*Char Dawiyon Ka Qissa *



 ٭ چار دیویوں کا  قصہ ٭
تحریر:غضنفر کاظمی
قسط نمبر :4
اگلے روز میں جنرل اکبر کے پاس پہنچی تو وہ اپنی نشست پر پریشان بیٹھے تھے، میں نے جاکر سلیوٹ کیا اور ان کے اشارے پر کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ چند لمحے خاموشی سے کچھ سوچتے رہے پھر بولے،
” فرشتہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کل تم نے سینئر آفیسرز کے بارے میں جو گفتگو کی تھی وہ انہوں نے سن لی ہے ، یاد رکھو یہاں ہونے والی گفتگو ریکارڈ ہوجاتی ہے ، تمہاری بات پر انہیں غصہ نہیں ہے لیکن انہوں نے کہا ہے کہ اگر تم خود کو اتنی ہی عقل مند سمجھتی ہو تو پہلا کیس تمہیں یہی سونپا جائے کہ بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کا خاتمہ کرو تمہیں ان کو گرفتار نہیں بلکہ ختم کرنا ہے۔ کیا تم یہ کا م کرسکوگی؟ جنرل نے مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ” سر مجھے خوشی ہے کہ میرے سینئر مجھ پر اتنا اعتماد کرتے ہیں میں یقینا بلوچستان میں غیر ملکی ایجنٹوں کا صفایا کردوں گی لیکن اس کے لئے مجھے افغانستان جانا پڑے گا، آپ مجھے افغانستان پہنچانے کا انتظام کردیں“ .... وہ چونک کر بولے ، ” کیوں .... افغانستان کیوں؟ تمہیں تو بلوچستان کا مشن سونپا جارہا ہے“۔ ” سر اگر ملک میں سیلاب آجائے تو پہلے اس جگہ کو بند کیا جاتا ہے جہاں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے شہروں میں آنے والے پانی پر توجہ نہیں دی جاتی، میں پہلے وہ راستہ بند کرنا چاہتی ہوں جہاں سے یہ لوگ ہمارے ملک میں داخل ہورہے ہیں جو اندر داخل ہوچکے ہیں واپسی کا راستہ بند ہونے پر وہ یا تو کارروائیاں کرنے کے بجائے جان بچاتے اور چھپتے چھپاتے پھریں گے۔ اس لئے میں پہلے افغانستان جانا چاہتی ہوں“۔ میں نے اپنا جملہ ختم کیا ہی تھا کہ ایک سادے کپڑوں میں سمارٹ سے صاحب اندر داخل ہوئے ، ان کے چہرے پر رعب اور دبدباتھا، ان کو دیکھ کر جنرل اکبر اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے میں بھی ان کی پیروی میں کھڑ ی ہوگئی۔ انہوں نے آکر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے جنرل کو اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے، ” ہم نے اس بیٹی کی باتیں سنی ہیں یہ بالکل درست کہہ رہی ہے اور یہ بات ہم بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں امن قائم کرنا ہے تو اس کے لئے افغانستان میں کام کرنا ہوگا “ .... ” لیکن بیٹی“ انہوں نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا، ” تم افغانستان میں کچھ بھی نہیں کر سکو گی کیونکہ وہاں نیٹو فورسز موجود ہیں جو بظاہر تو ہماری دوست ہیں لیکن درپردہ وہی ہماری جڑیں کاٹنے میں لگی ہوئی ہیں وہ تمہیں وہاں دیکھتے ہی گولی ماردیں گے یا تم پر کوئی خود کش حملہ ہوجائے گا۔ ہمیں تمہاری کام کرنے کی شرائط منظور ہیں لیکن میں ایک باپ ہونے کے ناطے اپنی بیٹی کی حفاظت کی غرض سے جاننا چاہتا ہوں کہ تم نیٹو فورسز، را اور موساد کے نیٹ ورک کی موجودگی میں کیسے کام کروگی۔ یہ میں اس لئے نہیں پوچھ رہا کہ تم پر اعتماد نہیں ہے بلکہ اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر اس میں تمہاری جان کو خطرہ ہو تو ہم اس کا تدارک بھی سوچ سکیں“۔آنے والے صاحب کون تھے ان کا کیا عہدہ تھا میں کچھ نہیں جانتی لیکن جنرل اکبر کے مودبانہ انداز میں کھڑے ہونے سے یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی سینیئر افسر ہیں اور انہوں نے جس انداز میں بات کی تھی مجھ سے انکار بھی نہیں ہوا اور میں نے کہا، ” سر یہ کام میں خود نہیں کروںگی بلکہ ملاعمر کے طالبان سے کراوں گی کیونکہ آپ کو علم ہے کہ میرے پاپا کی جاگیر آدھی پاکستان میں اور آدھی افغانستان میں ہے تو میں ان میں افغانستان کی بیٹی بن کر جاوں گی، پشتو میری مادری زبان ہے اس لئے کوئی شک نہیں کرے گا میں ملا عمر کو ایسی خبر دوں گی کہ ان کو بھارتی قونصلیٹ کے دفاتر پر خود کش حملے کرنے ہی پڑیں گے اب اگر نیٹو فورسز اس میں مداخلت کرتی ہیں تو انہیں منہ توڑ جواب بھی دیا جائے گا اور وہ جواب طالبان کی طرف سے ہوگا میری یا پاکستان کی طرف سے نہیں “ اتنا کہہ کر میں خاموش ہوگئی، وہ چند لمحے سوچتے رہے پھر اٹھ کر مجھے بھی اٹھنے کا اشارہ کیا جب میں کھڑی ہوئی تو انہوں نے مجھے سینے سے لگا کر بھینچتے ہوئے کہا، ” کاش تم میری حقیقی بیٹی ہوتیں صرف مجھے نہیں میرے تمام ساتھیوں اور محکمے کو تم پر اور تمہاری ذہانت پر فخر ہے، اور اگر یہ بات ظاہر کی جاسکتی تو پوری قوم تم پر فخر کرتی لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سے قومی ہیرو وطن کی تحفظ کے خاطرجامِ شہادت نوش کرلیتے ہیں اور ہم قوم کو بتا بھی نہیں سکتے کہ کون کیسے شہید ہوا.... بہرحال مجھے یقین ہے کہ انشاءاللہ تم اپنے مشن میں کامیاب رہوگی لیکن بیٹی ایک بات کا خیال رکھنا کہ کہیں بھی جذباتی نہ ہونا ، اگر کہیں ناکامی ہو تو اس کو بھی خوش دلی سے تسلیم کرنا اور یاد رکھنا تمہارے وطن کے لئے یہ مشن نہیں تمہاری جان زیادہ اہم ہے تم کو ابھی اور بہت بڑے بڑے کام کرنے ہیں، جن میں تمہارے وطن کی سلامتی مضمر ہے ، یہ کام تو تمہارے الفاظ سن کر تمہیں تفویض کردیا گیا ہے ورنہ تمہارا اصلی مشن اسرائیل کی ان زرد بلیوں کو تلاش کرکے ختم کرنا ہے جو یہاں تباہی پھیلانے کی سازش کررہی ہیں۔“ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے اور میں نے کہا، ” پاپا آپ نے کہا کہ کاش میں آپ کی حقیقی بیٹی ہوتی تو پاپا میں تو نہ صرف آپ کی بلکہ ہر اس شخص کی حقیقی بیٹی ہوں جو وطن عزیز کے تحفظ کے لئے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کررہے ہیں اور اپنی جانوں پر کھیلنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں، اور سر آپ فکر نہ کریں میں انشاءاللہ نہ صرف اپنے مشن میں کامیاب ہوں گی بلکہ زندہ سلامت آپ کے سامنے آکر آپ کو رپورٹ بھی دوں گی“ اتنا کہہ کر میں نے ان صاحب کو سیلوٹ کیا اور انہوں نے ایک بار پھر مجھے سینے سے لگا کر میری پیشانی کو چوما اور جنرل اکبر سے کہا کہ اس کو تمام ضروری چیزیں دے دینا اور ان کے علاوہ اگر یہ خود کچھ طلب کرے تو وہ بھی فراہم کرنا“ اتنا کہہ کر وہ واپس چل دئیے اور کمرے میں جنرل اکبر اور میں تنہا رہ گئے۔ اب جنرل اکبر نے بولنا شروع کیا، ” یار فرشتہ تم بلا کی ذہین ہو اگر میں تمہیں وطن کی ذہین ترین بیٹی کہوں تو غلط نہ ہوگا یقین کرو بلوچستان کے حوالے سے جو تم نے کہا وہی ہماری بھی سوچ ہے لیکن افغانستان میں داخل ہوکر کارروائی کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے ہم صرف بلوچستان میں ہی کام کرہے ہیں لیکن وہی بات کہ جب تک آنے کا راستہ بند نہ کیا جائے کامیابی نہیں ہوسکتی۔ بہرحال میں تمہیں کچھ ضروری چیزیں دیتا ہوں جو ایک بیگ میں ہیں اس میں اسلحہ، کچھ ایمرجنسی میڈیسن، پانی کی بوتل، خشک خوراک وغیرہ شامل ہیں تم چیک کرلو اگر اور کچھ چاہئے تو تم بتادو،“.... اتنا کہہ کر انہوں نے بیل دی جب اردلی اندر آیا تو اس کو بیگ لانے کو کہا، تھوڑی دیر میں اردلی نے بیگ لاکر جنرل صاحب کی میز پر رکھ دیا، جنرل صاحب نے اس کو چائے لانے کو کہا اور مجھے بیگ چیک کرنے کا اشارہ کیا میں نے جنرل کے اشارے پر بیگ کھول کر دیکھنا شروع کیا، اس میں ضرورت کی تقریباً ہر چیز موجود تھی۔جنرل صاحب نے مجھ سے پوچھا، ”کچھ اور چاہئے تو بتادو“ .... میں نے کہا، ” نہیں سر آپ نے تو ایسی چیزیں بھی رکھ دی ہیں جن کے بارے میں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اب مجھے چند جینز کی پینٹوں اور ایک کیمو فلیج جیکٹ کا انتظام کرنا ہوگا کیونکہ وہاں موسم کافی سرد ہوگا“ یہ سن کر جنرل صاحب نے کہا، ” تم جینز اور جیکٹ کی فکر نہ کرو رات کو تمہاری رہائش پر پہنچ جائیں گی اور ہاں تم کب جانا چاہتی ہو؟“ .... یہ سن کر میں نے جواب دیا، ” سر یہاں سے کل صبح روانہ ہوں گی تاکہ رات کو اپنے علاقے سے افغان سرحد میں داخل ہوسکوں اور ہاں سر اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو جاتے ہوئے میں اپنے چچا کو ان کے ظلم کی سزا بھی دیتی جاوں انہوں نے میرے پاپاکی جائیداد پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے اور وہ جرائم پیشہ بھی ہیں کچھ عجب نہیں وہ وہاں بیٹھ کر افغانستان میں نیٹو فورسز کے لئے خدمات انجام دے رہے ہوں وہ پیسے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں“ .... انہوں نے جواب دیا ” نہیں پہلے تمہارا مشن اہم ہے ہاں واپسی پر تم جو چاہو سزا دینا اس وقت ہماری فوج بھی تمہاری مدد کے لئے وہاں پہنچ سکتی ہے۔ دوسری بات تم اپنے ساتھ کسی کو لے کر جاوگی میرا اشارہ گل پندرہ خان کی طرف ہے؟ “ .... جنرل صاحب کی بات پرچچا کو سزا دینے کے حوالے سے میں نے سرہلاکر رضامندی ظاہر کی اور دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ”میں مشن میں اکیلی کام کرنا پسند کرتی ہوں گل پندرہ خان کو لے جانا سودمند نہیں ہوگا“ اس گفتگو کے دوران اردلی چائے رکھ گیا تھا لیکن ہم گفتگو میں ایسے محو تھے کہ چائے پینا بھول ہی گئے اب وہ ٹھنڈی ہوچکی تھی، میں نے کرسی سے اٹھ کر جنرل صاحب کو سیلوٹ کیا اور روم سے باہر نکل گئی۔
رات کو تقریباً دس بجے ایک شخص نے آکر ایک چھوٹا بیگ دیا میں نے کھول کر دیکھا اس میں چار جینز کی پینٹیں اور ایک جیکٹ تھی ، میں نے پہن کر دیکھی جینز بالکل فٹ تھی اور ویسی ہی تھی جیسی میں چاہتی تھی ان کے ساتھ ایک جوڑی شوز کی بھی تھی جس کے بارے میں بعد میں جنرل صاحب نے فون کر کے مجھے بنایا کہ ان شوز میں خوبی یہ ہے کہ اگر میں پہن کر ایڑی کو زور سے زمین پر ماروں تو شوز کی ٹو سے تین انچ سائز کا ایک چھوٹا سا خنجر باہر نکل آئے گا جو آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے بلیڈ سے بھی زیادہ تیز ہے، میں نے شوز پہن کر اس کو آزما کر بھی دیکھ لیا تھا یہ بہت خوبصورت اور اہم تحفہ تھا، اس کے بعد میں لیٹ کر سو گئی تاکہ صبح کو فریش رہوں۔
