***Hud Hud ( Valentine Day Special)




ہد ہد(14 فروری اسپیشل)
تحریر:سحر اسامہ۔


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ جنوری کا اختتام چل رہا تھا اسلام آباد کا موسم ابھی کچھ سرد ہی تھا ہاں دسمبر کے دنوں جیسی جسم کو یکلخت سرد کردینے والی ہوائیں اب مفقود تھیں ۔۔آج پچیس جنوری تھی اور ہر ماہ کہ طرح اس ماہ کے آخر میں بھی شہر کے مشہور ترین ہوٹل کے میٹنگ روم میں ہوٹل کے مینیجر اور ورکرز میٹنگ کیلئے اکھٹا ہوئے تھے ۔ میٹنگ کا مقصد اگلے ماہ میں آنے والے ایک خاص دن کیلئے خاص تیاری کو پلان کرنا تھا ۔ 
میٹنگ روم میں تمام مینیجمینٹ سے منسلک افراد اور تمام ورکرز موجود ہیں ہر ایک اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھا ہے اور سربراہی کرسی پر ہوٹل کے مینیجر بدر الدین صاحب بیٹھے ہیں ۔ بدر صاحب اپنے  سیکرٹری کے ہاتھ میں پکڑے ٹیبلیٹ پر یوم خاص کے حوالے سے کچھ تصاویر دیکھ رہے ہیں جو ابھی کچھ وقت پہلے ہی ان کے ڈیزائننگ مینیجر کی طرف سے انہیں بھیجی گئی ہیں۔ 
تصاویر دیکھ کر سیکرٹری کو ہاتھ کے اشارے سے ٹیبلیٹ پیچھے ہٹانے کا اشارہ کرتے اب وہ لوگوں سے مخاطب ہورہے ہیں۔
"ابھی چودہ فروری میں تقریباً انیس دن باقی ہیں لیکن ہمیں اپنی مکمل تیاری دس فروری تک کرلینی چاہیے ۔ ہر ایک کو اسکا کام اسکی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھا دی گئیں ہیں ۔ اسجد نے ڈیکوریشن ڈیزائنز بھیج دئے ہیں مجھے یہی ڈیزائنز سب سے اچھے اور ڈفرینٹ بھی لگے ہیں سو میں تو مصروف ہوجاونگا اب لیکن فرحان اگلے پندرہ دنوں تک آپ لوگوں کے ساتھ کام کریگا ۔ ایک بار پھر سب اچھی طرح سن لیں۔ باہر پارکنگ ایریا سے لیکر اوپر چھت تک گیارہ یا بارہ فروری کو مکمل طور پر ریڈ اینڈ وائٹ کلرز سے سجا دیں ۔ گراؤنڈ فلور ، ہال ، ریسیپشن ، کیفے ٹیریا ، ٹیرس کوئی جگہ ایسی نہ رہ جائے جہاں ویلنٹائن ڈے نظر نہ آتا ہو اور رومز پر صرف وہی لوگ کام کریں گے جن کی زمہ داری رومز کی لگائی گئی ہے ۔ یہ تمام کام دس فروری تک ہوجانا چاہئیں تاکہ گیارہ سے لیکر تیرہ تک تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے ہوٹل کی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ہوٹل کی پروموشن کی جاسکے اور لوگوں کو پتہ چل سکے کہ یہاں انکا ویلنٹائن ڈے کتنا منفرد اور یادگار ہوسکتا ہے ۔ ہر طرح سے اس دن کو بہت عمدہ طریقے سے ایڈورٹائز کرنا ہے چاہے اس سب کیلئے کتنی ہی محنت بھی کرنا پڑے اور کتنا ہی پیسہ خرچ کرنا پڑے  کیونکہ اس کے بعد ہم لوگوں سے ہی وہ پیسہ ہر چیز کی قیمت بڑھا کر سود کے ساتھ حاصل کرنے والے ہیں۔ کوئی سوال یا کوئی کنفیوژن " بدر الدین صاحب نے اپنی بات مکمل کرکے ایک طائرانہ نگاہ کمرے میں بیٹھے افراد پر ڈالی۔
کوئی سوال یا مسئلہ لوگوں کی طرف سے اٹھتا نہ دیکھ کر اب وہ اپنی سربراہی کرسی سے اٹھ چکے ہیں ۔ ان کے دروازے سے باہر نکلتے ہی جہاں سب باتوں اور پلاننگ میں مصروف ہوگئے تھے وہیں ایک شخص فورا اپنی کرسی سے اٹھ کر باہر کہ طرف لپکا ہے ۔
تیز قدموں سے چلتے وہ بمشکل ہی بدر الدین کے قریب پہنچ پایا تھا ۔ 
"سر مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے کیا آپ مجھے صرف دس منٹ دے سکتے ہیں ؟ " وہ ان کے قدموں سے بمشکل قدم ملا کر جلدی سے بولا ۔
"اوکے آفس میں آؤ* لیکن صرف دس منٹ ۔ مجھے نکلنا ہے زیادہ ٹائم نہیں ہے میرے پاس " وہ ہوٹل کے مینیجر تھے اس لحاظ سے وہ صرف ان لوگوں سے ہی بات کرتے تھے جو یہاں ہوٹل کے کسی نہ کسی عہدے پر تھا یا کسی شعبہ کا مینیجر تھا اور انکا اس آنے والے لڑکے کو آفس آنے کی اجازت دینا اس بات کا ثبوت تھا کہ آنے والا کسی شعبہ کا مینیجر ہے ۔
"یس سر " عمر نے فورا سے ہامی بھری۔
وہ آفس تک پہنچ چکے تھے ۔ بدر صاحب اپنی کرسی پر جبکہ عمر انکے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔
"ہاں بولو عمر کیا کوئی مسئلہ ہے ایڈورٹائزنگ میں " انہوں نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے عمر سے ہوچھا۔
"نہیں سر ایڈورٹائزنگ میں بھلا کیا مسئلہ ہوگا ۔ اصل میں میں یہ کہنے آیا تھا سر کہ اس فضول دن کیلئے آپ اتنا پیشہ کیوں خرچ کررہے ہیں ۔ آئی مین ایک دن کیلئے اتنی محنت اتنا پیسہ اور اتنی سجاوٹ ۔ بھلا ضرورت کیا ہے اس کی " وہ بہت سوچ سمجھ کر بول رہا تھا جانتا تھا ذرا بھی الفاظ کی اونچ نیچ یا سختی اسکی بات کہ ساری مٹھاس اور مقصد کو ختم کردیگی۔
