***Qatil Ishq***

 


***Qatil Ishq***
*Last Episode*
***Writer Amna Nasir***

* Click Here to read Online*
or
*Download PDF File*


_______________________________________________________

٭قاتلِ عشق٭
تحریر:آمنہ ناصر
دوسری اور آخری قسط
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کلثوم بانو یہ سوچ رہیں تھیں کہ وہ ذیشان کو کیسے شادی کے لئے راضی کریں ۔
"ذیشان کہاں گیا ہے ؟
احسان علی نے پوچھا
"مجھے نہیں پتا کہاں ہے ۔"
کلثوم بانو نے کہا تو احسان علی بولے
میں نے آخری دفعہ تمھارے ساتھ دیکھا تھا ۔
"کیا کوئی بات ہوئی ہے ؟
مہمانوں کے سامنے کتنا شرمندہ کیا ہے تمہارے بیٹے نے ۔
یہ کہہ کر وہ ذیشان کو کال کرنے لگے
ہیلو !
ذیشان نے تھوڑی دیر بعد کال اٹھا لی ۔
"کہاں ہو ؟
جتنا ذلیل کروانا تھا کروا لیا اب گھر آؤ ۔
ابو !میں نے امی کو پہلے ہی بتا دیا تھا ۔
کہ میں صرف صبا سے شادی کروں گا لیکن امی نے پھر بھی اپنی مرضی کی ۔
اب جو شرمندگی آپ کو اٹھانی پڑی ہے۔
اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔
سب امی کی غلطی ہے ۔
ان سے جواب مانگیں ۔
ذیشان نے کہا تو احسان صاحب چپ ہو گئے ۔
اللہ حافظ ۔
ایک منٹ ۔
ابھی وہ کال بند کرنے لگا تھا تو احسان صاحب جلدی سے بولے ۔
"جی ؟
ذیشان نے کہا
تم گھر آؤ پھر بات کرتے ہیں۔ جلدی سے آؤ ۔
جب تک امی صبا کے رشتے کے لئے راضی نہیں ہوتیں میں گھر نہیں آؤں گا ۔
ذیشان نے کہا تو احسان صاحب بولے ۔
تم آؤ میں بات کرتا ہوں تمھاری ماں سے ۔
اچھا آتا ہوں ۔
یہ کہہ کر ذیشان نے کال بند کر دی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تمہیں ذیشان نے بتایا تھا کہ وہ  یہ شادی نہیں کرنا چاہتا؟
کلثوم بیگم چپ رہیں تو وہ دوبارہ بولے ۔
میں کیا پوچھ رہا ہوں۔
ہاں !کہا تھا۔
کلثوم بانو مینمنائیں ۔
تو تم نے مجھےکیوں نہیں بتایا؟
احسان صاحب نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوۓپوچھا ۔
وہ ابھی بچہ ہے ۔اسے نہیں پتا اس کے لئے کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ۔میں تو صرف اس کا بھلا سوچ رہی ہوں ۔کلثوم بانو نے کہا تو احسان صاحب غصے سے بولے ۔
اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر کے آپ کون سا بھلا سوچ رہی ہیں ذرا مجھے بھی پتا چلے ۔
احسان صاحب کو غصے میں دیکھ کر کلثوم بانو گھبرا گیں ۔
آپ غصہ نا کریں ۔
کلثوم بانو کے کہنے پر وہ بولے ۔
میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دیں بیگم ۔وہ اس صبا سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔
لیکن میں ایسا نہیں چاہتی اگر ذیشان کی شادی میرے بھائی کے گھر ہوتی ہے۔تو اس کا مستقبل محفوظ ہو جاۓ گا ۔
میرے بھائی کی ساری جائیداد  ماہین کے نام ہے۔اگر ماہین کی شادی ذیشان سے ہو جاۓ تو یہ سب میرے بیٹے کا ہوگا لیکن اس کے  دل و دماغ پر صبا بی بی کا قبضہ ہے۔کلثوم بانو آخر میں غصے سے بولیں ۔
صبا میں کیا خرابی ہے؟احسان صاحب نے پوچھا۔
آپ کیوں نہیں سمجھتے۔اگر صباکی شادی میرے بیٹے سے ہوئی تو وہ کیا لے کر آئے گی۔آپ کی بہن تو خود كنگال ہے اپنی بیٹی کو کیا دے گی ۔دو کپڑوں کے علاوہ ۔انہوں نے بات کے آخر میں سر جھٹکا ۔واہ بیگم واہ ۔
کیا خوب کہنے آپ کے ۔بیٹے کا دل اجاڑ کر آپ سمجھتی ہیں کہ وہ اس دولت کے ساتھ خوش رہے گا ۔
اگر اسے دولت ہی چاہئیے ہوتی تو وہ صبا کی بجاۓ ماہین کو پسند کرتا ۔اور اللہ کا شکر ہے میرے پاس سب کچھ ہے ۔صبا اگر کچھ نہ بھی لے کر آئے تو مجھے یا میرے بیٹے کو کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔احسان صاحب طنز کرتے ہوۓ بیگم سے بولے ۔
آپ بھی نہیں سمجھ رہے ۔میں کہہ دیتی ہوں اگر میری  کوئی بہو بنے گی تو وہ ماہین ہی ہوگی ۔کلثوم بانو نے غصے سے کہا ۔
اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میری شادی کی خواہش کو دل سے نکال دیں ۔میں شادی کروں گا تو صبا سے ورنہ کسی سے نہیں۔
ذیشان نے کمرے میں آتے ہوۓ کلثوم بانوکی بات سن لی تھی۔
"تم کب آۓ ؟
احسان صاحب نے پوچھا
جب امی اپنے خیالات کا اظہار کر رہیں تھیں ۔میں گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ذیشان نے اٹل انداز میں کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
دیکھ لیا اپنی ضد کا نتیجہ ۔احسان صاحب نے کہا اور ذیشان کو روکنے کے لئے اس کے کمرے میں چلے گئے ۔بیٹا تم اپنی ماں کی باتوں پہ  توجہ نا دو میں سمجھا لوں گا ۔
نہیں ابو !یہ امی کی ضد ہے وہ نہیں مانیں گیں ۔لیکن میں بھی ان کا ہی بیٹا ہوں شاید امی یہ بھول گیں ہیں ۔
احسان صاحب بے بسی سے ذیشان کو دیکھتے رہے جو اپنے کپڑ ے بیگ میں رکھ کر گھر سے چلا گیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاتا ہوں تیری محفل سے ظالم نہ خفا ہو
ٹکڑے میں چن رہا تھا دلِ پاش پاش کے

