٭٭٭چار دویوں کا قصہ ٭٭٭Char Dawiyon Ka Qissa ***

٭٭٭چار دویوں کا قصہ ٭٭٭
***Char Dawiyon Ka Qissa ***
***Episode : 5 ***



٭چار دیویوں کا قصہ٭
 قسط نمبر: 5
تحریر:غضنفر کاظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جب ہماری گاڑی افغانستان کی حدود سے باہر نکل آئی اور ہم پاکستانی حدود میں پہنچ گئے تو میں نے گاڑی رکواکر جیب سے جنرل اکبر کا دیا ہوا ٹرانسمیٹر نکال کران سے رابطہ کیا جیسے ہی وہ لائن پر آئے میں نے ان کو حالات بتانا چاہے تو انہوں نے کہا کہ وہ سب جانتے ہیں، اور میرے منتظر ہیں اب مجھے ایک اور کام کرنا ہے، یہ سن کر میں نے پوچھا کہ اگر وہ اجازت دیں تو میں اپنے چچا سے حساب بے باق کرلوں، تو انہوں نے کہا کہ میں جہاں ہوں وہیں انتظار کروں پھر تقریباً آدھے گھٹنے بعد مجھے ٹرانسمیٹر پر اشارہ ملا میں نے آن کرکے جواب دیا تو دوسری جانب سے جنرل اکبر کی آواز سنائی دی کہ چند فوجی جوان مجھ سے رابطہ کریں گے جب وہ مجھے ملیں تو اس کے بعد میں ان کو ساتھ لے کر اپنی بستی میں جاں اور جاکر اپنے چچا کو سزا دوں، حالانکہ میں سمجھتی تھی کہ یہ میرا ذاتی کام ہے اس لئے میں خود ہی انجام دوں لیکن جنرل اکبر کو انکار نہیں کرسکی اور وہاں انتظار کرنے لگی۔ انتظار کرتے ہوئے ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں چاہوں تو وہ چائے پلاسکتا ہے میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہاں اس ویرانے میں چائے کہاں سے آئے گی اس نے بتایا کہ وہ تھرماس میں چائے لے کر چلا تھا اور تھرماس کافی بڑا ہے جس میں کئی کپ چائے موجود ہے، یہ سن کرمیں نے اثبات میں جواب دیا اور اس نے گرم گرم چائے کا کپ مجھے تھما دیا، ابھی کپ خالی نہیں ہوتھا کہ ایک فوجی جیپ اور ایک ٹرک وہاں پہنچ گئے پھر ایک افسر نے آکر مجھ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر ہے اور جنرل اکبر کے حکم پر میری مدد کو آیا ہے پھر اس نے مجھ سے پوچھ کہ کرنا کیا ہے اور میں نے کیپٹن کو پوری بات بتادی یہ سن کر کیپٹن کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرے اور وہ انتہائی جذباتی اندار میں بولا توم وطن کی بیٹی ہو اور میں اگر اپنے وطن کی بیٹی کو اس کا حق دلانا میرا اولین فرض ہے اب آپ بے فکر ہوجائیں اور صرف تماشا دیکھیں، میں نے کہا کہ نہیں کیپٹن میں خود اس غدار کوسزا دینا چاہتی ہوں جس نے دولت کی لالچ میں نہ صرف اپنے بھائی اور بھابی کو قتل کیا بلکہ میری تمام جائیداد پرقبضہ کرنے کی خاطر میری اپنے ملازم سے شادی کراکے مجھے یہاں سے نکال باہر پھینکا وہ اگر براہ راست مجھ سے مانگتا تو میں خود اپنی تمام جائیداد اس کے حوالے کردیتی، میری بات سن کر کیپٹن نے کہا کہ مجھے وطن عزیز کی خاطر بہت اہم امور انجام دینے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ میں نجی انتقام میں وقت اور اپنی انرجی ضائع نہ کروں اس پر چھوڑ دوں، اور مجھے مجبور ہو کر خاموش ہونا پڑا، کیپٹن اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے یہ کہتے ہوئے چل پڑا کہ جب وہ مجھے کال کریں تو میں بستی میں آجاں، میں وہاں انتظار کرنے لگی۔ رات بیت گئی، پھراگلا دن بھی بیتنے لگا اور شام کے جھٹپٹے میں مجھے کیپٹن کی کال آئی اور ڈرائیور مجھے لے کر بستی کی جانب چل پڑا، میں جیسے ہی بستی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہاں بستی کے افراد جمع ہیں اور میری راہ دیکھ رہے ہیں جیسے ہی میں ٹرک سے اتری میرے لوگوں نے نعرے لگانے شروع کردئیے، اور مجھے اپنے جلو میں لے کر محل کی جانب بڑھنے لگے جہاں کبھی میں اپنے ماما پاپا کے ساتھ رہتی تھی اور جہاں سے مجھے میرے بدقماش چچا نے نکالا تھا۔ جیسے ہی میں اپنے محل کے دروازے پر پہنچی سامنے سے کیپٹن آتے نظر آئے میں نے آگے بڑھ کر فرطِ جذبات سے کیپٹن کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا کیپٹن تم نے ایک بھائی کا فرض نبھایا ہے اب مجھے بہن کا فرض نبھانے سے نہ روکنا، کیپٹن نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ”میری بہن کیا کرنا چاہتی ہے مجھے بھی تو کچھ بتا“، میں نے کہا: بس بھائی اب یہ نہ پوچھو“ ۔ ”پھر بھی کچھ تو بتا“ کیپٹن نے اصرار کیا تو میں نے کہا کہ میں جنرل اکبر سے کہہ کر ان کی خدمات اپنے ساتھ لینا چاہتی ہوں کیا وہ میرے ساتھ کام کریں گے؟ میری بات سن کر کیپٹن صفدر نے کہا کہ وہ میرے بارے میں کافی کچھ سن چکا ہے اور میرے ساتھ کام کرنا اس کے لئے باعثِ فخر ہوگا لیکن اس کے ذمہ بھی چند قومی امور ہیں ہوسکتا ہے کہ جنرل اکبر اجازت نہ دیں، یہ سن کر میں نے کہا بھائی قومی امور پہلے ہیں اگر ایسی بات ہے تو میں ضد نہیں کروں گی، بہرحال ایسے باتیں کرتے ہم محل میں داخل ہوئے وہاں ہمارے قدیم ملازم انتہائی خوشی سے سرشار کھڑے تھے مجھے دیکھتے ہی میرے والد کے زمانے کا بوڑھا ملازم آگے بڑھا اور میرے سامنے سر جھکاکر آنکھوں میں آنسو لئے کھڑا ہوکر بولا، بیگم صاحبہ میں اس وقت مجبور تھا: میں نے اس کی بات کاٹ کر شانوں سے پکڑ کر ان کو سینے سے لگا کر کہا، ”بابا آپ میرے والد کی جگہ ہیں میرے سامنے سرجھکا کر مجھے گناہ گار نہ کریں، اور آج سے آپ میری جگہ سنبھالیں گے، مجھے جب کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی میں آپ سے رابطہ کروں گی اور آپ وہ کریں گے جو میں کہوں گی، بابا ہم پاکستان کے محافظ ہیں، یہ وطن ہے تو ہم ہیں اور اگر خدانخواستہ اس وطن کو کچھ ہوا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے، اس پر کیپٹن نے مجھے بتایا کہ میرا چچا دشمنوں سے ملاہوا تھا اورکیپٹن کو یہاں سے کافی دستاویزات ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چچا یہاں سے ہیروئن کا کاروبار کرتا اور حاصل ہونے والی رقم ملک دشمنوں کو دیتا اور ان سے کام لیتا تھا۔ یہ سن کر شرم سے میرا سر جھک گیا کیونکہ بہرحال وہ جو بھی تھا میرا چچا تھا، میں نے کیپٹن سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں میں چچا کے لگائے زخموں پر پھاہا رکھ کر جلد ان کو مندمل کردوں گی۔
ہم محل میں ایک رات رہے اور اگلی صبح کیپٹن نے مجھے بتایا کہ جنرل اکبر مجھے بلا رہے ہیں اسی وقت میرے ٹرانسمیٹر پر مجھے جنرل صاحب کی کال بھی موصول ہوگئی وہ مجھے فوری طور پر حاضر ہونے کا حکم دے رہے تھے، جنرل صاحب کاحکم سن کرمیں فوری طورپر کھڑی ہوگئی اور اپنے چند امور طے کرکے کیپٹن کو چلنے کا اشارہ کیا اور پھر کچھ دیر بعد ہم وطن کی جانب روانہ ہوگئے۔ پشاور تک کا سفر ہم نے ٹرکوں میں کیا اور پشاور سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور پہنچے، لاہور آتے ہی میں جنرل اکبر سے ملنے روانہ ہوئی جبکہ کیپٹن صفدر ایئر پورٹ سے ہی مجھ سے رخصت ہوگئے تھے۔ میں جنرل اکبر کے پاس پہنچی تو انہوں نے مجھ سے احوال پوچھا۔ میں نے انہیں اپنی کارگزاری کی مکمل تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ امید تو یہی ہے کہ اب ییلو کیٹس اور سی آئی اے میں ٹھن جائے گی اور ہم اس لڑائی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ میری کارگزاری سن کر جنرل اکبر نے مسکراتے ہوئے کہا بیٹی تم نے بھی شیطانی ذہن پایا ہے خاص طور پر ہنگامی حالات میں تم خطرناک حد تک شاطرانہ انداز میں سوچتی ہو۔بہرحال اب تمہیں ایران جانا ہے، ہمیں خبر ملی ہے کہ ایران میں سی آئی اے نے اپنا نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جب کہ موساد نے بھی کافی پاں پھیلالئے ہیں تمہیں وہاں یہ دونوں نیٹ ورک ختم کرنے ہیں، اس میں ایران کے سپاہ پاس داران تمہاری مدد کریں گے تو سرکاری طور پر وہاں جاگی ، ایران کی حکومت سے ہماری بات ہوچکی ہے، وہ بولتے رہے میں خاموشی سے سنتی رہی اور جب انہوں نے اپنی بات مکمل کرلی تو میں نے چند سوالات کئے اور ان کے جواب لے کر میں نے کہا ، ” سر اب میں چلنے کو تیار ہوں آپ حکم دیں کب جانا ہے،“ میری بات سن کر انہوں نے کہا کہ ابھی میں افغانستان سے آئی ہوں اس لئے ایک دن آرام کروں وہ اس دوران تمام جذئیات طے کرتے ہیں پھر ایک روز بعد میں ایران جاں ، ان کی بات سن کر میں نے اثبات میں سرہلایا پھر ان کے اشارے پر اٹھ گئی انہوں نے مجھے گھر پہنچانے کا انتظام کیا اور گھر آکر میں تھکے تھکے انداز میں بستر پر گرگئی، گل خان نے مجھ سے کافی سوال کئے جب میں نے اس کو بتایا کہ چچا مارا گیا ہے اور اب بستی میں ہمارا محل ہمارے قبضے میں ہے تو گل خان بہت خوش ہوا میں نے اس کو کہا کہ اب وہ بستی میں جائے اور جنگل کے کام دیکھے تو اس کے چہرے پر دکھ کے اثرات پیدا ہوگئے اس نے کہا کہ وہ میرے ساتھ رہتے ہوئے میری حفاظت کرنا چاہتاہے، اس کے جذبات دیکھتے ہوئے میں خاموش ہوگئی، اور بستر پر لیٹ کر مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی۔
