*Dil pay lagy jo zakham Piyya* دل پہ لگے جو زخم پیا ٭




٭دل پہ لگے جو زخم پیا ٭
  تحریر:ثمرین شاہد
قسط نمبر :6
اسے اسطرح دیکھ کر حیران ہوا اور اپنے دوست سے معذرت کرتا اسکی جانب بڑھا وہ اپنی نظریں زمین پر مرکوز کررکھی تھی ساتھ ہی ساتھ اپنے لب کاٹ رہی تھی ،اندر ایک انجانہ سا ڈر ہچکولے مار رہا تھا۔
وہ اس کے قریب آیا اور اس سے پوچھنے لگا۔۔۔
”کیا ہوا ۔۔۔ تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ۔۔۔اور اسطرح بھاگ کیوں رہی تھی ۔۔۔؟“
و۔۔۔و۔۔۔۔وہ۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔
”زارا نے جواب دینے کے بجائے بس اتنا ہی کہا کہ وہ گھر جانا چاہتی ہے ۔۔۔“
کیوں ابھی تو آئیں ہیں ، کچھ دیر میں چلیں گے۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔
وہ اسے بتارہا تھا یا پوچھ رہا تھا زارا نہیں سمجھ پائی بس اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔۔۔
پھر اسے اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھنے لگا تبھی ایک آدمی   ان کے سامنے آکر رکا تھا۔۔۔
 زبیر کے ساتھ کھڑی زارا پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔۔۔
"ارے زبیر تم کہاں چلے گئے تھے، تمہاری بیوی اکیلے ڈر رہی تھیں؟ "
اس بار اسکے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نہیں تھی بلکہ وہ بے حد سنجیدہ ہوکر بولا
یہ وہی آدمی تھا جس سے ڈر کر کچھ دیر پہلے زارا وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئی تھی
”زارا۔ “
زبیر نے صرف لفظ زارا کہا ۔۔۔۔
وہ اسکے چہرے پر خوف اور گھبراہٹ دیکھ چکا تھا ۔۔
کسی نے کچھ کہا ہے یا یونہی۔۔۔
وہ سوچنے لگا پھر سامنے کھڑے سے مخاطب ہوا 
”جی وہ کبھی اس طرح کسی تقریب میں نہیں آئی نہ
شاید اس لئے ۔۔۔۔“
اووو۔۔۔ سامنے کھڑے دراز قد چوڑے جسامت کا حامل شخص نے اپنے ہونٹوں کو گول دائرہ بنا کر صرف اتنا ہی کہا ۔۔۔پھر سگریٹ کے کش لینے کے بعد بولا
کچھ دیر پہلے وہ سگریٹ کو پھینک چکا تھا لیکن ابھی اسکے ہاتھ میں پھر سے ایک سگریٹ تھا یقینًا وہ اسکا عادی تھا ۔
”ایک بات کہوں اگر بُرا نہ لگے تو ۔۔۔؟“
”جی بلکل پوچھیں ۔۔۔ جمشید صاحب ۔۔!!
آپ اجازت طلب کرکے مجھے شرمندہ نہ کریں ۔۔
زبیر نے اس انداز میں بولا جیسے اس آدمی کو کچھ بھی پوچھنے یا کہنے کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں  وہ بناء جھجک اس سے کچھ بھی پوچھ سکتا ہے ۔
” تم نے شادی کرلی اور ہمیں بتایا بھی نہیں ۔۔ ایسا کیوں ۔؟؟“
وہ شکوہ آمیز لہجے میں پوچھنے لگا
”معذرت چاہتا ہوں لیکن شادی جلدی جلدی میں سادگی سے ہوئی اس لئے بتا نہیں پایا۔۔۔
لیکن سوچ رہا ہوں ولیمہ کےلئے ایک چھوٹی سی تقریب ہی رکھ لوں اس میں سب سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور ہمارا ولیمہ بھی ۔۔۔
”کیوں زارا ۔۔۔؟”
اس نے جمشید کے ساتھ اپنی گفتگو میں زارا کو بھی شامل کیا جو اسکے عقب میں چھپنے کے انداز میں کھڑی تھی ۔۔
ج۔۔۔ جا۔۔۔جی۔۔۔
زرا اٹک اٹک کر بامشکل بولی سامنے کھڑا آدمی جسے زبیر جمشید کہہ کر پُکار رہا تھا زارا کو اپنے آنکھوں کےحصار میں لے رکھا تھا اسکی عجیب نظروں سے زارا خوف کھا رہی تھی۔۔
”چلو ٹھیک ہے پھر تو میں ضرور آؤں گا ۔۔۔
ایک بات ہے ، تم واقعی بہت خوش قسمت ہو، تمہیں اتنی خوبصورت بیوی ملی ہے ۔۔۔“
وہ زبیر سے مصاحفہ کرتے ہوئے ہنس کر بولا اور اگے بڑھ گیا.