میں لعنت بیجھتی ہوں تم پر اور تمھاری محبت پر ۔
حماد سویا ہوا تھا ۔
نہیں !
وہ ڈر کر اٹھا ۔
کیا یہ خواب تھا؟
لیکن وہ ابھی تو ادھر تھی ۔
اس نے یہی تو کہا تھا ۔
میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ ذلت ۔وہ اپنے سر کو پکڑ کر خود سے بول رہا تھا ۔میں کیسے بھلا سکتا ہوں  تمہیں زمر ؟
تمہارے الفاظ میرا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔میں بہت بے بس ہوں ۔کیا محبت انسان کو بے بس کر دیتی ہے؟
اس نے خود سے سوال کیا۔
ہاں !شاید ۔حماد اپنے سر کو پکڑ کر خود سے سوال کر رہا تھا
لیکن سر کا درد بڑھتا جارہا تھا ۔
اب کیا کروں ؟
اس نے ٹائم دیکھا ۔ابھی تو شام کے پانچ بجے ہیں۔اس نے خود سے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔میں اسے بھلا دوں گا ۔
وہ گاڑ ی کی چابی اٹھا کر نورین بیگم کو بتاۓ بغیر گھر سے چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محبت جس کو کہتے ہیں وہ ایسی قید ہے یارو
رہائی مل بھی جاۓ تو سزا پوری نہیں ہوتی

ہیلو !بیٹا کیسے ہو ؟
نورین بیگم نے رحمان کو کال کی ۔
میں ٹھیک ہوں آنٹی۔آپ کیسی ہیں ؟
میں ٹھیک ہوں بیٹا ۔
حماد تمھارے ساتھ ہے ؟نورین بیگم نے پوچھا
جی !آنٹی وہ میرے ساتھ ہے ۔
رحمان نے کہا تو نورین بیگم بولی ۔رب کا شکر ہے ۔میں تو پریشان ہو گئی تھی ۔
اچھا بیٹا خیال رکھنا اس کا ۔جی ضرور ۔
اللہ حافظ ۔
نورین بیگم نے کال بند کر دی ۔
کیا ہوا شہزادے ؟
پریشان لگ رہے ہو ۔
یار ! حماد گھر پر نہیں ہے ۔اور آنٹی سمجھ رہی ہیں کہ وہ  ہمارے ساتھ ہے۔یہ پوچھنے کے لئے کال کی تھی۔
تو تم نے کیا کہا ؟
میں کیا کہتا یار ۔میں نے کہا وہ ہمارے ساتھ ہے ۔
رحمان نے کہا تو معاذ بولا
اب کیا کریں ؟
چلو ڈھونڈھتے ہیں ۔
چلو ۔
دونوں حمادکو ڈھونڈھنے چلے گئے ۔
جب وہ ہر جگہ دیکھ کر تھک گئے تو معاذ نے کہا ۔
یار اب کیا کریں ملا تو کہیں نہیں ۔
رحمان سوچنے لگا کہاں  ہو گا ؟
چلو !
رحمان نے کچھ دیر بعد کہا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
کہاں؟
معاذ نے پوچھا ۔
تم چلو تو سہی ۔
اچھا ۔
وہ رحمان کے ساتھ چل پڑا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پی کر شراب ہم ان کو بھلانے لگے
غم کو شراب میں ملانے لگے
کیا بتاؤں یارو !یہ شراب بھی بےوفا نکلی
نشے میں وہ اور بھی یاد آنے لگے

واہ واہ ۔
وہ وہاں بیٹھا شراب پی رہا تھا ۔
اوہ !یہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟
معاذ نے پوچھا ۔
تم چلو ۔
رحمان نے کہا تو وہ بھی حماد کی طرف جانے لگا ۔
اٹھو !یہ کیا کر رہے ہو ؟
چھوڑو اسے ۔
یہ اچھی چیز نہیں ہے ۔
چلو ۔
نہیں میں نہیں جاؤں گا ۔
حماد نے لڑکھڑائی ہوئی آواز میں کہا ۔
رحمان کو اس کی حالت دیکھ کر دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا ۔
حماد اٹھو گھر چلو ۔
یہ اچھی جگہ نہیں ہے ۔
رحمان کو غصے میں دیکھ کر معاذ نے پیار سے کہا ۔
نہیں میں نہیں جاؤں گا۔
حماد نے کہا ۔
حماد کی بات سن کر رحمان نے خود پر قابو کرتے ہوۓ پوچھا ۔
کیوں نہیں جانا گھر؟
وہاں وہ ہے ۔
حماد کے کہنے پر رحمان نے پوچھا ۔
کون؟
وہ جو میرے کمرے میں آتی ہے۔
مجھے کہتی ہے ۔
نہیں نہیں نہیں ۔
کیا کہتی ہے ؟
رحمان پریشان ہو کر بولا تو حماد ہسنے لگا ۔

وہ زہر دیتا تو دنیا کی نظروں میں آجاتا
کمال کی سوچ تھی اس کی پیار کیا اور چھوڑ دیا

حماد نے اٹک اٹک کر شعر کہا۔
معاذ نے حماد کو سمبھالا ۔
کیا ہے ایسا اس لڑکی میں جو تم خود کو برباد کر رہے ہو ؟دفع کرو ایسی محبت کو جو صرف درد ہی دے۔
رحمان نے حماد کو کہا ۔
تو بولا ۔
تمہاری بات پر مجھے ایک شعر یاد آگیا۔

درد تو نا قابلِ برداشت دے گئے ہو
پھر بھی ہر سانس کے ساتھ نام تیرا لیتے ہیں ہم

تم ہوش میں آؤ حماد ۔
دفع کرو اس محبت کو ۔
کیا حال بنا لیا ہے اپنا ۔معاذ نے کہا اور اسے پکڑا ۔نفرت تو نفرت حقیر بنا دیتی ہے
محبت بھی عاشق کو فقیر بنادیتی ہے

معاذ نے بے بسی سے حماد کو دیکھا ۔
تو حماد پھر بولا

ہمارے بعد نہیں آۓ گا اسے چاہت کا ایسا مزہ
وہ لوگوں سے کہتا پھرے گا کہ مجھے چاہو تو اس کی طرح

چھوڑو یہ شاعری ۔
اس محبت نے تمہیں کسی قابل  نہیں چھوڑا ۔اب خود کو شراب خا نے میں  گروی رکھ دو ۔رحمان نے غصے سے کہا۔
اور حماد کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے گیا۔

اوقات ہی کیا تھی کہ کوئی ہمیں خرید سکتا
یہ تو کمبخت عشق تھا جب سے ہوا ہے مفت میں نیلام ہو ہوگئے

