***Tery Jasa Yar Kahan ***


٭تیرے جیسا یار کہاں ٭
تحریر: سحر اسامہ
قسط نمبر:10
کامی کے والد صاحب نے اپنی ایک برانچ کراچی میں بھی قائم کر رکھی تھی جسکو انکے انتقال کے بعد انکے ایک اچھے دوست اور قابل اعتماد مینیجر چلا رہے تھے جس دن سے کامی نے شمسہ کی وہ بات سنی تھی اور اس دن ابا جان کا یہ کہنا کہ اصغر اور اظہر کو بھی کاروبار میں شریک رکھے اس کے بعد سے اسنے اپنا یہاں کا سارا کاروبار بھی آہستہ آہستہ کراچی شفٹ کرنا شروع کردیا۔اسکی خبر اس نے کسی ایک کو بھی نہ ہونے دی دانش کو بتایا لیکن دانش کو اسکے کاروبار سے کوئی لینا دینا نہ تھا وہ تو بس اس لئے خوش تھا کہ شکر ہے یہ جائیگا تو شمسہ میری ہوجائیگی۔
کامی کو شمسہ سے کوئی خاص قسم کی محبت نہ تھی جو اسکو اس طرح چھوڑ جانے پر آڑ بن جاتی ہاں وہ اسے اچھی لگتی تھی ہم سفر بننے کیلئے ایک ا ھی لڑکی تھی لیکن اس دن اس کی گفتگو سننے کے بعد کامی کو لگا کہ وہ شمسہ کہ غلط سمجھ رہا تھا اسے لگا کہ شمسہ ایک لالچی لڑکی ہے جو اس سے شادی صرف دولت کیلئے کررہی ہے۔ اسی لئے اسکا دل شمسہ کی طرف سے فوراً بد گمان ہوگیا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ہمیشہ کیلئے یہاں سے چلا جائے گا ۔
وقت گزرتا رہا کامی نے اب ابا جان دونوں بھائیوں سے بات چیت بہت کم کردی تھی۔ اسلام آباد کا تقریباً تمام کام کراچی شفٹ کردیا گیا تھا اظہر اور اصغر کو اس کی خبر اس لئے نہیں ہوسکی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر ان دنوں میں ان دونوں کو نئ برانچ کی طرف بھیج دیا تھا۔
اسکا پلان کچھ یوں تھا کہ وہ اسلام آباد کی مین  برانچ کا سب کام کراچی شفٹ کردیگا اور خود بھی ایک دن بنا بتائے کراچی چلا جائے گا کراچی پہنچ کر اپنی نئی برانچ جو اصل میں چونکہ ابھی نئ بنائی گئی ہے نہ وہ ابھی پوری طرح کھڑی ہوئی ھے نا ابھی اسمیں اتنی پائیداری ہے کہ وہ کامی کو کوئی فائدہ دے لہذا کراچی جاکر وہ اس برانچ کے تمام کاغذات جو وہ ابھی خفیہ طریقے سے بنوا چکا تھا وہ اظہر کے نام کردیگا اور اس برانچ سے اپنا اور اپنی کمپنی کا نام ختم کروالیگا۔
وہ جانتا تھا اس طرح کرنے سے وہ برانچ بلکل بند ہو جائے گی اگر بند نہ بھی ہوئ تو ان دونوں بھائیوں کو اسے کاروبار کی دنیا میں جگہ دینے کےلئے بہت محنت کرنا پڑیگی لیکن وہ اب مذید اپنے کاندھوں پر انکا بوجھ نہیں رکھ سکتا ۔
وہ اس وقت کو بھول چکا تھا جب وہ ایک یتیم اور بے آسرا تھا تب ابا جان نے اسکے سر پر دست شفقت رکھا تھا اسے گھر لائے اپنے بیٹوں جیسا مقام دیا اسکے جوان ہونے تک اسے اپنے خرچے سے پڑھایا لکھایا اسکے کاروبار میں سے صرف اس پر خرچ کیا اپنی اور اپنی اولاد کی ضروریات کی لئے ایک پائی بھی اسکے مال میں سے نہ لی اسے کبھی یتیمی کا احساس نا ہونے دیا وہ سب بھول گیا تھا۔
