*Akhir Qun ?*


Image result for army images




آخر کیوں ؟
تحریر عنایہ گل نمرہ
گھڑی کی ٹک ٹک ماحول کو مزید پر اسرار بنا رہی تھی آدھی رات کا وقت تھا کئ گھنٹے گزر گئے تھے مگر مریم کے دل و دماغ پہ جیسے برف جمی تھی زخم اک بار پھر ہرے ہو گئے تھے ضبط جواب دے رہا تھا کیونکر نہ ہوتا ایسا پوری متاع حیات کل کائنات قربان کر بیٹھی تھی وہ اک عورت۔۔۔
آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے موبائیل سکرین آنسوؤں سے بھری تھی آنکھوں میں اداسیوں اور ویرانیوں کے ڈیرے تھے مریم کا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا  وہ پوچھنا چاہتی تھی ہاں وہ غدار ہیں ملک دشمن ہیں بجٹ خسارے کا باعث ہیں  ۔۔۔ جو غدار ہوتے وہ دھرتی پہ جان نہیں وارتے ۔۔۔
روزمرہ کے کاموں سے فراغت کے بعد مریم نے جونہی موبائیل اٹھایا فیسبک پہ کئ نوٹیفکیشنز سامنے تھے یونہی فیسبک کھول لی ایک پوسٹ پہ نظر جاتے ہی اس کی سانسیں بند ہونے لگی ۔۔۔
فوج ملک دشمن غدار کرپٹ بجٹ خسارے کا باعث ۔۔۔ اور مریم کا دماغ ان الفاظ کو پڑھ کر پھٹا جا رہا تھا وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ اگر خون کے اک قطرے کی بھی قیمت ادا ہوتی ہے تو وہ شہیدوں کے لواحقین لاکھوں کروڑوں دے کر اپنے پیاروں کو لے آتے واپس اگر یہ صرف پیسے کی خاطر ہے تو کوئی گھر بار اپنے پیاروں کو چھوڑ کر بارڈر پہ سینہ تان کہ نہ کھڑا ہوتا گر یہ پیسے کا لالچ ہے تو شہیدان وطن کے چہروں پہ اس قدر طمانیت نہ ہوتی ایسے کوئی جان نہ وار دیتا وطن عزیز پہ مگر نہیں اس نے یہ سب کہنا نہیں سہنا تھا اپنا کام جاری رکھنا تھا علی کے ساتھ کیا وعدہ نبھانا تھا اس نے بس اپنا مشن جاری رکھنا تھا صبر کے ساتھ کہ الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے انہی سوچوں میں گم بہتے آنسو لیے وہ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئ
۔۔۔۔۔
مریم کے والد سرکاری ملازمت کرتے تھے چار بیٹیوں کے ساتھ زندگی اچھی گزر بسر ہو رہی تھی ناصرصاحب نیک اور شریف النفس انسان تھے کبھی بیٹے کی چاہ نہ کی بیٹیوں کو ہی کل کائنات مانتے اور انکی اچھی تعلیم و تربیت پہ پوری توجہ مرکوز کر لی  علی کے ساتھ جان پہچان تب ہوئی جب علی نویں جماعت میں تھا علی کے والد آرمی آفیسر تھے انکی پوسٹنگ راولپنڈی ہوئی تو اپنے تینوں بچوں کو بھی ساتھ لے آئے جمال فوج میں صوبیدار کے عہدہ پر فائز تھے تین بچے دوبیٹیاں ایک پانچویں اور ایک دوسری جماعت کی طالبعلم ۔ جبکہ مریم چاروں بہنوں میں سب سے بڑی چھٹی جماعت  میں اس سے چھوٹی اریبہ تیسری عنابیہ پریپ جبکہ ننھی نیہا تین سال کی تھی ۔ علی کا گھر مریم کے پڑوس میں علی کو پہلے دن سے ہی سمجھدار سنجیدہ مزاج مریم بہت اچھی لگی دونوں میں اچھی دوستی بن گئ اکثر ہوم ورک میں علی مریم کی مدد کرتا دونوں ایک ہی سکول وین میں جاتے کتابوں کے شوقین  اپنے جیب خرچ کے لیے ملنے والی رقم بھی کتابوں پہ خرچ کرتے اور مل کر پڑھتے وقت یونہی گزرتا رہا مریم بی ایس فزکس کر رہی تھی جب علی کی فوج میں ملازمت ہو گی علی ٹریننگ کے سلسلے میں چلا گیا مریم کو سب کھویا کھویا سا لگتا ایک عجیب اداسی چھائی رہتی کسی چیزمیں دل نہ لگتا معلوم ہی نہ ہوا کیسے وہ دوستی محبت میں. بدلی ادراک تب ہوا جب دونوں کے درمیان میلوں دوری حائل تھی ادھر علی بھی ہر پل مریم کو یاد کرتا ۔۔۔
ٹریننگ کے دن پورے ہوئے علی گھر آیا تو مریم کے گھر ملنے بھی گیا گویا مریم کی پیاسی آنکھوں کو سکون ملا ان کہی باتوں میں بس اک نظر میں ہی تجدید وفا ہوا جیسے ۔۔۔
علی کی پوسٹنگ کوئٹہ ہو گی علی کے والد ریٹائر ہوئے تو اپنے آبائی گاؤں پشاور جانے کا ارادہ کیا علی کی ماں بیٹے کے سر پہ سہرا سجانے کے خواب دیکھتی رہتی ۔ اپنے گھر جا کر پہلے بیٹے کے سر پہ سہرا سجاؤں گی علی سے فون پہ یہ بات کی تو علی ٹال مٹول کرنے لگا ماں بیٹے کی اچھی دوستی بھی تھی ذرا کریدنے پہ علی نے مریم کا نام لیا تو جیسے صبوحی بیگم کے دل کی مراد پوری ہو گی دوسرے ہی دن فورا مریم کے گھر رشتہ لے پہنچی
کچھ دن میں مریم ایک سہانی شام علی کے سنگت رخصت ہو کر پشاور چلی گئ
۔۔۔
زندگی اک پھولوں کی حسیں رہگزر معلوم ہوتی اس قدر خوش قسمتی پہ مریم پھولے نہ سماتی ہر پل رب کی شکر گزار رہتی علی واپس ڈیوٹی پہ جا چکا تھا مریم کے لیے علی کی جدائی ناقابل برداشت لگتی ۔ علی ۔۔ جی ایک شام مریم نے کاسنی بیلوں سے لدے صحن میں بیٹھے میسج سینڈ کیا چند ہی سیکنڈ میں ریپلائی ا گیا علی کب آئیں گے اتنی لمبی جدائی نہیں برداشت ہوتی  چند ہی لمحوں میں علی کی کال آ گئ
  مریم تم اتنی کم ہمت تو نہیں کیوں رو رہی ۔۔ علی دل بہت گھبراتا ہے ملک کے حالات آپ پلیز مجھے ساتھ لے جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔ مریم جلد کوشش کرتا ہوں تم پریشان نہیں ہو اور میں تم سے جدا بھلا کب ہوں ہر پل ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہوں جانتی ہو یہ محبت پتوں کی سرسراہٹ کی طرح ہوا کی طرح یہ کبھی دکھائی نہیں دیتی بس محسوس کی جاتی ہے ہر پل ہمارے ساتھ ہوتی ہے تمہارے دل میں میری محبت ہے میں ہر پل تم سے دور ہو کر بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔ رات پھیلتی جا رہی تھی اور علی مریم ڈھیروں باتیں کیے جا رہے تھے ۔۔ ۔۔
