٭٭٭Dil pay lagy jo Zakham piyya ***





٭دل پہ لگے وہ زخم پیا ٭

قسط نمبر :7

تحریر:ثمرین شاہد

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

رات بہت ہوگئی تھی زارا زبیر کا انتظار کرتے کرتے وہی صوفے پر سُو گئی تھی ۔ زبیر خود ہی چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور آہستہ سے دروازہ بند  کرکے قدم قدم چل کر اوپر جانے لگا تھا تبھی اُسکی نظر صوفے پر سوئی زارا پر پڑی وہ وہی رُک گیا۔۔۔

وہ کچھ دیر یونہی کھڑا رہا پھر چل کر اُس تک آیا اور  اسے آواز دینے لگا

زارا۔۔۔

زارا۔۔۔

دو بار پکارنے پر بھی اُس نے حرکت نہ کی ۔۔

زارا اُٹھو ۔۔۔

اس بار اُس نے بلند آواز میں پکارا تھا

نیند میں ڈوبی زارا نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا جہاں سے آواز آرہی تھی ۔۔

سامنے زبیر کھڑا نظر آیا وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔

پھر صوفے پر سے اُٹھتے ہوئے بولی

آپ ۔۔۔آپ کب آئے ؟

ابھی تھوڑی دیر پہلے ۔۔۔ جب تم سونے میں مصروف تھی ۔۔۔

فورًا جواب آیا

آپ فریش ہوجائیں ، میں کھانا لگاتی ہوں۔۔۔

زرا اُسے فریش ہونے کا کہہ کر کیچن کی طرف جانے لگی تبھی زبیر نے اُسے آواز دی

زارا سُنو۔۔۔

اسکے کیچن کی طرف بڑھتے قدم رک گئے

وہ وہی کھڑی اُس کے بولنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔

میں نے کھانا باہر سے کھالیا ہے ۔۔۔

وہ اُسے بتانے کے بعد اگے بڑھ گیا ۔۔

وہ ایک سانس خارج کرکے رہ گئی زبیر خود کھانا باہر سے کھا کر آیا تھا مگر وہ جو اس کے انتظار میں کب سے بھوکی تھی اُس نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔

      ____*____*____*____

زایان کا بھر پور استقبال کیا گیا ۔۔۔

اسکے آنے سب بہت خوش تھے ،پورا دن یونہی باتوں میں گزر گیا لائبہ اور ظفر تو جیسے اس کے سامنے سے ہٹ نہیں رہے تھے وہ انکے سوالوں کے جواب دے دے کر تھک گیا تھا

وہ دونوں تو جیسے ایک سال کی کسر ایک دن میں نکالنے پر تلے تھے ۔۔۔

ندا خاتون جو کب سے انھیں دیکھ رہی تھیں ہاتھ میں اورنج جوس کا گلاس لیئے ان تینوں کے پاس آئیں ۔۔

ٹرے کو میز پر رکھتے ہوئے بولیں

"بچّوں اب بس بھی کردو ۔۔۔

زایان بھائی کو آرام کرلینے دو ۔۔۔میں دیکھ رہی ہوں جب سے زایان آیا ہے تم دونوں ایک لمحے کے لئے بھی چُپ نہیں ہوئے ۔۔۔"

انکی بات سُن کر لائبہ اور ظفر کا چہرہ اُتر گیا جبکہ زایان نے شکر کا کلمہ ادا کیا،وہ کافی تھکا ہوا تھا لیکن مروت میں کچھ بول بھی نہیں پایا

"جی خالہ جان بلکل ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔"

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا اور میز پر رکھے جوس کا گلاس اُٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا

ندا خاتون بھی اُسے دیکھ کر مسکرائیں

اپنا گلاس خالی کرنے کے بعد وہ گلاس واپس رکھتے ہوئے بولا

"خالہ جان زارا کہاں ہے ؟؟

میں جب سے آیا ہوں وہ مجھے نظر نہیں آئی۔

کیا وہ گھر میں نہیں ہے یا وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی ۔۔۔؟"

