***Pichal Parii ***


***Pichal Parii***
***Writer Dar e Najaf***
***Episode:12***



پچھل پیری
تحریر:درنجف
قسط نمبر۔12

محبت کی انوکھی داستان ، محبت کے لئیے قربانیاں اور خود غرضیوں کی کہانی۔جہاں محبت کو پانے کے لئیے نہ  صرف لٹایا جائے گا “بلکہ محبت کو پانے کے لئیے ہر چال چلی جائے گی۔ ایک انسان اور جن زادی کی ”داستان محبت۔

َََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں تو مت جھانکا کریں۔ ہم سے یہ احتیاط نہیں ہو گی۔ خدارا غصے اور بے بسی سے ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔ ہمیں بار شرمندگی کے بوجھ تلے مت دبائیے۔“ آبگینے نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔
آبگینے میں جانتی ہوں، تم کس اذیت سے دو چار ہو مگر۔۔۔
مگر کیا؟ آپ غلط کہتیں ہیں۔۔۔آپ نہیں سمجھ سکتیں۔ آپ کیا ہمارے درد کو کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ بس ہم ہی ہیں۔“ آبگینے کمرے میں بے چین سی ٹہلتے ہوئے بار بار اپنے سر کو تھام رہی تھی۔ شوالے اس کی اس حرکت کو نوٹ کرتی رہی۔ 
آبگینے بیٹھ جاؤ“ شوالے اس کی بگڑتی حالت اور تیور دیکھ کر پریشان ہوتے ہوئے بولی۔
بس ہم نے سوچ لیا ہے۔۔۔ہم شاہ جی کی زندگی سے بہت دور چلے جائیں گے۔ بہت ہوا اب اور نہیں۔“ بیدردی سے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھی، مگر اس سے پہلے ہی شوالے نے اپنا ہاتھ اٹھا کر جھٹکا تو وہ لہراتی ہوئی دروازے کے پاس ہی گر پڑی۔ شوالے نے احتیاط سے اسے اٹھا کر بیڈ پہ لٹایا اور خود بے بسی سے اسے دیکھنے لگی۔
یقین جانو! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں کسی صورت تمہارے لئیے تکلیف کا باعث نہ بنتی مگر یہ فیصلہ آسمانوں سے آیا ہے۔
 کمرے کا دروازہ کھلا، سائیرہ خاتون اندر داخل ہوئیں۔ بیڈ پر لیٹی آبگینے پر نظر پڑتے ہی گھبرا کر بولیں۔
کیا ہوا؟ کیا کیا لڑکی؟“ 
سائیرہ خاتون کے لہجے ۔میں اجنبت دیکھ کر شوالے آہستگی سے بولی۔
میں نے کچھ برا نہیں کیا۔ اس کا درد کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سو رہی ہے۔
آخر چلیں کیوں نہیں جاتیں ہمارے گھر کا سکون۔۔۔
غلط سوچ رہیں ہیں میرا کسی بھی معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔“ شوالے بات کاٹتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی۔
شاباش۔۔۔ ہمارا بیٹا پچھلے دو دن سے غائب ہے۔ نجانے آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اب ہماری بہو بننے چلی ہیں اور آپ کہتیں ہیں میرا کسی معاملے سے تعلق نہیں؟ ہم پوچھتے ہیں کہاں ہیں ہمارا بیٹا۔” سائیرہ خاتون تیز زبانی سے کام لیتے ہوئے بولیں۔
ہائے! سوتیلی ماں کے دل میں ممتا کی اتنی تڑپ؟ بس کیجئیے۔۔۔ میں سب جانتی ہوں۔ ریحان شاہ کی آپ کو کتنی فکر ہے۔” شۏالے کا لہجہ سپاٹ تھا۔ سائیرہ خاتون غصہ ضبط کئیے دانتوں پہ دانت جمائے رہیں۔
سائیرہ خاتون میں آپ سے الجھنا نہیں چاہتی، اس لئیے کہ آپ میرے ہونے والے شوہر کی ماں ہیں۔ بہتر ہو گا ہم دونوں ایک دوسرے کے لئیے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔ ویسے مجھے دوغلے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ غدار۔۔۔
