٭دل پہ لگے جو زخم پیا ٭Dil pay lgy jo zakhm Piyya *




٭دل پہ لگے وہ زخم پیا٭
تحریر:ثمرین شاہد
قسط نمبر:5
وہ اندر ہی اندر خوش ہورہی تھی اسے لگا شاید اب اس کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن زبیر کی موجودگی میں وہ مسکرا بھی نہ سکی۔۔۔
کسی بھی انسان کےلئے یہ احساس ہی کافی ہے کہ اس سے جڑے رشتے اسے اہمیت دیتے ہیں اسی سوچ کے سہارے دل خوشیوں کی وادی میں جیسے کُھو سا جاتا ہے اور زارا تو اندھیروں میں گُم اُس چاند کی طرح تھی جو دوسروں کو اپنے وجود سے روشنی تو دیتا ہے لیکن جب بادل اسے چُھپا دے تو وہ اپنی کوشش پر بھی اُس وقت تک پھر سے روشن نہیں ہوتا جب تک وہ بادل ہٹ نہ جائے ۔۔
اسکے پاس بس اُمیدیں تھی ایسی امیدیں جو بندہ صرف اللہ سے رکھتا ہے کیونکہ جب ایک انسان کی ساری اُمیدیں اللہ سے وابستہ ہوتی ہیں تو وہ چھوٹی سی خوشی پر بھی چہک اُٹھتا ہے، سب سے بہترین تعلق اللہ اور بندے کے درمیان ہوتا ہے ، بندہ خود کو اپنے خالق کے فیصلے پر چھوڑ دیتا ہے اور رب الکریم انسان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازتا ہے لیکن اس کےلئے بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہےاور جو اُسکے نیک بندے ہوتے ہیں انھیں آزمائش سے بھی گزرنا پڑتا ہے اسے بھی امتحان سے گزرنا تھا ۔۔۔
”زبیر یہ میرے لئے لےکر آئیں ہیں، وہ بھی اپنی پسند سے ۔۔۔
 کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ بدل جائیں ، کیا وہ بدلنے لگے ہیں ، اگر ایسا ہے تو میں گزشتہ دنوں کی تمام باتیں بھول جاؤں گی ۔۔۔
ہاں میں بھول جاؤں گی کہ کبھی انھوں نے مجھ پر ظلم کیا ۔۔۔
میں معاف کردونگی ،اپنے اللہ کو بھی انھیں سزا نہیں دینے دونگی ۔۔۔ خوب دُعائیں کرونگی ۔۔۔“
وہ خود سے ہم کلام تھی ،ایک زرا سی عنایت پر کس طرح سب کچھ بھولنے کو تیار ۔۔۔
اپنے اللہ کو بھی اپنے اُس محرم سے راضی کرنے کو تیار تھی جس نے اسکے حقوق بھی ٹھیک سے ادا نہیں کیئے ،اُس پر بے جا ظلم کرتا رہا ۔۔۔
سچ کہتے ہیں عورت کتنی نادان ہوتی ہے ،زرا سی محبت ملنے پر پگل جاتی ہے بلکل موم کی طرح جیسے وہ پگلتی ہے دوسروں کو روشنی پہنچانے کےلئے ۔۔۔۔
”تم اب تک بیٹھی ہو ، کچھ کھانے کےلئے ہے تو لا دو ۔۔۔“
اُس نے زارا کو کسی خیال میں گُم دیکھ کر کہا
 زارا کی سوچ وہی رُک سی گئی اس نے اپنے سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا ،ناجانے وہ ایسا کیوں تھا ؟؟؟ ہر بار یہی سوال اسکے دل میں نئے سرے سے اُٹھتا اور وہ روز اسے دبا دیتی ۔۔۔
وہ اثبات میں سر ہلاکر وہاں سے اُٹھ گئی اور کیچن کے جانب بڑھ گئی۔۔
       _____*_____*_____*______
آج ملازمہ نہیں آئی تھی عائشہ نعیم ندا نعیم کی بڑی بیٹی کیچن میں کھڑی برتن دُھو رہی تھی ۔۔۔
”مما مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا ،وہ پیلیٹ کو زور سے رکھتے ہوئے بولی
عائشہ برتن دُھو کم اور پھٹک زیادہ رہی تھی ۔۔۔
