* Umeed e Wafa *



* Click Here to Read online
or 
Download PDF file *

_______________________________________
 ٭امیدوفا٭
تحریر: انابیہ خان
قسط نمبر :1
تم چلی کیوں نہیں  جاتی ہو،میری زندگی سے، میری نظروں سے میرے گھر سے خدا کے لیے چلی جاؤ۔
 ساجد میں کہاں جاؤ؟ اس ملک میں میرا کوئی بھی جاننے والا نہیں وہ ہاتھ جوڑ کر اپنے شوہر سے منت کرتے ہوے بولی ۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتا تم یہاں سے چلی جاو وہ غصے میں بولا ۔
میرا قصور تو بتاؤ۔
اچھا اب وہ بھی میں بتاو ؟اس نے غضبناک لہجے میں کہا ۔
کیوں مجھے دربدر کرنا چاہتے ہو وہ روتے ہوے بولی ۔
اپنے جھوٹے آنسو مت بہا ساجد نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا سونیا نہیں چاہتی تم میری زندگی میرے گھر میں رہو اس نے اپنی بیوی پر واضع کر دیا ۔
دیکھو ساجد تم شادی کرنا چاہتے ہو تم کر لو لیکن مجھے اپنی زندگی سے مت نکا لو  میں سونیا کے پاوں پکڑ لو گی وہ روتے ہوے بولی مجھے اپنی زندگی سے مت نکالو وہ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوئی ۔
میں تمھارا سایہ بھی اس پر نہ پڑنے دوں گا وہ نخوت سے بولا ۔
میں کہاں جاو گی ساجد ۔
 میری بلا سے جاو جہنم میں ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی وہ چیخ اٹھا ابھی تو میں جا رہا ہوں آفس جب میں واپس آوں تو تم یہاں سے دفعہ ہو جانا سمجھ گی اس نے بے دردی سے اس کے بال نوچتے ہوے کہا
اسے کہاں تکلیف ہوئی اسے تو اپنے محبوب شوہر کی اس بے رخی پر رونا آیا وہ سکتے کی حالت میں تھی اس کے اندر کوئی بین کر رہا تھا کوئی چیخ رہا تھا اس کا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی اس کے باہر جاتے ہی اس نے شکایتی نظروں سے اللہ سے کہا اے اللہ تو جانتا ہے میرا اس ملک میں تیرے سوا کوئی اور نہیں میں کہاں جاؤگی اس کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دے یا میرا کہیں اور ٹھکانہ بنا دے اگر اس نے مجھے نکال دیا تو میں کہاں جاو گی میرا تو پاسپورٹ بھی اس کے پاس ہے میں اپنوں کے پاس بھی نہیں جا سکتی پاسپورٹ کا خیال آتے ہی اس نے پاسپورٹ ڈھونڈنا شرع کر دیا کمرے کا کونا کونا دیکھا الماری بھی دیکھی کپڑے ایک ایک کر کے دیکھے مگر پاسپورٹ کہیں نہ ملا وہ زاروقطار روتی رہی اور دعائیں بھی کر رہی تھی اے اللہ میری مدد کر مجھے اپنوں سے ملا دے یہ جانے بنا اس کا چار سال کا بیٹا کتنی اذیت سے ماں کو دیکھ رہا تھا اس کے آنسو اسے بڑی تکلیف دے رہے تھے اس ننھی سی جان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا اس کی ماں کیوں رو رہی ہے وہ اپنی ماں کے آنسو کی وجہ جاننا چاہتا تھا اسے اپنی ماں سے شاید محبت تھی ۔
مما آپ کیوں رو رہی ہیں جب اس ننھی سی جان کو وجہ سمجھ نہ آئی تو اس نے روتی ماں سے پوچھا ۔
 نہیں تو بیٹا میں رو تو نہیں رہی ماں نے بیٹے کو گلے لگاتے ہوے کہا مما بابا نے کچھ بولا ہے آپ سے وہ ماں کے آنسو صاف کرتے ہوے بولا جو بیٹے کی بات سن کر زیادہ روانگی سے بہنے لگے نہیں بیٹا کچھ کھو گیا ہے اسے ڈھونڈ رہی تھی ۔
کیا کھو گیا مما وہ حیران ہوتے ہوے بولا ۔
بیٹا اب ہم شاید اس گھر میں نہ رہیں ۔
لیکن کیوں مما بیٹے نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔بابا بھی ساتھ چلیں گے ۔نہیں بیٹا ماں نے اپنے بیٹے کا ماتھا چومتے ہوے بے بسی سے کہا ۔
