***Char Dawiyon Ka Qissa***


***Char Dawiyon ka Qissa***
***Episode:6***
***Writer:Ghazanfar Kazmi***


٭٭٭چار دیویوں کا قصہ٭٭٭
قسط نمبر :6
مصنف :غضنفر کاظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ دیر کے بعد فائرنگ رک گئی، ہم دونوں اسی طرح لیٹی رہیں پھر کمرے کے باہر قدموں کی آواز سنائی دی کوئی ہمارے کمرے کی جانب آرہا تھا، میں نے اپنے ریوالور کا رخ دروازے کی جانب کرلیا میرے ساتھ ہی سونیا نے بھی دروازے کو نشانے پر لے لیا، اسی وقت باہر سے ہمارے امریکی میزبان کی آوازسنائی دی، ” میں ڈیوڈ ہوں، فائر نہ کردینا“ ڈیوڈ کی آواز سن کر ہم دونوں اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئیں اسی وقت ڈیوڈ اندر داخل ہوا اور ہم سے کہنے لگا، ” تم دونوں کو ابھی یہاں سے جانا ہوگا کیونکہ فائرنگ کی وجہ سے یہاں کسی بھی وقت پولیس پہنچ سکتی ہے، ہمارا ریکارڈ تو قونصلیٹ آفس میں موجود ہے لیکن تم دونوں کے لئے کوئی مسئلہ نہ بن جائے“ یہ کہتے ہوئے اس نے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور سونیا کا بیگ اٹھاتے ہوئے واپسی کے لئے مڑ گیا، ہم دونوں بھی اس کے پیچھے چل پڑیں، عمارت کے باہر وہی کالے رنگ کی مرسڈیز کھڑی تھی اور وہی شخص گاڑی کے پاس کھڑا تھا جو ہمیں لے کر آیا تھا، ڈیوڈ کو اٹیچی اٹھائے دیکھ کر اس نے آگے بڑھ کر اس سے اٹیچی پکڑا اور ڈگی میں رکھ کر پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور سونیا کے اور میرے بیٹھنے کے بعد دروازہ بندکرکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور آگے بڑھادی، بنگلے کے چوکیدار نے گیٹ کھولا اور ہماری گاڑی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ باہر نکلتے ہی ڈرائیور نے گاڑی بائیں ہاتھ موڑنے کی کوشش کی جدھر سے ہم آئے تھے میں نے اس کو روکتے ہوئے دائیں ہاتھ مڑنے کو کہا، میری ہدایت پر وہ دائیں ہاتھ مڑ تو گیامگر ساتھ ہی مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں جانا چاہتی ہوں، اس پر میں نے کہا، ” تم جس طرف جانا چاہتے تھے پولیس بھی اسی راستے سے آئے گی ہماری گاڑی روک کر وہ چیک کرسکتی تھی اس لئے ابھی تم اسی سمت میں چلو آگے چل کر بائیں ہاتھ ٹرن لینا پھر گھوم کر اسی سڑک پر آجانا“ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنا موبائیل نکالا اور جنرل اکبر کا دیا ہوا ایک نمبر ڈائیل کیا، جب دوسری جانب سے کسی نے فون اٹینڈ کیا تو میں نے کہا، ” میں پہاڑوں کی بیٹی بول رہی ہوں، ہمارے ٹھکانے پر کسی نے حملہ کیا تھا اس وقت میں اور میری مہمان کالے رنگ کی مرسڈیز میں کلفٹن روڈ پر ہیں تم ہمارے لئے کوئی دوسری گاڑی بھیجو اورساتھ ہی رہائش کا بھی انتظام کرو، اب میں اپنی مہمان کی خود حفاظت کروں گی، دوسروں پر بھروسہ نہیں کروں گی“....” رائٹ میڈم، آپ کلفٹن روڈ سے باہر آکر اپنی گاڑی روک لیں وہاں نیلے رنگ کی ہنڈا اکارڈ نمبر KAM 3030 کھڑی ہوگی آپ اس میں بیٹھ جانا پھر ڈرائیور آپ کو آپ کی رہائش گاہ پر لے جائے گا“ .... میں نے ”اوکے“ کہہ کر فون بند کردیا۔ یہ تمام گفتگو انگریزی زبان میں کی تھی تاکہ سونیا بھی سن اور سمجھ لے، میرے فون بند کرتے ہی سونیا نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس سے بات کررہی تھی، تو میں نے ذرا سخت لہجے میں اس سے کہا، ” تمہارے آدمیوں پر بھروسہ کرکے میں نے دیکھ لیا ہے اب میں جو بھی کروں گی وہ اپنی ذمہ داری اور مرضی سے کروں گی تمہاری حفاظت میری ذمہ داری ہے اور میں تمہارے حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتی“ میری بات سن کر سونیا خاموش ہوگئی۔ اس دوران ہم کلفٹن روڈ سے باہر نکل آئے تھے وہاں میں نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کو کہا اور پھر ہم نیلے رنگ کی ہنڈا اکارڈ کا انتظار کرنے لگیں، تقریباً پانچ منٹ بعد وہ گاڑی پہنچ گئی، میرے کہنے پر ہمارے ڈرائیور نے سونیا کا بیگ نکالا اور آنے والی گاڑی میں رکھا پھر ہم بھی اس گاڑی میں بیٹھ گئیں، میں نے مرسڈیز کے ڈرائیور کو گاڑی واپس لے جانے کو کہا اور اپنے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔
تھوڑی دیر بعد ڈرائیور نے مجھ سے کہا، ” میڈم، اگر آپ چاہیں تو راستے میں کہیں کھانا کھا سکتی ہیں کیونکہ آپ کی رہائش گاہ تیار ہونے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگے گا“ میں نے سونیا کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا اور پھر میرے کہنے پر ڈرائیور نے گاڑی ایک ہوٹل کی پارکنگ میں داخل کردی۔ کھانا کھانے میں تقریباً پون گھنٹہ لگا، تب میں بل ادا کرکے سونیا کے ساتھ پارکنگ میں آئی اور ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اب ہم جا سکتے ہیں؟ ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلا کر دروازہ کھولا، ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں اور ڈرائیور نے اگلی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھادی۔ تھوڑی دیر بعد ہم ڈیفنس کے علاقے میں ایک بنگلے میں داخل ہوگئے، گاڑی رکتے ہی وہاں کھڑے ملازمین نے ہمارا استقبال کیا اور میرے اشارے پر ڈگی سے سونیا کا اٹیچی نکالا اور ہمیں عمارت کے اندر لاکر ہمارے بیڈ روم دکھائے جو نہ صرف ساتھ ساتھ تھے بلکہ ان میں ایک دروازہ دونوں کمروں کو ملاتا تھا۔ میرے اشارے پر ملازمین ہمیں وہاں چھوڑ کر چلے گئے جاتے جاتے میں نے ان کو چائے بھجوانے کا کہہ دیا تھا ان کے جاتے ہی سونیا اور میں تھکے تھکے انداز میں بیڈ پر گر گئےں میں نے سونیا سے کہا، ” سونیا پہلے چائے پی کر دماغ تازہ کرلیں پھر تم مجھے اپنے آنے کا مقصد بتاو تاکہ میں اس کے مطابق کام کروں، دیکھو اگر تم کو مجھ پر اعتماد ہے تو مقصد بتانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر اعتماد نہیں ہے تو پھر مجھے ساتھ رکھنے کا کوئی مطلب نہیں“ میری بات سن کر سونیا بولی، ” میں جھوٹ نہیں بولوں گی، جب میں آئی تھی تو مجھے تم پر مکمل اعتماد نہیں تھا لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ تم شہباز خان کی بھتیجی ہو تو کچھ کچھ اعتماد بحال ہونے لگا تھا لیکن اب تم نے جس انداز سے گاڑی بدلنے اور رہائش کا انتظام کیا ہے تو اب مجھے تم پر مکمل اعتماد ہے اور میں خود بھی تم سے چند مشورے کرنا چاہوں گی“.... اتنا کہہ کر وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئی، میں بھی خاموش ہی رہی وہ پھر بولی، ” اب ذرا چائے پی لیں پھر تم سے بات کرتی ہوں“ میں نے اثبات میں سر ہلادیا اور تھوڑی دیر بعد ایک ملازمہ چائے کی ٹرالی لئے اندر داخل ہوئی تو میں نے اس کو کہا کہ آئندہ جب بھی کمرے میں داخل ہو تو پہلے اندر آنے کی اجازت لیا کرو، اس نے بلا اجازت کمرے میں داخل ہونے پر معافی مانگتے ہوئے کپوں میں چائے ڈال کر ٹرالی ہمارے قریب کردی اور پھر میرے اشارے پر وہ کمرے سے نکل گئی اور ہم چائے پینے لگیں۔
چائے پینے کے بعد سونیا کہنے لگی ،”پہلے ایزی نہ ہوجائیں تم بھی کپڑے تبدیل کرلو“ اس کی بات ٹھیک تھی میں اٹھ کر اندر کے دروازے سے اپنے بیڈ روم میں گئی اور پھر بیرونی دروازے سے باہر نکل کرملازمہ سے سلیپنگ سوٹ مانگا تو اس نے بتایا کہ میرے اور سونیا کے کمروں کی الماریوں میں ہمارے لئے لباس رکھے ہوئے ہیں، یہ سن کر میں واپس اپنے کمرے میں آئی اور الماری کھول کر ایک سلیپنگ سوٹ نکال کرلباس تبدیل کیا اور پھر سونیا کے کمرے میں چلی گئی وہ ہاتھ میں کوئی الیکٹرونک آلہ لئے اپنا کمرہ چیک کررہی تھی مجھے دیکھ کر شرمندہ سی ہوئی تو میں نے کہا، ” نہیں نہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں یہ بہت ضروری ہے تم چیک کرو پھر میرا کمرہ بھی چیک کرنا، ہم پوری تسلی کے بعد اپنی باتیں شروع کریں گی“۔ میری اس بات پر اس نے پہلے اپنا پھر میرے کمرے میں آکر اس کو چیک کیا لیکن دونوں کمرے بالکل ٹھیک تھے یعنی ان میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے ذریعے ہماری گفتگو سنی جاسکتی۔ اس دوران میں نے سونیا کو بتا دیا کہ اس کے کمرے کی الماری میں اس کے لئے لباس رکھے ہیں وہ چاہے تو ان کو استعمال کرسکتی ہے، میری بات سن کر اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے میرے انتظامات کی تعریف کی اورپھر ہم اس کے بیڈ روم میں آگئےں۔
بیڈ پر بیٹھتے ہوئے سونیا نے پوچھا، ”تم کس حد تک ہمارا ساتھ دے سکتی ہو؟“
” کیا مطلب؟ میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھی، ویسے میرے ذمے تمہاری حفاظت اور تمہارے کام میں تمہیں مدد فراہم کرنا ہے، اب تم بتاو کہ مجھ سے کیا کام لینا چاہتی ہو؟“
وہ تھوڑی دیر تک سوچتی رہی پھر بولی، ” دیکھو امریکہ کیا چاہتا ہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، میں یہ چاہتی ہوں کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں اور بلوچستان پر ہمارا تسلط ہوجائے“ یہ کہہ کر وہ میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
” ہمارے تسلط سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میرا اور تمہارا تسلط یا کسی اور کا؟ “
” نہیں میرا اور تمہارا نہیں میرا مطلب ہے اسرائیل کا“
”ٹھیک ہے تم جیسے کہو گی میں تمہاری مدد کروں گی اور مجھ سے جو ہوسکے گا وہ کروں گی“....
 ” ہوں .... میں چاہتی ہوں کہ انڈیا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہوجائیں اور ایران کے ساتھ بگڑ جائیں“۔ یہ سن کر مجھے حیرانی ہوئی اور میں خود پر قابو نہ رکھ سکی اور بے ساختہ میرے منہہ سے نکل گیا، ” لیکن انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں خرابی تو تمہارے حق میں ہوگی“ .... ” نہیں جان، تم بہت ذہین ہو، چالاک ہواور بہادر بھی ہو لیکن ہمارے ربیوں کی سیاست تک پہنچنا تمہارے بس سے باہر ہے، بس تم یہ کرو کہ امریکہ نے بلوچستان میں جنداللہ نامی تنظیم بنائی ہے جس کا مقصد ایران میں تخریب کاری تھا لیکن امریکہ اس تنظیم سے کام لینے میں ناکام رہا ہے۔ میں چاہتی ہوں تم اس تنظیم کو فعال کرو اور ایران میں تخریب کاری کے اقدام کرو اور بھارت ہمیں خود جانا ہوگا وہاں میں را کے چیف سے بات کروں گی کہ آہستہ آہستہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لائیں اور پھر دوستی بڑھائیں“۔ اس کے بعد ہم کافی دیر تک مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتی رہیں تقریباً آدھی رات کے وقت ہم سونے کے لئے اپنے اپنے بیڈ روم میں چلی گئیں، میں بیڈ پر لیٹ تو گئی لیکن میری آنکھوں سے نیند غائب ہوچکی تھی میں اسرائیل کی سازشوں پر غور کررہی تھی کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے وہ کیوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری چاہتا ہے لیکن کافی دیر غور کے بعد بھی میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور آخر کار تنگ آکر ذہن سے سب کچھ جھٹک کرکروٹ بدلی اورسوچنے لگی کہ اب تک کی کارگزاری کی رپورٹ جنرل اکبر کو دے دینی چاہئے کیونکہ میرے پاس بہت اہم معلومات تھیں یہ سوچ کر میں بستر سے اٹھ کر باہر نکلی، سونیا کے کمرے میں نائٹ بلب کی سبز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں پنجوں کے بل چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی کہ ایک جوان نے آکر پوچھا کہ میں کہاں جارہی