*Dard e Dil *


 ٭درددل٭
تحریر:حنا شاہد
قسط نمبر :9

.....وہ کتنی ہی دیر وہاں ٹیک لگاۓ کھڑی رہی
اور آنکھوں کے گرد وہ سارے منظر گھومنے  لگے جب جب اس نے یہ سب چاہا تھا۔۔۔ جو اب ہوا تھا
۔اسے ذلیل و رسوا کرنے کے کتنے ہی جتن کئے تھے ۔۔۔اور اب جب وہ یہاں نہیں تھا تو اب بھی وہ خوش نہیں تھی۔۔۔۔
آخر کیا چاہتی تھی وہ ۔۔۔وہ خود ہی سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔
اس کے لئے وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا نہ اندر جاسکی تھی۔۔۔
اس لئے باہر دوڑ لگا دی اور اپنے کمرے میں آکے سانس لیا۔۔۔۔
یا اللہ کیا یہ صرف پچھتاوا ہے ۔۔۔۔کیا میں واقعی اپنی غلطیوں کا مداوا کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
یا پھر یہ کچھ اور ہے آخر کیوں وہ شخص میرے حواسوں پہ چھایا رہتا ہے۔۔۔۔
وہ خود کلامی کرتے ہوۓ رو دینے کو تھی۔۔۔۔جبھی اس کے کمرے میں مما داخل ہوئیں جنہوں نے غا لبا اسے اوپر سے اندھا دھند نیچے آتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔۔۔
کیاہوا شانی خیر ہے کوئی بھوت ووت تو نہیں دیکھ لیا جو یوں بھاگی آئی۔۔۔۔
ارے نہیں سویٹ موم ۔۔۔۔بھوت کی تو 
 ایسی کی تیسی۔۔۔اس نے ہلکا سا مسکرا کے لہجے کو بہت مضبوط رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
مجھے ایک ضروری کال کرنا تھی۔۔۔اچانک یاد آیا تو بھاگی آئی۔۔۔۔
(ہیں اتنا زبردست بہانا واہ شانی واہ۔۔)
وہ خود حیران رہ گئ۔۔۔تھوڑی دیر پہلے کے احساس بھی  
اب مکمل غائب ہو چکے تھے۔۔۔
اچھا کر لو کال اور جب فری ہو جاؤ تو
 تیار ہو کے آجاؤ۔تو ۔۔۔۔۔
شاپنگ پہ چلتے ہیں۔۔۔۔۔اگلا فقرہ شانزے نے پورا کیا۔۔۔۔
پھر دونوں کتنی ہی دیر ہنستی رہی۔۔۔۔یہ تو وہ دونوں جانتی تھیں کہ جو بھی ہو جاۓ مدیحہ کا شاپنگ سے دل نہ بھرتا کچھ نہ بھی لینا ہو وہ ونڈو شاپنگ ہی کر لیتی۔۔۔۔انہیں کریز تھا اس چیز کا ۔۔۔
اچھا بہن آپ چلیں میں آتی ہوں ۔۔۔شانزے نے دوستانہ انداز میں کہا۔۔۔اکثر وہ انہیں ایسے بھی مخاطب کر لیا کرتی 
مدیحہ تیار ہو کے شانزے کا انتظار کر رہی تھی۔۔تبھی وہ اپنے کمرے سے نکلی صاف
پہنے بلیک سینڈل  بلیک کلر کی قمیض اور پاجاما پہنے،نہ کاجل نہ لپ اسٹک نہ کوئی جیولری 
آہ یہ سادگی پہ خوبصورتی۔۔۔
توبہ یا اللہ ۔۔۔لڑکی یہ کیا بن کے آئی ہو ۔۔۔۔۔اتنے اچھے اور برانڈڈ ڈریس رکھے تھے میں  
نے تمہاری الماری  میں اور تم تم یہ کیا پہن آئی ہو  
۔۔۔ہم استغفراللہ کسی فوتگی پہ تو نہیں جا رہے ۔۔۔۔
مما ہم کسی شادی پہ بھی نہیں جا رہے ۔۔۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا
اور اتنا اچھا تو لگ رہا ہے ۔۔۔۔مجھ پہ بلیک کلر ۔۔ یو ڈونٹ وری آہاں اوکے 
دیکھو میں کلر نہیں  ڈریس کے ڈیزائن کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔مدیحہ نے ایک با پھر احتجاج کیا
افوہ مما بس کریں۔۔۔۔پہننے والا خوبصورت ہو تو  
ڈریس چاہے جیسا مرضی ہو۔۔ اچھا ہی لگتا ہے۔۔۔۔اس نے شان بے نیازی سے اپنے آپ کو سراہتے ہوۓ کہا۔۔۔