"کیا مطلب عمر ۔ ایک خاص دن ہے پوری دنیا اس دن کو مناتی ہے اور اب تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ دن بہت مقبولیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ نوجوان نسل کو سارا سال اس دن کا انتظار رہتا ہے سارے ہی ریسٹورانٹ، پارکس ، کلبز اور ہوٹل اس کیلیے نئے سرے سے سجائے جاتے ہیں ۔ ہم خود بھی ہر سال اس کیلئے یہ ساری تیاریاں کرتے ہیں تو اس سال کیوں نہیں " وہ اسکی بات پر کچھ جھنجھلا گئے تھے گویا اس کی ساری بات ہی انہیں ناگوار لگی ہو ۔
"جی بلکل سر آپ ہر سال اس دن کیلئے تیاریاں کرتے ہوں گے لیکن میرا یہاں پہلا سال ہے اسی لئے میں آپکو یہ کہنے آیا ہوں کہ اس دن کیلئے اس سب اہتمام کی کیا ضرورت ہے ؟" اسے اب بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرح اپنی بات من و عن باس کے سامنے رکھے کہ بات سمجھ بھی آجائے اور ناگوار بھی نہ لگے ۔
"کیا کہنا چاہتے ہو عمر ۔ بات کو وضاحت کے ساتھ پیش کرو تاکہ سمجھ بھی آجائے اور وقت بھی ضائع نہ ہو " مینیجر صاحب کو اپنے وقت کی فکر تھی جبکہ اس کے برعکس عمر کو اس دن کیلئے ہونے والے اہتمام اور انتظام کو روکنے کی فکر تھی۔
"سر یہ دن جس کو ہم اتنے شاندار طریقے سے منانے کیلئے یہ سب سجاوٹ کررہے ہیں یہ اصل میں ایک بے حیائ کے فروغ کا دن ہے ۔ اس دن میں ہم مسلمان ہوکر بھی ہر طرح کی بے حیائی میں خود بھی پھنس جاتے ہیں اور دوسرے کیلئے بھی ذرائع مہیا کردیتے ہیں۔ میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں سر کہ ہم اس بے حیائی کے عالمی دن کو اتنی اہمیت بھی کیوں دے رہے ہیں کہ اس کیلئے اپنے ہوٹل کو نئے سرے سے سجایا جائے ۔ اس طرح کرکے میں اور آپ اس برائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو اس دن لڑکے اور لڑکیاں شیطان کے جھانسے میں آکر پھیلاتے ہیں ۔" عمر ہاتھ پھیلا کر اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ وہ ذرا رکا تو اس کے رکتے ہی بدر صاحب بول اٹھے ۔
"دیکھو عمر یہ سب باتیں بہت دقیانوسی ہیں ۔ یہ زمانہ محبتوں کا زمانہ ہے لڑکے اور لڑکیاں آپس میں محبت کرتے ہیں اور اس کے اظہار کیلئے یہ ایک دن ان کیلئے بہت معنی رکھتا ہے ۔ ہمارے ہوٹل کو سجانے نا سجانے سے کونسا وہ یہ دن نہیں منائیں گے ۔ ہم نہیں تو کوئی اور ہوگا جو انہیں یہ سب مہیا کریگا اور ایسا کرکے ہم اپنا ہی نقصان کریں گے کتنا پیسہ اپنے ہاتھوں سے چھوٹ جائیگا اس طرح ۔ " وہ اپنی بات پر قائم تھے ۔
"سر آپکی بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ہوٹل کے نہ ہونے سے وہ لوگ رک تو نہیں جائیں گے لیکن سر کم از کم ہم تو اس برائی کا حصہ دار بننے سے محفوظ ہو جائیں گے نا ۔ ہم چند لوگ سارے معاشرے میں پھیلی گند نہیں صاف کرسکتے  لیکن اپنے ارد گرد کی گندگی کا صفایا تو کرہی سکتے ہیں۔ " عمر انہیں قائل کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ خود اس برائی میں حصہ نہیں ڈال سکتا تھا ۔
"عمر تمہارا ٹائم ختم ہوگیا ہے تم جاسکتے ہو اور تمام کام اچھے انداز میں ہوجانا چاہئیں" انہیں عمر کے لہجے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹنے والا اسی لئے بات کو یہیں ختم کرنا مناسب سمجھا۔
"پلیز سر میری بات کو سمجھئے " وہ کرسی پر بیٹھا آگے ہوتے ہوئے بولا ۔
"عمر یہ سب ہمیشہ سے یہاں ہوتا رہا ہے تم نہیں روک سکتے اور ویسے بھی تم دیندار ہو تمہارے نزدیک یہ غلط ہے میرے نزدیک نہیں۔ یہ محبت کرنے والوں کا حق ہے کہ ایک دن وہ اپنی محبت کو اس طرح کھل کر مناسکیں ۔ اسی لئے براہ مہربانی تم اپنا وقت ضائع نہیں کرو اور جاکر کام شروع کرو " بدر صاحب کے لہجے میں اب کی بار سختی کا عنصر نمایاں تھا ۔
"سوری سر آپ کے نزدیک یہ محبت کرنے والوں کا حق ہوگا لیکن میرے نزدیک یہ سراسر بے حیائ کے فروغ کا عالمی یوم بے حیا ہے اور اسکی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ اس دن جو محبتیں عالمی سطح پر منائی جاتی ہیں وہ کوئی جائز محبتیں نہیں ہوتیں ۔ یہ دن صرف اور صرف ناجائز محبتوں کا دن ہے کیونکہ سچی اور جائز محبتیں کسی ایک دن کی محتاج نہیں ہوا کرتیں ۔ باقی اگر آپ نے پھر بھی اس یوم بے حیا میں اپنا حصہ ڈالنا ہی ہے تو اسکی تشہیر کیلئے کوئی اور بندہ ہائر کرلیں کیونکہ میں یہ کام نہ خود کروں گا نا اس کام کو لیڈ کروں گا ۔ میرا ایمان مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ " اگر بدر صاحب کا لہجہ دو ٹوک تھا تو عمر کا لہجہ بھی اپنی بات پر ڈٹے رہنے والا تھا ۔ وہ کرسی سے اٹھ کر اب میز کے سامنے کھڑا تھا ۔