زبیر کو اسکا اس طرح زارا کی تعریف کرنا اچھا نہیں لگا لیکن وہ ضبط کرگیا ۔۔۔
وہ دونوں کچھ دیر وہاں رُکنے کے بعد گھر لونٹے تھے۔۔۔
زبیر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد جب کمرے میں آیا تو زارا کو روتے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔۔۔
”اب تم رُو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟“
وہ قدم قدم چل کر بیڈ تک آیا اور بائیں سائیڈ بیٹھ کر گھڑی اتارتے ہوئے پوچھنے لگا
”و۔۔۔و۔۔۔وہ کا۔۔۔کچھ نہیں ۔۔۔“
زارا دونوں ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
ہممم۔۔۔ لائٹ بند کردو مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔
لائٹ بند کرنے کا بول کر وہ گھڑی اتار کر میز پر رکھ چکا تھا ۔۔۔
”سُنو۔۔۔“
اب وہ اس سے مخاطب تھا
زارا نے اپنی چوڑیاں ایک ڈبے میں سنبھال کر رکھنے کے بعد لائٹ بند کرنے کےلئے اُٹھی ہی تھی کہ زبیر کے پکارنے پر اسکی طرف متوجہ ہوئی
”تم پارٹی میں یوں بھاگ کیوں رہی تھی ۔۔۔؟ ، جمشید بھائی نے ایسا کیوں کہا کہ تم ڈر گئی تھی “
وہ اس سے پوچھ رہا تھا
وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی 
”میں وہاں تنہا کھڑی تھی وہاں سبھی مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے میں ڈر گئی تھی اس لئے ۔“
وہ آدھی بات گول کرگئی تھی ۔۔۔
”تم بھی نہ حد کرتی ہو ، وہاں موجود تمام لوگ انسان ہی تھے۔۔“
 اب لائٹ بند کردو۔۔۔ مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔
وہ حکم دیتا سونے کے لئے لیٹ گیا۔۔
      _____*_____*_____*_____
لاوئچ میں لگا فون کب سے بج رہا تھا ندا خاتون جو اپنے کمرے میں تھیں اسکی آواز سُن کر باہر آئیں .
”پتہ نہیں کون ہے ۔۔۔؟ ،اور ایک تو میری اولاد جو مجال ہے کہ جو اپنے کمرے سے نکل جائے۔۔۔“
وہ منہ ہی منہ بڑبڑاتے ہوئے فون تک آئیں
فون اُٹھاتے ہی کان سے لگا کر پہلا لفظ ”ہیلو” ادا کیا
دوسری جانب سے سب سے پہلے سلام کیا گیا
انھوں نے بھی جواب دینے میں پہل کی
کچھ دیر وہ کال سُننے کے بعد وہ فون رکھ چکی تھیں۔
پھر عائشہ کو آواز لگانے لگیں جو اپنے کمرے میں بڑے سے بیڈ پر بیٹھی اپنے پیروں میں نیل پینٹ لگانے میں مصروف تھے ۔۔۔
ماں کی آواز سُن کر اُس نے جواب دینا گوارا نہ کیا اور سر جھٹک کر پھر سے اسی کام میں جُٹ گئی۔۔۔
ندا خاتون خود ہی آواز لگاتے لگاتے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھیں اسے نیل پینٹ لگاتے دیکھا تو غصّے میں بولیں ۔
ارے عائشہ کب سے آواز لگارہی ہوں تمہیں،
مگر تم ہو کہ یہاں بیٹھی فضول کام میں لگی ہو ۔۔۔
تمہاری ان حرکتوں سے میں سخت پریشان ہوں ،ناجانے کس چیز کی سزا مل رہی ہے مجھے ۔۔۔
وہ اتنی جلدی اپنے کیئے گئے ظلم و زیادتی کو بھول گئی تھیں جو انھوں نے ایک یتیم اور معصوم لڑکی پر ڈھائے تھے ۔۔۔
یہ نافرمان اولاد بھی انکے کیئے کا نتیجہ تھی لیکن وہ ہر اُس بات سے بے خبر خود کو مظلوم ہی ظاہر کررہی تھیں
”آپ کو مجھ میں ہی لاکھ بُرائی نظر آتی ہے ۔۔۔“
عائشہ خفگی سے بولی
البتہ ندا خاتون آہ بھر کر رہ گئیں اس سے کچھ کہنا ہی فضول تھا ۔
