٭درددل٭Dar e Dil *


٭درددل٭
تحریر:حناشاہد
قسط نمبر :11
مما آپ سمجھادیں پاپا کو مجھے تو وہ پندرھویں صدی کے باپ لگ رہے ہیں جو یوں مجھ پر اپنی مرضی مسلط کریں گے۔۔۔۔۔
حد ہوتی ہے مما حد ہوتی ہے۔۔۔
اف خدایا ۔۔۔یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔۔
اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔۔۔۔
لیکن شانی اگر تم کہیں اور انٹرسٹڈ نہیں ہو تو تمہیں کیا اعتراض ہے۔۔۔
اعتراض ہے مما اعتراض ہے۔۔۔کیا ہماری سوسائٹی میں لڑکوں کی کمی ہے جو پاپا ایک معمولی منیجر سے میری شادی کر رہے ہیں ابھی میں گریجویشن کر رہی ہوں ۔۔۔میں کوئی بوڑھی نہیں ہو رہی جو وہ اس  قدر جلد بازی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
۔۔وہ بہت غصے میں سب کہہ رہی تھی۔۔۔
بیٹا میں پھر بھی یہ کہوں گی تم ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچ لو۔۔۔۔
مما کیا ٹھنڈا دماغ کیا سوچوں۔
۔۔ok i know he is good looking n intelligent as well but mom do u think thats enough for me......
.تو بیٹا اور کیا چاہیۓ ہوتا ہے لائف پارٹنر میں۔۔۔۔۔وہ حیران ہوئی۔۔۔
مما کم از کم اسے اس سوسائٹی میں موو  کرنآ تو آۓ۔۔۔
جس کے ساتھ چلتے ہوۓ مجھے شرمندگی نہ ہو۔۔
۔اف شانی یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔
ہم نے تمہاری ایسی تربیت قطعا نہیں کی تھی ۔۔۔تم اتنی مادہ پرست ہوگی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔

اوہ کم آن ماما مجھے ایموشنل مت کیجۓ۔۔۔یہ حقیقت ہے۔۔
بس مجھے  یہ سمجھ نہیں آتی پاپا اتنے خود غرض کیسے ہو سکتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔
غصے اور جھنجھلاہٹ  سے کہتی   وہ وہاں سے جانے لگی جب پیچھے سے مما نے آواز دی۔۔۔
صبح تک مجھے اپنا فائنل ڈیسیجن بتا دینا۔۔۔۔
اونہہ مائی فٹ۔۔۔۔پیر ٹینچتی وہ اپنے کمرے میں آگئ

کمرے میں آکر بھی بے چین رہی ادھر ادھر چکر کاٹتے وہ کوئی فیصلہ نہ کر پارہی تھی۔۔۔
پاپا سے خود بات کرتی ہوں۔۔۔۔۔ہاں

نہیں۔۔ یہ مناسب نہیں رہے گا ۔۔
کہہ دیتی ہوں مجھے کوئی اور پسند ہے۔۔۔
ہاں یہ ٹھیک ہے 
نہیں میں ایسے نہیں کہہ سکتی۔۔۔
ساری رات کمرے میں ٹہلتے وہ ایک نتیجے پہ پہنچ کہ پرسکوں ہو گئ۔۔
صبح مما کے پوچھنے پر اس نے بخوشی رضامندی دے دی۔۔۔۔۔۔
مدیحہ نے خوشی سے گلے لگایا ۔۔
مجھے یہی امید تھی تم ایک بہتر فیصلہ کرو گی۔۔۔
اور گال پہ بوسہ دے کہ سبحان صاحب کے کمرے کا رخ کیا انہیں بھی یہ خوشخبری سنانی تھی۔۔۔۔۔۔
جبکہ شانزے لاپروائی سے سر جھٹک کے آگے بڑھ گئ۔۔۔۔۔۔
دونوں طرف سے رضامندی ملنے پہ دو دن بعدہی  منگنی کا باقاعدہ فنکشن رکھا گیا۔۔۔۔۔۔۔
 منگنی کے فنکشن میں  زین  سرمئ قمیض اور وائٹ شلوار  جبکہ شانزے سرمئ فل کامدار ڈریس پہنے  سب کی توجہ کا مرکز بنے بیٹھے تھے۔۔۔۔
انکے ڈریس مدیحہ نے ہی سلیکٹ کیۓ تھے۔۔۔۔وہ دونوں  اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ مدیحہ بار بار دل ہی دل میں نظر اتارہی تھی۔