اسے یاد رہا تو بس اتنا یاد رہا کہ یہ سب نال ودولت یہ سارا بزنس صرف میرا ہے اس پر کسی کا حق نہیں۔ حالانکہ وہ جانتا تھا اس کے کاروبار میں اس سے بھی زیادہ محنت اظہر نے کی تھی لیکن اس وقت اس کے آنکھوں پر بغاوت کی سیاہ پٹی بندھی گئی تھی جس کی وجہ سے اس اس پار کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
      ~~~~~~~~~~~~~~~~~~
یقین ہے کہ وہ نہ آئیں گے ہم سے ملنے۔۔
پھر یہ میرے دل کو انتظار کیسا ہے۔۔۔
دن کے دو بجنے کو آئے تھے وہ گھر کا سارا کام کرچکی تھی کھانا بھی تیار کرلیا تھا لیکن ایک عجیب سی بے چینی تھی جو اسکے دل کو لگی ہوئی تھی ۔بار بار کبھی گھڑی کو دیکھتی تو کبھی دروازے کو ۔ بالآخر جو سوال وہ کرنا چاہ رہی تھی وہ دادی نے کر ہی ڈالا۔
"ارے یہ آج ابھی تک شریم کیوں نہیں آیا؟ اس وقت تک تو لازمی آجاتا ہے" ۔ دادی نے گھڑی دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"کوئی کام ہوگا دادی۔ اب وہ ہمارے لئے اپنے سبکام تو نہیں چھوڑ سکتا نہ ہم کوئی اتنے اہم تھوڑی ہیں اس کےلئے۔" اس کا لہجہ عجیب دکھی سا تھا۔ 
"ارے نہیں بیٹا ایسے نہ بولو بہت اہم سمجھتا ہے وہ ہمیں ."
"ہاں آپکو وہ اپنی دادی جو سمجھتا ہے۔" یہ کہتے ہوئے وہ کچن میں آگئ تھی اور اگلی بات اس نے خود سے کچن میں کہی تھی۔
پر میں اسکی کیا لگتی ہوں۔ کل سے اب تک شریم کے آنے والے مسلسل خیالات نے اسے عجیب جھنجھلاہٹ میں ڈال دیا تھا وہ پریشان ہوگئی تھی کہ وہ اسے بھول کیوں پانہیں رہی تھی اور اس سب سے جو بات اسے سمجھ آرہی تھی وہ اسے سمجھنا نہیں چاھتی تھی اسی لئے دادی سے اس طرح اسکے نہ آنے پر عجیب بات کر آئی تھی۔
دادی ایک عمر رسیدہ عورت تھیں منفرح کے اس شکوہ کے پیچھے جو وجہ انہیں سمجھ آئی تھی پہلے تو وہ اس پر مسکرائیں تھیں کیونکہ شریم کی آنکھوں میں وہ یہ جذبہ پہلے ہی دیکھ چکی تھیں اور اب منفرح کا یہ شکوہ انہیں جہاں مسکرانے پر مجبور کرگیا تھا وہیں بہت سارے شکوک بھی ساتھ لایا تھا کہ اگر انکی پوتی کی یہ خواہش یہ چاہت پوری نہ ہوسکی اس سے آگے کی سوچ انکے لئے جان لیوا تھی کیونکہ وہ جانتی تھی انکی پوتی نے ہمیشہ صرف دکھ ہی دیکھیں ہیں اب اگر اسکی چاہت بھی اسے نہ مل سکی تو وہ مکمل ٹوٹ جائے گی مکمل ختم ہو جائے گی۔
دادی اپنی سوچوں میں گم تھیں جب دادی کے تخت کے پاس رکھا منفرح کا موبائل بجا ۔۔۔
"ارے منفرح بیٹا دیکھو کس کا فون ہے۔" دادی نے اسے آواز لگائی۔
"جی دادی آئی"۔ آتے کے ساتھ ہی اس نے موبائل اٹھایا تو اسکی دھڑکن مس ہوئ ۔ جب جب میں اسے یاد کرتی ہوں اسکا فون کیوں آجاتا ہے ۔ 
زکوٹا جن نام پڑھ کر اسکے ہونٹوں پر ایک مسکان آٹھری۔
اور دادی جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں اسکی مسکان سے ہی سمجھ چکی تھیں لیکن پھر بھی انھوں نے سوال کیا۔
کس کا فون ہے بیٹا۔
"دادی یہ لیں بات کیجئے آپکے لاڈلے کی کالج ہے وہ بھی ویڈیو کال۔"۔اس نے ریسیو کرتے ہی موبائل کا رخ دادی کی طرف کیا تھا۔
