٭در جاناں ٭Dar e Jana*

Image may contain: 1 person, text
٭در جاناں ٭
تحریر: طاہرہ نقوی 
قسط : 9
اتنا بےحس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھر دیکھا
دکھ ہی ایسا تھا کہ رویا تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
وہ آج کافی دنوں بعد اس باغ میں آیا تھا۔ وہاں آکر احتشام نے ایک طویل اور خشگوار سانس اندر کھینچا تھا۔ اس گہرے سانس نے پلک جھبکتے ہی اس کی ساری تھکن دور کر دی تھی۔
 درختوں اور پھولوں سے اسے بچپن سے ہی محبت تھی اسی لیئے وہ خود کو ان کی رفاقت میں ہی پرسکون پاتا تھا۔
وہ ماضی کی یادوں سے نکلنے کے لیئے اکثر یہاں آیا کرتا تھا۔ کچھ دیر تک چلنے کے بعد وہ آرام کرنے کے لیئے قریب ہی پڑی ہوئی بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہاں ایک سکون  تھا۔۔۔۔ ایک ایسی خوشبو تھی جیسے اپنے اندر محسوس کر کے وہ خود کو زندہ محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر کے ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے بہت ہی اپنائیت بھرے انداز میں اپنے دونوں ہاتھ احتشام کی آنکھوں پر رکھ دیئے۔ ان ہاتھوں کو وہ بچپن ہی سے جانتا تھا۔۔۔۔۔وہ اس کے وجود کا حصہ تھے۔
"شہریار!" احتشام نے مسکرا کر اپنے ہاتھ اس کے گرد لپیٹ دیئے۔
"ایک تو آپ بھی فورا پہچان جاتے ہیں۔" شہریار  اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔
"بچپن سے ہی یہی کرتے آ رہے ہو تم!" احتشام نے اسے یاد دلانا چاہا ۔
"بچپن سے ہی آپ کے ساتھ جو رہا ہوں میں۔" وہ مسکرایا۔
"بھیا! آپ گھر سے اتنا دور کیوں رہتے ہیں؟ نہ کھانے پر آتے ہیں نہ ڈیڈ  سے ملتے ہیں۔۔۔۔۔اب تو آپ پینٹنگ بھی بہت کم کرتے ہیں۔" اس نے دکھ بھرے لہجے میں شکوہ کیا۔ احتشام نے کوئی تاثرات نہیں دیئے۔
"گھر میں ہے ہی کیا؟ صرف میں ہوتا ہوں اکیلے۔۔۔۔۔ یا پھر تم ہوتے ہو۔"
"مگر ساتھ کھانا۔۔۔۔مل بیٹھ کر باتیں کرنا آپ تو جیسے یہ سب کچھ کرنا بھول ہی گئے ہیں۔ حالانکہ خاندان کی بنیاد ہی مل کر بیٹھنے، باتیں کرنے اور دکھ سکھ بانٹنے پر استوار اور مستحکم ہوتی ہے۔ " اس نے کہا۔ احتشام کا رنگ حقیقت میں اڑ گیا۔
"اچھا آج ساتھ کھانا کھائیں گے! خوش؟" اس نے جھنجھلا کر کہا۔
"صرف ہم دونوں نہیں بلکہ ماما اور ڈیڈ بھی۔"
"نہیں آج نہیں۔۔۔۔ آج میرا دل نہیں چاہ رہا پھر کبھی۔" اس کا حلق خشک ہونے لگا۔
"اچھا۔۔۔ چلے آئیں سب چھوڑیں ایک مزے کی بات سنیں۔"
"سناؤ!"
"کراچی میں آرٹ ایگزیبیشن ہے۔ بہت سارے لوگ وہاں اپنی پینٹنگ کی نمائش کریں گے۔ وہاں لوگ  خریدنے اور پسند کرنے بھی آئیں گے تو میرا خیال ہے کہ اس بار آپ کو ضرور جانا چاہیئے۔" شہریار نےبڑے مان سے احتشام کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔ وہ اب کیسی گہری سوچ میں گم تھا اسے نفرت تھی اس آفندی ہاؤس سے وہاں کی دیواروں سے۔۔۔۔۔ اس گھر میں اس کے رونے کی آوازوں سے۔۔۔۔
احتشام کو یاد تھی وہ رات۔۔۔۔ وہ بھیانک رات ۔۔۔۔۔
درِثمن اور حسین شاہ آفندی تیار ہوکر نیچے آئے تھے۔ صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا۔ رات کو اس وقت بھی بادل گرج رہے تھے آسمان پر کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اس کا دل بھی خوف کے مارے کپکپا رہا تھا۔ احتشام بخار کی شدت کی وجہ سے بستر پر ادھر سے ادھر لوٹ رہا تھا۔ اس حالتِ بےقراری میں اس کے سرہانے کوئی نہ تھا۔ آٹھ سال کا بچہ اس وقت اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سونا چاہتا تھا۔ اپنے اندر کے ڈر کو ہمیشہ کے لیئے مٹانا چاہتا تھا۔ اسی امید کے ساتھ وہ ہمت کرتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتر کر دروازہ کھولنے لگا۔ ثمن اس کے سامنے کھڑی تھیں۔ اس نے درد بھری نگاہوں سے انہیں دیکھا تھا۔ کیا پکار۔۔۔ کیا التجا تھی ان آنکھوں میں کے وہ چاہ کر بھی کچھ بول نہیں  سکا۔ وہ چاہتا تھا کے آج ثمن زندگی میں پہلی بار اس کے پاس رک جائیں۔ اس کے دل میں خواہش تھی کہ وہ اسے یوں تنہا نہ چھوڑیں۔ وہ چلتا ہوا باہر آگیا۔ درِثمن نے ایک اچٹتی نگاہ احتشام پر ڈالی۔وہ اب بھی تک اپنے بال سوارنے میں مصروف تھیں۔ وہ ثمن کی طرف اس امید سے دیکھ رہا تھا کہ شاید۔۔۔۔۔۔دیکھیں گی۔
"چلیں ثمن دیر ہورہی ہے۔" حسین شاہ آفندی نے اترتے ہی ثمن سے کہا جو بے بسی کا عملی نمونہ بن کر ان کے سامنے کھڑی تھیں۔
 حسیں شاہ نے اپنے ہاتھوں میں شہریار کو لیا ہوا تھا۔ وہ تیزی سے دروازے کی جانب مڑ گئے۔
ثمن نے نظریں جھکا کر احتشام کو دیکھا تھا مگر پھر فوراً ہی نگاہ اٹھا لی۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ احتشام کے معصوم چہرے کو پڑھ سکیں۔ وہ  ابھی جانے کے لیئے آگے بڑھی ہی تھیں کہ احتشام  نے ان کی کلائی تھام لی۔
وہ سرکو نفی میں ہلا رہا تھا۔۔۔التجا کر رہا تھا کہ مت جائیں۔ اس نے پہلی بار کوئی گزارش کی تھی۔ثمن کا دل اچھال کر مٹھی میں آگیا تھا۔ وہ تڑپ    اٹھی تھیں۔۔۔
"ثمن چلیں دیر  ہو رہی ہے۔" حسین شاہ نے  انہیں غصّے سے  گھورا۔ دل کی کیفیت بدل گئی اور وہ احتشام کا ہاتھ جھٹک  کر مڑ گئیں۔۔۔۔
اس وقت وہ رونا چاہتا تھا چیخنا چاہتا تھا کہ کوئی تو ہو جو اس وقت اس کا درد بانٹتا ۔۔۔ کیا وہ ماں ہو کر ایک بار بھی پلٹ کر اپنے بیٹے کو سینے سے نہیں لگا سکتی تھی؟۔۔۔۔
وہ خالی نظروں سے ان کو جاتا دیکھتا رہا۔۔۔اتنی دیر میں رضیہ نے احتشام کو تھام لیا۔ اس دن آنسو  نہیں۔۔۔۔خون کے قطرے اس کی آنکھوں سے بہے تھے۔ اس دن اسے بادلوں کے گرجنے سے ڈر نہیں لگا تھا۔۔۔۔کیونکہ اس دن وہ اپنا آپ۔۔۔۔۔اپنا دل کھو بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
"بھیا بھیا!" شہریار کی آواز پر وہ واپس حال میں لوٹ آیا۔ وہ اس زندگی میں خوش تھا۔۔۔۔جہاں احساسات اور دل نہیں بس سانسیں تھیں۔۔۔۔
"ہوں؟" وہ چونک کر بولا۔
"کہاں کھو جاتے ہیں۔" شہریار نے غصے سے کہا۔
"کیا کہہ رہے تھے تم؟" احتشام نے دوبارہ پوچھا۔
"میں ایگزیبیشن کی بات کر رہا تھا آپ جائیں گے نا؟"
"نہیں!"
"مجھے پتہ تھا اسی لیئے میں نے آپ کا نام پہلے ہی درج کروا لیا۔" شہریار نے منہ بسورا۔
"یہ کیا بات ہوئی؟ پینٹنگ مجھے کرنی ہے اور نام تم نے درج کروا دیا۔"
"ایک ہی بات ہوئی اب آپ بس دماغ میں اچھی سی پینٹنگ سوچیں اور شروع ہو جائیں۔"
"اچھا بابا ٹھیک ہے۔ چلو آج ایک باری شطرنج کی ہو جائے!" احتشام اٹھ کھڑا ہوا۔
"بلکل! اور اس بار تیار رہیں ہار آپ کے مقدر میں ہو گی۔" شہریار نے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد لپیٹے۔
"دیکھتے ہیں۔" وہ دونوں اب گھر کی جانب روانہ تھے۔
***********
اسکی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہو گا
ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہو گا
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارہ ہو گا
یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور
اس نے دریا میں کہیں پاؤں اتارا ہو گا
زندگی اب کے میرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے یہی کھیل دوبارہ ہو گا
آج درِثمن کی مہندی کی رات تھی۔ آج کا دن اس کے لیئے قیامت کا دن تھا۔ وہ اپنی ہی سانسوں میں الجھ رہی تھی۔ آج زندگی کا ہر پل اسے موت سے بھی زیاده تکلیف دے رہا تھا۔ وہ دھڑکنیں جو کسی اور کے نام تھیں وہ اب دھڑکنا بند ہو گئی تھیں۔ اس کے اندر کا طوفان مٹ چکا تھا۔۔۔خاک ہو چکا تھا۔۔ پیلے رنگ کے جوڑے میں وہ بار بار اپنے ہاتھوں کی خالی لکیروں کو دیکھ رہی تھی۔ آنسو ان لکیروں پر گر کر اپنی فریاد سنا رہے تھے۔ وہ اپنے اردگرد سے بیگانہ ہو کر اپنی قسمت کو رو رہی تھی۔
"بس کردو ثمن! ان آنسوؤں کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ اب بس!" مسز گیلانی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اس کے گرتے ہوئے آنسو اب انکی انگلیوں کو بھگو چکے تھے۔
"میری زندگی وہ ہے۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ میری زندگی نہیں ہے۔"اس نے ان کے دونوں ہاتھ جھٹکے۔
"وہ تمہارے مقدر میں نہیں!"