اس نے اسے بچپن میں ہی دیکھا تھا لیکن لائبہ ،ظفر اور عائشہ سے وہ آتے ہی مل چکا تھا ایک زارا ہی تھی جو اسے نظر نہیں آئی تھی
بچپن میں اس معصوم سی پری کے ساتھ وہ گھنٹوں کھیلا کرتا تھا اس سے ملنے کےلئے کافی بے چین تھا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ وہ بچپن کی طرح ہی ہوگی یا بدل گئی ہوگی۔۔

ندا خاتون کو خاموش دیکھ کر اس نے دوبارہ سے پوچھا

"آپ نے بتایا نہیں خالہ جان زارا کہاں ہے ؟؟؟'"

وہ انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جبکہ زارا کا نام سُن کر وہ بدمزہ ہوئی تھیں ۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتیں لائبہ نے فورًا کہا

"زایان بھائی ۔۔۔ زارا آپی تو اب ہمارے ساتھ نہیں رہتیں۔۔ "

کیوں۔۔۔؟ “ وہ حیران ہوا

"انکی تو شادی ہوگئی ہے۔۔۔"

اس بار ظفر نے بھی حصّہ لیا

نداخاتون جو خاموشی سے سب سُن رہی تھیں بولیں

لائبہ ، ظفر تم دونوں اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔

"لیکن مما ۔۔۔؟"

لائبہ منہ بناکر بولی تھی

"میں نے کہا نہ کمرے میں جاؤ!!"

اس بار وہ سخت لہجے میں بولیں

وہ دونوں وہاں سے نہ چاہتے ہوئے بھی اُٹھ کر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ یہ دونوں عائشہ کی طرح نہیں تھےبلکہ اپنی ماں کا کہنا مانتے تھے۔۔ان میں کچھ عادتیں زارا جیسی تھیں

زایان کافی اُلجھ گیا تھا اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ سچ ہے ،وہ سوچ کر آیا تھا کہ وہ اُس سے مل کر خوب باتیں کریگا ،اس سے ملنے نہ آنے کے لئے معذرت کریگا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

خالہ جان یہ بچے کیا کہہ رہے تھے زارا کی شادی ہوگئی اور آپ نے ہمیں بتایا بھی نہیں ۔۔؟

کیا یہ سچ ہے ۔۔۔؟؟

زایان بیٹا ۔۔۔ سب کچھ جلدی جلدی میں ہوا بتانے کا موقع ہی نہیں ملا

اسکے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آیا تو میں منع ہی نہیں کر پائی۔۔۔ اسکا شوہر بہت اچھا ہے اُسے پلکوں پر بیٹھا کے رکھتا ہے

اور پھر تمہیں تو پتہ ہے یہ دُنیا والے کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں اس لئے ہم نے سوچا کہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں ۔۔۔

انھوں نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور زایان کو پوری بات سے بے خبر رکھا۔۔

زارا انکے آنکھوں میں کھٹکتی تھی اسکی زندگی کو دُوبھر کردینے کا بھی انھیں افسوس کوئی نہیں تھا

رات میں جب زایان نے حلیمہ خاتون کو فون پر ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ بھی کافی حیران ہوئیں ۔۔۔

 انھیں تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کوئی ایسا بھی کرسکتا ہے ندا خاتون کا بناء کسی کے علم میں دیئے اس طرح زارا کی شادی کردینا انھیں عجیب لگا۔۔۔

مگر اب وہ بھی کیا کرسکتی تھیں لیکن انھوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ ندا سے ان سب کے بارے میں ضرور پوچھیں گی ۔۔۔

        _____*_____*____*____

دو دن بعد زبیر نے ولیمے کےلئے ایک چھوٹا سا پروگرام رکھا تھا جس میں اس نے سبھی جاننے والے کو مدعو کیا

شیزا دو دن پہلے ہی آچکی تھی اور زور دے کر وہ زارا کی شاپنگ میں مدد کررہی تھی البتہ لبنٰی خاتون اپنی مصروفیت کی وجہ سے آنہیں پائی تھیں جسکا انھیں بہت افسوس تھا۔۔