رحمان نے حماد کو گاڑی میں بٹھایا ۔
معاذ نے گاڑی چلا دی اور گھر کی طرف جانے لگے ۔
اپنے فلیٹ میں جانا ہے ؟
ہاں ! اب اس کے گھر تو جانے سے رہے۔اور اس کی حالت بھی اس قابل  نہیں ہے۔آنٹی سے کچھ بہانہ کر دیں گے ۔
معاذ نے کار اپنے فلیٹ کی طرف بڑھا دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رحمان نے یونیورسٹی جانے سے پہلے حماد کو اس کے گھر پر چھوڑا ۔پھر وہ اور معاذ یونیورسٹی کے لئے چلے گئے۔
آپ اتنی لیٹ ؟
انوشہ نے معاذ سے پوچھاکچھ کام تھا اس لئے لیٹ ہو گئے ۔
معاذ نے کہا اور کلاس میں چلا گیا ۔کیا سوچ رہے ہو رحمان ؟
بس حماد کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔
رحمان نے کہا تو معاذ بولاہاں یار میں بھی پریشان ہوں کیا بنے گا اس کا ۔
وہ تو اس لڑکی کو بھول نہیں پا رہا ۔
ہاں۔
دیکھتے ہیں اب کیا کرنا ہے ۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟
انوشہ نے معاذ سے پوچھا ۔
جی ۔
معاذ نے کہا تو وہ بیٹھ گئی۔
ایکچولی مجھے آپ لوگ پریشان لگے ہیں۔
کیا میں آپ سے پوچھ سکتی ہوں کیا بات ہے؟
اس کے کہنے پر معاذ بولا
کوئی بات نہیں ہے بس گھر کا کوئی مسٔلہ ہے ۔
اچھا۔
وہ تھوڑی دیر بیٹھی اور چلی گئی۔
یار تجھے کیسی لگتی ہے انوشہ؟
کیوں ؟
میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔
معاذ نے کہا ۔
اچھی لڑکی ہے ۔محبت کے چکر میں نا پڑنا بس پرپوزل بھیج دو ۔
رحمان نے اسے مشورہ دیا ۔ہاں یار اس سے پہلے پوچھ لوں۔اور ویسے بھی میں اپنا حال حماد کی طرح نہیں کرنا چاہتا۔
اس کی بات سن کر رحمان افسردہ ہو گیا ۔
چلو گھر چلتے ہیں ۔
ہاں چلو ۔
تم انوشہ کے بارےمیں آنٹی سے بات کر لینا۔میں کل انوشہ سے پوچھ لوں ۔
پھر ماما سے بات کروں گا ۔
اچھا ۔
وہ باتیں کرتے ہوۓ کلاس سے نکل گئے۔
انوشہ اور ماہ رخ نے دور تک جاتے دیکھا ۔
کیا سوچ رہی ہو ماہ رخ ؟
انوشہ نے پوچھا ۔
رحمان کتنا اچھا ہے نا؟
ماہ رخ نے کہا تو وہ بولی
ہاں !
اور اس کا دوست بھی اچھا ہے ۔ماہ رخ کو جواب دے کر انوشہ نے کہا۔
مجھے رحمان سے محبت ہوگئی ہے؟
کیا ؟
ماہ رخ نے کہا تو انوشہ چیخ کر بولی ۔
ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں ۔اس کی بات سن کر انوشہ بولی۔وہ تو تمہیں دیکھتا تک نہیں اور تم محبت کر بیٹھی ہو ۔
لڑکی ہوش کے ناخن لو ۔
اس کی بات سن کر ماہ رخ بولی ۔
محبت میں ہوش ہی کب رہتا ہے۔محبت تو ہو جاتی ہے ۔اس پر کس کا اختیار ؟
تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔
انو شہ نے کہا اور گھر جانے لگی۔اچھا ٹھہرو مجھے بھی لے چلو ۔وہ دونوں گھر جانے لگیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نہ واسطہ تھا کسی شاعر سے نہ شاعری سے تھا آشنا
تیری یاد نے تیرے درد نے مجھے شعر کہنا سیکھا

کیا ہوا بیٹا ؟
نورین بیگم نے حماد سے پوچھا جو بہت اداس تھا۔
کچھ نہیں بس سر میں درد ہو رہا ہے ۔
حماد کی بات سن کر نورین بیگم بولی ۔
لاؤ سر دبا دیتی ہوں ۔
نہیں ماما خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا۔
آپ اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں ۔
اچھا بیٹا جسے تمہاری مرضی ۔
وہ یہ کہہ کر چلی گیں۔
حماد پھر سوچوں میں گم ہو گیا ۔کاش زمر تمہیں بھی کسی سے محبت ہو ۔اور وہ تمہیں ٹھکرا دے ۔پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ ٹھکراۓ جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔

محبت کو میری ٹھکرانے والے
ایک دن کوئی تجھے بھی ٹھکراۓ
تو اسے پانے کی جستجو کرے گا
وہ تجھ سے بہت دور ہو جاۓ گا
تو دے گا اسے رو رو کر دہائی
کہ محبت ہے تجھ سے خود سے بھی زیادہ
وہ سن کر تیری محبت کا رونا
کر کرے گا نہ کچھ بس مسکراۓ
بنایا ہے تماشا تونے محبت کو میری
ایک دن توخودتماشا بن جاۓ گا
پھرے گا تو بن کر فقیرِ محبت
نہ کوئی تجھے بهیک دے پائے گا
میرے آنسوؤں پر  ہسننے والے
تو روۓ گا بہت،نہ مسکاۓ گا
پھر آۓگی یاد تجھے میری محبت
تڑپ کر پکارے گا تو مجھے ہمدم
درد ہو تجھ کو مجھ سے بھی زیادہ 
درد تجھ سے نہ سہا جاۓ گا
روۓ گا آکر تو قبر پہ میری
سکوں تجھ کو نہ پھر آۓ گا
محبت کو میری ٹھکرانے والے
ایک دن کوئی تجھے بھی ٹھکراۓگا 

