***Mojud Hay tou muj main rug o jan jasy***

*Mojud hay tou muj main rug o jan jasy *
*Writer Isha Rajpoot*
*Episode:9*


٭Click Here to read online*
or
*download PDF File*


........................................................................................
٭موجود ہے تو مجھ میں رگ و جاں جیسے ٭
تحریر:عشاء راجپوت
قسط نمبر ؛9
افنان نایاب کا ہاتھ تھامے سٹیج سے اترا اور ڈانس فلور پہ لے جا کر ایک خوبصورت سے گیت پہ اس کے ساتھ کپل ڈانس کیا۔
وہ آج بہت خوش تھا گو کہ نایاب کی جانب سے کوئی اقرار نہ ہوا تھا مگر وہ اس کی بیوی کی حیثیت سے اس کے ساتھ موجود تھی۔
افنان اپنے مستقبل کے خواب سجاتے ہوۓ نایاب کو بھی خواب دیکھنے پہ مجبور کر رہا تھا۔
وہ اس کی زندگی میں تو اک عرصے سے قدم رکھ چکی تھی لیکن نئی زندگی کی شروعات تو اب بھی باقی تھی۔
افنان نے مسکراتے ہوۓ اسے گول گول گھمایا اور پھر اس کا ایک ہاتھ تھام کر ایک گھٹنے کے بل بیٹھ گیا۔
نایاب تو حیرت زدہ سی منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی۔
Nayab!!!! I want to see you in front of my eyes for the rest of my life.
Will you promise to be mine forever?
وہ سٹیل بلیو وارفتہ نگاہوں میں دیوانگی اور حسرت لیے نایاب سے اس کے عمر بھر کے ساتھ کا وعدہ مانگ رہا تھا۔
وہ نایاب کو نایاب سے چرانے کا اردہ کیے بیٹھا تھا۔
ہر طرف” ہاں “کا شور اٹھنے لگا۔
نایاب نے بھی آنکھوں میں پیار اور تشکر لیے سر کو ہاں میں جنبش دی۔
سب کے سامنے ایک حرفی لفظ بولنا بھی محال ہو رہا تھا۔
دل کی حالت عجیب ہونے لگی۔
وہ اس کے ساتھ کا اقرار تو کر چکی تھی ۔اب پیار کا اظہار بھی جلد ہی کرنے والی تھی اور اس طرح ایک بھرپور خوشیاں سمیٹتی خوشگوار شام کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا۔
رات ہر طرف اپنے پر پھیلا چکی تھی۔
سب مہمان جا چکے تھے۔
نایاب ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہاتھوں سے چوریاں اتار رہی تھی کہ افنان نا محسوس انداز میں اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
نایاب کو جب افنان کے کیلون کی خوشبو اتنے قریب سے آتی محسوس ہوئی تو نظر اٹھا کر آئینے میں دیکھا۔
وہ اس کے عین پیچھے کھڑا آئینے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
نایاب اس کی اس حرکت کا کوئی سبب اخذ نہ کر پائی۔
نایاب افنان ہی کہ انداز میں ایک آبرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پلٹی۔
افنان اس کے انداز پر مسکرا دیا۔
مائی سوٹ لٹل ماؤ بلی۔۔۔۔۔افنان نے اس کا ایک گال کھینچتے ہوۓ پیار سے کہا۔
ماؤ بلی۔۔۔۔؟؟نایاب متحیر سی بولی جیسے تائید چاہ رہی ہو آیا کیا اس نے صحیح سنا۔
افنان نے سر ہلا کر اس کا شک دور کیا۔
نایاب نے کچھ سوچتے ہوۓ شرارتی نظروں سے اسے دیکھا۔
میں نے بھی آپ کے لیے ایک نام سوچا ہے۔
اچھا جی۔۔۔۔اور کیا ہے وہ نام؟؟؟
وہ بھی متجسس سا بولا۔
Healthy wealthy Big Billa!! 