اگلے روز ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے مجھے لاہور سے رخصت کیا گیا ، اس ہیلی کاپٹر نے مجھے ایران لے جاکر زاہدان میں اتارنا تھا جہاں سے ایران کے سپاہ پاسداران نے اپنی تحویل میں لینا تھا لیکن ابھی ہم کوئٹہ عبور کرکے کوہ تافتان تک ہی پہنچے تھے کہ نیچے سے ایک فائر کیا گیا وہ تو پائلٹ بہت ماہر تھا جس نے ہیلی کاپٹر کو بچالیا اور پھر ساتھ ہی ہیلی کاپٹر کوزمین کی جانب لے جاتے ہوئے پائلٹ نے ایرانی پاس داران کو بھی اس حملے سے مطلع کردیا اس دوران ہم پر تین فائرہوئے اور تیسری گولی ہیلی کاپٹر کے انجن میں لگی جس سے انجا میں آگ لگ گئی، پائلٹ نے مجھے سیٹ پر لگے ہوئے ایک بٹن کو پش کرنے کی ہدایت دی میں نے جیسے ہی بٹن دبایا میری سیٹ اچھل کرہیلی کاپٹر سے باہر نکل گئی باہر نکلتے ہی پیرا شوٹ کھل گیا اور میں آہستہ آہستہ زمین کی جانب بڑھنے لگی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میری سیٹ کیسے اچھل کر ہیلی کاپٹر سے باہر نکلی اور یہ پیرا شوٹ کہاں سے آیا کیا یہ میکنیزم پہلے سے موجود تھا بہرحال یہ وقت ایسی باتیں سوچنے کا نہیں تھا کیونکہ نیچے سے جو بھی ہیٹلی کاپٹر کو ہٹ کرنے کی کوشش کررہا تھا اس نے بھی دیکھ لیا ہوگا کہ میں ہیلی کاپٹر سے کود گئی ہوں اس لئے وہ بھی مجھے سے پہلے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کررہا ہوگا جہاں میں اسکے خیال کے مطابق اب زمین پر گرنے والی تھی اس لئے میں نے فضا میں ہی جیب سے پستول نکال کرہاتھ میں لیا اور اپنا وزن سنبھال کر سیدھی ہوگئی اب میرے پاں زمین کی جانب تھے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں زمین سے میرے پاں ٹکراگئے اور میں صحیح سلامت زمین پر اتر گئی اسی وقت مجھے ایک دھماکہ سنائی دیا میں نے اس جانب دیکھا تووہاں سے شعلے بلند ہورہے تھے شائد ہیلی کاپٹر تباہ ہوگیا تھا۔ جیسے ہی میرے قدم زمین سے لگے میں جمپ لگا کر دور ہوئی اور سیٹ بیلٹ کھول کر ایک جانب لپکی، وہاں پر سیاہ جلے ہوئے پہاڑ تھے جس پر نہ تو کوئی سبزہ تھا نہ کہیں ہریالی نظر آرہی تھی، آخر ایک گوشے میں آکرمیں نے واچ ٹرانسمیٹر سے جنرل اکبر کو کال کی اور انہیں تمام حالات بتاتے ہوئے پوچھا کہ اب میں تہران جاں؟ انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں اب تہران جانے کی ضرورت نہیں ہے میں وہاں سے کراچی جاں، پھر انہوں نے تفصل بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ٹرانسمیٹر ایک کال انٹرسیپٹ کی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل سے ایک ییلو کیٹ پاکستان آرہی ہے مجھے اس کو ٹریپ کرنا ہے پھر انہوں نے بتایا کہ وہ وائی سی یعنی ییلو کیٹ کراچی آئے گی، اس لئے میری اگلی منزل کراچی ہوگی، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ ایک اور ہیلی کاپٹر بھیج رہے ہیں میں جہاں ہوں وہیں انتظار کروں، پھر تقریباً چار گھنٹے کے انتظار کے بعد ہیلی کاپٹر آیا اور مجھے لے کر کراچی چھوڑ گیا، کراچی
پہنچ کر جنرل اکبر کے حکم پر میں ایک فائیو سٹار ہوٹل چلی گئی جہاں میرے لئے ایک کمرہ بک تھا، اپنے کمرے میں آکر میں نے پھر جنرل اکبر سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک فریکوئنسی دیتے ہوئے اس پر رابطہ کرنے کا حکم دیا ہی اسرائیلی فریکوئنسی تھی، میں نے ویسا ہی کیا، جیسے ہی میرا رابطہ ہوا تو دوسری جانب سے آواز آئی کوڈ؟ میں پہلے تو کچھ نہ سمجھی پھر ایک تکا لگاتے ہوئے کہا وائی سی، یہ سن کر دوسری جانب سے پوچھا گیا کہ میری لوکیشن؟ میں نے بتایا کہ کراچی، اس پر دوسری جانب سے بعد میں رابطہ کرنے کا کہا گیا اور پھر رابطہ کٹ گیا۔ میں نے فوری طورپر جنرل اکبر کو صورت حال بتائی کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل سے کوئی پاکستان آنے والا یا والی ہے ، انہوں نے مجھے اس معاملے کو دیکھنے کا حکم دیا اور بتایا کہ اس معاملے میں کیپٹن صفدر میری مدد کے لئے کراچی پہنچ رہے ہیں اور میں خوش ہوگئی۔ مجھے کیپٹن صفدر کی ذہانب، دلیری اور قوت فیصلہ بہت پسند آئی تھی اور پھر اب تو وہ میرے بھائی تھے ۔