ہوں، میں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ مجھے رپورٹ دینی ہے تو وہ مجھے لے سٹور میں لے گیا، میں نے دیکھا کہ وہ کمرہ سانڈ پروف تھا اور وہاں بات کرتے ہوئے یہ خوف نہیں تھا کہ کوئی بات سن لے گا، اس نے وہاں ایک الماری کھولی اس میں ایک ٹرانسمیٹر رکھا تھا، اس کے اشارے پر میں نے اس ٹرانسمیٹر پر جنرل اکبر سے رابطہ کرکے ان کو پوری رپورٹ دی، رپورٹ سن کر انہوں نے مجھے بہت محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ میر زندگی وطن کے لئے بہت اہم ہے لہذا جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہ کروں بلکہ اپنی زندگی کی حفاظت یہ سوچ کر کروں کہ مجھے وطن کے بہت سے فرائض ادا کرنے ہیں، میں نے جنرل اکبر کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کریں میں اپنے وطن کے دشمنوں کو مارنے سے پہلے نہیں مروں گی اور پھر رابطہ منقطع کرکے واپس اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی۔ ابھی مجھے لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایسا محسوس ہوا گویا کوئی پنجوں کے بل چل رہا ہے، میں نے سانس روک لی اور کروٹ بدل کر بیڈ سے نیچے آگئی، پھر رینگتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی، پھر دروازہ کھول کر باہر نکلی مجھے باہر ہی سے آواز آئی تھی، لیکن اب وہاں مکمل خاموشی تھی، میں نے رینگتے ہوئے سونیا کی کمرے کی جانب بڑھی، وہاں پہنچ کر دیکھا اس کا دروازہ کھلا تھا، اندر سے سرگوشیوں میں کوئی پوچھ رہا تھا : ”تم یہاں کیوں آئی ہو؟“ پھر جواب دیا گیا، ” وہاں حملہ ہوگیا تھا اور پھر یہاں مجھے پہاڑوں کی بیٹی لے کر آئی ہے،“ پھر سوال ہوا، ” یہ پہاڑوں کی بیٹی کون ہے؟ تم اس کو جانتی ہو؟“ اس پر سونیا کی آواز آئی، ” ہاں وہ ہمارے ایجنٹ شہباز خان کی بھتیجی ہے، اور شہباز خان ہمارا قابل اعتماد ایجنٹ ہے۔“ اس پر دوسری آواز ابھری، ” اس سے کہو کہ شہباز خان سے بات کرائے....وہ کبھی نہیں کرئے گی کیونکہ شہباز خان مارا گیا ہے،“ دوسری آواز ابھری، ”کیییا“ یہ سونیا کی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز تھی، ”ہاں تم دیکھو وہ کیا جواب دیتی ہے اگر وہ تمہاری وفادار ہے تو سچ بتائے گی اور اگر ٹالنے کی کوشش کرے تو سمجھ لینا کہ وہ دشمن ہے،“ یہ سن کر میں خاموشی سے اپنے کمرے میں لوٹ آئی اور بھر تھوڑی دیر بعد میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور سونیا دبے پاں اندر داخل ہوئی اور آکر مجھے ہلاتے ہوئے دبے دبے لہجے میں آواز دینے لگی، میں نے سونے کی اداکاری کرتے ہوئے اوں.... آں کرکے کروٹ بدلنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے ہلاتے ہوئے آواز دی، میں نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا، کہ اس وقت کیاہوا جو وہ مجھے سونے بھی نہیں دیتی، اس نے اطمینان سے کہا کہ ہم آپریشن میں ہیں اور ایسے وقت سونا مناسب نہیں تم مجھے شہباز خان سے بات کرا، یہ سن کر میں نے بلا جھجک کہا ، ” کیا .... کیا تم نہیں جانتیں کہ شہباز خان مارا گیا ہے اور مجھے چچا کے دشمنوں کی تلاش ہے میں انہیں کتے کی موت ماروں گی، میرے والد اور والدہ کے بعد چچا نے مجھے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا تھا لیکن معلوم نہیں کس درندے نے ان کو جانوروں کی طرح بے دردی سے مار دیا،“ ۔ میری بات سن کر سونیا نے اطمینان کی سانس لی اور پھر مجھے سونے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں اس دروازے کی جانب گھورتی رہی جس سے وہ نکل کر گئی تھی۔