نایاب نے معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوۓ آنکھیں پٹپٹائیں۔
اب کی بار تحیر افنان کی نظروں میں سمٹا۔
بِگ بِلا۔۔۔۔افنان کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی۔
نایاب نے نچلا لب دانتوں تلے دباۓ مسکرا کے سر اثبات میں ہلایا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔اگر یہ لقب مجھے میری ماؤ بلی نے دیا ہے تو مجھے دل و جاں سے قبول ہے۔
وہ کچھ لمحے سوچنے کے بعد مسکرا کہ بولااور اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔
ہیییں یہ کیا۔۔۔۔کیا انہیں ذرا بھی غصہ نہیں آیا۔
اس نے دل میں سوچا۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟وہ زینے اترتے ہوئے۔۔۔  افنان سے مخاطب ہوئی۔
لانگ ڈرائیو پہ۔۔۔۔اک لفظی جواب آیا۔
اس وقت۔۔۔۔۔نایاب کا جملہ بھی ابھی ادھورا تھا کہ کسی کی نٹ کھٹ سی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔
یہ ہیر رانجھے کی جوڑی آدھی رات کو چھپ چھپ کے کہاں جانے کی تیاری میں ہے؟
حرمین نے ان کا راستہ روکتے ہوۓ پوچھا۔
تم ہماری جاسوسی کر رہی تھی۔
افنان نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوۓ بے یقینی سےکہا جس پہ بیچاری حرمین سٹپٹا گئی۔
میں تو کچن میں پانی لینے آئی تھی مگر آپکو یوں ماڈرن عاشقوں کی طرح چھپ کر جاتے دیکھا تو پوچھے بنا رہ نہ سکی۔
حرمین نے معصومیت کی  اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوۓ کہا۔
حرمین افنان کی خالہ زاد تھی چونکہ سب اتنی جلدی جلدی ہوا تو وہ شرکت نہ کر سکے مگر حرمین آ گئی تھی۔اور آج افنان کو سراہنے والوں میں شہام کے ساتھ پیش پیش تھی اور بیچارے حارث کا دل چرانے کا جرم بھی  سرزد کر چکی تھی۔ 
اے ننھی چڑیل ۔۔۔۔۔یہ میری وائف ہے اور میں اسے پورے وثوق سے کبھی بھی کہیں بھی لے کے جا سکتا ہوں چاہے دن ہو یا رات ۔۔۔۔اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے ۔۔اسے چھپ کر جانا نہیں کہتے بلکہ سب کے آرام کا خیال کرتے ہوۓ کسی کو بھی ڈسٹرب کیے بنا جانا کہتے ہیں۔
افنان نے حرمین کی سوچ پر ماتم کرتے ہوئے کہا۔
ننھی چڑیل۔۔۔۔بھائی آپ نے مجھے ننھی چڑیل بولا۔
حرمین کا تو حیرت سے منہ ہی کھل گیا۔
جی ہاں۔۔۔۔بالکل میں نے آپ کو ننھی چڑیل ہی بولا ہے۔
افنان نے اس کے سر پہ ہلکی سی چپت لگائی۔
بھابھی آپ دیکھ رہی ہیں نا۔۔۔آپکے شوہر نامدار کیسے آپکی معصوم سی اور اتنی پیاری سی نند کو چڑیل جیسے خوفناک نام سے نواز  رہے ہیں۔
حرمین اپنے نہ نظر آنے والے مصنوعی آنسو صاف کرتے ہوۓ نایاب کو بھی اس بحث میں گھسیٹ لائی۔
اففنناااان۔۔۔۔۔نایاب نے افنان کو نظروں میں تنبیہ کی اور باز رہنے کا اشارہ کیا۔
نایاب۔۔۔تم نے آج پہلی مرتبہ مجھے میرے نام سے پکارا اور وہ بھی اس۔۔۔اس۔۔چڑیل کے لیے۔
افنان نے حرمین کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ دانت کچکچاۓ۔
اس کی خبر تو میں لیتا ہوں۔۔۔افنان کہتے ہوۓ حرمین کے پیچھے لپکا جو اس کا ارادہ بھانپ کر آگے آگے بھاگنے لگی تھی اور زور سے ہنستی چلی جا رہی تھی۔
سوری بھائی۔۔۔۔۔۔اچھا اچھا۔۔سوری نا۔