۔۔۔۔۔بہت سے لوگ سبحان صاحب کے اس فیصلے پر حیران ہوۓ تھے۔۔۔۔جبکہ وہ ہر چیز کی پرواہ کۓ بغیر بہت مسرور نظر آرہے تھے۔۔۔
خوشی ان کے انگ انگ سے دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
وہ اللہ کے اس کرم پر بہت شکرگزار تھے جو لوگوں کے نزدیک محض ایک بےوقوفانہ فیصلہ تھا۔۔۔لیکن اس کے باوجود سب جوڑی کو سراہے بغیر خود کو روک نہیں سکتے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔سٹیج پہ بیٹھے دونوں لوگوں کے جذبات ایک دوسرے سے  مختلف تھے ۔۔۔
ایک کے چہرے پہ سنجیدگی تھی لیکن دل خوشی کے جذبات سے پر تھا۔۔۔دل بار بار ساتھ بیٹھی شانزے کو دیکھنے کیلۓ مچلتا لیکن نگاہیں دل کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگی ۔۔۔۔
بہتیری کوشش کی لیکن ہر بار بےسود 
نگاہیں تھیں کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی پلٹ آتیں۔۔۔۔
ادھر شانزے بظاہر چہرے پر ایک مخصوص مسکراہٹ لیۓ بیٹھی تھی۔۔
لیکن اندر سے غصے سے بھری پڑی تھی۔۔
بس یہی چیز ہے جو مما سمجھ نہیں رہیں تھیں۔۔
کتنا الو ہے کیسے روبوٹ کی طرح بیٹھا ہے ۔۔۔۔سٹیج پہ ہاتھ پکڑ کہ بٹھانا تو بہت دورررر کی بات کم از کم اب اتنا تو کہہ سکتا ہے 
کہ اچھی لگ رہی ہو
اور لوگ یہ پتا نہیں کیوں رشک سے دیکھ رہے ہیں
جیسے کوئی پرستان سے شہزادہ ان کے سامنے بیٹھا ہے۔۔۔
اسے تو میں بتاؤں گی ناکوں چنے نا چبواۓ تو اپنا نام بدل لوں گی۔۔
(اب محترم خود انکار کریں گے شادی سے میری ٹینشن ختم۔۔۔)
اور پھر اس نے تصور  ہی تصور میں منہ پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ اچانک ہی ساتھ بیٹھے شخص کی طرف دیکھا ۔۔
لیکن یہ کیا وہ بھی اس طرف دیکھ رہا تھا۔۔دونوں کی نگاہیں ملیں صرف چنڈ سیکنڈ کیلۓ۔۔
جذبوں سے پر نگاہیں فورا جھکا لی گئیں۔۔۔
جبکہ شانزے وہ حیران اور سحرذدہ سی  ہو گئی  چند سیکنڈ کیلۓ ۔۔
 لیکن پھر سر جھٹک کے دوبارہ مستقبل کے پلان بنانے لگی۔۔۔
زین کی تو دل کی دھڑکن شور پیدا کر رہی تھی اور وہ ایسے نگاہیں چرا کہ بیٹھا تھا جیسے سب اس کے دل کا چور پکڑ لیں گے۔۔
(اف آئندہ میری توبہ جو ان ماجبیں کی طرف دیکھنے کی غلطی بھی کی۔۔۔۔)
(اب اتنا حسین بھی کیا ہونا کی کوئی جی بھر کہ دیکھ بھی نہ سکے۔۔۔۔)
دل کی دھڑکنے کی رفتار اب بھی نارمل نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔منگنی کے بعد زین نے نیچے آنا بہت کم کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے ہاتھوں لاکھ مجبور تھا لیکن شرم و حیا آڑے آجاتی۔۔۔۔۔کہ کہءں وہ اس کے بارے میں غلط نہ سوچے۔۔۔
اور یہی چیزیں شانزے کو مزید غصہ دلاتی۔۔۔
اس کے نزدیک منگنی کے بعد دونوں ایک دوسرے کیلۓ غیر نہیں رہتے ۔۔۔ہوٹلنگ لونگ ڈرائیو۔۔۔۔اکھٹے ٹیرس پہ  جاکے کافی پینا۔۔۔۔۔
اور بھی پتا نہیں کیا کیا
وہی جو وہ اپنی سوسائٹی میں دیکھتی آئی تھی۔۔۔
شروع شروع میں اس نے کوشش کی اس کی طرف سے اپنا مائنڈ سیٹ رکھنے کی۔۔۔لیکن جب زین کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی نہ ہوئی تو اس کے دل میں مزید بدگمانی آگئ۔۔۔اور اس نے اب اس رشتے سے جان چھڑانے کا سوچ لیا۔۔۔۔۔کہ خود نہیں بلکہ زین انکار کرے گا۔۔