وہ سوچوں میں اتنا کھویا ہوا تھا
اسے پتا ہی نا چلا رحمان اور معاذ اس کے کمرے میں آگئے ہیں۔
کیا سوچ رہے ہو؟
رحمان نے پوچھا تو وہ جیسے کسی خواب سے جاگا۔کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔
حماد نے کہا تو معاذ نے پوچھا
کل تم نے شراب پی ہے ۔کتنی بری بات ہے ۔یہ جانتے ہوۓکہ شراب پینا حرام ہے ۔
بس مجھے خود پر کنٹرول نہیں رہتا ۔کل میرے سر میں شدید درد تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ پھٹ جاۓ گا۔تو میں وہاں چلا گیا ۔
حماد کی بات سن کر رحمان نے ایک بڑی سانس خارج کی اور پوچھا ۔
اب کیسی طبیعت ہے؟
اب بھی سر میں درد ہے ۔کیا کروں اس درد کا علاج ۔میں تھک گیا ہوں ۔اب مجھے سکون چاہئیے ۔تم لوگ میری کچھ مدد کرو ۔
یہ سر کا درد مجھے مار ڈالے گا۔
حماد رونے لگا تو رحمان نے اسے گلے سے لگالیا ۔بھول جاؤ اس کو ۔
رحمان نے کہا۔
حماد روتے ہوۓ بولا
بھولنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنے سر کو پکڑ لیاابھی اتنا ہی کہا تھا۔اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا ۔
وہ اپنا سر پکڑ کر چخنے لگا تو رحمان اور معاذ سے سنبهالنا مشکل ہو گیا ۔
معاذ ہم اسے ابھی ہسپتال لے جاتے ہیں ،اٹھاؤ اسے ۔
وہ دونوں حماد کو اٹھا کر کار تک لے کر آئے ۔
لیکن تب تک اس کے ناک سے بہت سا خون نکل آیا اور روکنا مشکل ہوگیا ۔
اور حماد ہوش وحواس سے بیگانہ ہو گیا ۔
وہ جلدی سے ہسپتال پہنچے ۔
ڈاکٹرز نے حمادکی حالت دیکھی تو اسے ICU میں لے گئے ۔
نورین بیگم بھی تھوڑی دیر بعد ہسپتال پہنچ گیں ۔
اب کیسا ہے میرا بیٹا ۔نورین بیگم رحمان کے سینے سے لگ گیں۔
کچھ نہیں ہو گا آنٹی آپ حوصلہ رکھیں ۔
انکل کو کال کر دی ہے ؟
جی ! بیٹا کر دی تھی اب آنے والے ہوں گے وہ بھی ۔
اتنے میں ڈاکٹر آیا تو معاذ نے  پوچھا ۔
اب کیسی طبیعت ہے ؟
ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔بس آپ دعا کریں ۔
یہ کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا ۔
میرا بیٹا ۔
کچھ نہیں ہوگا آنٹی آپ حوصلہ رکھیں ۔
رحمان اور معاذ بھی پریشان تھے ۔
اور نورین بیگم کو سمبھال رہے تھے ۔
معاذ نے اپنی ماما کو کال کر کے ہسپتال بلا لیا ۔
اور رحمان کے والدین بھی ہسپتال آرہے تھے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جو نبھا نہ سکے رسمِ محبت
ان سے کہہ دوکہ کسی کے جذبوں سے کھیلا نہیں کرتے
عدیل میں تمہارا کب سے ویٹ کر رہی ہوں۔
کب آؤ گے ؟
زمر نے تنگ آ کر عدیل کو کال کی ۔
یار زمر !تھوڑا کام کرنا ہے پاپا ابھی بتا کر گئے ہیں ۔
میں نہیں آسکوں گا ۔
سوری یار ۔
واٹ سوری ؟
تم سے تو اچھے کی امید نہیں کرنی چاہئیے ۔
زمر نے کہا تو وہ بولا
سوری کہا تو ہے۔
ویسے بھی مجھے کیا پتا تھا پاپا روک لیں گے مجھے۔
اچھا کوئی بات نہیں میں اب فون رکھتی ہوں۔
بائے ۔
اوکے بائے ۔
عدیل نے موبائل کو ایک طرف پٹخا۔
کیا مصیبت ہے ۔
یار عدیل تم نے زمر سے جھوٹ کیوں بولا ۔
تم تو فری ہو ۔
اویس نے عدیل سے پوچھا جو اس کا دوست تھا یار میں تو ویسے ہی اس سےفلرٹ کر رہا تھا ۔
میں سمجھتا تھا یہ اس حماد سے محبت کرتی ہے،لیکن اس نے اس سے محبت کا مذاق کیا تھا ،تم حماد کی حالت دیکھو۔
کل میں نے اسے شراب پیتے ہوۓ دیکھا تھا بہت بری حالت ہے اس کی عدیل نے افسوس سے کہا۔
اوہ ! مجھے نہیں پتا تھا اور رحمان نے بھی نہیں بتایا ۔
اویس نے کہا ۔
اور یہ زمر چاہتی ہے کہ میں اپنی ماما کو اس کے گھر بھیجوں ۔
نا یار ایسی لڑکی کا کیا بھروسہ آج اس کے ساتھ مذاق کیا ہے ۔
کل تمہاری ماما کو ذلیل کرے ۔
یا تمہارے ساتھ بھی مذاق کر رہی ہو،ہاں میں نہیں بھیجوں گا ،اور میں زمر سے شادی نہیں کرنا چاہتا ،یہ خود ہی میرے پیچھے پڑ گئی ہے ۔
تو بتا کیسے پیچھا چھڑاؤں ؟
پہلے ہم حماد سے مل لیں پھر اس بارے میں سوچیں گے ۔
تیرے پاس حماد کا نمبر ہے ؟
عدیل نے پوچھا تو وہ بولا
نہیں حماد کا تو نہیں ہے لیکن رحمان کا ہے ۔
چلو اس سے پوچھو حماد کے بارے میں ۔
ہاں یار میں ابھی کال کرتا ہوں ۔
اویس نے کال کی تو پتا چلا رحمان ہسپتال میں ہے ۔
حماد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے خون کی ضرورت ہے تو وہ ہسپتال کا پوچھ کر ہسپتال کے لئے نکل
پڑ ے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کبھی اس دور سے گزرو تو معلوم ہو تم کو
محبت وہ بیماری ہے جو دل کا خون پیتی ہے

جب وہ ہسپتال پہنچے تو سب کو پریشانی کی حالت میں دیکھا۔
اب کیسی طبیعت ہے حماد کی؟
اویس نے آگے بڑھ کر رحمان سے پوچھا ۔
ٹھیک نہیں ہے ۔
رحمان نے کہا ۔
یہ میرا دوست ہے عدیل ۔
عدیل نے رحمان سے ہاتھ ملایا۔
خون کا بندو بست ہوگیا ہے ؟
اویس نے پوچھا تو رحمان بولاابھی نہیں ہوا معاذ باہر سے پوچھنے گیا ہے۔
کون سا گروپ ہے ؟
عدیل جو خاموش کھڑا تھا اس نے پوچھا ۔
او نگیٹو ۔
رحمان نے بتایا تو عدیل بولا میرا بھی یہی گروپ ہے۔
چلو پھر ڈاکٹر کو کہتا ہوں خون کا انتظام ہوگیا ہے۔
وہ ڈاکٹر کو بتانے کے لئے جانے لگا لیکن بہت دیر ہو گئی تھی ۔
سوری ! ہم آپ کے پیشنٹ کو نہیں بچا پاۓ۔
ان کا بی پی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور خون بھی بہت بہہ چکا تھا ۔
ڈاکٹر رحمان کے کندھے پر ہاتھ  رکھ کر جاچکا تھا ۔
نورین بیگم یہ سن کر بے ہوش ہوگئیں ۔
تو اویس نے انہیں سمبھالا ۔
معاذ جب خون لے کر آیا تو وہاں کا ماحول ہی بدلہ ہوا تھا ۔
خون کا انتظام ہو گیا ہے ۔
معاذ نے کہا تو رحمان بولا
اب اس کی ضرورت نہیں ۔
کیوں ؟
کیا ہوا ؟
سب ٹھیک ہے ؟
حماد ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ۔
یہ کہہ کر رحمان رونے لگا ۔
معاذ کے ہاتھ سے خون کی بوتل  گر گئی ۔
وہ بھی رحمان کے گلے لگ کر رونے لگ گیا ۔
آپ دونوں خود کو سمبھالو۔
عدیل اور اویس نے کہا اور ان کو حوصلہ دیا ۔
رحمان کو  اپنے بابا کی کال آئی۔
ہم بس پہنچ گئے ہیں کون سا روم ہے ؟
رحمان نے روم نمبر بتایا اور کال بند کر دی ۔
معاذ کے والدین اور رحمان کے والدین ایک ساتھ آۓ تھے ۔
ان کو بھی حماد کی موت کا بہت افسوس ہوا ۔
نورین آپا کی کیسی طبیعت ہے؟
رحمان کی ماما نے پوچھا تو رحمان نے ان کی طبیعت کے بارے میں بتایا۔
چلو اب حماد کی ڈیڈ باڈی کو بھی لے کر جانا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پہلے عشق، پھر دھوکہ اور پھر بے وفائی
ترتیب سے ایک شخص نے تباہ کیا مجھ کو