.نیند تو پہلے بھی آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی، اوراب سونیا نے جو سوال کئے اور اس سے قبل میں جو اپنے کانوں سے سن چکی تھی اس بنا پر پریشان ہورہی تھی کہ آخر وہ کون تھا جس نے آکر سونیا سے سرگوشیاں کی تھیں۔ مجھے اس کے بارے میں معلوم ہونا ضروری تھا، اسی شش وپنج میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ جو بھی شخص یہاں آیا تھا وہ اگر ہمارے نگرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم تک پہنچا تھا تو یہ تشویش ناک بات تھی جس پر جنرل اکبر سے بات کرنا لازم تھا کیونکہ یہ تو ہمارے لئے بہت خطرناک تھا یہ سوچ کر میں اٹھ کر سٹور میں آئی اور پھر وہاں موجود کارکن سے ٹرانسمیٹر لے کر ایک بارپھر جنرل اکبر سے بات کی اور پھر یہ جان کر مطمئن ہوگئی کہ اس اجنبی کے آنے سے نہ صرف ہمارے نگران آگاہ تھے بلکہ واپسی پر اس کاتعاقب کرکے اس کی رہائش گاہ تک بھی جا پہنچے تھے، اصل میں جب محافظوں نے وہاں کچھ افراد کو چوری چھپے آتے دیکھا تو اپنے انچارج کو بتاکر ہدایات لیں تو انہیں یہی ہدایت دی گئی تھی کہ اگر وہ صرف سونیاسے رابطہ کرتاہے تو ٹھیک ہے پھرواپسی پر اس کا تعاقب کیا جائے اوراگروہ میرے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھاتاہے تو اس کو گولی ماردی جائے، یہ سن کر مجھے تسلی ہوئی کہ ہمار وطن کے محافظ ہرلمحہ چوکنا رہتے ہیں۔ مطمئن ہوکر میں اپنے بیڈ روم میں آئی اور سکون کے ساتھ لیٹ گئی جب ذہن مطمئن ہوا تو لیٹتے ہی نیند بھی آگئی ۔
صبح جب میں سو کراٹھی تو اس وقت تک سونیا بھی نہ صرف اٹھ چکی تھی، بلکہ غسل لے کر لباس بھی تبدیل کرچکی تھی، اس نے پنک رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور اس لباس میں وہ بہت ہی سیکسی نظر آرہی تھی، اس کاگورا رنگ پنک یا پیازی رنگ پر قیامت ڈھا رہا تھا، میں نے مسکراتے ہوئے اس کو دیکھ کرکہا کہ سونیا تم تو قیامت ہویار اگرمیں مرد ہوتی تو یقین کرو تم پرہزار جان سے عاشق ہوجاتی، میری بات سن کر اس نے لاپرواہی سے کہا کہ جانم ایسے جملے میں اکثر مردوں سے سنتی آئی تھی لیکن ایک لڑکی کے منہ سے آج پہلی مرتبہ سن رہی ہوں، ویسے پھر کیاخیال ہے اگر تم چاہوتو محبت کرسکتی ہو میں بھی بھرپور انداز میں تمہارا ساتھ دوں گی اور ایسی لذت دوں گی جو کوئی مرد بھی تم کونہیں دے سکتا، میں نے سنا تھا کہ اسرائیل میں یہودی نوجوان لڑکیاں خود لذتی اور جنسی لحاظ سے ہم جنس پرستی میں مبتلا ہیں اور ایسا انہیں ان کے ربی اس خیال سے کرتے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کو جنسی جذبات میں مبتلا کرکے دشمن ان سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں اس لئے اس خدشے کی روک تھام کے لئے یہ کیاگیا کہ لڑکیوں کو مردوں سے دور رکھتے ہوئے ہم جنس پرستی کا شکار بنا دیا،بہرحال سونیا کے منہ سے یہ بات سن کرمجھے شرم تو بہت آئی لیکن میں نے سکون سے کہا کہ سونیا اپنے شہوانی جذبات پر قابو پانا سیکھو یہ ہمیں کسی بھی پل مروانے باعث بن سکتے ہیں، مجھے ایسے کاموں سے کوئی غرض نہیں نہ ہی میرے اندر اس قسم کے کوئی جذبات ہیں، تم جانتی نہیں کہ میں شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ابھی تک کنواری ہوں۔ ”کیا مطلب“ سونیا نے حیرت سے پوچھا۔ میں ٹھوس لہجے میں جواب دیا کہ ہاں یہ سچ ہے کہ میری شادی ہوئی تھی لیکن میں نے اپنے شوہر کو اپنے قریب نہیں آنے دیا اور اس کی تربیت مجھے میرے چچا نے دی تھی کیونکہ ان کا ارادہ اپنے بعد کام سنبھالنے کے لئے مجھے تیارکرنا تھا اس لئے وہ چاہتے تھے کہ میں کسی بھی ایسی کمزوری کا شکارنہ ہوں جس سے دشمن مجھ پرحاوی ہوسکیں۔ اس لئے انہوں نے مجھے یہ کہہ کر کہ میرا امتحان ہے، میری شادی ایک خاندانی غلام سے کردی تھی، اور وہ کئی ماہ میرا شوہر رہا اور پھر میرے روئیے سے مایوس ہوکر مجھے طلاق دے دیا۔ سونیا میری باتیں حیرت سے سن رہی تھی۔ اچانک وہ بولی کہ اس کو اب آپریشن شروع کرنے کا حکم ملا ہے اس لئے اب ہمیں فعال ہونا چاہئے، میں نے پوچھا کہ کون سا مشن تو اس نے جواب دیا کہ چند روز بعد محرم کا مہینہ شروع ہونے والا ہے ہمیں اس ماہ میں یہاں ایسا فرقہ وارانہ فساد کرانا ہے کہ یہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر مرجائیں، میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ فکر نہ کرے سب کچھ ہوجائے گا پھر میں نے سونیا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ سونیا آخر تم یہاں فرقہ وارانہ فساد ہی کیوں چاہتی ہو اگر پوری قوم کو یا اس ملک کو ہی تباہ کرنا مقصد ہے تو دہشت گردی کی جو لہر چل رہی ہے وہی کافی ہے، اس پر سونیا نے جواب دیا کہ نہیں ہمیں اس ملک کو تباہ نہیں کرنا بس صرف بلوچستان اور گوادر پر قبضہ کرنا ہے ، یہ سن کر میں نے کہا اس سے کیا ہوگا اسرائیل کی پاکستان سے سرحد تو ملتی نہیں، یہ سن کر سونیا نے ہلکا سا قہقہ لگاتے ہوئے کہا تم لوگ ہمارے ربیوں کی سیاست تک نہیں پہنچ سکتے وہ بہت آگے کی سوچتے ہیں، میں نے حیرت سے ربیوں کی سوچ اور منصوبہ سازی کی تہریف کرتے ہوئے کہا، پلیز میں ربیوں کی یہ منصوبہ سازی نہیں سمجھی کہ آخر اس سے ان کا یا اسرائیل کا کیا فائدہ ہے، میری بات پر سونیا نے پھر ہلکا سا قہقہ لگایا اور تکبر کے ساتھ بولی ، یہ ہم دی گریٹر اسرائیل کی تیاری کررہے ہیں، دی گریٹر اسرائیل میں عراق، ایران کا کچھ حصہ اور پاکستان کا بلوچستان کا کچھ حصہ اور گوادر شامل ہے، میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا لیکن اس سے کیا ہوگا؟ اس نے پھر غرور سے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ ہمارے جنگی جہازوں کے لئے بہت اہم ہے جبکہ ایران کی عراقی اور ترک سرحد سے ملحقہ علاقہ ہمارے کام کا ہے کیونکہ وہاں پر کرد آباد ہیں اور ہم کردوں سے اپنے لئے کام لیں گے، پاکستانی بلوچستان قدرتی معدنیات اور ذخائر سے بھری ہوئی زمین ہے، پاکستانیوں کو اس کا ہوش نہیں لیکن ہم یہاں سے سونا، پیتل، تانبہ او ردیگر دھاتوں کے ساتھ ساتھ یورینیم بھی حاصل کریں گے، میں نے ایک بار پھر بے وقوف بنتے ہوئے حقارت سے پوچھا کہ انہیں کیسے معلوم ہے کہ یہاں یورینیم کی کچھ مقدار موجود ہے اس پر اس نے پھر قہقہ لگاتے ہوئے کہا، ننھی بچی ہمارے کچھ آدمیوں نے یہاں سونے کی کان کا ٹھیکہ لیاہے وہاں سے ہم سونے کے ساتھ ساتھ یورینیم بھی حاصل کررہے ہیں لیکن وہاں پر یورینیم کی مقدار کم ہے جبکہ اندر کی جانب بہت زیادہ ہے اس لئے ہم یہاں قبضہ کرکے وہ یورینیم حاصل کریں گے۔ میرے اندر ایک طوفان برپا ہوگیا، میں فوری طور پر جنرل اکبر کو رپورٹ دینا چاہتی تھی، میں نے سونیا سے کہا، ”اچھا پھر تم فی لحال آرام کرو میں یہاں اپنے آدمیوں سے مل کرانہیں محرم میں ہنگامے کرنے کے بارے میں منصوبہ بنالوں اس دوران اگر تمہیں کہیں جانا ہو تو تم یہاں ملازمین سے بتا کر جاسکتی ہو تمہیں گاڑی مل جائے گی۔ میر بات سن کر سونیا نے اثبات میں سر ہلادیا اور میں اٹھ کر باہر کی جانب چل دی، جیسے ہی میں مرکزی دروازے کے قریب پہنچی ایک شخص میرے قریب آکر پوچھنے لگا کہ اس کے لئے کیا حکم ہے میں نے اس کو کہا کہ اگر سونیا کہیں جانا چاہے تو ڈرائیور کے ساتھ گاڑی دینا اور اگر وہ ڈرائیور نہ لے تو اس کا تعاقب ہونا ضروری ہے جب تک میں واپس نہ آں اس پر نظر رکھیں، اتنا کہہ کر میں باہر آئی اور پورچ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھی اسی وقت ایک باوردی ڈرائیور نے میرے قریب آکر ادب سے سرجھکاکر پوچھا کہ میں کہیں جانا چاہتی ہوں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے آگے بڑھ کر گاڑی کادروازہ کھول دیا میں اندر بیٹھ گئی اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کرکے آہستہ رفتار