"میں اتنے کم دنوں کیلئے کس کو اور کیسے ہائر کرونگا مسٹر عمر ۔"   جبڑوں کو کھینچے بدر صاحب اب غصہ میں لگ رہے تھے ۔
"سر یہ میرا مسئلہ نہیں ہے جیسے آپ میری بات نہیں مان سکتے میں آپ کی نہیں مان سکتا سوری " حق باطل کے سامنے نہ نظریں چراتا ہے نہ سر جھکاتا ہے عمر بھی حق پر تھا نہ نظر چرائی نہ سر جھکایا۔
"مسٹر یہاں باس میں ہوں تم نہیں ۔ حکم میں دے سکتا ہو تم نہیں ۔ اگر تمہیں یہ کام نہیں کرنا اور مجھے اس کیلئے کسی اور کو ہی ہائر کرنا ہے  ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو ہمیشہ کیلئے ۔ تمہیں اپنا ایمان اور حیا مبارک اور مجھے میرا کام میرا ہوٹل ۔ 
You may leave now"
بدر صاحب اپنی بات کہہ کر اس کے جانے سے پہلے خود ہی اٹھ کر جاچکے تھے اب کمرے میں وہ تھا اسکا ایمان تھا اور اسکا خدا تھا ۔ ایک پل صرف ایک پل لگا تھا اسے سوچنے میں اور اگلے ہی پل اسکا ہاتھ اپنی گردن تک گیا جہاں اس نے ہوٹل انتظامیہ کا کارڈ گلے میں ڈالا ہوا تھا اسے گردن سے باہر نکالا ۔ میز پر رکھا اور باہر نکلتا چلا گیا ۔ 
وہ بہت کچھ چھوڑ آیا تھا اور بدلے میں اپنا ایمان بچا لایا تھا ۔
        ++++++++++++++++++++++++++++++

اسے جاب چھوڑے آج چوتھا روز تھا ابھی اس نے گھر پر اپنی جاب کے چھوٹ جانے کا ذکر نہیں کیا تھا وہ چار دنوں سے روز اپنے معمول کے وقت پر گھر سے نکل جاتا اور ویکنسی کی معلومات لینے کیلئے کبھی کہیں کبھی کہیں پھرتا رہتا  ۔ گھر پہنچنے کے وقت سے کچھ دیر پہلے گھر سے قریب ہی ایک پارک میں آ بیٹھتا ۔ ابھی بھی وہ اسی پارک میں اسی جگہ بیٹھا کسی غیر مرئی شے کو تک رہا تھا جب کل سنی جانے والی  آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
" ہیلو " یہ نقاش تھا جس سے اس کی ملاقات کل اسی پارک میں ہوئی تھی لیکن صرف سلام دعا کی حد تک ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ لڑکا آج پھر یہاں چلا آئیگا ۔
"السلام علیکم " عمر نے مسکرا کر اس کے سامنے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا ۔
"وعلیکم السلام سوری آج پھر ہیلو کہہ دیا ۔ سلام کرنا بھول گیا " وہ شرمندگی سے کہہ رہا تھا ۔
"کوئی بات نہیں  ۔ " وہ آج پھر پچھلے کچھ دنوں کی طرح ڈپریسڈ تھا اسی لئے چند جملے کہہ کر خاموش ہوگیا ۔
"میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ۔ ایک بہن بڑی ہیں ایک چھوٹی باقی بھائی نہ بڑا نہ چھوٹا ۔ صبح سویرے اٹھ کر جاگنگ کرنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ صبح آفس ٹائمنگ سے پہلے اٹھنے کی عادت نہیں اسی لئے اس وقت جاب کی آف ٹائمنگ کے بعد یہاں پارک میں واک کرلیتا ہوں اور پھر گھر جاتا ہوں " وہ خود ہی بول رہا تھا ورنہ عمر تو اس وقت اتنا بوجھل ہوچکا تھا کہ نہ کسی اور سے اسکے احوال پوچھ رہا تھا نہ اپنے احوال بتا پارہا تھا ۔ کچھ دیر رکنے کے بعد نقاش دوبارہ گویا ہوا۔
"کل آپکو یہاں بیٹھے دیکھا سلام دعا کی تو مجھے پتہ نہیں کیوں بڑے بھائی کے ہونے کا احساس ہوا اسی لئے آج دوبارہ آپکے پاس چلا آیا ۔ آمید ہے آپکو برا تو نہیں لگا ہوگا " اب وہ مکمل طور پر عمر کی طرف رخ کرچکا تھا اور اسے دیکھ کر سوال کررہا تھا ۔
"نہیں مجھے بالکل برا نہیں لگا ۔ تم جب چاہو میرے پاس یہاں آسکتے ہو پتہ نہیں کب تک مجھے یہاں اس طرح بیٹھا پاؤ گے " آخری الفاظ عمر نے قدرے آہستہ آواز میں کہے تھے لیکن نقاش کی مکمل توجہ چونکہ اس پر ہی تھی اسی لئے وہ یہ جملے بھی اچھی طرح سن چکا تھا ۔
"ہاں میں نے آپکو پہلے کبھی نہیں دیکھا یہاں جب کہ میں تو بہت پہلے سے اسی پارک میں واک کیلئے آتا ہوں ۔ آپ کیا نئے آئے ہیں ادھر " نقاش کو یا زیادہ بولنے کی عادت تھی یا شاید وہ ہر کسی کو باتوں سے دوست بنانے کی فلاسفی پر یقین رکھتا تھا ۔
"نہیں نیا تو نہیں ہوں کچھ فاصلے پر ہی میرا گھر ہے اور بہت پرانا رہائشی ہوں یہاں کا لیکن ہاں اس پارک میں نیا ضرور ہوں ۔ " وہ کھوئے کھوئے لہجہ میں بول رہا تھا ۔