 تم ابھی تک گئی نہیں ہو ساجد جب واپس آیا تو غصے سے بولا ۔ساجد میں کہاں جاؤں گی کچھ تو رحم کرو تم شادی کرو میں کچھ نہیں بولو گی لیکن مجھے تو مت نکلو ابھی وہ اتنا ہی بولی کہ ساجد شدید غصے میں آتے ہی اپنی بیوی کو تھپڑ مارنے لگا اور غصے میں منہ سے جھاگ نکلتے ہو ے بولا
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوے گھر سے باہر کھڑا کر دیا ۔
وہ ننھی سی جان روتا رہا بابا مما کو چھوڑو اس ظالم نے اسے بھی دھکا دے کر گھر کا گیٹ بند کر دیا
ساجد دروازہ کھولو خدا کے لیے دروازہ کھولو میں کہاں جاو گی ساجد وہ دروازہ کھٹکھٹاتی رہی وہ چیختی رہی اس کے چیخنے سے اسے گلے میں تکلیف کا احساس ہوا لیکن اس تکلیف سے گھر سے نکالی ہوئی تکلیف زیادہ تھی اس ظالم کو ذرا بھی رحم نہ آیا ۔ وہ روتی رہی یہ بات بھی تو وہ بھول گی تھی وہ تو اسے طلاق دے چکا ہے۔
 مما مت روئیں اس ننھی سی جان کو ماں کے آنسو بڑی تکلیف دیتے تھے وہ بیٹے کی محبت پا کر اور شدت سے رونے لگی وہ روتے ہوے زمین پر بیٹھ گی وہ ماں کے آنسو صاف کر رہا تھا ۔
بوا اماں جو ان کی ہمسائی تھی دروازے سے باہر جھانکتے ہوے بولی بیٹی تم یہاں کیوں بیٹھی ہو اور اتنا رو کیوں رہی ہو ۔ ساجد نے کچھ بولا ہے تم سے ۔
 نہیں اماں وہ بھلا مجھے کیا بولے گا اس نے جھوٹ بولتے ہوے کہا ۔
بیٹا میں آتی ہوں دروازہ کھولواتی ہوں ۔اماں پھر سے بولی ۔
نہیں نہیں اماں میں تو مارکیٹ جا رہی تھی وہ روتے ہوے بولی اس نے پھر جھوٹ بولا
 چلو بیٹا وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی ۔ اماں اسے پکارتی رہ گی ۔ مما ۔رانیہ جو اپنے خیال میں کہیں گم تھی بیٹے کی پکار پر اپنی دنیا میں واپس آتے ہوے بولی جی بیٹا مما آپ نے تو بولا تھا جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے بیٹے کی اس بات پر وہ سکتے میں آ گی
 بیٹا کبھی کبھی انسان کو نہ چاہتے ہوے بھی جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے وہ بہت چھوٹا تھا ۔اس بات سے بے خبر وہ مطمئن ہوا یا نہیں چپ ضرور ہو گیا ۔ وہ جیسے ہی سڑک پر قدم رکھا اک تیز رفتار گاڑی نے اسے ٹکر مار دی وہ دور جا گری ۔مما مما وہ بچہ روتا ہوا دوڑاتا ہوا اس عورت کے پاس آ کر رونے لگا جو خون سے لت پت پڑی تھی۔
سارا مجمہ آ کٹھا ہو گیا سارے لوگ جمع ہو گے کوئی کچھ بول رہا تھا تو کوئی کچھ۔ اسے کوئی ہسپتال تو لے جاے اک بڑی عمر کی عورت کو خیال آیا وہ کار والی عورت باہر نکل آئی سوری پتہ نہیں کیسے یہ میری گاڑی کے آگے آ گئی وہ شرمندگی سے بولی میں نے بریک بھی لگائی وہ اور بھی شرمندہ ہوئی میں اسے ہسپتال لے کر جاتی ہوں سب کی مدد سے اس نے اس عورت کو اٹھا کر اپنی کار کی پچھلی سیٹ پر لٹایا اور خود گاڑی چلاتے ہوے ہسپتال کا رخ کیا ۔
مما مما انکھیں کھولو وہ بچہ کافی دیر سے رو رہا تھا اسے اس بچے پر بڑا ترس آیا بیٹا ہم چل رہیں نہ ہسپتال آپ کی مما بالکل ٹھیک ہو جائے گی وہ بچے کو کم خود کو زیادہ تسلیاں دیتے ہوئے بولی ۔
وہ ٹھیک تو ہے نہ ڈاکٹر صاحب وہ ڈاکٹر کو دیکھ کر بولی ۔ جو اس کو کافی پریشان لگ رہا تھا دیکھیں ہم ابھی کچھ نہیں کہ سکتے آپ بس دعا کریں ان خاتون کا خون کافی بہہ چکا ہے آپ پیشنٹ کو کافی لیٹ لے کر آئی ہیں ہم پھر بھی پوری کوشش کریں گے ۔آگے اللہ کی مرضی ڈاکٹر یہ کہ کر آگے بڑھ گیا ۔