شام کو مجھ سے پھر رابطہ کیا گیا اور پوچھا کیا کہ میں کون ہوں؟ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ جھوٹ نہ بولوں، میں نے کجھ دیر سوچا پھر ایک بلائنڈ چال چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ میں پہاڑوں کی بیٹی ہوں، اور مجھے وائی سی نے انگیج کیا ہے،“ میری بات سن کر دوسری جانب سے پوچھا گیا کہ کون پہاڑوں کی بیٹی؟“ میں نے بتایا کہ وائی سی نے مجھے انگیج کیا تھا وہ مجھ سے کچھ کام لینا چاہتی تھیں اس کے بدلے میں معقول معاضہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ کئی دن سے غائب ہیں میں ان کو تلاش کررہی تھی ان کا یہ ٹرانسمیٹر میرے پاس تھا یہ انہوں نے خود دیا تھا، لیکن ابھی تک انہوں نے رابطہ ہی نہیں کیا،“۔ یہ سن کر دوسری جانب چند لمحے خاموشی رہی پھر پوچھا کیا معاوضہ طے کیا تھا؟“ میں نے کہا جی طے کچھ نہیں کیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ وہ میری توقع سے زیادہ دیں گی“۔ اس پر دوسری جانب سے سوال کیا گیا کہ میرا ذریعہ معاش کیا ہے؟ میں نے جواب دیا میں کوئی فقیر نہیں زرتاج گل کی بھتیجی ہوں، یہ جواءمیں نے اس لئے کھیلا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ زرتاج گل پاکستان دشمنوں کے لئے کام کرتا تھا اور ظاہر ہے کہ اسرائیل سے بڑا اور کون پاکستان کا دشمن ہوسکتا ہے، ساتھ ہی میں نے کہا کہ پہاڑوں کی بیٹی میرا کوڈ ہے، اس پر دوسری جانب سے کہا گیا کہ میں وائی سی کو بھول جاں کل ایک اور انچارج آرہی ہے میں اس کو اسسٹ کروں، میں نے اوکے کہہ کررابطہ منقطع کردیا۔
شام کو کیپٹن صفدر آگئے اور پھر میں ساری بات سمجھ گئی، کیپٹن صفدر نے بتایا کہ میرے پاس جو ٹرانس میٹر ہے وہ انہوں نے ایک ایسی لڑکی سے چھینا تھا جس پر انہیں شک تھا کہ وہ اسرائل سے آئی ہے لیکن کوئی ثبوت نہ مل سکا اور وہ لڑکی ان کے ہاتھوں ماری گئی، اس دوران کئی بار اس ٹرانسمیٹر پر اشارے ملے لیکن انہوں نے اٹینڈ نہیں کئے، اب ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی میں نے کیپٹن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بھائی اب دیکھنا میں کیا گل کھلاتی ہوں۔ پھر ہم نے وہیں ہوٹل میں اکٹھے کھانا کھایا، کیپٹن آتے وقت میرے لئے ایک بیگ لائے تھے جس میں چند جوڑے لباس اور ضروری سامان تھا کیونکہ میں تو کوہ تافتان سے براہ راست یہاں آگئی تھی اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا یہاں بھی ہوٹل میں کمرہ جنرل اکبر ہی کی جانب سے بک کرایا گیا تھا اس لئے ہوٹل والوں نے مجھ سے کوئی سوال کئے بغیر کمرہ دے دیا تھا، بہرحال وہ رات سکون سے گزر گئی، اگلی صبح ایک بار پھر ٹرانسمیٹر پر اشارہ ملا میں نے اٹینڈ کرلیا دوسری جانب سے سخت لہجے سوال کیاگیا ، ” پہاڑوں کی بیٹی تم کہاں مر گئی تھیں، کب سے تم سے رابطے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن تم مسلسل غائب تھیں بولو کہاں تھیں،“ اس سوال کے ساتھ ساتھ میرا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا ، دوسری جانب سے جس لہجے میں سوال کیا گیا اس سے میں سمجھ گئی کہ وہ وائی سی کی سینیر ہے میں نے مودبانہ انداز میں جواب دیا، میڈم سوری یہاں ایک آفیسر ہے وہ میڈم کے پیچھے پڑ گیا تھا میڈم کا خیال تھا کہ شائد اسے شک ہوگیا ہے اس لئے میڈم انڈر گرانڈ ہوگئیں کہ چند روز منظر نامے سے ہٹ جائیں، اتنا وقت نہیں تھاکہ آپ کو بتا سکتی اس لئے وہ یہاں سے ویرانے میں نکل گئی وہاں پپیتے کا ایک باغ تھا اس میں جا کرچھپ گئیں اس کے بعد ان کا کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں غائب ہوگئیں۔ میں خود ان کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اب آپ نے رابطہ کیا ہے تو مجھے تسلی ہوگئی کہ کوئی میرے پیچھے موجود ہے۔ میں یہیں تک پہنچی تھی کہ دوسری جانب سے سخت لہچے میں کہا گیا، ”تم کہاں کی کنواری کنہیا ہو تمہارا فرض تھا کہ اس کو پھانس لو اور اپنا کام نکالو،“ میں جواب دیا،” جی میڈم مجھے اپنا فرض یاد ہے میں نے آپ کے کہنے سے پہلے ہی اس کو قابو کرلیا ہے اور اب وہ میرے اشاروں پر ناچ رہا ہے،“ دوسری جانب سے پوچھا گیا، ” وہ کون ہے؟ اس کا نام اور عہدہ بتا،” میں نے فوری بتادیا کہ میڈم وہ فوج میں کیپٹن ہے اور اس کا نام کیپٹن صفدر ہے“ ۔ میری بات سن کر دوسری جانب چند لمحے خاموشی رہی پھر ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا گیا، ” ہاں یہ کیپٹن ہماری ہٹ لسٹ میں تھا لیکن اگر تم نے قابو کرلیا ہے تو اب اس کو تم ہی سنبھالو اور اس سے چند کام ایسے کرالو جس پر یہ اپنی فوج کا غدار ہوجائے اگر وہ یہ کام کرلیتا ہے تو بس پھر ہمارا کام بہت آسان ہوجائے گا،“ میں نے مودبانہ انداز میں جواب دیا، ” جی بہت اچھا،“ اس کے ساتھ ہی دوسری جانب سے آواز آئی، ” پہاڑوں کی بیٹی وائی سی ٹو آرہی ہے مجھے اس کو اسسٹ کرنا ہوگا اور اس کے لئے وہاں رہائش کا انتظام بھی کرنا ہوگا وہ جس دن یہاں پہنچے گی مجھے انفارم کردیا جائے گے اور اب ہمارے ایجنٹ تم سے رابطے میں رہیں گے،“ یہ سن کر میں نے اثبات میں جواب دیا پھر دوسری جانب سے رابطہ منقطع کردیا گیا۔
میں نے فوری طور پر کیٹن صفدر سے رابطہ کرکے ان کو پوری حالت بتائی انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ چلو ٹھیک ہے اب ہم اسرائیلیوں کو بتائیں گے کہ پاکستان اتنا تر نوالہ نہیں ہے، اور میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیسا مزا آئے گا جب وائی سی ٹو کو ہم گولی ماریں گے۔“ پھر رابطہ منقطع کرکے میں سونے کے لئے لیٹ گئی۔ لیٹتے ہی ذہن پر خیالات نے جم گھٹا لگا لیا میں تمام حالات پر غور کرتے ہوئے اپنے آئندہ کے پروگرام کے بارے میں طے کرنے لگی، انہی خیالات میں کھوئے ہوئے میری آنکھ لگ گئی، جب بیدار ہوئی تو رات کے سائے چھانے لگے تھے۔ میں نہاکر لباس تبدیل کرکے نیچے ڈائننگ ھال میں پہنچ گئی، میں نے سوچا تھا کہ کل جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ابھی ہوا میں تیر چلانے سے کچھ حاصل نہیں۔ میں نے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر بیرے کو کھانے کا آرڈر دیا، تھوڑی دیر بعد بیرا کھانا لے کر آیا تو ساتھ ایک پرچ میں ایک ٹشو پیپر بھی رکھا تھا جو بیرے نے میرے آگے کردیا، میں نے چونک کر پہلے بیرے کو پھر ٹشو پیپر کو دیکھا اس پر بال پوائنٹ سے لکھا تھا کہ ” بائیں ہاتھ کی آخری میز پر بیٹھا ہوا شخص مجھ میں دلچسپی لے رہا ہے اور میری فوٹو اتارنے کی کوشش کررہا ہے“ یہ پڑھ کر میں نے ٹشو اٹھا کر اس سے منہہ صاف کیا اور پھر اس کو موڑتروڑ کر پرچ میں واپس رکھ دیا اور خود کھانا کھانے لگی۔ مجھے شدید خواہش ہورہی تھی کہ اس شخص کو ایک نظر دیکھ لوں جو مجھ میں دلچسپی لے رہا تھا، آخر مجھے ایک ترکیب سوجھی، میں نے کنکھیوں سے اس جانب دیکھا تو اس بار وہ شخص موبائیل فون کے ذریعے میری فوٹو بنانے کی کوشش کررہا تھا میں سکون سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اطمینان سے چلتے ہوئے اس کی ٹیبل پر پہنچ کر میںنے اس شخص کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے بلند آواز میں کہا، ” اگر لڑکیوں کی فوٹو بنانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کھل کر بناو مجھ سے درخواست کرو یہ چوری چوری تصویریں بنانے کا ھنر کہا سے سیکھا ہے“ یہ کہتے ہوئے میرا بایاں ہاتھ گھوما اور اس کے بائیں رخسار پر اتنا زور کا تھپڑ پڑا کہ اس کی آواز پورے ہال میں گونج گئی۔ اب ہال میں بیٹھے سب افراد ہمیں گھور رہے تھے میری اس حرکت پر وہ شخص بھونچکا رہ گیا شائد اس کو میری طرف سے اس حرکت کی توقع نہیں رہی ہوگی، اس بار میں نے ایک مرتبہ پھر اس کا گریبان جھٹکا اور پھر اس کو کھینچ کر کرسی سے کھڑا کردیا اور اس کا گریبان چھوڑ کر اپنے بال ہاتھ سے ٹھیک کرتے ہوئے بولی، ” میں پہاڑوں کی بیٹی ہوں،تم میری تصویر بنانا چاہتے ہو نا، تو لو اب بناو تاکہ صاف آئے اور تم اپنے آقاوں کو دکھا سکو کہ تم نے ایک اور لڑکی قابو کرلی ہے“ اس دوران کچھ لوگ اپنی ٹیبلوں سے اٹھ کر ہمارے پاس آگئے تھے جبکہ ڈائیننگ ہال کا منیجر اور چند ویٹر بھی وہاں آکر مجھ سے معاملہ پوچھنے لگے۔ میں نے منیجر سے غصے میں کہا، ” تم لوگ ایسے گھٹیا لوگوں کو کیوں آنے دیتے ہو جن کو ذرا سی بھی تمیز نہیں ہے یہ شخص میری تصویریں بنانے کی کوشش کررہا تھا، ہمیں اس طرح فوٹو بنانے کی اجازت نہیں ہوتی“ .... میری اس بات پر اس شخص نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے وہ میری فوٹو نہیں بنا رہا تھا۔ یہ سن کر میں نے اس کے ہاتھ سے موبائیل فون لے وہاں کھڑے ایک شریف آدمی کو دیتے ہوئے کہا کہ ذرا اس کو چیک کریں اس میں میری فوٹو ہیں کہ نہیں اگر نہ ہوئیں تو میں ان صاحب سے ابھی سب کے سامنے معافی مانگ لوں گی۔ اس نے موبائیل چیک کیا تو اس میں میری آٹھ فوٹو موجود تھیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی میرا چہرہ پورا اور واضح نہیں تھا۔ جب اس شخص نے بتایا کہ واقعی وہ شخص چوری سے میری تصویر بنانے کی کوشش کررہا تھا تو بیرے دھکے مارتے ہوئے اس کو ہال سے باہر لے گئے اور میں خاموشی سے آکر اپنی ٹیبل پر بیٹھ کر پھر سے کھانے میں ایسے مشغول ہوگئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کھانا کھا کر میں نے بل پر دستخط کئے اور اٹھ کر ہال سے باہر نکل آئی کیونکہ اب ھال میں بیٹھے تقریباً سبھی افراد میرے بارے میں ہی باتیں کررہے تھے۔ میں جیسے ہی ہال کے دروازے سے باہر نکلی تو اچانک ایک شخص مجھ سے ٹکرایا اور جلدی سے بولا کہ میں باہر پارکنگ میں جاوں، اس کے ساتھ ہی وہ معذرت کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
میں وہاں سے چلتی ہوئی پارکنگ کی جانب گئی جہاں وہی شخص کھڑا تھا جو میری فوٹو اتارنے کی کوشش کررہا تھا، مجھے دیکھتے ہی وہ آگے بڑھا اور میرے قریب آکر انتہائی شرمندگی کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے بولا، ” میڈم میں آپ کی تصویر کسی غلط مقصد کے لئے نہیں بلکہ کسی کے حکم پر بنا رہا تھا اصل میں کل جو مہمان آنے والی ہیں ہمارا خیال تھا کہ ان کو آپ کی ایک فوٹو دے دی جائے تاکہ وہ آپ کو آسانی سے شناخت کرسکیںاس کے علاوہ فوٹو اتارنے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آپ کس حد تک اپنی آنکھیں کھلی رکھتی ہیں، میں تہہ دل سے آپ سے معافی جاہتا ہوں“ اس کی بات سن کر میں نے مسکراتے ہوئے کہا، ”تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہیں غلط سمجھی تھی؟ نہیں ڈیئر میں جانتی تھی کہ تم وائی سی کے ایجنٹ ہو اسی لئے تو میں نے تم کو اشارہ بھی کیا تھا کہ میں پہاڑوں کی بیٹی ہوں، تاکہ تم سمجھ جاو کہ میں تم کو پہنچان گئی ہوں لیکن تم نے میرے اشارے پر توجہ ہی نہیں کی، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ تم اس کام کے لئے موزوں نہیں ہو، میں نے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا تمہیں اس کا فوری جواب دینا چاہئے تھا لیکن تم گھبرا گئے تھے اور تمہیں کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کرنا چاہئے، ہم لوگ جو کام کررہے ہیں ہمیں ہر وقت اپنا ذہن اور آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔
بہرحال اب تمہیں کچھ کہنا ہے؟“
”نہیں میڈم بس آپ کو اتنا بتانا تھا کہ کل تین بجے میں آپ کو وی آئی پی لاونج میں ملوں گا اور میڈم کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچاوں گا آپ بھی ان کے ساتھ ہی رہیں گی“.... ”ٹھیک ہے تو پھر اب تم یہیں سے نکل جاو اب ہوٹل میں نہ آنا“.... یہ کہتے ہوئے میں مڑ کر ہوٹل میں اپنے روم کی جانب چل دی۔
