٭٭٭چار دویوں کا قصہ ٭٭٭***Char Dawiyon Ka Qissa ***




٭٭٭     ٭٭٭چار دویوں کا قصہ
تحریر:غضنفر کاظمی

قسط نمبر:1

رات کسی کی گناہوں بھری زندگی کی طرح تاریک تھی، ہندی میں اس کو اماوس کی رات کہا جاتا ہے جب 
آخری تاریخوں کی رات ہوتی ہے، آسمان پر چاند کہیں نظر نہیں آتا، تاریکی اتنی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، ستم بالائے ستم کہ ایسی رات میں آسمان پر تاریک بادل چھائے ہوں، موسلا دھار بارش برس رہی ہو اور آدھی رات کا وقت ہو تو ایسے میں کچھ بھی نظر نہیں آتا، اس دن بستی کا ایسا ہی موسم تھا جب ایک ستم رسیدہ نوجوان لڑکی پھٹے پرانے لباس میں ٹھوکریں کھاتی لڑکھڑاتی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ راستہ کیچڑ سے بھرا ہوا تھا جو اس کے لباس ، پیروں اور ٹانگوں کو ویسے ہی گندا کررہا تھا جیسے حالات نے اس کی زندگی کو کیا ہوا تھا۔ اس کے چلنے کے انداز سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا بہت دور سے چلتی آرہی ہے اور حد سے زیادہ تھکی ہوئی ہے، وہ ڈولتی ڈالتی کسی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند آگے بڑھتی چلی جارہی تھی .... حتیٰ کہ بستی سے باہر نکل گئی، اب دائیں جانب جنگل کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، وہ آگے بڑھتی گئی۔ اتنے میں بجلی اتنی زور سے کڑکی کہ وہ لڑکھڑا گئی لیکن بجلی کی چمک میں اس کو جنگل میں ایک خود رو راستہ نظر آیا اور وہ گھبرائے ہوئے انداز میں پیچھے دیکھتی ہوئی اس راستے پر چل دی۔ نہ جانے کتنی دیر چلتی رہی، اور پھر ایک جگہ رک گئی اب اس کے لئے آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اچانک اس کے بدن میں خوف کی عجیب سے سنسناہٹ دوڑ گئی، کوئی زنانہ آواز اس سے پوچھ رہی تھی، کہ ” کون ہو اور کہاں جارہی ہو آگے راستہ نہیں ہے“۔ وہ خاموش کھڑی رہی ، اسی آواز نے پھر اپنا سوال دہرایا لیکن وہ اس بار بھی خاموش ہی رہی، پھر اس کو آواز سنائی دی کوئی لڑکی کسی دوسری سے چراغ روشن کرنے کو کہہ رہی تھی، پھر تھوڑی دیر بعد وہاں ایک ٹمٹماتے چراغ کی مدھم سی روشنی پھیل گئی اس نے دیکھا کہ اس کے برابر ایک جھونپڑی ہے جہاں تین لڑکیاں پہلے سے بیٹھی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک لڑکی نے اس کو جھونپڑی میں آنے کی دعوت دی .... لڑکیاں دیکھ کر اس کو یک گ ±ونہ تسکین ہوئی اور خوف میں کمی آگئی پھر جب دوبارہ اس کو اندر آنے کی دعوت ملی تو وہ شرماتی اور جھجکتی جھونپڑی میں چلی گئی اور ان کے برابر ہی ایک جگہ بیٹھ گئی۔
وہ ڈری ڈری سہمی سہمی اس انداز میں بیٹھی تھی جیسے کوئی کبوتری بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے خوفزدہ بیٹھی ہو، آخر کچھ دیر کے بعد اس کے ساتھ والی لڑکی بولی ،
تم کون ہو؟ کیا نام ہے؟ کہاں سے آرہی ہو؟
اس نے گھبراکر اس لڑکی کی جانب دیکھا اور پھر پہلے تھوک نگل کر اپنا گلا تر کیا ، خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولی،
