Gaza

غزہ کے آنسو :

تحریر:ارسلان اللہ خان

غزہ کی پٹّی لہو لہو تھی۔ہر طرف صف ِ ماتم بچھی تھی۔کسی گھر سے لاشیں نکل رہی تھیں تو کہیں سے زخموں سے چور بے یارو مددگار فلسطینی۔ہر طرف ایک قیامت برپا تھی۔

اسرائیل مُسلسل بمباری کررہا تھا جس سے سب سے زیادہ بچّے مُتاثر ہورہے تھے۔  چار سو مربع میل کے علاقے اور ۸:۱ ملین لوگوں پر مُشتمل غزہ کی پٹّی اس المیے سے دوچار تھی کہ اسرائیل نے اسے محاصرے میں رکھ کر مسلسل حملوں کے عذاب میں مُبتلا کر رکھا تھا۔

چار سال کی ننھی بچّی زینب اس دوران مغربی کنارے اپنی نانی اور ماموں کے ساتھ مسجد ِ اقصیٰ گئی ہوئی تھی۔ اس دوران صیہونی فوج نے حملہ کردیا اور مسجد ِ اقصٰی اور گُنبد ِ صخریٰ پر دھاوا بول دیا۔ ننھی زینب کے لیے یہ ایک خوف ناک منظر تھا۔جیسے تیسے وہاں سے نکل کر اُنہوں نے اپنے گھر یعنی غزہ کی پٹّی کا رستہ ناپا۔ صیہونی فوج کی مسجد ِ اقصیٰ پر فائرنگ،آنسو گیس کی شیلنگ اور ہنگامے کے ردّ ِ عمل کے طور پر غزہ سے اسرائیل کو پیغام دیا گیا کہ اگر اُس نے مسجد ِ اقصیٰ اور گُنبد ِ صخرہ سے قبضہ خالی نہ کیا تو اسرائیل پر راکٹ سے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور غزہ پر اچانک حملہ کردیا جس کے جواب میں غزہ سے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ اسرائیل اپنی بدمعاشی سے باز آجائے۔ان راکٹ حملوں سے اسرائیل کے چند فوجی مارے گئے اور ایک دو چوکیاں تباہ ہوئیں، اس کے بعد اسرائیل کے پاس تو جیسے غزہ کو صفحہءِ ہستی سے مٹانے کاموقع ہاتھ آگیا۔اسرائیل نے وحشیانہ کاروائی کرتے ہوئے غزہ کے مُجاہدین سے زیادہ عام شہریوں اور عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ایک میزائل حملے میں زینب کا پورا گھر اُس کے والدین، بہن بھائی اور دادا دادی سمیت تباہ و برباد ہوگیا۔زینب اور اُس کے ننھیال کے لیے یہ انتہائی کڑا وقت تھا۔ مگر سلام ہے اُن کی عظمت پر کہ انُہوں نے کسی قسم کا بین یا شکوہ تو کُجا،شہید ہونے کی سعادت کے لیے اپنے خانوادے کے انتخاب پر اللہ کا شُکر ادا کیا۔

زینب کے ماموں اُسے اپنے گھر لے آئے۔زینب کا خاندان منوں مٹی تلے دب چُکا تھا۔اُس کے پاس رونے کو آنسو تک نہ تھے۔ بس وہ گہری خاموشی میں مُبتلا تھی۔اُس کے ماموں، مُمانی، خالہ اور نانا نانی سب اُس کا بے حد خیال رکھتے۔ زینب کے اندر پہاڑ جیسا حوصلہ تھا۔ اسرائیل کی بمباری ابھی بھی جاری تھی۔ پوری غزہ کی پٹّی میں رہنے والے فلسطینی یہ نہیں جانتے تھے کہ نہ جانے کس لمحے اُن کا گھر بھی زمین بوس ہوجائے گا۔ زینب کے ننھیال میں بھی یہ خوف بدرجہ اتم موجود تھا لیکن زینب کوتوجیسے موت کا کوئی خوف نہ تھا۔ایک دن اُس کے ماموں نے اُسے ایک کتاب لاکر دی جس میں دُنیا کے مُختلف مُمالک کے نقشے تھے۔

”ماموں جان! اس دُنیا میں کتنے مسلمان ممالک ہیں؟“ننھی زینب نے نہایت معصومیت سے اپنے ماموں سے سوال کیا۔ 

اُس کے ماموں نے جواب دیا :

”بیٹا!اس نقشے میں جہاں جہاں ہرا رنگ ہے وہ سارے اسلامی مُمالک ہیں۔“

”ماموں یہ تو بہت سارے ہیں“۔ زینب نے اپنی ننھی اُنگلی سے ایک ایک کرکے سارے اسلامی  مُمالک گن لیے۔ شام کی چائے پر زینب کے نانا نے زینب کے ماموں سے کہا:

”سعد! زینب کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس کاذہن مصروف رہے۔ اس کے لیے آس پاس کا کوئی اسکول نظر میں رکھو تاکہ حالات بہتر ہوتے ہی اسے وہا ں داخل کردیا جائے۔“

”جی بابا! میں تو ابھی سے اس کے لیے کچھ کتابیں لایا ہوں اور یہ ماشاء اللہ بہت دلچسپی سے پڑھ رہی ہے۔“

زینب کے نانا نے زینب کو بلایا:

”ارے میرے پاس آؤ پیاری بچّی! تُم تو بہت پڑھاکو نکلیں۔ ماشاء اللہ۔“

”نانا! جب میں اسکول جاؤں گی تو کسی کو دوست نہیں بناؤں گی۔“

”ارے! یہ کیا، میری نواسی ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔“

”جی نانا جان! میں خود اپنے دُشمنوں سے مُقابلہ کرنا سیکھنا چاہتی ہوں۔“

”میری ننھی نواسی! یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن دوست نہ بناناتو اچھی بات نہیں۔“

”نانا جان! دوستوں کا کیا فائدہ جب وہ بُرے وقت میں ساتھ ہی نہ دیں۔“

”اللہ اکبر!اتنی سی بچّی دیکھو کیسی گہری گہری باتیں کر رہی ہے۔“

زینب کی نانی نے کہا۔

”نانا جان! دُنیا میں ۷۵ اسلامی ممالک ہیں لیکن

آج جب ہم فلسطینیوں پر حملہ ہوتا ہے تو ہمیں اسرائیل سے بچانے فی الفور کون آتا ہے؟جب تک ہمیں بچانے کی بات ہوتی ہے اُس وقت تک ہمارے کتنے لوگوں کی جانیں ضائع ہوجاتی

ہیں۔کتنے گھر تباہ ہوچُکے ہوتے ہیں۔کتنے بچّے یتیم ہوجاتے ہیں اور کتنے ماں باپ اپنے بچّوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس جانی و مالی نُقصان کے وقت ہمارے پاس اللہ کے سوا کسی کا سہارا نہیں ہوتا۔ اسی لیے میں خود اپنے دُشمنوں سے لڑوں گی۔“

سب لوگ زینب کی بات سُن کر دنگ رہ گئے۔ کسی کے پاس اُس کی حق بات کا جواب نہ تھا۔

***************



 

 

 

 






No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.