*Pichal Parri *




٭پچھل پیری ٭
قسط نمبر :11
تحریر: در نجف
ایک ایسی داستان ، جس میں محبت کے لئیے قربانیاں، اور محبت ہی کو پانے کے لئیے خود غرضیاں شامل ہیں۔
جہاں محبت کو پانے کے لئیے نہ  صرف لٹایا جائے گا “بلکہ محبت کو پانے کے لئیے ہر چال چلی جائے گی۔ زرک آفتاب شاہ اور جن زادی کی محبت کی کہانی۔ ”جس کے لئیے جان، اور ایمان، داو پہ لگ جائیں گے۔
مہارانی برو کے ساتھ اپنے کمرے میں موجود تھیں۔ 
مہارانی کو گرفتار تفکر پا کر برو تشویش میں مبتلا خاموش کھڑا رہا۔ 
کیا سوچ رہے ہو میرے وفا دار۔“ مہارانی نے آنکھیں بند کئیے ہی پوچھا جیسے وہ بنا دیکھے ہی اس کے حال سے باخبر ہوں۔
کککچھ نہیں میری ملکہ۔”برو نے گھبرا کر سر نہیواڑے ہی جواب دیا۔
کچھ تو ہے۔۔۔ورنہ اتنی سنجیدگی ، اتنی خاموشی تمہارا خاصہ نہیں۔کچھ کہنا چاہتے ہو تو بلا ججھک کہو۔کوئی پریشانی ہے تو بھی کہو اور اگر جانا چاہتے ہو تو بھی کہو ۔“ مہارانی نے آنکھیں کھول کر اس کے متفکر چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
نہیں! نہیں اے عظیم ملکہ ان حالات میں، میں آپ کو چھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔میں کہاں جاؤں گا سوم قبیلہ ہی میرا خاندان ہے۔شہزادی کے بارے میں سوچ رہا ہوں نجانے کن حالات سے دو چار ہوں۔ اس وقت ان کا نہ ہونا بھی بہتر ہے میری ملکہ۔“ برو نے پرسوچ لہجے میں کہا۔
ملکہ نے چونک کر برو کو دیکھا۔ ”کیا کہنا چاہتے ہو کھل کر کہو۔
میری ملکہ! ارون قبیلہ ایک شیطان پرست قبیلہ بن چکا ہے۔ وہ آس پاس کے تمام چھوٹے قبیلوں کو اپنے قبیلے میں ضم کر چکا ہے۔ صرف طاقت کے بل بوتے پر۔۔۔۔پہلے پہل تو کوئی بھی خوش نہیں تھا سب ڈرتے تھے سو خاموشی سے شامل ہوتے گئے کیونکہ وہ اس سے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ مگر اب۔۔۔
ملکہ نے برو کو خاموش پا کر سوال کیا۔ ”مگر کیا؟ برو اپنی بات جاری رکھو شاید کوئی بہتر حل نکل سکے۔“ 
بادشاہ سے کچھ بعید نہیں ہو سکتا ہے جنگ کے اصولوں کے خلاف کچھ کر گزرے۔ جہاں تک شہزادی کی بات ہے تو اس وقت ان کی غیر موجودگی ہمارے حق میں ہے۔ ہاں میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلاؤں گا کہ بادشاہ اپنی کالی طاقتوں سے شہزادی کی کھوج لگا سکتا ہے۔“ برو نے ملکہ کو تفصیل بتائی۔
تم درست کہتے ہو برو۔۔۔۔حالات یکسر بدل چکے ہیں۔یہ بھی درست ہے ارون قبیلہ ہم سے زیادہ طاقتور ہے مگر ہمارا بھروسہ، ہمارا یقین اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمیں امید ہے بلکہ یقین واثق ہے اندھیروں کی شکست ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ شہزادی کی بات الگ ہے اب ہم بھی سمجھتے ہیں وہ یہاں سے دور رہے۔ انسانی بستی اتنی بڑی نہیں کہ ہم شہزادی کی کھوج نا لگا سکیں۔ ہم چاہتے تو آسے ڈھونڈ نکالتے مگر یہ ابھی ہمارے حق میں ہے۔“ مہارانی نے اطمینان سے جواب دیا۔
برو نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
عود سلگا دو۔ تمام مشعلیں روشن کر دو ۔ حافظ صاحب کو بلاوا بھیجیں زرا قرات فرمائیں ۔
جو حکم مہارانی ابھی بلائے دیتا ہوں۔” برو نے عود سلگا کر تمام بخور بھی سلگا دیں۔مشعلیں روشن کر کے وہ باہر نکل گیا۔
ماحول میں خوشبو اور پاکیزگی گھل گئی۔ مہارانی اپنے شاہی تخت سے اٹھ کر فرش قالی پر آ بیٹھیں۔
