****Muhabat Phool Jasi****

 

 


*محبت پھول جیسی ہے*

قسط نمبر :2

تحریر: عشاء راجپوت

َََََََََََََ------------------------------------------------------------------------------

7 سال قبل

ماضی

وہ ابھی یونی سے لوٹا تھا  اور سب کچھ نظرانداز کرتے ہوۓ اپنے کمرے کی جانب بڑھا جب اپنے نام کی پکار پہ رکنا پڑا مگر پلٹا نہیں۔

تو کیا فیصلہ کیا تم نے؟؟

اس کا باپ اس سے مخاطب تھا۔

میں اپنی بات پی قائم ہوں اور میرا فیصلہ اٹل ہے۔

بنا مڑے تاریک لہجے میں کہا گیا۔

میری نافرمانی کی سزا تم اچھے سے جانتے ہو۔

وہ نیچی آواز میں دبے دبے غصے سمیت بولے۔

آپ کی حکم عدولی کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

اب کی بار وہ پورے کا پورا پلٹا تھا،آنکھوں میں سرد مہری کے سوا کچھ نہ تھا۔

تم حد سے بڑھ رہے ہو۔

انداز دھمکی آمیز تھا۔

میں اپنی حدود سے قطعی ناآشنا نہیں ہوں لیکن آپ شاید اس وقت اپنی حدود بھول چکے تھے جب ایک۔۔۔۔۔جب ایک تنہا کمزور نہتی عورت کی بے بسی و لاچاری کو ہتھیار بنا کر اس کی زندگی برباد کر دی۔

افسوس!!!سب ٹھیک کرنے کی بات تو دور آپ تو ندامت و ملامت کا شکار نا ہوۓ اور نہ ہی کبھی اپنے ضمیر کی عدالت میں بطور مجرم کٹہرے میں کھڑے ہوۓ۔

کاش!!!کاش کہ۔۔۔۔۔

اس سے آگے الفاظ جیسے زباں کا ساتھ چھوڑ گئے۔

وہ ایک بار پھر عالم نیازی کو لاجواب کرتے ہوۓ ندامت کی پستیوں میں دھکیل کر جاچکا تھا۔

عالم نیازی اپنی جگہ منجمد ہو گۓ جیسے کسی جادوگر نے جادو کی چھڑی  سے انہیں پتھر کر دیا ہو۔

ہاں وہ اس وقت بھی تو پتھر ہی ہو گۓ تھے جب ایک معصوم کی آہ و پکار، گڑگڑاہٹ، خدا کا واسطہ ، قسمیں، معافی اور ناجانے کیا کچھ اس پتھر دل شخص پہ اثرانداز نہ ہوا تھا۔ 

وہ اتنا مغرور اور خود پسند انسان تھا کہ انجانے میں ہوئی کسی کی کوتاہی کو انا کا مسٔلہ بنا بیٹھا اور ایک بے گناہ کو اس کھوٹی انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔

وہ اب بھی بت بنے اس منظر کو ،اس دن کو اپنی نظروں کے سامنے پھر سے جی رہے تھے۔

شرمین۔۔۔۔۔

مٹی کے پتلے میں حرکت ہوئی ۔۔۔۔لب ہلے تھے مگر بے آواز۔

*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_

انہوں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں ان کا حکم بجا لاؤں گا۔

نکاح کروں گا اور وہ بھی ان کے دوست کی بیٹی سے۔۔۔۔نیور۔۔

ثمران کمرے میں آ کر بیڈ پر چت لیٹا اپنی ہی سوچوں میں محو تھا۔

غصہ کسی طور کم نہ ہو رہا تھا۔

اب صرف ایک ہی راستہ ہے۔

میں خود جاکر اس رشتے سے انکار کر دوں ۔

مجھےکسی طور ایک انجانی آفت کو پلے باندھنے کا شوق نہیں اور ڈیڈ کی پسند تو ہر گز نہیں۔