زارا نے بھی شیزا کو کچھ نہیں کہا وہ اُس کے ساتھ ولیمہ میں پہننے کے لئے مختلف چیزیں خرید رہی تھی ۔۔

دو دن کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا زارا شیزا کی موجودگی میں بہت خوش تھی اسے تو جیسے اپنی بہن بھی مل گئی تھی ۔۔۔

 زارا کے لاکھ منع کرنے کے بعد بھی شیزا نے ضد کرکے پارلر سے اپوائنمنٹ لے رکھا تھا ۔۔اس لئے وہ دونوں  جلدی گھر سے نکل گئی تھیں تاکہ شام میں وقت پر ولیمہ کی تقریب میں پہنچ سکے ۔۔

جبکہ زبیر  تمام انتظامات دیکھ رہا تھا ۔۔۔

       ____*____*____*_____

زایان کو یہاں آئے دو دن ہوگئے تھے لائبہ اور ظفر اسکول سے آتے ہی اس کے پاس دائرہ بناکر بیٹھ جاتے وہ سارا دن انکی اُوٹ پٹانگ باتیں سُنتے رہتا ۔۔۔

کبھی انکے ساتھ گیم کھیلتا تو کبھی انھیں اپنے امریکہ میں گزارے دنوں کی کہانی سُناتا۔۔

ندا خاتون کے منع کرنے پر بھی وہ دونوں اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے جبکہ عائشہ صرف کھانے کے میز پر ہی اُسے نظر آتی تھی سارا دن اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی تھی ۔۔

رات میں نعیم صاحب بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ پروگرام دیکھ لیا کرتے تھے۔۔۔وہ بلکل اسکے بابا جیسے ہی تھے دوسروں میں گُل مل جانے والے ۔۔۔

زایان کے آنے سے سب گھر والے بہت خوش تھے لیکن عائشہ کا رویہ اب بھی پہلے دن جیسا تھا وہ اس سے بات کرنا تو دور اسکے سامنے ہی بہت کم آیا کرتی تھی اور نہ ہی زایان نے کبھی اسکا ذکر کیا۔

ایک ہفتہ کیسے گزر گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا آج اسے نکلنا تھا وہ ندا خاتون کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ اسے  اپنے دوست سے ملاقات کےلئے دوسرے شہر جانا ہے جسے سُن کر ندا خاتون کے ساتھ بچّے بھی اس کی واپسی کا سُن کر بہت اداس ہوگئے تھے۔ ان کا بس چلتا تو اسے جانے ہی نہیں دیتے۔۔۔

        ____*____*_____*_____

 ولیمہ کی فنکشن میں سب دوست و احباب آنے لگے تھے زارا کچھ دیر پہلے ہی پارلر سے سیدھا ہال میں پہنچی تھی ۔۔۔

اُس نے گولڈن رنگ کا,عروسی لباس پہن رکھا تھا ساتھ مہارت سے کیئے گئے میک اپ سے وہ اور بھی بہت حسین لگ رہی تھی جیسے کسی سلطنت کی شھزادی ہو ۔

شیزا اور کچھ لڑکیاں ابھی اُسے اسٹیج پر زبیر کے برابر میں بیٹھا کرگئی تھیں ۔ زبیر بلیک رنگ کے تھری پیس سوٹ میں مختلف نظر آرہا تھا ۔۔۔

وہاں موجود سبھی زارا کی تعریفوں کے پل باندھنے میں لگے تھے جبکہ کچھ لوگ زبیر کی قسمت پر رشک کررہے تھے ۔۔

شیزا اس کے برابر میں کھڑی اس سے ہنس ہنس کر کچھ کہہ رہی تھی جس پر زارا مسکرادیتی ۔۔۔

جب زبیر کے کچھ دوست آئے وہ ان سے ملنے چلا گیا جبکہ زارا وہاں بیٹھی سب آنے جانے والوں سے چہرے پر مسکراہٹ سجائے داد وصولنے لگی۔