ہوش میں آؤ لڑکی۔۔۔جانتی بھی ہو کس کے روبرو ہو؟۔“ سائیرہ خاتون شوالے کی بات کاٹتے ہوئے بولیں۔
جی میں جانتی میں کس کے روبرو ہوں۔ لیکن! آپ نہیں جانتیں آپ کس کے روبرو ہیں۔“ شوالے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
گستاخ“ سائیرہ خاتون غصے سے چلائیں۔
چلائیے مت۔۔۔بس اتنا یاد رکھئیے آپ خاک زادی ہیں اور میں آتش زادی۔۔۔مجھ سے آپ کی اصلیت چھپ نہیں سکتی قاتل عورت۔۔۔حقیقت تو یہ ہے کہ بابا جان آپ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ! آپ نے۔۔۔
اپنی بکواس بند کرو
 سائیرہ خاتون نے شوالے کو تھپڑ مارنے کی کوشش کی مگر شوالے نے تیزی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ملازمہ اندر چلی آئی۔ دونوں نے سنبھلتے ہوئے سوالیہ نظروں سے ملازمہ کی طرف دیکھا۔
بڑے شاہ جی نے آپ دونوں کو بلایا ہے۔” ملازمہ نے کہا۔
آتے ہیں“ سائیرہ خاتون نرمی سے بولیں۔
قربان جاؤں آپ کے لہجے کی حلاوت پر۔۔۔ شوالے آہستگی سے کہتے ہوئے ملازمہ سے مخاطب ہوئی۔
چلو! میں تمہارے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ شوالے لباس درست کرتی ملازمہ کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
سائیرہ خاتون پیچ و تاب میں آبگینے کو دیکھنے لگیں۔
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پری زاد ایک اندھیرے جنگل میں اترا۔ یہاں دن کو بھی رات کا سماں تھا۔ ریحان شاہ جنگل کے بیچوں بیچ کھڑا سوچ رہا تھا یہ کالی دنیا ہے۔ پتہ نہیں اجنبیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہو۔ وہ پری زاد کی پشت سے اترا، جنگل کی زمین درختوں کے خشک پتوں سے ڈھکی تھی۔سوکھے پتوں پر پاۏں رکھتے ہی خاموش سوگوار فضا میں ابتری پھیل گئی۔ یکلخت جیسے جنگل گہری نیند سے جاگ گیا ہو۔ ریحان شاہ کو جنگل سانس لیتا محسوس ہوا۔ اسے قطعا خوف محسوس نہ ہوا وہ محتاط سا اندازہ لگانے لگا کہ اسے کس سمت بڑھنا چاہیے۔ کسی کے چلنے کی آواز سے پتوں پہ چرچراہٹ کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ گہرے گھور اندھیرے میں دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پری زاد سے مخاطب ہوا۔ 
محتاط ہو جاؤ” 
میرے آقا! میرا خیال ہے اس کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہم بری نیت سے کسی کے گھر نہیں گھسے۔ ہم مہمان ہیں اور امید ہے مہمانوں کے ساتھ اچھا سلوک ہوگا۔
پری زاد نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کی انگلی کو گھمایا تو مشعل نما روشنی ہوا میں تیرنے لگی۔
میرے آقا! اس طرف چلئیے۔“ پری زاد نے راستہ دکھاتے ہوئے کہا۔
مشعل نما روشنی ان کے آگے ہوا میں تیرنے لگی۔
ریحان شاہ کو محسوس ہوا بہت سے لوگ اس کے ہمراہ ہیں۔
درختوں کی پتیاں اور ٹہنیاں یوں کڑکڑاتیں جیسے ان پر کوئی بھاری بوجھ لادا جا رہا ہو۔ ریحان شاہ خاموشی سے چلتا رہا۔ مشعل کی روشنی نے ان کے گرد گول دائرہ بنا رکھا تھا۔ جو انہیں اپنے حصار میں لئیے ہوئے تھی۔ سناٹے کی شاخوں پر زخمی زندگی لٹک رہی تھی۔ چو طرف وحشت ہی وحشت بکھری تھی۔ 
وہ دونوں چلتے رہے۔ درختوں پہ سرسراہٹ پیہم جاری تھی۔ خاموش فضا میں اب سرگوشیاں تیرتی ان کی سماعتوں سے اٹھکیلیاں کرنے لگیں، مگر وہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ دفعتا ریحان شاہ کے قدم زمین نے جکڑ لئیے۔ پری زاد چلتا ہوا دور نکل گیا۔ ریحان شاہ نے پری زاد کو دیکھا۔ جو چلتے ہوئے دور سے دور ہوتا جا رہا تھا۔