اسی سوچ کے ساتھ وہ اگلا لائحہ عمل ترتیب دینے لگا۔

*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*

کیا ہوا؟؟کیا سوچ رہے ہیں؟؟

ماریہ نے شوہر کو کسی گہری سوچ میں ڈوبے پایا تو پوچھے بنا رہ نہ سکی۔

ہممم۔۔ہاں۔۔۔وہ میں۔۔۔۔

عالم نیازی جیسے نیند سے جاگے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ رضا کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ثمران سے مجھے تابعداری کی ایسی کوئی خاص امید نہیں جبکہ اظفار کو میں زبان دے چکا ہوں کہ زوہل بہو بن کر میرے گھر آۓ گی۔ اظفار اپنی ناساز طبعیت کے باعث زوہل کے حوالے سے بہت فکرمند ہے اور میں اسے اس پریشان حال میں بالکل بھی نہیں دیکھ سکتا۔

عالم نیازی نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی شریک حیات سے کیا جس پہ وہ تو سلگ ہی اٹھیں۔

دیکھیے۔۔۔میرا اکلوتا بیٹا دیار غیر میں اپنے تمام رشتوں سے دور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ آپ اسے ان سب جھمیلوں میں بالکل بھی مت گھسیٹیے۔

یہاں جو کچھ چل رہا ہے اسے اس سب کی ذرا سی بھنک بھی نہیں لگنی چاہیے۔

آپ اس کا ہورا فوکس اس کی سٹڈیز پر رہنے دیجیے اور ویسے بھی مجھے وہ لڑکی اپنے ہیرے جیسے بیٹے کے لیے کچھ خاص پسند نہیں۔۔۔کہاں ہمارا شہزادوں کی سی آن بان والا بیٹا اور کہاں وہ معمولی صورت والی عام سی لڑکی۔

آپ ثمران سے بات کیجیے وہ راضی ہو جاۓ گا ۔

اگر آپ کہتے ہیں تو میں بات کروں اس سے۔

ماریہ!! وہ صرف اظفار کی ہی بیٹی نہیں ،ہمارا بھی اس سے کوئی رشتہ ہے۔۔۔

آئندہ اس بات کا خیال کرنا اور تمہیں ثمران سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

عالم نیازی نے قطعیت سے کہا۔

انہیں اپنی بیگم کی سوچ پر بے حد افسوس ہو رہا تھا اور اس بات کا بھی افسوس تھا کہ نہ تو وہ خود کبھی باپ کا فرض نبھا پاۓ اور نہ ہی ماریہ نے کبھی ثمران کو بیٹا سمجھا۔

آخر میں وہ صرف اور صرف خود کو قصوروار  ٹھہراتے کیونکہ انہی کی بدولت تو یہ نوبت آئی تھی۔

اس سب میں نہ تو ثمران کا کوئی قصور تھا اورنہ ہی ماریہ کا کیونکہ کسی بھی عورت کا ظرف اتنا وسیع نہیں ہوتا کہ کسی دوسری عورت کے بچے کو دل سے قبول کرے جب اسے یہ بھی اچھے سے معلوم ہو  کہ وہ بچہ اس کے شوہر کا خون ہے۔

*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*

ثمران کب سے اس معمولی سے گھر کے سامنے کھڑا شدید کشمکش کا شکار تھا کہ آیا وہ اندر جاۓ یا نہیں۔

کچھ لمحے سوچنے کے بعد بالآخر اس نے قدم آگے بڑھا دیے۔

دروازے پہ دستک دی مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

دوبارہ دستک دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کسی نے دروازہ کھول دیا اور اس کا دستک دیتا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔

کچھ پل کے لیے وہ ساکت ہوا تھا جیسے۔

چند ثانیے سوالیہ نظروں سے اس لمبے چوڑے شخص کو دیکھنے کے بعد بالآخر وہ کوفت سے مخاطب ہوئی۔

جی فرمائیے؟؟

کس سے ملنا ہے آپ کو؟؟؟

اور آپ ہیں کون؟؟؟؟

زوہل ایک ہی بار میں سوالات زبان پر لائی۔

ثمران جو کہ ابھی تک ہاتھ ہوا میں لہراۓ ساکت کھڑا تھا،ذرا گڑبڑایا اور فوراً سے ہاتھ پہلو  میں گراتے ایک سرسری نظر میں اس کا جائزہ لے ڈالا۔

گندمی سی رنگت، عام سے کپڑے،سر پہ دوپٹہ، سادہ سی صورت مگر جس نے ثمران کو اٹریکٹ کیا وہ تھیں اس کی سنہری آنکھیں۔

ثمران کو اس میں صرف یہی ایک پلس پوائنٹ نظر آیا۔

 

