھی خطرہ محسوس کروں تو بے دریغ فائر کردوں اس میں ذرا سی بھی تاخیر نہ کروں ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آگے میں تنہا جاوں گی لیکن میرے پیچھے کسی غیر معمولی واقعہ پر مدد کے لئے کچھ لوگ موجود ہوں گے جو مجھے خطرے میں دیکھ کر فوری طور پر میری مدد کریں گے۔ اس پر میں نے کہا کہ ”سر ان کو میرے اشارے پر حرکت میں آنے کی ہدایت دیں۔ جب میں یہ دیکھوں گی کہ اب بے بس ہوگئی ہوں تب میں ان کی مدد حاصل کروں گی ویسے میری کوشش یہی ہوگی کہ گولی کے بجائے باتوں سے مسئلہ حل کروں“.... میری بات سن کر میجر صاحب تھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے پھر اشارہ طے کیا کہ جب میں دایاں ہاتھ فضا میں لہراوں تو ان کے آدمی فوری طور پرمیری مدد کر پہنچ جائیں گے۔ اشارہ مقرر ہونے کے بعد میں نے کلاشنکوف شانے سے لٹکائی اور موذر ہاتھ میں لے کر میجر صاحب پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے خلاءمیں اترگئی۔ خلاءمیں گہری تاریکی تھی، میں نے ٹارچ روشن کرکے ایک نظر وہاں تک ڈالی جہاں تک ٹارچ کی روشنی میں نظر نے کام کیا، یہ تقریباً چار فٹ چوڑی سرنگ تھی جو کافی دور تک سیدھی جارہی تھی اور آگے کہیں جاکر وہ دائیں یا بائیں مڑ رہی تھی میں نے راستے کا اندازہ کر تے ہوئے ٹارچ بجھائی اور آگے بڑھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد میں اس مقام پر پہنچ گئی جہاں سرنگ دائیںجانب مڑ رہی تھی، میں راستے کے ساتھ ساتھ دائیں جانب مڑ گئی لیکن مڑتے ہی میری گردن پر کسی پستول کی ٹھنڈی نال لگ گئی اور کسی نے سرگوشی کے انداز میں مجھے اسلحہ نیچے پھینک کر ہاتھ اوپر اٹھانے کو کہا....
میرا ذہن ایک دم چکرا کر رہ گیا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اچانک اس قسم کی افتاد آن پڑے گی۔ اسی دوران اس شخص نے میری گردن پر پستول کی نال کا دباو بڑھاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا کہ کیاتم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے ، اپنا اسلحہ زمین پر ڈال کر ہاتھ اوپر اٹھادو۔ میرا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا میں نے میجر زبیر کے دئیے ہوئے موذر کو بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا جبکہ کلاشنکوف دائیں کندھے پر لٹکائی ہوئی تھی اس کی بات سن کر میں نے دائیں کندھے سے اس انداز میں کلاشنکوف اتاری کہ اس کی نظر میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول پر نہ پڑ سکے ویسے بھی وہاں گھپ اندھیرا تھا اور اتنی دیر تک اندھیرے میں رہنے کی بنا پر میری آنکھیں جو دیکھنے کے قابل ہوئی تھیں ظاہر ہے کہ وہ بھی اتنا ہی دیکھ رہا ہوگا۔ میں نے کلاشنکوف اتار کر جھک کر زمین پر رکھی اور پھر سیدھا ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ اوپر اٹھانے لگی۔ ہاتھ اوپر کرتے وقت میں نے اس بات کا خیال رکھا کہ میرے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کا رخ اس کی جانب رہے پھر جیسے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اب اس کا دل میرے نشانے پر ہے میں نے ٹریگر دبا دیا اور ساتھ ہی خود کو زمین پر گرادیا۔ سرنگ میں فائر کی آواز گونجی اور مجھ پر پستول تاننے والا خاموشی سے زمین پر گر گیا۔ میں چند لمحے اپنی جگہ خاموشی سے لیٹی رہی مجھے یہ بھی فکر تھی کہ میجر زبیر نے جن لوگوں کو میری حفاظت کی ذمہ داری سونپی تھی وہ بھی پریشانی کے عالم میں پیش قدمی کر رہے ہوں گے، ساتھ ہی مجھے یہ بھی فکر تھی کہ اس کی طرح دشمنوں کا کوئی اور آدمی بھی موجود نہ ہو.... لیکن جب فائر ہونے کے کچھ دیر تک دشمنوں کی جانب سے کسی قسم کی نقل و حرکت نظر نہیں آئی تو میں بلند آواز سے میجر زبیر کے آدمیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں فرشتہ خیریت سے ہوں وہ لوگ اطمینان سے آگے بڑھیں اس کے ساتھ ہی میں نے کھڑے ہوکر ٹارچ کی روشنی اس جانب ڈالی جدھر سے میجر زبیر کے محافظین زمین پر رینگتے ہوئے ہماری سمت میں بڑھ رہے تھے، میری جانب سے ٹارچ روشن ہونے او ر بات کرنے پر وہ اٹھ کر تیزی سے آگے آئے اور زمین پر گرے ہوئے شخص کو دیکھا لیکن وہ مر چکا تھا۔ اس پر ان میں سے دو افراد اس کی لاش اٹھا کر چلے گئے اور باقی کے افراد میرے پاس رہ گئے۔ ان افراد کے انچارج کا کہنا تھا کہ اب وہ مجھے تنہا آگے نہیں بڑھنے دے گا بلکہ وہ سب میرے ساتھ ہی چلیں گے تاکہ اگر آگے اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آئے تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ اگر اس سرنگ کے آخر میں ہمیں چیک کرلیا گیا اور کسی نے سرنگ کو دھماکے سے اڑادیا تو میرے وطن کے اتنے جیالے میری وجہ سے مارے جائیں گے جبکہ اگر میں اکیلی جاتی ہوں تو صرف میں مروں گی وہ لوگ عقب میں ہوشیار ہوجائیں گے اور پھر کوئی موثر کارروائی کرسکیں گے، لیکن انہوں نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا اور پھر ہم سب اس انداز میں آگے بڑھنے لگے کہ میں سب سے آگے تھی اور وہ لوگ مجھے سے کچھ فاصلے پر میرے عقب میں آرہے تھے۔ اسی طرح چلتے ہوئے ہم تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں سرنگ ختم ہورہی تھی، وہاں پر سرنگ سے باہر نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، میرے محافظوں نے وہاں پر سامنے کی دیوار کو توڑنے کا پروگرام بنایا ان کا خیال تھا کہ جب شروع میں سرنگ میں داخل ہونے کا راستہ موجود تھا تو یقینا باہر نکلنے کا بھی ہوگا۔ میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ ان کی بات درست ہے یہاں یقینا باہر نکلنے کا راستہ بھی موجود ہوگالیکن اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ شروع میں سرنگ میں داخل ہونے کا راستہ کھلا رکھنے اور یہاں بند رکھنے میں کیا سازش ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن میں ہمیں سرنگ میں داخل کرنا تو چاہتا ہو لیکن یہاں سے باہر نکالنا اس کے منصوبے میں شامل نہ ہو۔ اتنا کہہ کر میں نے ان سب کو بھاگنے کا مشورہ دیا اور خود بھی گھوم کر واپسی کے راستے پر بھاگنے لگی۔ان لوگوں کو میرے مشورے سے اتفاق تھا یا اختلاف اس سے قطع نظر وہ چونکہ میری حفاظت کے لئے آئے تھے اس لئے میرے پیچھے ہی وہ بھی بھاگنے لگے۔ ابھی ہم نے با مشکل آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ عقب میں زور دار دھماکے کی آواز آئی، ہم سب فوری طور پر زمین پر گر پڑے اور رینگتے ہوئے دیوار کی جانب بڑھ کر اس کے ساتھ لگ کر لیٹ گئے۔ دھماکے کے بعد سرنگ میں اتنا گردو غبار بھر گیا کہ ہمیں سانس لینے میں بھی دشواری ہونے لگی ، آخر ہم نے اٹھ کر ایک بار پھر نکاسی کے دروازے کی جانب بھاگنا شروع کردیا اور وہاں تک پہنچتے پہنچتے ہماری حالت غیر ہوگئی۔ وہاں میجر زبیر بے چینی سے ہمارا انتظار کررہے تھے کیونکہ انہوں نے گولی چلنے کی آواز بھی سنی تھی اور پھر دھماکے کی آواز بھی، ہمیں زندہ سلامت دیکھ کر انہوں نے اطمینان کی سانس لی اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے کر دوسرے کمرے میں آگئے جہاں ایک میز اور کچھ کرسیاں رکھی تھیں یہ شائد وہاں قبضہ کرنے کے بعد میجر زبیر کے کارندوں نے لگائی تھیں۔ انہوں نے ایک شخص کو پہلے پانی اور پھر چائے لانے کو کہا، پانی آتے ہی میں نے ایسے پینا شروع کردیا جیسے کئی دنوں کی پیاسی ہوں۔ پانی پینے کے بعد میرے حواس کچھ بحال ہوئے ، اتنی دیر میں چائے آگئی، میں نے بولنا چاہا تو میجر زبیر نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے روکتے ہوئے بولنے سے منع کیا اور کہا کہ پہلے سکون سے چائے پیو اپنے حواس بحال ہونے دو باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ اس پر میں خاموشی سے چائے پینے لگی۔
چائے پینے کے دوران میجر صاحب نے کہا کہ سرنگ میں ہونے والا دھماکہ بہت زور دار تھا اور میں نے تمہیں بات کرنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ تمہارے اعصاب متاثر ہوں گے۔ اب تم ایسے کرو کہ چائے پینے کے بعد باہر جاو وہاں ایک گاڑی میں گل پندرہ خان بیٹھا ہے تم بھی اس کے ساتھ بیٹھ جاو ڈرائیور تمہیں تمہاری سرکاری رہائش گاہ تک لے جائے گا۔ اب تم آرام کرو یہاں تمہارا کام ختم ہوگیا ہے میں کل شام چار بجے تمہارے پاس آوں گا اور تمہیں کسی سے ملاوں گا اس کے بعد تمہاری نئی ڈیوٹی شروع ہوجائے گی۔ میں نے یہ سن کر کچھ بولنا چاہا لیکن میجر نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ، ” بس اب کوئی بات نہیں جو کہا ہے اس پر عمل کرو“ .... یہ سن کر میں خاموشی سے چائے پینے لگی اور چائے ختم کرکے اٹھ کر باہر آئی جہاں سامنے ہی ایک گاڑی میں گل خان ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں بھی جاکر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی اور میرے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے بغیر کچھ کہے گاڑی چلادی۔
لاہور کینٹ میں اپنی رہائش گاہ تک پہنچتے ہوئے ہمیں صبح ہوگئی، بنگلہ کافی وسیع و عریض تھا، سامنے کے حصے میں بھی ایک لان تھا جس میں گھاس لگی ہوئی تھی اور ساتھ ہی خوبصورت پھول بہار دکھارہے تھے اس کے بعدایک برامدہ اور پھر کمرے تھے، کمروں کے بعد پھر ایک برآمدہ اور اس کے بعد کافی کھلا صحن تھا، میں اور گل خان گھر کا جائزہ لینے کے بعد آرام کرنے چلے گئے ، میں ایک کمرہ اپنے لئے چن کر اس میں سونے چلی گئی جبکہ گل خان نے اپنے لئے ایک کمرہ منتخب کیا اور وہ اس میں سونے چلا گیا، ڈرائیور ہمیں وہاں اتار کر گاڑی واپس لے گیا تھا۔ تھکاوٹ اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ سونے کے بعد ہوش ہی نہیں رہا میری آنکھ کال بیل کی آواز سے کھلی تھوڑی دیر بعد ایک اردلی نے آکر میجر زبیر کی آمد کی اطلاع دی میں فوری طور پر باہر نکلی اور اردلی کی رہنمائی میں ڈرائینگ روم تک گئی جہاں ایک صوفے پر میجر زبیر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے تیار ہونے کا حکم دیا اور میں سر ہلاتے ہوئے تیار ہونے چلی گئی۔ میرے پاس کپڑے توتھے نہیںلہذا نہا کر تازہ دم ہوئی اور وہی لباس پہن کر میجر صاحب کے سامنے حاضر ہوگئی وہ مجھے لے کر کینٹ ہی کے علاقے میں ایک بنگلے میں گئے وہاں انہوں نے میرا تعارف کسی جنرل اکبر سے کرایا، جنرل صاحب نے مجھے دیکھتے ہوئے اگلے روز صبح چار بجے آنے کا حکم دیا میں نے اقرار میں سر ہلادیا اور پھر........میجر صاحب مجھے وہاں سے لے کر بازار گئے وہاں انہوں نے میرے لئے چند جوڑے لباس خریدے اور کچھ روپے مجھے دیتے ہوئے کہا کہ اب میں باقاعدہ اس ادارے کی ملازم ہوں اور جب مجھے تنخواہ ملے تو ان کی رقم لوٹادوں، یہ جملہ شائد انہوں نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا تھا کیونکہ میں رقم لینے سے ہچکچا رہی تھی۔
اگلے روز میں حسب ہدایت صبح چار بجے جنرل اکبر کے پاس پہنچ گئی تو وہ تیار تھے اور مجھے پریڈ گراونڈ میں لے گئے جہاں انسٹریکٹر سے انہوں نے میرا تعارف اپنی بیٹی کی حیثیت سے کراتے ہوئے کہا کہ یہ بہت تربیت یافتہ ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ کمانڈو ایکشن سمیت دشمنوں سے نمٹنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہوجائے، ان کی بات سن کر انسٹریکٹر نے اثبات میں سر ہلایا اورپھر جنرل کے اشارے پر مجھے تربیت حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں میں شامل ہونے کو کہا جو ابتدائی پریڈ کررہے تھے میں جاکر ان میں شامل ہوگئی اور اس طرح میری تربیت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
ایک ماہ بعد میں اپنے انسٹریکٹر کے حکم پر جنرل اکبر کے سامنے حاضر ہوگئی تربیت کے دوران جو کچھ مجھے سکھایا گیا وہ تو پہلے سے ہی آتا تھا البتہ یہ ضرور ہے کہ کمانڈو ایکشن کے کچھ ایسے نئے طریقے بھی مجھے سکھائے گئے جو میں پہلے نہیں جانتی تھی۔ جنرل اکبر کچھ دیر خاموش رہے پھر مجھے دیکھ کر بولنے لگے، ” فرشتہ بیٹی تم جانتی ہو کہ آج کل ہمارا وطن بہت سی سازشوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور ہم کسی ایک دشمن سے نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں کئی دشمنوں سے نبرد آزما ہیں اور ان میں دنیا کے ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہیں ان میں سے ایک اسرائیل بھی ہے، اسرائیل نے چند سال قبل اپنی خفیہ ایجنسی موساد میں ایک نیا شعبہ قائم کیا ہے جس میں صرف لڑکیاں ہیں اس شعبے کا نام ”ییلو کیٹس سیکشن“ یعنی ”پیلی بلیوں کا شعبہ “ رکھا گیا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والی لڑکیاں ہر کام میں ماہر ہوتی ہیں، اس نے اس شعبے سے بہت سی لڑکیاں پاکستان میں بھیجی ہیں لیکن ہمیں ابھی ان کی شناخت نہیں ہے۔ ان سے مقابلے کے لئے ہم نے بھی ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اس میں لڑکیاں بھی کام کریں لیکن ہمیں اب تک تم جیسی کوئی لڑکی نہیں ملی تھی، تم میں جو صلاحیتیں ہیں مجھے ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، اب یہ بتاو کہ کیا تم ہمارے لئے کام کروگی یہ ذہن میں رکھنا کہ تمہاری زندگی ہروقت خطرے میں رہے گی“.... اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوکر مجھے دیکھنے لگے، میں نے چند لمحے سوچ کر جواب دیا کہ ” سر میری جان تو ویسے بھی ہر وقت خطرے میں ہی رہتی ہے، شائد آپ کو میری زندگی کے بارے میں علم نہیں ہے“.... ” میں سب جانتا ہوں“ انہوں نے مےری بات کاٹ کر کہا اور پھر میری پیدائش سے لے کر میجر زبیر سے ملنے تک کی پوری کہانی سنادی پھر بولے ، ” میں نے تم سے جو سوال پوچھا ہے صرف اس کا جواب دو.... کیا تم ہمارے لئے کام کروگی؟“