وہ دونوں ٹام اینڈ جیری کی طرح پورے لاؤنج کا ستیاناس مارتے ہوۓ آگے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
جیری کی بچی ۔۔۔۔چوہیا کہیں کی۔۔رکو وہی۔۔۔
افنان نے کہتے ہوۓ صوفے پہ پڑا کشن حرمین کو مارنے کی غرض سے اس کی جانب اچھالا جسے حرمین نے مہارت سے کیچ کرتے ہوۓ واپس اسے ہی دے مارا۔
ٹام بھائی۔۔۔۔میں تو نہیں رکنے والی۔۔۔وہ باآواز بلند بولی۔
ان کے ادھم سے نایاب بیچاری ہونقوں کی طرح انہیں دیکھنے لگی۔
اتنے میں احسن صاحب کی کڑکدار آواز نے سب کو اپنی جگہ ساکن کر دیا۔
یہ کیا ادھم مچا رکھا ہے؟؟ہو کیا رہا ہے؟؟
احسن صاحب کو دیکھتے ہی دونوں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے کشن صوفے کے پیچھے اچھال دیے جو کہ ابھی ابھی مکمل لڑائی کرنے کے لیے اٹھاۓ تھے اور اپنی بتیسی کی نمائش کرنے لگے۔
دانت دکھانے بند کرو تم دونوں۔۔۔بچے نہیں رہے اب۔۔۔۔اور برخوردار آپ ۔۔۔احسن صاحب نے اب اپنی توپوں کا رخ افنان کی جانب کیا۔
شادی ہو چکی ہے آپکی لیکن پھر بھی آپ کی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہے۔ وہ اسے یاد دہانی کرانے لگے کہ وہ ایک شادی شدہ مرد ہے۔
احسن صاحب کی بات پر حرمین کی زبان پر کھجلی ہوئی ۔
انکل۔۔۔عقل کوئی گھوڑا یا گاۓ بیل تو ہے نہیں کہ ضرور  گھاس چرنے ہی جاۓ گی۔۔۔۔۔یہیں کہیں سیرو تفریح کے لیے گئی ہو گی کچھ دیر میں واپس آجاۓ گی۔۔آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔
حرمین نے اپنی طرف سے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔
سب کے چہروں پہ دبی دبی ہنسی امنڈ آئی۔
 بیٹا آپ نے ماسٹرز کیا ہے نا۔۔۔ احسن صاحب نے شفقت سے اسے پاس بلاتے ہوۓ پوچھا۔
جی انکل۔۔۔وہ بھی انگلش میں۔۔۔
حرمین خوشدلی سے کہتی نوابی چال چلتی ان تک آئی جیسے کسی کوئز کمپیٹیشن میں جیتنے کے بعد کوئی بہت ہی شاندار انعام حاصل کرنے جا رہی ہو۔
غلط کیا بیٹا۔۔۔آپکو انگلش کی بجاۓ اردو میں ماسٹرز کرنا چاہیے تھا تاکہ تھوڑی بہت عقل آپکے بھی اس چھوٹے سے دماغ میں سما سکتی۔۔
احسن صاحب سمیت سب ہی ہنس دیے سواۓ حرمین کے جو اس حوصلہ افزائی پر بری سی شکل بناۓ سب کو دیکھ رہی تھی۔
احسن صاحب نے پیار سے اسے ساتھ لگایا تو وہ بھی مسکرا دی۔
ویسے برخوردار یہاں یہ سب چل کیا رہا تھا۔
ڈیڈ نایاب باہر چل کر آئسکریم کھانے کی ضد کر رہی تھی تو میں نے سوچا چلو تھوڑا گھوم پھر آتے ہیں مگر آپکی اس ننھی چڑیل نے میرا موڈ ضراب کر دیا۔
نایاب تو افنان کے سفید جھوٹ پر ششدر رہ گئی۔(میں نے کب آئسکریم کی ضد کی)
پھر سے ننھی چڑیل کہنے پر حرمین نے اسے تگڑی گھوری سے نوازا جس کا اس پہ خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔مگر ذرا جلدی آجانا۔۔۔۔احسن صاحب نے افنان کو تلقین کی اور کمرے میں چلے گئے۔
حرمین بھی وہاں سے رفو چکر ہو گئی۔
افنان اور نایاب کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے اس بات سے انجان کہ اس سفر کا اختتام انہیں کس نہج پہ لا کر چھوڑے گا۔
ایک کہرام مچا دینے والا خاموش طوفان ان کی تاک لگاۓ بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے بارہ بجے کا وقت تھا اور آسیہ بیگم ملازمہ سے کسی بات پر باز پرس کر رہی تھیں۔