بیوقوف جانور“ غصے سے بولتے ہوئے آواز دینا چاہی، لیکن! زبان تالو سے چپک گئی۔ لبوں کو سی لیا گیا۔ ریحان شاہ نے آنکھیں بند کر کے منتر کا جاپ شروع کیا۔ بند آنکھوں کے پار بھی اسے کئی جلوے دکھ رہے تھے۔ وہ سب کی سب اس کے گرد جمع تھیں۔ نیم برہنہ حسیناؤں کے ہاتھ اس کے جسم پر رینگ رہے تھے۔ ریحان شاہ حسین بلاؤں کے گھیرے میں تھا۔ منتر کا جاپ کرتے ہوئے اس کی آنکھیں زبردستی کھل رہی تھیں اور یہ ایک چال تھی کہ ریحان شاہ منتر کا جاپ مکمل نہ کر سکے۔ تاکہ وہ اس پہ حاوی رہیں۔ ریحان شاہ کے ہونٹ تیزی سے ہلنے لگے اور اس نے جاپ مکمل کر لیا۔ جیسے ہی آنکھیں کھولیں اس کے آس پاس تیز زرد روشنی پھیلی تھی۔ اس نے تیزی سے اپنے ہاتھ کو گولائی میں گھماتے زور سے حسیناؤں کی طرف جھٹکا۔ وہ ایک جھٹکے سے دور جا گریں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے چہرے بھیانک ہو گئے۔ بگڑیں صورتوں والی بد روحیں اب منہ کھولے اپنے لمبے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اس پر جھپٹنے کو بیتاب تھیں۔ 
رک جاؤ“ اس کے عقب ایک نسوانی آواز ابھری۔ 
وہ سب کی سب ہوا میں تیرتی غائب ہو گئیں۔
مڑ جاؤ نوجوان! میرا حکم ہے۔“ عقب سے پھر آواز ابھری۔
ریحان شاہ نے بولنے کو لب کھولے تو زبان بھاری محسوس ہوئی۔
بولنا چاہتے ہو تو بولو۔
میں حکم دینے والوں میں سے ہوں ماننے والوں میں نہیں۔“ ریحان شاہ نے لاپرواہی سے کہا۔
حکم دینے والی حالت میں تو تم ہو نہیں ؟ پر میں تمہاری طاقت جانتی ہوں۔“ پتوں کی چرچراہٹ اس بات کی غماز تھی کوئی چل کر اس کے قریب آ رہا ہے۔
وہ اپنی جگہ اب بھی ساکت کھڑا تھا۔ وہ حسینہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
بلاشبہ وہ بہت حسین تھی۔ چمکیلے نیم عریاں لباس میں اس کا نرم و نازک وجود نظر آ رہا تھا۔
آں آں اپنے من میں یہ خیال مت لاؤ کہ یہ تمہارا وہم ہے۔ نہ نہ۔۔۔یہ اچھا نہیں ہو گا۔ یہ میری نگری ہے۔
یہ تمہاری نگری ہے تمہیں مبارک ہو، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میں مسافر ہوں۔ میرا راستہ مت کاٹو، تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔” ریحان شاہ نے اکتا کر کہا۔
میں جانتی ہوں تم معبد جا رہے ہو۔ پنڈت کے پاس۔۔۔آج کی رات بھاری ہے میرا مشورہ ہے اس دھوکے باز پنڈت سے مت ملو۔ وہ پچھلے کئی دونوں سے اس کوشش میں سر گرداں ہے کہ وہ شیطانی دیوتا کے چرنوں میں انسان کا خون بہا سکے۔۔۔کیونکہ کل پورنماشی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ تم اس کا شکار بن جاؤ۔
اس ہمدردی کے لئیے شکریہ۔ میں اپنی حفاظت کرنا جانتا ہوں۔ تم بھی تو میرا شکار ہی کر رہی تھی؟ اگر میں کمزور ہوتا تو تم میرا بھی وہی حال کرتی جو مجھ سے پہلے یہاں آنے والوں کا ہوا۔“ ریحان شاہ نے طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے غصے سے گھورا اور وہ زرا سا مسکرائی۔