کے ساتھ باہر نکالی اور باہر نکلتے ہی پوچھا کہ کہاں جانا ہے میں نے اس کو ہیڈ آفس چلنے کو کہا اور پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں میں دشمنوں کی چالوں پر غور کررہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم دفتر پہنچ گئے اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں جنرل اکبر کے سامنے بیٹھی رپورٹ دے رہی تھی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اب اس شخص پر ہاتھ ڈالنا ضروری ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کسی کو ہدایت دیتے ہوئے مجھے واپس جانے کا اشارہ کردیا میں خاموشی سے اٹھ کر ان کے کمرے سے باہر نکل آئی اور پھر اپنی گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو واپسی کااشارہ کیا میرے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی۔
اپنی رہائش گاہ پرواپس پہنچ کر میں اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگی تو وہاں عجیب سی خاموشی محسوس ہوئی میں اس جانب بڑھی جہاں عمارت کے محافظ ہوتے تھے وہاں کوئی نظر نہیں آیا پھر میں سٹور کی جانب بڑھی وہاں ایک محافظ کو زخمی حالت میں دیکھا میں جلدی سے اس کے قریب پہنچی اور اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہوا اور کس نے کیا،اس نے رک رک کر بولتے ہوئے بتایا کہ کچھ لوگوں نے حملہ کیاتھا وہ سونیا کو ساتھ لے گئے ہیں۔ میں اس کو اٹھا کر باہر گاڑی تک لائی اور ڈرائیور کو ہدایت دی کہ اس کو ہسپتال لے جاکر پھر جنرل اکبر کو خبر دے، پھر میں اندر اپنے کمرے میں گئی وہاں میں نے میز پر ایک تحریر دیکھی جو سونیا کی تھی اس میں میرے لئے ہدایت تھی کہ میں فوری طور پر نیچے تحریر کردہ ایڈریس پر پہنچ جاں، میں نے سٹور میں جاکر پہلے جنرل اکبر کو رپورٹ دی پھر ان کے کہنے پر رابطہ کاٹ کروہیں ان کی ہدایت کا انتظار کرنے لگی تقریباً آدھے گھنٹے بعد سگنل موصول ہوا میں نے ٹرانس میٹر آن کیا تو جنرل اکبر نے ہدایت دی کہ میں لکھے ہوئے پتہ پر چلی جاں میری حفاٰظت کا انتظام کردیاہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ موقع ملتے ہی سونیا کو ختم کردوں۔ یہ سن کر میں باہر نکلی اور سڑک پر آکر ایک ٹیکسی کے ذریعے بتائے ہوئے ایڈریس پر روانہ ہوگئی۔
وہاں پہنچ کر میں اس لحاظ سے مطمئن تھی کہ میری حفاظت کا انتظام کیا جاچکا ہے یہ سوچتے ہوئے میں بے فکری سے عمارت کے اندر چلی گئی لیکن جیسے ہی اندر داخل ہوئی ایک گولی میری کنپٹی کے انتہائی قریب سے گزر گئی میں فوری طور پر زمین پر لیٹ گئی اور اپنا موذر ہاتھ میں لے لیا لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ میں کافی دیر منتظر رہی اسی انتظار میں تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا لیکن جب دوسری جانب مکمل خاموشی رہی تو میں اٹھ کر عمارت کے اندر گئی وہاں ہر طرف لاشیں اور خون بکھرا ہوا تھا پھر ایک جگہ میں سونیا کی لاش دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ ہماراتو سارا پروگرام اس پر ہی منحصر تھا اور وہی ماری گئی تھی تو اب ہم پھر سے مکمل اندھیرے میں تھے میں نے فوری طور پر جنرل کو کال کرکے حالات بتائے انہوں نے مجھے فوری طور پر اپنے دفتر آنے کی ہدایت دی اور میں اس عمارت سے باہر نکل گئی۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد میں جنرل صاحب کے سامنے بیٹھی تھی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ سوچ میں کھوئے ہوئے تھے میں حیران تھی کہ جس کسی نے بھی یہ واردات کی ہے اس کو میرے بارے میں یقیناًٰ علم ہوگیا تھا کہ میں کون ہوں تبھی اس نے سونیاکو بھی مارڈالا تاکہ ثبوت ہی نہ رہے اس خاموشی کو جنرل صاحب نے توڑا اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی، ”بیٹی