معاذ نے انوشہ اور ماہ رخ کو بھی کال کر کے حماد کی موت کا بتایا۔عدیل اور اویس دونوں ان کے ساتھ سب انتظام کروا رہے تھے۔
نورین بیگم کا رو رو کر برا حال تھا اور وہ زمر کو بددعائیں دے رہی تھیں ۔زمر تم نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ۔خدا کرے تم بھی کبھی خوش نا رہو ۔
آنٹی جنازے کا وقت ہو گیا ہے ۔
رحمان نے کہا تو وہ بولیں ۔
نہیں میرے بیٹے کو کہیں نا لے کر جاؤ۔
رحمان اور معاذ کی ماما نے انہیں سمبھالا ۔
حماد کو دفنا کر وہ واپس گھر چلےآ ۓ۔
رحمان بہت دیر ہوگئی ہے اب ہم بھی چلتے ہیں ۔اویس نے کہا ۔
وہ رحمان اور معاذ کو خیال رکھنے کا کہہ کر چلے گئے ۔وہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ زمر کی کال آگئی ۔
ہیلو !
عدیل نے خود کو کنٹرول کرتے ہوۓ کال اٹھائی۔عدیل تمہارے لئے ایک سپرائزہے ۔
تم گھر آؤ پھر بتاتی ہوں ۔زمر نے کہا تو وہ بولا
میرے پاس بھی تمہارے لئے سپرائز ہے ۔گھر آکربتاتا ہوں ،عدیل نے کہا اور کال بند کر دی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتنے آسان لفظوں میں کہہ گیا وہ
کہ صرف دل ہی توڑا ہے کون سا جان لے لی ہے

اویس کو اس کے فلیٹ میں چھوڑ کر وہ اپنے گھر گیا ۔
جب وہ گھر پہنچا تو زمر پہلے سے وہاں موجود تھی اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔
کیسا لگا میرا سپرائز ؟
زمر  نے پوچھا تو عدیل نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کیا اور بولا
تمہیں کیسا لگا میرا سپرائز ؟
وہ حیران عدیل کو دیکھ رہی تھی ۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟عدیل نے پوچھا تو وہ بولی
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے تھپڑ مارنے کی ؟ہاں بتاؤ ۔
وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی ۔
میں نے تو صرف ایک تھپڑ مارا ہے ۔
اپنے بارے میں کیا خیال ہے ؟
عدیل نے غصے سے کہا تو وہ بولی
تم کہنا کیا چاھتے ہو ؟
تو عدیل نے اسے حماد کی موت کے بارے میں بتایا ۔
وہ تمہاری محبت میں مر گیا۔
اسے تم نے مار ڈالا ۔
عدیل کی بات سن کر وہ کچھ دیر ساکت رہ گئی اور پھر بولی
یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟
میں اس سے محبت نہیں کرتی تھی ۔
وہ تو خود ہی میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔
زمر نے کہا تو عدیل غصےسے بولا
تم محبت نہیں کرتی تھی لیکن محبت کرنے کا ڈرامہ تو کیا تھا ۔
تمہارے اس ڈرامے نے اس کو کسی کام کا نہیں چھوڑا ۔وہ شراب پینے لگ گیا تھا ۔
جب تمہاری یادوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تو وہ زندگی کی بازی ہار گیا ۔
اسے برین ہیمر ج ہوا تھا ۔
لیکن اس میں میرا کیا قصور ؟
زمر کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی ۔
اس میں تمہارا کوئی قصور ہو یا نا ہو لیکن.............
لیکن کیا عدیل بولو ۔
میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔
کیونکہ میں ایک ایسی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جس کے نزدیک محبت صرف ایک کھیل ہے ۔
پہلے تم نے حماد سے محبت کا کھیل کھیلا ۔
میں کیسے یقین کر لوں کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو ؟
تم ایسا نہیں کر سکتے عدیل۔میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں ۔
حماد کے ساتھ جو ہوا اس میں میرا زیادہ قصور نہیں تھا ۔
میں نے تو اسے کہہ دیا تھا کہ میں اس سے محبت نہیں کرتی ۔پلیز مجھے نا چھوڑو میں تمہارے بغیر نہیں رہ  سکتی ۔
زمر  نے ہاتھ جوڑ دیے لیکن عدیل اپنی بات سے ہٹنے والا نہیں تھا۔
تم اب یہاں سے جاؤ ورنہ دھکے دے کر نکال دوں گا۔وہ یہ کہہ  کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
زمر کچھ دیر وہاں کھڑی رہی اور پھر واپس اپنے گھر چلی گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج ذیشان کو گئے ہوۓ ایک ماہ ہوگیا تھا ۔
صبا ہر روز ذیشان کے آنے کا انتظار کرتی تھی لیکن ہر روز ہی ناکامی ہوتی ۔
کیا کر رہی ہو صبا؟
جہاں آرا نے اس سے پوچھا تو وہ بولی ۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی آپ بتائیں کیا حال ہے ماموں کا ۔
بہت اداس ہو گئے ہیں ذیشان کے بغیر لیکن بھابی پر اس کا اثر نہیں ہوا اب بھی وہ تمہیں ہی الزام دے رہیں تھی کہ تمہاری وجہ سے ان کا بیٹا چلا گیا ۔
جہاں آرا بیگم بہت افسردہ نظر آرہیں تھیں امی چھوڑیں ان باتوں کو یہ بتائیں ۔
آج کیا پکانا ہے ؟
آج چاول پکا لو سونیا بھی خوش ہو جاۓ گی ۔اچھا امی چلیں کمرے میں جا کر بیٹھیں بہت سردی ہو رہی ہے۔صبانے کہا اور کچن میں چلی گئی ۔اے اللہ ذیشان کو اپنے حفظ و امان میں رکھ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟
زمر نے پوچھا
جی بیٹھ جائیں ،میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی تھی ،لیکن سوچ رہی ہوں کہیں آپ مجھے غلط نا سمجھیں۔زمر نے ہاتھ کی انگلیاں مڑوڑتے ہوۓ کہا ۔نہیں نہیں ایسی بات نہیں آپ نے جو کہنا ہے کہہ دیں۔
حماد نے کہا تو زمر بولی ۔
دراصل میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے مجھے ہر جگہ آپ ہی نظر آتے ہیں۔پتا نہیں کیا ہو گیا ہے مجھے ۔
حماد کو ایک خوش گوار حیرت ہوئی اس میں غلط سمجھنے والی بات تو نہیں ۔
میں بھی آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرا بھی یہی حال ہے ۔میں نے سوچ لیا تھا آپ کو بتا دوں گا ۔
اب آپ نے بتا دیا تو مجھے زیادہ  نہیں سوچنا پڑا ۔
دراصل مجھے آپ سے پہلی ملاقات میں ہی محبت ہو گئی تھی ۔
اور جو میرے دل میں بات آجاۓ میں اسے چھپاتا نہیں ہوں بتا دیتا ہوں ۔
وہ دونوں خوش خوش باتیں کر رہے تھے ایسے ہی دن گزرتے رہے ۔ان کا فائنل ائیر شروع  ہو گیا ۔یار تم نے تو کمال ہی کردیا۔
وہ تو تمہارے پیچھے پاگل ہے۔اب مان گئی نا زمر شاہ کو ۔
ہاں یار یہ لو تمہارے پانچ ہزار ۔
گن لو ۔
نور نے کہا تو وہ بولی۔
تم پر اعتبار ہے ۔وہ سب ہنس رہیں تھیں۔
زمر ادھر آؤ میں نے تم سے بات کرنی ہے ۔
حماد نے کہا تو وہ سب چپ ہو گئیں۔
اچھا میں ابھی آتی ہوں زمر اپنی دوستوں کو کہہ کر حماد کے ساتھ چلی گئی۔
ہاں بولو کیا کہنا ہے۔
زمر نے کہا تو حماد خوش ہو کر بولا
میں نے ماما سے بات کر لی ہے۔
اچھا لیکن کس بارے میں ؟
اپنی شادی کے بارے میں ۔اوہ !تم شادی کر رہے ہو بہت بہت مبارک ہو ۔
کون ہے وہ خوش نصیب؟
تمہارے علاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے۔
حماد نے ہستے ہوۓ کہا ۔
یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟
میں تم سے شادی کیسے کر سکتی ہوں؟
زمر نے کہا تو حماد کی ہنسی تھم گئی اور بولا
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔
ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔
کون سی محبت ؟
زمر نے اکڑ کر کہا
زمر کیا تم بھول گئی ہو؟
تم نے خود ہی کہا تھا کہ تمہیں مجھ  سے محبت ہو گئی ہے اب تم مکر رہی ہو ۔
اوہ وہ محبت ؟
دیکھو حماد میں تم سے کوئی محبت نہیں کرتی ۔
وہ تو صرف ایک مذاق تھا ۔
اور تم سچ سمجھ بیٹھے۔
میں نے اپنی دوستوں سے شرط لگائی تھی اور زمر شاہ کبھی شرط نہیں ہارتی۔
زمر نے جاں چھڑانے والے انداز میں کہا ۔
کیا کسی کے دل سے کھیل جانا تمہارے لئے ایک فن ہے اور کچھ نہیں۔
حماد نے کہا تو زمر بولی
حماد میں نے جو کہنا تھا کہہ  دیا اب تم میری جاں چھوڑو ۔
زمر یہ تمہارے لئے مذاق ہو گا لیکن میں تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں زمر میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا مجھے نا ٹھکراؤ ۔
اس نے کہا لیکن  زمر پر اس کے الفاظ کا  اثر نا ہوا تم مرتے ہو تو مر جاؤ مجھے تم  سے کوئی لینا دینا نہیں ۔
وہ یہ کہتے ہوۓ واپس جانے کے لئے مڑی ۔