اب بھی وہ کسی سے بات کررہی تھی جب ایک بچّہ چل کر اُس تک آیا۔

آپ کانام زارا ہے۔۔۔؟

سات آٹھ سالہ بچّہ اس سے پوچھ رہا تھا

وہ اُس بچے کی بات سُنتے ہی اسکی طرف متوجہ ہوئی اور اثبات میں سر ہلانے کے بعد بولی

جی چھوٹے ۔۔۔ میں ہی زارا ہوں ، آپ کیوں پوچھ رہے ؟؟

آپ کو زبیر آنکل بُلارہے ہیں ۔۔۔

بچّے نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا

 بلکہ جس کام سے آیا تھا اسکے بارے میں بتانے لگا

کہاں ہیں زبیر آنکل۔۔۔

اس نے مسکراتے ہوئے اس معصوم سے بچّے سے پوچھا

وہ بچّہ انگلی کی مدد سے اشارہ کرکے بتایا۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ پوچھتی بچّہ دوڑتے ہوئے وہاں سے جاچکا تھا

وہ سامنے بیٹھی خاتون سے معذرت کرتی اسٹیج سے اُتر کر ٹرائل روم کی طرف بڑھ گئی جہاں اس بچے نے اشارہ کیا تھا

دروازہ کھول کر وہ روم میں داخل ہوئی تھی  مگر وہاں زبیر نہیں تھا

یہ زبیر کہاں گئے ۔۔۔

وہ سوچنے لگی ۔۔

زبیر جب واپس آیا تو زارا کو نہ پاکر اُسے آس پاس ڈھونڈنے لگا ۔۔۔پھر کچھ فاصلے پر کھڑی شیزا کی طرف بڑھ گیا جو چند لڑکیوں سے بات کرنے میں مصروف تھی

شیزا ۔۔۔

اسکے پکارنے پر وہ ان سے معذرت کرتی زبیر کی طرف متوجہ ہوئی

جی بھائی ۔۔۔

اس نے مسکراتے ہوئے کہا

شیزا زارا کہاں ہیں ۔۔؟؟

اس نے زارا کے متعلق پوچھا

 زارا ۔۔۔آااااا

وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی پھر اچانک سے کچھ یاد آنے پر بولی

اووو یاد آیا کچھ دیر پہلے اسے ٹرائل روم کی طرف جاتے ہوئے دیکھا، مجھے لگا آپ کو بتاکر گئی ہے "

ویسے کوئی کام تھا بھائی۔۔۔

اس نے زبیر سے پوچھا

نہیں کچھ خاص نہیں ۔۔۔ بس مجھے نظر نہیں آئی اس لئے پوچھ لیا تم انجوائے کرو۔۔

کہتے ہوئے وہ ٹرائل روم کی طرف بڑھ گیا

زارا واپس جانے کے ارادے سے مڑی تھی لیکن سامنے لگے میرر دیکھ کر رُک گئی

اپنی تیاری دیکھ کر وہ حیران ہوئی وہ سچ مچ آج بہت حسین لگ رہی تھی جب پارلر سے واپسی پر شیزا نے اسکی تعریف کی تو اس نے خفگی کا اظہار کیا تھا ۔۔۔

اتنے میں دروازہ کھول کر اندر کوئی داخل ہوا تھا وہ زبیر کا سوچ کر اچانک سے مڑی تھی

لیکن آنے والا شخص زبیر نہیں بلکہ پارٹی میں ملنے والا وہی آدمی تھا ۔۔۔

آپ ۔۔۔آپ یہاں ؟؟؟

زا۔۔۔زب۔۔۔۔زبیر کہاں ہیں ؟؟

زارا خوف کے مارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولی تھی ۔۔

سامنے کھڑا شخص مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھا

تم زبیر کا انتظار کررہی تھی مگر وہ تو یہاں نہیں ہے تمہیں میں نے یہاں بُلایا ہے ۔۔۔

وہ کیا ہے نہ اگر میں تمہیں بُلاتا تو تم منع کردیتی ۔۔۔

دیکھو ڈرو مت !!