رانیہ اپنے ماں باپ کی ایک ہی بیٹی تھی اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے بابا اک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے ۔ ماں نے بڑی مشکلوں سے اسے پالا وہ لوگو کے کپڑے سیتی لوگو کے گھروں کا کام کرتی تب ہی اپنے گھر کا چولہا جلا پاتی اماں جب میں پڑھ لوں گی پھر تم کام نہیں کرنا ایک دن وہ ناشتہ کرتے ہوے اپنی ماں سے بولی اماں جو ناشتہ بنا رہی تھی اس کی بات سن کر مسکرا پڑی اچھا ٹھیک ہے ابھی تم صرف پڑھائی پر توجہ دو میری اماں نہ بنو ۔ اماں میں جب تم کو کام کرتے دیکھتی ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے پر کیا کرو میرے بس کی بات نہیں کوئی نوکری ہی نہیں دیتا وہ ماں سے لاڈ کرتے ہوے بولی بیٹا ابھی تو کتنا پڑھی ہے ابھی تو اٹھویں میں ہو تجھے کون نوکری دے گا آج کل تو سولہ پڑھے ہوے کو بھی مشکل سے جاب ملتی ہے ۔اماں میں اب کی بات نہیں کر رہی جب میں پڑھ لو گی تب وہ ماں کو پیار کرتے ہوے پھر بولی اچھا بابا بعد کی بعد میں دیکھیں گے ابھی تو اٹھ اپنے اور میرے لیے چائے  بنا دے اچھا اماں وہ یہ کہ کر کچن میں چلی گی۔
وہ چائے بنا کر ایک کپ اس نے اماں کو دی اور اپنے کپ میں چاے ڈال کر اپنے کمرے میں پڑھنے چلی گی چلو آج سکول نہ جا سکی کل والا ہوم ورک ہی کر لو وہ دل میں سوچ رہی تھی ابھی وہ کتاب پکڑے بیٹھی تھی کہ موبائل پر کال کی آواز پر مڑ کر موبائل اٹھا لیا سکرین پر جو نمبر تھا اسے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گی ہائے  وہ موبائل کو کان پر رکھتے ہوئے  بولی
 ہائے  دوسری طرف بھی خوبصورت سی آواز آئی ہما میری جان کیسی ہو وہ اپنی خالہ کی بیٹی سے بولی ان دونوں کی عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا شروع سے ہی ان دونوں میں بے تکلفی تھی اک ہی کلاس میں پڑھتے تھے گھر بھی دور نہیں تھا کیا کر رہی ہو ہما نے رانیہ سے پوچھا ۔
پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو تم آج سکول نہیں گئی رانیہ نے جواب دیتے ہوے سوال بھی کر دیا
نہیں یار تو نہیں تھی تو مزا کہاں آنا تھا اچھا سن مما بولا رہی ہے میں بعد میں کال کرو گی یہ کہہ کر ہما نے کال کاٹ دی ۔۔
 رانیہ کی ماں  کے تین بہن بھائی تھے بڑی آمنہ رانیہ کی ماں ان کی ایک ہی بیٹی تھی رانیہ ۔پھر بھائی تھا رمضان اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اس کی بیوی ساجدہ بڑے صبر والی تھی وہ بڑی نیک عورت تھی جوانی میں اس نے اپنے شوہر سے بہت کہا دوسری شادی کر لو لیکن رمضان نہ مانا اللہ نے اولاد دینی ہو گی تو تجھ سے ہی ہو گی میں شادی نہیں کرو گا جب جب اسے کوئی کہتا رمضان تو شادی کر لے وہ سب سے یہی بولتا اور پچیس  سال ہو گے پھر بھی اولاد نہ ہو سکی وہ اللہ کی رضا پر آج بھی راضی تھا پھر تیسرے نمبر کی بہن عابدہ اس کی دو بیٹیاں تھی بڑی ہما دوسری حنا جو ہما سے پانچ سال چھوٹی تھی رانیہ اور ہما کی دوستی بھی بہت تھی اور تھی بھی کزن اس لیے اٹچ بھی تھی دوسری سب سے بڑی وجہ ان دونوں کا کوئی بھائی بھی نہیں تھا حنا جب تین ماہ کی تھی عابدہ نے اٹھ کر اسے اپنے بھائی رمضان کی گود میں ڈال کر بولی لے اس کو سمبھالو آج سے یہ تیری بیٹی ہے اس کو پا کر رمضان اور ساجدہ کی زندگی میں تو جیسے بہار آ گئی  وہ بہت خوش تھے اور بیٹوں سے بھی بڑھ کر پیار دیا یہ بات صرف بڑے جانتے تھے حنا عابدہ کی بیٹی ہے رمضان نے سب کو یہی بتایا اللہ نے بھی اس کو بیٹی دی ہے سب خوش تھے ساجدہ اور رمضان نے کیسی چیز کی کمی نہیں دی اسے جو بھی پسند ہوتا وہ اسے ہر صورت لے کر دیتے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.