ویسے بھی میں برینڈڈ برینڈڈ سے اکتا گئ ہوں۔۔۔سادہ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔

وہ کہتے ہی آگے بڑھ گئ۔۔
جب مدیحہ بیگم پیچھے یہ سوچ کہ رہ گئ ۔۔ 
بدل گئ ہے یا پھر کچھ نا کچھ تو بدلا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے سبحان صاحب نے دونوں کو یوں تیار ہو کے جاتے دیکھا تو بولے بغیر نہ رہ سکے۔۔۔
یقینا شاپنگ پہ جایا جا رہا ہے۔۔
ہاں تو آپ کو کیا اعتراض ہے ۔۔۔
ارے بیگم ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ  کچھ دن تو بیٹی کو سکون کرنے دیتی آتے ساتھ ہی ڈیوٹی لگا دی۔۔۔۔۔
تو اس میں کیا ہے اچھا ہے گھومیں گی انجواۓ کرے گی ۔۔۔اب ہر کوئی آپ کی طرح بور تو نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
میں اتنے عرصے سے دو بورنگ لوگوں کے ساتھ رہ رہی ہوں ۔۔۔اب میری بیٹی آگئ ہے مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔۔۔
مدیحہ بیگم نے بات کے اختتام میں تائیدی نظروں سے  
شانزے کی طرف دیکھا۔۔۔
جبکہ سبحان تو دو بورنگ لوگوں میں الجھے ہوۓ تھے۔۔
مدیحہ بیگم اگر زین کو پتا چل جاۓ کہ آپ اس کے بارے میں اتنی نیک  
راۓ رکھتی ہیں ۔۔۔تو وہ تو سنتے ہی غش کھا کر گر جاۓ۔۔۔۔۔۔
سبحان صاحب نے محظوظ ہو کر کہا
۔۔۔آآ میرا مطلب زین نہیں تھا ارے وہ تو اتنا اچھا بچہ ہے ۔۔۔بہت خیال رکھنے والا محبت کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔مدیحہ بہت محبت سے کہہ رہیں تھیں۔
اچھا بس آپ ہمیں لیٹ کر رہیں ہیں۔۔پہلے ہی لیٹ ہو چکی ہیں ۔۔۔
چلو شانی۔۔۔انہوں نے پاس کھڑی شانزے سے کہا۔۔۔
جو  ان کی محبت دیکھ کے ابھی تک مسکرا رہی تھی۔۔۔
ان کی باتیں اور زین کے ساتھ  
ہاں چلیں مام۔۔۔۔
جاؤ بھئ جاؤ اللہ حافظ۔۔۔سبحان صاحب نے گویا اجازت دے ہی دی ہو
وہ دونوں بھی اللہ حافظ کہتیں
لاؤنج کے دروازے سے  باہر نکلتی پورچ میں داخل ہو گئیں جہاں گاڑی کھڑی تھی۔۔۔
شانزے نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوۓ ان کیلئے فرنٹ ڈور اوپن کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔زین اس دن سبحان صاحب کے ساتھ ان کے گھر آگیا۔۔۔۔
گھر کیا تھا اہل ذوق کا ایک اعلی نمونہ۔۔۔
زین عجیب سے احساسات میں گھرا ہوا تھا ۔۔۔
کتنے عرصے بعد اسے کسی گھر کی چھت نصیب ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔گھر جس کی چھت مضبوط ہونی چاہئے۔۔۔بارش بھی جس کا کچھ نہ بگاڑ سکے اتنی مضبوط چھت۔۔۔۔
 وہ اس وقت لاونج میں کھڑے تھے۔۔۔زین کی نگاہ بار بار اوپر چھت کی طرف جاتی گویا اس کے پکا ہونے کا یقین کر رہا ہو 
لیکن پکی چھتوں پر تو بڑے بڑے گاڈر ہوتے ہیں یہ کیسی چھت ہے جس میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ۔۔۔اور فرش سے بھی زیادہ خوبصورت ڈیزائن ہے۔۔۔۔
ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔اف اس کا دماغ گھوم گیا ۔۔۔۔۔
جب کچھ سمجھ نہیں آئی تو نیچے منہ کر لیا۔۔۔۔