پھر وہ زین کو بےعزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی۔۔۔
اور وہ دن جب سبحان صاحب نے زین سے  گزارش کی اب تم مجھے سر نہ کہا کرو بلکہ مجھے تم بیٹوں کی طرح عزیز ہو اگر مناسب لگے تو شانزے کی طرح پاپا کہہ لیا کرو
یقین کرو مجھے بہت خوشی ہوگی۔۔
اور رشتہ بھی ایسا بن چکا ہے کہ تمہیں اعتراض بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔
تو زین بھلا اپنے محسن کی اتنی چھوٹی سی خواہش کیوں نہ پوری کرتا۔۔۔۔

اور ان کی محبت اور اپنائیت ہی اتنی تھی کی اسے یہ الفاظ ان کیلۓ استعمال کرنے میں ذرا بھی دقت نہ ہوئی۔۔۔۔۔
جب شانزے کے کانوں میں یہ بات پڑی تو اس کی تو گویا سر پہ لگی تلوؤں پہ بچھی۔۔۔۔
ایک دم ہی آپے سے باہر ہوگئ۔۔۔ نجانے کس بات کا غبار نکالا تھا۔۔بہرحال وہ وہ سنایئں کہ زین کو سالوں یاد رہنی چاہیۓ تھیں ۔۔۔۔
لیکن اس نے زرا پرواہ نہ کی۔۔۔۔۔۔
اور شانزے بل کھا کہ رہ گئ۔۔۔

پھر ایک دن شانزے کو بازار جانا تھا ۔۔۔اور وہ مما سے کمپنی مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔لاؤنج میں مدیحہ کے ساتھ زین بھی بیٹھا تھا۔۔۔ہنوز نظریں جھکاۓ۔۔۔
شانزے نے بھی اگنور کیا۔۔۔
مما پلیز چلیں نہ میرے ساتھ۔۔۔اکیلے کیا جانا اب۔۔۔۔انجواۓ کریں گے۔۔۔
وہ مما کا ہاتھ پکڑ کہ زبردستی اٹھا رہی تھی۔۔۔
ارے چھوڑو شانی میری طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔۔
مما۔۔۔۔۔
بیٹا تم ایسا کرو زین کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔
زین تم فری ہونا۔۔۔
آآ جی جی۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے تم زین کے سات۔۔۔۔۔
Enough مما enough
میں جاؤں اس کے ساتھ۔۔۔
مجھے پتا ہے آپ جان بوجھ کے نہیں جانا چاہ رہیں ۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے اور زین جا رہا ہے ناں۔۔۔پھر کیا مسئلہ ہے چندا۔۔۔انہوں نے پچکارتے ہوۓ کہا۔
۔مما آپ جو سوچ رہیں ہیں وہ کبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔
یہ کوئی فلم ڈرامہ یا ناول نہیں ہے مما۔۔
جس میں ہیرو ۔۔ہیرؤئن کو زبردستی بازار لے کہ جاۓ۔۔۔اور کوئی راہ   چلتا فقیر دونوں کو دیکھ کے جوڑی سلامت رہنے کی دعا دے جس سے ہیرؤئن شرما جاۓ اور اپنا دل ہیرو کو دے دے۔۔۔۔۔
یہ حقیقی زندگی ہے۔
۔۔اور آپ بھی پلیز ایسے خیالی پلاؤ پکانا بند کرے ۔۔۔۔
جو نہیں ہو سکتا وہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔وہ تیز تیز بول رہی تھی۔پھولے تنفس کے ساتھ وہ سامعین کو اپنی عجیب و غریب ترین باتوں سے حیران کر رہی تھی۔۔۔۔
مدیحہ تو شرمندگی سے سر جھکا گئ۔
۔۔اور زین وہ منہ کھولے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
غصے سے اسکے گال سرخ  ہوگۓ تھے۔۔۔
اسے پہلی دفعہ اپنا آپ بہت بےوقعت لگا تھا ۔۔۔
وہ کیا ہے کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔
جسے اس نے دل کے نہا خانوں سے چاہا اسے عزت دی ۔۔۔اس کے نزدیک اس کی حثیت کوڑی کی بھی نہیں۔۔
۔۔زین کو شانزے کا ہتک آمیز لہجہ بری طرح چبھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔
شانزے کے رویے نے اسے تکلیف پہنچائی تھی۔۔۔
پھر یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا تھا ۔۔۔
وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی زین کی عزت افزائی اس نے اپنے اوپر  فرض کر لی تھی۔۔۔۔۔۔۔زین کو وہ باتوں باتوں میں دوٹکے کا انسان کہتی۔۔۔
میرے باپ کے سہارے پہ جینے والا انسان۔۔۔۔۔۔
زین اس کے سایے سے بھی بھاگنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔
کہ یوں وہ  نظر آیا اور یوں وہ شروع ہوجاتی۔۔۔۔
کسی کو سمجھ نہ آتی کہ آخر اچانک کیا ہوا اسے پہلے تو ایسی نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔سب یہی سمجھتے کہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاۓ گی۔۔۔
اب زین بھی اس کی باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیتا۔۔۔
لیکن کب تک ۔۔۔کب تک وہ برداشت کرتا۔۔۔
۔۔۔bsc میں اس نے اسی کالج میں ایڈمیشن لیا جس میں شانزے پڑھ رہی تھی۔۔۔وہ فورتھ ایئر میں تھی اور زین نے  تھرڈایئر میں ایڈمیشن لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
""کالج میں زین اپنی ذہانت کی وجہ سے ایک الگ پہچان بنا چکا تھا۔۔
۔۔کتنی ہی لڑکیاں اس سے بات کرنا چاہتیں۔۔دوستی کی خواہاں  تھیں۔۔۔
لیکن زین کے دل  میں جو سما چکی تھی۔۔۔اسے وہی بہت عزیز تھی۔۔۔۔۔۔اور جو یہ جانتے کہ زین اور شانزے ایک دوسرے سے انگجیڈ ہیں وہ انہیں بہت رشک سے دیکھتے۔۔
۔۔۔۔لیکن شانزے کو وہ پھر بھی برا لگتا اور بہت برا۔۔۔۔۔۔اسے اس کی اچھائی سے ہی چڑ ہوگئ تھی۔۔۔

 جبکہ زین اپنی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی لڑکیوں کو دیکھ کے  اکثر سوچا کرتا کہ آخر مرد ہی کیوں بدنام ہے جب صنف نازک اپنی عزت کرنا نہیں جانتی۔۔۔۔
اسے یقین ہوگیا تھا  کہ ۔۔۔مرد و عورت  اس گھاٹے کے سودے میں برابر شریک ہوتے ہیں کبھی کسی کا پلڑا بھاری کبھی کسی کا۔۔۔۔۔ کہیں عورت معصوم ہوتی اور مرد اس کی معصومییت کا فائدہ اٹھاتا ۔۔۔
کہیں عورت خود اپنی معصومیت داؤ پر لگا دیتی ہے۔۔۔
لیکن پھر قصے کہانیاں ناول ڈرامے فلم ہر چیز عورت کو مظلوم کیوں دیکھاتی ہے۔۔عورت ہی مظلوم ہے مرد نہیں ہو سکتا ۔۔۔شاید اس لیۓ کہ مرد طاقتور ہے ۔۔۔لیکن عورت بھی طاقتور ہوتی ہے اگر وہ بننا چاہے۔چاہے۔اگر اسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوجاۓ۔
خیر یہ وہ الجھنیں تھیں جن کے بارے میں بہت بحثیں ہوچکی تھیں اور ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن کچھ بدلنے کی امید کم ہی تھی۔تھی۔
اور ایسا بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔اکثر ہم کسی کے ساتھ ریلیشن اپنے تجسس کی وجہ سے رکھنا چاہتے ہیں تجسس ختم ریلیشن بھی ختم۔۔۔