نوجوان تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ مگر ہم بھی مجبور ہیں۔۔۔ہمیں اس تاریک جنگل کے کچھ حصے میں مقید کر دیا گیا ہے۔ اگر تم ہمیں آزادی دلا سکو تو احسان ہو گا۔ ہم اپنی دنیا کو لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ تم جس سلسلے میں معبد جارہے ہو وہاں ناکامی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ پنڈت تم سے چھل کپٹ کرے گا۔ وہ اور اس کے چیلے دھوکے باز ہیں۔ ہم بھی اسی کے چنگل میں پھنسے ہیں۔ اس چھل چھدری نے ہم سے بہت کام لیا۔
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
تم جس سلسلے میں معبد جا رہے ہو، ہو سکتا ہے میں کچھ راہنمائی کر سکوں؟“ 
حسینہ نے پیشکش کی۔ اور وہ سوچ میں پڑ گیا۔
مجھے پنڈت سے ملنے کا شوق نہیں
 لیکن! کچھ لمحے جو میری یادواشت سے جڑے ہیں وہ۔۔۔
نوجوان میں یہ نہیں کہتی کہ تمہارے ساتھ غلط ہوا۔۔۔بلکہ جس نے بھی کیا صیحح کیا اور یہ ایک ایسا لمحہ۔۔۔
کیا بکواس کرتی ہو؟ تم مجھے بتاؤ گی کیا صیحح ہے کیا غلط ہے؟
اگر میری بات سن لیتے تو سمجھ بھی لیتے۔۔۔تمہاری غصیل طبعیت نے تمیہں تباہی کے دھانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ شکر مناؤ کسی نے اپنی جان کے بدلے تمہاری جان کا سودا کیا اور جس نے کیا وہ خسارے میں ہے۔ بہت جلد اس سودے کا وہ انجام دیکھے گا تب تک، جب تک تم زندہ ہو۔“ حسینہ نے ناگواری سے کہا۔
میں تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن جو بھی ہوا مجھے وہ دیکھنا ہے اپنی آنکھوں سے۔۔۔تو کیا تم یہ کر پاؤ گی؟ ریحان شاہ نے کہا۔
حسینہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔ پھر آہستگی سے بولی۔ ”شاید! اس کام میں میری ساری طاقت صرف ہو جائے۔
مجھے کوئی پرواہ نہیں۔“ ریحان شاہ نے لاپرواہی سے کہا۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوالے اور زرک آفتاب شاہ کے نکاح کے بعد وارث شاہ نے اسے اس کے مرتبے کے مطابق نوازتے ہوئے وآپسی کی اجازت دے دی۔ اسے نیلم کی انگوٹھی وآپس مل گئی۔ نکاح کے بعد زرک آفتاب شاہ شوالے سے نہ ملا جس کا اسے بڑا قلق رہا۔ وہ یہ تو جانتی تھی سائیرہ خاتوں تو نہیں ملیں گی۔ جاتے ہوئے وہ آبگینے سے ملنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ بھی نہ ملی۔ بڑی اماں سے ملنے کے بعد وہ بوڑھے درخت کے پھل کو (جو اس کی راہنمائی کرتا رہا تھا) لے کر اپنے نئے ساتھیوں سمیت وآپس اپنی دنیا کو لوٹ گئی۔ وآپسی کے راستے اب پہلے سے آسان تھے۔ تمال آوک کی نوکیلی جھاڑیوں میں اب چلنے کی ضرورت نہ رہی۔ اب اسے اپنی طاقت مل گئی تھی۔ اسے بار بار زرک آفتاب شاہ کے سرد روئیے کا خیال آتا رہا۔ سوچ کے دھاروں نے اپنے اپنے راستے بنائے مگر وہ خود غرضی کے راستے پر چلنے سے باز رہی۔ تمام راستے اس کے چھوٹے سے قافلے نے خوب دھما چوکڑی مچائی اور وہ اپنے خیالوں میں الجھی رہی۔ اب سوچ کے کئی در وا ہوئے بہت سے سوال تھے جو اس سے کئیے جانے تھے اور وہ خود کو تیار کرنے لگی۔ طلسمی دیوار کے پاس پہنچ کر سب اسے دیکھنے لگے۔
شہزادی یہ کیا ہے؟ کوتاہ جن نے اپنے سامنے دھند کی دیوار پا کر شوالے سے دریافت کیا۔
کوتاہ جن یہ میری سلطنت کی حد ہے۔ اس پار میری دنیا ہے۔ حد پار کرنے سے پہلے میں چاہتی ہوں تم سب ایک دفعہ پھر سے سوچ لو۔ اگر ایک دفعہ تم سب نے یہ دیوار پار کر لی تو تمہیں وآپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔“ شوالے نے ایک نظر سب پر ڈالی جو ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