"السلام علیکم دادی"۔۔ اس نے چاہت سے دادی کو دیکھتے ہی سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام بیٹا کیسے ہو سب ٹھیک ہے نا گھر میں آج آئے نہیں میں راہ تک رہی تھی"۔ انھوں نے محبت سے اسکے انتظار کے بابت بتایا۔
"ہائے دادی دل خوش کردیا یہ کہہ کر  ۔۔۔ چلیں کوئی تو ہے جو مجھے یاد کررہا ہے"۔۔۔ اسے پتہ تھا وہ پاس یہ بیٹھی ہوگی اسی لئے اس نے پیار سے شکوہ کیا ۔ اس بات سے بے خبر کی دوسری طرف کوئی اسکے آنے کے وقت کے بعد سے بار بار دروازے کی طرف دیکھ کر اسکا انتظار کررہا ہے۔
"اچھا یہ بتاؤ گھر میں۔ سب ٹھیک ہیں نا ۔۔ "
"جی دادی جان گھر میں سب ٹھیک ہیں ۔۔"
اچھا پھر تم آج کیوں نہیں آئے۔"۔۔ دل بھر گیا کیا دادی سے۔۔"
"ارے یہ کیا بات بولی آپ نے ۔۔ ابھی تو آپ سے دل جوڑا ہے ابھی کیسے بھرسکتا ہے"۔ تھوڑی دور بیٹھی کالج کے کام میں خود کو مصروف ظاہر کرتی منفرح کو لگا جیسے وہ اسے کہہ رہا ہو ۔
"وہ دراصل آج ماما نے کہا میرے ساتھ کچھ شاپنگ کروالو اسی لئے آفس بھی نہیں گیا میں بس ابھی تھوڑی دیر بعد انہیں لیکر نکلونگا میں۔۔اگر واپسی میں جلدی فارغ ہوگیا تو ضرور چکر لگذلونگا دادی انشاللہ۔۔"
"اچھا اچھا ضرور جاؤ امی کے ساتھ تمھاری کوئی بہن نہیں ہے نا اسی لئے وہ تمہیں کیکر جارہی ہونگی ۔ انکا ہاتھ بٹایا کرو کاموں۔۔"
"ارے دادی تو میں تو کب سے کہہ رہا ہوں اپنے بیٹوں کی شادی کریں بہویں لائیں ۔۔ اگر بھیا نہیں کررہے تو پہلے میری ہی کردیں۔۔ میں تو فل تیار ہوں۔۔"
ابھی وہ بات کررہا تھا جب اقصیٰ نے دروازہ ناک کیا۔
"شامی کس سے باتیں کررہے ہو ہم لیٹ ہورہی ہیں۔"
ایک لڑکی کی آواز سن کر منفرح کے کام کرتے ہاتھ یکدم رکے تھے وہ پوچھنا چاھتی تھی یہ کون ہے۔۔
لیکن مشکل تھا یہ پوچھنا مگر اسکی یہ مشکل دادی نے آسان کردی۔۔
یہ کون تھی بیٹا۔
"دادی میری کزن ہے خالہ زاد۔۔ امی اور میرے ساتھ جائے گی مال۔۔ اسکے بغیر امی کا کوئی کام پورا نہیں ہوتا اور تو اور امی تو اسے اپنی بہو بنانے کیلئے بھی تیار ہیں"۔۔ جہاں دادی کو لگا تھا کچھ ٹوٹا ہے وہیں منفرح کو لگا تھا اسکی پوری دنیا ہی ختم ہوگئی ابھی تو اس نے خواب دیکھنا شروع کیا تھا اور ابھی ہی۔۔ اسکے خیالات عجیب رو میں بھٹکنے لگے۔۔
شریم جانتا تھا وہ سن رہی ہے اسی لئے اس نے جان بوجھ کر اسے تنگ کیا تھا۔
"بڑے بھیا کیلئے مما نے خالہ سے اقصیٰ کو مانگ لیا سب راضی ہیں بس بھیا کا کہنا ہے پہلے تھوڑی ترقی کرلیں پھر کریں گے شادی انکی وجہ سے میں بھی  لیٹ ہورہا ہوں۔۔"
دادی نے طمانیت بھری سانس لی اور منفرح کا دل چاہا قریب رکھا کانچ کا گلدان موبائل میں سے ہی شریم کے سر پر دے مارے جان بوجھ کر اسے تنگ کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے دل کی حالت سمجھنے سے قاصر تھی کہ اس کا نہ آنا اسے دکھی کررہا تھا اب اسکا کسی اور لڑکی کا زکر بھی اسے اچھا نہیں لگا تھا اسکے ذہن پر وہ مسلسل چھایا ہوا تھا آخر یہ اچانک اسے ہوا کیا تھا سوچوں کے گرداب میں پھنسے وہ اس جذبے کی بار بار نفی کررہی تھی جو اسکو بہت تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔
