***Moujd Hay tou muj main rug o jaan jasy ***







٭موجودہے تو مجھ میں رگ جاں جیسے٭
قسط نمبر:10
از :عشاء راجپوت
-------------------------------------------------
افنان۔۔۔۔۔
احسن آفندی اور سائرہ ہاسپٹل سے نکل کر پارکنگ میں اپنی کار کی جانب بڑھ رہے تھے اور افنان اپنی گاڑی کی جانب بڑھنے لگا جب احسن صاحب
نے اسے پکارا تو وہ وہیں رک کر پلٹا۔
نایاب کہاں ہے؟؟
افنان سے سوال کیا گیا۔
آئلہ لی پریشانی میں تو وہ مکمل طور پر فراموش کر بیٹھے تھے کہ نایاب افنان کے ساتھ ہی گھر سےباہر گئی تھے جبکہ ہسپتال تو صرف افنان آیا تھا۔
اسے تو میں گھر ڈراپ کر چکا ہوں ڈیڈ۔۔۔۔
افنان نے انہیں آگاہ کیا تو وہ سر ہلا کر آگے بڑھ گئے۔
(احسن آفندی کو لگا کہ افنان نے ہسپتال آنے سے پہلے نایاب کو گھر ڈراپ کیا ہو گا جبکہ افنان یہ سوچنے لگا کہ نایاب کو گھر چھوڑنے سے پہلے ہی اس
کے والدین گھر سے ہسپتال کے لیے نکل چکے ہوں گے جبھی انہیں معلوم نہیں ۔
لیکن دونوں ہی اپنی سوچ میں غلطاں تھے۔
حقیقت تو کچھ اور ہی تھی(
آگے پیچھے دونوں گاڑیاں آفندی ولا میں داخل ہوئیں۔
احسن آفندی اور سائرہ اپنے کمرے کی جانب چل دئیے اور افنان بھی تھکا ہارا سا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
آئلہ نے خود کو نقصان پہنچانے کی جو حرکت کی تھی ،اس سے افنان ذہنی طور پر ڈسٹرب ہو چکا تھا۔
افنان یہ توقع کیے بیٹھا تھا کہ نایاب اب تک سو چکی ہو گی۔
جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا تو کمرہ ویسا ہی روشن تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
تو کیا وہ جاگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔
افنان کو تشویش ہوئی۔
اس نے سب جگہ دیکھ لیا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔
افنان کو نئی فکر نے گھیر لیا۔
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ حرمین کے کمرے کے سامنے رکا۔
ایک مبہم سی امید تھی کہ شاید وہ یہاں ہو۔۔۔
افنان نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
چند ثانیے بعد حرمین اپنی خمار آلود نگاہوں سے اسے گھورتے ہوۓ نیند میں جھولتی اس کے سامنے تھی۔
کیا ہوا بھائی؟ اتنی رات کو آپ یہاں؟؟حرمین نے ہاتھ سے جمائی روکتے ہوۓ کہا۔
حرمین وہ۔۔۔۔نا۔۔۔۔نایاب۔۔۔۔۔
ناچاہتے ہوۓ بھی اس کی زبان لڑکھڑا گئی اور جملہ بھی مکمل نہ ہو پایا۔
بھابھی؟؟نایاب کا نام سنتے ہی اس کی نیند اڑن چھو ہو گئی۔
کیا ہوا بھابھی کو؟؟حرمین کمرے سے باہر نکل کر آگے قدم بڑھاتے ہوۓ تشویش سے بولں اس کا رخ افنان کے کمرے کی جانب تھا۔
وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔افنان کی شکستہ دھیمی آواز سے اس کے قدموں کو بریک لگا۔
یہاں نہیں ہے۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔۔۔کہاں ہیں وہ؟؟حرمین نے پلٹ کر حیرانی سے استفسار کیا۔دل نے کچھ غلط ہونے کا اعلان کیا۔