میں یہاں تم سے بات کرنے آیا ہوں ۔۔۔

وہ آدمی جسکا نام غالبًا جمشید تھا اسکے قریب آکر رک گیا اسے اپنے قریب دیکھ کر زارا دو قدم پیچھے ہٹی تھی ۔۔

مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔

آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔

وہ حلق کے بل چلائی ۔

دیکھو ایک بار میری بات سُن لو پھر چلی جانا ۔۔۔

زبیر کو دیکھ دیکھ کر تم بُور نہیں ہوئی۔۔

وہ خباثت سے ہنستے ہوئے بولا

ایک بارمیں بات سمجھ نہیں آتی ہے ۔۔۔ دفع ہوجاؤ یہاں سے ورنہ ۔۔۔ورنہ میں چلاؤں گی

تو چلاؤ ۔۔۔میں بھی دیکھتا ہو تمہارے چلانے سے کتنے لوگ آتے ہیں ۔۔

وہ شیطانی ارادے لئے دو قدم مزید آگے آیا ،اس کے منہ سے نکلتی ایک عجیب سی بُو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔

اس بُو سے اسے کافی شناسائی تھی ،اکثر زبیر نشے کی حالت میں جب گھر لوٹتا تو اسکے منہ سے بھی بلکل اسی طرح بو آتی تھی ۔۔۔

وہ نشے میں تھا خود کو بچانے کے لئے اس نے اُسے دھکا دیا ۔۔

اچانک حملے سے وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے گرتے گرتے بچا زارا وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی یہی سوچ کر وہ اس  کے درمیان میں سے نکلنے لگی تبھی دروازہ کھول کر زبیر اندر داخل ہوا ۔۔

جمشید اور زارا کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگوار لکیریں در آئیں

اس نے غصّے سے ان دونوں کو باری باری دیکھا ۔۔

زبیر کو دیکھتے ہی وہ شخص اپنا پیترا بدل چکا تھا۔۔

وہ زبیر کی طرف ڈک بھرتا آیا۔۔۔

زبیر تم کہاں تھے یار ۔۔۔

تمہاری بیوی نے مجھے یہاں بُلایا مجھے لگا تم ساتھ ہو۔۔۔

یہاں آکر دیکھا تو تم غائب تھے ، ویسے زارا بھابھی بہت مزاق کرتی ہیں ۔۔۔

"کیوں زارا بھابھی۔۔۔؟؟

وہ شاطرانہ چال چل گیا تھا اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا جبکہ زارا اپنے خُشک ہوتے ہونٹوں کو تر کرکے رہ گئی وہ مسلسل خوف کے مارے اپنا ہاتھ مسل رہی تھی

اب میں چلتا ہو تم دونوں انجوائے کرو۔۔۔

وہ اپنی بھرپور اداکاری سے پورا معاملہ ہی پلٹ گیا ۔۔۔

زارا اسکی اس حرکت کو دیکھ کر ڈنگ رہ گئی تھی

وہ آدمی جاچکا تھاجبکہ زبیر اسے غصّے سے انگارہ ہوتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے کر اسٹیج تک آیا ۔۔۔

وہ کچھ سوچ بھی نہیں پائی آگے زبیر کا ردِ عمل کا سوچ کر ہی اسکی حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔

مہمان ڈنر کے بعد اپنے اپنے گھر روانہ ہورہے تھے ۔۔

شیزا اپنے دوسرے کزن کے ساتھ ماموں کے گھر چلی گئی تھی وہ دونوں بھی گھر کے لئے نکل گئے۔۔۔

(جاری ہے )