جی میرا نام فرشتہ ہے ، میں قبائلی علاقے کے زرغام خان کی بیٹی ہوں، اور اپنی جان بچانے کے لئے فرار ہوکر یہاں تک پہنچی ہوں“....”تمہاری جان کو کس سے خطرہ ہے پوری بات بتاو“ اسی لڑکی نے پھر سوال کیا۔ اس پر فرشتہ چند لمحے سوچتی رہی پھر گویا ہوئی،
میرے والداپنے علاقے کے بہت بڑے رئیس تھے، ہمارے کئی پہاڑ تھے جن سے زمرد، یاقوت، مرجان اور تانبا نکلتا تھا، اس کے ساتھ ہی پہاڑوں میں میلوں پھیلے ہوئے جنگلات تھے جہاں چوبیس گھنٹے مزدور لکڑی کاٹتے رہتے بابا اس لکڑی کو شہر میں فروخت کردیتے تھے۔میری پیدائش پر بابا نے بہت خوشی منائی۔ میں نازو نعم میں پروان چڑھنے لگی۔ میرے بابا کی خواہش تھی کہ مجھے دنیا کے تمام علوم سکھائیں، جب میں چار برس کی تھی تو انہوں نے میرے لئے ایک ایسی استاد کا انتظام کیا جنہوں نے مجھے انگلش، فرنچ اور دنیا کی دیگر زبانیں سکھائیں، پھر میرے والد نے مجھے میری سیکھی ہوئی زبانوں میں شائع شدہ کتابیں لاکر دیں ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چین سے مارشل آرٹ کے ایک ماہر کو بلا کر مجھے مارشل آرٹ کی تربیت بھی دلانا شروع کی۔اس کے ساتھ میں گھڑ سواری، نیزہ بازی اور چھلانگیں لگانے میں بھی ماہر ہوگئی۔ جب میں چودہ برس کی ہوئی تو میری بدقسمتی کہ میرے بابا اور ماما گاڑی کے ایک حادثہ میں ہلاک ہوگئے اور بابا کی جاگیر پر میرے جرائم پیشہ چچا نے قبضہ کرلیا۔ چچا نے حویلی پر قبضہ کرتے ہی مجھے گھر سے نکال کر جنگل میں لکڑیاں کاٹنے پر لگادیا، وہ چاہتے تھے کہ میں زندگی کے کسی بھی حصے میں ان سے اپنی جاگیر کی واپسی کا تقاضا نہ کروں۔ اب جنگل میں بابا کے زمانے کے تمام مزدوروں کو نکال کرچچا نے اپنے مزدور بھرتی کرلئے تھے۔ چچا کی ہدایت پر سپروائزر نے مجھ سے دیگر مزدوروں سے زیادہ کام لینا شروع کردیا لیکن میں مارشل آرٹ، گھڑ سواری اور نیزہ بازی کی تربیت کی بنا پر جتنا بھی کام دیا جاتا وہ کرلیتی، مجھے سخت سردی میں بھی گرم لباس نہ دیا جاتا، چچا کی خواہش تھی کہ میں کام کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار جاوںلیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں چار سال تک جنگل میں کام کرتی رہی، اس مشقت سے میرا جسم فولادی ہوگیا اور اس دوران مجھ میں یہ تبدیلی آئی کہ مجھ سے جو بھی ذرا اونچے لہجے میں بات کرتا میں اس کو ختم کردیتی۔ ایک بار چچا نے سازش کے ذریعے اپنے چار کارندوں کو مجھے اغواکرکے آبرو ریزی کا فرض سونپا، وہ چاروں رات کی تاریکی میں جنگل میں میری جھونپڑی میں آئے لیکن اتفاق سے اس وقت میں بیدار تھی میں نے ان کو دیکھتے ہی کھڑے ہوکر ان پر حملہ کردیا اور چند ہی منٹ میں ان چاروں کو ختم کرکے پہاڑ سے نیچے پھینک دیا۔ بعد میں بھی چچا کے کارندے مجھے ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جو بھی آیا وہ خود جان کی بازی ہار گیا۔ 