جبکہ دوسری طرف افنان کی مبہم سی امید بھی دم توڑ گئی۔
اس نے لال ہوتی آنکھوں سے حرمین کو دیکھا۔
وہ کہاں ہے میں نہیں جانتا۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔اب ضرور جان جاؤں گا۔
لہجہ سپاٹ تھا۔اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چل دیا۔
حرمین بے یقین سی وہیں کھڑی رہی جب بات اچھے سے سمجھ آئی کہ نایاب غائب ہے تو فوراً احسن صاحب کے کمرے کی جانب بھاگی۔
افنان نے پورا گھر چھان مارا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھی ایک آخری امید تھی کہ کہ شاید حرمین کو خبر ہو حالانکہ حرمین کو معلوم ہونے کی کوئی تک نہیں
 بنتی لیکن پھر بھی خود کو دلاسہ دینے کی ایک ناکام کوشش کی۔
افنان اتنا تو جانتا تھا کہ نایاب خود کہیں نہیں جا سکتی ۔۔۔ضرور کچھ تو ہوا ہے جس سے وہ لا علم ہے۔
اس سوچ کے آتے ہی اس کا دل دکھ سے بھرنے لگا۔
زیادہ پرانی بات تو نہ تھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ ایک ساتھ تھے اور کتنے خوش تھے۔
افنان نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔
آنکھوں میں اتری نمی کو اپنے اندر اتارا۔
مجھے کمزور نہیں پڑنا ۔نایاب کے معاملے میں تو بالکل نہیں۔
افنان نے خود کو باور کرواتے ہوۓ خود ہی کومظبوط رکھنے کی بھر پور کوشش کی ۔
اسے ڈھونڈنا تھا۔۔اپنی نایاب کو تلاش کرنا تھا کسی بھی حال میں کرنا تھا۔
افنان نے اپنے مائنڈ کو ریلیس کرنا چاہا تاکہ وہ کچھ سوچ سکے مگر اپنی ماؤ بلی کے بنا وہ کیسے ریلیکس رہ سکتا تھا۔اس کے سکون کی وجہ تھی وہ۔
یکدم ہی اس کے تاثرات بدلے اور غم و غصے سے اس کا حال برا ہونے لگا۔
افنان شدید طیش کے عالم میں چوکیدار کے سر پہ کھڑا اسے لتاڑ رہا تھا۔آخر کچھ تو دیکھا ہو گا اس نے ۔ایسے کیسے غائب ہو سکتی تھی وہ ۔۔کچھ تو ہوا ہو گا مگر وہ ایک ہی بات دہراۓ جا رہا تھا ،”صاحب جی مجھے کچھ معلوم نہیں “۔
اتنے میں حرمین احسن صا حب کو بلا لائی۔
افنان اپنی کار باہر نکالنے لگا کہ آفندی صاحب نے اسے روکا۔
رکو افنان۔۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟اور حرمین یہ کیا کہہ رہی ہے؟کہاں ہے نایاب؟یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے اس گھر میں۔
احسن صاحب نے پریشانی سے افنان کو مخاطب کیا جبکہ سائرہ بیگم تو بہو کی گمشدگی کی خبر پا کر باقاعدہ رو دینے کو تھیں مگر حرمین نے انہیں تھام رکھا تھا۔۔
میں نایاب کو تلاش کرنے جا رہا ہوں اور اب اسے ساتھ لے کر ہی لوٹوں گا۔
وہ پیچھے آوازیں دیتے رہ گئے مگر وہ سنی ان سنی کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
میں سمجھ سکتا ہوں یہ حرکت اور جرأت تم ہی نے کی ہو گی لیکن کوئی بھی نایاب کو نہ تو افنان سے چھین سکتا ہے اور نہ ہی کبھی جدا کر سکتا ہے۔
اگر کسی نے نایاب کو تکلیف پہنچانے کے کوشش کی تو میں اس کی جان لے لوں گا۔