کچھ ہی دیر میں شاہی کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ 
مہارانی نے دہیمے لہجے میں کہا۔ ”اجازت ہے۔ تشریف لائیے۔
صنوبر کا منقش بڑا سا در کھلا اور برو کی ہمراہی میں حافظ صاحب اندر آئے۔ ”السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔
 مہارانی ان کے احترام میں کھڑی ہو کر شاہی تخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔ ”وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ آئیے حافظ صاحب تشریف رکھئیے۔
سبحان اللہ کیا معطر اور پاکیزہ ماحول ہے۔ قلبی سکون کا اہتمام کئے ہوئے ہیں۔“ حافظ صاحب نے گہری سانس کھینچتے ہوئے آنکھیں موندھ کر تخت شاہی پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
جوابا مہارانی مسکراتے ہوئے بولیں۔ ”جاتے ہوئے بخور اپنے ہمراہ لے جائیے گا۔
نہیں نہیں مہارانی صاحبہ ہمارا مطلب۔۔۔

حافظ صاحب! ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں اور پھر ہمارے پاس اس کا ایک بڑا زخیرہ موجود ہے۔ ہم چاہیں گے خدا کے گھر میں یہ بخور سلگائیں جائیں مگر بہت کم مقدار میں۔۔۔ہمیں امید ہے اللہ کے بندوں کو ہمارا یہ تحفہ پسند آئے گا۔ ان کے دل حب الہی سے سرشار ہوں گے۔إن شاء الله ۔۔۔۔“ حافظ صاحب کی بات کاٹتے ہوئے مہارانی نے کہا۔
انشاءاللہ انشاءاللہ ضرور ۔۔۔کہیے آج کونسی آیت سے آپ کے سکون قلبی کا اہتمام کروں۔“ حافظ صاحب نے ہاتھ بڑھا کر تخت کے ایک کونے پر نظر نہ آنے والی مسند پر اطلس خطائی میں لپٹے قرآن مجید نہایت ادب احترام سے اٹھایا اور کھولتے ہوئے چند لمے زیارت کرنے کے بعد بند کر کے وآپس اپنی جگہ رکھدیا۔
سورہ رحمن ۔۔۔بیشک خدائے بزرگ و برتر نے صیحح فرمایا۔ بسم اللہ کیجئے ۔“ مہارانی ہمہ تن گوش ہوئیں اور پیچھے بیٹھے برو نے بھی سر جھکا لیا۔
حافظ صاحب نے قرات کا آغاز کیا تو مہارانی کی آنکھین ندامت و شرمساری سے در توبہ کھٹکھٹانے لگیں۔ وہ اپنے تمام گناھوں کی معافی مانگتی رہیں اور حافظ صاحب تاریکیوں میں اجالا بکھیرتے رہے۔ قرات کے اختتام پر حافظ صاحب نے دعا کی اور انسانی بستی وآپس لوٹ جانے کی اجازت طلب کی جسے مہارانی نے قبول کیا   
برو! ان جوڑوں کو حاضر کرو جنہوں نے شادی کے بعد اصولوں کی خلاف ورزی کی ہم یہ معاملہ نمٹانا چاہتے ہیں فورا حاضر کیا جائے۔
جو حکم مہارانی۔” برو فورا چلا گیا۔
مہارانی آنے والے حالات کے بارے سوچنے لگییں۔ وقت قریب آ چکا تھا۔ کمرے کے دروازے پر مخصوص دستک انہیں سوچوں کی گرداب سے کھینچ لائی ۔
 براہ نخوت سے کہا گیا۔ ”اجازت ہے۔
برو کے ہمراہی میں چند جوڑے اندر داخل ہوئے اور مہارنی کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہو گئے۔
عظیم ملکہ! یہی وہ جوڑے ہیں جنہوں نے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور آپ کے حکم سے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
جب تمہاری خواہش کے مطابق ہم نے تمہارا نکاح کر دیا تو اصولوں کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔ کیا تمہیں اس کی سزا معلوم ہے؟ جوابا خاموشی چھائی رہی۔ تم کیا سمجھے تھے آتش زادو کہ ہمارے قبیلے کی لڑکی سے شادی کر کے تم انہیں لاوارث سمجھ بیٹھے۔۔۔چالیس دن تو تم لڑکیوں کے ساتھ گزار نا سکے آنے والے حالات میں تم سے کیا توقع کی جائے؟
