* Mouj hay tou muj main rug o jan jasy *


٭موجود ہے تو مجھ میں رگ و جاں جیسے ٭
تحریر:عشاء راجپوت
قسط نمبر :8

آہ ۔۔۔۔لگتا ہے ڈئیر کزن تمہارے سدھرنے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر تم ان فضول اور بے جا حرکتوں سے باز آ جاؤ تو میں تمہیں آزاد کر دوں مگر تمہارے تو تیور ہی نہیں بدلتے،ایسے میں تمہیں آزاد کرنا دوسروں کی زندگی دشوار کرنے کے مترادف ہے۔
تمہیں شاید میری باتیں بے معنی لگیں،لیکن۔۔۔  تمہاری بھلائی اسی میں ہے کے خود کو سنوار لو ....ابھی بھی وقت ہے زندگی کا اک عرصہ پڑا ہے ۔
وقت“ کو کمان سے نکلے ”تیر“ سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ ایک بار جو وقت ہاتھ سے نکل جاۓ دوبارہ لوٹ کر واپس نہیں آتا ۔
اس سے پہلے کہ وقت تمہارے ہاتھ سے پھسل کر کبھی نہ واپس آنے کے لیے گزر جاۓ،اپنی غلطیوں کو سدھار لو ورنہ سواۓ پچھتاوے اور رنج و الم  کے تمہارے پاس کچھ باقی نہ رہے گا  اور تم ملال سے ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔
افنان کے اتنے لمبے چوڑے لیکچر کا ضیاء پہ خاطر خواہ اثر نہ ہوا وہ بس چپ سادھے اسے گھورتا رہا۔
افنان نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔
تمہارے پاس سوچنے کے لیے بہت وقت ہے۔ آرام سے فیصلہ کرو کہ تم کیا چاہتے ہو۔
افنان نے کہتے ہوۓ ایک نگاہ گھڑی پہ ڈالی۔
چلو میں اب اجازت چاہوں گا۔۔۔۔تمہاری بھابھی۔۔۔۔میرا لنچ پہ انتظار کر رہی ہو گی۔
افنان نے اٹھتے ہوۓ کہا۔
ضیاء نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
تمہارا ایسا تاثر دینا بنتا ہے۔افنان نے سر ہلاتے ہوۓ کہا۔
تم ضرور اپنی بھابھی کے متعلق جاننا چاہو گے تو میں تمہیں بتا ہی دیتا ہوں ،کیا یاد کرو گے۔۔۔۔
افنان سخاوت سے شاہانہ انداز میں کہتے ہوۓ پھر سے اس کے روبرو براجمان ہو گیا۔
ضیاء کی سوالیہ نظریں اب بھی اس پہ مرکوز تھیں مگر لب خاموش تھے۔ان پہ جیسے قفل لگ چکا ہو۔
جس روز تمہاری رہائش پذیرائی کا مقام یہ جگہ بنی ،افنان نے چاروں اور شہادت کی انگلی لہراتے ہوۓ اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ اس وقت موجود تھے۔
اسی روز ۔۔۔ نایاب۔۔تمہاری بھابھی بن کر میرے گھر آ گئی تھی۔
افنان ذدرا توقف سے بولا۔
ضیاء کی آنکھوں میں پہلے تحیر اور پھر قہر سمٹ آیا۔
جھٹکا لگا؟؟ یہ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ سب کو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کر دیتی ہے۔ 
ایک طرف مجھے تمہارا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے۔۔آفٹرآل تمہارے سبب ہی تو مجھے میری محبت حاصل ہوئی۔۔۔۔لیکن اگر تم خود کو بدل لو اور اعتراف کر لو تو زندگی بہت حسین ہے۔
ضیاء کلس کر رہ گیا۔
افنان جاتے جاتے بھی اسے نصیحت کر گیا مگر ضیاء کی قہر آلود نگاہوں نے اس کا تعاقب کیے رکھا جب تک وہ کمرے سے باہر نہیں چلا گیا اور دروازہ بند نہیں ہو گیا۔