افنان نے درشتی سے سوچا۔
نایاب کی غیر موجودگی کا خیال ہی افنان کے لیے سوہان روح تھا۔
اس نے لال ہوتی آنکھوں سے ایک نظر سامنے موجود راستے کو دیکھا جو اسے سیدھا نایاب کے پاس لے جانے والا تھا۔افنان نے گئیر ڈالا تو کار
 ہواؤں سے باتیں کرتے ہوۓ اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگی۔اس دوران اسے اپنے ڈیڈ کی کالز موصول ہوئیں مگر اس نے ایک کا بھی ریپلائی نہیں کیا۔
ایک اننون نمبر سے ویڈیو موصول ہوئی جسے دیکھ کر وہ صرف لب بھینچ کر رہ گیااور غصے سے پیچ و تاب کھانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی مانوس سے لمس پر نایاب نے مندی مندی آنکھیں کھول کے دیکھا تو افنان کا چہرہ واضح ہوا۔
وہ فکرمندی سے اسے تھامے گال تھپتھپا کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
نایاب افنان کو دیکھ کر زخمی سا مسکرائی۔
اففن۔۔۔۔۔افناااان۔۔۔۔۔۔۔تممم ۔۔۔تم آ گۓ؟نایاب اٹک اٹک کر بولی۔
ہاں آگیا ہوں ۔۔۔۔تمہارے بنا رہ سکتا ہوں کیا؟؟؟
وہ بکھرا بکھرا سا اس کے مد مقابل تھا۔
مجھے ۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔ایک پل کے لیے لگا۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔اب کبھی۔۔۔تمہیں۔۔دیکھ نہیں پاؤں گی۔
وہ بہت رک رک کر بول رہی تھی۔سر بہت بھاری ہو رہا تھا اسے چکر آنے لگے۔وہ بمشکل پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسے دیکھتی جو بار بار بند ہوۓ
جا رہی تھیں۔
افنان نے تڑپ کر اسے دیکھا۔۔۔افنان کو اس وقت وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔
اور ایسے تصور سے میری جان نکل رہی تھی۔
افنان نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے کہا جو رتجگے کا اعلان کر رہی تھیں ۔آواز میں ہلکی سی نمی کی آمیزش تھی۔
نایاب نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا گویا اب بھی یقین کرنا چاہتی ہو آیا کہ وہ سچ میں اس کے پاس ہے۔
جیسے ہی نایاب نے اپنا ہاتھ بڑھا یا افنان نے اس کا ہاتھ تھام لیا جس سے نایاب سسسی کی آواز سے کراہی۔
نایاب کی نازک کلائیوں پہ رسیوں کے نشان زخموں کی صورت ثبت کر دئے  گئے تھے۔ کیونکہ اسے بھی بالکل ویسے ہی باندھا گیا تھا جیسے ضیاء کو
 افنان نے باندھ رکھا تھا۔
افنان لب بھینچ گیا۔اس کی آنکھوں میں پھر سے غصہ اترنے لگا مگر اسے ابھی نایاب کو بحفاظت گھر پہنچانا تھا۔
وہ اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ خود چل کر گاڑی تک جا سکے۔افنان نے اسے سہارا دیا اور گاڑی تک لایا۔
افنان؟؟
نایاب نے بمشکل خود کو جگاۓ رکھتے ہوۓ اپنے شوہر کو پکارا جو اسے ساتھ لیے اس فارم ہاؤس سے قدم باہر کی جانب بڑھا رہا تھا۔
ہمممم۔۔۔افنان نے اتنا ہی کہا۔۔
اگر۔۔۔اگرمیں۔۔مر گئی تو۔۔۔کیا تم۔۔دوسری شادی کر لو گے؟؟
وہ مدہوشی کے عالم میں بول رہی تھی اور اتنا دھیما کہ اتنے قریب ہوتے ہوۓ بھی افنان بمشکل سن سکا۔