جب میں اٹھارہ برس کی ہوئی تو میرے چچا نے ہمارے ایک خاندانی ملازم کے نوجوان بیٹے گل پندرہ خان سے میری شادی کا منصوبہ بنایا اور اس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنے کے بعد مجھے اس علاقے سے دور لے جائے ورنہ وہ مجھ سمیت اس کو اور اس کے پورے خاندان کو ختم کردیں گے۔ وہ ملازم نمک حلال تھا اس نے شادی پر ہاں کردی پھر میری شادی گل پندرہ خان سے ہوگئی وہ مجھے شادی کے فوری بعد اس علاقے سے لے کر شہر آگئے اور شہر آکر میرے قدموں میں گر کر اس گستاخی کی معافی مانگی کہ مجھ سے شادی کرنے پر حامی بھری تھی اور پھر انہوں نے مجھے طلاق دے کر کہا کہ وہ مجھے ظالم چچا کے چنگل سے نجات دلانا چاہتے تھے اب میں آزاد ہوں جہاں چاہوں چلی جاوں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے پچاس ہزار روپے بھی دئیے اور بتایا کہ یہ روپے ان کو چچا نے دئیے تھے تاکہ مجھے میرے علاقے سے کہیں دور لے جاکر نئے سرے سے زندگی شروع کرسکیں مجھے اپنے ملازم کی دیانت داری اور وفا داری پر بہت پیار آیا اور میں نے پچاس میں سے پچیس ہزار ان کو دیتے ہوئے کہا کہ اب ان کے لئے واپس علاقے میں جانا ممکن نہیں ہے لہذا وہ یہ رقم لے کر کہیں اور نئے سرے سے زندگی شروع کردیں۔ انہوں نے میری بات نہیں مانی اور یہ کہتے ہوئے رقم لینے اور کہیں جانے سے انکار کردیا کہ وہ مجھے تنہا کہیں نہیں جانے دیں گے بلکہ میرے محافظ کے طور پر میرے ساتھ ہی رہیں گے۔ مجھے ان کی ضد کے سامنے خاموش ہونا پڑا۔ پھر ہم وہاں سے بس میں بیٹھ کرلاہور آگئے لیکن لاہور میں رہنا بھی ہمارے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ چچا اکثر کاروباری سلسلے میں لاہور اور کراچی آتے جاتے رہتے تھے بہرحال ہم نے لاہور کے ریلوے سٹیشن پر کھانا کھایا اور پھر وہاں سے قصور چلے گئے لیکن شہر میں رہنا میں نے مناسب نہیں سمجھا اور قصور سے باہر نکل کر بھارت کی سرحد کے قریب ایک جھونپڑ پٹی میں اپنی جھونپڑی بنا لی اور اس میں رہنا شروع کردیا۔ وہاں کے مکینوں نے ہمیں بہت عزت دی اور خوشی سے اپنے ساتھ قبول کرلیا۔ اب ہم سکون کی زندگی بسر کررہے تھے۔ ایک روز رات کا آخری پہرتھا مجھے نیند نہیں آرہی تھی نہ جانے کیوں رہ رہ کر ماما اور بابا کی یاد ستا رہی تھی۔ جب میرا دل گھبرانے لگا تو میں جھونپڑی سے باہر نکل آئی، باہر گ ±ھور اندھیرا تھا میں خاموشی سے چلتی ایک درخت کے نیچے کھڑی ہوکر آسمان کی جانب دیکھنے اور اپنی قسمت پر غور کرنے لگی کہ قسمت نے مجھے کیا سے کیا بنادیا تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ درخت کے عقب سے مجھے سرگوشیوں کی آوازیں سنائی دیں میں پنجوں کے بل آہستہ روی سے چلتی اس جگہ کے قریب ہوگئی جہاں سے سرگوشیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک آواز کہہ رہی تھی کہ تم فکر نہ کرو یہ رپورٹ پوری ذمہ داری سے مارشل ایکس تک پہنچادو اس کے بدلے میں تمہارے حساب میں دس لاکھ روپے جمع کردئیے جائیں گے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے علم میں یہ کاغذات نہیں آنے چاہئیںاگر انہیں بھنک بھی مل گئی تو وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری ساری محنت پر بھی پانی پھر جائے گا، اگر سرحد پر سخت نگرانی نہ ہوتی تو میں خود یہ کاغذات بھارت لے جاتا لیکن اب یہ کام مارشل ایکس ہی کر سکتا ہے“۔