آئلہ نے کھانا کھا لیا۔ملازمہ سےسوال کیا گیا۔
نہیں بی بی جی ۔۔انہوں نے کھانے سے منع کر دیا۔
جواب ادب سے آیا۔
کیوں؟؟
وہ کہہ رہی تھیں انہیں بھوک نہیں۔۔۔۔اور اب دوبارہ انہیں تنگ نہ کیا جاۓ۔
اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔اب کہ لہجے میں ذرا سی غصے کی آمیزش تھی۔
وہ بی بی جی۔۔۔آپ اور صاحب جی گھر پہ نہیں تھے ۔۔تو اس لیے بتا۔۔۔ملازمہ نے اٹک اٹک کر کہا۔
آسیہ بیگم اور شکور صاحب افنان کے ولیمے میں گئےتھے۔
افنان اور نایاب کے نکاح کے بعد سے ہی آئلہ خود کو کمرے کی حد تک محدود کر چکی تھی۔
نہ کسی سے بولتی نہ کوئی بات کرتی تھی اور اب تو گھر سے باہر نکلنا بھی چھوڑ چکی تھی ۔
آسیہ بیگم بہت پریشان رہنے لگیں تھیں ۔
ایک تو ضیاء سے بھی اب تک کوئی رابطہ نہ تھا اور نہ ہی ضیاء نے ان سے کوئی رابطہ کیا۔۔ناجانے وہ کہاں تھا۔۔اس پہ آئلہ کی یہ حالت ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔
آخر وہ بھی تھیں تو ایک ماں ہی نا۔۔۔کیسے اولاد کا غم برداشت کرتیں۔
نایاب کو لے کر ان کے دل میں جو میل تھا وہ صاف ہو چکا تھا مگر اب آئلہ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
آسیہ بیگم ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے آئلہ کے کمرے کی جانب بڑھیں ۔
کمرے کے سامنے رک کر انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب ندارد۔
کوئی بھی جواب نہ پا کر وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔
مگر آئلہ کہیں دکھائی نہ دی۔
ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جونہی وہ ذرا آگے  بڑھیں تو نظر بیڈ کی دوسری جانب گئی ۔
سامنے کا منظر دیکھتے ہی ان کا دل دہل گیا اور ایک فلک شگاف چیخ ان کے حلق سے برآمد ہوئی۔
وہ فوراً زمین پہ پڑے وجود کی جانب لپکیں۔۔
آئلہ ۔۔۔۔۔۔آئلہ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولو بیٹا۔۔۔۔۔یہ کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔او خدایا۔۔۔ یہ کیا کر لیا تم نے۔
آسیہ بیگم زارو قطار روتے ہوۓ اس کے گال تھپتھپانے  لگی۔
مگر اس نے آنکھیں نہ کھو لیں۔
اس کا وجود بے سدھ زمین پہ پڑا تھا۔
سر آسیہ کی گود میں تھا اور کلائی سے بے تحاشا خون نکل کر فرش کو داغدار کر رہا تھا۔
آسیہ کی چیخ سن کر ملازمہ بھی دوڑی آئی اور سامنے کا منظر دیکھ کر فوراً شکور صاحب کو بلا لائی۔
شکور صاحب حواس باختہ سے آئلہ کی جانب لپکے۔
ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے جلدی۔
انہیں ہوش آیا تو تقریباً ملازمہ پر چلاۓ تھے۔
انہوں نے آئلہ کو گاڑی میں ڈالا اور برق رفتاری سے ہسپتال کا راستہ طے کرنے لگے۔
جوان بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ان کے دل پر کیا بیت رہی تھی یہ صرف وہی جانتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈئیر وائفی۔۔۔۔تمہیں کونسا فلیور پسند ہے؟
افنان نے کار آئسکریم پارلر کے سامنے روکتے ہوۓ کہا۔
ٹوٹی فروٹی،چاکلیٹ چپ،ونیلا۔۔۔۔
ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ نایاب نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی اور خونخوار لہجے میں گویا ہوئی۔