امیروں کی امیر جانے۔۔۔۔
سبحان صاحب نے اسے غیر آرام دہ محسوس کیا تو اسے ایک کمرے تک لے گئے۔۔۔یہ تمہارا کمرہ ہے  تم فریش ہو کے آؤ میں ملازم سے کہتا ہوں کے کھانا لگاۓ۔۔۔۔
یہ کہتے ہی انہوں نے باہر کی جانب قدم بڑھاۓ۔۔۔۔
جبکہ زین کمرے کے وسط میں کھڑا تھا کہ ایک بار پھر بے اختیاری سے اس کی نظر اوپر چھت پہ گئ وہ بھی باہر والی سے زیادہ مختلف نہ تھی ۔۔بس کلر اور ڈیزائن الگ تھا۔۔۔۔اسے شدید پریشانی ہوئی۔۔۔۔۔۔
لیکن خود پہ قابو پاتے ہوۓ اس نے پکا ارادہ کیا کہ اب اوپر کی طرف نہیں دیکھے گا ۔۔۔۔جو ہونا ہو گا ہو جاۓ گا لیکن اب اوپر نہیں دیکھے گا۔۔۔۔۔
وہ حیران تھا کہ پہلے تو کبھی  اسے ایسا محسوس نہیں ہوا پھر آج کیوں۔۔۔
شاید  کسی گھر کی چھت اسے پہلے میسر نہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
اپنی سوچوں کے تانے بانے بنتا وہ نہا دھو کے باہر چلا گیا جہاں ایک جگہ سبحان صاحب اور دو لوگ اور  ٹیبل پہ بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔
اس نے بھی ساتھ والی نشت سنبھالی  تو سب نے کھانا شروع کیا 
کھانے کے دوران خاموشی رہی۔۔۔
اختتام پہ سبحان صاحب نے  قدرے بوڑھے عام سے حلیے والے ان دو مردوں سے زین کا تعارف کروایا کہ یہ اس گھر کے ملازم ہیں ۔۔۔اور زین کے بارے میں وہ غالبا پہلے ہی انہیں بتا چکا تھا۔۔۔۔۔
ملازم کے نام پہ زین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی بھلا کوئی ملازموں کے ساتھ بھی۔۔۔۔۔؟اس نے سبحان صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا وہاں ریاکاری کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں تھی۔۔۔
وہ بہت مرعوب ہوا تھا۔۔۔۔
کھانے کے بعدسبحان صاحب اسے اپنے بیڈروم میں لے گئے۔۔۔۔۔۔
وہ جو اتنی دیر سے ایک لفظ بھی نہ بولا تھا اب ہمت کرکے کہا

"سر میں اس قابل نہیں تھا۔۔۔ 
 کہ آپ مجھ پہ اتنا اعتبار کرتے۔۔
بیٹھو ادھر۔۔۔انہوں اس کے سوال کو یکسر نظرانداز  
کر دیا۔۔۔۔
میرے نزدیک غلام مالک کچھ بھی نہیں۔۔۔جو میرے ساتھ مخلص ہوتا ہے اسے میں یہاں جگہ دیتا ہوں۔۔۔انہوں نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔۔۔
اور رہا تمہارا سوال تو
مجھے چہرے پڑھنے آتے ہیں۔۔۔
تم جیسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں انہیں صرف سہارا چاہئے ہوتا ہے اور میں صرف تمہارا سہارا بننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔
لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔۔۔
پہلے ہمیں مل کے منیجر والا معاملہ حل کرنا ہے۔۔
میں نے  رپورٹ کروا دی ہے۔۔۔انکوائری
 وغیرہ ہورہی ہے۔۔۔۔۔جلد مثبت نتائج ملیں گے ۔۔بس تم  بھی احتیاط کرنا۔۔۔
کل چھٹی ہے تم یہیں رہنا ۔۔۔اللہ کرے جلدی کام ہوجاۓ گا انشاءااللہ
۔۔۔۔وہ کافی دیر تک باتیں کرتے رہے تھے۔۔۔
سبحان صاحب نے بتایا تھا کہ انکی لاہور اور کراچی میں فیکڑی ہے اور وہ اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ  کراچی میں رہتے ہیں اس لئے یہاں کبھی کبھی ہی