     ____*____*____*_____

گھر پہنچتے ہی وہ اُس پر برس پڑا ۔۔
“تم۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ،اُس جمشید سے بات کرنے کی ۔۔۔
بولو اب چُپ کیوں ہو۔۔۔؟”
وہ دونوں مدمقابل کھڑے تھے ۔۔۔زبیر بلند آواز میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
”و۔۔۔و۔۔۔ وہ زبیر!
"می۔۔میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا ،آپ میرا یقین کریں!"
اس نے خود ہی مجھے آپ کے نام سے وہاں بُلایا اور پھر۔۔۔“
وہ بولتے بولتے رو دی تھی ۔۔۔
 زبیر کو آپے سے باہر دیکھ کر وہ اور کرتی بھی کیا پچھلے کچھ دنوں سے زبیر میں آئے بدلاؤ کو دیکھ کر وہ خوش رہنے لگی تھی لیکن آج پھر سے زبیر کو موقع مل گیا تھا اُس پر شک کرنے کا ، اُسے بُرا بھلا کہنے کا۔۔۔
”بس اب میں ایک لفظ بھی نہ سُنو۔۔۔ “
تمہیں کس نے کہا تھا کہ  بناء سوچے سمجھے چل دو۔۔۔
ایک بار سوچ تو لیتی ۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔!!“
اُس کا لہجہ کافی تلخ تھا
زارا کے رونے میں تیزی آگئی، زبیر کو اسکے آنسوؤں کی پروا ہی کب تھی جو اب ہوتی ۔۔۔
”تم بھی سب عورتوں کی طرح ہو۔۔۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ تم اُس سے مختلف ہو ، معصوم ہو ۔۔۔
میں اپنے کیئے پر پچھتارہا تھا
مجھے لگا میں نے تم پر بہت ظلم کیا، تمہارے ساتھ زیادتی کی ،تمہارے حقوق پورا نہیں کرپایا
لیکن آج۔۔۔ آج تمہاری اس حرکت نے ثابت کردیا کہ میں غلط تھا مجھے تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھنا چاہیے جس کی تم حق دار ہو۔۔۔“
زبیر نے جو کچھ بھی کہا اسکے سمجھ کےباہر تھا وہ اسکا موازانہ کس سے کررہا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔
اس نے زبیر کا بازو پکڑ کر اسے وہاںسے جانے سے روکا لیکن زبیر بے دردی سے اسکا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھ گیا ۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ زبیر پھر سے اسے غلط سمجھے ایک مشرقی بیوی کی طرح وہ ہرحال میں اپنا رشتہ بچانا چاہتی تھی۔۔
وہ دوڑتی ہوئی اسکے سامنے راستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور التجا کرنے لگی ۔۔
زبیر پلیز میری بات کا یقین کریں
لیکن اُس نے زارا کے چہرے پر نقش سچائی دیکھنے کے بجائے طیش میں آکر اسے دھکا دے دیا ، وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور سامنے رکھے میز کے کونے سے جا ٹکرائی میز سے ٹکرانے کی وجہ سے اسکے ماتھے پر گہرا زخم لگا جس سے خون رس رہا تھا
درد کی وجہ سے وہ سی سی کرتی رہ گئی۔۔۔
اسکی آواز پر وہ پلٹتا تھا، اسکے ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر وہ اسکی طرف بڑھا اور اسکے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا۔۔
اپنے پینٹ کی جیب سے ایک نیپکین نکال کر اسکے زخم پر رکھنے کے بعد وہ وہاں سے اُٹھ کر ڈک بھرتا سیڑھیوں پر چڑھ گیا جب وہ واپس لوٹتا تو اسکے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا
زارا اُسے یک ٹک دیکھے گئی اور سوچ میں پڑ گئی ۔۔
یہ شخص کتنا عجیب طبعیت کا مالک تھا
 پہلے خود ہی زخم دیا اور اب یہ مرہم ۔۔۔
کیا اس مرہم سے پیچھلے سارے زخم مٹ جائیں گے ۔۔
گزشتہ دنوں سے وہ جس زبیر کو دیکھ رہی تھی وہ اسکے لئے بلکل نیا تھا ۔۔۔
وہ جو سوچتے آئی تھی کہ اسکے دل میں دل نہیں گویا پتھر ہے لیکن وہ غلط تھی ۔۔