میں نے آپ سے کب ضد کی تھی کہ مجھے آئسکریم کھانی ہے؟؟
نایاب دل کی بات زبان پر لاتے ہوۓ اسے گھور کر بولی۔
میری ماؤ بلی تو جنگلی ماؤ بلی کی طرح پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑ رہی ہے۔
افنان زیرلب بڑبڑایا۔
کیا کہا؟؟نایاب اس کی بڑبڑاہٹ ٹھیک سے سن نہ پائی البتہ لفظ ”ماؤ بلی“سن چکی تھی۔
نہیں کچھ نہیں۔۔۔میں کہہ رہا ہوں کہ کرنی چاہیے تھی ضد ۔۔۔کیوں نہیں کی تم نے؟وہ الٹا اسی پر چڑھ دوڑتے ہوۓ سارا الزام اس کے سر تھوپنے لگا۔
اب آ ہی گۓ ہیں۔۔تو کیا میں اس حالت میں جاؤں گی اندر؟
نایاب کا اشارہ اپنے حلیے کی جانب تھا جو کہ ابھی بھی دلہن کی طرح سجے سنورے روپ سے لیس تھی۔
ہاں تو۔۔۔ایسے ہی چلو۔۔۔۔۔اچھا بات ہے ناں ۔۔۔۔ سب کو اندازہ ہو جاۓ کہ تم  میری دلہن ہو ۔۔۔پھر کوئی بھی تمہیں دیدے پھاڑے دیکھنے کی جسارت نہیں کرے گا اور اگر ایسا کیا بھی تو انجام کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔
اب میں تمہیں کیا بتاؤں مسز۔۔۔۔اس حلیے میں تم میرے دل پر بجلیاں گرا رہی ہو۔۔۔
تم تو جا رہی تھی منہ دھلائی کی رسم ادا کرنے اگر میں تمہیں زبردستی یہاں نہ لاتا تو کیسے مزید وقت کے لیے تمہارا یہ سجیلا روپ دیکھ پاتا۔
افنان اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
نایاب بلش کر گئی۔
شدت سے انتظار ہے مجھے۔۔۔تمہارے جواب کا،پیار کے بدلے پیار کا،اقرار کا اظہار کا۔
بھلے ہی دنیا کے لیے مختصر سہی مگر ایک طویل مدت گزاری ہے تمہارے فراق میں جس نے مجھے تم سے محبت کرنے پہ مجبور کر دیا۔
ایک ناکام عاشق بنا دیا مجھے۔
اب جب فاتح کہلایا ہوں تو محبت کی راہ سے ہوتے ہوۓ عشق کی منزل طے کرنے لگا ہوں۔
اس عشق کے سفر میں تمہارا ہمسفر بننا چاہتا ہوں میں لیکن تم ان راستوں سے انجان  بہت پیچھے کہیں سست روی سے چل رہی ہو۔
اس لیے میں منتظر ہوں کہ تم محبت کی راہ پر گامزن ہو کر تمام فاصلے عبور کرتے ہوۓ مجھ تک پہنچو۔۔۔۔تو میں سمجھ لوں گا کہ میں نے تمہیں پا لیا۔
پھر ہم ایک دوسرے کے ہمقدم عشق کی راہوں میں کھو جائیں گے۔
جانا چاہو گی میرے سنگ محبت کی اس بھول بھلیا میں جہاں سے لوٹ کر آنا ممکن نہیں۔
نایاب بنا پلک جھپکاۓ سحرزدہ سی یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
وہ اس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں محبت کے سمندر میں خود  کو ڈوبتا محسوس کر رہی تھی۔
لیکن افنان تو اس طلاتم کی گہرائی میں اتر چکا تھا۔
ان کے درمیان حائل خاموشی دل کی زبان بول رہی تھی۔
ان  کی نظروں کا ارتکاز اور ماحول پہ چھاۓ سحر کو موبائل کی رنگ ٹون نے توڑا۔
وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹے۔
کالر آئی ڈی دیکھتے ہی افنان کی پیشانی پہ بل پڑے۔
وہ کال اٹینڈ کرتے ہی کچھ سخت سست سنانے والا تھا کہ ناجانے دوسری جانب کیا کہا گیا۔
جس سے افنان پریشان دکھائی دینے لگا۔
افنان نے کال پر ساری بات سننے کے بعد بنا کوئی جواب دیے کال کاٹ دی۔
کیا ہوا؟ کس کی کال تھی؟
نایاب نے افنان کے تاثرات جانچنے کی کوشش کرتے ہوۓ دریافت کیا۔
نایاب۔۔۔۔ابھی مجھے ضروری کام سے جانا پڑے گا۔