زمر یاد رکھنا آج تم مجھے ٹھکرا کر جارہی ہو ایک دن پچھتاؤ گی میری زندگی میں اگر تم نہیں تو کوئی بھی نہیں ۔
جب تک زندہ رہا تمہارا ہو کر رہوں گاصرف تم سے محبت کروں گا لیکن تم ایسی محبت کو ترسو گی ۔
جب جب تم محبت کا نام لو گی میں تمہیں یاد آؤں گا ۔
زمر اس کی بات سن کر ہنسی اور سر جھٹکا۔
میں لعنت بیجھتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر زمر شاہ جس سے محبت کرے گی اسے پا لے گی دیتے رہو بد دعا ۔
میں پچھتانے والوں میں سے نہیں ہوں اس نے گردن اکڑا کر کہا۔
حماد بے بسی سے اسے دیکھتا رہا اور واپس جانے کے لئے مڑ گیا۔
ایک بات اور سنتے جاؤ۔
آیندہ مجھے اپنی شکل نا دکھانا اب دفع ہو جاؤ۔
زمر پرانی باتیں سوچ رہی تھی میں نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا حماد مجھے نہیں پتا تھا یہ مذاق تمہاری جاں لے لے گا۔
اب دیکھو میں بھی خالی دامن رہ گئی ۔
مجھے بھی محبت نہیں ملی میں نے تمہارا دل توڑا تھا اب میرا بھی دل ٹوٹ گیا ہے ۔
میں اب بلکل تمہاری طرح ہوں خالی دامن اور بے بس زمر کو اب چین نہیں آرہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انوشہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔
کیا آپ مجھ سے شادی کریں گیں ۔
معاذ نے پوچھا
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟
میں کیا جواب دوں؟
میں اپنے والدین کی مرضی سے شادی کروں گی ۔
انوشہ نے بوکھلا ہٹ میں ایک ساتھ سوال کئے۔
اچھا !
تو میں کل اپنے والدین کو آپ کے گھر بھیجوں گا ۔
آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ؟
معاذ نے پوچھا تو انوشہ نے سر جھکا لیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمیں تو آپ کی بیٹی بہت پسند ہے اور ہم اسے اپنی بیٹی بنانا چاھتے ہیں ۔
معاذ کی ماما نے کہا۔
بہن !ہمیں کہیں تو اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے ۔
ماشاءالله ! آپ کا بیٹا بھی بہت اچھا ہے ۔
ہم سوچ کر بتائیں گے ۔
جیسے آپ کی مرضی لیکن  جواب ہاں میں ہی ہو ۔
ہم نا نہیں سنے گے۔
انوشہ کے والدین نے ایک دن بعد رشتے کے لئے ہاں کر دی تھی ۔
تو معاذ نے ضد کی تو اس کے والدین نے منگنی کی بجاۓ شادی کی تاریخ رکھ دی اور ایک ماہ بعد شادی تہہ پائی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چبھتی ہے قلب و جاں کو ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے

تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا زمر ۔
تم بھی کبھی سکون سے نہیں رہ سکو گی۔
دیکھنا ایک دن میری جدائی تمہیں میری محبت میں مبتلا کر دے گی۔
جب زندہ تھا تو تم نے مجھے ٹھکرا دیا۔
لیکن اب میں مر گیا ہوں ۔
اب تمہاری باری ہے۔
جیسے میں تڑپا ہوں تم بھی تڑپو گی۔
تمہاری حالت دیکھ کر لوگ کسی کی محبت کا تماشا بنانا چھوڑ دیں گے۔ایک دن ایسا ضرور ہوگا زمر ۔
وہ سوئی ہوئی تھی ڈر کر اٹھی۔
اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا اور وہ کانپ رہی تھی۔یہ کیسا خواب تھا ۔
مجھے معاف کر دو حماد مجھے کہیں سکون نہیں آرہامجھے لگتا ہے ۔
مجھے تمہاری آواز جینے نہیں دے گی۔اب تو مجھے سونے سے ڈر لگتا ہے۔
میں تھک گئی ہوں۔
کیا کروں ۔
یا خدا !میری مدد فرما۔
یا خدا !تو مجھے معاف کر دے۔
میں نے تیرے بندے کا دل توڑا ہے۔
میں کیا کروں ۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
حماد تم اس دنیا سے چلے گئے۔
لیکن تمہاری یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔
مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گی۔
اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دے لیا اور رونے لگی حماد مجھے معاف کر دو۔دیکھو میں بھی خالی ہاتھ ہوں۔
مجھے بھی میری محبت نہیں ملی میں کیا کروں؟
وہ یہ سوچ رہی تھی اس کے ذہن میں حماد کے بعد جو نام آیا وہ رحمان کا تھا۔
ہاں رحمان !وہ میری مدد کرے گا۔
اس نے صبح رحمان سے ملنے کا سوچا اور سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند اب بھی اس سے روٹھی ہوئی تھی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کون ہو بی بی ؟
کس سے ملنا ہے ؟
چوکیدار نے کچھ مشکوک ہو کر پوچھا۔میں زمر ہوں ۔
مجھے رحمان سے ملنا ہے۔
زمر نے کہا۔
کیا کام ہے آپ کو چھوٹے صاحب سے ؟
وہ میں ان کو ہی بتاؤں گی۔
اچھا بی بی آپ ادھر انتظار کرو میں صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں ۔
چوکیدار تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور بولا ۔
صاحب کو آپ سے نہیں ملنا ۔
اب جاؤ ۔
نہیں ایک بار مجھے ملنے دو وہ چوکیدار کو دھکا دے کر اندر چلی گئی اور چوکیدار بی بی جی بی بی جی کہتا رہ گیا ۔
صاحب وہ میں  نے بہت روکا ۔
اچھا تم جاؤ۔
زمر کو اپنے سامنے دیکھ کر رحمان کو غصہ آگیا ۔
اب کیا لینے آئی ہو ؟جو تم سے محبت کرتا تھا وہ مر گیا ہےاب کس کو مارنا ہے ؟
رحمان میری بات سنو میں بہت پریشان ہوں ،مجھے سکون نہیں مل رہا ،زمر روتے ہوئے بولنے لگی ۔
اوہ !تو تم سکون کی تلاش میں یہاں آئی ہو ۔
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ،رحمان نے اس سے منہ موڑ لیا ،تم مجھے حماد کے پاس لے چلو۔
میں اس سے معافی مانگنا چاہتی ہوں میں نے اس کے ساتھ بہت برا کیا۔وہ مجھے سے بہت محبت کرتا ہے ۔وہ معاف کر دے گا مجھے ۔
میری مدد کرو ۔تمہیں اللہ کا واسطہ ہے ،میری مدد کرو وہ روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئی۔
رحمان نے غصے سے زمر کو دیکھا اور بولا
اچھا تم نے اب اس سے معافی مانگنی ہے جب وہ تمہاری محبت میں تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔
کیا اب تم یہ سوچ رہی ہو اب تمہیں معافی مل جاۓ گی ۔زمر بی بی مردوں سے معافی مانگ بھی لی جاۓ تو وہ بولتے نہیں ہیں ۔
تم مجھے لے چلو جب تک وہ معاف نہیں کرے گا میں نہیں آؤں گی ۔
مجھے سکون نہیں آرہا۔زمر تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی ۔
چلو اٹھو !
رحمان کو اس پر ترس آگیا تو وہ اسے حماد کی قبر پر لے گیا۔
یہ لو مانگ لو معافی۔
وہ یہ کہہ کر رکا نہیں۔
حماد مجھے معاف کر دو۔تم تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہو۔اٹھو !مجھے دیکھو میں کتنی اکیلی ہوں خالی دامن دیکھو میری حالت ۔
تم چپ کیوں ہو بولو وہ حماد کی قبر پر رو رو کر معافی مانگ رہی تھی ۔
کوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں تھا
(جو لوگ محبت کو تماشا بنا دیتے ہیں ان کا دامن بھی کانٹوں سے بھر جاتا ہے ۔حماد تو اپنی محبت کا یقین کراتے کراتے مر گیا اور اب سکون کی نیند سو رہا تھالیکن زمر کو اب کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا۔دلوں کو توڑنے والوں کا یہی انجام ہونا چاہئیے)
دور کھڑا رحمان سوچ رہا تھا۔

ہم اپنے مزاج میں کسی بھی در کے نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں  
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبا بیٹا کیا تمہیں پتا ہے؟
جہاں آرا بیگم نے خوش ہوتےہو ئے صبا سے پوچھا
کیا ہوا امی؟
آج ذیشان واپس آرہا ہے۔بھائی صاحب کا فون آیا تھا ابھی۔
کیا ؟
صبا خوشی سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔پانچ سال کے طویل عرصے بعد ذیشان گھر واپس آرہا تھا۔آخرکار کلثوم بانو کو اپنے بیٹے کی محبت کے آگے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے ۔
پہلے تو کلثوم بانو یہ سوچ رہیں تھیں کہ کچھ دنوں  بعد محبت کا بھوت ذیشان کے سر سے اتر جاۓ گا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جب کلثوم بانو کو بیٹے کی یاد ستانے لگی ۔تو انہوں نے ذیشان کو فون کیا جو اسلام آباد کسی دوست کے ساتھ رہ رہا تھا۔
انہیں نے کہا کہ۔ذیشان تم آجاؤ تو میں صبا کے ساتھ تمہاری شادی کر دوں گی۔
جب ذیشان کو یقین ہو گیا کہ کلثوم بانو سچ کہہ رہی ہیں تو دوسرے دن آنے کا کہہ کر فون کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کلثوم بانو کافی دیر تک ذیشان کو گلے لگا کر روتی رہیں۔اب بس بھی کرو بیگم ۔مجھے بھی موقع دو اپنے بیٹے سے ملنے کا۔
احسان صاحب نے اپنی بیگم کو پیچھے دھکیلتے ہوۓ کہا تو سب ہنسنے لگے۔
کھانا کھانے کے بعد صبا اوپر ٹیرس پر آگئی۔وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی جب ذیشان نے آکر کہا۔
کیا ہوا ؟
اتنی سردی میں تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
صبا اچانک اس آواز پر ڈر گئی۔تم نے تو ڈرا ہی دیاوہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی اچھا اب مجھ سے ڈر بھی لگنے لگا ہے تمہیں۔
ذیشان نے کہا ۔
نہیں ایسی بات نہیں ہےمیں بس ویسے ہی .......
کیا ویسے ہی؟
کچھ نہیں ۔
اب تم خوش ہو ؟
ذیشان نے پوچھا تو وہ بولی
کس لئے؟
ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی ہے اس لئے۔
کیا تم نے مجھ سے شادی نہیں کرنی؟
میں ابھی امی کو منع کرتا ہوں اور کہتا ہوں ماہین سے شادی کر دیں میری۔وہ یہ کہہ کر جانے لگا تو صبا کوسمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کرے۔
اس نے جلدی سے ذیشان کا ہاتھ پکڑ کر روکا نہیں نہیں میں نے کرنی ہے شادی ۔
کس سے ؟
تم سے ۔
صبا جلدی میں بول گئی۔
تو ذیشان نے بلند قہقہ لگایا۔
بدتمیز ۔
صبا کہہ کر نیچے اتر گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رحمان اور معاذ دونوں اپنی اپنی زندگی میں خوش تھے۔
معاذ کا ایک بیٹا تھا۔
اور وہ اپنی بیوی اور بیٹے سے بہت پیار کرتا تھا ۔
رحمان نے ماہ رخ سے شادی کر لی تھی ۔ان کی شادی کو ابھی آٹھ ماہ ہوۓ تھے وہ دونوں بھی بہت خوش تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تیرے ہاتھ ہیں رنگے ہوئے
تو بتا کہ کیسے چھپاۓ گا
میرے عشق کا تو نے قتل کیا
تو قاتلِ عشق کہلا ۓ گا