 ”جن زادی تم نے اپنی مرضی سے شادی کی یا زمہ دارن کی مرضی سے؟“ مہارانی نے ایک جن زادی سے پوچھا جس کے چہرے پر افسردگی کے کھنچے خط بہت واضع تھے۔
میں نے اپنی مرضی سے شادی کی میری مہارانی۔“ لڑکی نے کہا۔
 ”جن زادے کیا تمہیں اس سے کوئی شکایت ہے۔“ مہارانی نے اس جن زادی کے شوہر سے پوچھا۔
نہیں میری مہارانی یہ جن زادی میری بہت اچھی شریک حیات ہے مجھے اس سے کوئی شکايت نہیں ۔ بس میں ہی غصیل ہوں ۔ چاہنے کے باوجود میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
اے جن زادی کہو کیا فیصلہ کیا جائے کیا تم اس کے ساتھ جانا چاہتی ہو یا یہیں رہنا چاہتی ہو۔“ مہارانی نے کہا۔
گستاخی معاف میری مہارانی میں یہ فیصلہ اپنے شوہر پر چھوڑتی ہوں۔“ جن زادی نے کہا۔
کیا کہتے ہو آتش زادے۔” مہارانی نے جن زادے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
میں شرمندہ ہوں میری مہارانی۔ میں یہیں رہنا چاہتا ہوں۔“ آتش زادے نے کہا۔
ہم چاہتے تو تو تمہیں سر عام کوڑے لگواتے ۔۔۔۔ہمارے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت کیسے کی۔ صرف اس جرم میں آتش زادے کو تین کوڑے لگائے جائیں اور اس کی بیوی کو ہمارے قبیلے میں جگہ دی جائے۔ آتش زادے کو ہماری فوج میں شامل کیا جائے۔
وہ جوڑا چلا گیا۔ اب کمرے میں تین جوڑے تھے جنہیں سزا کے بعد رخصت کر دیا گیا۔
جیلوں سے تمام قیدی اپنے انجام کو پہنچے۔ مہارانی اپنے تمام اندرونی معاملات کو حل کر چکی تھی۔ اب وہ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کی سوچ رہی تھیں۔ وقت کے چکر میں ہیر پھیر کرنا آسان نہیں اس میں ان کا اپنا بھی نقصان تھا۔ آنے والے وقت اور قدرت کے قوانین میں ردوبدل کرنا جرم تھا۔ تمام تر طاقتوں کے باوجود انہوں نے کبھی وقت کی دیوار پار کبھی جھانکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ انہیں اپنے خدا پر بھروسہ تھا۔ وہ آنے والی کل کو بے خبری سے ہی اپناتیں اور اس کل کی آسانیوں اور مشکلوں سمیت اپناتیں ان کی نگری میں ایسے کاموں پر پابندی تھی جو جادو کے زور پر کیئے جائیں۔ یہ اور بات تھی قبیلے میں کچھ سرگوشیاں ابھریں لیکن اپنا وجود کھو بیٹھیں۔
جیل کے قیدیوں کے فیصلے ہو جانے کے بعد برو نے مہارانی کو خبر دی کہ نمروشہ وآپس آ چکی ہے اور ملنا چاہتی ہے۔
مہارانی نے نمروشہ کی آمد کا سن کر جلد حاضر ہونے کا حکم سنایا۔ نمروشہ فورا ان کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔ 
نمروشہ ہماری بچی کیسی ہو۔ امید کرتے کوئی خوشخبری ملے گی۔“ مہارانی نے خوشی سے نمروشہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
کمرے کے باہر کچھ آوازیں آنے لگیں۔ دونوں نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں کچھ سیاہ پوش داخل ہو رہے تھے۔ ان میں سب سے پہلے داخل ہونے والے سیاہ پوش نے برو کو گردن سے پکڑا ہوا تھا اور وہ گھسٹتے ہوئے مہارانی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
مہارانی اور نمروشہ کے چہرے پر غصے کے تاثرات، (سیاہ لبادہ جو ہڈ کی مانند چہرے اور شانوں پر الگ سے پڑے کپڑے میں سے اس کے نظر آتے ہونٹوں پر مسکراہٹ صاف نظر آ رہی تھی) ایک جھٹکے سے اس نے اپنے سر سے کپڑے کو اپنے سر سے پیچھے کی جانب سرکاتے ہوئے مہارانی سے کہا۔