ایسے اول فول تمہارے دماغ میں آ کہاں سے رہے ہیں؟؟
افنان نے ضبط کرتے ہوۓ اسے پیار بھری گھوری سے نوازا اور ایک ہاتھ سے نایاب کو تھامے رکھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے کار کا ڈور کھول کر آرام
سے اسے فرنٹ سیٹ پہ بٹھا دیا۔
نایاب اس کی بات پر ہنسنے لگی۔
اول فول کا تو پتا نہیں۔۔۔ابھی تو میکو بہت نینی آ لی ہے(ابھی تو مجھے بہت نیند ارہی ہے)۔
نایاب نے لفظ ”بہت“ پہ زور دیتے ہوۓ اپنے ہاتھوں
کو اچھا خاصا کھول کر افنان کو بتایا کہ اسے کتنی نیند آ رہی ہے۔
کیا میں شو جاؤں؟؟(کیا میں سو جاؤں)۔
افنان کو وہ اس وقت حد سے زیادہ معصوم اور پیاری لگی۔
نایاب کے بچوں جیسے انداز پر اس کے لب بے خودی سے مسکرا اٹھے۔
سو جاؤ میلی کیوٹی شونا ماؤ بلی(سو جاؤ میری کیوٹی سونا ماؤ بلی)۔
افنان نے بھی اسی کے انداز میں کہتے ہوۓ اس کے سر پہ تھپکی دی تو فوراً نایاب نے تابعدار بچوں کی طرح سر ہلا کر آنکھیں بند کر لیں۔
افنان نے مسکرا کر اس کی سائیڈ کا دروازہ بند کیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
ڈرائیو کرتے ہوۓ نظر بار بار بھٹک کر دنیا جہاں سے غافل سوئی پڑی نایاب کے چہرے کا طواف کرنے لگتی۔
افنان نے ایک بار پھر نظر بھر کے نایاب کو دیکھا اور ایک پر سکون سانس اندر کھینچی۔
ایک غلطی افنان سے ہوئی تھی جس کی سزا نایاب کو بھگتنا پڑی۔
نایاب کے لاپتا ہونے سے کیسے اس کی جان پہ بن آئی تھی یہ صرف وہی جانتا تھا۔
اگر تمہیں کچھ ہو جاتا نایاب۔۔تو میں جیتے جی مر جاتا۔۔۔یا شاید دوسرا سانس بھی نہ لے پاتا اور دم توڑ دیتا۔۔یو آر مائی لائف۔
افنان نے اسے نظروں کے حصار میں رکھے کہا جو اس کی باتوں سے یکسر انجام ہوش و خرد سے بیگانہ سو رہی تھی۔
افنان نایاب کو سیدھا گھر لے آیا صبح کے 10 بج رہے تھے۔
وہ جیسے ہی سوئی ہوئی نایاب کو لیے اندر داخل ہوا تو سب اسے پریشان حال ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ملے۔
اسے دیکھتے ہی فوراً اس کی جانب لپکے۔
افنان نے سب کو تسلی دی اور نایاب کو اوپر اپنے روم میں لے جا کر بیڈ پہ لیٹا دیا۔
ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ڈاکٹر نے کہا کہ کسی نشیلی چیز(ڈرگز) کے زیر اثر ان کی یہ حالت ہو گئی۔
کچھ دیر آرام کریں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔
ڈاکٹر نے ایک ڈرپ نایاب کے ہاتھ پہ لگا دی اور کچھ میڈیسن لکھ دیں۔
افنان نے سب کو بتایا کہ تاوان کے لیے نایاب کو کڈنیپ کیا گیا اور وہ انہیں ان کی منہ مانگی قیمت دے کر بحفاظت سہی سلامت گھر لے آیا۔
افنان سے سوالات کیے گئے جیسے
تم نے اس کا چہرہ دیکھا؟
افنان نے کہا۔
نہیں اس نے ماسک پہن رکھا تھا۔
اور پولیس کو انفارم نہیں کیا گیا کیونکہ نایاب کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا تھا اور اسے واضح وارننگ دی گئی تھی کہ پولیس کو اس معاملے سے دور رکھے۔