مارشل ایکس کہاں اور کیسے ملے گا؟“ دوسرے شخص نے سوال کیا۔
تم ٹرپل تھری پر کال کرکے کہنا کہ مارشل ایکس کے لئے س ±پر اے کا پیغام ہے، پھر جیسی ہدایات ملیں ان کے مطابق عمل کرنا.... بات سمجھ میں آگئی؟
جی ہاں میں سمجھ گیااب آپ بے فکر رہیں میں یہ ان تک پہنچادوں گا“ دوسری آواز نے کہا۔
ان کی باتیں سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے، پاکستان کی سرزمین میری ماں تھی اور اب دشمن میری ماں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ میں خاموش اپنی جگہ کھڑی رہی۔ جب وہ سائے ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو ان میں سے ایک بھارت کی سرحد کی جانب بڑھ گیا اور دوسرا شہر قصور کی جانب میں اس کے پیچھے چل پڑی اور ایک سنسان مقام پر عقب سے اس پر حملہ کرکے ختم کردیا اور اس کی تلاشی لی تو ایک لفافہ ملا جو سِیل کیا گیا تھا اور اس کی موٹائی بتارہی تھی کہ اس میں کافی کاغذات ہیں۔ میں نے لفافہ سنبھال کر اس کی لاش کو وہیں ایک گڑھے میں پھینک دیا اور خود واپس اپنی جھونپڑی میں آکر اپنی جگہ لیٹ گئی۔
صبح کو میں نے گ ±ل پندرہ خان سے کہا کہ مجھے خفیہ ایجنسی کے دفتر جانا ہے ، پہلے تو اس نے وجہ پوچھی لیکن پھر شائد اس کو اپنی حیثیت کا خیال آگیا کہ اب وہ میرا باڈی گارڈ ہے اور اسے وجہ پوچھنے کا حق نہیں ہے۔ لہذا وہ مجھے لے کر لاہور آیا اورہم خفیہ ایجنسی کے دفتر چلے گئے۔ وہاں میری ملاقات میجر زبیر نامی افسر سے ہوئی، میں نے ان کو لفافہ دیتے ہوئے پوری بات بتادی، وہ مجھے وہیں رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے لفافہ لے کر اندر کی جانب چلے گئے اور تقریباً دوگھنٹے بعد واپس آئے تو ان کے چہرے پر تفکر کی پرچھائیاں صاف نظر آرہی تھیں۔
دوسری قسط
کرسی پر بیٹھ کر چند لمحے وہ مجھے دیکھتے رہے پھر مجھ سے پوچھا کہ میں اپنے وطن کی خاطر کیا کرسکتی ہوں ؟ میں نے جواب دیا کہ وطن کی خاطر تو جان بھی حاضر ہے تو انہوں نے مجھے واپس جانے کا کہتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر ان کو میری ضرورت محسوس ہوئی تو مجھ سے امام نام کا ایک شخص ملاقات کرے گا وہ جو ہدایت دے مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے، میں نے حامی بھرلی اور پھر واپس اپنی جھونپڑی میں آگئی۔