"اگر وہ میرے مقدر میں نہیں تو پھر یہ زندگی بھی نہیں۔" اس نے درد بھرے لہجے میں اپنی ماں سے کہا۔ اس کی اس بات پر ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ انہوں نے ایک تھپڑ ثمن کے چہرے پر مار دیا۔
"آئندہ میں تمہارے منہ سے اس کا نام نہ سنو! چپ چاپ باہر آ جاؤ!" انہوں نے اسکا گھونگھٹ نیچے کیا۔اور پھر کمرے کا دروازہ زور سے مارتے ہوئے باہر نکل آئیں۔
"درِثمن نے اپنی آنکھوں سے گرنے والے آنسو اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کیئے۔ پھر خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا اور آئینے کے روبرو کھڑی ہوگئی۔ اور باری باری اپنی کلائیوں میں پہنے ہوئے گجرے  اتار کر نوچ ڈالے بلکل اسی طرح جیسے اس وقت اس کے دل کو جیسے کوئی مسوس رہا تھا۔ آج عشق کی آگ اس کے وجود کو جھلسا چکی تھی۔ مگر وہ جل کر مٹنا نہیں بلکہ امر اور لازوال ہوجانا چاہتی تھی۔
"میں صرف ریان کی ہوں۔۔۔" اس نے یہ کہہ کر اپنا رخ موڑا۔
**********
"ریان بیٹا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے؟ نہ کچھ کھایا ہے تم نے۔۔۔۔۔نہ کچھ پیا ہے۔۔۔۔۔خدا کیلیئے کچھ رحم کرو اپنی حالت پر۔۔۔" علی انصاری نے سامنے بیٹھے ریان کو مخاطب کیا جو سر جھکائے بار بار اپنے ہاتھ میں اس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھ رہا تھا۔جس پر اس نے درِثمن کے نام غزل لکھی تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔آنکھوں کے نیچے ہلکے صاف نمایاں تھے۔۔۔۔شیو بڑھی ہوئی تھی۔۔۔۔گریبان کھلا ہوا تھا۔۔۔اور اسکے ہاتھ میں بس وہ ایک کاغذ تھا۔۔۔
"مجھے اس کے پاس جانے دیں یا پھر مجھے یہاں اسی حال میں چھوڑ دیں۔" اذیت سے آنکھیں بھرنے لگیں۔
"اگر تمہاری بہن اور اس خاندان کی عزت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں تمہیں اسے صحرا میں بھی ڈھونڈنے کی اجازت دے دیتا۔ مگر گیلانی خاندان تو خود ایک صحرا ہے۔۔۔۔وہاں کی خاک تمہیں اپنے اندر لپیٹ کر نگل جائے گی۔" وہ اب اسے ماضی کی یاد دلا رہے تھے۔
"کیا ہر بار عزت کے نام پر محبت کو قربان کر دیا جائے گا؟" اس نے لب بھینچ کر کہا۔
"ہمیشہ سے یہی ہوا ہے۔۔۔۔مگر تمہارے چچا نے محبت نہیں عزت کو قربان کیا تھا۔"
"آخر کیا کیا تھا انہوں نے؟"
"تمہارے چچا نے ضد میں آ کر شجاع گیلانی کی بہن ردا سے بھاگ کر شادی کر لی تھی۔ اس دن میں نے دیکھا تھا گیلانی خاندان کا وقار۔۔۔۔ان کا سارا غرور خاک میں مل گیا تھا۔ اس دن ہمارا بھی سر جھک گیا تھا۔ وہ دونوں کبھی واپس نہیں آئے اور اس کی بہت ہی بھاری قیمت ہمیں دینا پڑی۔ ان کی دولت اور طاقت کہ وجہ سے ہمیں اپنا شہر اور دولت سب چھوڑنا پڑا۔ اس دن دو خاندانوں کی عزت پر آنچ آئی تھی مگر اب ہم دوبارہ ماضی کے سلسلوں کو دہرا نہیں سکتے۔ بہتر ہو گا کہ تم اس کو بھلا دو۔ اپنے لیئے نہ سہی مگر اپنی بہنوں کیلیئے۔"علی انصاری سخت لہجے میں بولے۔
"ابو ابھی آپ یہاں سے جائیں میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتا ہوں۔" وہ غمزدہ لہجے میں بولا۔ اس کی آنکھوں کی نمی اور زرد چہرے کو دیکھ کر وہ مایوس ہوئے۔ انہوں نے ایک سرسری نظر ریان پر ڈالی اور چلے گئے۔
اس نے آنکھیں بند کیں۔۔۔ان آنکھوں کے سامنے اسے ایک چہرہ نظر آیا۔۔۔ثمن کی جھکی جھکی نظریں۔۔۔اسکی آنکھوں میں محبت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔۔وہ اب اسکی زندگی سے دور چلی گئی تھی وہ اسکی لکیروں میں نہیں بلکہ کسی اور کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔۔۔۔۔
وہ جاناں کے در پر تھا۔۔۔۔یعنی وہ محبت کے در پر تھا۔۔۔۔وہ در جہاں سے رسوائیوں اور اذیتوں کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔۔۔۔۔وہ محبت کو حاصل کرنے سے پہلے ہی خود کو فنا کر چکا تھا۔۔۔عشق نے اسے فنا کر دیا تھا۔۔۔۔ریان نے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ دئیے۔۔۔۔۔وہ اپنی قسمت پر صرف اشک بہا سکتا تھا۔۔۔۔

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفان میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹو ہوئے پر شام کے بعد
رات بیتی تو گنے اپنے اور پھر سوچا
کون تھا باعثِ آغاز سفرِشام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی زور مرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد
********
بہار لوٹ آئی تھی۔ پھولوں کی مہک ہر طرف پھیل گئی تھی۔۔۔۔۔۔زرد پتوں کی جگہ نئی پھوٹنے والی پتیوں نے لے لی تھی۔
وہ لائبریری کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جیسے نوخیز بہار سے اپنی زندگی کو بھی تازگی سے بھر لینا چاہتی تھی۔
"یہ کہاں کھوئی ہوئی ہو آج تم؟" امِ ہانی نے اس کے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے پوچھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ اسکی سوچوں کا محور صرف ایک شخص تھا جسے وہ جاننا چاہتی تھی۔
"ماہم..!" ہانی نے اس بار زور سے اسکے کندھوں کو جنبش دی۔ ماہم ہڑبڑا کر پیچھے ہوئی۔
"کیا ہوا ہانی؟" اس نے چڑ کر ہانی سے کہا جو بغور ماہم کا جائزہ لے رہی تھی۔
"یہ پہلے تم مجھے بتاو کہ کیا ہوتا جا رہا ہے تمہیں؟ "
"کیا ہوا ہے مجھے؟" اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک بار پھر نظریں کھڑکی سے باہر جما دیں۔
"تم بدل رہی ہو۔۔۔لیکچر لینے تم نہیں جاتی۔۔۔۔ لائبریری میں سارا دن گم بیٹھی رہتی ہو۔۔۔بات کرو تو جواب نہیں دیتی۔۔۔۔کھوئی کھوئی سی رہتی ہو۔۔۔۔اور اب تو تم فوٹو گرافی بھی بہت کم کرتی ہو۔۔۔ مجھے بتاو آخر معاملہ کیا ہے؟ "ہانی بری طرح الجھی ہوئی تھی۔ ماہم نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر گہرا سانس لیتے ہوئے اٹھ گئی۔
"بس یونہی۔۔۔"اس نے بجھے سے انداز میں کہا۔
"ماہم ایسے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔"
"ہانی کیا بتاؤں! یہی کہ مجھے محبت ہو گئی ہے! "
"کیا کہا تم نے؟ "ہانی نے قریب آ کر اسکے شانے تھام لیئے۔
"مجھے محبت ہو گئی ہے!"
"کس سے؟"
"اس سے جسے دیکھ کر پروانے بھی اپنی روشنی بھول جائیں۔۔۔۔اس سے جس کا دل دھڑکتا نہیں بس۔۔۔"
"احتشام سے۔۔۔؟ "ہانی نے بمشکل پوچھا۔
"ہاں!"