صبح میری آنکھ ٹیلی فون کی گھنٹی سے کھلی میں نے رسیور اٹھاکر کان سے لگایا تو دوسری طرف جنرل صاحب تھے انہوں نے بتایا کہ سہ پہرتین بجے مجھے ایک گاڑی لینے آئے گی میں تیار رہوں اور اپنے سامان کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھ جاوں، میں نے او کے کہہ کر فون بند کردیا اور گل خان کو آواز دے کر کہا کہ چائے لے آئے اور خود باتھ روم میں جاکر دانت صاف کرنے لگی، جب باہر آئی تو دیکھا کہ وہ چائے کی بجائے ناشتہ لے آیا تھا میں نے ناشتہ کیا اور پھر کمپیوٹر آن کرکے سرچ انجن پر خفیہ زبانوں کی سٹڈی کرنے لگی۔ اسی طرح تین بج گئے اور گل خان نے آکر بتایا کہ کوئی گاڑی آئی ہے اور ڈرائیور مجھے بلارہا ہے، میں نے دونوں بیگ اٹھائے اور دونوں کندھوں پر لٹکاتے ہوئے باہر نکل آئی۔ میرے باہر آتے ہی ڈرائیور نے پچھلا دروازہ کھول دیا میں اندر بیٹھ گئی تو اس نے دروازہ بند کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھادی۔
تھوڑی دیر بعد ہم ایئر پورٹ پر تھے وہاں جنرل صاحب پہلے سے موجود تھے وہ مجھے لے کر خصوصی دروازے سے ایپرن (جہاں جہاز کھڑا ہوتا ہے) پر لے گئے وہاں ایک ہیلی کاپٹر کھڑا تھا انہوں نے مجھے آخری ہدایات دیں اور دعائیں دیتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں بٹھایا پھر تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر فضامیں بلند ہوگیا۔
ہم تقریباً آٹھ بجے باڑہ سے آگے اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے میرے پاپا کا علاقہ شروع ہوتا تھا میں نے کاپٹر پائلٹ سے وہیں لینڈ کرنے کو کہا تھوڑی دیر میں ہیلی کاپٹر لینڈ کرگیا اور میں اتر کر پائلٹ کو ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ اس وقت رات ہوچلی تھی اور ہوا میں خنکی تھی لیکن ایک تو میں نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی دوسرے پیدل چل رہی تھی اس لئے پیشانی پر پسینہ آرہا تھا، میں اپنے علاقے سے بچتے ہوئے باہر ہی باہر چلتی افغانستان کی سرحد میں داخل ہوگئی، میرا بچپن وہاں گزرا تھا میں وہاں کے چپے چپے سے واقف تھی اس لئے ویران علاقوں سے ہوتی ایک ایسے گاوں میں پہنچی جہاں خچر فروخت ہوتے تھے وہاں میں نے بیگ سے رقم نکال کر ایک خچر خریدا، یہ رقم جنرل صاحب نے بیگ میں رکھی تھی جو کافی زیادہ تھی، بہرحال خچر خرید کر میں قندھار کی جانب چل دی جو ملا عمر کا علاقہ کہلاتا ہے۔
مجھے سفر کرتے دوسرا دن تھا میں رات کو کسی ویران جگہ پر آرام کرتی اور سارا دن سفر کرتی، میں چونکہ آبادی سے بچتے ہوئے ویران راستوں پر سفر کررہی تھی اس لئے قندھار پہنچنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا آخر کار پانچویں روز ابھی قندھار سے دور ہی تھی کہ چند مسلح افراد نے گھیرے میں لے لیا۔ میں نے جینز کی پینٹ، شرٹ اور اس پر جیکٹ پہنی ہوئی تھی پاوں میں جنرل کے دئیے ہوئے شوز تھے، سر پر کیپ تھی، اس حلئے میں میں لڑکی کی بجائے لڑکا لگتی تھی۔ ان میں سے ایک نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا کو میں کون ہوں تو میں نے پشتو میں روانی سے کہا کہ میں ضرغام خان کی بیٹی فرشتہ ہوں اور ملا عمر سے اپنے چچا شرجیل خان کی شکایت کرنے جارہی ہوں اگر تم لوگ ملاعمر کے آدمی ہو تو مجھے ان تک پہنچادو۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر کے لئے آپس میں مشورے کرنے لگے ظاہر ہے کہ ان کی پشتو میں سمجھ رہی تھی اس لئے میں نے ٹوک کر کہا کہ وہ بے فکر ہوکے مجھے باندھ کر گرفتار کرکے لے جائیں جب ملاعمر سے بات ہوجائے اور وہ حکم دیں تو مجھے کھولیں لیکن اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتے اچانک فضا میں ایک طیارہ نظر آیا جو ہماری جانب غوطہ لگا رہا تھا، میں نے پشتو میں چیخ کر ان سے کہا کہ بچو اور خود بھی زمین پر گرگئی، اس دوران وہ طیارہ گولیاں برساتا ہوا گزرگیا اور ایک بار پھر گھوم کر ہماری جانب آنے لگا لیکن اس دوران میں نے ان سب کو پتھروں اور چھوٹے ٹیلوں کے عقب میں پناہ لینے کا کہہ دیا تھا اور وہ پناہ لے چکے تھے بس میں ہی اکیلی رہ گئی تھی وہاں پر اصل میں میری کوشش تھی کہ پہلے وہ سب پناہ لے لیں تو آخر میں میں پناہ لوں لیکن مجھے وقت نہیں ملا اور وہ طیارہ دوبارہ غوطہ لگا کر گولیاں برساتا ہوا گزرنے لگا اچانک میرے منہ سے کراہ نکل گئی مجھے ایسا محسوس ہوتا گویا میرے بازو میں کسی نے دہکتا ہوا انگارہ ڈال دیا ہے شاید مجھے گولی لگ گئی تھی پھر میرے ذہن پر غنودگی طاری ہونے لگی میں نے آنکھیں کھلی رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہی میری آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تھا۔