افنان سے رامین کا ذکر سن کر اسے آدھی ادھوری بات سمجھ آئی تھی مگر نایاب کے بارے میں سن کر اسے افنان کا سارا پلان سمجھ آ چکا تھا۔
کڑی سے کڑی جڑنے لگی تھی۔۔ضیاء کو اب یہ جاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ افنان نے اسے اغوا کیوں کیا۔
 رامین اور ضیاء کے نکاح کی حقیقت معلوم ہونے پر وہ صرف شادی رکوانے کی کوشش کرتا مگر  اپنی محبت۔۔۔نایاب کو اس کے حوالے کبھی نہ کرتا۔اسی لیے اس نے یہ سب کیا۔
لیکن اسے رامین اور میرے رشتے کے بابت علم کیسے ہوا؟؟۔
ضیاء اپنی سوچ میں غرق ہو کر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی سعی کرنے لگا۔
اب اس کا دماغ بہت سے منصوبے  بنانے لگا تھا ۔
اسے انتظار تھا تو صحیح وقت کا۔۔۔
اپنے حصے کی چال تم چل چکے افنان۔۔۔۔۔۔
اب میرا انتظار کرو۔۔۔۔۔
خون کے آنسو رلاؤں گا تمہیں۔
ضیاء اپنا پلان سوچتے ہوۓ تمسخر خیزی سے مکروہ ہنسی ہنسا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس گھر کے اکلوتے چشم و چراغ مسٹر افنان کا ولیمہ تھا۔
پورے آفندی ولا کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔
سب کے چہروں سے چھلکتی خوشی دیدنی تھی۔
افنان کو نایاب کے اقرار کا بے صبری سے انتظار تھا  اور ایک وہ تھی کہ اس کے دل کی حالت سے انجان لب سیے بیٹھی تھی۔

گرے(سرمئی) رنگ کے اس آؤٹ فٹ میں وہ سیدھا افنان کے دل پر وار کر رہی تھی۔
افنان بھی ڈنر سوٹ میں ملبوس اس کے دل کے تار چھیڑ رہا تھا بلکہ پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا۔
وہ دونوں سٹیج پر ایک ساتھ بیٹھے اس وقت ”پرفیکٹ کپل“ کا خطاب ہر مہمان سے وصول رہے تھے۔
ہلکی آواز میں بیک گراؤنڈ میوزک چل رہا تھا۔
وہ اتنے کم وقت میں  اس گھر کے مکینوں سے اس قدر مانوس ہو چکی تھی کہ بہو والا  ہر کام نامحسوس انداز میں سنبھال لیا تھا گو کہ سب منع کرتے رہے۔
نایاب کو اس وقت پہلو میں بیٹھا افنان دل کے اتنے قریب محسوس ہو رہا تھا کہ نظروں سے ہی اس کی نظر اتارنے کو دل چاہ رہا تھا جبکہ دوسری جانب افنان کو نایاب اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ دل نے کہا   سب سے چھپا کر اس کا دیدار کرتا رہے۔۔ایک پل کے لیے بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔
یونہی سدا وہ اس کے ساتھ اس کے پاس رہے۔
شہام ناجانے کہاں سے بھاگتا بھاگتا سٹیج پر آیا اور آتے ہی افنان کو کھینچ کر لگے لگاگیا۔
افنان۔۔۔۔۔۔افنان۔۔۔۔میرے یار۔۔۔۔
میں۔۔۔میں بھی کنوارہ  نہیں مروں گا۔
شہام خوشی سے سرشار لہجے میں افنان کے کان میں بولا البتہ آواز کم از کم اتنی بلند ضرور تھی کہ  پاس بیٹھی نایاب کی سماعتوں تک باآسانی پہنچ گئی اور وہ منہ جھکاۓ کھی کھی کرنے لگی۔
دور  ہٹو بدتمیز آدمی۔۔۔لوگوں کے سامنے مجھ سے ذرا فاصلے پہ رہا کرو۔