"مگر یہ غلط ہے۔" ہانی نے اس کے کندھے پر سے ہاتھ ہٹائے اور خود کو سنبھالنے لگی۔
"محبت میں غلط اور صحیح کب دیکھا جاتا ہے۔" ماہم نے مسکرا کر کہا۔
"مگر شہریار ۔۔۔۔" ہانی بولتے بولتے رک گئی۔
"شہریار  کیا؟" اسے تجسس نے آ گھیرا۔
"کچھ نہیں مگر احتشام سے محبت؟ بہتر ہو گا اگر تم اس بات کو بھول جاؤ!" ہانی نے اسے مشورہ دیا۔
"مگر کیوں؟" ابھی وہ کچھ کہنے والی تھی کہ سعد نے آ کر دونوں کو لیکچر ہال جانے کو کہا۔
"جلدی چلو کلاس شروع ہو چکی ہے!" ہانی سعد کے پیچھے چلنے لگی جبکہ ماہم کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے ۔۔۔۔اسے ہانی کی بات سمجھ نہیں آئی تھی ۔

بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا ایک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا ایک شخص
تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے فسانہ بنا گیا ایک شخص
                          *************
مہندی کی رسم ہو چکی تھی۔۔۔دو دن بعد اسے کسی اور کی دلہن بنے کی دیر تھی۔۔۔وقت گزر رہا تھا اور سانسیں بھی چل رہی تھیں مگر ان سانسوں سے اس کی زندگی نہیں چل رہی تھی۔ آنسو اس درجہ بہہ چکے تھے کہ ان خشک آنکھوں میں غم کے سوا کچھ نہ بچا تھا ۔
اس نے آج اپنے لیئے فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کے پاس زندگی جینے کا بس ایک راستہ تھا اور وہ اس کے بھائی ابراہیم کے پاس تھا۔ اس نے بہت مشکل سے خود کو سہارا دیا اور پھر دبے قدموں سے چلتی ہوئی ان کے کمرے میں آگئی۔
"ثمن!" وہ آج ہی حویلی واپس آئے تھے۔ ثمن کی حالت دیکھ کر وہ صدمے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔  وہ آہستہ آہستہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔۔۔
"بھیا! بھیا!" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔ وہ اس کے مزید نزدیک آئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"کیا ہوا ہے ثمن!" انہوں نے اسے سہارا دیتے ہوئے قریب ہی رکھے صوفے پر بٹھایا۔
"م۔۔۔ مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔وہ میرا منتظر ہے بھیا! وہ مر جائے گا۔۔۔پلیز مجھے یہاں سے لے جائیں میرا دم گھٹ رہا ہے بھیا!" وہ رو رو کر التجا کر رہی تھی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کے مزید کچھ بولتی۔ رونے سے اس کی پلکوں پر آنسو جم گئے تھے اور غم کی شدت سے دہک اٹھے تھے۔
"چچا جان نے جھوٹ بولا تم سے؟ کیا تم کسی اور سے محبت کرتی ہو؟" وہ لمحے بھر کو رک گئے۔
"محبت نہیں رہی بھیا۔۔۔۔مجھے اس سے عشق ہوگیا ہے۔" آنکھوں کی نمی میں گویا ستارے جگمگا رہے تھے۔
"کیا تم شادی سے پہلے بھاگ جانا چاہتی ہو؟"
"ہاں میں بس یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔مجھے دل کی دھڑکن چاہیئے۔۔۔۔مجھے ریان چاہیئے۔۔۔۔میں کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔۔۔۔"
"تم فکر نہیں کرو میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔ تم صرف اس کی ہو جسے تم چاہتی ہو۔" انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔ مگر وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔
**********

آج رات وہ ایک بار پھر گھر پر اکیلا تھا۔ حسین شاہ اور درِثمن کسی دوست سے ملنے اس کے گھر گئے ہوئے تھے جبکہ شہریار اور سعد کہیں باہر کھانا کھانے گئے ہوئے تھے۔ اسے کل ہونے والے ایگزیبیشن کے بارے میں پتہ تھا اسی لیئے وہ کل کی تیاریاں کرنے لگا۔ اس نے کل ہونے والی ایگزیبیشن کیلیئے پینٹنگ کرنے کا سوچا۔ وہ اپنے اکیلے پن کو مٹانا چاہتا تھا اسی لیئے خود کو تنہائی سے دور کرنے کے لیئے وہ پینٹگ کرنے اپنے کمرے کی طرف گیا۔ اپنے اندھیرے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا دل بوجھل ہونے لگا۔ دبے قدموں کے ساتھ وہ چلتا ہوا کینوس کے رو برو کھڑا ہوگیا۔ یاسیت زدہ دل سے اس نے پاس ہی سے پڑا برش اٹھایا۔ کچھ لمحوں کی تاخیر کے بعد پیالے میں بھرے پانی میں برش ڈالا اور اپنے دکھ ان رنگوں میں سمیٹ کر کینوس پر بکھیرنے لگا۔ غموں کی سیاہ شامیں صاف ورق پر اتر رہی تھیں۔ آنکھوں سے ٹپکا ہر آنسو گویا آبشار تھا۔۔۔۔۔
ماضی اپنی تلخ شیریں جزئیات کے ساتھ اس کی سوچ کے کینوس پر منتقل کررہا تھا۔ تلخ شیریں یادوں پر تلخی غالب ہونے کی بنا پر اس کینوس پر زرد حصہ نمایاں طور پر غالب تھا۔ کچھ لمحوں میں یہ قنوطیت اس قدر غالب ہوگئ تھی کہ پورا کا پورا درخت ہی بے برگ وبار نظر آرہا تھا۔
اس درخت کے اردگرد اس نے ہر طرف پتے بکھیر دئیے تھے۔ ابھی وہ مزید زرد رنگ اس تصویر میں بھرنے کیلئے برش اُٹھا ہی رہا تھا کہ اسی دوران۔۔۔۔۔وہ یادیں نمی کی صورت میں اس کے رخساروں پر سے گرنے لگیں۔ اسے یاد تھا وہ لمحہ جب اس کی بڑی ماما اس کا ہاتھ ثمن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اسے چھوڑ کر جا رہیں تھیں۔ اسے یاد تھا کس طرح وہ انجان لوگوں میں خود کو سہما ہوا محسوس کر رہا تھا۔ اس کی سانسیں جیسے چلنا بند ہوگئیں تھیں۔ کتنی ہی دیر تک وہ اپنی سوچوں میں گم اپنے بھیانک ماضی کو رنگوں کی تشکیل دیتا رہا۔ اس نے برش اٹھا کر واپس رکھ دیا اور پھر ان بہتے ہوئے رنگوں میں اپنا کھویا ہوا آپ ڈھونڈنے لگا۔ مگر اسے کچھ نہیں ملا۔۔۔۔ اگر کچھ باقی تھا تو وہ ماندہ ہرے پتے رہ گئے تھے مگر وہ بھی پس منظر میں چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔وہ اب خود کو اس تصویر سے دور کرنے لگا۔۔۔۔۔ اب اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ پسینے سے شرابور وہ ایک لمحے کیلئے بھی اس کمرے میں نہ رہ سکا اور تیزی سے نکلتا ہوا کمرے سے باہر آگیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ اب اپنے دل کو تسکین بخشنے کے لیئے وائلن لینے سٹور میں چلا گیا۔ وہ اکثر وائلن کی دُھن سے اپنےاندر کی بے چینی کو مٹانے کی کوشش کرتا تھا۔ وائلن کو بجاتے ہی وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگا۔
نہ کوئی خواب نہ ماضی ہے۔میرے حال کے پاس
کوئی کمال نہ ٹھہرا میرے زوال کے پاس
نہ میٹھے لفظ نہ لہجہ ہے اندمال کے پاس
فراق و وصل کے معنی بدل کے رکھ دے گا
برے خیال کا ہونا میرے خیال کے پاس
مسرتوں کے دکھوں کا تو ذکر ہی بےکار
کہاں ہے۔کوئی مداواکسی ملال کے پاس
*********
آج رنگا رنگ فن و مصوری کی اعلیٰ نمائش تھی۔ ماہم  تو پوری رات خوشی کے مارے سو نہ سکی کہ کل اسے نمائش میں اپنی فوٹو گرافی کے  جوہر دیکھانے کا موقع ملے گا۔ صبح ہوتے ہی اس نے کیمرے کے لینس فکس کر لیئے تھے۔ اب اسے صرف جانے کی اجازت چاہیئے تھی۔ اس نے صبح حذیفہ کو خود ناشتہ کروا دیا تھا پھر ڈاکٹر کے ساتھ مل کر اس کی فزیوتھراپی کروائی۔ حذیفہ بھی ماہم کے ساتھ مانوس تھا۔ اس لیئے خوشی خوشی تھراپی کروانے لگا۔ الیاس ہمدانی دو دن بعد گھر آئے تھے۔ انہیں اکثر کام سے باہر جانا ہوتا تھا۔ ماہم حذیفہ کو دوائی دے کر نگار ہمدانی کے کمرے میں لے گئی۔ وہ ہمیشہ ان کے کمرے میں ہی سویا کرتا تھا۔ پھر سارے کام نمٹا کر وہ جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ تیاری مکمل ہونے کے بعد وہ اپنا سامان بیگ میں ڈال کر لاؤنج کی طرف بڑھی۔ اس وقت الیاس ہمدانی فون پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ ماہم خود ہی چلتی ہوئی ان کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ اب ان کے فون بند ہونے کی منتظر تھی۔ ماہم کو خود کی طرف بار بار دیکھتے ہوئے الیاس ہمدانی نے ایک ترچھی نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی کال کاٹ دی۔
"السلام علیکم بابا!" ماہم نے جُھک کر کہا۔
"وعلیکم اسلام!"