کچھ دن بعد علی کو چھٹی ملی مریم کی گویا عید ہو گئی خوشی سے پھولے نہ سمائے مریم چلو واک کے لیے چلتے شام کے سائے گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے مریم اور علی چلتے چلتے کافی آگے نکل گے علی ہوں ہماری منزل پیچھے ہے اب واپس چلنا چاہیے ۔۔۔ پیچھے کیوں مریم میری منزل تو شہادت ہے دعا کرو رب نے جان دی ہے تو اسے کسی مقصد پہ قربان کروں مریم کے بڑھتے قدم رک گئے رک کیوں گی چلو ناں ۔۔۔ علی آج تو آپ نے یوں کہا آئندہ مت کہنا میں مر جاؤں گی نہیں مریم علی اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے بولا وعدہ کرو تم کبھی ہمت نہیں ہارو گی میرا مقصد وطن کی حفاظت ہے کبھی تم کمزور مت پڑنا تم کمزور پڑو گی تو میری ہمت کیسے جواں رہے گی اس وطن کی سر بلندی کے لیے ہم ہر حد سے گزر جائیں. گے کچھ بھی کریں گے وعدہ کرو ۔ ہاں علی میں وعدہ کرتی ہوں میں ثابت قدم رہوں گی مگر آپ کبھی یوں چھوڑ جانے کی بات نہیں کریں گے اچھا بابا نہیں کرتا مگر میری منزل کیا ہے تمہیں معلوم اس منزل پہ پہنچ کے بھی تمہارے ساتھ رہوں گا ہر پل ۔۔۔ علی۔۔۔۔ مریم نم آنکھیں کیے مسکرا کر رہ گئ بس ۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا مریم کو اللہ نے چاند سے بیٹے سے نوازا ملکی حالات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی علی کی تعیناتی بارڈر پر ہو گئ جانے سے پہلے ایک دن کے لیے گھر ایا اشعر علی اپنے ننھے شہزادے کا ماتھا چوما اور کہا بیٹا میری منزل شاید مجھے پکار رہی تم بھی اس منزل کے مسافر بننا میں ہر پل تم دونوں کے ساتھ ہوں گا مریم کچھ کہہ نہ سکی بس خاموش دیکھتی رہ گئ دوسرے دن علی چلا گیا بارڈر پر حالات خراب تر ہوتے چلے گئے مریم علی کی ماں بہنیں ہر پل ہر لمحہ دعائیں مانگتی اس وطن عزیز کی سلامتی کی ان محافظوں کی سلامتی کی جو اس وطن کی خاطر جانوں کے نذرانے دینے کو تیار تھے ۔۔۔
مریم اشعر علی کو سلا رہی تھی اچانک اک خوف کی لہر دل میں دوڑی سانسیں. رکتی محسوس ہوئیں اتنے میں فون کی چنگھاڑتی آواز سنائی دی علی کے والد نے فون اٹھایا جی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
بس یہی الفاظ ادا ہوئے اور کرسی پہ بیٹھ گئے جیسے کل کائنات لٹا آئے ہوں مریم علی کی ماں اور دونوں بہنیں بھاگتے آئے کیا ہوا ۔۔۔ علی کو اس کی منزل مل گئ ۔۔۔ الفاظ تھے یا گویا کسی نے بم پھوڑا تھا سماعتوں پہ سیسہ انڈیل دیا گیا آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے
علی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا مریم جیسے زندہ لاش تھی مگر اس نے ہمت کرنی تھی اپنے بیٹے اشعر کی خاطر علی سے کیا وعدہ نبھانے کی خاطر علی اک خوشبو کی مانند ہر پل اسے قریب محسوس ہوتا ۔۔۔
مریم نے جاب شروع کر دی اشعر علی اے پی ایس  اینڈ سی پشاور میں تعلیم حاصل کرنے لگا ۔۔۔ اس کی معصوم قلقاریاں گھر میں زندگی کا پتہ بتاتی ورنہ علی کے بعد اک سناتا گونجتا تھا وقت گزرتا گیا اشعر بھی فوج میں جانے کا شوقین ۔۔۔
