*** Umeed E Wafa ***

***Umeed e Wafa ***
***Writer:Anabiya Khan ***
*Episode:2*


٭٭٭امید وفا٭٭٭
قسط نمبر :2
تحریر:انابیہ خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرا بیٹا کہاں ہے اسے ہوش آتے ہی سب سے پہلے اس نے پاس کھڑی نرس سے اپنے بیٹے کا پوچھا ۔
بیٹی لیٹی رہو اسے اٹھتا دیکھ کر اس خوبصورت عورت نے اس سے کہا۔
 آپ کون ہیں اس نے حیرانگی سے اس عورت کو دیکھ کر کہا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔
میرا نام زینت ہے بیٹی تم میری گاڑی کے آگے آئی تھی ۔میں نے بریک پر بھی پاوں رکھا پر دیر ہو چکی تھی اور تمھارا بیٹا ابھی سویا ہے بڑا رو رہا تھا ماشاءاللہ بڑا پیارا ہے بالکل تمھاری طرح ۔
رانیہ ابھی بھی حیران ہو کر اس خوبصورت عورت کو دیکھ رہی تھی بیٹی تم کہاں جا رہی تھی
میں نے کہاں جانا ہے رانیہ نے کرب سے انکھیں بند کرتے ہوے کہا زینت کے دل کو کچھ ہوا اس لڑکی کو دیکھ کر جس کی انکھیں اجڑی اجڑی لگی بال بکھرے تھے چہرا پریشان تھا بیٹی تمھارا حال دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے تمھارا کوئی تو ہو گا اس کا نمبر دو یا ایڈریس دو میں اس کو انفارم کر دوں تاکے وہ پریشان نہ ہو میرا کوئی نہیں آنٹی یہ کہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو کی اک جھڑی نکلی اور بالوں میں کہیں جذب ہو گی
ایسا کیوں بول رہی ہو بیٹی میں ہوں نہ زینت نے اٹھ کر رانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوے کہا کیا تم مجھے بتانا چاہو گی آخر تمھارے ساتھ ایسا کیا ہوا تمھاری عمر بھی بڑی نہیں اللہ نے حسن بھی خوب دیا ہے پھر ایسا کیا ہوا ۔جب انسان کی قسمت خوبصورت نہ ہو تو انسان کا ظاہری حسن ماند پڑ جاتا ہے اس نے اس عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔ شاید میری قسمت نے میرا ساتھ نہیں دیا بچپن سے لے کر جوانی تک وہ میرے ایسے پیچھے رہی جیسے میں نے اس کا ادھار دینا ہو ۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گے ۔
ایسے نہیں بولتے بیٹی اللہ ناراض ہو جاتا ہے اللہ سے اچھے کی امید رکھو وہ اسے دلاسے دیتی رہی رانیہ نے رو کر سب کچھ بتا دیا ساری بات سن کر زینت نے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا جو مرجھایا ہوا لگا تو بیٹی تم میرے ساتھ چلو لیکن کہاں رانیہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا کوئی سوال ابھی نہیں کرو میرے ساتھ چلو اس نے رانیہ سے کہا جو بڑی حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ اب مجھے کسی پر اعتبار نہیں اس نے دل میں سوچا مجھے تو میرے اپنوں نے چھوڑ دیا غیروں سے کیا امید کرو
میں نے ہا سپٹل کے سارے بل پے کر دیے تم چاہو تو چلی جانا چاہو تو میرے ساتھ چلو میں تمھارا انتظار کرو گی یہ لو میرا کارڈ اور کمرے سے باہر چلی گئی۔۔ تو اس نے اک نظر اس کارڈ کو دیکھا اور کارڈ اپنے پاس رکھ لیا
دو دن ہا سپٹل میں گزار کر آج اسے ڈسچارج ہونا تھا میں کیا کرو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اک نرس آئی بی بی آپ کو ابھی تک کوئی لینے نہیں آیا تم کو پتہ تو ہے آج تم کو ڈسچارج کر دینا ہے جی میں بھی بس جانے کا سوچ ہی رہی تھی اس نے نرس کو دیکھتے ہوے بولا سنی بیٹا اآجاو وہ اپنے بیٹے کو آوازیں دینے لگی جو کسی بچے کے ساتھ کھیل رہا ماں کی آواز پر بھاگ کر آیا مما ہم کدھر جائیں گے کافی دیر چلتے ہوئےجب وہ تھکا تو ماں سے پوچھا پتہ نہیں بیٹے جہاں قسمت لے کر جائے گی وہ پریشانی میں بولی اور دل میں دعا کر رہی تھی اے اللہ میری مدد کر میں کہاں جاو وہ کافی دیر سے یہی سوچ رہی تھی میرے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں مما کچھ دیر بعد سنی نے پھر پکارا جی بیٹا ۔یہ لوگ ہمارا پیچھا کیوں کر رہے ہیں سنی نے کافی دیر نوٹ کرنے کے بعد پوچھا بیٹے کی یہ بات سن کے رانیہ نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو رانیہ کے رونگھٹے کھڑے ہو گے تین لڑکے ہنستے ہوئے اس کے پیچھے آ رہے تھے ۔ آوے جان جی میں چھوڑ دوں کیا ۔۔اکیلی کہاں جا رہی ہو ایک لڑکا اسے دیکھ کر بولا وہ ڈر سی گئی آوے نہیں آوے اسی مر گے ہاں کی بول میں چھوڑ دو دوسرے نے بھی کچھ ایسا ہی بولا وہ بڑی خوف ذدہ ہوئی ان سب کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئےوہ تیز رفتاری سے چلنے لگی کبھی پیچھے موڑ کر دیکھتی کہیں وہ ان کے پیچھے تو نہیں آ رہے وہ انہیں آتا دیکھ کر وہ اور بھی خوفزدہ ہوتی بار بار پیچھے دیکھتی ان کی باتوں سے زیادہ ان کی شکلوں سے وہ خوف ذادہ تھی وہ بھاگنے والے انداز سے چل رہی تھی آوے گر جاو گی جانم تیسرا لڑکا بھی اپنے کرتوت دیکھانے لگا وہ مسلسل اللہ کو پکارنے لگی اے اللہ میری مدد کے لیے کیسی کو بھیج دے اے اللہ میں نے کسی کا برا نہیں چاہا تو جانتا اگر میں کسی انسان کو مدد کے لیے پکاروں تو یہ میری بدنامی ہو گی وہ مسلسل رو رہی تھی اے اللہ میری مدد کر میں اپنی جان دے دوں گی وہ اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی وہ تو بھاگ رہی تھی اتنا تیز وہ پوری زندگی میں نہیں چلی وہ اندھا دھند دوڑنے لگی وہ لڑکے بھی اسی طرح بھاگ رہے تھے وہ ہانپے لگی پھر بھی ہمت کر کے بھاگنے لگی وہ لڑکے اس کے تھوڑے سے پیچھے رہ گئے سڑک بالکل سنسان تھی اک لڑکا آگے بڑھا اور اسے دبوچ لیا وہ چیخی بچاوؤبچاؤ بچاؤ
********
رمضان نے سارے ارمان اس بیٹی پر نکالے وہ منہ سے جو بھی کہتی اس کے بس میں نہ بھی ہوتا وہ تب بھی اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا اس کی اس بات پر ساجدہ بڑی پریشان تھی رمضان اسے اتنا سر پر مت چڑھاؤیہ بیٹی ہے اسے پراے گھر جانا ہے اس کی بے جاہ ضد مت مانو وہ ہر بار اپنے شوہر سے کہتی وہ اک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا وہ جوں جوں بڑی ہوتی گئی وہ خود سر ہوتی گئی کسی کو خاطر میں نہ لاتی ہٹ دھرمی جو بات منہ سے نکالتی پوری کیے بنا پیچھے نہ ہٹتی چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہوتا وہ بڑی ہوتی گئی اس کی عادتیں بھی پختہ ہوتی گئی۔۔۔۔
**********************
ایک گاڑی ان کے درمیان آ کر رکی وہ
خوبصورت عورت گاڑی سے باہر آئی اور ان غنڈوں کو دیکھ کر وہ اپنا موبائل کانوں سے لگاتے ہوے بولی انسپکٹر بلال ہیں جب ان لڑکوں نے انسپکٹر کا نام لیتے سنا تو یہاں سے لڑکی کو چھوڑتے ہوے بھاگ گے ارے بیٹی تم یہاں کیسے آئی وہ اسکے پاس آتے ہوے بولی
میں ہاسپٹل ہو کر آئی ہوں ابھی مجھے پتا چلا وہ تم کو ڈسچارج کر چکے ہیں زینت نے اسے دیکھ کر کہا جو اسے پہلے سے بھی زیادہ کمزور لگی میں بھی اللہ سے دعا کر رہی تھی اک بار وہ تم سے پھر ملاے اور دیکھو اللہ نے میری دعا سن لی
آنٹی آج آپ نہ آتی تو پتہ نہیں کیا ہوتا میرا ۔ اس نے کاپنتے ہوے کہا تیز چلنے کی وجہ سے اس کی سانس پھول چکی تھی دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھی چہرا پسینے سے شرابور تھا ۔اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال ہو رہی تھی اور منہ سے لال ٹپکا رہی تھی وہ ہانپ رہی تھی دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کوئی پاس ہوتا تو دل کے دھڑکنے کی آواز با آسانی سن سکتا وہ خود کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ رہی تھی وہ ننھی سی جان تو نڈھال سا تھا سارا دن کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اسے چکر سے آئےوہ زمین پر گر گیا سنی بیٹا کیا ہوا اسے گرتا دیکھ کر تڑپ کر بولی وہ اور بھی پریشان ہو گی جلدی سے زینت اور رانیہ نے مل کرا اسے اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے ہا سپٹل لے گے ڈاکڑ سب ٹھیک تو ہے نہ اس نے ڈاکٹر کو دیکھ کر کہا بچے کو ویکنس ہو گی ہے اسے کچھ کھلایا کریں ڈاکڑ نے رانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر کو اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں لگی جس کی آنکھیں پتا نہیں کیوں لال تھیں ڈاکٹر نے کچھ تفشیش سے اسے دیکھا کچھ دیر میں بچے کو ہوش آ جائےگا آپ فکر نہ کریں وہ سمجھا شاید بچے کی وجہ سے پریشان ہے ۔۔ بیٹی تم نے کچھ کھایا بھی ہے وہ زینت کو پہلے سے بھی زیادہ پریشان حالت میں لگی نہیں اس نے مختصر سا جواب دیا سنی کو ہوش آ جاے تو میں تم کو کچھ کھلاتی ہو وہ رانیہ کو دیکھتے ہوے بولی اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ بولی کچھ نہیں
میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرو گی مسڑ ساجد رانیہ نے دل میں کہا اور وارڈ میں چلی گی جہاں اس کی ننھی سی جان بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا آپ نے میرے ساتھ ظلم کیا ہوتا تو میں معاف کر دیتی آپ نے تو اس معصوم کو سزا دی ایک ماں کی بددعا ہے بد دعا ہے تمھیں وہ روتے ہوے بولی تم کبھی خوش نہیں رہو گے مجھے در با در کیا اللہ تمھیں بھی ایسے در با در کرے جس خوشی کو پانے کے لیے تم نے مجھے ٹھکرایا وہ خوشی تم کو کبھی نہ ملے میری آہ تمہیں برباد کر دے گی وہ رو رو کر بددعا دیتی رہی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ چیخیں مار کر روے
مما ۔ جی مما کی جان اس نے آٹھ اپنے آنسو کو بے دردی سے صاف کرتے ہوے کہا جو تھم ہی نہیں رہے تھے وہ جتنی شدت سے انہیں صاف کرتی وہ اتنی ہی شدت سے آنکھوں سے واپس آتے وہ اپنے بیٹے کے پاس آئی میرا بچہ وہ اسے پیار کرنے لگی کبھی ہاتھوں پر کبھی آنکھوں پر کبھی ماتھے پر مما مجھے بھوک لگی ہے اس نے ماں کو پیار کرتے ہوے دیکھا تو کچھ حیران ہو کر سوچا ایسا تو کبھی نہیں ہوا مما نے اتنا پیار کیا وہ دل میں سوچ رہا تھا اس کے ہوش میں آتے ہی نرس ڈاکٹر کو بولا لائی ڈاکٹر نے پورا اس کا معائنہ کیا ہی از آل رائٹ آپ اسے لے جا سکتی ہیں بٹ آپ کو اس کی کیر کرنی ہو گی اسے کچھ کھلایں اس بچے کو کافی ویکنس ہے ڈاکٹر نے تفصیلی بات کرتے ہوے اسے چھٹی بھی دے دی وہ اسے لے کر جب باہر نکلی تو زینت آنٹی اسی کا ہی ویٹ کر رہی تھی اسے دیکھ کر بولی خود پر نہیں تو اس بچے پر ہی رحم کرو وہ ناراضگی سے بولی تم دونوں نے کچھ نہیں کھایا او میرے ساتھ چلو میں کچھ کھلا دوں اگر بیٹا نہ ہوتا تو وہ یقینا انکار کر دیتی وہ بچے کی وجہ سے انکار نہ کر سکی وہ انہیں گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی کا رخ ہوٹل کی طرف کر دیا
********
حنا اب کالج جانے لگی کالج میں میں اس کی ملاقات ایک عیسائی لڑکی ڈولی سے ہوئی وہ انتہائی خوبصورت لڑکی تھی جس کی آنکھیں سبز تھی جس کا رنگ سفید تھا حنا اسے دیکھتے ہی دل جان سے فدا ہو گی وہ ڈولی بھی اس سے محبت کرنے لگی آن دونوں کی دوستی دن بہ دن گہری ہوتی گئی حنا کو اپنے مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ با مشکل ایک دو نماز ہی پڑھتی ڈولی کو آپنے مذہب سے بڑا پیار تھا ایک دن ڈولی بولی میری عبادت کا ٹائم ہو گیا ہے چلو تم بھی میرے ساتھ چلو چرچ حنا پہلے ہچکچاتے ہوے بولی کیا تمھارے مما پپا کچھ نہیں کہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈولی نے مسکرا کے اسے دیکھا پھر بولی میرے مما یا پپا کیوں کچھ کہیں گے وہ اسے لے کر چرچ چلی گئی
وہ جب چرچ پہنچے اس وقت سب عبادت میں مگن تھے ڈولی بھی مصروف ہو گی وہ بوریت محسوس کرتے ہوئےدائیں بایئں دیکھنے لگی جیسے ہی اس نے بایئں موڑ کر دیکھا ایک لڑکا عبادت کرنے میں مصروف تھا وہ لڑکا بڑے خوبصورت طریقے سے عبادت کر رہا تھا اس کا ایک ایک انداز بڑا پیارا تھا وہ اپنی آنکھیں بند کیے عبادت کرتا رہا۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
***Click Here to Download PDF File ***
Umeed e wafa



No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.