"بابا! وہ میں آج جو کراچی میں نمائش لگی ہے اس کیلئے فوٹو گرافی کرنےجا رہی ہوں۔" اس نے تھوک نگلتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔
پہلے تو وہ خاموش رہے پھر بھنویں سکیڑ کر اسے گھورنے لگے جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کی بات سے خوش نہیں ہوئے۔
"کیوں جانا ہے؟ میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ اب سے ان خرافات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ " انہوں نے غصے سے ہنکار بھرا۔
ماہم کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔شاید وہ بے بسی کے احساسات تلے کراہ رہی تھی۔
"مگر بابا! آپ جانتے ہیں کہ یہ میرا جنون ہے۔۔۔۔یہ میری زندگی ہے۔۔۔۔" اس کا لفظ لفظ غم میں بہہ رہا تھا۔
"یہ کام کرنے کے بجائے اگر آپ اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دیتی تو اچھا تھا۔"
"بابا! ڈاکٹری آپ نے مجھے اپنی مرضی سے دلوائی ہے۔" اس نے بے بسی سے انہیں دیکھا۔
"ٹھیک ہے! میں مزید آپ سے بحث نہیں کر سکتا آپ جائیں۔" انہوں نے کاٹ دار لہجے میں کہا اور پھر موبائل اٹھا کر میسجیز دیکھنے لگے جیسے ان کا ماہم ہے کوئی تعلق نہیں تھا۔۔۔۔ماہم کے پاس کہنے کیلئے مزید کچھ نہیں بچا اس لیئے وہ ان پر ایک سرد نگاہ ڈالتے ہوئے باہر نکلنے لگی۔
اس نمائش میں جانا اس کے دل کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ اس لیئے سخت حالات ہونے کے باوجود بھی وہ گھر سے نکل کر اپنے مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گئی۔
احتشام پوری رات سو نہیں سکا تھا اس لیئے وہ بغیر کوئی تیاری کیئے بے دلی سے اپنی بنائی ہوئی پینٹیگ نیچے لے آیا۔ وہ شہریار کے آنے کا منتظر تھا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے تیاریوں میں مگن اپنے کمرے میں تھا۔ ناشتے کی ٹیبل پر حسین شاہ اور درِثمن بیٹھے تھے۔ گھر میں ہمیشہ کی طرح خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
حسین شاہ آج پہلی بار خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ احتشام ان کے سامنے کھڑا ہو اور انہوں نے کوئی طنز کا تیر نہ چلایا ہو۔ مگر وہ کہاں چپ رہنے والے تھے۔۔۔۔۔ان کی نگاہیں سامنے کھڑے احتشام کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ درِثمن کی گردن ہمیشہ کی طرح کسی مجرم کی طرح جھکی ہوئی تھی۔ آج بھی انکے لب خاموش تھے۔
"کیوں میاں ناشتہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے؟" حسین شاہ نے آخر کار سامنے کھڑے احتشام سے پوچھ ہی لیا۔ پوری رات کا جاگا ہوا وہ اس وقت اتنی سکت نہیں رکھتا تھا کہ حسین شاہ کے سوالوں کا جواب دیتا۔
"دل نہیں کررہا۔" احتشام نے دھیمے لہجے میں کہا۔
"کیوں؟ کہاں رہتا ہے تمہارا دل اور دماغ آج کل؟ اگر ان آوارہ گردیوں سے سے فرصت ملے تو تم کچھ کرو گے۔" انہوں نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
"شہریار نے ضد کی تھی مجھ سے ورنہ میں یہاں کبھی نہیں جاتا۔" اس نے جل کر جواب دیا جس پر حسین شاہ کا رنگ فق ہوگیا۔
"سن رہی ہیں ثمن اب یہ ہمیں دوبدو جواب دے گا۔" انہوں نے درِثمن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ درِثمن کے پاس جواب میں کچھ نہیں تھا انہوں نے منہ پھیر لیا۔ وہ کہتی بھی تو کیا؟۔۔۔۔
اتنی دیر میں شہریار اتر کر نیچے آگیا۔ احتشام کی شکل دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ یقیناً کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ اس نے فوراً حسین شاہ کی جانب دیکھا جو غصے میں تھے۔ احتشام شہریار کو آتا دیکھتے ہی وہاں مزید ٹھرنے کے بجائے باہر نکل گیا اور شہریار بھی لب بھینچ کر غصے میں اس کے پیچھے چل دیا۔
گاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ احتشام اور شہریار گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ شہریار جانتا تھا احتشام غصے میں ہے۔ اس لیئے اس نے بھی احتشام سے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے تھے۔ اس رنگوں سے بکھری ہوئی نمائش میں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ ہر طرف رنگوں اور مصوری کی نمائش نظر آرہی تھی۔ احتشام کو وہاں کوفت محسوس ہونے لگی۔ لوگوں کے ہجوم سے وہ بچپن سے ہی چڑتا تھا۔۔۔۔ اب وہاں کھڑے ہو کر وہ الجھ رہا تھا۔
"اف! کتنا رش ہے۔ میں تو آدھے گھنٹے میں ہی یونیورسٹی کیلیئے نکل جاؤں گا۔" شہریار گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ احتشام بھی ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ ابھی وہ لوگوں کو آتا جاتا پینٹنگ کرتے ہوئے دیکھ ہی رہا تھا کہ سامنے سے آتی ماہم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر بل صاف نمایاں ہوگئے۔ ناگواری کے تاثرات صاف اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔ اس نے اشارے سے شہریار کو سامنے کھڑے ہونے کو کہا۔
"میرے سامنے کھڑے ہوجاؤ ذرا بس میں نظر نہ آؤں۔" اس نے شہریار کے سامنے سرگوشی کی اور خود دوسری طرف دیکھنے لگا۔
"مگر کیوں؟" شہریار نے پوچھا۔
"میں کہہ رہا ہوں ایسے ہی کھڑے رہو۔" اس نے ابھی کہنا چاہا تھا کہ ماہم پہنچ گئ۔
"لو آگئی بولنے کی مشین۔" احتشام نے بہت آہستہ سے کہا۔ ماہم کو دیکھ کر وہ صاف اسے اگنور کررہا تھا۔
"ارے آپ لوگ؟ اب یہ تو اتفاق سے کم نہیں کہ آپ بھی یہی ہیں۔" ماہم نے خوشگوار لہجے میں کہا۔ احتشام نے اچٹتی نگاہ شہریار پر ڈالی جو بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکے ہوئے تھا۔
"ہاں بھیا آرٹسٹ ہیں اسی لیئے میں انہیں بھی یہاں لے آیا"۔ وہ ماہم کو بتانے لگا۔
"ہاں میں نے دیکھی ہیں ان کی پینٹنگ۔۔۔۔" احتشام کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک نمایاں ہوئی۔
"میں اندر جا کر اینٹری کرواتا ہوں" احتشام یہ کہتے ہوئے اندر جانے لگا۔
"بڑے ہی اکھڑ مزاج ہیں تمہارے بھیا! اچھا مجھے اس ایونٹ کی تصویریں لینی ہہیں میں اب چلی۔" وہ یہ کہہ کر مُڑی ہی تھی کہ شہریار نے اس کی کلائی تھام لی۔
"ایسے ہی ہنستی رہا کرو!"وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ ماہم حیران ہو کر اس کی بات پر غور کرنے لگی۔۔۔۔ اس نے پہلے کبھی اسے یوں نہیں روکا۔
"یہ تمہیں کونسا دورا پڑا ہے؟"
"کچھ نہیں!" اس نے سر جھٹک کر کہا۔
"میں جا رہی ہوں اور اب مت روکنا مجھے"۔ اس نے انگلی اسے انتباہ کرتے ہوئے کہا اور پھر تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔
********
ابراہیم گیلانی درِثمن کا ہاتھ پکڑ کر اسے شجاع گیلانی کے سامنے لے آئے۔ آج اس گھر میں زندگی جینے یا پھر مر کر جینے کا فیصلہ ہونا تھا۔ اس حویلی میں آج بہت بڑی عدالت لگی تھی۔۔۔۔۔آج دل کی باتیں زبان پر لانی تھیں ۔۔۔آج محبت کی بھیک اپنی جھولی میں ڈالنی تھی یا پھر ساری زندگی اس جھولی کو ویران کر کر زندگی گزارنی تھی۔ آج عشق کی تڑپ تھی۔ آج اسے اپنے لیئے نہیں ریان کیلئے زندگی چاہیئے تھی۔
"چچا جان آج آپ کو اپنے بیٹے کی ایک بات سننی ہوگی۔ آپ کو اپنے بھائی کی قسم ہے چچا جان آج اپنا رخ ہماری طرف کر لیجئے۔" ابرہیم گیلانی نے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی۔ سحر گیلانی بھی حویلی کے کونے میں کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔
"خدا کیلیئے بس ایک بار ہماری بات سن لیجیئے۔" اس نے التجا کرتے ہوئے کہا۔
"بولو ابراہیم۔" ان کا رخ اب درِثمن کی طرف تھا جو خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ عشق کی آگ اسکے کمزور وجود کو جھلسا چکی تھی۔
"کیا آپ ایک بار بھی درِثمن سے اسکی مرضی نہیں پوچھیں گے یہ اسکی زندگی کا فیصلہ ہے اور آپ اسے یوں تڑپانا چاہتے ہیں؟ چچا چان زبردستی رشتے نہیں بنتے اور نہ ہی بنائے جا سکتے ہیں۔" اس نے نظریں جھکا لیں۔
"درِثمن کی مرضی؟ ارے! پوچھو اس سے ہم نے اس کے لیئے کیا کچھ نہیں کیا؟ اس کے لیئے اپنا شہر چھوڑا۔۔۔۔۔ اپنی پارٹی چھوڑی۔۔۔۔ ہر کام پر ایسے فوقیت دی۔۔۔۔۔ اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ بچپن سے آج تک ہمیشہ وہی ہوا جو ثمن نے چاہا۔ کیا وہ باپ جو بچپن سے اپنی بیٹی کی ہر خواہش کو پورا کرتا آرہا ہے وہ اتنا حق نہیں رکھتا کہ اس کی زندگی کا اہم فیصلہ خود کرے۔" ان کے لبوں پر ایک بھر پور تبسم بھر آیا۔
"مگر چچا چان یہ حق صرف درِثمن کا ہے۔ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔ وہ اپنا دل کسی اور کو دے چکی ہے پھر کیسے وہ کسی اور سے شادی کر لے؟" ابراہیم نے سوال کیا۔
"کیا خوب کہا تم نے بیٹا! اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی بیٹیاں دشمنوں کے حوالے کر دیں؟ ارے وہ لوگ جنہوں نے ہمارے خاندان کا سارے عام تماشہ بنایا؟ ان کو سونپ دیں اپنی بیٹی؟" وہ اشتعال میں آگئے۔
"وہ دشمن نہیں ہیں۔۔۔۔ دشمن آپ کی انا ہے چچا جان۔"
"ڈیڈ پلیز آپ مجھ سے جو کہیں گے میں وہ کروں گی مگر یہ نکاح یہ میں نہیں کر سکتی!" ان سب باتوں میں ثمن بھی بول پڑی۔
"میری زندگی میں ہر گز نہیں!" وہ اپنی ضد پر اڑے تھے۔
"ڈیڈ آپ کی بیٹی ہوں میں کیا آپ کو مجھ سے محبت نہیں؟"
"محبت ہے اسی لیئے کہہ رہا ہوں جو بہتر ہے تمہارے لیئے۔ سارے خاندان میں کارڈز بٹ گئے ہیں ہر جگہ تمہاری شادی کی دھوم ہے۔۔۔۔ میں یہ موقع کبھی نہیں گوانا چاہتا!"