اسکے اس بھیانک چہرے کے پیچھے کون سا راز تھا وہ جاننا چاہتی تھی۔۔
”وہ ایسا کیوں ہے ؟؟؟
کیا وجہ تھی جسکی وجہ سے وہ اس قدر تلخ ہو گیا۔۔۔”
لیکن پوچھنے کی ہمت نہیں کرپائی اس لئے خاموشی سے اسکے چہرے کا طواف کرتی رہی۔۔۔
وہ دوائی لگانے کے بعد اس زخم پر پٹی کررہا تھا جو معمولی نوعیت کی تھی ۔۔
میز پر ایڈ باکس رکھنے کے بعد وہ اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔
کچھ لمحے یونہی بیت گئے۔۔۔پھر اس نے بولنا شروع کیا ۔۔
”تم نہیں جانتی زارا۔۔
تم کچھ نہیں جانتی ۔۔۔ میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا پھر بھی ناداشتہ طور پر ہر بار میں تم پر ظلم کرتا ہوں ۔۔۔
”لیکن ۔۔۔؟؟ “ وہ سانس لینے کو رُکا۔
وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی جب وہ خاموش ہوا تو وہ بولی
”لیکن کیا۔۔۔؟“
اُس نے زارا کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر پھر سے اپنا سلسلہ کلام جوڑا
"لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔"
"میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔۔.۔
مجھے لگتا ہے سب ایک جیسے ہیں ،دُنیا اور دُنیا کی ساری عورتیں ایک جیسی ہیں ۔۔خود غرض ،دھوکے باز ۔۔۔"
اور یہی وجہ ہے میں تم پر یقین نہیں کرپاتا۔۔
وہ دُکھ اور افسوس کے ملے جُلے تاثیرات لیئے بول رہا تھا زارا یہ سُن کر حیران ہوئی۔۔۔
”وہ اسے اپنی ماضی سے جُڑی حقیقت بتا رہا تھا ۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی وہ بول پڑا
”تہیں پتہ ہے ۔۔۔
نہیں کیسے جان سکتی ہو ۔۔۔ تم تو میری زندگی میں کچھ ماہ پہلے ہی آئی ہو۔۔۔“
وہ اپنی الفاظ کی تصحیح کرنے کے بعد بولا
 بچپن میں دوسرے بچّوں کی طرح میں بھی چاہتا تھا کہ میں باہر جاکر کھیلوں ، نئے نئے دوست بناؤں ۔۔۔
لیکن انکی وجہ سے میری خواہش بس ایک خواہش بن کر رہ گئی۔۔
دوسروں کی مائیں اپنے بچّوں کے لئے اپنی جان تک قربان کردیتی ہے لیکن ناجانے میری ماں کیسی تھی مجھے جنم دیتے ہی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
جب سات سال کی عمر میں، میں نے اپنے باپ سے پوچھا تو اس نے تو یہی کہا کہ وہ مر چکی ہے ۔۔۔اور کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی ۔۔۔
مجھے اس وقت ٹھیک سے نہیں معلوم تھا کہ مرنا کیا ہوتا ہے ،بس لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ مرنا اسے ہی کہتے ہیں جب کوئی اللہ میاں کے پاس رہنے چلے جاتا ہے اور لوٹ کر واپس نہیں آتا۔۔
میری دادی جان مجھے ہر وقت ڈانٹتے رہتی تھیں ، اپنی ماں پر گیا ہے کہتی اور میں کچھ کہہ نہیں پاتا ۔۔۔
کہتا بھی کیسے میں نے اسے دیکھا جو نہیں تھا۔۔اور دُعا کرتا کہ وہ واپس آجائے ۔۔
پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میرے باپ نے شادی کرلی ہے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں تھا لیکن مجھے ایک ماں ضرور مل گئی تھی ۔میں ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا انھیں امی جان کہہ کر پکارتا، انھوں نے بھی اپنا رنگ بدل دیا وہ مجھے گالیاں دیتیں ،دن رات مجھ سے کام کرواتی تھیں ۔۔مجھے دھتکارتی تھیں
میں کچھ وقت کےلئے پریشان ہوجاتا کہ وہ ایسی کیوں ہیں ۔۔؟
 لیکن میں پھر خود کو جھوٹا دلاسہ دیتا کہ نہیں ماں بس زرا پریشان رہتی ہے اس لئے ورنہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے “۔