ڈاکٹر کے جاتے ہی حرمین سائرہ اور احسن بھی کمرے سے باہر چلے گئے۔
جاتے جاتے مسز آفندی نے افنان سے ناشتے کا پوچھا تو اس نے سہولت سے انکار کر دیا پھر وہ افنان کو بھی آرام کی تلقین کر کے باہر چل دیں۔
افنان کی آنکھیں بھی رت جگے کی داستان بیان کر رہی تھیں۔
اس ایک رات میں افنان نے اس قدر ذہنی تناؤ کا سامنا کیا تھا کہ واقعی ذہنی اور جسمانی طور پر بہت تھک چکا تھا۔
افنان نایاب کے سرہانے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ایک ہاتھ سےنایاب کا ایک ہاتھ تھام لیا۔
نجانے کب اس پہ نیند کی دیوی مہربان ہوئی اور وہ بیٹھے بیٹھے ہی نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”فلیش بیک“
آج افنان کو خوشی میں کوئی ہوش نہ تھا یا پھر یوں کہا جاۓ کہ آج کے دن اس کی قسمت ہی خراب تھی۔
اس کا موبائل کب سے پاورڈ آف تھا اور اسے کچھ خبر نہ تھی۔
وہ تو اپنے ولیمے کی خوشی میں چہکتا پھر رہا تھا۔
تقریباً رات کو وہ ولیمے کی تقریب سے فارغ ہوۓ۔
نایاب اب اپنے روم میں موجود اپنی جیولری اتار کر ڈریسنگ پر رکھ رہی تھی۔
وہ تقریباً ساری جیولری اتار چکی تھی اور اب ہاتھوں سے کنگن اور چوریاں اتارنے لگی جب اسے اپنے پیچھے افنان کی موجودگی کا احساس ہوا۔
وہ نظروں میں نرم تاثر لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
افنان نے اسے چوریاں اتارنے سے باز رکھا اور اپنے دل کی خواہش پر اسے عروسی لباس میں ہی اپنے ہمراہ گھر سے باہر لے آیا اور آئسکریم
کھانے پر مجبور کرنے لگا کیونکہ وہ مزید چند لمحے اس کا یہ سجا سنورا روپ آنکھوں میں بسانا چاہتا تھا اس لیے وہ نایاب کو زبردستی اپنے ساتھ لے آیا۔
گاڑی میں بیٹھ کے افنان نے جیب سے اپنا موبائل نکالا تو وہ پاورڈ آف تھا ۔
افنان نے موبائل آن کیا اور ڈیش بورڈ پہ رکھ دیا بنا میسجز چیک کیے۔
وہ اپنا بھر پور وقت نایاب کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا اور اس کے علاوہ فی الحال کچھ بھی سوچنے کا خواہشمند نہ تھا۔
افنان نایاب کو اپنے جذبات و احساسات کے ساتھ اپنے دل کی آگہی فراہم کر رہا تھا کہ سیل فون پہ ہونے والی رنگ ٹون نے ان کے درمیان خلل ڈالا۔
افنان نے ماتھے پہ شکنیں ڈالے کال رسیو کی جہاں دوسری جانب اسے ضیاء کے فرار کی معلومات دی جا رہی تھی۔
افنان نے لب بھینچ کر بنا کوئی جواب دیے کال کاٹ دی اور آئسکریم کا پروگرام کینسل کر کے نایاب کو گھر ڈراپ کیا اور یہ بھی کہا کہ جلد ہی وہ اسے
سب کچھ بتا دے گا۔
وہ نایاب کو ڈراپ کر کے اس جگہ پہنچا جہاں ضیاء کو رکھا گیا تھا۔۔
افنان نے وہاں سے تمام نشانات مٹاتے ہوۓ ضیاء کے اپارٹمنٹ کی راہ لی کیونکہ اسے شک تھا کہ ضیاء وہیں گیا ہو گا۔
وہ ضیاء سے ایک بار مل کر سب کلئیر کرنا چاہتا تھا کہ راستے میں ہی احسن صاحب کی ایمرجنسی کال نے اسے ہسپتال جانے پہ مجبور کر دیا۔
وہاں سب حقیقت جان کر اسے شدید قسم کا جھٹکا لگا تھا۔