میری طاقت کے آگے ۔۔۔۔۔وہ بات کرتے کرتے رکا اور اپنے ساتھ آئے غلاموں سے مخاطب ہوا۔ ”دفع ہو جاؤ۔” وہ سبھی مہارانی کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ اس نے جھٹکے سے برو کو مہارانی کے قدموں میں میں پھینکا۔
آپ نے اسے پناہ کیوں دی۔ یہ بھگوڑا ہے۔ مجرم ہے باغی ہے۔” آنے والے نو جوان کی آواز کمرے کے در و دیوار ہلا گئی۔
گستاخ محل کے آداب سے ناواقف ہو یا اپنی جان کے دشمن؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے محل میں داخل ہونے کی۔“ مہارانی کی گرج دار آواز کمرے میں گونجی۔
سنو مہارانی! میرا نام اشون ہے۔ ارون قبیلے کا بادشاہ۔۔۔میری طاقتوں کے آگے تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! میری بے حساب طاقت کے آگے تمہیں جھکنا ہی ہو گا۔“ اشون نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے رعونت آمیز لہجے میں کہا۔

برو نے ہمارے قبیلے میں میں پناہ لی ہے۔ اسے یہ حق حاصل ہے وہ جب چاہے اپنی مرضی سے کسی بھی قبیلے میں شامل ہو سکتا ہے۔ دوسری بات مہارانی نے اطمینان سے اپنے تخت کی طرف گھومتے ہوئے کہا۔ خیر مناؤ شیطان کے پجاری کہ تم محل میں آ تو گئے لیکن جا نہیں پاؤ گے۔“ مہارانی شان سے اپنے تخت پر براجمان ہوتے ہوئے بولیں۔ 
اوّل تو یہ قانون ختم ہو چکا ہے۔ دوسرا اب میرے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ اس بھگوڑے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ہاں! یہ لڑکی میرے کام کی ہے بس زرا سی چوک ہو گئی ورنہ میں راستے میں ہی اسے۔۔۔۔
کیا مطلب؟ اس لڑکی سے تمہارا کیا کام؟“ مہارانی نے حیرانگی سے نمروشہ کی طرف دیکھا جو اشون کو گھور رہی تھی۔
یہ لڑکی ایک سفر کر کے آئی ہے اور جو چیز وہاں سے لائی ہے میرے حوالے کر دے۔” اشون چلتا ہوا نمروشہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
بد بخت وہ چیز تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔” نمروشہ نے دانت پیستے ہوئے اشون کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
تیری اتنی ہمت کہ تو مجھے انکار کرے۔” اشون نے اشارہ کیا اور نمروشہ اچھل کر کمرے کی پتھریلی دیوار سے جا ٹکرائی۔
مہارانی غصے سے بپھرتے ہوئے اشون کو پکارا اور ساتھ ہی اپنی انگلیوں کو گولائی میں گھماتے ہوئے اشون کی طرف اشارہ کیا۔ نیلی شعاؤں کا ایک دھارا اشون کے سینے کی طرف لپکا اور وہ بھی اچھل کر کمرے کی چھت سے ٹکراتے ہوئے فرش پر گر پڑا۔ یہ اچانک ہوا اشون اس حملے کے لئیے تیار نہ تھا۔ وہ جلد ہی سنبھل گیا۔
تم نے کیا سمجھا تھا تم میرے محل میں آؤ گے اور آسانی سے نکل بھی پاؤ گے۔ اگر ایسا ہو تو ہمیں مہارانی کون کہے گا۔ اپنے جنتر منتر کے کھلونوں سے تم خود کھیلو یہ ہمارا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے۔“ مہارانی بولی۔
اشون کھڑا ہو گیا ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیل گئی۔ آنکھوں میں مکاری کی چمک واضع تھی۔
مہارانی! سفید پہاڑ کے اطراف میں میری فوج میرے اشارے کی منتظر ہے۔ آن کی آن میں اپنی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی۔ بہتری اسی میں ہے شہزادی اور سلطنت کو میرے حوالے کر دیں۔ اپنی طاقت کا اندازہ اسی بات سے لگائیں کہ میں اس وقت اس محل میں موجود ہوں۔ کیا یہ آپ کی طاقت کا مذاق اڑانے کو کافی نہیں؟ کیا آپ کے محافظ مجھے روک پائے؟ نہیں! میرے یہاں سے جاتے ہی سلطنت میں چہ مگوئیاں ہوں گی کیا جواب دے پائیں گی؟
