*Tery Jasa Yar Kahn *


 ٭تیرے جیسا یار کہاں ٭
تحریر: سحر اسامہ
قسط نمبر:9
سارے کاموں سے فارغ ہوکر جب منفرح سونے کیلئے لیٹی تو اچانک اسے آج کے دن کا سخت ترین وقت ا یاد آیا اور اسکے ساتھ ہی وہ شخص بھی اسے یاد آیا جسکی وجہ سے وہ آج ہر چیز کی سلامتی کے ساتھ اپنے گھر بیٹھی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اب ہی وہ اسے یاد آیا تھا بلکہ اسے گھر چھوڑ کے جانے کے بعد سے مسلسل اسکا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے آتا رہا تھا ہر بار وہ اپنا ذہن ہٹاتی کہ کیوں تم اس شخص کے ۔ بار میں بار سوچ رہی ہو لیکن وہ ایک چہرہ دوبارہ اسکے ذہن میں آجاتا گویا اس وقت سے لیکر اب تک وہ ایک ہی چہرہ ایک ہی شخص تھا جو اسکے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا ۔ اور اب بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ آخر کیا چیز تھی جو شریم کو منفرح کی طرف کھینچ لائی تھی بنا کسی رابطے کے اس نے اسے ڈھونڈ لیا تھا۔ 
وہ ابھی انھی خیالوں میں گم تھی کی جب اسے دھیان آیا کہ میں نے تو اسے شکریہ تک نہیں کہا تھا۔ وہ اس وقت میری جان اور میری عزت دونوں کا محافظ بنا تھا۔ 
اور پھر اسکا یہ کہنا۔ ڈرو مت میں ہوں نا۔
اس وقت اسکے اس جملے کو سوچ کر دوبارہ اسکی وہی حالت ہوئی تھی جو اس وقت کار میں ہوئی تھی جب شریم نے یہ کہا تھا۔
بار بار اسکے ذہن میں بس ایک ہی جملے کی بازگشت تھی۔ اب ڈرو مت میں ہوں نا۔ 
اسکے اس سکوت کو موبائل کی رنگ ٹون نے توڑا۔ اسنے ایک دم گھبرا کر موبائل اٹھایا تو جو نام وہاں چمک رہا تھا اسے دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی تھی اور ساتھ ہی ایک خیال بھی  آیا کہ زکوٹا جن تمھیں یاد کیا اور تم حاضر بھی ہوگئے۔
منفرح کا موبائل نمبر اسنے آج اسے گھر ڈراپ کرنے کے بعد ہی لیا تھا تاکہ آئندہ ایسی کوئی بھی مشکل یا پرہشانی ہو تو وہ فوراً اسے کال کرے۔ 
 موبائل نمبر بتانے کے بعد شریم نے کہا تھا۔
"میرے نام سے سیو مت کرنا۔"
"اچھا پھر کس سے کروں" ۔ منفرح نے بس ایک نظر اٹھا کر اوپر دیکھا پتہ نہیں کیوں لیکن وہ آج اسے بار بار دیکھنے سے گریز برت رہی تھی۔
"وہی جو آپ نے میرا نام رکھا ہے۔ "شریم نے چہرے پر مسکراہٹ لئے اسے کہا تھا۔ وہ نہیں دیکھ رہی تھی لیکن شریم کی نظریں مسلسل اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ اسے آج اسکے چہرے پر کچھ الگ رنگ نظر آرہے تھے اور جو چیز سب سے زیادہ آج اسے اسکی طرف دیکھنے پر مجبور کررہی تھی وہ اسکی جھکی نظریں تھیں۔
"اچھا لیکن اس سے کیوں سیو کروں آپکو تو وہ پسند نہیں "۔ وہ خود کو موبائل میں مصروف ظاہر کررہی تھی۔
"آپ سے کس نے کہا مجھے نہیں پسند بلکہ مجھے تو  ہہت اچھا لگتا ہے۔ پوچھیں کہوں"؟ اس نے خود ہی اسے سوال کرنے کا کہا۔
اگر وہ نہ کہتا کہ پوچھو تو وہ کبھی نہ پوچھتی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اسکے جواب میں وہ کوئی ایسی بات ہی کہے گا جس کا مطلب اسے شروع میں تو سمجھ نہیں آتا تھا لیکن اب خوب سمجھ آتا ہے اور صرف سمجھ نہیں آتا بلکہ اس کی دل کی دنیا میں ایک ہلچل مچادیتا ہے۔
"کیوں؟" اب وہ اسکے سامنے سے ہٹ کر ڈائننگ ٹیبل پر رکھے برتن سمیٹ رہی تھی تاکہ اسکے جواب دینے پر اپنی حالت اس سے چھپا سکے۔