اسے آئلہ سے ایسی حماقت کی بالکل بھی توقع نہ تھی۔
جب وہ گھر لوٹا تو نایاب گھر پہ موجود نہ تھی اس کا سیل فون بھی کمرے میں ہی تھا۔
افنان اپنی فیملی کو بغیر کوئی خاص جواب دیے گھر سے نکل پڑا۔
افنان نے منہ دکھائی میں اسے ایک ڈائمنڈ رنگ دی تھی جسے اتارنے کی اجازت افنان نے نایاب کو دی ہی نہیں ۔یہ افنان کی فرمائش تھی۔۔
وہ رنگ افنان نے نایاب سے نکاح کے بعد نہیں خریدی تھی بلکہ جب اسے پختہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ نایاب سے شدید قسم کی محبت کر بیٹھا ہے تو
اس نے خاص طور پر یہ رنگ تیار کروائی تھی۔
وہ کوئی معمولی رنگ نہیں تھی۔
اس میں ایک ٹنی ٹریکنگ ڈیوائس لگائی گئی تھی( افنان نے یہ ٹریکر رنگ میں کیوں فٹ کروایا تھا وہ آپکو بعد میں بتایا جاۓ گا )
وہ چاہتا تھا جب دونوں خاندان نایاب اور افنان کے لیے دلی آمادگی سے رضامندی ظاہر کریں گے تو وہ ایک مرتبہ نایاب کو بذات خود پروپوز کرے
 گا اور یہ رنگ اس کے ہاتھ کی زینت بناۓ گا۔
قسمت نے انہیں ملانا ضرور تھا لیکن شاید کسی اور طریقے سے۔
افنان نے اس رنگ کی مدد سے نایاب کی لوکیشن کو ٹریس کیا اور تیزی سے ڈرائیو کرتے ہوۓ آگے بڑھنے لگا۔
یا تو اسے خود پہ بہت بھروسا تھا یا اپنی محبت پہ اور یا پھر اپنے اور نایاب کے مابین نکاح کے اس بندھن پہ،کہ وہ بنا کسی ہتھیار کے بالکل تنہا نہتہ ہی
نایاب کو بچانے نکل پڑا۔
یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا سامنا ناجانے کن لوگوں سے ہونے والا تھا۔
ابھی تو وہ صرف شک کی کیفیت میں تھا مگر اسے یقین میں بدلا ضیاء کی بھیجی گئی ویڈیو نے۔
اس نے اپنے ڈیڈ کو کال ملائی اور کہا کہ جب تک میں نہ کہوں پولیس کو انفارم مت کیجیے گا۔
وہ مسلسل دو گھنٹے سے ڈرائیو کر رہا تھا ۔رات تو بیت چکی تھی۔
فجر کی اذان نے صبح کی تصدیق کی اور پھر آہستہ آہستہ ہر سو روشنی بکھرنے لگی۔
افنان جب مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو آفتاب دن کی نوید لیے جلوہ گر ہو چکا تھا۔۔
افنان نے ایک بار پھر موبائل پر نگاہ دوڑائی جو کہ نایاب کی موجودگی کا پتا اسی فارم ہاؤس میں دے رہا تھا جس کے سامنے وہ کھڑا تھا۔
افنان گاڑی سے نکل کر آگے بڑھا۔
وہاں کوئی واچ مین بھی نہیں تھا۔افنان کو حیرت ہوئی۔
گیٹ بھی انلاکڈ تھا ۔وہ اندر آ گیا۔
چہرے پہ بلا کی سنجیدگی اور سٹیل بلیو آئز میں تفکر لیے وہ ایک ایک روم چیک کر رہا تھا۔
مگر تمام رومز خالی تھے۔
وہاں کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔
مگر نایاب کی لوکیشن تو یہی بتائی جا رہی تھی۔
افنان نے آنکھوں میں تشویش لیے انہیں بند کیا اور دوانگلیوں سے کنپٹی مسلی۔
وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
پھر پٹ سے آنکھیں کھول لیں۔
بیسمنٹ۔۔۔۔۔وہ زیر لب بڑبڑایا۔
ہاں۔۔۔۔اس نے بالکل صحیح گیس کیا تھا۔