”زیان آرہا ہے ۔۔۔
کہہ رہا تھا ایک دو دن میں یہاں پہنچ جائے گا ۔۔۔“
وہ چہکتے چہرے کے ساتھ زایان کے آنے کی خبر دینے لگیں جو کچھ دیر قبل سُن کر آئی تھیں ۔۔
”تو ۔۔۔میرا کیا کام اس میں۔۔۔ ، وہ بے شک آئے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔۔۔ویسے بھی وہ ہم سے کب ملنے آتا ہے ۔۔۔
آرہا ہوگا اپنی لاڈلی کزن زارا سے ملنے ۔۔۔
وہ نہیں ملے گی تو ہزاروں سوال کرے گا ۔۔۔
کہاں ہے زارا ۔۔۔ ؟؟ وہ ٹھیک تو ہے نہ ۔۔؟ وغیرہ وغیرہ “
عائشہ جلی کٹی انداز میں ہاتھ نچانچا کر بول رہی تھی اور ندا خاتون اسے دیکھکر رہ گئیں ،وہ کیا کچھ نہیں سوچ بیٹھی تھیں اور یہاں تو اسکا انداز ہی نرالا تھا
جب وہ خاموش ہوئی تو انھوں نے کہا
”وہ تمہارا بھی کزن ہے عائشہ ۔۔۔ اور اسکے لئے تم سب بھی اتنے ہی اہم ہو جتنی زارا ہے ۔۔۔
اتنے سالوں بعد آرہا ہے اور تمہارا یہ رویہ.۔۔۔ اس بات کا  افسوس ہے مجھے۔۔۔“
زایان ملک انکا بھانجا تھا انکی بڑی بہن حلیمہ ملک کا بیٹا ۔۔۔
وہ اپنے والدین کے ساتھ دو تین بار یہاں آچکا تھا
جب تک عباس مرزا حیات تھے حلیمہ خاتون اور اُس کے شوہر ملک نواز بھی آجایا کرتے تھے لیکن جب سے عباس مرزا اس دُنیا سے چل بسے تو ان لوگوں نے بھی آنا جانا ختم کردیا ۔۔
بس کبھی کبھار فون پر بات ہوجایا کرتی تھی ۔
”اونہہ۔۔۔ اہم ۔۔۔مجھے تو کبھی نظر نہیں آیا۔۔“
آپ فکر مت کریں مما ۔۔۔ اُسکے خاطر داری میں کوئی کمی نہیں ہوگی آخر کو اُسے بھی تو پتہ لگ جائے گا مہمان نوازی کیسے کی جاتی ہے۔۔۔
وہ مغرورانہ انداز میں کہتی کمرے سے نکل گئی جبکہ ندا خاتون اسے افسوس کے ساتھ دیکھنے لگی پھر اپنے کمرے میں چلی گئیں
        ____*____*____*_____
زارا کا وہی معمول تھا روز صبح سویرے ہی اُٹھ جاتی تھی جب زبیر آفس چلا جاتا تو گھر کے کاموں میں لگ جاتی تھی اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کرنے کی جتن کرتی اور بس اسی امید کے ساتھ جی رہی تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا کچھ دنوں سے زبیر کا رویہ زارا کے ساتھ بدل گیا تھا وہ زرا زرا سی بات پر پہلے کی طرح غصّہ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اب نشہ کرکے گھر لوٹتا تھا ۔۔۔
زارا اس میں بدلاؤ دیکھ کر خوش تھی ۔۔۔
ناجانے یہ خوشی کب تک اس کے ساتھ رہتی اُس معصوم کے لئے تو یہی کافی تھا کہ وہ بدل رہا ہے ۔۔۔
یکن زبیر میں آنے والی تبدیلی واقعی زارا اور اسکی زندگی میں خوشحالی لے آتی یا کوئی بھیانک طوفان تھا جو انکے رشتے کو اپنے زد میں لینے والا تھا یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔۔۔
         ____*_____*____*_____
نعیم حسین کے گھر میں سبھی صبح صبح اُٹھ گئے تھے  ،ناشتے کے بعد سبھی کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دینے لگے،ندا خاتون کمرے میں کھڑی ملازمہ کو صفائی کی ہدایت دے رہی تھیں ۔۔۔
”کلثوم ۔۔۔ اس بیڈ شیٹ کو بھی بدل دو زرا۔۔۔ یہ لو ۔۔“
انھوں نے ہاتھ میں پکڑی بیڈ شیٹ کو ملازمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا  