"کیونکہ آپ نے جو رکھا ہے۔" شریم نے آجاتی آواز میں کہا اور سکے کہتے ہی وہ برتن آٹھا کر کچن کی طرف رخ کرگئی۔
ابھی وہ اسکے زکوٹا جن نام پر نمبر سیو کروانے کے بارے میں سوچ رہی تھی جب رنگ ٹون دوبارہ بجنے لگی۔
"جی اسلام علیکم"۔ ریسیو کئے بنا چارہ نہ تھا کیونکہ اگر وہ ریسیونہ  کرتی تو اسے ڈر تھا کہ یقینا وہ پریشان ہوجائے گا اور اسکا کیا بھروسہ اسی وقت یہاں پہنچ جائے۔
"وعلیکم اسلام اتنی دیر سے کال ریسیو کیوں کی میں بس کار نکال کر نکلنے والا تھا"۔ منفرح کو اپنے خیال کی تصدیق معلوم ہوئی۔
"وہ میں کام میں مصروف تھی "۔ جھوٹ بولے بنا چارہ نہ تھا اب کیا وہ یہ بتاتی کہ وہ اسے سوچنے میں مصروف تھی۔
"اوکے دادی کیسی ہیں۔" بات کو بڑھانے کیلیے دادی کا پوچھا ورنہ مقصد تو صرف اس سے بات کرنا اسکی آواز سننا تھا۔
"جی ٹھیک ہیں"۔ مختصر جواب دیا ورنہ اسکا دل تو چاہا تھا کہ بول دے ابھی تو دیکھ کر گئے ہیں آپ ۔
اوکے۔ شریم نے بس اتنا ہی کہا اس سے کوئی بات نہ بن پائ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو پھر اصل بات بتادی جس کیلئے کال کہ تھی ۔
"وہ اصل میں میں نے اس لیے کال کی تھی کہ آپ صبح جانے سے پہلے نیوز دیکھ لئیگا کیونکہ ہوسکتا ہے کل بھی اسٹرائیک ہو سو اگر اسٹرائیک ہو تو میں تو یہ کہونگا آف کرلیں" ۔۔ شریم نے اسے اپنی طرف سے مشورہ دیا۔
"جی ٹھیک ہے ویسے بھی میرا ارادہ کل آف کرنا کا ہی تھا۔" منفرح نے اسے کل کی بابت آگاہ کیا۔
"آپ ٹھیک ہیں اب" ۔ جو بات وہ اتنی دیر سے پوچھنا چاہ رہا تھا ہمت کرکے پوچھ ہی لی۔
"جی میں ٹھیک ہوں الحمدللہ۔۔ "
"چلیں ٹھیک ہے مجھے بس یہی بتانا تھا اوکے اللّٰہ حافظ اپنا اور دادی کا خیال رکھیے گا۔"
وہ کال کٹ کرنے ہی لگا تھا جب منفرح کی آواز آئی۔
"ایک منٹ رکیے وہ تھینکس آ لوٹ۔"۔ اس نے جلدی سے کہا 
"کس چیز کے لئے۔" شریم نے اس سے فوراً پوچھا تھا۔
"آج آپکے آنے کے لئے اگر آپ نہ آتے تو پتہ نہیں میں کس طرح گھر پھنچ پاتی"۔ وہ کب سے اسے شکریہ کہنے کا سوچ رہی تھی بالآخر کہہ ہی دیا۔
"شکریہ ادا نہ کریں منفرح کیونکہ میں اپنی چیز اور اپنی عزت کی حفاظت کرنا اچھی طرح جانتا ہوں۔ "اوکے اللّٰہ حافظ۔ شریم نے کال کاٹ دی۔
لیکن اس اندھیری رات میں جب چاروں طرف خاموشی تھی اسکی کہہ ہوئ بات پر منفرح کے دل کی دھڑکنیں اتنی تیزی سے چلنا شروع ہوئیں کہ اسے لگا اسکا دل ابھی باہر آجائےگا۔ اسنے گھبرا کر فوراً اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور تکیہ سیٹ کرکے لیٹ گئی ۔ آنکھیں  سونے کیلئے بند کیں لیکن آج اسکی آنکھوں سے نیند بہت دور تھی بار بار آنکھوں کو بند کرنے پر اسکا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے آجاتا اور وہ گھبرا کر آنکھوں کھول دیتی۔ آنکھوں کی یہ آنکھ مچولی بہت دیر تک جارہی پھر تھک ہار کر آخر کار اسے نیند آہی گئی۔
         ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ماضی۔۔۔
دانش اپنے گھٹیا کام میں مسلسل مصروف تھا اسے یقین تھا کہ اگر وہ مستقل کامی کی ذہن سازی کرتا رہا تو وہ ایک دن اسے متنفر کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائےگا۔ 