”کیوں نہیں ہوتا یہ ۔۔۔ ،
گھر میں یونہی بیٹھی پورا دن دوستوں کے ساتھ باتوں میں لگی رہتی ہو۔۔۔ اور گھر کے کام تم سے نہیں ہوتے ۔۔۔“
وہ کیچن میں پانی پینے آئی تھیں اپنی لاڈلی بیٹی کی باتیں سُن کر اُسے ڈانٹنے لگیں ۔۔
”ہاں نہیں ہوتے ،یہ بھی کوئی کام ہے پورا کا پورا وبال ہے ۔۔۔۔“
عائشہ منہ بناکر اس طرح بولی جیسے سچ میں کوئی وبال جان ہو۔۔۔
ایک زارا تھی جو سارے کام اکیلے ہی کرتی تھی مگر مجال ہے جو ایک لفظ بھی بول دے اور تمہیں صرف ایک دن یہ کرنے مل گیا تو نخرے دکھارہی ہو۔۔۔“
انھوں نے ہر ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا
وہ زارا کی بات نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن پھر بھی ہر بار ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنے کلام میں اُسے یاد کرلیتی تھی ۔۔۔
”ہاں تو کرواتی نہ اُس سے یہ کام ،کیوں شادی کروادی اُسکی۔۔۔۔
اچھا خاصہ وہ خاموشی سے کردیا کرتی تھی
ملازمہ تو ڈھنگ سے کچھ کرتی ہی نہیں اور آئے دن چھٹی کرتی ہے سو الگ۔۔۔
یہ فضول کام مجھ سے نہیں ہوتے ۔۔۔ آپ خود ہی کریں ، میں تو چلی ۔۔۔“
عائشہ پیلیٹ کو زور سے پھٹک کر غصّے میں کہتی ہوئی کیچن سے نکل گئی۔۔۔
جبکہ ندا خاتون تو جیسے صدمے میں ہی آگئیں ،انکی بیٹی  ان سے اس طرح کہہ رہی تھی انکی اپنی بیٹی جسے انھوں نے ہر غم و دُکھ درد سے بچا کررکھا تھا اور اپنے بھائی کی بیٹی کو نوکروں کی سی زندگی دی تھی ،اُس سے اسکا حق چھینا تھا ۔۔۔
یہی ہوتا ہے جب ہم دوسروں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں کسی کا حق مارتے ہیں پھر ہمارے پاس بھی کچھ نہیں بچتا۔۔۔
اپنے ہی آپ سے دور ہوجاتے ہیں اگر وہ اپنی پوری زندگی دوسروں کا بُرا کرنے اور لالچ میں نہ گزارتیں اور اپنے بچّوں کی اچھی طرح سے تربیت کرتیں تو شاید آج عائشہ اس طرح زبان چلا کر نہیں جاتی۔۔۔
آج اس نے ایسا کیا تھا کل ظفر(اُنکا چھوٹا بیٹا) اور لائبہ (عائشہ سے چھوٹی بیٹی ) بھی ایسا کرنے لگے تو ،پھر کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی اُنھوں نے جُھرجُھری لی ۔۔۔
اور باقی بچے برتنوں کو صاف کرنے لگیں ۔۔۔
اب انھیں ہی یہ سب کرنا تھا ،وہ جانتی تھی کہ عائشہ ایک بار کسی چیز سے منع کردے تو بھول سے بھی وہ دوبارہ ہاتھ نہیں لگاتی۔۔
    ______*_____*______*_____
زبیر کےلئے کھانا تیار کرکے وہ اسے سرو کرچکی تھی اور خود دوبارہ سے گھر کے کاموں میں لگ گئی تھی ۔۔۔
جلدی جلدی سارا کام کیا ، پھر نماز پڑھ کر وہ کپڑے استری کرنے لگی ۔۔۔
ایک طرف تھکاوٹ تو تھی لیکن دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ آج وہ زبیر کے ساتھ جانے والی تھی شادی کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہونے والا تھا ۔۔۔
لیکن وہ تھوڑا نروس بھی تھی باہر کی دُنیا اس نے دیکھی کہاں تھی وہ تو چار دیواروں میں قید رہتی آئی تھی بس آس پاس چند لوگوں سے مل جُل لیتی تھی ، یہ پارٹز اور دیگر تقریبًات کے بارے میں اسے کچھ زیادہ علم نہیں تھا ۔۔۔