"اچھا دادی میں نکلتا ہوں اب اللّٰہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا اور  منفرح سے کہیگا کوئی کام ہو یا کوئی مدد چاہیے ہو تو مجھے بس ایک میسج کردے میں آجاؤنگا۔" شریم کے آلفاظ اسکے کانوں میں پڑے تو وہ سوچوں سے واپس لوٹی۔
"ٹھیک ہے بیٹا اچھی طرح اپنے گھر والوں کے ساتھ خریداری کرو خدا حافظ۔۔"
اس نے موبائل واپس لیا تو دیکھا شریم نے ابھی کال نہیں کاٹی تھی لیکن اسنے موبائل ہاتھ میں لیتے ہی کال ڈسکنیکٹ کردی تھی۔
منفرح نے خاموشی سے موبائل واپس رکھا اور دوبارہ سے کالج کے کام میں مصروف ہوگی ۔۔ وہ دادی کو دکھانا چاھتی تھی کہ اس نے کوئی بات نہیں سنی بلکہ وہ تو مسلسل اپنے کام میں مصروف ہے حالانکہ حالات بلکل اسکے برعکس تھے وہ اب بھی صرف بے وجہ پین چلارہی تھی ورنہ اسکی سوچیں تو کہیں اور ہی اٹکی ہوئیں تھیں ۔

 مجھ سے بات تک نہ کی اس لڑکی نے کتنا تنگ کرتی ہے یہ مجھے زرا خیال نہیں ہے اسے میرا خیر میرا بھی دن کیسے گزریگا جب تک میں اسے تنگ نہ کرلوں۔
شریم نے مسکراتے ہوئے منفرح کو میسج سینڈ کیا 
"آپکے مجھ سے بات کرنے پر ایکسٹرا بیلنس کٹنا تھا کیا ۔"
منفرح نے موبائل کی چمکتی اسکرین دیکھی نام پڑھا اور دادی کو کچن کا کہتی باہر آگئ اسے معلوم تھا اس بندے کے میسج اسے مسکرانے پر مجبور کردینگے اور اگر اسکی مسکراہٹ کی وجہ دادی نے پوچھ لیا تو وہ دادی کو کیا بتائے گی۔
"نہیں لیکن آپ نے دادی سے بات کرنے کیلئے کال کی تھی نا "۔۔۔ پتہ نہیں وہ کیسے شکوہ کرگئی ہاں دل تھا کہ آج بار بار اس سے شکوہ کررہا تھا۔
"ہاں ویسے کی تو دادی سے ہی بات کرنے کےلئے تھی کیونکہ وہ مجھے یاد جو یاد کررہی تھی بس انکی یاد نے مجھے ان سے بات کرنے پر مجبور کردیا تھا۔۔"
وہ کب باز آنے والا تھا۔
منفرح کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں اس بے خبر کو کیا معلوم کوئی اور اسے رات بھر سے دادی تو کیا اس جہان میں سب سے یاد کررہا تھا۔ لیکن وہ اسے بتا نہیں سکتی تھی نہ ابھی نہ کبھی بعد میں۔
جب کافی دیر تک اس نے کوئی جواب نہ دیا تب شریم کا میسج آیا۔۔
"ویسے بھی بقول آپکے آپ ان لوگوں میں سے تو ہیں نہیں جن سے میں فری ہوتا ہوں"۔۔
"نہیں آپ شاید بھول رہے ہیں میرا شمار اسمیں سے ایک کیٹیگری میں ہوتا ہے ۔۔"
"جی بلکل میں بتاؤں کونسی۔۔۔"
"نہیں شکریہ مجھے معلوم ہے" ۔۔۔ شریم منفرح کے چہرے پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔
"میں خود بتادیتی ہوں ۔۔۔ old citizens.." منفرح نے مسکرا کر اسے میسج سینڈ کیا۔۔
"ارے نہیں بھئی بلکل نہیں۔ یہ آپکی کیٹیگری نہیں ہے آپکا شمار تو خوبصورت لڑکی میں ہوتا ہے۔۔ "
اقصیٰ ایک بار پھر ناک کرنے آئی تھی لیکن وہ تو دنیا کا سب سے اہم کام کرنے میں مصروف تھا۔۔