تمہیں میں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔
اور ابھی فون کے حوالے سے زیادہ سوال مت کرنا۔
میں جلد ہی خود تمہیں سب بتاؤں گا۔
نایاب جواباً کچھ نہ بولی صرف سر ہلا دیا۔
افنان نے اسے آفندی ولا کے باہر اتارا اور اس کے گیٹ عبور کرنے کا انتظار کرنے لگا۔جیسے ہی نایاب نے اندر قدم رکھا افنان زن سے کار بھگا لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں تھے تم سب اس وقت۔۔۔۔۔ایک چھوٹا سا کام تو ہوا نہیں۔۔
افنان اس پرانی طرز کی کچی پکی سی عمارت میں کھڑا ان جوانوں پر برس رہا تھا۔
اور وہ سر جھکاۓ سن رہے تھے آخر غلطی بھی تو انہی سے سرزد ہوئی تھی۔
ان سب کے چہروں کے بگڑے نقشے بتا رہے تھے کہ ضیاء کس طرح ان کے چنگل سے فرار ہو چکا ہے۔
اب جاؤ یہاں سے۔۔۔دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا اور اس علاقے کے آس پاس بھٹکتے دکھائی بھی مت دینا۔
افنان نے ان سب کو وہاں سے نکالا اور خود بھی وہاں سے نکل کر رامین کے اپارٹمنٹ کی راہ لی۔
ابھی دو روز قبل ہی تو رامین کو ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا تو افنان رامین کے کہنے پہ واپس اسے ضیاء کے اپارٹمنٹ چھوڑ آیا تھا۔
اس وقت جو سب سے پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ ضیاء پہلی ہی فرصت میں رامین تک پنچے گا اس لیے افنان رامین اور ضیاء کے مشترکہ اپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگا۔
افنان یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکا تھا کہ وہ کل ضیاء کو آزاد کر دے گا۔
ایک بار پھر صحیح راہ پر راغب کرنے کی کوشش کرے گا اور ضرورت پڑی تو اپنے روا رکھے گۓ سلوک کی معافی بھی مانگ لے گا۔
کیونکہ افنان کو احساس ہو چکا تھا کہ غصے میں اٹھایا گیا قدم غلط تھا۔
رامین کی حالت کے پیش نظر یہ احساس مزید بڑھا تھا کہ اس وقت رامین کو ضیاء کی ضرورت تھی۔ضیاء کو رامین کے پاس ہونا چاہیے تھا۔
لیکن اب اگر ضیاء نے خود راہ فرار اختیار کی تھی تو افنان کو خطرے کی بو آنے لگی تھی اس لیے وہ جلد از جلد ضیاء سے ملنا چاہتا تھا۔
ابھی راستے میں ہی تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
افنان نے کالر آئی ڈی دیکھ کر فوراً کال پک کی۔
یس ڈیڈ۔۔۔افنان نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
جانے اسے کیا کہا گیا کہ افنان کو مزید گڑبڑی کا احساس ہوا۔
کیوں ڈیڈ ؟کیا ہوا؟کون ہے وہاں؟افنان پریشانی سے گویا ہوا۔
مگر انہوں نے اسے کچھ نہ بتایا۔۔۔ہسپتال کا نام بتا کر جلدی آنے کی تاکید کی اور کال کاٹ دی۔
افنان جو کہ ضیاء کے اپارٹمنٹ جانے کا ارادہ رکھتا تھا فوراً سے گاڑی بتاۓ گۓ یسپتال کی جانب موڑ دی۔
افنان دل میں خیر کی دعا مانگتا شدید پریشانی کے عالم میں ہسپتال پہنچا۔
 احسن صاحب اور سائرہ بیگم I.C.U کے باہر کوریڈور میں موجود تھے جبکہ ان کے ساتھ شکور صاحب کو دیکھ کر اسے مزید تشویش نے جا لیا۔
شکور صاحب ٹوٹے بکھرے سے سر ہاتھوں میں گراۓ بیٹھے تھے۔ آسیہ وہاں تھی نہیں اس لیے افنان نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔وہ تو وضو کر کے خدا کے حضور بیٹی کی زندگی مانگ رہی تھی۔