گرمی کے دنوں مجھے نیند نہیں آتی تھی میں صحن میں ٹہلنے نکلا تھا کہ اچانک مجھے دادی جان کے کمرے سے آوازیں آنے لگی میں آہستہ آہستہ کمرے کے جانب بڑھا وہاں میرے بابا امی جان کے ساتھ موجود تھیں وہ شاید میرے بارے میں کچھ بات کررہے تھے ،دادی جان کہہ رہی تھی میری ماں تو چلی گئی اور مجھ وبال کو چھوڑ گئی
اُس دن پوری رات میں سو نہیں پایا تھا بس روتا رہا۔۔۔
مجھے لگتا تھا وہ میری اصل ماں تھی مگر دادی سے کسی اور کو میری ماں بتا رہی تھیں۔۔
میں جب کبھی گھر سے باہر نکلتا لوگ مجھ پر ہنستے اور بار بار کہتے میری ماں بہت بُری تھی تبھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔
”میں سمجھ نہیں پاتا کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔۔ میری ماں تو مر گئی تھی پھر وہ بُری کیسے ہوئی ۔۔؟؟“
”کیا تمام لوگ جو مر جاتے ہیں وہ بُرے ہوتے ہیں ۔۔۔ “اکثر میں خود سے یہی سوال کرتا ۔
ایک دن میری سوتیلی ماں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا ۔۔
دادی نے بھی انھیں کا ساتھ دیا
مجھے بددُعائیں دینے لگیں ،مجھے طعنہ دیئے ۔۔۔
اُسی دن مجھ پر انکشاف ہوا کہ میری ماں کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور مجھے انکے درمیان مرنے کےلئے چھوڑ گئی تھی
میری سوتیلی ماں نے مجھ پر الزام لگایا کیونکہ  وہ سوتیلی تھی لیکن میرا باپ وہ تو میرا اپنا تھا، اُس نے مجھ پر یقین کیوں نہیں کیا ۔۔۔
اس نے کیوں نہیں کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔
میں  اپنے بابا کو اس آس کے ساتھ دیکھتا رہا کہ وہ میری حمایت کریں گے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیابلکہ  میری خوب پٹائی کی اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا۔۔۔
میں روتا رہا التجا کرتا رہا کہ میرا یقین کریں لیکن اس دن اس گھر کے دروازے مجھ پر بند کردیئے گئے۔۔۔
اس کے بعد میں گلی محلے میں بھٹکتا رہا لیکن میرا باپ مجھے ڈھونڈنے تک نہیں آیا۔۔ ساری زندگی مجھے لوگوں نے یہی طعنہ دیا اور اسکی کے ساتھ میں بڑا ہوا ۔
میں نے وہ شہر بھی  چھوڑ دیا لیکن یہ تلخ ماضی اب بھی کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا کرتی ہے
ایسا لگتا ہے آج بھی لوگ مجھ پر ہنس رہے ہیں جیسے بچپن میں ہنستے تھے ۔۔“
اس نے کرب سے آنکھیں موندلیں۔۔
پھر ایک گہری سانس بھرنے کے بعد زارا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا
”کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤگی ۔۔؟؟“
زارا جو سکتے میں تھی چونک کر اسے دیکھنے لگی
”وہ کیا پوچھ رہا تھا ۔۔۔“
زارا حیران تھی
”تو کیا اسے لگتا تھا کہ وہ اُسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔“
”بولو ۔۔۔ میں بلکل بھی اچھا نہیں ہوں ۔۔۔
کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی ؟؟؟“
وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
”نہیں ۔۔۔“  زارا بس اتنا ہی بول پائی۔۔
وہ جواب ملتے ہی وہاں سے اُٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
جبکہ زارا اسکے پُست کو گُھور رہی تھی۔۔
           ____*____*____*____
(جاری ہے )
Click Here to read Online
or
Download PDF file 

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.