میں نے کہا ، ” سر کام تو میں کروں گی لیکن کام اپنی مرضی سے کروں گی ہاں اگر میرے کام کا مثبت نتیجہ سامنے نہ آئے تو آپ کو حق ہوگا جو چاہے مجھے سزا دے دیں، آپ مجھے صرف کام بتائیں گے کہ کام کیا کرناہے ، بس، وہ کیسے کرنا ہے ، اس کے لئے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہوں یہ سب میری اپنی مرضی پر منحصر ہوگا“۔ میری بات سن کر جنرل بولے، ” اب تم ایک ادارے کی ملازم ہو اور اس ادارے میں ڈسپلن سب سے اہم چیز ہے، ہمارے اوپر بہت سمجھ دار اور سوجھ بوجھ والے افسر بیٹھے ہیں ہم سب کو ان کی پالیسیوں پر عمل کرنا ہوتا ہے اور تم بھی ان کے احکام پر عمل کروگی“.... جنرل اکبر یہ بات کہہ کر میری شکل دیکھنے لگے میں نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد ذرا سخت لہجے میں کہا، ،”سوری سر، آپ جن افسروں کو سمجھ دار اور سوجھ بوجھ والا کہہ رہے ہیں میری نظر میں وہ یا تو احمق ہیں یا پھر غدار جو جان بوجھ کر دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کررہے ہیں ، اگر وہ اتنے ہی سمجھ دار ہیں تو کراچی میں اب تک کسی کو کیوں نہیں پکڑا، میں قتل کرنے والوں کی نہیں ان کی بات کررہی ہوں جو ان کے پیچھے پردے میں بیٹھ کر کام کررہے ہیں، بلوچستان میں اب تک کسی غیر ملکی ایجنٹ کو کیوں نہیں پکڑا گیا، معاف کیجئے جنرل صاحب میں صرف اپنی شرائط پر کام کروں گی اگر آپ کو منظور ہے تو ٹھیک ورنہ وطن کے دشمنوں کو تو میں ویسے بھی نہیں چھوڑوں گی چاہے آپ کے ساتھ مل کر کام کروں یا انفرادی طور پر“....جنرل اکبر کی آنکھوں میں فکر کے سائے منڈلانے لگے اور پھر وہ چند لمحے بعد بولے، ”چلو ٹھیک ہے تم جیسے چاہو کام کرنا لیکن مجھے رپورٹ ضروردیتی رہنا“
”ضرورسر لیکن میری پھر ایک شرط ہے کہ میں آپ کو تو رپورٹ دیتی رہوں گی لیکن جب تک میرے ذمے کیا گیا کام مکمل نہ ہوجائے آپ میری رپورٹ کو اپنی ذات تک ہی رکھیں گے اور کسی کو نہیں بتائیں گے“
میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولے، ” دیکھو ہمارے سینئیر جتنے بھی ہیں ان کے جذبہ حب الوطنی میں کوئی شک نہیں ہے مجھے ان کو بہرحال بتانا ہوگا کہ تم کہاں پر کیا کر رہی ہو“ .... چلیں سر ٹھیک ہے مجھے آپ کی یہ بات منظور ہے۔ اس کے بعد جنرل اکبر نے میرے بازو میں ایک بریسلٹ ڈالا اور گلے میں ایک لاکٹ، یہ خصوصی اہمیت کی چیزیں تھیں جن کے ذریعے وہ اپنے دفتر میں بیٹھے میری موجودگی کے مقام کو بھی دیکھ سکتے تھے اور میرے ساتھ ہونے والی گفتگو بھی سن سکتے تھے، انہوں نے مجھے یہ دونوں چیزیں ہمیشہ پہنے رہنے کی ہدایت دی اور پھر ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر دیا جس کا استعمال مجھے تربیت کے دوران سکھا دیا گیا تھا، اور بہت سی دعاوں کے ساتھ مجھے یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ میں اگلے روز ان سے ملوں تو وہ مجھے میرے آپریشن کے بارے میں ہدایات دیں گے۔ میں اٹھ کر گھر واپس آگئی۔
(باقی آئندہ )

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.