دو روز گزر گئے لیکن مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا لیکن تیسرے روز میں جھونپڑی کے باہر دھوپ میں بیٹھی تھی کہ دور سے ایک جیپ آتی نظر آئی، میں اس کی جانب دیکھنے لگی تھوڑی دیر بعد جیپ میرے پاس آکر رکی اور اس میں سے ایک شخص باہر نکلا جو کافی جاذب نظر تھا اور چال ڈھال سے فوجی محسوس ہورہا تھااس نے میرے پاس آکر مجھ سے فرشتہ کے بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا کہ میں ہی ہوںیہ سن کر اس نے کہا کہ وہ امام ہے اورمیرے لئے میجر زبیر کا پیغام ہے، آپ ان سے اسی وقت ملیں، میں آپ کولینے آیا ہوں۔ یہ سن کر میں نے اس سے چند منٹ کی مہلت چاہی اور جھونپڑی میں جاکر لباس تبدیل کیا اور پھر گل پندرہ خان کو لے کر اس جیپ میں بیٹھ گئی ہمارے بیٹھتے ہی جیپ چل پڑی۔
راستہ خاموشی سے کٹا اور تقریباً ایک گھنٹے بعد میں میجر زبیر کے سامنے بیٹھی تھی۔ میجر نے مجھے کہا کہ اب میں اپنی رہائش تبدیل کرلوں، میرے یہ کہنے پر کہ میں شہر میں نہیں رہ سکتی مجھے جان کا خطرہ ہے، میجر نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ میری حفاظت کا پورا بندو بست کریں گے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے سرکاری رہائش ملے گی تو میں مان گئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ کاغذات جو میں نے ان کو دئیے تھے پاکستان کے دفاع کے لحاظ سے بہت اہم تھے اور اگر وہ دشمنوں کے ہاتھ لگ جاتے تو ہماری دفاعی تنصیبات اور ہوائی اڈے سب خطرے میں پڑ جاتے۔ یہ بتاتے ہوئے انہوں نے مجھے ویسا ہی لفافہ دیا جیسا میں نے ان کو دیا تھا اور لفافہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کو مارشل ایکس تک پہنچانا اب میری ذمہ داری ہے۔ یہ سن کر میں کچھ دیر خاموش رہی پھر کہا کہ مارشل ایکس کو کسی ایسے فون سے کال کروں گی جس نمبر کی شناخت نہ ہوسکے کہ کس کا ہے۔ اس پر میجر صاحب نے کہا کہ اس بارے میں فکر نہ کروں ان کے پاس ایسے بہت سے نمبر ہیں جن کا کہیں ریکارڈ نہیں ہے اور پھر وہ مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے سِیٹ سے اٹھ گئے میں بھی اٹھ کر ان کے ساتھ چلی، وہ کمرے سے باہر نکل کر ایک راہ داری میں چلتے ہوئے تہہ خانے میں ایک کمرے میں لے گئے، جو کسی کا آفس تھا وہاں میز پر دو ٹیلی فون رکھے تھے انہوں نے مجھ سے فون کرنے کو کہا، میں نے رسیور اٹھا کرٹرپل تھری پر کال کی، میرے نمبر ملاتے ہی میجر صاحب نے دوسرے فون کا رسیور اٹھا کرکان سے لگالیا، پہلے کچھ دیر تو رسیور میں ہوا کی سائیں سائیں گونجتی رہی پھر گھنٹی بجنے لگی اور دوسری ہی گھنٹی پر کسی نے دوسری جانب سے فون اٹھالیا اور مجھے کسی لڑکی کی نازک سی آواز سنائی دی.... ”ہیلو ہ ±و از دیئر“ (کون ہے )، میں نے یہ سن کر وہی جملہ دہرادیا کہ ”مارشل ایکس“ کے لئے ”سپر اے“ کا پیغام ہے، یہ سن کر دوسری جانب سے مجھے ہولڈ کرنے کو کہا اور پھر خاموشی چھاگئی تھوڑی دیر بعد دوسری جانب سے مردانہ آواز آئی، ” ہیلو تم کون ہو“.... اس سوال پر میں چکرا گئی .... میجر صاحب جو دوسرے فون پر ہماری گفتگو سن رہے تھے انہوں نے مجھے کچھ اشارہ کیا لیکن میں سمجھی نہیں کہ وہ کیا ہدایت دے رہے ہیں اس وقت اتنی مہلت نہیں تھی کہ میں سوچتی یا میجر صاحب سے وضاحت پوچھتی، میں نے اپنی سوچ کے مطابق جواب دیا کہ ”سپر ایکس کا حوالہ کافی نہیں ہے کیا؟