 آنا جانا ہوتا ہے ۔۔۔۔
اگلا  دن اس نے بے کار سا گزارا ۔۔۔ کہ شام میں منیجر اور اس کے ساتھ شامل دو لوگوں کی گرفتاری کی خبر آگئ۔۔۔
پولیس نے انہیں مکمل ثبوت سے اریسٹ کیا تھا ۔۔۔۔
وہ لوگ معمولی خراب ہوئی مشینوں کو ٹھیک کروا کے  
 کچھ مخصوص فیکڑیوں میں بھاری قیمت پر بیچ رہے تھے۔۔۔
اور اس کے علاوہ بھی  ایک دو ہیرا پھیری سامنے آئی تھیں ۔۔۔۔
زین نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔اسے ایک عجیب  سا سکون محسوس ہوا تھا۔۔۔  
سبحان صاحب بھی  بہت مشکور تھے۔۔۔
کہ ابھی تو شروعات تھیں یہ لوگ تو اسے کنگال کر دیتے۔۔۔
دراصل منیجر ان کے ایک دوست کا بھتیجا تھا۔۔۔
دوست کے اصرار پہ رکھ لیا ورنہ کچھ کچھ تو انہیں اندازہ تھا اس کی نیچر کا لیکن اس حد تک انہوں  نے سوچا نہیں تھا۔۔۔
اب وہ بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔
اور  ادھر زین کو بھی سارا دن بےکار پھرتےاس  گھر کی چھتوں کو گھورتے رہنے کے بعد  اب  آخر انکے پکا  اور مضبوط ہونے کا یقین آگیا تھا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسی رات سبحان صاحب نے زین کو  کوئی ضروری بات کرنے کیلۓ بلایا۔۔۔۔۔
زین کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے اسے اپنے پاس بیڈ پہ بٹھا لیا۔۔۔
میں تم سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔
تم نے بتایا تھا کہ تمہاری ماں تمہیں بڑا آدمی دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔۔
جی سر لیکن اب تو ماں ہی نہیں رہیں۔۔۔میں کوئی   بڑا آدمی بنوں  یا مزدور  رہوں وہ کونسا دیکھنے ائیں گی۔۔۔؟؟ 
زین نے آنکھوں  میں آتے آنسوؤں کو بمشکل روکا لیکن آواز پھر بھی لرزا گئ۔۔نہیں تم غلط سوچتے ہو ۔۔۔۔
اگر تمہاری ماں زندہ ہوتی تو تمہیں دیکھ کے خوش ہوتیں
لیکن اب ان کی روح کو سکون ملے گا۔۔۔
وہ کب چاہتی ہوں گی کہ تم  یوں ....
انہوں نے بات ادھوری ہی چھوڑ دی۔۔۔
""جبکہ زین کو آٹھویں کے امتحان میں پاس ہونے پہ اماں کا گھر گھر مٹھائی بانٹنا یاد آگیا۔۔۔
اور آنسو تواتر سے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔۔۔اس نے ان کے آگے بند نہیں باندھا بلکہ بہنے دیا ۔۔۔اس  بھری دنیا میں وہ ایک انسان کے سامنے خود کو مضبوط نہیں رکھ پایا تھا ۔۔۔۔۔
پھر اس نے   روتے روتے وہ سارا واقعہ سبحان صاحب کو سنایا۔۔۔۔۔
انکی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔۔۔زین کو گلے لگایا ۔۔۔
میں جانتا تھا تم واقعی ایک عظیم ماں کے عظیم بیٹے ہو۔۔۔
اور اب تم وعدہ کرو کہ اپنی تعلیم جاری رکھو گے۔۔۔۔۔
صرف ماں کیلئے نہیں بلکہ اپنے لیے اس ملک کے کیلئے۔۔۔
اس نے احتجاج نہیں کیابلکہ اثبات میں سر ہلا گیا۔۔۔۔
اور ہاں اخراجات کی بلکل فکر نہ کرنا ۔۔۔۔
 سب مجھ پہ چھوڑ دو اور بس تم اپنی پڑھائی کرو۔۔۔۔
اس بار وہ سر اثبات میں نہ ہلاسکا تھا۔۔۔۔
نہیں سر۔۔۔
۔میرے پاس بہت پیسے ہیں مجھے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔
سبحان صاحب ابھی جی بھر کے حیران ہوۓ تھے کہ اس نے ایک اور گزارش کردی 
مجھے فیکڑی میں نوکری  سے مت نکا لئے گا۔۔۔مجھے بغیر کام کرے پڑھنے کی عادت نہیں ۔۔۔
میں دونوں کام کر سکتا ہوں۔۔۔
اس نے پورے اعتماد سے کہا تھاسبحان صاحب نے بھی کچھ سمجھ نا سمجھ کے سر ہلا دیا ۔۔۔۔
لیکن ایک بات میری بھی ماننا پڑے گی تم ادھر رہو گے اسی گھر میں۔۔۔
ابھی میں ایک ہفتے کیلئے یہاں ہوں اس کے بعد 
اس کے بعد تم ملازم کے ساتھ یہیں رہو گے ۔۔
وہ انکار کرنا چاہتا تھا نہ اقرار ۔۔۔
انہوں نے بات ہی اتنی اپنائیت سے کی کہ اسے اپنی راۓ بے معنی لگی۔۔۔۔
اس نے قدرے کم مہنگے میں سکول میں داخلہ لے لیا۔۔۔۔۔جو کہ سبحان صاحب کے توسط سے ہی ملا تھا۔ اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا ایک بھی سرٹیفکیٹ بھی ۔۔۔لیکن پھر سکول نے بورڈ سے ساری کروائی کی اور اسے سکالرشپ پہ داخلہ مل گیا۔۔۔۔
پڑھنے میں تو وہ اچھا تھا ہی سو جلد ہی سارے سکول اور اساتذہ کی نظروں میں آ گیا۔۔۔۔
سبحان صاحب ایک دفعہ سرپرست کے طور پہ گئے۔۔۔تو انہیں وہاں وہ 
عزت ملی کہ رشک سے سینہ چوڑا ہوگیا۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں زین عزیز ہوتا گیا وہ اب اکثر صرف اس سے ملنے کراچی سے لاہور آتے۔۔۔
ماں باپ بہن  کی یادوں کے سنگ زین کا وقت گزرتا گیا۔۔۔
رات کو تیز روشنیوں میں بیٹھ کے پڑھتے ہوۓ اسے اپنے گھر کی مدھم سی لالٹین یاد آتی
صبح ماں کا سکول کیلئے جگانا ۔۔۔اور واپسی پہ دروازے پہ کھڑا ہونا یاد آتا
ؤہ دال کے علاوہ جو بھی کھاتا اسے گڑیا بری طرح یاد آتی کبھی کبھی تو نوالا حلق سے نہ اترتا
وہیل چیئر پہ بیٹھے ہر شخص پہ اسے ابا کا گمان گزرتا ۔۔۔۔۔
ان یادوں کے سہارے وہ جی رہا تھا مگر کبھی شکوہ نہیں کرتا تھا اللہ سے۔۔۔زین نے میٹرک  بھی بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔۔۔
اس نے اپنےعلاقے کے تمام سکولز میں ٹاپ کیا۔۔۔ جس سکول میں وہ پڑھ رہا تھا وہاں اس سے پہلے ایسا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔۔۔۔۔زین نے ریکارڈ بنایا تھا۔۔۔
اسے بہت عزت ملی تھی۔۔۔
اور اس  رات وہ   تکیے میں منہ چھپا کہ بہت رویا تھا۔۔
وقت پر لگا کے اڑ رہا تھا ۔۔۔۔
اس نے fscبھی ایک اچھے کالج سے کر لی ۔۔۔۔
وہ بہت خوبصورت نوجوان بنا تھا ۔۔۔6فٹ قد گلابی سفید رنگت براؤن بال اور  براؤن آنکھیں ۔۔۔وہ سادگی میں بھی دلکش لگتا۔۔۔سیرت و کردار میں بھی بےمثال جو اس کی شخصیت کو نمایاں کرتے۔۔۔لیکن یہاں پرواہ کسے 
وہ اپنے آپ کو اب بھی اسی گھر اسی محلے میں محسوس کرتا ۔۔۔جہاں اس نے اپنا آدھا  بچپن گزارا تھا ۔۔۔۔کہتے ہیں کہ وقت مرہم رکھ دیتا  ہے سب بھلا دیتا ہے ۔۔۔لیکن زین ان لوگوں سے اتفاق  نہ کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وقت کی ڈور میں آگے تو بڑھ رہا تھا لیکن پیچھے رہ جانے والوں کیلئے۔
""آجکل وہ فری ہوتا ۔۔۔سارا وقت فیکڑی کو دیتا۔۔۔...۔۔۔۔فیکڑی بہت ترقی کر رہی تھی کیونکہ منیجر ایماندار تھا۔۔۔