وہ نو بجے کے قریب تیار ہوکر زبیر کا انتظار کرنے لگی جو نہ جانے دوپہر سے کہاں غائب تھا ۔۔۔
وہی جُوڑا جو صبح زبیر اس کےلئے لے کر آیا تھا پہنی تھی اسکے ساتھ میچ کی چوڑیاں اور ساتھ میں ایک نفیس سا اسکارف ۔۔۔
چہرے پر میک اپ کے نام پر پاؤڈر اور لب گلوز ۔۔۔
اس تیاری میں بھی وہ بہت خوبصورت لگ رہی ، قدرت نے اُسے بہت خوبصورت بنایا تھا ۔۔۔لیکن آنکھوں کے نیچے اب بھی کچھ نشان تھے جسے یہ معمولی میک اپ نہیں چھپاسکتے تھے۔۔۔
وہ ڈر بھی رہی تھی کہ زبیر اُسے تیار دیکھ کر بگھڑنے نہ لگ جائے ۔۔۔
تقریبًا ساڑھے نو بجے وہ آیا تھا، آتے ہی شاور لینے چلا گیا اُسکے بعد وہ خاموشی سے تیار ہونے لگا نہ ہی اس سے کوئی بات کی اور نہ ہی اُس نے اسکی طرف آنکھ بھر کے دیکھا۔۔۔
زارا کے دل نے یہ خواہش کی کہ وہ اسے سراہے ، اُسے بتائے کہ وہ کیسی لگ رہی ہے ،تیار بھی تو وہ اسکے لئے ہی ہوئی تھی۔۔۔
وہ ان سب سے بے خبر اپنی تیاریوں میں لگا رہا پھر اُسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم صادر کیا اور وہ کسی بچے کی طرح اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔۔
       _____*_____*_____*______
وہ بڑے سے کمرے لائٹ بند کیئے صوفے پر بیٹھا ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہا تھا ۔۔۔
پور کمرے میں سوائے ٹی وی لائٹ کے اور کوئی روشنی نہ تھی ۔۔۔
وہ رف سے حیلے میں ایک ٹانگ صوفے کے نیچے اور ایک  صوفے پر موڑنے کے انداز میں رکھے ہوئے کسی پروگرام کو دیکھنے میں مگن تھا جب موبائل پر رنگ ٹون ہوئی ۔۔۔
اس نےپہلی مرتبہ اسے اگنور کیا لیکن جب دوسری مرتبہ رنگ ٹون ہوئی تو اُس نے ہاتھ میں پکڑے بال کو جس میں پوپ کارن تھے سامنے ٹیبل پر رکھنے کے بعد ریمورٹ سے ٹی وی بند کیا اور لائٹ جلا دی اور ساتھ ساتھ موبائل پر موجود فرد کو سُننے لگا ۔۔کچھ دیر یونہی بات کرنے کے بعد وہ الوادعی کلمات ادا کرکے موبائل رک چکا تھا ۔۔۔
اور اب پھر سے پہلے والا منظر ، اندھیرے کمرے میں ٹی وی اسکرین کی روشنی واضع تھی ۔۔۔
       _____*____*_____*_____
وہ دنوں کچھ دیر ڈرائیو کے بعد اُس مقام پر پہنچے جہاں زبیر کے بہت سے ساتھی اُسکا انتظار کررہے تھے ۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہوئے سبھی ایک ایک کرکے اس سے ملنے لگے وہاں ہر کوئی اپنی فیملی کے ساتھ موجود تھا۔۔۔
زارا کبھی اسطرح کسی پارٹی میں نہیں گئی تھی لیکن وہاں دوسری فیملی کو دیکھ کر پُر سکون ہوگئی تھی کہ وہ اکیلی لڑکی نہیں تھی جسے اس میں مدعو کیا گیا تھا۔۔۔

کچھ دیر یونہی ملنے ملانے میں لگ گیا ، زبیر اپنے کسی دوست سے ملنے چلا گیا تھا ۔۔۔
زارا کب سے اس آدمی کی نظروں سے خوف کھا رہی تھی جو مسلسل اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا ہاتھ میں سگریٹ پکڑے وہ اسکے کش لینے میں مشغول تھا