“ اس پر دوسری جانب سے ایک ایڈریس بتاتے ہوئے پیغام وہاں پہنچانے کی ہدایت دے دی گئی، ا س کے بعد سلسلہ منقطع ہوگیا میں نے بھی رسیور رکھ دیا اور میجر صاحب نے رسیور رکھتے ہوئے مجھے توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ” ویری گڈ فرشتہ تمہارا ذہن ہنگامی حالت میں بہت تیز چلتا ہے تم نے زبردست جواب دیا“ میں نے اس تعریف پر مسکراکر شکریہ ادا کیا۔ پھر میجر صاحب نے کہا،” اب تم وہاں اکیلی نہیں جاوگی بلکہ میرے کچھ مسلح افراد تمہارے ساتھ جائیں گے“ یہ سن کر میں نے کہا، ” سر مسلح افراد کو دیکھ کر وہ لوگ ہوشیار نہ ہوجائیں اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے تو میرے خیال میںبہتر یہی ہے کہ میں گل پندرہ خان کے ساتھ اکیلی ہی جاوں“۔ میجر صاحب نے کہا،” اعتماد تو تم پر مجھے اتنا ہے جتنا خود پر کیونکہ تم نے ابھی تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ صرف وطن کی محبت میں کیا ہے اور ہمارے لئے وطن سے محبت کرنے والے ہی با اعتماد ہوتے ہیں، ٹھیک ہے تم جیسا چاہتی ہوویسے ہی کرو البتہ تم جاوگی ہماری گاڑی میں اس میں بہت سی خصوصیات ہیں اور ڈرائیور بھی ہمارا ہی ہوگا“ میں اس پر راضی ہوگئی تو وہ مجھے پھر اپنے دفتر میں لے گئے اور فون پر کسی کو گاڑی کے بارے میں ہدایت دی اور پھر اپنے اردلی کو چائے لانے کو کہا۔ جب تک ہم نے چائے پی اس وقت تک ان کو گاڑی کی تیاری کی خبر بھی مل گئی اور وہ مجھے دفتر کے باہر پارکنگ میں لائے جہاں ایک سیاہ رنگ کی سیڈان کھڑی تھی، پھر میجر صاحب نے خوشگوار انداز میں کامیابی کی دعائیں دیتے ہوئے ہمیں رخصت کیا اور میں گل پندرہ خان کے ساتھ گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی اور گاڑی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ ہمیں دیا جانے والا ایڈریس سیالکوٹ سے آگے ایک گاوں کا تھا۔ جب ہم مطلوبہ ایڈریس پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ وہ تو ایک پیر صاحب کا ڈیرہ تھا جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ جب میں گاڑی سے اتری تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر ہمارے آنے کا سبب پوچھا، پہلے تو میں خاموش رہی پھر آہستہ سے سرگوشی کے انداز میں ”مارشل ایکس“ کہا تو وہ مودبانہ انداز میں ہمیں ڈیرے کے اندر ایک کمرے میں لے گیا اور کہا کہ پیر صاحب ذرا مریدوں سے فارغ ہوجائیں تو آتے ہیں یہ کہہ کر وہ چلا گیا ہم وہیں بیٹھے رہے تھوڑی دیر میں ہمارے لئے کھانا آگیا، کھانے میں ب ±ھنے ہوئے تیتر اور تنوری روٹی تھی۔ ہم نے شکم سیر ہوکر کھانا کھایا، تیتر کا گوشت بہت ہی لذیز تھا، گل پندرہ خان تو ویسے بھی خوش خوراک تھا لیکن اس وقت میں نے بھی ضرورت سے زیادہ ہی کھالیا۔ کھانے کے بعد مجھ پر س ±ستی طاری ہونے لگی، آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں میں نے گ ±ل کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بھی بند ہورہی تھیں اور پھر اگلے ہی لمحے میں جہاں بیٹھی تھی وہیں گر کر بے ہوش ہوگئی۔