دانش کی زندگی کا بس اب ایک ہی مقصد رہ گیا تھا کسی بھی طرح شمسہ کو حاصل کرنا کیونکہ وہ ایک خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی تھی ایسی لڑکی کا ساتھ ہر لڑکے کی خواہش ہوسکتا ہے لیکن وہ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا اور اب سء پہلے اسے کامی کو راستے سے ہٹانا تھا۔
وقت اپنی تیز رفتاری کے ساتھ گزرتا جارہا تھا۔ کامی اور اظہر کے ساتھ ساتھ اب دانش بھی کاروبار کو سنبھال رہے تھے۔ اظہر نے کامی کو بہت سمجھایا کہ دانش غیر لڑکا ہے اس پر اتنا بھروسہ نا کیا جائے۔ لیکن پتہ نہیں دانش نے کامی پر کیا جادو کیا تھا کہ اب کامی اظہر سے بھی زیادہ دانش کا اپنا دوست سمجھنے لگا تھا ۔
دانش کی باتیں اپنا کام دکھا رہی تھیں کامی نے آہستہ آہستہ اظہر سے کاروبار میں مشورہ اور رائے لینا چھوڑ دی تھی وہ چاہنے لگا تھا کہ وہ اس سارے کاروبار کا اکیلا مالک ہو اگر اظہر وہاں کام کرے تو ایک عام ورکر کی طرح۔ جبکہ اظہر پچھلے تین سالوں سے اتنی محنت کررہا تھا کہ کم از کم اسکا درجہ وہاں عام ملازمین والا نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
اظہر نے اس بات کی بابت ابا جان کو بھی بتایا لیکن جب ابا جان نے کامی کو سمجھایا کہ بیشک یہ سب کاروبار تمہارا ہے لیکن اظہر نے بہت محنت کی ہے تمہارے ساتھ اسے برقرار رکھنے میں تو اسے اس طرح کاروبار سے بے دخل نہ کرو۔
کامی نے اس بات کو خاموش رہ کر سنا ضرور لیکن دانش کی زہر بھری باتوں کے سبب اسکے دل نے ان باتوں کو الٹا سمجھا اور دماغ میں الٹے خیالات جگہ لینے لگے۔
اسے لگنے لگا کہ واقعی اس کے کاروبار کی وجہ سے ہی اسے اس گھر میں رکھا ہو ہے اگر وہ اتنا امیر نہ ہوتا تو شاید ابا جان اسے اپنے ساتھ نہ لاتے۔
اسے اب اظہر اور اصغر دونوں ہی اپنے آفس میں برے لگنے لگے تھے۔ وہ ان دونوں۔ کے بغیر ہی میٹینگ اٹینڈ کرلیتا نہ ان سے مشورہ لیتا نہ انہیں کسی نئے پراجیکٹ کے بارے میں بتاتا لیکن ان سب کاموں میں اسکے ساتھ دانش ضرور ہوتا ۔ 
کامی نے ایک نئی برانچ کا آغاز کیا تھا جسکے بارے میں ابا جان کو علم ہوذ تو انھوں نے کہا۔
"بیٹ کامی میں سوچ رہا تھا کہ تم تو یہاں مصروف ہوتے ہو تک کیوں نا اس نئی برانچ پر اصغر کو بطور مینیجر بھیج دو ماشاء اللّٰہ اب وہ بھی پڑھ چکا ہے سنبھال لیگا انشاللہ"۔ ابا جان کی ایک ہی خواہش کہ ان کے سب بچے مل کر رہیں اسی خواہش کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کی اصغر بھی محنت کرے تاکہ تینوں اس کاروبار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں اور کوئی ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکے کے یتیم کا مال بیٹھ کر کھارہے ہیں۔
کامی بے شک بہت باغی ہوتا جارہا تھا لیکن اب بھی اسمیں اتنی تمیز باقی تھی کہ وہ ڈائریکٹ ابا جان سے کوئی خلاف بات کہتا یا ان کے سامنے انہیں غلط کہتا اور اپنی من مانی کرتا۔
"اچھا کل آفس جاکر دیکھونگا اس بارے میں۔" اس نے ابھی اپنی طرف سے انہیں ٹالا۔
لیکن داؤد صاحب کو ایسا لگنے لگا تھا کہ اب کچھ غلط ہونے والا ہے اسی لئے انھوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ بہت جلد کامی سے بات کریں گے اگر وہ ان سب سے الگ ہونا چاہتا ہے تو وہ وہی کریں گے جو اسکی خوشی ہوگی۔ لیکن کامی نے اس بات کا صحیح وقت تک انتظار بھی نہ کیا اور خود ہی تمام فیصلے کر لئے۔
         ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

صبح اسکی آنکھ موبائل فون کی ٹون سے کھلی۔ آنکھوں کو مسل کر کھولتے ہوئے اس نے موبائل اٹھایا۔
مہر کالنگ
"آگئ تمہیں میری یاد"۔ ریسیو کرتے ہی منفرح نے شکوہ کیا۔
"اچھا مادام آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے آپ تو میری یاد میں ردیف قافیہ ایک کررہی ہیں اور میں ہوں کہ آپکو بھول بیٹھی ہوں۔ کل کتنی کال کی تمہیں تم نے نہیں اٹھائ کہاں تھیں تم۔ "
"یار تمہیں پتہ ہے مہر کل واپسی میں میرے ساتھ کیا ہوا۔"
کیا ہوا اللہ خیر کرے۔
"یار کالج سے باہر آئی تو پتہ چلا ٹرانسپورٹ ہڑتال ہے سب کسی نہ کسی کے ساتھ چلے گئے ، میں اکیلی رہ گی اور تم بھی نہیں تھیں میرا موبائل بھی چارج نہیں تھا میں کتنا پریشان ہوگئی تھی مہر۔"
"اہ سو سیڈ پھر کیسے آئیں تم منفرح"۔ مھر کو سچ مچ بہت دکھ ہوا اسکی روداد سن کر۔
"میں پھر کیسے آئی" ۔منفرح اسے بتاتے بتاتے رکی تھی اسے لگا ابھی مہر کو نہیں بتانا چاہیے وہ سوال کریگی بہت سارے اور وہ کیا جواب دیگی۔ لہذا اس نے بات گھمائ۔
"پھر کافی دور تک اللّٰہ کا نام لیکر پیدل چلتی رہی آگے جاکر ایک آٹو نظر آیا اسی میں بیٹھ کر آگئی"۔ اس نے بول کر آخر میں اپنے لب کاٹے۔
"اوہ الحمدللہ چلو پہنچ تو گئیں نا گھر۔"
ہاں الحمدللہ۔ منفرح کو لگا اس نے جھوٹ بول کر ٹھیک نہیں کیا لیکن وہ ابھی اسے اصل بات کیسے بتاتی۔
دادی کی خیریت معلوم کرکے منفرح نے وہاں سب کا حال چال پوچھا اور پھر کال ختم کردی۔ لیکن کال کے کٹنے کے بعد بھی اسے لگا کہ اسے مہر کو سچی بات بتانی چاہیے تھی۔ چلو جب آئے گی نا جب بتادوںگی سب۔
     ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
 ماضی۔۔۔
کامی آفس جانے کیلئے تیزی سے نیچے کی جانب رواں تھا کہ اسے شمسہ کے کمرے سے اسکی باتوں کی آواز آئی۔
"نادی میں بہت خوش قسمت ہوں گھر میں بھی چونکہ لاڈلی تھی اسی لئے بنا مانگے ہی ہر خواہش پوری ہو جاتی تھی اور اب تو اتنے بڑے بزنس مین سے میری شادی ہوگی تم دیکھنا میں کیسے کامی سے اپنی ہر بات منوایا کرونگی اور تم دیکھنا وہ میرے نخرے اٹھایا بھی کریگا۔" شمسہ اپنی دوست نادیہ سے باتیں کررہی تھی ایسا نہیں تھا کہ وہ ایک لالچی یا عیاش لڑکی تھی بلکہ وہ تو ایک بہت اچھی لڑکی تھی اور اسکا یہ کہنا کہ کامی میرے نخرے اٹھایئگا یہ اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ اسے اپنا غلام بنا کے رکھتی یا بس اس سے دولت کیلئے شادی کررہی تھی بلکہ ہر لڑکی کی طرح شمسہ بھی اپنے دل میں کامی کو ایک بہت بڑے عہدے پر بٹھا چکی تھی وہ اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھنے لگی تھی وہ سمجھنے لگی تھی وہ اسکا شہزادہ ہوگا اور میں اسکی شہزادی اسی وجہ سے اسنے کہا تھا کہ میں اسے اپنے نخرے دکھاونگی۔
لیکن دروازے کے باہر کھڑے کامی نے اس بات کو ایک الگ ہی رخ میں لیا اور یہی وہ وقت تھا جب اس نے جذبات میں آکے ایک ایسا قدم اٹھایا جس کا پچھتاوا اسے ساری زندگی رلاتا رہا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.