میں کتنی دیر بے ہوشی کے عالم میں رہی اس بارے میں تو کچھ کہنا مشکل ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ جب ہوش آیا تو میں کسی تختے پر لیٹی ہوئی تھی، میرے جسم سے جیکٹ اور شرٹ اتری ہوئی تھی اس کی جگہ ایک کھلا سا کرتا پہنا ہوا تھا اور میرے زخمی بازو پر پٹی کی ہوئی تھی ، ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ ایک زنانہ آواز نے مجھے چونکا دیا وہ کہہ رہی تھی ، ” اوہ تم ہوش میں آرہی ہو ٹھہرو میں ملا عمر کو بتاتی ہوں وہ تمہارے لئے بہت بے چین ہیں“ اتنا کہہ کر وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ایک طائرانہ نظر کمرے پر ڈالی وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اور اس میں فرنیچر کے نام پر صرف ایک بیڈ تھا جس پر میں لیٹی ہوئی تھی اور ایک چھوٹی سے کرسی اور میز وہاں رکھی تھی ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور وہاں سے ملا عمر داخل ہوئے، انہیں آتا دیکھ کر میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے آگے بڑھ کر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر لٹاتے ہوئے کہا، ” نہیں بیٹی تم لیٹی رہو ابھی تمہارا زخم ہرا ہے اگر طاقت استعمال کرو گی تو زخم کھل سکتا ہے اور اس میں سے خون بہنے لگے گا،“ یہ سن کر میں نے کہا، ” لیکن عمو جانی میں اٹھنا چاہتی ہوں عمو جان میں پہاڑوں کی بیٹی ہوں کوئی شہر کی نازک لڑکی نہیں یہ زخم تو معمولی اور ہمارا زیور ہیں“ میری بات سن کر وہ مسکرائے اور آگے بڑھ کر مجھے سہارا دے کر بٹھاتے ہوئے بولے، ” ہاں بیٹی اب مجھے اپنی حالت بتا یہ تو میں نے سن لیا تھا کہ ضرغام ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گیا اور یہ بھی سن لیا تھا کہ تمہارے چچا نے دھوکے سے تمہاری جائیداد پر قبضہ کرلیا۔ بیٹی میں تمہاری مدد کے لئے آنا چاہتا تھا لیکن یہاں کے حالات اتنے خراب تھے کہ افغانستان کو غیروں کے ہاتھوں میں چھوڑ کر آنہیں سکا، اب تم بتا کہ تم پر کیا بیتی، ہاں میں نے یہ بھی سنا تھاکہ تمہاری شادی ہوگئی ہے تو تمہارا شوہر کہاں ہے؟“ انہوں نے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال کردئیے تھے، میں کچھ دیر سوچتی رہی پھربولنا شروع کیا اور انہیں بتایا کہ میری شادی کس سے سے ہوئی تھی اور اس نے کیسے لاہور جاکر مجھے طلاق دے کر میری غلامی قبول کرلی، یہ سن کر عمو عمر بولے، ”ہاں بیٹی سچ کہتی ہو ہمارے جوانوں میں ابھی شرم اور بزرگوں کا احترام باقی ہے، چلو پھر آگے بولو کیا ہوا؟“ میں نے آئی ایس آئی کے واقعات کو گول کرتے ہوئے کہاکہ میں لاہورمیں رہتی ہوں اور اب اپنا حق لینے واپس آئی ہوں لیکن بابا کے ایک مہربان نے مجھے مشورہ دیا کہ میں پہلے آپ سے ملوں پھر آپ جو مشورہ دیں اس کے مطابق کام کروں، لیکن عمو جانی میرے بابا کے ایک دوست پاکستانی فوج میں ہیں وہ عیادت کے لئے میرے پاس آئے تھے اور وہاں ایک فون آیا تھا انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں جو دہشت گرد ہیں وہ افغانستان سے آرہے ہیں تو عمو جان پاکستان نے مجھے پناہ دی ہے اور اب وہ میرا وطن ہے تو کیوں نہ میں اپنے وطن کے دشمنوں کو یہاں ختم کرکے واپس لوٹوں“۔ میری بات سن کر وہ بولے، ”بیٹی پاکستان تمہارا ہی محسن نہیں بلکہ میرا محسن بھی ہے اگر تم پاکستان کے دشمنوں کو ختم کرنا چاہتی ہو تو میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گا اور میرے آدمی تمہاری مدد کریں گے لیکن میں خود عملی طور پر تمہاری مدد نہیں کرسکوں گا،“ ان کے اتنا کہنے پر میں نے وہیں ٹوک دیا اور بولی، ” نہیں عمو جان مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں آپ اپنا کام کریں یہ بھی ضروری ہے مجھے صرف چلنے پھرنے میں مدد درکار ہے اور اگر چند ساتھی مل جائیں جن کی وفاداری پر یقین ہو تو میں اپنا کام خود کرلوں گی”۔ میری بات سن کر انہوں نے کہا کہ گھبرا نہیں تم جیسے چاہوں گی ویسے کام ہوجائے گا اتنا کہہ کر انہوں نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا ،” چلو میں اپنے آدمیوں سے تمہارا تعارف کرادوں تاکہ تمہیں جب ضرورت ہو تو میرے آدمی تمہاری بھرپور انداز میں مدد کریں“ اتنا کہہ کر وہ مجھے سہارا دے کر دوسرے کمرے میں لے آئے یہ ہال نما ایک بڑا کمرہ تھا اور وہاں کافی آدمی بیٹھے تھے۔