""زین ذہین تھا خوبصورت تھا ۔۔ لیکن بہت سے لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن جو واحد چیز مختلف تھی وہ اپنی ذات کے گرد ایک محدود دائرہ لگانا تھا جس میں کوئی بلا اجازت داخل نہ ہو سکے ۔۔۔اور داخل ہونے کی آجازت ملنا بھی ناممکن تھا۔۔۔خاص طور پہ مخالف صنف کیلۓ۔۔۔
بس یہی چیز تھی جو لڑکیوں کی انا کا مسئلہ بن گئ تھی۔۔۔
ہوتا ہے نا بعض دفعہ ہم میں سےاکثر  ارادی یا غیر ارادی طور پر ایسے شخص کیلۓ اہم ہونا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ایسے شخص کی زندگی میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔۔ اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔خواہ وہ 
 لڑکا ہو یا لڑکی۔۔۔
جو ہر کسی سے فری نہ ہو جو اپنے کام سے کام رکھے ۔۔۔۔جس نے اپنی ذات پہ خول چڑھا رکھا ہو۔۔۔۔۔۔
اس کو جاننے کا تجسس ۔۔۔۔۔اور اکثر اپنی 
 انا کی تسکین کیلۓ بھی  ۔۔۔۔
اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پہ لگا دیا  جاتا۔۔ ۔۔۔۔
کوئی  تو اپنے اس مقصد میں کامیاب ٹھرتا ہے 
لیکن کچھ کو نامراد لوٹادیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
زین کا شمار بھی انہی  لوگوں میں سے تھا۔۔۔اس کے پاس آنے والی نامراد ہی لوٹی تھیں۔۔ ۔۔۔اور اس نے یہ دانستہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پاس اس سب کی گنجائش نہیں تھی۔۔۔۔۔
یہاں بھی شانزے کو اس کی پارسائی شدید طیش دلا گئ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔کالج میں داخلے کے بعد زین کی ایکٹویٹیز بڑھ گئ تھیں۔۔۔۔
اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کے ایک تنظیم بنائی تھی ۔۔۔۔
تنظیم کا کام ایک این جی او والا ہی تھا۔۔۔
وہ لوگ فنڈز اکٹھا کرتے ۔۔۔زیادہ تر تو اپنی پاکٹ منی ہی جمع کر کے  ہر ماہ مختلف علاقے کے  غریب لوگوں کو ضرورت  زندگی کی اشیاء  خرید کر دیتے۔۔۔۔۔۔
کئ بیوہ اور یتیم بچوں کی کفالت کر رہے تھے۔۔۔
کچھ لوگوں کی ڈیوٹی جگہ وزٹ کرنے کی ہوتی اور پھر زین اور چند ممبر جا کے خود اشیاء فراہم کرکے آتے۔۔۔۔۔
چالیس پنتالیس لوگوں پر مشتمل اس گروپ کا لیڈر زین اور ایک لڑکی نایاب تھی۔۔۔۔۔
نایاب اچھی لڑکی تھی شریف فیملی سے   تعلق رکھتی تھی کبھی بھی وہ  کام سے ہٹ کے بات نہیں کرتی تھی۔۔۔
زین کے ساتھ اس کی میٹنگ صرف کام کے سلسلے میں ہی ہوتی۔۔۔
لیکن  وہی روایتی مسئلہ شانزے کو یہ سب ایک آنکھ نہ بھاتا۔۔۔
وہ زین کو بے عزت کرنے کی ٹوہ میں ہی ہوتی چاہے وجہ معمولی سے  بھی کم ہوتی۔۔۔۔
اس دن زین اور نایاب کالج کوریڈور میں کھڑے تھے۔۔۔
نایاب کہہ رہی تھی ۔۔
مجھے کچھ عرصے کیلۓ شہر سے باہر جانا ہے اپنی فیملی کے ساتھ ۔۔۔
میں بس یہ چاہ رہی تھی کہ آپ کو انفارم کردوں۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔زین نے جواب میں اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
جی دیکھۓ میں  پھر بھی گروپ کا  حصہ رہوں گی صرف کچھ دنوں کی غیر حاضری کی وجہ سے میں نہیں چاہتی کہ کوئی میری جگہ لے۔۔۔