سبحان صاحب بھی بے فکر ہو گئے تھے۔۔۔۔انہیں زین اور منیجر پہ پورا اعتبار  تھا ۔۔۔اور وہ لوگ بھی ان کے اعتبار پہ پورا اتر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
FSC کے بعد اس نے کوئی ٹیسٹ نہیں دیا وہ Bscکرنا چاہتا تھا۔۔۔۔اس نے اپنی منزل کاپہلے ہی تعین کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک دن اچانک سبحان صاحب آۓ۔۔۔۔۔۔۔
انہں زین سے ضروری بات کرنا تھی۔۔
۔۔پوچھنے پر بتایا کہ تم میرے ساتھ کراچی چلو مجھے وہاں تمہاری ضرورت ہے۔۔۔
مجھے ایک ایماندار بلکل تمہاری طرح کا  منیجر چاہئے۔۔۔۔
تم آجکل فری ہو تو اس فیکڑی کی بجاۓ وہاں آ جاؤ۔۔۔
مجھے بھی سہارا ہو جاۓ گا اورتم بھی اپنا کام کرتے رہو گے ۔
۔۔۔۔زین تھوڑی سی تگ ودو کے بعد مان گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب زین سبحان صاحب کے ساتھ کراچی آگیا۔۔۔
۔۔فیکڑی میں منیجر کا عہدہ سنبھالا۔سنبھالا۔سنبھالا۔اور سبحان صاحب کا بازو بن گیا۔گیا۔گیا۔
وہ سبحان صاحب کی خواہش پرطہی ان کے گھر رہ رہا تھا 
۔ان کی فیملی سے مل کے اسے  یوں لگ رہا تھا جیسے سبحان صاحب اسکا ذکر گھر میں کافی سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔۔۔۔
مدیحہ سبحان کی وائف اسے اس کی حقیقی زندگی کی ساتھی لگیں۔۔۔
بلکل ان کی طرح نرم مزاج خوبصورت دل۔۔۔
بہت کم ہوتے ہیں ایسے جوڑے
وہ دونوں ہی دولت پہ مغرور نہ تھے اور نہ اس کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے تھے بلکہ وہ اچھائی کی ٹوہ میں رہتے اچھائی کے پیچھے بھاگنے والے۔۔۔
سبحان صاحب کی اکلوتی بیٹی شانزے تھی۔۔۔جس کے بارے میں زین  پہلی ملاقات میں تو اندازہ نہ لگا سکا تھا کہ 
وہ کیسی ہے۔۔۔
کیونکہ اس سے ملتے ہی اس نے کہا تھا 
اوہ تو آپ ہیں زین صاحب۔۔۔۔۔
اب زین کبھی" صاحب" ہونے پر حیران تھا کبھی مخاطب کے ماتھےپہ پڑے  بل دیکھ کے۔۔۔۔
بہرحال اس نے بھی  نظریں جھکا کہ جواب دیا جی یہ ناچیز ہی زین صاحب ہیں۔۔۔
اونہوں۔۔۔۔وہ پیرپٹختی چلیں گیں
لیکن دوسری ملاقات میں زین کو خوب اندازہ ہوگیا کہ موصوفہ کتنی
اچھی ہیں۔۔۔۔جب اسے لان میں تنہا دیکھ کے وہ کھا جانے والی نظروں سے لپکی تھی۔تھی۔۔۔
دیکھیں  مسٹر شکل اچھی اور ذہانت  ہونا  کوئی اہم بات نہیں 
اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے 
پاپا کو آپ میں پتا نہیں کونسے سرخاب کے پر لگے نظر آتے ہیں جو مجھے نظر نہیں آرہے۔۔۔
بس میں بتا رہی  ہوں جو آپ سوچ رہے وہ ہوگا کبھی نہیں۔۔۔۔
انگلی سے تنبیہہ کرتی یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔
تب پہلی بار زین کو صحیح معنوں میں معلوم ہواتھا کہ 
چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے بلکہ گھپ اندھیرا۔۔۔۔
اسے شانزے کی کسی ایک بات کی سمجھ نہ آئی۔۔۔۔سبحان صاحب اور مدیحہ نے اسے اتنا پیار دیا تھا کہ اسے شانزے کی باتیں خاص ناگوار نہ گزرتیں ۔۔۔لیکن اس نے سوچا تھا 