انہوں نے ان افراد سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ فرشتہ ہے اور میری بیٹی ہے، یاد رکھنا یہ میری منہ بولی بیٹی نہیں بلکہ حقیقی بیٹی ہے اس کے والد میرے بھائی تھے جو ایک حادثہ کا شکار ہوگئے اب اس بیٹی کا میں ہی باپ ہوں اور میں ہی ماں، تم لوگ میری بیٹی کی ہر ممکن مدد کروگے، یہ یہاں پر چند دشمنوں کو جہنم واصل کرنا چاہتی ہے اس کام میں تم اس کی بھرپور مدد کرو گے اور یاد رہے کہ تم اس کی جان کی ایسے حفاظت کرو گے کہ اپنی جان قربان کردو گے، اتنا تعارف کرانے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا، ”فرشتہ تمہارا زخم رسنا نہ شروع کردے اب تم جاکر کچھ دن آرام کرو جب ٹھیک ہوجا تو اپنا کام شروع کردینا“ یہ سن کر میں نے کہا، عمو جان میں صرف رات تک آرام کروں گی لیکن اس سے پہلے میں ان لوگوں سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں آپ ان میں سے ایک مجھے اسسٹنٹ کے طور پر دے دیں جو ذہین ہو، چچا نے کہا کہ ویسے تو یہ سب کے سب بہترین فائٹر ہیں لیکن تم اللہ داد کو اپنا اسسٹنٹ سمجھ لو، انہوں نے وہاں بیٹھے ایک شخص کو کہا، اللہ داد تم آج سے اس کے اسسٹنٹ ہو اور یہ جو حکم دیں تم وہ کروگے، یاد رکھو مجھے تمہاری شکایت نہ ملے، پھر کچھ دیر بعد ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد عمو عمر مجھ سے رخصت ہوکر چلے گئے اور اللہ داد کو میرے ساتھ چھوڑ گئے، میں اللہ داد کو لے کر اپنے اسی کمرے میں آگئی جہاں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی وہاں بیڈ پر بیٹھ کر میں نے اللہ داد سے پوچھا کہ یہاں بھارت کا سفارتی دفتر کوئی ہے، اس نے بتایا کہ ہاں یہاں پر بھارت کا قونصلیٹ کا دفتر ہے، میں نے پوچھا کہ یہاں ویزا تو نہیں لگتا تو یہ قونصلیٹ کا دفتر یہاں کیا کام کرتا ہے، اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتا، میں نے اس کو کہاں کہ اپنے کچھ افراد کو یہ ذمہ داری سونپو کہ وہ معلوم کریں کہ یہ قونصلیٹ کا دفتر یہاں کیا کام کرتا ہے، اللہ داد سر ہلا کر چند منٹ کی اجازت لے کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر بولا کہ ایک گھنٹے تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ دفتر یہاں کیا کرتا ہے، اصل میں ہم نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی ورنہ ہمیں علم ہوتا کہ یہ یہاں کیا کررہا ہے، میں نے کہا کہ اللہ داد اصل میں پاکستان یہاں طالبان کی بھرپور امداد کررہا ہے اور بھارت شمالی اتحاد کے ساتھ ہے اس لئے بھارت کے یہاں اضاف دفاتر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے اصل میں یہی معلوم کرنا ہے، اللہ داد سرہلاکر خاموش ہوگیا پھر میں نے اس کو کہاں کہ اللہ داد میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں تم رات کو آٹھ بجے میرا کھانا لے کر آجانا کھانا کھا کر پھر میں تمہارے ساتھ بھارت کے قونصلیٹ کے دفتر چلوں گی۔ اس نے کہاں ٹھیک ہے اس وقت تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ دفتر یہاں کیا کام کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کمرے سے چلا گیا اور میں آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی اور پھر کچھ دیر بعد میں نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
مجھے ایک افغان خاتون نے جگایا وہ کھانا لے کر آئی تھی اس نے کہا، بی بی 9 بج گئے ہیں اب آپ اٹھ جائیں اور کھانا کھا لیں میں نے اٹھ کر باتھ روم کا پوچھا پھر اس کے ساتھ باتھ روم میں جاکر دانت صاف کئے منہ دھویا اور واپس آکر کھانا کھایا کھانے میں نان اور بھنا ہوا گوشت تھا، میں نے کھانا کھایا پھر وہ خاتون قہوہ لے آئی قہوہ پی کر میں ترو تازہ ہوگئی اب زخم میں بھی تکلیف ختم ہوگئی تھی، اسی وقت اللہ داد بھی آگیا اور آکر بتایا کہ قونصلیٹ کی فعالیت مشکوک ہے وہاں مختلف ملکوں کے افراد آکر ملتے ہیں میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ کیا ہم اس عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں تو اللہ داد نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سخت پہرہ ہے البتہ اس سے ملحق ایک رہائشی عمارت ہے وہاں سے ہم دیوار پھاند کر جاسکتے ہیں، میں نے کہا کہ اللہ داد کسی بھی طرح اس عمارت کو حاصل کرو اور مجھے لے جاکر ذرا معائینہ کرا میں قونصلیٹ کی عمارت کو  دیکھنا چاہتی ہوں۔ اللہ داد سر ہلا کر چلا گیا پھر چند منٹ بعد آکر مجھے چلنے کو کہا، میں اٹھ کر اس کے ساتھ چل دی باہر آکر اللہ داد ایک گاڑی کی جانب بڑھا اور دروازہ کھول کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں گاڑی میں بیٹھ گئی تب اللہ داد بھی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی، ہم مختلف سڑکوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، اس وقت سڑکیں ویران تھیں، دکانیں بند تھیں بالکل کرفیو کا سا سماں تھا، تقریباً پندرہ منٹ بعد ہم منزل پر پہنچ گئے اللہ داد نے اشارے سے بتایا کہ وہ ہے بھارتی قونصلیٹ، میں نے دیکھا ہم وہاں رکے بغیر آہستہ رفتار سے آگے بڑھ گئے پھر ہم واپس آگئے اللہ داد نے بتایا کہ اس نے چند افراد کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ وہ ساتھ والی عمارت کسی بھی طرح حاصل کریں وہ کل تک کام کرلیں گے، میں نے اثبات میں سر ہلا کر اچھا کہا اور پھر اللہ داد سے کہا کہ ٹھیک ہے اب جب وہ عمارت ہمارے قبضے میں آئے گی تب ہم کام آگے بڑھائیں گے، پھر اللہ داد اجازت لے کر چلا گیا اور میں بھی سونے کے لئے لیٹ گئی ۔