ارے نہیں مس نایاب آپ فکر نہ کریں ۔۔۔آپ کی جگہ کوئی لے سکتا ہے کیا۔۔
؟؟؟آپ بے فکر ہو کے جااآ۔۔۔۔۔
زین کی بات ابھی ادھوری تھی جب اس کی پشت کے پیچھے  کھڑی شانزے آگے ہوئی۔۔۔
اوہ تو یہاں سرعام  گلچھڑے اڑاۓ جا رہے ہیں ۔۔۔
میں بھی کہوں  اس نیک نامی کے پیچھے کچھ تو کالے کرتوت چھپا رکھے ہوں گے تم نے 
تو آج وہ بھی سامنے آگۓ۔۔
ویلڈن  بھئ ویلڈن ۔۔۔اس نے تالی بجاتے  ہوۓ گویا داد دی تھی۔۔
وہ زین کی ذات کی دھجیاں اڑا رہی تھی ۔۔۔اسے بدکردار کا لقب دیا تھا اس نے۔۔۔
پاس کھڑی نایاب ۔
نہ نہیں نہیں ایسی با بات ۔۔۔۔
میری ب با بات تو سنو شان۔۔
وہ اس کی ایک بھی نہ سن رہی تھی۔۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سنا ہے وہ غلط نہیں ہوسکتا۔۔۔
زین نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔۔۔
منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔۔۔بعض دفعہ جب آپ غصے اور ضبط کی انتہا پر ہوں تو لفظ بھی ساتھ نہیں دیتے ۔۔
بولنا بہت دشوار ہو جاتا۔۔۔
زین بھی ایسی ہی صورتحال میں تھا ۔۔۔۔
جبکہ شانزے کے ساتھ کھڑی اس کی دوست بار بار اسے خاموش کروارہی تھی۔۔۔۔وہاں سے جانے کیلۓ اس کا ہاتھ پکڑتی۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ جھٹک دیتی۔۔۔
اس کے بولنے میں کوئی کمی نہ آئی تو نایاب نے رونا شروع کر دیا ۔۔۔
اب انتہا ہوگئ تھی زین کی برداشت کی۔۔۔ ۔۔اس کا دایاں ہاتھ اٹھا  اور شانزے کے گال پہ پہنچنے سے پہلے ہی  اس کے ساتھ کھڑی دوست اسے گھسیٹ کے لے جانے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔زین خالی ہاتھ خلا میں کۓ کافی دیر وہاں آنکھیں میچے کھڑا رہا۔۔۔
جب ضبط کی حد کو پار کرتے ہوۓ اس نے آنکھیں کھولییں تو  وہ وہاں تنہا کھڑا تھا۔۔۔۔۔
شانزے تمہارا دماغ درست ہے۔۔۔۔۔تمہیں پتا  ہے نایاب کی کچھ دنوں بعد شادی ہے اور اسی سلسلے میں اس کی فیملی  اپنے آبائی گاؤں جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔
کالج گیٹ سے باہر نکلتے شانزے کی دوست غصے اور افسوس سے اسے بتا رہی تھی۔۔۔
تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے تم نے آج کتنی غلط حرکت کی ہے۔۔۔
کیا سوچتے ہوں گے زین بھائی۔۔۔اف یااللہ۔۔
جو بھی سوچے میری بلا سے۔۔۔اور تم بھی اب یہ زین نامہ پڑھنا بند کر دو۔۔
بس بہت ہوگیا۔۔
یہ شکل سے جتنا معصوم بنتا ہے اتنا ہے نہیں۔۔۔۔
ایسے لوگ سب کے سامنے یوں ہی پارسا بنتے ہیں  اور اندر سے ان سے زیادہ کمینہ کوئی نہیں ہوتا۔۔۔
وہ تیز تیز بولتی گاڑی میں بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کر دی
۔۔۔۔۔
جبکہ ملیحہ (دوست)پیچھے افسوس سے سر ہلا کہ رہ گئ۔۔۔
کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی ۔۔۔انہیں سب سے زیادہ اسی بات سے مسئلہ ہوتا ہے کوئی انہیں حد سے عزت کیوں دے رہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شانزے کا شمار ایسے ہی ناشکرے لوگوں میں ہوتا تھا
 (جاری ہے)

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.