"عمر بھائی آپ کھوئے کھوئے سے ہیں کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیا بات ہے ۔ مجھے معلوم ہے مجھے اس طرح سے پوچھنا نہیں چاہئے کیونکہ میں آپکا دوست یا رشتے دار نہیں ہوں لیکن مجھے آپ کل بھی کچھ پریشان لگ رہے تھے اور آج بھی ۔ اسی لئے پوچھ رہا ہوں اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں " نقاش اپنی بات بول کر پارک میں موجود کھیلتے بچوں کو دیکھنے لگا ۔
کچھ وقت ان دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی کچھ دیر بعد عمر کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا ۔ 

"میری جاب چلی گئی ہے ۔ لیکن مجھے دکھ جاب کے جانے کا نہیں بلکہ اس سبب کا ہے جس کی وجہ سے جاب گئی ہے ۔ " وہ بالکل سامنے دیکھ کر بات کررہا تھا جہاں چند جھولوں پر بچے جھولا جھول رہے تھے ۔
"کس وجہ سے گئی آپکی جاب عمر بھائی ؟" نقاش نے فکر سے وہ وجہ پوچھی جس کی وجہ سے عمر دکھ میں تھا ناکہ جاب جانے کی وجہ سے ۔
"میں ہوٹل میں ہوٹل ایڈورٹائزنگ اینڈ پروموشن کے شعبے کا مینیجر تھا ۔ لیکن آج اپنے اس کام کا بے حیائی میں حصہ نہ ڈالنے کی وجہ سے مجھے جاب سے نکال دیا گیا ۔ " وہ ایک بات پھر کسی سوچ میں ڈوب گیا تھا ۔
"میں سمجھا نہیں عمر بھائی " نقاش نے عمر کی بات کا مفہوم نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
"نقاش تمہیں پتہ ہے قرآن میں ایک پرندے ہدہد کا زکر ہے جانتے ہو ہدہد کی خاصیت کیا تھی وہ ایک بہترین سچا اور ایماندار پرندہ  تھا ۔جو حضرت سلیمان کی قوم میں ایک ایسے منصب پر فائز تھا جس کا کام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ کر اپنی قوم کیلئے پانی تلاش کرنا تھا وہ زیرک نگاہ تھا اسی لئے اسے یہ زمہ داری سونپی گئی تھی وہ جب حضرت سلیمان کے ساتھ سفر پر نکلا اور آپ کی طرف سے اسے پانی کی تلاش کیلئے بھیجا گیا تب راستے میں اسکا سامنا ملک سبا کی ملکہ بلقیس سے ہوا۔ نقاش وہ چاہتا تو ملک سبا کے بارے میں معلومات لئے بغیر آجاتا کیونکہ اسکا کام پانی کی تلاش تھا لیکن اپنی ذمے داری کے ساتھ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اس دنیا میں اللّہ کا اور حضرت سلیمان کا قاصد بنایا گیا ہے اور اسے یہ بھی خبر تھی کہ چونکہ وہ اپنی قوم کے ایک حساس منصب پر فائز ہے ذرا تاخیر کی اور پانی نہ تلاش کرسکا تو قوم مصیبت میں پڑسکتی ہے جس کے باعث حضرت سلیمان اسے سخت سزا بھی دے سکتے ہیں وہ چاہتا  تو ان آگ کے پجاریوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے واپس آجاتا لیکن اس نے اپنے قاصد ہونے کا فرض نبھایا  ۔ میں نے بھی تو وہی کیا نقاش حالانکہ میں بھی جانتا تھا کہ اللّہ کا قاصد بننے پر مجھے اپنے منصب سے ہٹا دیا جائیگا لیکن پھر بھی میں نے ہدہد بننے کی کوشش کی اور وہی ہوا مجھے گیٹ آؤٹ کہہ دیا گیا ۔ " وہ ہاتھوں کو بینچ پر سختی سے ٹکائے اوپر آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔
"عمر بھائی آپ بہت مشکل باتیں کرتے ہیں مگر پھر بھی میں آپکی بات کسی حد تک سمجھ گیا مگر وہ وجہ آپ نے ابھی بھی نہیں بتائی شاید آپ بتانا ۔۔۔۔" نقاش کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی جب عمر نے اسکی طرف رخ موڑا اور کہنے لگا۔
"نقاش کبھی ویلنٹائن ڈے سیلیبریٹ کیا ہے ؟ " وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا سوال کررہا تھا امید تھی کہ وہ ناں کہے گا اور ڈر تھا کہ کہیں ہاں نہ کہدے ۔
"نہ نہ نہیں عمر بھائی ۔ ابھی تک تو کبھی نہیں کیا پر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں " عمر کے ذہن کی اسکرین پر پچھلا چودہ فروری چمکنے لگا جب وہ شہر کے مشہور ترین ہوٹل میں اپنی ویلنٹائن کے ساتھ بیٹھا پچھلی دو ماہ کی سیلری اڑا رہا تھا۔

"کرنا بھی مت کبھی نقاش ۔ تمہیں پتہ ہے یہ گند ہے گند ۔ جو ایک پادری سے شروع  ہوا تھا اور آج تک یہ گند بجائے کم ہونے کے پھیلتا جارہا ہے ۔ چودہ فروری جسے لوگ محبت کا دن کہتے ہیں نقاش یہ محبت کا نہیں بے حیائی ، زنا اور گناہ کا عالمی دن ہے جسے ہم مسلمان بھی بڑے جوش و خروش اور دل کے اطمینان کے ساتھ مناتے ہیں ۔ ہوٹل سجائے جاتے ہیں ، دکانیں ہارٹ شیپ کے غباروں ، ٹیڈی بیئر اور چاکلیٹس سے بھر دی جاتی ہیں ، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے ، کمروں کی ٹکٹس کہیں کم کردی جاتیں ہیں تاکہ سارے بے حیا لوگ باآسانی سہولت کے ساتھ یہ فحش دن منا سکیں اور کچھ ہوٹلز میں ٹکٹوں کے پرائز بڑھا دئے جاتے ہیں اس ڈیمانڈ پر کہ آپکا کمرہ اپکی مکمل بیہودگی کیلئے مزین کردیا جائیگا ۔ نقاش جانتے ہو اللّہ کیا کہتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو برائی یا بے حیائی میں مبتلا ہوں یا کسی بھی طرح سے اسکے حصہ دار بنیں ۔ اللّہ کہتا ہے " جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ " دکھوں کو یہاں تو سنبھال نہیں پاتے نقاش وہاں دوسرے جہاں میں ہم دکھ دینے والا عذاب کیسے سہیں گیں ۔ بس یہی بتانے کی کوشش کی تھی ہوٹل کے مینیجر کو کہ ہم اپنا ہوٹل اس کام کیلئے ہرگز استعمال نہیں کریں گے اور ہوا کیا مجھے نکال دیا گیا ۔ ہدہد معقول وجہ لے آیا تھا اسے قتل نہیں کیا گیا لیکن شاید میں اچھی طرح بات سمجھا نہیں سکا اسی لئے مجھ سے جاب چھین لی گئی ۔ نقاش مجھے ہرگز جاب چلے جانے کا دکھ نہیں دکھ تو مجھے یہ ہے کہ میرے بھائی اور بہنیں کس سمت جارہے ہیں ۔  محبت کے نام پر گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں سب اس دن ۔ میں نے بھی اپنی بیوی سے شادی سے پہلے محبت کی تھی مگر نہ ایسے دن منائے نہ ایسے چیپ کام کئے ۔ اس کے گھر نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کیا گیا آج میری محبت میرے پاس ہے ۔ نقاش جو سچی محبتیں کرتے ہیں نا وہ نکاح کا پیغام بھجواتے ہیں ویلنٹائن ڈے کا انتظار کرکے اس محبت کو ہوٹل کے کسی روم یا کینڈل لائٹ ڈنر پر بیٹھ کر نیلام نہیں کرتے ۔  میں سوچ رہا ہوں  کہ اب کیسے یہ برائی میں لوگوں کے اندر سے ختم کرسکتا ہوں ۔ میں اس اینڈ پر کھڑا ہوں اور پوری سوسائٹی اس اینڈ پر ہے میں ساری زندگی بھی لگادوں تب بھی اس بے حیائی کی دلدل سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نہیں نکال سکتا ۔ میں سب کی بات کررہا ہوں میں تو شاید ایک کو بھی بدل نہیں سکتا ۔ دیکھو نا کہاں بدل سکا باس نے مجھے دو باتوں کا اختیار دیا خاموشی سے اس گناہ کیلئے اس جھنم کو سجاؤں یا پھر اپنے روزگار کو بھول جاؤں ۔ میں ہدہد بننا چاہتا تھا اس نے سزا کا نہیں سوچا لیکن اپنا کام پورا کرکے آیا میں نے ہدہد بننا تو چاہا لیکن بن نہ سکا۔ " وہ تھک گیا بولتے بولتے تو سر جھکا کر ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھ گیا۔
"کیا ویلنٹائن ڈے سیلیبریٹ کرنا گناہ ہے" نقاش نے اس کی بات ختم ہوتے ہی سوال کیا اب پتہ نہیں اسکو اس بات کا علم ہی نہیں تھا یا پھر وہ خود کرچکا تھا اسی لیے گناہ ثواب کا پوچھ رہا تھا۔
"نقاش کیا مطلب گناہ ہے یا نہیں۔ نکاح سے قبل محبتوں کے نام پر محض ملنا جلنا بات چیت تک حرام ہے تو پھر یہ دن منانا کیا ثواب کا کام ہوگا " عمر کو اس کے سوال پر حیرت ہوئی تھی۔
"عمر بھائی اگر میں ویلنٹائن ڈے نہ مناؤں تو پھر کیا کروں " نقاش اب عمر کی طرف نہیں  بلکہ رخ کو قدرے موڑے دائیں سائیڈ پر بنی پاپ کارن کینٹین کو دیکھ رہا تھا ۔ شاہد اسے ڈر ہوگا کہ اسکا جھوٹ آنکھوں سے عیاں ہو جائیگا اسی لئے عمر کی طرف دیکھنے سے گریز کررہا تھا۔
عمر ہنوز اسی حالت میں بیٹھا رہا بس سر کو جنبش دیکر نقاش کو تکتا رہا جیسے اندر تک کی بات جاننے کہ سعی کررہا ہو۔
"اگر سچی محبت کرتے ہو تو فورا نکاح کا پیغام بھیجو ۔ اگر تو ایک جانب سے بھی محض وقتی دل لگی ہے تو جان لو نقاش اسلام میں  محض دل لگی کا کوئی مقام نہیں ۔ اسلام میں اگر کوئی منصب کوئی مقام ہے تو وہ نکاح کا ہے ۔ نکاح آدھا دین ہے نقاش اور یہ نکاح ہی ہے جو تمہاری محبت کو مکمل بھی کریگا اگر تم نکاح نہیں کرنا چاہتے یا نہیں کرسکتے تو تم پر حرام ہے ہر وہ تعلق ہر وہ بات جو تم ایک غیر محرم لڑکی سے رکھو ۔ جانتے ہو نقاش اللّہ نے قوم لوط پر پتھر کیوں برسائے تھے وہ اپنی خواہشات نفس کے معاملے میں اپنی من مانی کرتے تھے ہر حد کراس کر کے تھے نقاش کیا آج ہم پر اس عذاب کی یہ چارج شیٹ پوری نہیں اترتی کیا ؟ ہم بھی تو وہی کرتے ہیں نا خواہش نفس کی خاطر کبھی ڈیٹ پر جاتے ہیں کبھی ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں اور جب اسی خواہش نفس کے ہاتھوں کوئی معصوم بچی کا ریپ کرتا ہے تب ہمیں بہت غصہ آتا ہے لیکن نقاش یہ بھی تو خواہش نفس کی ہی تسکین ہے نا کہ ہم محبت کا ڈھونگ رچا کر ہوٹلز کے ہوٹلز اس یوم بے حیا پر بے حیاوں کیلئے کھول دیتے ہیں انہیں سستے داموں یا مہنگے داموں کمرے مہیا کرتے ہیں جہاں وہ جیسے چاہیں اس رات اللہ کے عذاب کو دعوت دے سکیں اور حیرت ان لڑکوں پر ہے  جو کسی اور کی بہن بیٹی کے ساتھ اس دن منہ کالا کررہے ہوتے کہ انہیں ذرا بھی یہ خیال نہیں آتا ان کی اپنی بھی بہن ہوسکتا ہے کسی کے ساتھ اس دن کو پورے جوش و خروش سے منا رہی ہوں۔ اسے نادانی کہوں یا پھر بے غیرتی ۔ خیر مجھے یقین ہے نقاش تم ایسے نہیں ہوگے اور اگر ہو تو اس یوم بے حیا سے پہلے اپنی اصلاح کرلو۔ پروپوزل بھیج دو یا یہ دل۔لگہ یہیں ختم کردو ۔ میرا ٹائم ہوگیا ہے نقاش میں چلتا ہوں ۔ تم نے مجھے اپنا بڑا بھائی کہا نا۔گوکہ میرے دو چھوٹے بھائی ہیں مگر آج سے میں تمہارا بڑا بھائی ہوں ۔ یہی ملونگا کل یا جب بھی دیکھو اللّہ حافظ " وہ نقاش کے بال سہلاتا پارک کے خارجی دروازے کی۔طرف بڑھ گیا جبکہ پیچھے نقاش کیلئے کئی در وا کرگیا سوچوں کے در ۔
"اسے نادانی کہوں یا بیغیرتی  " ایک جملہ کی بازگشت چاروں طرف گونج رہی تھی ۔
         ++++++++++++++++++++++++++++++

گھر پہنچتے ہی اسکا سامنا سب سے پہلے شیزہ سے ہوا تھا اسے دیکھتے ہی نقاش اپنا سوال لبوں تک آتا روک نہ پایا ۔
"شیزو ۔ تم 14 فیب کو کہیں جاوگی کیا ؟"  اسے یقین تھا وہ نہ ہی بولیگی پر ڈر بھی تھا اگر ہاں بول دیا تو ۔
"نہیں بھائی کہیں نہیں جانا چودہ فروری کو تو یونی بھی نہیں جاؤنگی اس دن خوب بے حیائ ہوتی ہے چاروں طرف باہر اور یونی میں تو اسپیشلی اسی لئے وہ پورا دن گھر پر رہونگی ۔ خیریت آپ کیوں پوچھ رہے " شیزا اس کیلئے کھانا گرم۔کرتے ہوئے بول رہی تھی ۔
"نہیں بس ویسے ہی ۔ یونی میں کیسے مناتے ہونگے یہ دن بھلا " اسے اب مزید سے مزید جاننے کی تگ و دو تھی ۔
" لو بھائی آپکو نہیں پتہ ۔ پوری یونی میں ایسا لگتا ہے لال رنگ بکھیر دیا ہو کسی نے ۔ جس لڑکے کو دیکھو لال شرٹ اور لڑکیاں بھی لال لباس۔ میں نے ایک دو سے پوچھا بھی تھا پچھلے سال کہ۔کیا وہ بھی کسی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منائیں گی جو لال کپڑے پہن کر آئیں تو کہتی نہیں منائیں گے نہیں لیکن یہ دن ایک ہی بار آتا ہے اسی لئے ہم نے اسپیشلی یہ کلر پہنا ہے اور پھر یہ کہ گرلز آپس میں ہی ایک دوسرے کو چاکیلٹس اور ٹیڈیز دے رہی ہوتیں لیکن بھائی میں یہ سوچ رہی کہ جو بھی اس دن کی اسپیشیلیٹی کے حوالے سے کوئی ایک کام بھی کرے تو وہ بھی تو انہی میں شامل ہوا نا کیونکہ اس دن کو جس نام اور جس شخص سے منسوب کیا جاتا ہے وہ بے حیا تھے اور بے حیائ پھیلا کر گئے ہیں ۔  چاہے آپ اس دن کو لال لباس پہنیں یا لال غبارے لگائیں شمولیت تو آپ نے بھی اس گناہ میں کی ہے اور پھر وہ لوگ جو باقاعدہ یہ دن۔مناتے ہیں اپنے پارٹنر کے ساتھ جو بہرحال انکے نزدیک پارٹنر ہوگا مگر میرے نزدیک تو ابلیس ہے ابلیس ان سب کا حساب تو اللّہ ہی لیگا۔" وہ بولے جارہی تھی اور نقاش اپنے سے تین سالہ چھوٹی بہن کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ کتنی سمجھدار اور معصوم ہے ۔ ہاں وہ ویسی ہی تھی جیسی اس کے والدین نے اسکی تربیت کی تھی ۔ تربیت تو خود نقاش کی بھی انہی کے ہاتھوں ہوئی تھی لیکن ہاں وہ بہک گیا تھا ۔
وہ بہکا تھا فیس بک پر ہونے والی ایک لڑکی سے ملاقات کے بعد ۔
 جسکا نام تھا ہریرہ بدر الدین .
         +++++++++++++++++++++++++++
کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ کمرے میں آگیا تھا ۔ آج اسکی سوچوں پر بس دو لوگوں کی باتیں اپنا سایہ کئے ہوئے تھیں ۔ عمر اور شیزہ ۔
بہرحال اسے فاتح ہی بننا تھا مفتوح ہرگز نہیں ۔ اب وہ ہریرہ کو کال ملا رہا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد کال اٹھا لی گئی ۔
"ہیلو نقاش کیسے ہو ۔ آج شام سے ایک بھی ٹیکسٹ نہیں کیا ۔ سب ٹھیک ہے نا " ابھی وہ کچھ بول بھی نہ پایا تھا جب ہریرہ کی کھنکتی ہوئی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی ۔ 
"ہمم سب ٹھیک ہے ہریرہ ۔ تم۔بتاو کیسی ہو ؟ " آج اسکا لہجہ پچھلے ڈیڑھ سال کے مقابلے میں بلکل بدلا ہوا تھا ۔ نہ لچک نہ پرجوش۔
"کیا بات ہے نقاش ۔ تمہاری آواز اتنی مدھم سی کیوں آرہی ہے ۔ تم ٹھیک ہو نا " وہ متفکر ہوئی تھی اسکی آواز سن کر ۔
"ہریرہ مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔ سنجیدگی سے اوکے ۔ ہوریہ مجھے بتاؤ تم میرے ساتھ ٹائم پاس کررہی ہو یا بلکل سنجیدہ ہو اس ریلیشن کیلئے " اسے ہر صورت آج اس بات کو ایک رخ دینا تھا آر یا پار ۔
" تم پہلے بھی کئی بار پوچھ چکے ہو نقاش میں نے ہر بار کہا کہ آئی ایم سیریس تم آج رشتہ بھیجو میں آج بابا سے بات کرلونگی "