”جی باجی ۔۔۔۔ ملازمہ جو ڈسٹنگ کررہی تھی اثبات میں سر ہلاتی  ندا خاتون  کے ہاتھ سے بیڈ شیٹ لے کر بدلنے لگی ۔۔۔
جبکہ ندا خاتون الماری کی طرف بڑھ گئی اور اُس میں سے ایک خوبصورت مگر ہلکے رنگ کا پردہ نکال کر ملازمہ کو دیا اسکا یہی مطلب تھا کہ اسے بھی بدلا جائے۔۔۔
آج کلثوم پکڑی گئی تھی اس سے چُن چُن کر تمام کام کروایا جارہا تھا
زایان آنے والا تھا اس لئے ندا خاتون چاہتی تھیں کہ ہر ایک چیز بلکل اچھے اور سلیقے سے اپنی جگہ نظر آئے۔۔
جب وہ چھوٹا تھا تبھی سے وہ اسے اپنا داماد بنانا چاہتی تھی اپنی منہ پھٹ اور ضدی بیٹی کےلئے انھوں نے اسے چُنا تھا ۔۔۔بیٹھے بٹھائے اتنا اچھا لڑکا مل رہا تھا ،وہ جانتی تھیں کہ بڑے ہوکر زایان کو ہی ملک نواز کا پورا کاروبار سنبھالنا ہے ۔۔۔تو وہ ایسا کیوں نہیں کرتیں ۔.۔۔
مذاق مذاق میں وہ حلیمہ کے کان میں یہ بات ڈال چکی تھیں۔۔۔حلیمہ خاتون نے تو کچھ نہیں کہا تھا ۔
لیکن وہ اپنی ہی دُنیا میں اس سنہرے خواب کو بُنتے جاتی تھیں ۔۔۔
اور اس لئے وہ چاہتی تھیں کہ سب کچھ بلکل پرفیکٹ ہو۔۔۔
سارے تبدیلیاں ہوچکی تھیں زایان کے لئے کمرہ بھی سجایا جاچکا تھا ۔۔۔
کھانے میں بھی وہ ملازمہ کے سر پر کھڑی ہوکر مختلف قسم کے لوازمات تیار کروارہی تھیں اور خود بھی کچھ نہ کچھ بنا رہی تھیں
لائبہ بھی اپنے زایان بھائی کے آنے کی خبر سُن کر بہت خوش تھی اُس نے صرف تصویروں میں ہی اُسے دیکھ رکھا تھا اور چند ایک بار فون پر بات ہوئی تھی ۔۔۔
ظفر بھی کافی خوش تھا اس لئے آج اپنے کڑکٹ میچ کا پروگرام بھی ملتوی کرچکا تھا ۔۔۔
اگر کوئی خوش نہیں تھا تو وہ تھی عائشہ نعیم ۔۔۔
ناجانے وہ اسے کیوں پسند نہیں کرتی تھی ،وہ ہمیشہ اسکا نام سُن کر بھڑک جاتی تھی ۔۔۔اور ایسا بچپن سے ہوتا آیا تھا
شام چار بجے کے قریب اُس نے فون کرکے بتایا کہ وہ شہر میں داخل ہوگیا ہے کچھ دیر میں پہنچ جائے گا۔۔۔
نعیم صاحب اپنے آفس سے میںتھے تمام معاملات سے الگ تھلگ ۔۔۔
دو دن پہلے انھیں زایان کی آمد کی خبر مل چکی تھی گھر میں جو بھی کرتی تھیں ندا خاتون ہی کرتیں ،بس ایک بار اُنھیں بتادیا جاتا ۔۔۔
وہ اکثر سوچتے تھے کہ ندا ایسی کیوں ہے ۔۔۔
اُس کے مزاج میں بے پناہ دولت پانے کی تمنا کب ختم ہوگی ۔۔ شادی کے بعد ان پر یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ تو سُکون اور آرائش کی زندگی چاہتی ہیں اور اُسے لے کر وہ انھیں طعنے دیتی تھیں ۔۔۔
لیکن عباس مرزا کے انتقال کے بعد انکی جائیداد پر بھی قبضہ کرلیا ۔۔۔
انھیں اُسکی سوچ اور دولت کی ہوش پر رہ رہ کر افسوس ہوتا تھا ،انھوں نے اپنی زندگی میں ایک یہی بڑی غلطی کی تھی جس کو وہ اب بھی بھگت رہے تھے وہ انھیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے لیکن وہ انکی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھیں پھر وہی لڑائی جگھڑے کا ماحول پروان چڑھتا۔۔۔
کوئی تھا ہی نہیں جو اُنھیں روک سکے ۔۔۔
ندا خاتون سے شادی کا فیصلہ بھی تو انکا اپنا تھا
وہ خود سے جُڑے رشتے کے ساتھ مخلص تھے جیسے تیسے ہی گزارا کررہے تھے۔۔۔
       ____*____*____*____

(جاری ہے ) 

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.