وہ پندرہ دسمبر کی رات تھی ۔
اشعر بولا مما ۔ جی بیٹا یہ دہشت گرد بہت برے ہوتے ہیں ناں دیکھنا میں بڑا ہو کر فوج میں جاؤں گا ان سب کو مار دوں گا مما اگر میں بھی شہید ہو گیا میری قبر پہ بھی بابا کی طرح جھنڈا لگے گا ناں بیٹا آپ اس وطن کے محافظ بنو گے آپ ان سب  دشمنوں کو شکست دو گے آپ تو مما کے بہادر بیٹے ہو آپ کی مما دعا کریں گی اللہ آپ کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے اور آپ غازی بن کے لوٹو مما غازی کیا چھٹی جماعت کے طالبعلم اشعر نے معصومیت سے پوچھا اور ماں کے بولنے سے پہلے ہی بول اٹھا اچھا غازی جو میدان جنگ سے زندہ کامیاب ہو کر لوٹے گا جی انشاءاللہ بیٹا اب سو جاؤ سکول بھی جانا ہے صبح مما دل کر رہا بس آپ کو دیکھتا رہوں بیٹا پھر صبح لیٹ ہو جاؤ گے ہم جمعہ رات کو خوب باتیں کریں گے جاگتے رہیں گے کیوں کہ آگے آپکو دو چھٹیاں ہوں گی ۔۔۔ اس بات سے بے خبر ماں کہ اس سے پہلے ہی قیامت ٹوٹ پڑے گی اس کے لیے بیٹے کو سپنے دکھا رہی تھی ۔۔۔۔
وہ سولہ دسمبر کی صبح تھی حسب معمول ناشتہ کرکے اشعر گھر سے نکلنے لگا تو بار بار ماں کے گلے لگ جاتا مما آج آپ خود چھورنے جائیں. اشعر نے معصومیت سے فرمائش کی بیٹا کل وعدہ ہے اوکے مما ڈن جی بیٹا ڈن مریم جاب پر اور علی سکول کے لیے روانہ ہو گئے دس بجے کا وقت تھا مریم کے دل میں وہی خوف سرایت کرنے لگا جیسا علی کی شہادت پہ ہوا تھا وہ وسوسوں کو جھٹک کر کام پہ دھیان دیتی مگر کسی چیز میں دل نہ لگتا ساڑھے گیارہ بجے ایک ویسی ہی چنگھاڑتی ہوئی فون کال آئی اے پی ایس اینڈ سی پہ دہشتگردوں کا حملہ ہوا ہے سفاکیت اور بربریت کی انتہا ہے مریم دیوانہ وار سکول کی طرف بھاگی کولیگزنے گاڑی میں بٹھایا سکول لے کر گئے اک قیامت کا سماں تھا چیخ و پکار تھی آہ و بکا تھی کیسے نہ ہوتا سب کئ گودیں اجڑ گئی تھیں اشعر کے بارے میں کافی دیر بعد معلوم ہوا کہ وہ آڈیٹوریم میں موجود تھا زخمی یا شہید طلباء کے ساتھ ہسپتال لے جایا گیا ہسپتال میں بھی سماں قیامت سے کم نہ تھا ہر آتی جاتی ایمبولینس میں مریم اشعر کو ڈھونڈ تی ہر بچہ اسے اشعر لگتا ہاں وہ سب اپنے ہی تو تھے ننھے معصوم فرشتے آنکھوں میں سہانے مستقبل کا خواب سجائے گئے اور سفاکیت کا نشانہ بن گئے ۔۔ آخر اشعر مل ہی گیا مریم کو شدید زخمی حالت میں مریم سر سجدئے میں رکھے بس روئے جا رہی تھی ان بیٹوں کی زندگی و سلامتی مانگے جا رہی تھی مگر کسی پل کرب کم نہ ہو رہا تھا ہوتا بھی کیسے اکلوتا لخت جگر کل متاع حیات اس قدر بربریت کا نشانہ بنا تھا صرف ایک اشعر نہیں کئ اشعر تھے ہر بچہ اسے اپنا بیٹا لگ رہا تھا ساری رات یونہی روتے تڑپتے گزری مریم کے والدین اور بہنیں بھی اس کے پاس پہنچ چکے تھے اشعر کے دادا کی آنکھوں میں عجیب بے بسی تھی علی کی شہادت پہ صبر کر لیا مگر اکلوتے ہوتے کی یہ حالت  برداشت نہ ہو رہی تھی اشعر کو چھ گولیاں لگی تھیں آپریشن کر دیا گیا تھا مگر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اشعر ہوش میں نہ ا رہا تھا ۔۔۔اخر سترہ دسمبر کی اداس شام جب ہر طرف کہرام ہی کہرام مچا تھا اشعر کی روح بھی پرواز کر گئ۔۔۔۔