" اگر انہوں نے منع کردیا تو " نقاش کو جو خدشہ تھا وہ کہہ دیا۔
" میں پوری کوشش کروں گی منانے کی نقاش اگر پھر بھی بابا نہ مانے تو میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی کہ پھر میں کیا کرون گی ۔ مگر اس بات سے تم ہرگز یہ نہیں سمجھنا کہ میں تمہارے ساتھ سیریس نہیں تھی اسی لئے انہیں منا نہ سکی " وہ قبل از وقت کچھ نہیں کہہ سکتی تھی لیکن اس کا۔ہر بار یہ کہنا کہ وہ اپنے بابا کو منانے کی سر توڑ کوشش کریگی اس بات کی طرف گواہی تھی کہ وہ نقاش کے ساتھ دل لگی نہیں کررہی تھی ۔
"نہیں نہیں میں ہرگز یہ نہیں سمجھ رہا ۔ اچھا سنو میں بہت جلد اپنے گھر والوں کو بھیجوں گا تم بہت پیار سے اپنے پیرنٹس کو۔منانا اگر وہ مان جائیں گے تو ٹھیک ورنہ ہم کوئی غلط کام نہیں کریں گے ہریرہ ۔ اور ہاں سنو میں اور تم ویلنٹائن ڈے پر نہیں ملنے والے ۔ ان فیکٹ ویلنٹائن ڈے کیا اب میں اور تم نکاح کے بعد ہی۔ملیں گے ان شاءاللہ ۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہے نا " ہریرہ کی۔طرف سے کوئی جواب نہ۔پاکر وہ پریشان ہوا۔
" نقاش یہ کیا ہوا تمہیں اچانک ۔ کہیں تمہارا مجھ سے دل تو نہیں بھر گیا کہیں کوئی اور تو نہیں جو اب تم مجھ سے نہ ملنے کا کہہ رہے ہو ۔ 
"نہیں ہریرہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ لیکن بس ہم یہ ویلنٹائن ڈے اور اگلا کوئی بھی ویلنٹائن ڈے نہیں منائیں گے ۔اور کیوں نہیں منائیں گے یہ بھی سن لو " اب وہ ایک ایک کرکے وہ ساری باتیں ہریرہ کے گوش گزار کررہا تھا جو اسے عمر اور شیزہ نے کہیں تھیں ۔
"اچھا چلو ٹھیک ہے اگر یہ بات ہے تو ہم کوئی بھی غلط کام نہیں کریں گے لیکن ایسا کرتے ہیں نا نقاش تم 14 فیب سے پہلے پروپوزل بھیج دو ہوسکتا ہے بابا بھی مان جائیں اور اس سے پہلے ہماری منگنی ہو جائے پھر تو سب کے سامنے اجائے گا نا یہ رشتہ پھر ہم ویلنٹائن ڈے بھی سیلیبریٹ کرسکیں گے " اس نے اس دن کیلئے بہت ساری پلاننگ کی تھیں کپڑے جیولری شوز وہ سب لے آئی تھی۔ 
"ہوریہ یہ دن منانا کسی بھی طرح جائز نہیں چاہے وہ چھپ کر منایا جائے یا دکھا کر۔ مجھے پتہ ہے تم نے شاپنگ کرلی ہے اسی لیے کہہ رہی ہو نا تو ایسا کرتے ہیں وہ ساری تیاری جو تم نے اس دن کیلئے سوچی ہوئی تھی نکاح کے دن پر کرلینا ٹھیک ہے نا۔ دیکھو ہوریہ کچھ کام کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی شروعات جن کی بنیاد غلط ہوتی ہے پھر اس دن یا اس کام کو صحیح طرح بھی کیا جائے تو چونکہ اس کی بنیاد گناہ پر تھی اسی لیے باقی تمام لوگ جو اس دن اس کام کو کریں وہ اسکے حصے دار بن۔جاتے ہیں۔ ہم شادی کے بعد بھی ویلنٹائن ڈے نہیں منائیں گے کیونکہ ہمارا تو روز ہی لو ڈے ہوگا نا ان شاءاللہ ۔ پھر بھلا ہمیں ایک دن کی ضرورت کیوں پڑیگی " وہ آخر میں اسے قائل کرتا مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔ اب وہ پر سکون تھا کیونکہ اسکی امید پر پوری اترتی ہریرہ اسکی ہر بات مان گئی تھی۔
"ہمممم ٹھیک ہے ۔ جو تم چاہو ۔ کب بھیجو گے  انکل آنٹی کو " نقاش کی باتیں ہمیشہ اسے قائل کرلیتی تھیں محبت جو تھی۔
"بہت جلد بہت جلد ان شاءاللہ ۔ ٹھیک ہے اب میں کال کاٹ رہا ہوں  پریشان بلکل نہ ہونا میں تمہارے گھر تمہارا ہاتھ مانگنے ضرور آؤں گا اور ان شاءاللہ انکل آنٹی بھی مان جائیں گے کیونکہ ہم کسی غلط۔کام یا گناہ کا ارادہ نہیں رکھتے اللّہ حافظ " اس نے کال کاٹ دی اب وہ پر سکون تھا مطمئین تھا اور اپنے سامنے بیٹھے مسکراتے ہوئے عمر کر دیکھ رہا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں نقاش تم نے بہت اچھا کام کیا مجھے تم پر فخر ہے ۔ نقاش تخیل میں ان الفاظوں کو سنتا مسکرا دیا ۔
          
  ++++++++++++++++++++++++++
نقاش سے بات کرنے کے بعد اگلے دو دن وہ یونی اور اسٹڈیز میں بزی رھی۔ آج پانچ فروری تھی ۔ سنڈے کا دن تھا اسی لئے بدر صاحب گھر پر ہی تھے لیکن گھر پر ہونے کے باوجود انکا آف نہیں تھا کیونکہ تھوڑے تھوڑے وقفہ بعد انکی آتی کالز انہیں مصروف ہی رکھتی تھیں ۔
"بابا کیا آپ کے ہوٹل میں ویلنٹائن ڈے سیلیبریٹ کیا جائیگا " وہ لان میں بیٹھے تھے جب ہریرہ بھی ان کے پاس چلی آئئ۔
"جی بالکل ہر سال کیا جاتا ہے تو اس سال بھی کیا جائیگا بیٹا " وہ ابھی بھی موبائل پر کسی کا نمبر سرچ کررہے تھے۔
"اگر میں آپ سے کہوں نہ کریں پاپا تو کیا آپ میری بات مانیں گے "  وہ آس سے دیکھ رہی تھی کہ جیسے اسے یقین ہو بابا کہہ دیں گے ہاں ضرور اور ڈر بھی تھا کہ۔کہیں ناں کہدیا تو۔