شہزادی ہمیں اپنی دنیا چھوڑے ایک عرصہ ہوا ہماری وآپسی کی راہیں مسدود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ویرانوں میں تنہا رہنے اور بھٹکنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم سب آپ کی دنیا میں شامل ہو جائیں۔“ کوتاہ جن نے تعظیما جھکتے ہوئے کہا جس کی سب نے تائید کی۔
ٹھیک ہے اگر تم سب یہی چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔لیکن! میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔“ شوالے نے ایک نگاہ سب پہ ڈالی اور خاموش ہو گئی۔
سب نے سوالیہ نظروں سے شوالے کو دیکھا۔
میری سلطنت پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ سلطنت کالے پہاڑوں کے شیطان پرست قبیل کے شر سے محفوظ نہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں، جنگ مسلط کردیتے ہیں اور ہر بار بہت سی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ اب بھی جنگی طبل بجنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ میں آپ سب کو خطرے سے بچانا چاہتی ہوں۔ شوالے کہہ کر خاموش ہو گئی۔
ہم آپ کےساتھ ہیں۔ چاہے حالات جیسے بھی ہوں آپ ہمیں اپنے جانثاروں میں پائیں گی۔” کوتاہ جن ان سب کی آواز بن گیا اور وہ چھوٹا سا مجمع ہمت اور حوصلہ کی صورت اسے ایک امید کا مضبوط ستون لگ رہا تھا۔ 
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سوچ رہی ہو؟ یہ کام تو تمہیں کرنا ہی ہو گا۔“ ریحان شاہ نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھا تو ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالتے ہوئے کہا۔ 
جب میں جل کر راکھ ہوں جاؤں گی تو یہ آزادی میرے کس کام؟ لیکن! میں تمہیں اس پل کی جھلک ضرور دکھاؤں گی۔ میری شرط ہے۔” حسینہ نے نازک ادائی سے کہا۔
تو پھر شروع کرو۔ پہلے مجھے زمین کی گرفت سے آزاد کرو۔” ریحان شاہ نے اپنے ان دیکھی قوت کے زیر اثر جکڑے پیروں کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں! تم آزاد ہو۔” حسینہ نے اپنے ہاتھ کو جھٹکا۔
ریحان شاہ لڑکھڑاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا۔اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کیا ہو۔
تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔“ حسینہ درختوں کے جھنڈ کی طرف چل پڑی۔ ریحان شاہ نا چار اس کے پیچھے چل پڑا۔ زرد روشنی ہالے کی صورت ساتھ ساتھ تھی۔
اسے تو خبر بھی نہیں ہو گی میں کس جال میں پھنس چکا ہوں۔ مجھے اپنی حفاظت کر لینی چاہیے۔۔۔یہ بدروح ہے مجھے اس پہ اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔“ ریحان شاہ نے طلسم پڑھ کر اپنے گرد حصار کر لیا۔
اچھا کیا جو اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیا۔ ویسے میں تمہیں نقصان نہیں پہنچانے والی۔“ حسینہ آگے چلتی ہوئی بولی۔
ریحان شاہ نے چونکتے ہوئے کہا۔ 
میں اعتبار زرا کم ہی کرتا ہوں۔“ ریحان شاہ جھاڑیوں سے بچتے ہوئے بولا۔
ہاہاہاہا۔۔۔ اس لئیے کہ تم بھی اعتبار کے قابل نہیں ہو۔ تم نے بھی تو اپنے بھائی کے ساتھ چھل کیا۔ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔کیا یہ سچ نہیں؟