آج اس کو قبر کے پاس بیٹھے  دو سال ہو گئے تھے۔
وہ آج بھی پہلے دن کی طرح رو رہی تھی۔
آج بھی اکیلی تھی۔
ویسی کی حالت ۔
اجڑا ہوا حال۔
آنکھوں میں آنسوں۔
آج اس کا حال ویسا ہی تھا جیسا حماد کا اس سے بچھڑنے  کے بعد ہوا تھا۔اسے ابھی تک معافی نہیں ملی تھی۔رحمان اور معاذ دونوں ہر روز حماد کی قبر پر آتے تھے۔اور اس کا حال دیکھ کر انہیں حماد یاد آ جاتا تھا اس کا بھی تو ایسا ہی حال تھا۔
اٹھو !
زمر گھر چلو۔
رحمان نے آگے بڑھ کر زمر کو اٹھانا چاہا۔
نہیں میں نہیں جاؤں گی۔میں حماد کے ساتھ رہوں گی۔جب تک یہ مجھے معاف نہیں کرتا۔
رحمان !رحمان تم کہو نہ اب ناراضگی چھوڑ دے۔اور مجھے معاف کر دے۔اب میں اسے کبھی دکھ نہیں دوں گی۔میں اسے بہت خوش رکھوں گی۔تمہارا تو دوست ہے کہو نہ ۔
وہ رحمان کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
رحمان کو اس کے حال پر بہت دکھ ہوا ۔
اٹھو !
زمر وہ نہیں بولے گا۔اس نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔
رحمان نے کہا تو وہ بولی
تمہیں کیسے پتا۔کیا حماد مجھ سے کبھی بات نہیں کرے گا؟
کیا اب وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا؟
وہ تو کہتا تھا کہ۔
زمر میں تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں۔
اب میں آئی ہوئی ہوں تو اب کیوں چپ ہے۔
کیا اب اس کی محبت نفرت میں  بدل گئی ہے ؟کیا اب اس کا عشق ختم ہو گیا ہے۔
کیا محبت کو ٹھکرانے والوں کا انجام ایسا ہوتا ہے جیسا میرا ہے؟
کیا محبت ایک بار روٹھ جاۓ تو اس کو منایا نہیں جاسکتا؟
میں نے تو بہت معافی مانگی۔
لیکن اب وہ خاموش ہے۔
اب اس کی محبت کہاں سو گئی۔
اب تو مجھے بھی محبت ہوگئی ہے حماد سے۔
اب تو اس کو ناراض نہیں ہونا چاہئیے۔
رحمان بے بسی سے اس کے سوال سن رہا تھا ۔
لیکن اس کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔
زمر ابھی بھی بول رہی تھی۔
رحمان !
حماد نے مجھ سے محبت کی ۔لیکن میں نے اس کی محبت کی قدر نہیں کی وہ مجھ سے ناراض ہو کر دنیا سے ہی چلا گیا۔اس نے اپنی جان دے کر اپنی محبت کو جیتا دیا۔
اب میری باری ہےمیں بھی ان سب لوگوں کو بتاؤں گی جو محبت کی قدر نہیں کرتے۔
ان کا حال زمر شاہ جیسا ہوتا ہے۔جو غرور میں دوسروں کا دل توڑ دیتے ہیں ان کے دل بھی کبھی آباد نہیں ہوتے۔
پھر وہ ایسے ہی سکون کی تلاش میں رہتنے ہیں جیسے میں۔
میں ساری زندگی حماد کی قبر کے پاس بیٹھی رہوں گی۔
پھر لوگ جاں جائیں گے کہ جو محبت کی قدر نہیں کرتا۔
وہ خود بھی خالی دامن رہ جاتا ہے۔اور حماد کو بتاؤں گی کہ اس نے تو محبت کی اور مر گیا۔
اور اب میں اس سے عشق کر رہی ہوں تو ہر روز مر رہی ہوںوہ سکون میں ہے اور میں زندہ لاش۔
سکون کی تلاش میں۔
رحمان اگر تم اپنے دوست کی محبت کو یاد رکھو گے
تو میرے عشق کو بھی فراموش نہیں کر پاؤ گے۔
یہ عشق جسے ہو جاتا ہے۔
اس کا قتل کر دیتا ہے۔
یہ عشق نہیں قاتلِ عشق ہے۔
جس کو ہوتا ہے مار دیتا ہے۔
زندہ لوگوں کو مار دیتا ہے
اور جو مرنے سے بچ جاتے ہیں انہیں ایسی زندگی جینی پڑتی ہے جو آج میں جی رہی ہوں۔
رحمان وہاں زیادہ دیر نہ رک سکا۔
اور گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔
ہاں !زمر شاہ میں تمہیں نہیں بھول پاؤں گا۔
رحمان نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔

کبھی محسوس کر لو تم
میرے لفظوں کی سچائی
میرےحرفوں کی گہرائی
مجھے تم سے یہ کہنا
تمہارا ہو کے رہنا ہے
میرا سب جسم زخمی
میرے الفاظ روتے ہیں
میرا یہ درد نہیں تھمتا
کوئی مرہم نہیں ملتا
محبت ہو گئی تم سے
بس اب عشق کرنا ہے
تیرے ساتھ نہ جی پاۓ
تمہیں جانے کی جلدی تھی
سکوں پانے کی جلدی تھی
میں آکر قبر پہ تیری
صرف روتی ہی جاتی ہوں
تمہاری آواز سننے کو
میرے یہ کان ترستے ہیں
اب خاموش تم کیوں ہو
بتاؤ نہ مجھے ہمدم
محبت تھی تمہیں مجھ سے
اب میں اقرار کرتی ہوں
پہلے نادان تھی میں اب
تمہی سے پیار کرتی ہوں
تمہارے ساتھ جیتی ہوں
تمہارے ساتھ مرتی ہوں
بس اتنی سی گزارش ہے
کبھی محسوس کر لو تم
میرے لفظوں کی سچائی
میرے حرفوں کی گہرائی 

(ختم شدہ )

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.