"مگر کیوں بیٹا ۔ " انہیں لگا سامنے عمر بیٹھا ہو مستحکم ارادوں کا چہرہ لئے ۔
"بابا آپکو اور مجھے دونوں کو ہی پتہ ہے کہ یہ دن اسلام میں جائز نہیں بلکہ ہم دونوں کو ہی نہیں ان تمام لوگوں کو پتہ ہے جو اسے مناتے ہیں اور اس دن کسی بھی طرح سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ اب دیکھیں نا بابا اس میں حصہ ڈالنا صرف اس دن اپنے پارٹنر کے ساتھ گھومنا پھرنا یا ڈیٹنگ کرنا ہی نہیں بلکہ جو لوگ اس کے لئے ان سب لوگوں کو ذرائع مہیا کرتے ہیں ان کیلئے اپنے ہوٹلز اپنے ریسٹورنٹ وغیرہ سجواتے ہیں پھر سب سے بڑھ کر ایک غلط۔کام کیلئے اپنے کمرے دیکر اس جگہ اور ان۔پیسو کو اپنے لئے حرام کرلیتے ہیں تو بابا یہ سب لوگ بھی تو اس گناہ میں شریک ہوں گے نا ۔ اسی لئے پلیز بابا آپ اس دفعہ تو کیا اگلا کبھی ہوئی بھی چودہ فروری اپنے ہوٹل کو یوز نہیں کریں گے ۔ بس یوں سمجھیں یہ عام دن ہے آپکے لئے آپکے ہوٹل کیلئے ۔ پلیز میری بات مان جائیں نا آپکو پتہ ہے بابا جب کوئی اپنا غلط کام سے روکے تو رک جانا چاہئے کیونکہ نہ۔رکنے پر اللّہ تو ناراض ہوتا ہی ہے لیکن آپکا اپنا بھی بہت ہرٹ ہوتا ہے کہ میں اسے گناہ سے روک۔رہا ہوں اور یہ نہیں رکنا چاہتا ۔ اسی لئے آپ بس سب کو منع کردیں اور اس دن کو سیلیبریٹ نہ۔کریں پلیز۔ بابا " اسکی آنکھوں میں انہیں وہی مان دکھا جو چند دن پہلے عمر کی آنکھوں میں تھا۔
"اور پھر سب سے اہل بات بابا آپ کسی اور کی بیٹیوں کیلئے یہ جھنم سجائیں گے ہوسکتا ہے میں بھی کسی اور جگہ اس دن اس جھنم کا حصہ بن رہی ہوں یا بن جاؤں میں بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہوں نا ۔ " وہ نظریں جھکا کر کہہ رہی تھی ۔
"کیا واقعی تم بھی ؟ " بدر صاحب کو جیسے یقین نہ وہ کہہ دیگی نہیں بابا اور ڈر بھی تھا کہیں ہاں نہ کہہ دے ۔
"نہیں بابا میں ان شاءاللہ چودہ فروری کو آپکو گھر پر ہی دکھاونگی لیکن جیسے آپ میرے بارے میں فکرمند ہوئے دوسروں کی بیٹیاں بھی تو بیٹیاں ہیں نا مجھے یقین ہے آپ سمجھ گئے ہونگے ۔
وہ اسکا گال تھپتھپاتے اثبات میں سر ہلانے لگے وہ مسکرا کر چلی گئی اور اپنے پیچھے بدر الدین صاحب کو سوچوں کے بھنور میں پھنسا چھوڑ گئی ۔ 
عمر اور اسکی باتیں۔
ہریرہ اور اسکی باتیں۔
یہ اس وقت ان کی سوچوں کا بھنور تھا جس میں وہ کچھ دیر ہی پھنسے رہے تھے کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ایک سائیڈ چن لی اور وہ تھی عمر اور ہریرہ کی سائیڈ ۔ کیونکہ اس بار وہ کسی اپنے کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
            +++++++++++++++++++++++++++
آج دس فروری ہے وہ کسی جاب کو تلاش نہیں کرسکا یا پھر ابھی دل سے کرہی نہیں رہا تھا کیونکہ ابھی تک وہ اس دکھ سے نہیں نکلا تھا شاید نکل جاتا اس دن کے گزر جانے کے بعد ۔ پارک روز جارہا تھا اور اب نقاش نے اسے ساری بات بتادی تھی وہ خوش ہوا تھا چلو کسی ایک کیلئے تو وہ ہدہد بن سکا ۔
وہ گھر پر بھی بتاچکا تھا کہ فی الحال اس کی جاب چلی گئی ہے لیکن ان شاءاللہ اللّہ جلد کہیں اور انتظام کردیگا ۔ اسکی بیوی ایک نیک لڑکی تھی اس نے اس وقت بھی اسکا بہت ساتھ دیا تھا ۔ وہ ناشتہ کرکے کمرے میں بیٹھا یونہی موبائل یوز کررہا تھا جب بدر صاحب کی۔کال دیکھ کر حیرت میں پڑگیا ایک کال یونہی بج کر بند ہوگئی اگلی کال پر اس نے فورا ریسیو کیا۔
"السلام علیکم جی سر کیسے ہیں آپ
"وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں عمر بیٹا ۔ تم ٹھیک تھے میں غلط تھا ۔ تم چونکہ ٹھیک تھے اسی لئے تمہیں تمہاری جگہ واپس مل گئی ہے ۔ تم آج ہی آجاؤ اور ہاں سنو ہمارے ہوٹل میں کوئی ویلنٹائن ڈے نہیں منایا جائیگا ۔ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں جلدی آو پھر ہم بیٹھ کر بات کریں گے خدا حافظ " ۔وہ کتنی ہی دیر تک ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتا رہا سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ سب ہوا کیسے ؟ اسے اس کیسے کا جواب معلوم کرنا تھا اور جواب بدر صاحب ہی دے سکتے تھے ۔ اب وہ جلد از جلد ہوٹل پہنچنا چاہتا تھا۔
ہدہد کو اسکا منصب واپس مل گیا تھا کیونکہ ہدہد نے اپنے ایماندار قاصد ہونے کا فرض بخوبی نبھایا تھا-
  

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.