ریحان شاہ چلتے ہوئے رک گیا۔ غصے سے جاتی حسینہ کی پشت کو گھورتا رہا۔ یکلخت اس کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا۔ آگ کا شعلہ نمودار ہوا اور اس نے پوری قوت سے شعلہ ہاتھ کے اشارے سے حسینہ کی طرف پھینکا۔ آگ کا گولا حسینہ کی پشت تک آنے سے پہلے ہی ہوا میں ساکت ہو گیا۔
دیکھو! تم نے ابھی بھی چھل کیا۔
میں چاہوں تو ابھی تمہیں تمہاری اوقات یاد دلا دوں۔۔۔مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔“ ریحان شاہ نے غصے کہا۔
میری بات سنو! ہمیں ایک دوسرے سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔
میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں صرف اس لئیے کہ وقت آنے پہ تم میرے کام آ سکو۔ ایک بات یاد رکھنا میں تمہاری غلام نہیں۔ میں بھی اپنے قبیل کی سرداروں میں سے ہوں۔“ حسینہ نے جتاتے ہوئے کہا۔
تو مجھے دھمکا رہی ہے؟” ریحان شاہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
نہیں! میں صرف اپنی حثیت بتا رہی ہوں۔ حسینہ نے غراتے ہوئے کہا۔
ریحان شاہ نے اس کے بدلتے تاثرات دیکھ کر کمزور پڑنے کے بجائے خفگی سے کہا۔ ”جہنم میں جاؤ۔ مجھے تم سے کوئی سروکار نہیں۔ میں اپنی مدد خود کر سکتا ہوں۔“ ریحان شاہ وآپسی کے لئیے قدم بڑھائے تو سامنے پری زاد کو کھڑے پایا۔
جانور کہاں تھے تم؟“ ریحان شاہ نے دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔
پری زاد لڑکھڑاتے ہوئے سنبھل گیا۔ ”میرے آقا! میں آپکے قریب ہی تھا۔ ڈائنوں کے گروہ سے بھی میں واقف تھا۔ میرے خیال سے ان کا سجھاؤ برا نہیں۔ معبد جانا خطرے سے خالی نہیں۔
گہری رات کا سناٹا گونج رہا تھا اندھیرے نے جیسے رات سے ساز باز کر لی تھی اور یہ گھنا جنگل بھی نگلنے کو تیار تھا۔ زرد روشنی غائب ہو گئی اور ایک بار پھر وہ اس تاریک رات کا حصہ بن گئے۔ یکلخت بادلوں کے گڑگڑانے کی آوازیں آنے لگیں۔ بجلی کی چمک سے پیدا ہوئی روشنی نے ان دونوں کی جھلک دکھلائی اور وہ جنگل کے مکینوں کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہے۔ معاً بارش کے قطرے ان دونوں پہ گرے۔
اب کیا ہو گا؟ ریحان شاہ نے سوچ کے دائرے وسیع کرتے ہوئے قد آود درختوں کی کج مج چھت سے نظر نہ آنے والے آسمان کو دیکھا۔ بارش دیکھتے ہی دیکھتے تیز ہونے لگی۔
پری زاد نے ریحان شاہ کے اوپر اپنے پروں کو پھیلایا اور بارش سے کسی حد تک محفوظ کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا۔ ”اب سفر کرنا آپ کے لئیے مشکل کا باعث ہو گا۔ اس ڈائن کی بات مان لینے میں کوئی قباحت نہیں۔
ناقباحت فہم جانور۔۔۔ان پہ بھروسہ کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ یہ ہزاروں انسانوں کی قاتل ہیں۔۔۔۔ کلیجہ چبانے والیاں۔ یہ نار سعیر کے مکین ہیں۔“ ریحان شاہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
 ”معبد جانا ٹھیک رہے گا۔ وہیں چلیں گے۔
ہاں جاؤ۔۔۔بیوقوف خاکی انسان! اگر تم یہ جان گئے ہو کہ ہماری اصلیت کیا ہے تو زرا یہ بھی پتہ لگا لو کہ تمہارے ساتھ معبد میں کیا ہو گا۔“ آواز ان کے قریب سے آئی۔
ریحان شاہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Click Here to Download Pdf File 
Pichal Parri



No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.