صبح بیدار ہوئی تو ناشتے کے ساتھ ہی خبر ملی جس سے میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، خبر یہ تھی کہ آج رات بھارتی قونصلیٹ میں ایک میٹنگ ہوگی جس کے لئے وہاں ابھی سے تیاری کی جارہی ہے، میں نے یہ سنتے ہی اللہ داد سے کہا کہ آج رات میں وہاں جاں گی، اور ساتھ ہی اس کو کچھ چیزیں لکھ کر دیں کہ شام سے پہلے یہ چیزیں لادے، اس فہرست میں پستول، سائلینسر اور اضافی رانڈ بھی شامل تھے، اس کے بعد میں اپنے منصوبے کی چزئیات کے بارے میں سوچنے لگی اور پھر مطمئن ہوکر بیٹھ گئی۔ شام کو اللہ داد نے میری طلب کردہ اشیاءمجھے لاکر دیں، میں نے سائلنسر پستول پر لگایا اور اضافی رانڈ اپنی جیب میں رکھ لئے، اس کے بعد میں نے اس سے قونصلیٹ کی ساتھ والی عمارت کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس عمارت پر ان کا قبضہ ہے اور وہاں کے جو رہائشی تھے ان کو وہیں بے ہوش کرکے رکھا ہوا ہے میں نے کہاں کہ ہمیں دیر ہوجائے گی مجھے رات کو وہاں جانا ہے تو کیا اس وقت تک وہ ہوش میں نہیں آئیں گے، اس پر اللہ داد نے بتایا کہ ہوش میں آ بھی گئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ اس عمارت میں تہہ خانہ بھی ہے انہیں وہیں رکھا گیا ہے اس لئے فکر نہ کریں ان کی آواز باہر نہیں آئے گی یہ سن کر میں مطمئن ہوگئی اور اللہ داد سے رات کو دس بجے آنے کا کہا، یہ سن کراللہ داد سرہلاکر چلا گیا اور میں کھانا کھانے کے بعد بیٹھ کراپنے منصوبے پر غور کرنے لگی، اور تمام جزئیات کا جائزہ لینے کے بعد مطمئن ہوکر لیٹ گئی۔
رات کو دس بجے اللہ داد نے آکر مجھے چلنے کے لئے کہا تو میں اس کو چند منٹ رکنے کا اشارہ کیا اور خود ساتھ والے کمرے میں جاکر لباس تبدیل کیا، میں نے سر سے پاں تک سیاہ لباس زیب تن کیا تھا تاکہ رات کی تاریکی میں کسی کو نظر نہ آئے اور پھر اللہ داد کے ساتھ چل دی۔ اللہ داد نے پہلے سے گاڑی تیار رکھی ہوئی تھی اس میں پہلے سے چند افراد سوار تھے جبکہ ایک دوسری گاڑی بھی تیار تھی میرے پوچھنے پر اللہ داد نے بتایا کہ یہ گاڑی بھی ہمارے ساتھ جائے گی اس میں چند لڑکے ہوں گے جو کسی ہنگامی صورت میں ہماری مدد کریں گے۔ حالانکہ مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس وقت میں کچھ نہیں کہہ سکی صرف سر ہلاکر رہ گئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی میرے بیٹھتے کے بعد اللہ داد بھی پچھلی نشست پر بیٹھا اور گاڑی چل دی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہماری گاڑی بھارتی قونصلیٹ کی ساتھ والی عمارت میں داخل ہوگئی ۔ وہاں اللہ داد کی قیاد ت میں عمارت کے اندر گئی اور عمارت کا جائزہ لینے کے بعد باہر آکر دیکھا تو عمارت کے عقب میں ایک گرانڈ تھا جس میں ایک دیوار بھارتی قونصلیٹ کی عمارت کی جانب تھی، میں نے دیوار کے قریب جاکر دیکھا اس جانب گھور اندھیرا تھا کیونکہ جنگ کی وجہ سے اکثر علاقوں میں بلیک آٹ رہتا تھا اور صرف ضروری روشنی ہی کی جاتی تھی وہاں بھی عقبی حصے میں مکمل تاریکی تھی، میں نے دیکھا وہ دیوار تقریباً آٹھ فٹ بلند تھی، میں نے اللہ داد سے وہیں انتظار کرنے کوکہا اور خود چند قدم پیچھے ہوکربھاگتی ہوئی آئی اور چھلانگ لگا کر دیوار عبور کرگئی، دوسری جانب بھی لان تھا جہاں سبزہ لگا ہوا تھا جبکہ زمین پر گھاس تھی میں گھاس پر گری اور پھر اٹھ کر عمارت کی جانب بڑھنے لگی، میں پنجوں کے بل آہستہ روی کے ساتھ بڑھ رہی تھی ساتھ میں سُن گُن بھی لے رہی تھی کہ کہیں کوئی محافظ تو نہیں ہے، چلتے چلتے میں عمارت کی دیوار تک پہنچ گئی پھر وہاں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نکاسی آب کا پائپ تلاش کرنے لگی وہ بھی جلد ہی مل گیا میں اس پائپ کے سہارے عمارت کی چھت پر گئی پھر وہاں سے سیڑھیاں تلاش کرکے خاموشی کے ساتھ نیچے جانے لگی، نیچے روشنی ہورہی تھی اس لئے میں بہت احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ نیچے جارہی تھی، نیچے جہاں سیڑھیاں ختم ہوئیں وہاں دائیں ہاتھ ایک دروازہ تھا جو اس وقت بند تھا میں آہستہ سے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا، آگے پردہ پڑا ہوا تھا میں آہستہ سے اندر داخل ہوکر پردے کے پیچھے چھپ گئی اور تھوڑا سا پردہ ہٹا کر دوسری جانب دیکھا وہاں کمرے کے وسط میں ایک بڑی سی میز رکھی تھی جس کے گرد تقریباً دس کرسیاں رکھی تھیں اور اس وقت ان تمام کرسیوں پر مختلف افراد بیٹھے تھے ، وہ آپس میں گفتگو کررہے تھے، میز پر ایک بڑا ٹرانسمیٹر رکھا تھا جس پر کوئی شخص آن لائن تھا وہ بھی درمیان میں کچھ بول رہاتھا، بہرحال وہاں موجود افراد میں سے ایک نے کہاکہ یہ سب کرکے ہمارا کیا فائدہ ہوگا؟ تو ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ اسرائیل یہی چاہتا ہے نا کہ پاکستان میں شورش رہے اور یہی امریکہ چاہتا ہے جبکہ بھارت یہی سب کچھ کررہا ہے گو بھارت یہ کارروائی اپنے مفاد میں کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ تو تم لوگ بھی اٹھاتے ہونا اس لئے اس میں تمہارا بھی حصہ ہونا ضروری ہے۔ جس شخص نے سوال کیا تھا اس نے پوچھا کہ بولو تم کیا چاہتے ہو، دوسرے نے کہاں ہمیں اسلحہ چاہئے کیونکہ اگر ہم نے پاکستان کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ ہمارے مقابلے کے قابل نہ رہا تو ہمیں فوری طور پر اس پر حملہ کرنا ہوگا اس کے لئے ہمیں اسلحہ کی سپلائی کی ضرورت ہوگی اور 1965ءکی طرح عین وقت پر اسلحے کی سپلائی رکنی نہیں چاہئے ورنہ سارا منصوبہ فیل ہوجائے گا۔ اس پر اسرائیل کے ایجنٹ نے تسلی دلاتے ہوئے کہا کہ گھبرا نہیں تم جتنا اسلحہ کہو گے تمیں پہنچتا رہے گا یہ میری گارنٹی ہے تم اپنا منصوبہ بتا، اس کے بعد وہاں سرگوشیوں میں گفتگو شروع ہوگئی میں نے بہت کوشش کی کہ کچھ سن گن مل جائے لیکن مایوسی ہوئی وہ لوگ اتنی آہستہ اور سرگوشیوں میں بات کررہے تھے کہ مجھ تک بالکل بھی آواز نہیں آرہی تھی، میں نے جیب سے پستول نکالا چہرے پر نقاب لگائی اور پردہ ہٹا کرکمرے میں داخل ہوتے ہوئے سی آئی اے کے ایجنٹ سے کہا، مسٹر تم ہوشیاری نہ دکھا تم جو چال چل رہے ہو میں سمجھ گئی ہوں، میری آواز سن کر انہوں نے چونک کر میری جانب دیکھا اور سب کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ”تم کون ہو؟“ میں نے جو سکیم سوچی تھی اس کے مطابق کہا، ”ییلو کیٹ“ میری بات سن کر سی آئی اے کا ایجنٹ اسرائیلی ایجنٹوں سے بولا، ”یہ کیا ہورہا ہے، تم ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہو“۔ پھر اس سے پہلے کہ اسرائیلی ایجنٹ کوئی جواب دیتے میں نے امریکی کو گولی ماردی، اس کے ساتھ ہی ٹرانس میٹر سے آواز آئی، مسٹر یہ تم اچھا نہیں کررہے ہم سے بگاڑ کر تم کامیاب نہیں ہوسکو گے،“ اسی وقت میں نے ٹرانس میٹر کو گولی ماردی اور وہ خاموش ہوگیا ساتھ ہی میں نے وہاں بیٹھے تمام افراد کو یکے بعد دیگرے گولیاں ماردیں، چونکہ پستول پر سائلنسر لگا ہوا تھا اس لئے ذرا بھی شور نہ ہوا اور میں گولیاں مارنے کے بعد آگے بڑھی اور میز پر رکھے ہوئے کاغذات اٹھاکر زپ کھول کر اپنی جیکٹ میں اڑسے اور وہاں سے واپس ہولی، سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئی اور پھر پائپ کے راستے نیچے اتری لیکن جیسے ہی میرے پاں زمین سے لگے اسی وقت میری کمر میں کسی پستول کی نال لگ گئی اور کسی نے سرگوشی کے اندار میں کہا، ”چپ چاپ ہاتھ اوپر اٹھا اور خاموش کھڑے رہو“۔ میں اس افتاد سے گھبراگئی کیونکہ اچانک ہی یہ سب ہوا لیکن میں نے حواس قائم رکھے اور سخت لہجے میں اس کو کہا، ”بکواس نہ کرو میں نے دیکھ لیا ہے کہ تم کتنے ہوشیار ہو، جب میں اوپر گئی تو اس وقت تم کہاں تھے، اتنی دیر میں کوئی کچھ بھی کرسکتا تھا، جا اپنے انچارج کو بلا وہ کہاں ہے؟“ اس نے گھبراتے ہوئے پستول کی نال ہٹالی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ میرے ذہن میں جنرل اکبر کی بات آگئی کہ اسرائیل سے زرد بلیاں آئی ہوئی ہیں،  یہی حربہ میں نے ہال میں بھی استعمال کیا تھا تاکہ امریکہ اور اسرائیل میں ٹھن جائے، یہاں بھی وہی حربہ استعمال کرتے ہوئے میں نے بے ساختہ کہا ”ییلو کیٹ“ میری بات سن کر وہ گھبراگیا اور سیلوٹ مارتے ہوئے بولا ”سوری میڈم مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ یہاں ہیں“ میں نے بے نیازی سے کہا، ” اچھا اچھا اب وقت ضائع نہ کرو اور جاکر انچارج کویہاں لا“ میری بات سن کر وہ آگے بڑھ گیا میں نے ایک بم نکال کر اس میں پانچ منٹ کا وقت لگا کروہیں ایک کیاری میں رکھ دیا کیونکہ اس وقت تک عمارت میں لگائے گئے بموںکا بھی وقت ہوگیا تھا پھر میں اسی طرح اچھل کرساتھ والی عمارت میں گئی جہاں اللہ داد پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا، میں نے اس کو واپسی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا چلو جلدی سے چلو ہمیں واپس جانا ہے، میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ مڑ گیا تھا میں اس کے پیچھے چلتی ہوئی گاڑی تک پہنچی اور پھر اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی اس نے ڈرائیور کو آواز دی جو قریب ہی کھڑا کسی کے ساتھ باتیں کررہا تھا، آواز سن کر وہ آیا اورآتے ہی گاڑی چلادی پھر عمارت سے نکلتے وقت اس نے پوچھا کہ کیا واپس چلناہے؟ میں نے نے کہا نہیں فی الحال ایک چکر لگا کر پانچ منٹ میں واپس اسی جانب آ، اور عمارت میں اپنے آدمیوں سے فوری طور پر نکل جانے کا کہو کیونکہ تھوڑی دیر میں قونصلیٹ کے نگران سب سے پہلے اسی عمارت میں آئیں گے۔ میری بات سن کر اس نے گیٹ سے نکلتے ہی گاڑی ایک جانب گھماتے ہوئے سڑک پر ڈال دی اور ساتھ ہی ٹرانس میٹر پر کسی کو فوری طور پر نکل جانے کی ہدایت دے کر آہستہ روی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا، تقریبات پانچ منٹ بعد میں نے واپسی کااشارہ کیا اور اس نے یوٹرن لیتے ہوئے گاڑی موڑی، ابھی گاڑی پوری طرح نہیں مڑی تھی کہ ایک دھماکہ سنائی دیا اور قونصلیٹ کی عمارت میں کچھ ہلچل نظرآنے لگی ہم کافی فاصلے پر تھے اس لئے یہ تو معلوم نہ ہوا کہ کیاہورہا ہے بس اتنا محسوس ہوا کہ وہاں کچھ ہورہا ہے ابھی ہم اس عمارت تک پہنچے ہی تھے کہ مزید دھماکے سنائی دئیے اور وہ عمارت بیٹھ گئی، میں نے ڈرائیور سے گاڑی تیز چلانے کی ہدایت کرتے ہوئے واپس جانے کا کہا، جب ہم کافی فاصلے پر آگئے تو میں نے اللہ داد سے کہا کہ وہ معلوم کر ے کہ اس عمارت میں کیا ہوا وہ دھماکے کیسے تھے اور وہاں کوئی مرا یا زخمی ہوا کہ نہیں۔ میری بات سن کر اللہ داد نے ایک فون نکال کر کسی سے میرا سوال دہرایا اور پھر کچھ دیر دوسری جانب کی بات سنتارہا پھر فون بند کرکے مجھے بتانے لگا کہ بھارتی قونصلیٹ کی عمارت میں دھماکے ہوئے ہیں وہاں اس وقت بہت اہم میٹنگ چل رہی تھی جس میں بھارتی را، این ڈی ایس، موساد اور سی آئی اے کے اہم افراد بیٹھے تھے، زخمیوں کے بارے میں کچھ دیر میں بتائیں گے، میں سر ہلاکر خاموش ہوگئی پھر تھوڑی دیر بعد ہم پہلے والی عمارت پہنچ گئے جہاں میری رہائش تھی، میں نے گاڑی سے اتر تے ہوئے اللہ داد سے کہا کہ اللہ داد یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ دھماکے میں ہلاکتیں ہوئی ہیں یانہیں؟ ویسے دس افراد تو گولیوں کا نشانہ بنے ہیں بس یہ معلوم کرنا ہے کہ دھماکوں میں کتنے افراد شکار ہوئے۔ میری بات سن کر اللہ داد نے کہا، مس یہ دھماکے تو آپ نے ہی کئے ہیں نا تو پھر گولیوں سے کس نے شکار کیا؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، اللہ داد ایسے سوال نہیں کرتے بس اپنے کام سے کام رکھو، میری بات پر وہ بے چارہ سر ہلا کر رہ گیا اور میں عمارت کے اندر اپنے کمرے میں گئی اور قونصلیٹ کے دفتر سے حاصل کردہ کاغذات نکال کر انہیں دیکھنے لگی وہ نہ جانے کس زبان میں تحریر تھے میں کچھ سمجھ نہیں سکی، پھر میں نے وہ کاغذات سنبھال کر رکھے اور لیٹ گئی لیکن نیندآنکھوں سے دور تھی، صبح تک سونے جاگنے کی کیفیت میں رہی صبح جیسے ہی خادمہ آئی میں نے اس کو فوری طور پر عمو عمر کو بلانے کا کہا وہ سر ہلا کر چلی گئی اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد ملا عمر آگئے، میں نے انہیں وہ کاغذات دیتے ہوئے بتایا کہ یہ کہاں سے لئے ہیں اور انہیں پڑھنے کا کہا وہ چند لمحے کاغذات کو دیکھتے رہے پھر یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ ایک شخص کو جانتے ہیں جو یہ تحریر پڑھ سکتاہے۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھی رہی، اس دوران ناشتہ آیا میں نے ناشتہ کرلیا اور اٹھ کر بے قراری سے کمرے میں ٹہلنے لگی، تقریباً چار گھنٹے بیت گئے پھر ملا عمر پریشانی کے عالم میں آئے اور آتے ہی بولے، ”بیٹی تم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے چلو تمہیں فوری طور پر افغانستان سے نکلنا ہے، میں نے پوچھا عمو جان کیا ہوا، انہوں نے کہا کہ وہ کاغذات اسرائیلی وزارت خارجہ کے تھے جس میں بہت سی سازشیں درج ہیں جن پر ابھی عمل ہونا تھا وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے تم فوری طور پر یہاں سے نکل جاؤ یہاں تم محفوظ نہیں ہو پاکستان میں پھر بھی محفوظ رہو گی۔ میں کچھ دیر سوچتی رہی پھر ان سے کہاکہ ٹھیک ہے میرے جانے کا انتظام کردیں، وہ مجھے رات کو تیار رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے چلے گئے۔
رات بہت تاریک تھی آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ملا عمر نے آکر مجھے اشارہ کیا میں اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور ان کے ساتھ چلتی ہوئی عمارت کے باہر آئی وہاں ایک جیپ کھڑی تھی انہوں نے مجھے سینے سے لگا کر پیار کرتے ہوئے کہا، ”بیٹی مجھے معاف کردینا میں تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکا لیکن میں مجبور ہوں، تم نے بہت خطرناک اوربڑی طاقتوں سے ٹکر لے لی ہے تم پاکستان میں ہی محفوظ رہوگی۔ میں نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جتنی مدد کی ہے وہ بھی میری توقع سے زیادہ ہے اور پھر میں جیپ میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور نے جیپ آگے بڑھادی۔
                                                                      (جاری ہے)
..................................................................................................
..................................................................................................

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.