لگتا ہے بھائی صاحب یا تو آپ کی سماعت خراب ہے یا پھر شاید قوت گویائی کا خزانہ کم پڑ گیا مگر معافی چاہتی یوں کیونکہ ہمارے ہاں ان امراض کا کوئی علاج نہیں۔

آپ غلط جگہ تشریف لاۓ ہیں براۓ مہربانی کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

 

وہ اس کے نہ بولنے پہ چوٹ کرتے ہوۓ دروازہ اس کے منہ پہ بند کرنے کو تھی جب وہ اپنا بازو دروازے میں حائل کرتے اسے روک گیا مگر خود کے لیے لفظ بھائی ناجانے کیوں زیادہ اچھا نہ لگا۔

اس کی طنز و تکرار سے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا۔

مجھے اظفار انکل سے ملنا ہے۔ کیا یہ انہی کا گھر ہے؟؟

جی ۔۔یہ انہی کا گھر ہے۔۔۔لیکن آپ کون؟؟

ثمران ۔۔۔۔ثمران نیازی۔۔۔

وہ بیزاری سے اپنی واچ پہ نگاہ ڈالتے ہوۓ بولا  جبکہ اس نام پہ مقابل کی بولتی بند ہو گئی ۔مزید بنا کچھ کہے وہ دروازے سے ہٹ گئی اور اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی اندر لے آئی۔

اظفار قریشی ثمران کو دیکھ کر بہت خوش ہوۓ۔

زوہل اس کے لیے چاۓ لے آئی حالانکہ وہ ہمیشہ سے کوفی کا شوقین رہا تھا لیکن پھر بھی بنا چوں چراں کے اس نے وہ کپ تھام لیا۔

زوہل کمرے سے جا چکی تھی۔

اظفار قریشی سے  ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوۓ وہ چھوٹے چھوٹے سپ لینے لگا۔

کوفی اس کی من پسند تھی،چاۓ بھی وہ شوگرلیس پیتا تھا مگر یہ مٹھاس اسے کوفی کی کڑواہٹ سے زیادہ مزہ دے رہی تھی۔

ایک عرصے بعد یہ ذائقہ چکھا تھا شاید اس لیے۔

اس کی زندگی کے حقائق بھی تو کڑوے اور کھرے تھے جن سے وہ چاہ کر بھی منہ نہیں موڑ سکتا تھا۔

اس نے ذہن جھٹکا اور رسمی ملاقات کے بعد رسمی کلمات سے اجازت چاہی۔

بیرونی دروازے سے باہر قدم بڑھاتے وہ گلی میں گاڑی تک آیا ۔

اس کا ذہن ابھی بھی الجھا ہوا تھا۔

ثمران چاہ کر بھی وہ بات زبان پر نہ لا سکا جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔

ان کی عیادت کے ساتھ وہ ایک خاص مقصد کے تحت یہاں آیا تھا۔

اسے معلوم تھا کہ وہ  اپنا مقصد ادھورا چھوڑ آیا ہے مگر  یہ کہہ کر خود کو پرسکون کرنے لگا کہ ڈیڈ جب دوبارہ اس موضوع پر بات کریں گے تو اس وقت وہ انکار کر دے گا۔

کار انلاک کرنے کے بعد ڈور کھولتے ہوۓ  کسی احساس کے تحت اس نے مڑ کر گھر کے دروازے کو دیکھا  تھا  جہاں زوہل دروازے سے ہلکا سا منہ باہر نکالے اسے دیکھ رہی تھی مگر اپنی چوری پکڑی جانے پر گڑبڑا کر دروازے بند کیا اور اندر گم ہو گئی۔

زوہل کی اس حرکت سے ثمران کے چہرے پہ مبہم سی محفوظ کن تبسم چمکی تھی جس سے وہ خود بھی انجان تھا۔

اپنی سوچ پہ تمام پل باندھتے وہ وہاں سے چلا گیا۔

اظفار قریشی کو زوہل کے لیے یہ انتخاب ہر طرح سے پرفیکٹ لگا لیکن وہ ان کے بیٹی کے لیے صحیح تھا یا نہیں  یہ تو وقت ہی بتلاۓ گا۔

*_*_*_*_*_*_*_*_*_

جاری ہے۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Click Here to Read online

Or

Download PDF file 

 Muhabat Phool Jasi Hay

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.