افنان فوراً اپنے ڈیڈ تک پہنچا اس سے پیلے کہ وہ انہیں مخاطب کرتا I.C.U کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر ان سے مخاطب ہوئی۔
۔۔۔۔دیکھیے پیشنٹ کی حالت کریٹیکل ہے ۔۔۔۔ وہ مدہوشی کے عالم میں جنہیں پکار رہی ہیں ۔۔۔اس وقت ان کا یہاں ہونا ضروری ہے۔۔۔۔ ہمیں کسی بھی وقت مسٹر افنان کی ضرورت درکار ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر کہہ کر پھر سے آئی سی یو میں گم ہو گئی۔
افنان نے ایک نظر باپ کو دیکھا ۔۔۔۔کیا نہیں تھا اس ایک نظر میں۔۔حیرت ، خوف،بے یقینی،ڈر ۔۔۔ڈاکٹر کی بات سے افنان کے دل میں سب سے پہلا خیال ہی نایاب کا آیا تھا مگر وہ خود کو مضبوط کرتے ہوۓ اپنے خدشات کی نفی کرتا باپ کو  سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
احسن صاحب افنان کو ایک سائیڈ پہ لے گۓ اور اور سارا واقعہ اس کے گوش گزار کر دیا۔۔
عجب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔افنان کے دل میں کہیں دکھ بھی جاگا اور وہ سر تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا۔۔
فائنلی آئلہ کو بچا لیا گیا۔
 ڈاکٹر نے جیسے ہی اس کی زندگی کی نوید سنائی سب کی جان میں جان آئی۔۔
اب اسے وارڈ میں شفٹ کیا جا چکا تھا۔
چونکہ آئلہ ابھی تک مکمل ہوش میں نہیں  آئی تھی مگر اب اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ تھا اس لیے اسے سکون آور ادویات کے ذریعے پر سکون کر دیا گیا اور وہ مکمل طور پر غنودگی میں چلی گئی۔
آسیہ جو کب سے گڑگڑارتے ہوۓ رب کے آگے سر بسجود ہو کر بیٹی کی زندگی کے لیے دعا گو تھی۔
یہ خبر سنتے ہی پھر سے نفل نماز کی نیت باندھ لی۔
اب جب اس کی دعا سن لی گئی تھی تو اس پاک ذات کا شکر ادا کرنا تو بنتا تھا۔
شکور صاحب نے اپنے بکھرے وجود کو سمیٹتے ہوۓ افنان اور احسن کا شکریہ ادا کیا جس پہ افنان نے ان کی ہمت بندھائی۔
 احسن نے ہسپتال رکنے کی خواہش ظاہر کی جس پہ شکور صاحب کے اصرار پر ان سب کو واپس لوٹنا پڑا کیونکہ شکور صاحب ان کی اتنی اپنائیت پر ہی خوش تھے مزید تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔
شکور صاحب آئلہ کے ماموں زاد کو بلا چکے تھے کیونکہ اس وقت ایک وہی تھا جو قابل اعتبار تھا اور جسے وہ بلا سکتے تھے اور عائشہ تو اپنے ہزبینڈ کے ساتھ عمرے پہ گئی تھی۔
جب آئلہ کو ہاسپٹل لایا گیا تو اس کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوۓ شکور صاحب نے احسن صاحب کو کال ملائی اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔
احسن صاحب افنان کو بلانے ان کے کمرے  میں گئے مگر افنان اور نایاب ابھی تک لوٹے نہیں تھے(احسن آفندی کو تو یہی لگا )
پھر احسن صاحب اپنی مسز کے ہمراہ ہسپتال کے لیے نکلے اور افنان کو بھی کال کر کے ہسپتال پہنچنے کا کہا۔
اس دوران وہ سب صرف اس ایک  کی کمی سے انجان تھے جو ان سب کہ زندگی میں بے انتہا اہمیت کی حامل ہے۔
اور وہ تھی نایاب۔۔۔جو اس تمام واقعے میں ان کے ساتھ موجود نہیں تھی ،نہ گھر میں اور نہ ہی افنان کے ساتھ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭(جاری ہے )

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.