نایاب بیسمنٹ میں ہی تھی۔کرسی سے بندھی ہوئی۔سر ایک جانب ڈھلکا ہوا تھا۔
پاؤں بھی بندھے تھے اور دونوں ہاتھ بھی پیھچے کی جانب موڑ کر باندھے گئے تھے۔
افنان ایک ہی جست پیں اس تک پہنچا ۔اسے رسیوں سے آزاد کیا۔
اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ نشے میں بہکی بہکی باتیں کر رہی تھی۔۔
نایاب کے ملنے کے بعد افنان کی جان میں جان آئی ۔
وہ اسے آفندی ولا لے آیا ۔
فی الحال اسے مجبوراً سب سے جھوٹ بولنا پڑا کہ تاوان کے لیے نایاب کو کڈنیپ کیا گیا۔نایاب اب صحیح سلامت واپس آ چکی ہے۔اب پولیس کے
 چکر میں پڑنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔
وہ گہری نیند سو رہی تھی۔نایاب کو واپس پا کر ایک سکون سا اس کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔
نجانے کب اس کی آنکھ لگی اور وہ بھی نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔
وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت زیادہ تھک چکا تھا اس لیے نیند جلد ہی اس پہ مہربان ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء بہت دنوں سے اس قید سے رہائی کی پلاننگ کر رہا تھا۔۔آج صحیح موقع پاتے ہی اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان چکا تھا۔
دروازہ کھلا اور ایک آدمی کھانا لیے اندر داخل ہوا۔
ضیاء نے کھلے دروازے سے باہر دیکھا وہاں 3 آدمی بیٹھے سموکنگ کر رہے تھے
اسے کھانا دینے والا مخصوص آدمی جب اپنا کام کر کے واپس پلٹا تو ضیاء نے اسے آواز دے کر روک لیا۔
جیسے ہی وہ بیزاری سے ضیاء کی جانب پلٹا تو ضیاء اس کے عین پیچھے کھڑا تھا۔
ضیاء نے اپنے پلان پر عمل کرتے ہوۓ ایک زوردار پنچ اس کے چہرے اور پیٹ پہ رسید کیا۔
وہ کراہ کر نیچے گرا۔اس کا پنچ تھا ہی اتنا زوردار۔
کھٹکے کی آواز پر باہر بیٹھے نفوس کو گڑبڑی کا احساس ہوا تو وہ بھی کمرے کی جانب لپکے جہاں ان کا ساتھی زمین پہ پڑا تڑپ رہا تھا۔
ضیاء دروازے کی اوٹ میں چھپا کھڑا تھا۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوۓ ضیاء نے فوراً دروازے کے پیچھے سے نکل کر ان پہ لاتوںگھونسوں کی برسات
 شروع کر دی۔
ضیاء نے ان میں سے کسی کو بھی جوابی کاروائی کا موقع نہ دیااور پے در پے مکے برساتے ہوۓ ان کا نقشہ ہی بگاڑ دیا۔
ان سب کو کمرے میں لاک کر کے وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
ضیاء کے سر پہ بدلے کا جنون سوار تھا۔
زخم وہاں دو جہاں درد ہو۔
اس بات کو سوچتے ہوۓ اس نے نایاب کو نشانہ بنایا۔
ضیاء نے اپنے ایک دوست سے مدد لی اور اسی کے فارم ہاؤس پہ نایاب کو رکھا۔
افنان نایاب کو گھر ڈراپ کر کے جا چکا تھا۔
ضیاء نے اپنی گاڑی آفندی ولا سے کچھ فاصلے اندھیرے میں کھڑی کر رکھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
Click here to read online
or
Download PDF file

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.