میسج سینڈ کرکے اب وہ کھلکھلا کے ہنسا تھا اور دوسری طرف منفرح کے ہاتھ سے موبائل ہی نیچے گر گیا تھا ۔۔۔ اس نے جلدی سے موبائل اٹھایا اوپر رکھا اور مسکراتی ہوئی کام میں مصروف ہوگئی۔۔
اقصیٰ اسکی کھلکھلاہٹ سن کر کمرے میں آگئی تھی سب ٹھیک ہے نا تم کس سے باتیں کررہے ہو جو اتنی زور زور سے ھنس رہے ہو۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔
"ارے یار وہ نبیل سے بات کررہا تھا چلو بس چلتے ہیں میں زرا بال ٹھیک کرلوں"۔ شریم اپنی مسکراہٹ چھپاتا موبائل وہیں رکھ کر شیشے کے سامنے ذکر ہیئر برش کرنے لگا۔
جبکہ اقصیٰ نے اسی وقت کو غنیمت جانا اور آہستہ سے موبائل اٹھایا میسج بھیجنے والے کا نام پڑھا تو اسکی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پوری کی پوری کھل گئیں۔۔
"آہممم ۔۔ تو کون ہے یہ جسکا نام اپنے زندگی سے سیو کررکھا ہے۔۔"۔ وہ موبائل اسکی نظروں کے سامنے کرتی  ہوئی بولی۔۔
"اوئے کسی موبائل میں جھانکنا کتنا ال مینرڈ کام ہے تمہیں۔ پتہ نہیں ہے۔۔۔ بھیا کو بتانا پڑیگا بھابھی کو تمیز سکھائیں" ۔۔۔ شریم نے موبائل سائڈ جیب میں ڈالتے ہوئے اسے ٹیڑھی نظروں سے دیکھا۔
"شریم میں تمہاری بہن ہوں اور تم کہتے تھے ہر بات مجھے بتاؤ گے اب مجھے بتارہے ہو یا میں نیچے جاکے خالہ انی کو بتاؤں"۔۔ وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔
"بھابھی ایسا کچھ نہیں ہے یہ تو بس ایسے ہی"۔۔وہ ابھی کسی کو کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا جب تک منفرح اور دادی سے بات نہ کرلے۔۔
"شریم دیکھو میری بات سنو اگر یونہی تم کسی سے ٹائم پاس کررہے ہو تک میری بات مانو نا کرو کیونکہ ہوسکتاہے وہ لڑکی سیریس ہو اور اگر تم بھی سیریس ہو ایسا کچھ بھی ہے تو کم از کم مجھے ضرور بتاؤ تاکہ میں خالہ اور خالو تک بات پہنچانے میں تمھاری کوئی ہیلپ کرسکوں۔۔ کیا تم مجھے اپنی بہن اور دوست نہیں سمجھتے۔۔"
اچھا ٹھیک ہے بتاتا ہوں پہلے امی کو نیچے آواز لگادو کہ ہم بس ابھی آتے ہیں ۔۔
اقصیٰ نے فوراً انی کو بتایا اور واپس شریم کے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔
"ہاں ایک لڑکی ہے ابھی چند دن ہوئے ہیں اس سے ملے مجھے اچھی لگتی ہے بس وہ۔۔۔ "
صرف اچھی لگتی ہے یااااا۔۔۔ اقصیٰ نے اسے خوشمگیں نگاہوں سے گھورا۔۔
"میں سیریس ہوں اقصیٰ بھابھی۔۔ لیکن ابھی میں نے اسے نہیں کچھ بتایا ہے اسی لئے ابھی ماما کو نہیں بتانا فی الحال ۔۔پہلے میں اس تک یہ بات پہنچا دوں اسکی رضا مندی کولوں پھر۔۔۔"۔

"کیسی ہے وہ کیا نام ہے تم اس سے کیسے ملے مجھے سب بتاؤ نا۔۔۔"اقصئ اسکے بارے میں سب کچھ جاننے کیلئے بہت پرجوش تھی۔۔
شریم اسے ساری تفصیل سے آگاہ کرنے لگا۔۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ماضی۔۔۔
سخت گرمیاں اپنے جوبن پر تھیں لوگ زرا کم ہی باہر نکل رہے تھے کیونکہ باہر تیز دھوپ تھی ایسے میں داؤد بیگ ولا بھی مکمل خاموشی میں ڈوبا تھا یہ خاموشی کسی طوفان سے پہلے کی خاموشی لگ رہی تھی ۔۔ گھر میں چند ہی لوگ تھے۔