تمہیں ایک خطرہ مول لینا ہوگا“ میں نے پوچھا کہ کیا آپ حکم کریں میں اپنے وطن کی خاطر ہر خطرہ مول لینے کو تیارہوں“ میری بات سن کر انہوں نے پسندیدگی کے انداز میں سر ہلایا اور بولے کہ ان کے آدمیوں کو وہاں تلاشی کے دوران سونیا کے پاس سے ایک ٹرانسمیٹر ملا ہے تم اس پر اسرائیل کال کرو وہ کال یقیناً وائی سی کے ہیڈ کوارٹر میں ملے گی تم ان کو سارے حالات بتاکے سارا الزام سونیا پر ڈال دو کہ اس نے تمہاری بات نہیں مانی اور ماری گئی پھر تم اپنے لئے ہدایات مانگو کہ اب تم آزاد ہو یا ابھی انکے لئے مزید کام کرنا ہے۔میری رضامندی پر انہوں نے انٹرکام پر کسی کو ہدایت دی اور تھوڑی دیر میں ایک جوان ایک ٹرانسمیٹر ہاتھ میں لے کر آیا، جنرل صاحب نے وہ میرے حوالے کردیا میں کئی بار سونیا کو استعمال کرتے دیکھ چکی تھی اس لئے فوری طور پر رابطہ ملایا جیسے ہی رابطہ ملا دوسری جانب سے حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی، ”تھری وائی سی تم کہاں ہو ہم کب سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟“‘ میں نے ادب سے جواب دیا ” میڈم میں تھری وائی سی نہیں ان کی اسسٹنٹ پہاڑوں کی بیٹی بول رہی ہوں آپ کے ساتھی شہباز خان کی بھتیجی، میڈم سونیا کو کسی نے مار دیا ہے اب مجھے آپ سے احکام چاہئیں کہ میں آزاد ہوں یا ابھی آپ کے لئے کام کروں گی،“ دوسری جانب کچھ دیر خاموشی رہی پھر مجھے انتظار کرنے کا حکم دیا اور چند منٹ رسیور پر ہوا کی سائیں سائیں سنائی دیتی رہی پھر آواز آنا شروع ہوئی وہ مجھے اسرائیل بلارہی تھی، میں سمجھ گئی کہ اب یا تو میں نہیں بچوں گی یا پھر وائی سی کا کام تمام کرکے آںگی میں نے کہا کہ میرے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اس پر اسرائیل درج نہیں ہے اس لئے میں یہاں سے ایران کے راستے ترکی جاں گی پھر اردن کے راستے اسرائیل میں داخل ہوں گی آپ اردن کی سرحد پر اپنے جوانوں کو حکم دیں کہ کسی جوان لڑکی کو پکڑیں تو عزت کے ساتھ آپ تک پہنچادی“۔ میری بات پر انہوں نے اوکے کہا اور ٹرانسمیٹر بند کردیا ابھی میں اس پر حیران ہورہی تھی کہ میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا ٹرانسمیٹر بھی گرم ہونے لگا میں نے جلدی سے زمین پر پھینک دیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بھک سے آگ کی لپیٹ میں آگیا، یہ دیکھ کر جنرل صاحب بولے انہوں نے اپنے خلاف تمام ثبوت مٹانے شروع کردئیے ہیں، اب تم کیا کروگی، میں نے کہا ”سر میں ڈرتی نہیں میں اسرائیل جاں گی اور انہیں ایسا سبق دوں گی کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا وہ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ ذہین ہیں ارے جنرل صاحب آپ تو جنرل ہیں اور میں ایک فائٹر ہوں ہمارا تو اردلی بھی ان کی ایک ایک چال کو اچھی طرح سمجھتا ہے، میں کل ہی روانہ ہوجاں گی، میری بات سن کر جنرل صاحب نے کہا کہ وہ ایک بیگ تیار کرکے میری رہائش پر بھیج دیں گے اس میں میری ضرورت کی ہر چیز ہوگی میں اس بیگ کو ساتھ لے جاں میں اچھا کہہ کروہاں سے اٹھی اور باہر آکر ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر اس کو اپنے گھر کا پتہ بتایا اور خود سوچ میں ڈوب گئی،اچانک میں چونکی ٹیکسی میرے گھر کی جانب تو نہیں جارہی تھی میں نے ڈرائیور کے شانے ہلانے چاہے تو معلوم ہوا کہ میرے اور اس کے درمیان شیشے کی ایک دیوار آچکی ہے میں نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور پھر آہستہ آہستہ میں ہوش سے بے گانہ ہوکر سیٹ پر ہی ایک جانب لڑھک گئی۔
***************
(جاری ہے )


Click here to read online 
or
download PDF file 


No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.