"چچا جان آپ ایک بار ریان سے مل تو لیتے! وہ آپ کی بیٹی کی محبت ہے۔"
"شجاع! ثمن کی خوشی کی خاطر اسے ایک موقع تو دیں۔۔" مسز گیلانی جو کافی دیر سے خاموش تھیں وہ بول پڑیں۔
"بس! اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے ثمن تمہیں آج فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تمہیں انصاری خاندان سے تعلق رکھنا ہے تو اس دہلیز سے قدم باہر رکھنے پر دوبارہ یہاں واپس آنے کی کوشش نہیں کرنا۔ اور اگر مجھ سے تعلق رکھنا ہے تو اس گھر میں رہ کر کل اسد اللہ سے نکاح کرنا ہوگا۔" وہ فیصلہ سنا چکے تھے۔ یہ سن کر ثمن کو لگا وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی ہے۔ یہ کیسی آزمائش تھی؟ یہ وہ کیسے کہہ سکتے تھے؟ محبت اور اپنوں  میں چناؤ کرنا اس کے لیئے سب سے بڑا امتحان تھا۔ اس کے لب کپکپانے لگے۔۔۔۔۔وہ بے بسی کے شکنجے میں پھڑپھڑانے لگی۔ کیا بے بسی کا عالم تھا۔۔۔۔۔ کیا کڑا وقت تھا۔۔۔آج اسے محبت یا پھر رشتوں کی قربانی دینی تھی۔
"مگر ڈیڈ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں آپ کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟" وہ زخمی انداز میں کہنے لگی۔ اس کی بے چینی۔۔۔اس کی اذیت ابراہیم گیلانی محسوس کر چکے تھے۔
"بولو ثمن!" مسز گیلانی نے اس کا کندھا جھٹکا۔
"تمہارے پاس تین منٹ ہیں اس کے بعد وہی ہوگا جو میں چاہوں گا!" وہ سنگ دلی سے بول رہے تھے۔ ثمن کا دل بند ہونے لگا۔ آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی۔۔۔ آنسو اور دکھوں کا ایک نہ ختم ہونے والا احساس اس کے اندر بھر چکا تھا۔۔۔۔رونے سے اس کی آنکھیں خشک اور گال سرخ ہوگئے تھے۔
"بولو!" شجاع گیلانی نے کہا۔ اس بار اس نے آنسو پوچھ کر سامنے کھڑے ابراہیم کو دیکھا جو اب چل کر اس کے قریب آگئے۔
"تم جاؤ! میں مانا لوں گا انہیں!" انہوں نے ثمن کو اپنے اعتبار میں لینا چاہا۔
"مگر ڈیڈ۔۔۔"
"جاؤ! کہا نا میں نے۔" ان کے دوبارہ کہنے پر وہ پلکیں اٹھا کر اپنے سب ہی لوگوں سے جن سے وہ محبت کرتی تھی انہیں دیکھنے لگی۔ وہ نہیں جانتی تھی صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔
"میں جارہی ہوں۔" اس نے دبے لہجے میں کہا۔ اس وقت ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔۔ ایک ملال اور دکھ نے اسے آ گھیرا۔
"آج سے میں نے تمہیں اپنی زندگی سے آخ کیا۔۔۔۔۔ میرے لیئے تم مر گئی ہو۔۔۔" شجاع گیلانی کے الفاظ اس کے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح چبھے تھے۔
"ڈیڈ!" وہ اپنا آپ زمیں پرگرا چکی تھی۔
************
قسط : 10
درِثمن نے قدم ابھی دہلیز کے پار رکھنے چاہے ہی تھے کہ مسز گیلانی نے اسے روکنا چاہا۔ وہ درِثمن کو ہمیشہ کے لئے کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ شجاع گیلانی کا فیصلہ اٹل ہے وہ اپنے کہے سے کبھی نہیں پھریں گے۔
"رک جاؤ بیٹا! مت جاؤ ہم کیسے جیئنگے؟" انہوں نے بے بسی سے کہا۔ ثمن کو لگا اسکا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ وہ انکی طرف دیکھنا چاہتی تھی مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی ماں کی نظروں سے نظریں ملاتی۔ اس نے ہمت باندھی اور اپنے جذبات پر قابو پاتے ہی ایک قدم باہر نکال کر اس گھر کی دہلیز پار کرلی۔ اس وقت اس نے ایک بار مڑ کر ان سارے لوگوں کو جن سے وہ بے انتہا محبت کرتی تھی انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔ شجاع گیلانی نے خادم سے کہہ کر حویلی کے سارے دروازے بند کروا دیِئے۔ وہ وہاں کھڑی اپنی قسمت پر آنسو بہانے لگی۔ وہ وہاں سے بھاگ کر واپس اس حویلی میں جانا چاہتی تھی مگر اس حویلی کے دروازے اس پر اب ہمیشہ کے لیئے بند ہو چکے تھے۔
درِثمن رشتوں کو محبت کے لیئے ٹھکرا رہی تھی وہ محبت جو نجانے اسکے نصیبوں میں تھی بھی کے نہیں وہ اس منزل کے لیئے سب ٹھکرا کے نکلی جسکے نقوش اسکی لکیروں میں کوئی گہرائی بھی رکھتے تھے کہ نہیں۔۔۔۔۔
کیا یہ ممکن تھا کہ اسکے جزبوں کی شدت میں ان دونوں کا عمر بھر کا ساتھ لکھ دیا گیا ہوتا کیا یہ ممکن تھا کہ اسکی دعائیں عرش سے لوٹائی نہ گئی ہوتیں۔۔۔۔۔وہ حویلی کے درودیوار کو دیوانہ وار اپنی ہتھیلیوں سے چھو رہی تھی کہ شاید انکا لمس اپنے اندر سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جائے آنسو متواتر اسکے دہکتے گالوں کو بھگو رہے تھے۔ وہ حویلی کی دیواروں کو اک یاس اک تمنا اک حسرت سے چھوتی اپنی ذات کا وزن اُٹھائے خارجی رستے کی طرف قدم اٹھاتی گئی اسنے مڑکر آخری بار حویلی کو دیکھا دل میں ایک خواہش کی کونپل نے جنم لیا کہ شاید ان اونچی اونچی دیواروں کے اُس پار کھڑا اُس کا باپ اس کو واپس پکار لے اسکی محبت کو قبول کر لے مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس حویلی کی اونچی دیواریں بھی اسکے باپ کی انا کے آگے بہت چھوٹی ہیں۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ ساری خواہشات کہاں پوری ہوتی ہیں۔۔۔۔قسمت دور بیٹھی یک ٹک اسے تک رہی تھی۔۔ وہ کیا خاک جانتی تھی کہ ساری خواہشات ساری دعائیں کہاں بر آتی ہیں کچھ خواب تو ادھورے رہ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔۔اسوقت وہ کہاں کچھ بھی جانتی تھی اسکو تو بس عشق پکار رہا تھا جو وہ ایک انسان سے کر بیٹھی تھی اسکو تو بس اسکے درِ جاناں پر لوٹنا تھا اپنی منزل کو چھونا تھا درِثمن نے اپنے متواتر بہتے آنسوؤں کو اپنی ہتھیلیوں سے بےدردی سے پونچھ ڈالا اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب اسکے ہاتھوں کی لکیروں سے بےدردی سے ریان کا لکھا سدا کا ساتھ بھی مٹ گیا تھا
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
سراپائے عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے نہیں بادل ادگر جاؤں تو بہتر ہے
ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
دلوں میں فراق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
یسل ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں  کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے
***********
زندگی یوں ہی تو نہیں۔۔۔۔۔یہ پتے جو شاخوں سے جھڑ رہے ہیں۔۔۔۔یہ سرد ہوائیں جو چل رہی ہیں۔۔۔۔۔یہ سانسیں جو چل رہی ہیں یہ سب جاناں کی تمنا کر رہی ہیں۔ یہ ہواؤں کا تیز ہونا۔۔۔۔یہ پتوں کا زرد ہونا یہ وصالِ یار کی نشانیاں ہیں۔۔۔ مگر ان سب دوریوں میں ایک دل ایسا بھی ہے جو ملن کی آس رکھتا ہے۔۔۔۔جسے فراق نہیں ملن کی پیاس ہے۔۔۔ آج جیسے کوئی روشنی کسی دریچے کو کھولنے باہر آگئی ہو۔ درِثمن بھی طویل سفر کر کر اب درِ جاناں پر آچکی تھی۔
دل میں ایک عجیب س کفیت تھی ۔ آج وہ اس کے دروازے پر کھڑی تھی۔ محبت نے اسے کس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔
اس نے اس بوسیدہ دروازے پر دستک دی۔ وہاں کی ہوا سے بھی درد اور ازیت کی لہریں محسوس ہوتی تھیں۔ در در کی ٹھوکریں کھا کر آج وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچی تھی۔ سفر اتنا طویل تھا کہ بال سفید ہونے لگے تھے۔۔۔۔چہرے کی رنگت زرد ہونے لگی تھی۔۔۔۔ ہونٹ خشک ہونے کی وجہ سے زخموں سے بھر چکے تھے۔۔۔۔اور جسم میں جان نہیں بس سانسیں چل رہیں تھیں۔ آج مہینوں بعد اسکا سامنا ریان سے ہونا تھا۔ کیا وہ اس سے ملنے کیلئے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔۔کیا اس میں اتنی ہمت باقی تھی کہ وہ ریان کے سوالوں کا جواب دیتی۔۔۔۔اسکے سامنے اپنا زخمی دل رکھتی۔۔۔۔کیا وہ اس حالت میں تھی کہ وہ ریان کو سمجھاتی کہ اس نے عشق کی آگ میں خود کو جلا دیا ہے۔۔۔
سفید رنگ کی پھٹی ہوئی چادر میں لپٹی وہ ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ آنکھوں میں نمی نہیں پیاس تھی۔۔۔۔ایک ایسی پیاس جسے صرف محبت سیراب کر سکتی تھی۔۔۔۔درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ شاید اس درد کو سہنے سے بہتر مرنے کو ترجیح دیتی۔۔۔دروازہ کھلا اور سامنے کھڑے شخص نے پر تشویش نگاہوں سے درِثمن کو دیکھا۔۔۔
"ثمن بیٹی!" انہوں نے بے ساختہ کہا۔ اسکی حالت دیکھ کر انکا دل دہل گیا۔ اسکے زخمی وجود کو دیکھ کر وہ تڑپ گئے۔ علی انصاری کا دل منوں غم کے نیچے دب کر رہ گیا۔