 ابا جان جو اپنے کمرے میں اخبار پڑرہے تھے چند ملازم اور شمسہ جو اپنے سب سے اہم مشغلہ کتابیں پڑھنے میں مصروف تھی۔۔ کتب بینی اسکا شوق تھا جو اسے ابا جان سے ورثہ میں ملا تھا۔۔ تاریخی کتابوں سے لیکر شاعری ناول آرٹ شخصیت نگاری وہ سب بہت شوق سے پڑھتی تھی اسکی تنہائی کی دوست ہی کتابیں تھیں بھائی اپنے کاموں میں مصروف ابا اپنے اور کامی نے تو بہت وقت ہوا اس سے بات کرنا چھوڑ دی تھی وہ سمجھتی تھی شاید وہ اب ان دونوں کے مابین جڑنے والے رشتے کی وجہ سے اس سے کم بات کرتا ہے۔۔ 
ایسے میں کتابیں ہی تھیں جو اسکی سب سے اچھی دوست تھیں ۔۔۔اور یہ اسے کتابوں سے ملنے والا صبر و استقامت کا سبق ہی تھا جو آج آنے والے اتنے بڑے طوفان کے بعد بھی اسکے قدموں میں زرا لرزش نہیں آئی تھی۔۔۔
تقریباً شام ساڑھے چار بجے کا وقت تھا جب دروازے پر ایک ڈاکیا آیا اور ایم خط ملازم کو دیکر چلا گیا۔۔۔ ملازم وہ خط شمسہ کے پاس لے آیا شمسہ نے اپنی کتاب سائیڈ پر رکھی اور اس خط کو کھوکا۔۔۔خط میں لکھی تحریر پڑھ کر اسے لگا کہ پورا بیگ ولا اسکے سر پر آگرا ہے۔۔۔ اسے ایک بار پڑھنے پر یقین نہ آیا اس نے دوبارہ پڑھیں پھر ایک بار اور پڑھیں پھر ایک بار ذور۔۔۔چار بار پڑھنے کے بعد اسے یقین آگیا کہ جانے والا انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔۔
وہ بوجھل قدموں اور ویران دل کے ساتھ ابا جان کے پاس آئ اور کہا۔۔
"ابا جان اگر کوئی ہمارا بہت اپنا ہو لیکن جب وہ ہم سے دور جانے کی اجازت چاہے تو کیا خود غرضی دکھاتے ہوئے اسے روک لینا چاہیے یا اسکی خوشی میں خووش ہوتے اسے جانے کی اجازت دی دینی چاہیئے۔"۔۔ اس اس وقت ہر وہ سبق یاد رکھنا تھا جو وہ برسوں سے کتابوں میں پڑھتی آئی تھی۔  صبر کا سبق۔۔۔ استقامت کا سبق۔۔۔ قربانی کا سبق۔۔۔۔ اعلیٰ ضرفی کا سبق۔۔
ابا جان ایک دور اندیش شخص تھے وہ جانتے تھے کہ انکی بیٹی کس کی جانے کی بات کرہی ہے ۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ کون ہے جو انھیں چھوڑ جانے والا ہے۔۔ وہ گویا ہوئے تو انکی آواز میں۔ زرا بھی کپکپاہٹ نہ تھی۔۔ بلکہ انکی آواز میں جانے والے کیلئے اب بھی محبت ہی محبت تھی۔۔
"تو میری بیٹی اسے جانے کی اجازت دیدو اگر وہ وقت مقررہ کے لئے جانا چاھتا تھا تو اسکے پر مت کاٹو اسے جانے دو اگر وہ لوٹ کے آنے والا پرندہ ہے تو واپس ضرور لوٹیگا اور اگر جانے والا ہمیشہ کیلئے جانا چاہتا ہے تب بھی اسے ہمیشہ کی آزادی دو اسے دیکھ لینے دو دنیا ۔۔۔۔ وہ اس آزادی کا حق رکھتا ہے۔۔" ابا جان نے آج اپنی بیٹی کو وہ سبق دیا تھا جو شاید اسے کبھی کتابیں بھی نہ دے سکی ہونگی۔۔۔
دریا دلی کا سبق۔۔۔۔اعلی ہمتی کا سبق..
۔۔
جاری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Click here to read online 
or
Download PDF file
Tery Jasa Yar Kahn



No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.