اگلے روز تین بجے میں قائداعظم انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاونج میں پہنچی تو وہاں وہ شخص پہلے سے موجود تھا، مجھے اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ اٹھ کر میرے قریب آیا اور مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا تو میں نے سخت لہجے میں کہا، ” تم بالکل ہی ڈفر ہو، جاو جاکر اپنی جگہ بیٹھو اور یہاں کسی پر ظاہر نہ ہونے دو کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں، میڈم کو میں باہر لے کر نکلوں گی تو تم گاڑی لے کر آنا اور خاموشی سے دروازہ کھول دینا منہہ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں“ .... میری بات سن کر وہ کھسیانا سا ہوکر واپس اپنی جگہ چلا گیا اور میں ایسی جگہ بیٹھ گئی جہاں سے رن وے پر ایپرن (ایپرن اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جہاز کھڑا ہوتا ہے) تک دیکھ سکوں۔ سامنے پروازوں کی آمد کے الیکٹرانک بورڈ پر پان ایم کے طیارے کی آمد ساڑھے تین بجے تحریر تھی، ابھی آدھا گھنٹہ تھا اس لئے میں نے وقت گزاری کے لئے کافی منگالی اور رن وے پر نظریں جمائے ہوئے کافی کی چسکیاں لینے لگی۔
ٹھیک ساڑھے تین بجے پان ایم کا دیو ہیکل طیارہ رن وے پر اترا اور اتفاق سے ایسی جگہ آکر کھڑا ہوا جہاں مجھے جہاز سے اترتے ہوئے مسافر نظر آرہے تھے، میری نظریں فرسٹ کلاس کے گیٹ سے اترنے والوں پر جمی ہوئی تھیں اچانک وہاں سے ایک نو عمر لڑکی برآمد ہوئی اس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر سیڑھیاں اتر کر نیچے آنے لگی۔ نیچے فضائیہ کی گاڑی کھڑی تھی وہ اس میں سوار ہوگئی اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد گاڑی وی آئی پی لاونج کے گیٹ کے پاس آکر رک گئی۔ گاڑی کے رکتے ہی میں اپنی سیٹ سے اٹھی اور گیٹ کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی جیسے ہی وہ لڑکی اندر داخل ہوئی میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے ”وائی سی تھری“ کہا اور اس نے مسکرا کر میرا ہاتھ جوش محبت سے دبایا، میں اس کو لے کر اپنی سیٹ پر آگئی اب ہمیں اس کے سامان کا انتظار تھا میں نے اس سے کافی کا پوچھا اور اس کے اقرار پر بیرے کو کافی لانے کا اشارہ کیا، بیرا کافی لایا تو ٹرے میں ایک کاغذ بھی تھا جس پر تحریر تھا کہ ہماری گاڑی باہر تیار ہے۔ میں نے کاغذ دیکھ کر سر ہلاکر بیرے کو اشارہ کیا اور کافی کا کپ اٹھا کر لڑکی کے آگے رکھ دیا، کاغذ پر تحریر انگریزی میں تھی جس کو اس لڑکی نے بھی پڑھ لیا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی، ” تم نے اچھا انتظام کر رکھا ہے“ یہ سن کر میں نے کہا ، ’ ’یہ تو بہت معمولی چیزیں ہیں آگے دیکھنا کہ میں نے کیسے کیسے انتظام کر رکھے ہیں“
اس کے بعد وہ خاموشی سے کافی پینے لگی اس دوران اس کا سامان کسٹم کلیئرنس کے بعد آگیا تھا سامان کیا بس ایک اٹیچی تھا۔ کافی پی کر ہم اپنی جگہ سے اٹھ گئیں اور ایک پورٹر وہ اٹیچی اٹھا کر ہمارے پیچھے آنے لگا، باہر کالے رنگ کی مرسڈیز کھڑی تھی ہمیں دیکھتے ہی ڈرائیور نے اتر کر پچھلا دروازہ کھولا پہلے میں نے مہمان کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر خود اس کے برابر بیٹھ گئی، ڈرائیور نے ڈکی کھول کر اٹیچی اس میں رکھوایا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھادی۔
تقریبا آدھے گھٹنے بعد ہم کلفٹن روڈ پر ایک بنگلے میں داخل ہوئے یہ بنگلہ میرے لئے بھی نئی جگہ تھی، وہاں ہمارے استقبال کے لئے پہلے سے دو خواتین اور دو مرد حضرات موجود تھے جو شکل سے امریکی ہی محسوس ہورہے تھے۔ ہم ان کی رہنمائی میں عمارت میں داخل ہوئے اور ڈرائینگ روم میں جاکر بیٹھ گئے، اس کے بعد ہمارے میزبانوں نے پہلے ہمارے بیڈ روم دکھائے جو ساتھ ساتھ تھے اس کے بعد ہمیں کھانے کا پوچھا لیکن ہم دونوں نے ہی انکار کردیا اور چائے کے ساتھ کوئی لائٹ چیز لانے کو کہتے ہوئے اپنے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ چائے سے فارغ ہوکر میں مہمان کے بیڈ روم میں چلی گئی وہاں اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کا نام سونیا ہے، میں نے اپنا نام بتایا، تو سونیا نے پوچھا کہ شہباز خان سے میرا کیا رشتہ تھا؟ میں نے بتایا کہ وہ میرے چچا تھے، تو سونیا خوش ہوکر بولی، ” اوہ تو پھر تو تم جانتی ہوگی کہ شہباز خان ہمارا خاص آدمی تھاا ور اب اس کی جگہ تم ہماری نمائندگی کروگی“ میں نے ادب سے کہا کہ جیسے آپ کی مرضی میں کوشش کروں گی کہ آپ کے اعتماد پر پوری اتر سکوں“۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد سونیا نے اصل موضوع پر بات شروع کی اور کہنے لگی کہ” کراچی میں کچھ لوگوں کو خریدو جو مختلف مسلک کے لوگوں کو قتل کریں اور قتل کرتے وقت ان کے خلاف نعرے بازی کریں“ میں نے کہا، ” اگر مجھ سے کام لینا ہے تو اپنا مقصد بیان کیا کرو میں اندھا کام کبھی نہیں کرتی،تم مقصد بتاو پھر میں بتاوں گی کہ کام کیسے کرنا چاہئے“ میری بات سن کر سونیا کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ابھرے لیکن پھر وہ ایک دم سے نارمل ہوگئی اور کہنے لگی کہ” یہاں پر فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے ہیں“.... ” بس اتنی سی بات ہے تمہارا کام ہوجائے گا“ ....”مگر کیسے؟ کچھ بتاو تو سہی کہ کیسے کروگی؟“ میں نے کہا ”تم آم کھاو پیڑ نہ گنو، میں کیا کروں گی کیسے کروں گی یہ تمہارا درد سر نہیں ہے ہاں اگر تمہاری مقررہ مدت میں کام مکمل نہ ہو تو پھر پوچھنا کہ میری ناکامی کی
وجہ کیا ہے“ سونیا شائد ایسی باتوں کی عادی نہیں تھی، اچانک بیٹھے بیٹھے اس کی لات چلی اور سیدھی میرے چہرے کی جانب آئی میں پہلے سے اس آزمائش کے لئے تیار تھی بلکہ حیران ہورہی تھی کہ اب تک اس نے مجھے آزمایا کیوں نہیں، جیسے ہی اس کی لات حرکت میں آئی میںنے اپنا بازو اوپر اٹھایا اور اس کا پاوں اپنی بغل میں دبا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کھڑی کرکے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ” ننھی بچی اب اگر میرا ہاتھ تمہاری ٹانگ پر پڑگیا تو گھٹنے سے ٹانگ ٹوٹ جائے گی، تم خود کو زیادہ ہوشیار نہ سمجھو میں جو کہہ رہی ہوں اس پر عمل کرنا ہے تو ٹھیک نہیں تو میں چلی جاتی ہوں کسی اور سے کام کرالو، اور آئندہ اگر ایسی کوشش کی تو میں ہاتھ روکوں گی نہیں تمہاری ٹانگ کے دو ٹکڑے کردوں گی“ یہ کہہ کر میں نے جھٹکے سے اس کی ٹانگ چھوڑی اور وہ بیڈ سے نیچے گر گئی پھر اٹھتے ہوئے اس کی نگاہیں مجھ پر جمی تھیں میں سمجھ گئی کہ ابھی اس کی عقل ٹھکانے نہیں آئی وہ مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کرے گی۔ زمین سے اٹھتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ فرش پر رکھے اور اپنے دونوں پاوں کی کک میرے سینے پر مارنے کی کوشش کی میں بیڈ پر تقریبا لیٹ گئی اور اس کی بیک کک ہوا میں لہرا کر رہ گئی اس بار میں نے بھی جواب دیا اور جیسے ہی اس کی ٹانگیں فرش پر ٹکیں میںنے اپنی ایک ٹانگ کو حرکت دی لیکن وہ بھی ہوشیار تھی میری کک ٹھیک اسی جگہ فرش پر پڑی جہاں اس کی ٹانگ تھی جس کو وہ ہٹاچکی تھی اور اچھل کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اب وہ آگے کو جھک کر میری طرف بڑھ رہی تھی، میں سکون سے اپنی جگہ بیٹھی رہی اور اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی، ” اگر تمہاری کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تو بعد میں شکایت نہ کرنا اور یہ نہ کہنا کہ تم مجھے آزما رہی تھیں اب اگر تم نے مجھ پر حملہ کیا تو میں لحاظ نہیں کروں گی“
میری بات سن کر وہ رک گئی، چند لمحے مجھے گھورتی رہی پھر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی کہ میں نے لڑائی کا فن کس سے سیکھا ہے؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ” شہباز خان سے“۔ میری بات سن کر وہ اٹھ کر اپنے اٹیچی کی جانب بڑھی اور اس کا قفل کھول کر ڈھکنا اٹھانے ہی والی تھی کہ باہر سے گولی چلنے کی آواز آئی میں ایک دم بیڈ سے نیچے فرش آئی اور تیزی سے سونیا کوبھی دبوچتے ہوئے زمین پر لیٹ گئی، باہر گولیاں چلنے کی ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسے دو گروپوں میں لڑائی ہورہی ہو، ہم خاموش اپنی جگہ لیٹی رہیں البتہ ہم دونوں نے اپنے اپنے ریوالور اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے۔
جاری ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No Other website is allowed to upload Saat Rang Magazine,a copyright claim is already launched with a list of authorized websites, non compliance with this may harm any website ranking and penalty from Google or both.


No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.