"تم یہاں کیسے بیٹی!" انہوں نے اسکےسر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تو وہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"وہ کہتے ہیں کہ محبت اور رشتوں میں سے کسی ایک کا چناؤ کرو اور پھر۔۔۔۔سب کچھ مٹانے کو کہتے ہیں ۔۔۔میں نے سب کچھ ختم کر دیا۔ اپنے ہاتھوں سے میں نے اپنا نام مٹی تلے دبا دیا۔ انصاری صاحب بتائیے اور کیا قربانی مانگتی ہے محبت؟ یہ زخم بھر جائیں گے یہ جو یہاں چہرے پر ہیں یہ محبت کے نہیں بلکہ یہ اپنوں کے دیئے ہوئے ہیں۔ مگر جو زخم محبت نے دیا ہے وہ تو کبھی بھر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔بلکہ وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ گہرے ہو جائے گا
۔" وہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔
علی انصاری صاحب کا پورا وجود لرزنے لگا۔ ان سے درِثمن کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ انکا بس نہیں تھا کہ اسکے آنسو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔
"آؤ بیٹا! اندر آجاؤ تمہاری حالت ٹھیک نہیں۔" انہوں نے ایک بار پھر اسے اندر آنے کو کہا۔
"نہیں پہلے مجھے ریان سے ملنا ہے۔" اس نے بے دلی سے کہا۔
اسکا نام سن کر وہ چونک گئے۔ ابھی وہ پیچھے ہٹے ہی تھے کہ ریان کے قدموں کی آہٹ سن کر وہیں رک گئے۔ ریان آہستہ آہستہ دیوار کا سہارا لیتے ہوئے دروازے تک پہنچا۔ سامنے کھڑی درِثمن کو دیکھ کر اسکے قدم وہیں منجمد ہو گئے ۔۔۔خشک ہوائیں چلنے لگیں۔۔۔۔زمین پر گرے زرد پتے اب اپنا رخ بدل چکے تھے۔۔۔۔خالی خالی آنکھوں سے وہ اسے اجنبیت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اپنے پس مردہ اور تھکن سے بھرپور وجود میں بہت سی ہمت مجتمع کرتے ہوئے وہ مزید قریب آیا۔ درِثمن نے اپنے زخمی دل کو اسکےسامنے رکھ دیا۔ دو زخموں سے چور دل آج ایک دوسرے کی بے جان دھڑکنیں سن رہے تھے۔ آج پہلی بار ریان درِثمن کو اپنی رگوں میں دوڑتے خون سے بھی زیادہ قریب لگا تھا۔
"ریان! میں آ گئی ہوں میں تمہاری ثمن!" اس نے روتے ہوئے بے بسی سے کہا۔ ریان ابھی تک بس خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"درِثمن پلیز یہاں سے چلی جاؤ۔" ریان نے بڑے ضبط سے یہ جملہ ادا کیا۔ ثمن نے حیرانی سے ریان کو دیکھا وہ تو منتظر تھی کہ ریان اسکے دکھوں کو اپنی محبت میں سمیٹ لے گا مگر یہ کیا۔
"کیوں! کیوں چلی جاؤں۔۔۔۔ ریان بولو نا کیوں چلی جاؤں اور کدھر چلی جاؤں؟" وہ چیخی تھی۔
"کیونکہ اب تم میری نہیں رہی ہو تو جہاں سے آئی ہو واپس لوٹ جاؤ۔" ریان کو اپنی ہی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی سنائی دی۔ ریان نے کہتے ہی اپنا رخ پھیر لیا اور پیچھے درِثمن کے قدموں سے جیسے زمین ہی کھسک گئی وہ حیران تھی کہ اتنی بے اعتباری۔۔۔۔نہیں ناممکن۔ اسنے ریان کو بازو سے کھینچ کر اپنی طرف موڑا۔
’’اگر میں تمہاری نہیں رہی تو پھر اس پوری کائنات میں کس کی ہوں؟" اس کے آنسو ابھی تک بہہ رہے تھے۔
ریان نے اپنا بازو چھڑوایا اور پھر ہمت کر کے بولا۔ "پلیز ثمن بس تم یہاں سے چلی جاؤ۔" اس بار اسکی آواز کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں میں بھی نمی اور بے بسی تھی۔
اسوقت ریان کو درِثمن کے سوالوں سے زیادہ آسان دہکتے انگاروں پر کھڑا ہونا لگا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی ہی ہستی کو تہس نہس کر دیتا۔
"کیا بول رہے ہو جانتے بھی ہو تم مجھے خود اس منجدھار تک لائے ہو ریان جانتے ہو نا۔۔۔۔تو بتاؤ مجھے کہ کہاں چلی جاؤں؟" ثمن کی دھڑکنیں تھمتی جا رہی تھیں مگر اسکی آواز بلند ہوتی گئی۔ وہ ابھی تک خاموش تھا۔
"میں یہاں سے جانے کے لیئے نہیں آئی ہوں ریان علی انصاری! میرے پیچھے تمام کشتیاں جلا دی گئی ہیں ایسا مت کہو کہ میں یہاں سے چلی جاؤں میں کہاں جاؤں بتاؤ مجھے میں کہاں جاؤں؟" ثمن نے ریان کا گریبان تھام لیا۔
اور قطعی انداز میں بولی۔۔۔۔اس بار آواز قدرے دھیمی تھی۔۔۔
"میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا یا تو یہی در ہے یا پھر موت!"
ریان تڑپ اُٹھا۔
"ایسے نہ کہو ثمن میں تمہیں خود چھوڑ کر آؤں گا خدارا ایسے الفاظ منہ سے مت نکالو!"
ریان کا گریبان اب بھی ثمن کی ہاتھ میں تھا وہ اسکی تڑپ دیکھ کر طنزیہ مسکرائی۔
"جانتے ہو ریان میں نے تمہارے لیئے ہماری محبت کے لیئے اپنے سب پیارے رشتے قربان کر دئیے اور تم کہتے ہو کہ ثمن واپس چلی جاؤ کہ اب تم میری نہیں رہی۔۔۔۔۔ بابا نے کہا کہ یا تو وہ یا پھر تم میں نے تمہیں چن لیا اور تم کہتے ہو کہ میں واپس لوٹ جاؤں کہ میں تمہاری نہیں رہی۔۔۔۔میں اپنا نکاح چھوڑ کے آئی ہوں ریان اپنے ماں باپ بھائی کی خواہش کو ٹھکرا کے آئی ہوں اور تم کہتے ہو کہ ثمن لوٹ جاؤ کہ اب میں تمہاری نہیں رہی! وہ میرا سب کچھ تھے ریان! سب کچھ سمجھتے ہو تم؟" ثمن کی آواز پھر رندھ گئی۔
ریان اسکے ہاتھ تھامے بلکل ساکت کھڑا تھا کہ کہنے کو کچھ بچا ہی کب تھا اسکے پاس۔۔۔۔کہ جس کے قرب کے لیئے دید پیاسی رہتی تھی آج اسی کو خود سے دور کرنا کتنا سوانروح تھا کوئی اس سے پوچھتا۔
ثمن نے ریان کا گریبان چھوڑ دیا اور زمین پر جھک گئی وہ بڑبڑا رہی تھی۔
"ریان میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرو میں ساری زندگی اس دہلیز پر تمہارا انتظار کر سکتی ہوں بس میری اُمید کو مت توڑو! اس چراغ کو مت بجھاؤ ریان کہ یہ اندھیرا تمہاری ثمن کی جان لے لے گا۔"
ریان کو کوئی پوچھتا کہ موت کیا ہے تو اسکا جواب اسکی روح اسکی ذات اسکے انگ انگ سے واضح تھا اتنا بے بس جیسے بند قبر میں زندہ روح باہر نکلنے کو ترستی ہے پھڑکتی ہے مگر ہاتھ پاؤں ہلنے سے قاصر ہوں۔
علی انصاری دور کھڑے بیٹے کی تباہی کے منظر دیکھ رہے تھے مگر اب یہ سب انکی برداشت سے باہر تھا۔ وہ مضبوط قدم اُٹھائے ان کے پاس آئے اور ثمن کو زمین سے اُٹھایا۔
"ریان بس کردو ثمن بہت بڑا قدم اُٹھا کر تم تک آئی ہے اس نے ہمارے گھر میں اپنے قدم رکھ دیئے ہیں یہ اب ہمارے گھر کی عزت ہے۔ ریان تمہارا کل ہی ثمن سے نکاح ہوگا۔"
اتنے میں پھر ثمن کی آواز گونجی۔
"بھیک! محبت کی بھیک! عزت کی بھیک؟ تو وہ سب کیا تھا؟" وہ ریان کو دیکھنے لگی۔ اور اب سوچنے کی باری ریان کی تھی کہ اتنی بدگمانی۔۔۔۔۔
وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔ مگر اب آزمائش کی باری بھی تو اسی کی تھی۔
"کیا نہیں؟" ثمن بولی۔
"بھیک نہیں یا محبت نہیں!"
علی انصاری صاحب بیٹے کی حالت سمجھ رہے تھے وہی تو ذمہ دار تھے۔
"ایسی بات نہیں ہے بیٹا۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگے۔ ثمن نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
"نہیں انکل کوئی دوسرا نہیں اس آگ پر مجھے اس آدمی نے کھینچا ہے سنیچے گا بھی یہی ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔۔۔۔نہ محبت نہ اعتبار اور نہ ہی ثمن۔۔"
اور یہیں ریان کا صبر جواب دے گیا۔
"اسکو کہہ دیجیے کچھ نہیں بکھرے گا نہ محبت نہ اعتبار اور نہ ہی ہم دونوں مجھے اجازت دیجیئے کہ یہ نکاح آج ہی ابھی اور اسی وقت ہو گا۔" وہ اس کے قریب جھکا اور اس کی پلکوں پر جمع آنسوں اپنی انگلیوں سے پوچھنے لگا۔ ثمن کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔۔۔۔۔
ماضی کی یادیں ختم ہو چکی تھیں۔۔۔ وہ چائے کا کپ رکھ کر اس پرانی تصویر کو دیکھنے لگی۔ وہ ان دونوں کے نکاح کے دن والی تصویر۔
"ڈاکٹر ثمن؟ دوسرا مریض بھیج دوں؟" کسی نے کہا۔
"ہاں!" وہ یہ کہہ کر پھر کچھ اور سوچنے لگی۔ اسے لگا تھا کہ وہ محبت کو حاصل کر چکی ہے مگر وہ تو محبت کی شروعات تھی۔
نہ کوئی خواب نہ ماضی ہی میرے حال کے پاس
کوئی کمال نہ ٹھہرا مرے زوال کے پاس
نہ میٹھے لفظ نہ لہجہ ہی اندمال کے پاس
جواب کا تو گزر بھی نہیں سوال کے پاس
فراق و وصل کے معنی بدل کے رکھ دے گا
ترے خیال کا ہونا مرے خیال کے پاس
مسرتوں کے دکھوں کا تو ذکر بھی بے کار
کہاں ہے کوئی مداوا کسی ملال کے پاس
نہیں ہے کوئی بھی سرحد مرے جنوں آگے
جہان حسن جہاں ہے ترے جمال کے پاس
شکاریوں کی امیدیں سنورتی رہتی ہیں
طیور گھومتے پھرتے ہیں خوب جال کے پاس
تمہارے لفظ اسے کھینچتے تو تھے شہپرؔ
جنوب کیسے پہنچتا مگر شمال کے پاس
**********
ایگزیبشن شروع ہو چکا تھا۔ ہر آرٹسٹ ہال کے اندر پہنچ چکا تھا۔ سب ہی اپنی بنائی ہوئی تصویر کے ساتھ کھڑے تھے۔ کچھ لوگ صرف تصویریں خریدنے کی نیت سے وہاں موجود تھے۔ ماہم ہر مصور کے شاہکار کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتی ہوئی آگے بڑھتی جا رہی تھی کہ اچانک ایک تصویر کے آگے زمین نے اس کے قدموں کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں سے سیل رواں ہو گیا۔
"نہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بھی اس کی طرح ایسی کشتی کا مسافر ہے جس کا بادبان اجڑ چکا ہے۔" اس کی نظروں نے ایک بار پھر تصویر کا طواف کیا اور ناممکن اور ممکن کا طویل سفر چند گھڑیوں میں طے ہو گیا۔
اس کے لبوں سے بلکل آہستہ آواز میں چند لفظ ادا ہوئے ”احتشام علی انصاری“ جو اس بھری محفل میں اس کے بلکل قریب کھڑا تھا۔
ماہم کی آواز احتشام کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ احتشام نے نظروں کا رخ ماہم کی طرف موڑا یہیں وہ آگاہی کا وقت تھا جب ماہم کی بھی بھری نظريں اس سے سراپا سوال بن گئیں۔
اتنا درد۔۔۔۔ آہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس تصویر میں اتنا دکھ کیوں ہے؟“ اس نے ہاتھوں میں لیا ہوا کیمرہ بیگ میں ڈال لیا۔ اس کے سوال پر وہ خاموش تھا۔ اس کے پاس ماہم کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
"یہ بکھرے ہوئے سوکھے پتے؟ یہ زرد رنگ۔۔۔ آخر اتنا درد کیوں ہے اس میں؟" ماہم نے دوبارہ اس سے سوال کیا۔
"درد کو محسوس کرتے ہیں اور وہ درد جب اندر ہی اندر آپ کی روح کو زخمی کرنے لگے تو اسے اپنے دل سے نکال کر ان تصویروں میں بھر دیا کرتے ہیں۔ میں تو شاید اب تک اس درد کی شدت سے واقف نہیں ہوں۔" اس کے لہجے میں درد تھا۔ ماہم کا دل بھر آیا وہ اب اس سے مزید پوچھنا چاہتی تھی۔
"کب سے اس تکلیف کو خود میں سمیٹے ہوئے ہیں؟"
"تکلیف؟ ماہم میں تو خود بھی اس تکلیف کو کسی پیمانے سے مانپ نہیں سکتا۔" اس کے جواب پر ماہم کی آنکھيں نم ہو گئیں۔
"آج میں نے پہلی بار ایسی تصویر دیکھی ہے جس میں مجھے اپنا درد محسوس ہوا ہے۔ ان بکھرے پتوں میں مجھے اپنا کھویا ہوا وجود نظر آیا ہے۔
آخر ان رنگوں سے بھری آگ کو کیسے ایک کینوس پر سمیٹ لیا آپ نے؟" اس سوال نے احتشام کو مزید دکھی کر دیا تھا۔ وہ وہاں کیوں آئى تھی آخر کیوں وہ بار بار اس کے سامنے آجاتی تھی۔ کیا وہ اسے جاننے کی خواہشمند تھی؟ مگر احتشام تو اس سے دور رہنا چاہتا تھا۔ ماہم کی باتیں اکثر اس کے دل کے کسک  بھرے زخموں کو کھرونچوں سے پھر سے تازہ کر جاتیں۔ ان رنگوں میں گھلے عذاب کے دہکتے انگاروں کی گرمی ماہم نے محسوس کر لی تھی۔ احتشام جانتا تھا کہ اس کی روح پر لگے گھاؤ پہ اسکی آنکھوں سے بہتے گرم سیال کا پھایا لگایا جاسکتا تھا اور وہ ہرگز یہ کسی پر عیاں نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔
"میرے خیال سے آپ کو تشريف لے جانی چاہیئے۔" اس نے سرد لہجے میں کہا وہ اب منہ دوسری سمت کیئے ہوئے تھا۔
میں یہاں سے نہیں جانا چاہتی۔
کیوں؟“ وہ بولا۔
میں آپ کو جاننا چاہتی ہوں۔۔ آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کئی راز چھپے ہیں آپ کی ان تصویروں میں۔“ وہ کہنے لگی۔
اور مجھے کیوں جاننا چاہتی ہیں؟
کیونکہ ہر وہ چیز جسے دیکھ کر تجس ہوتا ہے اس جاننے کی خواہش ہوتی ہے۔“ وہ دھیمے لہجے میں اسے جواب دینے لگى۔ وہ مزید اسے کچھ نہیں کہہ سکا تھا۔
آگ کے قریب نہیں بھٹکتے ماہم۔۔۔۔ وہ جل کر راکھ کر دیتی ہے۔ میں نے تو کبھی شہریار کو اس آگ میں کودنے نہیں دیا تو پھر آپ کو کیسے؟“ احتشام نے بے یقینی بھرے لہجے میں کہا۔
اچھا چلے ٹھیک ہے مگر مجھے اپنا دوست ہی سمجھ لیں۔ میں دوستی نبھانے میں سب سے آگے ہوں۔“ اس نے بے تکلفی سے کہا۔
"ایسی دوستی کا فائدہ کیا جس میں صرف آپ بولیں گی اور میں سنوں گا؟"
"نہیں اس دوستی میں آپ بولیں گے اور میں سنوں گی۔" وہ بے ساختہ ہنسی۔
سوچ لیں۔
سوچ لیا۔“ وہ مسکرانے لگى۔ اسے ماہم کی باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی مگر شہریار کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کے ساتھ وقت بتا رہا تھا۔
چلیں میرے ساتھ۔“ وہ اسے اپنے ساتھ آنے کاکہہ کر آگے نکل گئی۔ احتشام نے دل ہی دل میں خود کو کوسا پھر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ ایک بہت ہی بڑی خوبصورت سی تصوير کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ احتشام بھی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس تصوير کا جائزہ لینے لگا۔
"اس تصویر کو غور سے دیکھیں احتشام اس میں کیا نظر آرہا ہے؟" اس نے مڑ کر احتشام سے سوال کیا۔ وہ ابھی تک اس تصوير کے رنگوں میں کھویا ہوا تھا۔ وہ ایک عام سی تصوير تھی جس میں مصور نے سورج نکلنے کا منظر مختلف رنگوں سے سجایا ہوا تھا۔ آسمان پر سورج کی کرنیں اس نے طرح طرح کے رنگوں سے سجائی ہوئی تھیں۔
منظر کو بہت خوبصورتی سے بکھیرا ہے اس مصور نے!“ احتشام نے شانے اچکائے۔
"نہیں اس تصوير میں زندگی ہے۔ ان رنگوں میں زندگى جينے کے رنگ ہیں۔۔۔۔۔ان کرنوں میں زندگى کی روشنی ہے۔ زندگی دکھ کا نام نہیں بلکہ زندگی تو ہنس کر جینے کا نام ہے۔ زندگی اتنی طویل نہیں ہے کہ اسے دکھوں کے نام کر دیا جائے۔ زندگى ایک تخفہ ہے اور یہ تحفہ نایاب ہے اسے ضائع کرنا بیوقوفی ہے۔ مرتے تو سب ہی ہیں کچھ غم لے کر چلے جاتے ہیں اور کچھ غم کو مٹا کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ زندگى کو محبت سے جیا جائے؟" وہ کہتی جا رہی تھی اور احتشام اس کی باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اگر زندگی ہی تکلیف دینے لگے تو؟“ اس نے افسردگی سے کہا۔
"ہر اس چیز کو زندگی سے دور کر دیں جو آپ کو تکلیف دے۔"
"اور اگر دل میں ہی سارے غم سارے درد جمع ہوں تو؟" آج پہلی بار وہ سوال کر رہا تھا۔ آج اس کا دل پہلی بار زندگى جینے کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔ وہ خود پر حیران ہو رہا تھا۔
"تو اپنے دل کو محبت سے بھر لیں۔" ماہم نے مسکرا کر جواب دیا۔ اس کے جواب پر دونوں کی نظروں کی زبان ایک دم سے ہی شانت ہو گئی ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔ احتشام مزید وہاں نہیں رک سکا اور پھر کچھ کہے بغیر وہاں سے جانے لگا۔ احتشام کو نظروں سے اوجھل ہونے کے ساتھ ہی ماہم کو اپنے گرد ہلچل محسوس ہوئی مگر وہ شاید کسی اور ہی مقام پر تھی وہ ان نظروں سے باہر آنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اپنے دل پر قابو پاتے ہی وہ بھی آگے بڑھ گئی۔
*********
احتشام تھک کر گھر میں داخل ہوا تھا۔ ابھی وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیئے آگے بڑھا ہی تھا کہ شہریار کی آواز پر وہ رک گیا۔
بھیا! وہ۔۔۔“ وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔ اس کو پریشان دیکھ کر وہ خود بھی گھبرا گیا۔
کیا ہوا؟" احتشام نے اسے کندھے سے تھام لیا۔ شہریار کی سانسیں بوجھل ہونے لگی تھیں۔ وہ گھبراہٹ کے مارے نيچے بیٹھ گیا۔
وہ ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ میرے ساتھ لے چلیں۔“ اس نے ماتھے پر سے پسینا صاف کیا۔ ماما کا لفظ سنتے ہی وہ وہی قدم جمائے کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی تاثرات نہیں تھے۔
نہیں! انہيں تمہارى ضرورت ہے شہریار!“ اس نے جانے سے انکار کیا۔
"بھیا ان کا بی پی لو ہے۔ آپ ان کے بڑے بیٹے ہیں ان کو آپ کی ضرورت ہے۔" اس نے احتشام کو احساس دلانا چاہا مگر وہ اس وقت شاید اس حالت میں نہیں تھا کہ وہ کچھ سنتا یا سمجھتا۔
"ان کو اپنے بیٹے یعنی تمہاری ضرورت ہے۔ اس نے یہ کہتے ہوئے دروازے کا لاک کھولا۔ شہریار نے یاسیت بھری سانس کھینچی۔
"بھیا مت دیں خود کو اتنی تکلیف۔۔۔ اس وقت ان کو آپ کی ضرورت ہے۔"
"میری ضرورت کسی کو نہیں ہے پلیز تم جاؤ!" اس نے غصے سے کہا اور پھر پیر پٹختے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
شہریار متاسفانہ نظروں سے شہریار کے چہرے پر ماں سے بے حسی کی حکایات کھوجنے لگا۔ وہ اب نا امیدہو کر نیچے آگیا۔
درِثمن سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئی تھیں۔ چہرے پر ٹھنڈے پسینے تھے اور جسم میں کپکپاہٹ تھی مگر پھر بھی وہ خود کو سنبھالنے میں لگی ہوئی تھیں۔ شہریار بھاگتا ہوا ان کے قریب آیا اور ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
ماما چليں ڈاکٹر کے پاس۔“ اس نے اپنائیت بھرے لہجے میں ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔ اور طبیعت ناسازی کے باعث ان کے ہاتھ لرزنے لگے۔
پ۔۔ پانی۔۔“ انہوں نے سامنے پڑے گلاس کی طرف اشارہ کیا۔ شہریار لمحہ بھی تاخیر کیئے بنا ان کو پانی دینے لگا۔ پانی کا گھونٹ پیتے ہی وہ خود کو بہتر محسوس کرنے لگیں۔ شہریار ایک بار پھر ان کے قریب بیٹھ گیا۔