کیا انہیں کوئی شکایت ہوئی ہے  لیکن میں نے تو کبھی نظر اٹھا کہ دیکھا بھی نہیں۔۔۔ایسا کیا ہوا ہے 
مجھے یہاں نہیں رہنا چاہیۓ۔۔۔
میں کرتا ہوں بات سر سے۔۔۔
لیکن اس کے بات کرنے سے پہلے ہی سبحان صاحب نے خود اس سے بات کر لی۔۔
بات کیا کی بس راۓ ہی لی۔۔۔۔
"دیکھو بر خودار ۔۔۔۔۔جب تم میرے ساتھ یہاں آۓ تھے تب تک تو میرے ذین میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔ 
پھر رسمی سی گفتگو کے بعد اصل مدعے پہ آۓ
لیکن اب ہم دونوں میاں بیوی کی شدید خواہش ہے کہ ہم تمہیں اپنا داماد بنالیں۔۔۔
بیٹا تم ایسے ہیرے ہو  جیسے ڈھونڈے جاؤ بھی تو نہ ملے اور میری بیٹی بھی ایسی ہی ہے۔۔۔مجھے اس سے بہتر نہ اس کیلۓکوئی مل سکتا ہے۔۔۔اور تمہارے لئے۔۔
۔۔پھر قدرے توقف سے بولے
تم اسے میری خودغرضی نہ سمجھنا۔۔ وقت آنے پر تمہیں خود اندازہ ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔میری بیٹی بہت قیمتی ہے اور میں اسے کسی قیمتی ہاتھ میں دینا چاہتا ہوں ۔۔۔
بس یہ میری خواہش ہے جو صرف  تمہاری راۓ کی محتاج ہے۔۔۔۔
وہ تو گنگ رہ گیا۔۔۔۔
حیرت کا پہاڑ سر پہ آن گرا۔
یا اللہ یہ جو میں نے سنا ہے کیا واقعی دنیا میں ایسے ہوتا ہے۔۔
ایک ملازم کو اتنا بڑا درجہ۔۔۔
اور اوپر سے سبحان صاحب نے جن لفظوں مرییں بات کی تھی انکار کی گنجائش ہی کہاں تھی۔۔۔۔اور پھر وجہ بھی کوئی نہ تھی۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر خاموش بیٹھا تانے بانے بنتا رہا اور پھر گردن اثبات میں ہلادی۔۔۔
سبحان صاحب تو گویا شادئ مرگ کی سی کیفیت میں آگئے۔۔
انکھوں میں نمی سی دکھنے لگی۔۔۔
اور پھر ڈھیروں دعائیں دییں۔۔۔۔
بیٹا میں چاہتا ہوں باقاعدہ منگنی کر دی جاۓ
تاکہ لوگوں کو بھی علم ہوجاۓ۔۔۔۔۔
تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔۔
گو کہ زین اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح اتنا جذباتی اور خوابوں خیال میں رہنے والا نہیں تھا۔۔۔
لیکن اس بات پہ اس کی دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہو کے مدھم ہوئی تھی۔۔۔۔
اور وہ جیسے آپ کی مرضی سر۔۔۔ کہتا وہاں رکا نہیں کمرے سے باہر آگیا
لیکن
 باہر آتے ہی ذہن میں جھماکہ ہوا اور  اسے شانزے کی باتیں اور ان کا مطلب سمجھ میں آیا 
اوہ تو یہ بات تھی 
مجھے انکار کر دینا چاہئے تھا۔۔
کیا سبحان سر اپنی بیٹی سے زبردستی کر رہے ہیں۔۔۔۔
یہ بہت غلط ہو گیا ۔۔۔
لیکن وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں
۔جیسے سوالوں نے یک دم اسے بہت بے چین کر دیا۔۔۔
ساری رات وہ بے چینی سے کروٹ بدلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب وہ کیا کرسکتا تھا اسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
پھر اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ انکار کردے گا سر چاہے جو بھی سوچیں اس کے بارے میں لیکن زبردستی کسی کے زندگی میں شامل ہونا اسے گوارا نہ تھا۔۔
۔۔۔۔۔جاری ہے

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.