صبوحی بیگم کی آنکھ کھلی تو دیکھا لاؤنج کی لائیٹ آن تھی۔ وہ باہر نکلی تو مریم کو یوں زارو قطار روتے پایا خود بھی ماں تھیں سمجھ سکتی تھی اس پہ کیا بیت رہی مریم نے صرف بیٹا ہی نہیں اپنا سہاگ بھی اس دھرتی پہ وار دیا تھا ۔ صبوحی بیگم نم آنکھیں لیے مریم کے پاس بیٹھ گئیں مریم گویا سہارے کی تلاش میں تھی انکے گلے لگ کے زارو قطار رونے لگی صبوحی بیگم نے بھی آنسو بہانے دیے کہ کچھ تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جب خوب آنسو بہا چکی تو صبوحی بیگم نے آہستہ سے مریم کو خود سے الگ کیا کچن میں جا کر اس کے لیے پانی لے کر آئیں اسے پلایا حوصلہ دیا ۔ دونوں آنسو بہاتی ایک دوسرے سے غم بانٹتی رہیں مریم نے ساری بات ساس کے گوش گزار کی تو صبوحی بیگم بولی بیٹی نے رو کچھ ناقدرے لوگوں کی خاطر ہم اپنا کام نہیں چھوڑ سکتے ۔ بے حس و بے ضمیر لوگ ہیں جو ان قربانیوں کی قدر نہیں کرتے ورنہ ہم سے آ کے پوچھیں کیا بیت رہی مگر بیٹی ہم نے ایسے لوگوں سے الجھنا نہیں فائدہ فضول بحث کا بس اس وطن کے لیے کام کرتے رہیں گے یہ چند شر پسند عناصر کا گروپ ہے جو ایسی باتیں کرتا یہ لوگ نہ خود وطن کی خاطر کچھ کر سکتے نہ دوسروں کو کرتا دیکھ سکتے ۔۔ اٹھو فجر کی اذان ہو رہی ہے نماز پڑھ کر آرام کر لو صبح تم نے سکول بھی جانا ہے  اس ادارے کو تمہاری ضرورت ہے کیونکہ یہ سکول تم نے شہید شوہر اور بیٹے کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے غریب بچوں کی مفت تعلیم کے لیے شروع کیا اور اس سکول کا ہر بچہ تمہارا اشعر علی ہے ۔۔ جی امی ٹھیک کہہ رہیں آپ
وضو کر کے مریم جائے نماز بچھائے آنسو سے تر چہرہ لیے سر بسجود تھی اور ایک ہی دعا تھی یا رب مجھے ثابت قدم رکھ تیرہ مصلحتیں تو ہی جانے مجھے صبر دے اور ہمت دے میں بھی اس وطن کے کام ا سکوں کیوں کہ تو نے زندگی دی ہے میں تیرے بندوں کی خدمت میں صرف کرنا چاہتی
مریم نماز کے بعد بھی جائے نماز پہ بیٹھی رب سے دعائیں مانگے جا رہی تھی باہر نئ صبح کا سورج طلوع ہو رہا تھا اک نئ روشن صبح کی نوید لیے ۔۔۔۔
ختم شد


No comments

Featured Post

*** SAAT RANG MAGAZINE ***August-September 2022

  *** SAAT RANG MAGAZINE ***         ***AUGUST_SEPTEMBER 2022 *** *** Click Here to read online*** or ***Download PDF file *** ⇩⇩ SRM August...

Theme images by Cimmerian. Powered by Blogger.