چليں ماما! آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
میں ٹھیک ہوں بس تم جاؤ!“ انہوں نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
آپ ٹھیک نہیں ہیں چليں ابھی۔۔۔“ وہ زبردستی ان کو لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔
"شہریار مجھے اکیلا چھوڑ دو۔" ان کی آواز میں لرزش تھی۔ شہریار ان کے منع کرنے پر خاموش ہو گیا اور پھر اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔ ابھی وہ جانے لگا تھا کہ حسین شاہ کی آواز پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ اس کے کہنے پر گھر جلدی آگئے تھے۔ درِثمن ابھی تک صوفے سے ٹیک لگائے آرام کر رہی تھیں۔
ہاں بتاؤ اب ایسا کیا ہو گیا جو تم نے مجھے کال کرکے جلدی بلا لیا۔ تمہيں پتا ہے بزنس میٹنگ ہوتی ہے میری۔۔ سو کام ہوتے ہیں اب تمہارے بھائی صاحب تو سوائے مفت کی روٹیاں توڑنے کے کوئی دوسرا کام نہیں کرتا۔“ وہ آتے ہی اس پر برس پڑے۔ ان کی باتیں کافی حد تک تکلیف دہ تھیں۔
"ڈیڈ وہ ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور بھیا بھی گھر پر نہیں تھے تو میں نے آپ کو کال ملا دی۔" وہ تپ کر بولا۔ حسین شاہ ابھی تک وہیں کھڑے اپنے موبائل پر کام کر رہے تھے۔
"کیا ہوا ثمن کو؟" ان کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔
"میں ٹھیک ہوں اب۔" درِثمن نے خشک لہجے میں کہا اور پھر شہریار کو گھورنے لگیں۔
"لو تم نے بلاوجہ مجھے یہاں بلوا لیا۔ اور ویسے بھی یہ طبیعت خرابی کے ڈرامے تمہاری ماں کے بہت پرانے ہیں۔" انہوں نے تپ کر جتایا۔ ایسا کوئی موقع حسین شاہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے کہ جب وہ ثمن کی تذلیل کرنی ہو۔ درِثمن نے خون کا گھونٹ پی کر صبر کرلیا۔
"تو آپ نہ آتے مجھے نہیں پتا چلا کب شہریار نے آپ کو بلا۔۔۔"
"بس بس! پتا ہے مجھے سب آپ کو اپنے سابقہ بلکہ اپنے عاشق کی یاد آرہی ہوگئی۔۔۔۔ یہ سب محض ایک بہانہ ہے۔"  وہ سخت ناگواری سے کہنے لگے۔ اس کا نام یوں شہریار  کے سامنے لینا انہیں ایک احساس ندامت میں لے گیا۔ انہوں نے آنسو پوچھے اور مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئیں۔
"ڈیڈ آپ ہمیشہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ ماں ہیں میری۔۔۔ آیندہ اگر اآپ نے ایسا کچھ کہا تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا!" وہ ایک سرد نگاہ ان پر ڈالتے ہوئے مرے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
**********
وہ آج ایگزیبشن میں آیا تھا۔ اپنے ساتھ ایک باکس، برش، پینٹ اور کینوس بھی لایا تھا۔ یہاں آکر لوگوں کو دیکھ کر اسے اندر ہی اندر گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کے آس پاس نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی جگہ نظر آجائے جہاں وہ سکون سے پینٹ کر سکے۔ لوگوں کے ہجوم سے نکل کر وہ اب باہر آچکا تھا۔ یہاں پر لوگ کم تھے اور راستہ کھلا ہوا تھا۔ وہ اپنا سامان لے کر باہر لان کی طرف چلا گیا۔ پھر کچھ دیر تک سوچنے کے بعد کینوس کو ترتیب دے کر برش اٹھانے لگا۔ وہ کتنی ہی دیر سوچتا رہا کہ وہ کس چیز کو کینوس پر اتارے۔ جب کچھ بھی سمجھ نہیں آیا تو اس نے ایک بار پھر خزاں کے موسم کو اپنے دماغ میں سوچ کر پینٹ کرنے کا ارادہ کیا۔ ابھی اس نے کینوس پر برش پھیرنے کے لیۓ ہاتھ اٹھائے تھے کہ اس کو تصویر کھیچنے کی آواز آئی۔
ماہم وہیں سے گزر رہی تھی۔ اس نے باہر تمام لوگوں کی تصویریں لے لیں تھی۔ اب اسے اندر جا کر مزید تصویریں لینی تھی۔۔۔۔ اندر جانے سے پہلے اس کی نظر احتشام پر پڑی۔ ہوا کے سنگ اڑتی ہوئی اس کی لمبی زلفیں بار بار اس کے ماتھے پر گر رہی تھیں۔ ماہم کو لگا اس کا دل دھڑک نہیں رہا۔۔۔ اس کو اپنی دنیا خاموش محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنے بال پیچھے نہیں کئے بلکہ ویسے ہی پینٹ کرتا رہا۔ اس کے حسن اور خوبصورتی کے حصار میں وہ جکڑ چکی تھی۔ اس نے فوراً ہی اپنا کیمرہ نکالا اور اس کی تصویر لے لی۔
اس نے پیچھ پلٹ کر دیکھا تو ماہم کیمرہ لیئے کھڑی تھی۔ احتشام کے مڑنے پر وہ گھبرا گئی۔
"آپ نے میں میری تصویر کھینچی ہے؟" اس نے غصّے سے ہنکار بھرا۔
"نہیں تو!" ماہم نے ادھر ادھر دیکھا۔
"میں نے خود آواز سنی ہے۔" اس نے غصّے میں برش نیچے گرا دیا۔
"ارے! بہت خوش فہمی ہے آپ کو! میں کیوں لوں گی آپ کی تصویر؟" ماہم نے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔
"اچھا! لائیں کیمرہ دکھائیں؟" اس نے ہاتھ آگے بڑھائے اور سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔
"لو اب کیا کروں میں! آج تو پکا بے عزتی ہوگی میری!" وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
"آپ نے سنا نہیں ماہم! کیمرہ پلیز!" اس بار اس کا لہجہ مزید سخت ہوگیا۔ ماہم نے مزید کچھ نہیں کہا اور کیمرہ اسے دے دیا۔ وہ اب کیمرے میں اپنی تصویر ڈھونڈ ریا تھا۔۔۔۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے احساسات صاف نمایاں تھے۔۔۔۔ ماہم کے دل کا ہر دروازہ بند ہورہا تھا۔ اسے لگا وہ ابھی بے ہوش ہہوجاۓ گی۔ دل ہی دل میں اس نے ساری دعائیں مانگ لی تھیں اور اب صرف احتشام کے غصّے کے لیۓ خود کو تیار کر رہی تھی۔
"یہ لیں۔" اس نے منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کیمرہ اسے پکڑا دیا۔
"دیکھا میں نے آپ کو تصویر نہیں لی آپ تو عجیب ہیں بلاوجہ غصہ ہوگئے۔ ویسے پہلی بار آپ کو غصّے میں دیکھا مجھے تو لگا ابھی کسی آبشار کی طرح پھٹ پڑیں گے۔ ویسے میں آپ کو جذبات سے عاری سمجھتی تھی یہی کہ آپ کو تو نہ ہی غصّہ آتا ہے نہ ہی ہنسنا آتا ہے۔۔۔۔۔نہ ہی بولنا آتا ہے مگر آج پتا لگ گیا کہ آپ کو غصّہ آتا ہے۔ ورنہ میں تو آپ کو انسان ہی نہیں سمجھتی تھی۔۔۔" وہ ہنس ہنس کر کہنے لگی مگر  اس بار احتشام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ ماہم کیوں اسے جاننے لگی تھی۔۔۔اسے نفرت تھی جب لوگ اس کی زندگی کے بارے میں خود جانے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔اسے اپنے آپ کو کھولنا۔۔۔ اپنی ذات کو بکھیرنے سے نفرت تھی۔
"میرے خیال سے آپ کو یہاں سے چلے جانا چاہیئے!" وہ دانت پیستے ہوئے بولا ۔
"میں نہیں جارہی میں ابھی تو۔۔۔" وہ ابھی مزید کچھ کہتی مگر اس سے پہلے ہی احتشام نے اسے ٹوک دیا۔
"آخر آپ کا مسئلہ کیا ہے ماہم؟ کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھ پڑ گئیں ہیں؟ چاہتی کیا ہیں آپ؟ کیا آپ کو نظر نہیں آتا میں آپ سے دوستی یا کسی بھی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا! میں نے نا ہی کسی سے دوستی کی ہے اور نہ ایسے شوق رکھتا ہوں۔۔۔۔یہ دنیا یہ میری دنیا ہے۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوں اس میں! سمجھ آرہا ہے آپ کو؟ پتا نہیں ہر بار آپ وہی کرتی ہیں مجھے سمجھ نہیں آتا آخر کیا مسئلہ ہے؟ پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں!" وہ اس پر برس پڑا۔ ماہم ایک دم سکتے میں چلی گئی۔۔۔سامنے کھڑے شخص نے کیسے اس کی انا کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا۔ ماہم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
"آپ شاید حد سے زیادہ بدتمیزی کر رہے ہیں!" اس نے آنسو پوچھے۔
"ہاں کیوں کے میں ایک بدتمیز، بگڑا ہوا اور نفرت کے قابل انسان ہوں!" وہ نہیں جانتا تھا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ماہم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔وہ ایک دم پیچھ ہوئی اور پھر منہ پر ہاتھ رکھے وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔ مگر اس سب میں وہ کچھ تصویریں نیچے گرا گئی۔ احتشام اپنے بال نوچتے ہوئے زمیں پر گر گیا۔
چارہ ساز زخم دل وقت رفو رونے لگا
جی بھر آیا دیدۂ سوزن لہو رونے لگا
بس کہ تھی رونے کی عادت وصل میں بھی یار سے
کہہ کے اپنا آپ حال آرزو رونے لگا
خندۂ زخم جگر نے دل دکھایا اور بھی
جس گھڑی ٹوٹا کوئی تار رفو رونے لگا
صدمۂ بے رحمی ساقی نہ اٹھا بزم میں
جی بھر آیا دیکھ کر خالی سبو رونے لگا
تھا عدم میں کھینچ لایا آب و دانہ جب یہاں
دیکھ کر بیچارگی سے چار سو رونے لگا
آ گیا کعبہ میں جب محراب ابرو کا خیال
بیٹھ کر تسلیمؔ خستہ قبلہ رو رونے لگا
************

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.