مہارانی خاموشی سے سنتیں رہیں۔
شہزادی سے محبت کرتا ہوں۔ یقین کیجئے میں اتنا برا بھی نہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں بلکہ ایک اور پیشکش ہے میری کہ۔۔۔ اقتدار آپ کے پاس ہے آپ کے پاس ہی رہے گا آپ ہی حکمران ہوں گی مگر قانون میرا ہو گا۔ شہزادی میری اول ملکہ ہو گی۔ کہیئے کیا یہ ایک اچھی پیشکش نہیں؟ اشون نے مہارانی سے کہتے ہوئے ان کے چہرے کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔
مہارانی نے نخوت سے کہا۔ ”نہیں! تم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم جنگی طبل کے بجنے کے منتظر ہیں۔ آہا یہ بھی تو ممکن ہے تم اپنے جال میں پھنس جاؤ۔۔۔۔ عین ممکن ہے تم یہاں سے نکل نا سکو اور پھر تمہیں بطور چارا استعمال کیا جائے۔ کہو کیا کہتے ہو۔ مہارانی کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
ہمممم اچھا ہے۔ اشون پر سوچ انداز میں بولا۔ آپ کا منصوبہ تو اچھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں گی؟ اشون نے خود پر قابو پاتے ہوئے مہارانی کو الجھانے کی کوشش کی۔                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں؟ کیا کہہ رہیں ہیں بہو رانی؟ ہوش میں تو ہیں۔سائیرہ خاتون حیرانگی سے بولیں۔
امی جان یہ سب آپ بابا اور شاہ صاحب سے پوچھیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ہم گھر جانا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں بھیا کس حال میں ہوں۔“ آبگینے روہانسی لہجے میں بولی۔
سائیرہ خاتون نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کو دیکھا۔ جو انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
امی جان ڈرائیور سے کہیئے ہمیں گھر چھوڑ دے۔“ آبگینے فورا کھڑی ہو گئی۔
بیٹھ جائیں۔۔۔بابا آتے ہوں گے ان کی اجازت کے بغیر آپ نہیں جا سکتیں۔“زرک شاہ کرختگی سے بولتے کمرے سے نکل گیا۔
سائیرہ خاتون حیرانگی سے آبگینے بولیں۔ ”آبگینے کہاں تھیں آپ؟ یہ کیا معاملہ ہے کچھ بتائیں گی؟
آبگینے زرک آفتاب شاہ کے لہجے کی کرختگی میں الجھی پھر سے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔ پہلی بار محبوب کا یہ انداز اسے دیکھنے کو ملا تو برداشت نہ کر پائی۔ اشک شفق گوں ہونے میں دیر نہ لگی۔ضبط کیئے بیٹھی رہی اور سائیرہ خاتون اس کے بولنے کی منتظر رہیں۔
آبگینے کیا ہماری بات کا جواب دینا پسند کریں گی؟“ سائیرہ خاتون الجھتے ہوئے بولیں۔
آبگینے خود کو سنبھالتے ہوئے بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ”ریحان شاہ نے ہمیں اغوا کیا تھا۔
آبگینے۔۔۔۔یہ کیا بکواس ہے۔” سائیرہ خاتون نے درشتگی سے کہتے ہوئے نظریں اس کے چہرے پر جما دیں جیسے سچائی کو از خود ڈھونڈ رہیں ہوں۔
امی جان ہم۔۔۔سچ کہہ رہے ہیں۔ جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے سبھی ہمارے دشمن بن گئے ہیں یا ممکن ہے ہمیں ہی ایسا لگتا ہو۔ ریحان شاہ ہمیں طلاق لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ دو بار نجانے کون سی جگہ پر ہمیں زبردستی اغوا کر کے رکھا۔ ایک بار تو اس عجیب سی لڑکی نے ہمیں بھگا دیا لیکن ریحان شاہ ہمیں پھر اغوا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب شاہ جی ہمیں خود ڈھونڈ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ہم نہیں مانتے۔۔۔ریحان ایسے کیسے کر سکتے ہیں اگر کوئی بات ہوتی تو ہمیں ضرور بتاتے۔” سائیرہ خاتون بے یقنی سے بولیں۔