پہلے ہی تمہاری وجہ سے معاشرے میں میری ناک کٹ چکی ہے کہ کیسا نمونہ دوست پایا ہے میں نے۔
مین نہیں چاہتا لوگ سچ میں یہی سمجھیں کہ تُو میرا دوست ہے۔
افنان نے سنجیدگی اوڑھے مذاق کیا اور ایک زوردار دھموکہ اس کے پیٹ میں جڑا جس سے شہام کراہا اور لڑکھڑا کر چار سے پانچ قدم پیچھے ڈھلکا اس سے پہلے کہ وہ بیچارہ سٹیج سے نیچے جا گرتا کسی نے اس کا ہاتھ تھاما ، کھنچتے ہوۓ اسے سیدھا کیا اور زمین بوس ہونے سے بچایا۔
شہام نے مد مقابل اپنے محافظوں کو دیکھا۔
اس کے دونوں ہاتھ دو لوگوں نے تھام رکھے تھے۔
ایک لائبہ  اور ایک افنان۔
اسے گرنے سے بچانے والے یہی دو افراد تھے۔
لائبہ جلدی سے اس کا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑتی نایاب کی جانب بڑھ گئی۔
(لائبہ نے ابھی سٹیج پر قدم رکھا ہی تھا کہ شہام ڈولتے ہوۓ پیچھے کی جانب گرنے لگا ۔لائبہ نے فوراً سے پیشتر اس کا ہاتھ تھام کر کھینچا جبکہ افنان بھی ایک ہی جست میں اس تک پہنچا تھا اور اسے بچانے میں برابر کا شریک بھی رہا۔
جب لائبہ اس کا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھی تو اسے ہوش آیا اور فوراً غصے سے بھرا افنان کی جانب رخ موڑ گیا۔
شہام نے دوستانہ انداز میں ایک بازو اس کے گلے کے گرد حمائل کیا اور دبوچتے ہوۓ اسے صوفے تک لایا۔
بیٹا اگر آج میری کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی نا۔۔۔۔۔۔تو قسم سے۔۔۔۔۔میں نے چھوڑنا تجھے بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔شہام نے دانت پیسے۔
خیر۔۔۔۔۔۔بدلہ تو میں اب بھی لوں گا۔۔۔۔کہتے ہوۓ شہام نے ایک زوردار دھپ اس کے کندھے پی رسید کی۔
افنان جواباً  مسکراتا رہا۔
ارے یار۔۔۔۔تُو تو بہت ڈھیٹ ہڈی نکلا۔۔۔۔درد نہیں ہوا کیا؟؟
شہام نے حیرت سے استفسار کیا۔
درد تم سے ملا ہے۔۔۔۔۔تو بھلا محسوس کیسے ہو گا؟؟افنان نے دوبدو جواب دیا۔
بسس۔۔۔بسس۔۔۔زیادہ مسکا لگانے کی ضرورت نہیں ۔
اب وہ دونوں بھی صوفے پر براجمان تھے اور نایاب لائبہ بھی۔
میں تو خوشی سے پاگل ہوتے ہوۓ صرف یہ بتانے آیا تھا کہ ابھی ابھی میں نے اپنے گھر والوں کو میری شادی کی بات کرتے سنا۔۔۔۔۔ہاۓ قسم سے۔۔۔۔ دل گارڈن گارڈن ہو گیا۔
میری بھی شادی ہو گی۔۔۔۔میری مسز میرے لیے پیار سے مزے مزے کے پکوان بناۓ گی اور اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلاۓ گی۔
شہام مست سا اپنی رو میں ہی فیوچر پلاننگ میں کھو کر بولے جا رہا تھا جیسے حقیقت میں ان پکوان کو چکھتے ہوۓ لطف اندوز ہو رہا ہو۔
لائبہ اس کے گارڈن گارڈن کو خاردار جھاڑیوں میں بدلتےہوۓ ایک پل کی بھی تاخیر کیے بنا ان کی باتوں میں مخل ہوئی۔
میں بتا رہی ہوں ۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔اور پکوان کی بات نہ کریں ۔۔۔مجھے تو ٹھیک سے چاۓ بنانا نہیں آتی۔
لائبہ نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوۓ اپنے خطرناک ارادوں سے آگاہ کیا۔