میں کتنی دیر بعد ہوش میں آئی اس کا اندازہ تو کوئی بھی بے ہوش ہونے والا شخص نہیں لگا سکتا، بہرحال ہوش میں آنے کے بعد کچھ دیر تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں پھر آہستہ آہستہ حواس بحال ہونے لگے تو احساس ہوا کہ میرے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں جبکہ پاوں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا میں کسی کمرے میں تھی لیکن یہ وہ کمرہ نہیں تھا جس میں بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا تھا، کھانے کا خیال آتے ہی مجھے یاد آیا کہ میرے ساتھ گل پندرہ خان بھی تھا تب میں نے کمرے میں نظر دوڑائی تو مجھے گل خان بھی ایک کونے میں پڑا نظر آیا میری طرح اس کے بھی ہاتھ پاوں پ ±شت پر بندھے تھے۔ میں کچھ دیر اسی طرح لیٹی اپنے حواس بحال کرتی رہی۔ بندھے ہاتھوں کو پیچھے سے سامنے لانا میرے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا مارشل آرٹ کی بنا پر مجھے اپنے بدن کو مختلف انداز میں موڑنا آگیا تھا میں نے لیٹے لیٹے پورے جسم کا وزن اپنے کاندھوں پر ڈالا اور کمر اور کولہوں کو زمین سے تھوڑا سا اونچا کیا اور بندھے ہاتھوں کو آہستہ آہستہ کھسکاتے ہوئے ٹانگوں سے گزارکر سامنے لے کے آئی، اس کام میں کافی طاقت صَرف ہوئی، میں چند لمحے لیٹی سانس لیتی رہی پھر دانتوں سے ہاتھوں پر بندھی رسی کھولنے کی کوشش کرتی رہی۔ تقریباً بیس منٹ بعد میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی، مسلسل بندھے رہنے کی وجہ سے خون کی گردش رکی ہوئی تھی جس بنا پر ہاتھوں میں سنسناہٹ ہورہی تھی میں کچھ چچدیر ہاتھوں کو ایک دوسرے سے ملتی رہی جب خون کی گردش بحال ہوئی اور ہاتھ کام کرنے کے قابل ہوئے تو پاوں کی رسی کھولی اور پھر جاکر گل خان کو بھی کھولا۔ کچھ دیر ہم وہیں خاموش بیٹھے رہے پھر گل خان نے اٹھ کر اس دروازے کی مضبوطی کو آزمایا جو اس کمرے میں واحد نکاس کا راستہ تھا اور بند تھا، وہ پیچھے ہٹا تو میں نے سوالیہ نظروں سے اس کا جانب دیکھا اس نے سر ہلاکر انکار کرتے ہوئے کہا کہ دروازہ بہت مضبوط ہے اور اگر ہم اس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو دشمن باخبر ہوجائیں گے۔ پھر ہم دروازے کے دائیں بائیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ کوئی آئے تو اس پر قابو پاکر یہاں سے نکلنے کی سبیل کی جائے ہمیں سہولت یہ حاصل تھی کہ آنے والا اس خیال سے بے فکری سے آتا کہ ہم دونوں بندھے ہوئے ہیں۔ کافی دیر گزر گئی لیکن کوئی نہیں آیا۔ کمرے میں بنے ہوئے واحد چھوٹے سے روشن دان سے ہمیں احساس ہوگیا کہ اب رات کی تاریکی چھانے لگی ہے۔
(جاری ہے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.