امی جان یہ بات تو بابا اور شاہ جی بھی بتا سکتے ہیں کہ ہم کتنا جھوٹ بول رہیں ہیں۔ آخر بیٹے کی ماں ہیں نا۔۔۔ہماری ماں آپ سے سوال نہیں کر سکتی کیونکہ وہ منوں مٹی تلے دفن ہو چکی۔ بھیا موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ جادو ٹونے کرتے ہیں آپ کے لاڈلے۔۔۔وہ ہم پر رحم کیسے کریں انہوں نے تو اپنی بہن کو بھی نہیں بخشا۔ ویسے بھی۔۔۔ابھی کچھ دیر میں آپ کی نئی بہو بھی اس بات کی تصدیق کر دیں گی اگر آپ کو ہماری پر یقنین نہیں تو۔
نئی بہو؟ بھئی کیا کہہ رہیں ہیں ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔ کمرے کا دروآزہ کھلا اور وارث شاہ شوالے کو لیئے اندر داخل ہوئے۔دونوں شوالے کو اور وارث شاہ کو دیکھنے لگیں۔ 

سائیرہ خاتون زرا بات سنیں۔“ یہ کہتے ہی وارث شاہ باہر نکل گئے اور سائیرہ خاتون پریشان سی ان کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ کمرے میں اب وہ دونوں تنہا رہ گئیں۔شوالے نے ایک نظر آبگینے پر ڈالی اور چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔
شاہ زادای مجھ سے ناراض ہو؟ یقین جانو اس فیصلے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں نا ہی میں نے اپنی طاقت استعمال کی۔ یہ سچ ہے شاة صاحب کو میں جنون کی حد تک چاہنے لگی مجھے معلوم بھی تھا وہ صرف تمہارا ہے۔ اس کے دل میں میرے لئیے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔پھر بھی اسے چاہتی ہوں۔ التجا ہے میری۔۔۔ آبگینے میری یکطرفہ محبت کو سمجھو۔ میں کبھی نہیں آؤں گی۔۔۔۔لوٹ کر۔“ 
آبگینے نے شوالے کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ کیا چاہتی ہو؟ 
شاہ جی کی داسی بننا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں مجھے اس کے لئیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ بہت سی قربانیاں۔۔۔ اگر تم میری جگہ ہوتی تو یہ قربانیاں کبھی نہ دیتی۔ مگر میں دوں گی آبگینے۔۔۔تم اس کی بیوی ہو تمہیں تو سب اختیارات، سارے حقوق ملیں گے اور مجھے نام کا بندھن۔۔۔یہ سب میرے علم میں ہے مگر پھر بھی مجھے منظور ہے۔ اتنا تو جانتی ہو نا میں کون ہوں میرا اس خاندان سے کیا رشتہ ہے؟
آبگینے خاموش رہی۔ 
کمرے کا دروازہ کھلا اور اماں جان سائیرہ خاتون کے ساتھ اندر داخل ہوئیں۔
شوالے بٹیا پہ جوڑا پہن لیں۔“ ایک سرخ رنگ کا جوڑا اماں جان نے اس کی طرف بڑھایا جسے اس نے لے لیا۔
آبگینے آپ ان کی مدد کیجئے۔“ اماں جان سائیرہ خاتون کے ساتھ باہر نکل گئیں۔
آبگینے کی قوت برداشت ختم ہو چکی تھی ہاتھوں کے پیالے میں چہرا رکھے سسک پڑی۔ دل کا غبار نکاڸ کر جو شوالے کو دیکھا تو وہ تیار کھڑی تھی۔
آپ اتنی جلدی۔۔۔؟“ آبگینے نے حیرانگی سے شوالے کو دیکھا۔
ہاں! میں تمہیں کسی آزمائیش میں نہیں ڈالنا چاہتی اود پھر یہ کوئی مشکل نہ تھا۔“ 
ہونہہ آزمائش ۔۔۔۔کتنی حسین بلا ہیں آپ۔۔۔“ آبگینے نے دل میں کہا۔ 
ہاں! میں حسین بلا ہوں۔صرف بے ضرر حسن بلا۔”   
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.