شہام بے چاری سی شکل بنا کر اس ظالم حسینہ کو دیکھنے لگا۔
افنان اور نایاب اپنی بے قابو ہوتی ہنسی کو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔
لائبہ اور شہام نوک جھونک کرتے ہوۓ سٹیج سے اتر گئے۔
نایاب کی فیملی اسے خوش دیکھ کر خوش تھی اور اس کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا گو تھی۔
اچانک ساری لائٹس بجھ گئیں۔
سب کی حیران پریشان آوازیں ماحول میں ابھرنے لگیں۔
پھر اس تاریکی میں ایک سپاٹ لائٹ نمودار ہوئی جس کا مرکز افنان تھا۔
وہ سٹیج کی سیدھ میں ذرا فاصلے پہ بنے ڈانس فلور پہ ہاتھوں میں گیٹار لیے ایک کرسی پہ بڑے سٹائل سے براجمان تھا۔
وائر لیس مائیک لگاۓ دلفریب انداز میں وہ سب کی توجہ کا مرکز بنا بیٹھا تھا۔
پیچھے D.J
 اپنے تمام تر میوزک انسٹرومنٹس سے لیس تھے۔ ہیییں۔۔۔۔۔۔یہ اتنی جلدی یہاں سے وہاں کیسے پہنچ گئے۔ نایاب آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ کر سوچنے لگی۔
دِز ونز ۔۔فار سم ون سپشل۔۔۔ہُو لِوز اِن مائی ہارٹ ایز آ پرنسس۔
افنان نے دل شکن  انداز میں مسکرا کر کہا اور بڑی مہارت سے گیٹار کے تار چھیڑے جس سے ایک مدھر سی دھن نکلی۔
وہ سچ میں ایک اچھا گیٹار پلئیر تھا۔
سب نے بے انتہا ہوٹنگ کی۔
اب کہ ایک اور سپاٹ لائٹ نمایاں ہوئی ،اندھیرے کو چیڑتے ہوۓ سٹیج پر ڈیرہ جمایا اور نایاب کو اپنی روشنی کے حصار میں لیا۔
ان سپاٹ لائٹس کی روشنی میں وہ دونوں اک دوجے کو محویت سے دیکھنے لگے۔
افنان نے نایاب کو نظروں کے حصار میں رکھے گیٹار کے تاروں سے کھیلتے ہوۓ گانے کا آغاز کیا جو کہ نایاب کے لیے اس کے جذبات کی عکاسی کر رہا تھا۔
موجود ہے تُو مجھ میں رگ جاں جیسے 
یہ لب و لہجے سب ہیں تیرے نشاں جیسے
تو آئینہ ہے میرا
آ مجھے مجھ سے ملا
وہ اپنی خوبصورت آواز کا جادو چلاتا ہر سُو سر بکھیرنے لگا۔
تو آئینہ ہے میرا 
آ مجھے مجھ سے ملا
تجھ کو رب کی ہے قسم
میرا ہونے کا صنم 
مجھ کو احساس دلا
مجھ کو احساس دلا
وہ سحر انگیز ماحول بناتے ہوۓ سب پر چھانے لگا۔
تو آئینہ ہے میرا 
آ مجھے مجھ سے ملا
تو آئینہ ہے میرا 
آ مجھے مجھ سے ملا
وہ ماہرانہ طریقے سے گیٹار سے دھن نکالتے ہوۓ اس کے دل کے تار چھیڑنے لگا۔
جانے کب سے یونہی تنہا 
بھٹک رہا ہوں میں
ساری دنیا کی نگاہوں میں 
کھٹک رہا ہوں میں
ہووو۔۔۔۔جانے کب سے یونہی تنہا 
بھٹک رہا ہوں میں 
ساری دنیا کی نگاہوں میں 
کھٹک رہا ہوں میں
اس سے پہلے کہ بجھے 
میری امیدوں کا دیا
میری پلکوں پہ ٹھہر
عشق کا پھول کھلا 
عشق کا پھول کھلا
نایاب تو جیسے اس کے لفظوں میں کہیں کھو سی گئی۔
بنا پلک جھپکاۓ اسے دیکھنے لگی۔
افنان بھی آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے میں مگن تھا۔
تو آئینہ ہے میرا 
آ مجھے مجھ سے ملا
تو آئینہ ہے میرا آ مجھے مجھ سے ملا
افنان نے نایاب کو آنکھوں کے رستے دل میں اتارتے ہوۓ گانے کا اگلا بول بولنا شروع کیا۔