اسے تنہا کھڑی دیکھ کر اسکی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔
یہ وہ واحد آدمی تھا جو پوری پارٹی میں الگ تھلگ نظر آرہا تھا ،باقی تمام افراد اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے لیکن جب زبیر نے اسکا تعارف کروایا تو اسکے ساتھ اسکی اہلیہ نہیں تھی ۔۔۔
اسکے چہرے پر سجی مسکراہٹ کو دیکھ کر زارا کا دل کیا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے۔۔۔
وہ دُعا کرنے لگی کہ جلد از جلد زبیر واپس آجائے ۔۔۔
جو ناجانے کہاں تھا ۔۔۔
انکی نظریں پوری محفل میں اُسے ہی ڈھونڈرہی تھی وہ جیسا بھی تھا کم از کم اسکا شوہر تھا ،اس پر ظلم کرتا تھا لیکن اللہ نے اُسے ہی اسکا محافظ چُنا تھا۔۔۔
وہ شخص ڈک بھرتے ہوئے اس کے سامنے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا اسکے منہ سے سگریٹ کی بُو زارا کو کھانسنے پر مجبور کرگئی۔۔۔
اُس نے کھانستے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
”اووو۔۔۔ یہ ۔۔۔"
سامنے کھڑا آدمی سمجھ گیا تھا کہ وہ اسکی بُو برداشت نہیں کرپارہی اس لئے اسے زمین پر پھینک کر پاؤں سے ملسنے لگا ۔۔۔
کچھ دیر اُسے دیکھنے کے بعد اپنا پہلا سوال کیا۔۔۔
”مس زارا۔۔۔۔ کیا آپ سچ میں زبیر کی بیوی ہیں ۔۔۔؟“
زارا کچھ بول نہیں پائی بس خاموشی سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھنے لگی ۔۔۔
”مس زارا ۔۔۔ آپ زبیر کی بیوی ہی ہیں نہ یا ۔۔۔؟“
یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی جو زارا کو خوف میں مبتلا کرگئی ۔۔
وہ درود پڑھتے ہوئے دل ہی دل میں زبیر کے آنے کی دُعا مانگنے لگی ۔۔۔
 وہ خود کو سنبھال کر مضبوط لہجے میں بولی تھی
”مس زارا نہیں مسسز زبیر ۔۔۔!!“
یہ کہتے ہی وہ وہاں سے جانے ہی لگی تھی جب اُس آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
زارا کا پورا جسم کپکپانے لگا تھا وہ اسکے چہرے سے ہی خوف کھا رہی تھی ،اسکی اس حرکت پر مزید گھبرا گئی کہ خود کو اس آدمی کے گرفت سے چھڑوا بھی نہیں پائی۔۔۔
”ارے آپ کہاں جارہی ہیں ۔۔۔میری بات تو سُنتے جائیں ۔۔۔“
وہ ہنسی کے ساتھ بولا تھا ۔۔
”دیکھیں پلیز چھوڑیں مجھے ۔۔۔
اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچا، وہ شخص اپنی پکڑ ڈھیلی کرچکا تھا اس لئے وہ خود کو اسکی گرفت سے چھڑوانے میں کامیاب ہوپائی تھی ،وہاں موجود سبھی افراد یہ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کسی نے بھی ان کے معاملے میں دخل اندازی کرنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔
ہاتھ چھڑا کر زارا دوڑنے کے انداز میں باہر کی طرف بھاگی تھی مگر سامنے سے آتے زبیر سے ٹکرا گئی ۔۔۔
اس تصادم سے وہ گرتے گرتے بچی تھی اسکے چہرے پر بے پناہ خوف تھا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے )

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.