گمشدہ ہوں تیری چاہت میں اک زمانے سے
روک لے آ میرے جذبوں کو بکھر جانے سے
(آخر 3 سال سے مرض عشق میں مبتلا تھا ۔یہ کوئی چھوٹا عرصہ تو نہ تھا )
نایاب کی ایک بیٹ مس ہوئ۔
وہ کھلم کھلا اظہار کر رہا تھا اور دل کی گہرائی سے گا رہا تھا۔
گمشدہ ہوں تیری چاہت میں اک زمانے سے
روک لے آ میرے جذبوں کو بکھر جانے سے
خواہشیں اور نہیں
 تیری قربت کے سوا
سانس تھم جاۓ میری
اس قدر پیش نہ آ
اس قدر پیش نہ آ
افنان نے اس دوران ایک پل کے لیے بھی نظر اس پر سے نہ ہٹائی تھی۔
تو آئینہ ہے میرا
آ مجھے مجھ سے ملا
تو آئینہ ہے میرا
آ مجھے مجھ سے ملا 
سونگ ختم ہوا تو فوراً سے ساری لائٹس روشن ہو گئیں۔
بھر پور تالیوں اور ہوٹنگ سے اسے داد دی گئی جبکہ شہام تو باقاعدہ سیٹیوں پر اتر ایا۔
بہت سے لوگ نایاب کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
افنان کے اس قدر کھلم کھلا اظہار پہ قوس قزاح کے رنگ اس کے صبیح چہرے پر بکھر گئے۔
اب تو لرزتی پلکیں اٹھا کر اس محبوب شوہر کو دیکھنا بھی دوبھر ہو رہا تھا۔
افنان سب سے تعریفیں وصولتا سارے فاصلے عبور کرتے ہوۓ اس تک پہنچا۔
مسز ۔۔۔۔۔۔وانا ڈانس ود یو۔۔۔۔۔۔
افنان نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتے ہوۓ کہا۔دل موہ لینے والی مسکراہٹ چہرے پر برقرار تھی۔
نایاب نے افنان کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو ایک نظر دیکھا۔۔۔دل میں خیال آیا۔۔۔۔انہی ہاتھوں کی لکیروں میں کہیں نہ کہیں وہ اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔
نایاب نے اس کی ننھی سی خواہش پہ ہولے سے اپنا ہاتھ اس کی ہتھیلی پہ رکھ دیا جسے افنان نے مظبوطی سے تھام لیا اور اسے کھڑے ہونے میں مدد دی۔
ایک بار پھر بھرپور تالیوں کی گونج ہر طرف سنائی دینے لگی۔
احسن آفندی اور سائرہ آفندی بھی اپنے بیٹے کا یہ دیوانہ روپ دیکھ کر مسکرا دیے۔
انہیں اپنا بیٹا بہت عزیز تھا اور اس کی خوشیوں سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہ تھا۔
حارث کو بھی تتلی کی طرح یہاں سے وہاں منڈلاتی ایک پری دل کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوئی۔اس نے دل کو ڈپٹ کر خاموش کروایا اور دل کی پکار پہ جان بوجھ کر رخ پھیر گیا۔
کیونکہ ابھی وہ خود کو اس قابل نہ سمجھتا تھا کہ کسی کے ساتھ کی طلب کر سکے۔
ابھی تو ترقی کی منازل طے کرنی تھی یہ تو شروعات تھی اس لیے اس انجان پری سے بظاہر لاتعلق بنا بیٹھا رہا جو افنان کے ہر ہر عمل پر بچوں کی طرح اچھلتے ہوۓ ہوٹنگ کرتی اور سیٹیوں میں بھی شہام کا بھر پور ساتھ دے رہی تھی۔
اس انداز پر ایک خوبصورت مسکان نے حارث کے چہرے کا احاطہ کیا تو چہرہ جھکا گیا۔
افنان نایاب کا ہاتھ تھامے سٹیج سے اترا اور ڈانس فلور پر لے جا کر ایک خوبصورت سے گیت پہ اس کے ساتھ کپل ڈانس 
کیا۔
(جاری ہے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.